قرآن چھوڑنے کے نقصانات

 

01.پستی میں گرنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ

(مسلم، کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به بَابُ فَضْلِ مَنْ يَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَيُعَلِّمُهُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِكْمَةً مِنْ فِقْهٍ، أَوْ غَيْرِهِ فَعَمِلَ بِهَا وَعَلَّمَهَا1897)

اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اونچا کردیتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچا گراتا ہے۔”

بقول اقبال

وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر

02.تنگ گزران اور قیامت کے دن اندھا کیا جانا

قرآن میں ایک جگہ پر قرآن مجید کو ذکر کہا گیا ہے

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر : 9)

بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس ذکر یعنی قرآن سے غفلت برتنے والوں کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے اور اسے روز قیامت اندھا کرکے اٹھایا جائے گا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (طه : 124)

اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا (طه : 125)

کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔

قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (طه : 126)

وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو توُ انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔

03.شیطان مسلط ہوجاتا ہے

قرآن سے غافل شخص شیطان کے کنٹرول میں دے دیا جاتا ہے پھر شیطان اسے گمراہ در گمراہ کرتا رہتا ہے

فرمایا

وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ (الزخرف : 36)

اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔

وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (الزخرف : 37)

اور بے شک وہ ضرور انھیں اصل راستے سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں ۔

04.قرآن کی نصیحت سے اعراض کرنے والوں کو جنگلی گدھوں سے تشبیہ دی گئی ہے

قرآن کو (التذکرہ) بھی کہا جاتا ہے

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

. كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذۡكِرَةٌ

فَمَنۡ شَآءَ ذَكَرَهٗ‌ۘ (عبس_11،12.)

ایسا ہرگز نہیں چاہیے، یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے۔

تو جو چاہے اسے قبول کرلے۔.

اسی تذکرہ یعنی قرآن سے اعراض کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ (المدثر : 49)

تو انھیں کیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں۔

كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ (المدثر : 50)

جیسے وہ سخت بدکنے والے گدھے ہیں۔

فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ (المدثر : 51)

جو شیر سے بھاگے ہیں۔

05.قرآن اپنے سے روگردانی کرنے والے کے خلاف حجت ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ (مسلم، كِتَابُ الطَّهَارَةِ،بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ،534)

اور قرآن آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف حجت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الجاثیہ :8)

جو اللہ کی آیات سنتا ہے، جبکہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر وہ تکبر کرتے ہوئے اڑا رہتا ہے، گویا اس نے وہ نہیں سنیں، سو اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دے۔

06.ایک منکر قرآن عیسائی کی سزا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ۔ پھر وہ اسلام میں داخل ہوگیا تھا ۔ اس نے سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہوکر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہوگئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کردیا ، جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے ۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کاکام ہے ۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑدیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے ۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی ۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے ۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کرکے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے ( بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے ) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی ( زمین پر ) ڈال دیا ۔

(بخاری، كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ3617)

07.قرآن چھوڑنے والوں سے اللہ تعالیٰ مواخذہ کریں گے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ (الحجر : 90)

(ایسے عذاب سے) جیسا ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا۔

الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ (الحجر : 91)

جنھوں نے کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا (کوئی مان لیا، کوئی نہ مانا)۔

فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (الحجر : 92)

سو تیرے رب کی قسم ہے! یقینا ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے۔

عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الحجر : 93)

اس کے بارے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔

اگرچہ ان آیات میں (قرآن) سے مراد پہلی آسمانی کتابیں ہیں کیونکہ پہلے انبیاء کی کتابوں کو بھی ’’قرآن‘‘ کہہ لیتے ہیں، اس لیے کہ وہ بھی پڑھی جاتی تھیں، گویا کتاب اور قرآن کا لفظ سب کے لیے ہے۔

مگر اس لفظی اشتراک بلکہ کلام اللہ ہونے کے لحاظ سے حقیقی اشتراک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو سزا پہلی آسمانی کتابوں کو چھوڑنے کی ہے وہی سزا آخری کتاب یعنی قرآن چھوڑنے کی بھی ہے

08.بعض کتاب چھوڑنے اور بعض ماننے والوں کی وعید

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرہ:85)

کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تو اس شخص کی جزا جو تم میں سے یہ کرے اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ ہرگز اس سے غافل نہیں جوتم کرتے ہو۔

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

افسوس ! اس وقت اکثر مسلمانوں کا حال بعینہ وہی ہو گیا ہے جو اہل کتاب کا تھا کہ انھوں نے اسلام کے اپنی مرضی کے چند احکام پر عمل کیا اور باقی کو بھلا دیا، مثلاً مسلمان خنزیر کا گوشت کھانا تو درکنار اس کا نام لینے سے بھی اجتناب کرتے ہیں، جب کہ سود اور جوئے (انشورنس وغیرہ) سے انھیں کچھ پرہیز نہیں، بلکہ ان کے کاروبار کی بنیاد ہی ان کاموں پر ہے۔ وہ قبلے کی طرف منہ کرکے پیشاب نہیں کرتے، مگر انھیں نماز سے کچھ سروکار نہیں۔ وہ جھٹکے والی مرغی (جسے شرعی طریقے سے حلال نہ کیا گیا ہو) کھانے سے یورپ اور امریکہ میں جا کر بھی اجتناب کرتے ہیں، مگر شراب اور حرام شباب سے انھیں پرہیز نہیں۔ وہ اپنے آپ کو امت مسلمہ کا فرد کہتے ہیں، پھر کفار کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں کو قتل اور ان کے گھروں اور شہروں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میں ذلت کی صورت میں تو صاف ظاہر ہے، رہا آخرت کا معاملہ تو کتاب کے بعض پر ایمان (یعنی اس پر عمل) اور بعض کے ساتھ کفر (یعنی اس کی مخالفت کرنا) اہلِ کتاب کو ”اَشَدِّ الْعَذَابِ“ سے نہیں بچا سکا تو موجودہ مسلمانوں کو اس سے کیسے بچائے گا؟

تفسیر القرآن الكريم

09.قرآن کے بغیر جنت کا پاسپورٹ، ویزہ اور ٹکٹ حاصل کرنا مشکل ہے

جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قرآن کا ایک نام تذکرہ بھی ہے

"تذکرہ” کئی معانی پر مشتمل ہے

تذکرہ دخول :داخلے کا ٹکٹ

تذکرہ مرور : پاسپورٹ

تذکرہ ھویہ : شناختی کارڈ

ا(لقاموس الوحید ص 572)

اس لحاظ سے قرآن کا یہ نام ایک شرعی اصل اور ضابطے کی طرف اشارہ ہے

جس طرح( التذکرہ )ٹکٹ کے بغیر گاڑی اور جہاز وغیرہ میں سفر نہیں ہو سکتا، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سزا کا مستحق ہے

اور ( التذکرہ )پاسپورٹ کے بغیر کسی ملک میں نہیں جایا جا سکتا، اگر کوئی جاتا ہے تو مستوجب سزا ہے

اور( التذکرہ )شناختی کارڈ کے بغیر کوئی دفتری کام نہیں ہوسکتا

اسی طرح( التذکرہ )یعنی قرآن کے بغیر جنت کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے نہ ہی جنت میں داخلہ مل سکتا ہے اور نہ ہی جنت کے حصول کی کوئی کوشش کامیاب بنائی جا سکتی ہے

بلکہ التذکرہ( قرآن )کو پس پشت ڈالنے والے مستوجب سزا ہونگے

قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے قرآن چھوڑنے والوں کی شکائت کریں گے

سورہ فرقان میں ہے

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ((الفرقان آیت 30))

اور رسول کہے گا اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا۔

استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

’’ قَوْمِي ‘‘ میں وہ تمام ایمان لانے والے بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی طرح بھی قرآن کو چھوڑا۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’قرآن کو سننے سے گریز، اس میں شور ڈالنا اور اس پر ایمان نہ لانا، اسے چھوڑنا ہے۔

اسی طرح بقدر ضرورت اس کا علم حاصل نہ کرنا اور اسے حفظ نہ کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔

اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز نہ آنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔

اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اختیار کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے، مثلاً گانے بجانے کو، عشقیہ اشعار کو، لوگوں کے اقوال و آراء کو اور ان کے بنائے ہوئے طریقوں کو قرآن پر ترجیح دینا اسے چھوڑنا ہے۔‘‘

11.سر پتھر سے کچلنا

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

أَمَّا الَّذِي يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفِضُهُ وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ

بخاري كِتَابُ التَّهَجُّدِ, بَابُ عَقْدِ الشَّيْطَانِ عَلَى قَافِيَةِ الرَّأْسِ إِذَا لَمْ يُصَلِّ بِاللَّيْلِ 1143

جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن لیتا تھا (یعنی اسے قرآن کے ساتھ وعظ و نصیحت کی جاتی تھی) مگر وہ قرآن سے غافل ہو گیا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔

قرآن چھوڑنے کی وجوہات

دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو قرآن سے ناواقف ہیں حتی کہ بے شمار لوگ ناظرہ قرآن بھی نہیں پڑھ سکتے اس غفلت اور لاپرواہی کی چند ایک وجوہات ہیں

01.قرآن مجید کو اس کے اصل مقاصد کی بجائے غیر اہم کاموں تک محدود کرنا

امت مسلمہ کے لیے قرآن، سب سے بڑی نعمت ہے اسے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے فضائل ہی فضائل ہیں اور اس کی تعلیمات دنیا و آخرت دونوں کے لیے مشعل راہ ہیں

مگر افسوس کہ عوام کے ہاں اس کا تصور کیا ہے؟

بس یہی کہ اسے پکڑنا ہے تو چومنا ہے

کھولتے وقت آنکھوں کو لگانا

اچھا سا غلاف پہنانا ہے

خوشبو لگانی ہے

کہیں اونچی جگہ رکھنے

بیٹی کو رخصت کرتے وقت اس کے سایے سے گزارنا

بیٹی کے جہیز میں دینا ہے

قسم اور گواہی کے وقت اس پر ہاتھ رکھنا ہے

تعویذ بنا کر گلے میں لٹکانا ہے

فوت ہونے والے کے سرہانے یس پڑھنی ہے

برائے ایصال ثواب قرآن خوانی کرنی ہے

افسوس کہ قوموں سے خطاب کرنے والی کتاب اور زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے والی کتاب فقط ایصال ثواب کا ذریعہ بن کر رہ گئی پھر پوچھتے ہیں زوال کیسے آیا؟

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں

آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں

تعویذ بنایا جاتا ہوں

دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں

جزدان حریر و ریشم کے

اور پھول ستارے چاندی کے

پھر عطر کی بارش ہوتی ہے

خوشبو میں بسایا جاتا ہوں

جیسے کسی طوطا و مینا کو

کچھ بول سکھائے جاتے ہیں

اس طرح پڑھایا جاتا ہوں

اس طرح سکھایا جاتا ہوں

جب قول و قسم لینے کے لئے

تکرار کی نوبت آتی ہے

پھر میری ضرورت پڑتی ہے

ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں

دل سوز سے خالی رہتے ہیں

آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی نہیں

کہنے کو میں اک اک جلسے

پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں

نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے

سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے

اک بار ہنسایا جاتا ہوں

سو بار رلایا جاتا ہوں

یہ میری عقیدت کے دعوے

قانون پہ راضی غیروں کے

یوں بھی مجھے رسوا کرتے

ہیں ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

کس بزم میں میرا ذکر نہیں،کس عرس میں میری دھوم نہیں

پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں

مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں

فطرت ہے کہ جس چیز کی جتنی قدر اور اہمیت معلوم ہوگی اس کے لیے اتنی ہی زیادہ محنت کی جاتی ہے

جیسے ایک کسان کو معلوم ہوتا ہے کہ میری فصل میرے لیے کتنی اہم ہے تو وہ اس کے لیے سردی کی ٹھنڈی راتوں میں بھی اٹھتا ہے اور گرمی کی چلاتی دھوپ میں بھی نکلتا ہے

02.قرآن اس لیے یاد نہیں کرتے کہ بھول گیا تو گناہ ہوگا

بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ جی چونکہ قرآن یاد کرکے بھول جائیں گے تو بہت گناہ ہوگا اس لیے ہم قرآن یاد ہی نہیں کرتے

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ

قرآن یاد کرنے کے بعد بھول جانے پر وعید کی کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تصنیف "تفسیر القرآن الكريم” میں چند ایسی روایات کا ضعیف ہونا واضح کیا ہے جن میں قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد بھول جانے پر وعید کا تذکرہ ہے :

01. مسند احمد (۵؍۲۸۵، ح : ۲۲۵۲۴) میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَمَا مِنْ رَجُلٍ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَنَسِيَهٗ إِلاَّ لَقِيَ اللّٰهَ يَوْمَ يَلْقَاهٗ وَهُوَ أَجْذَمُ ]

’’اور کوئی بھی شخص جو قرآن پڑھے پھر اسے بھول جائے وہ اللہ تعالیٰ سے جس دن ملے گا تو اس حال میں ملے گا کہ کوڑھی ہو گا۔‘‘

تبصرہ :

اس کی ایک سند میں عیسیٰ بن فائد مجہول راوی ہے، اس کا شیخ بھی مجہول ہے۔

دوسری سند میں بھی عیسیٰ بن فائد مجہول ہے۔

02.سنن ابو داؤد (۴۶۱) اور ترمذی (۲۹۱۶) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ عُرِضَتْ عَلَيَّ أَجُوْرُ أُمَّتِيْ حَتَّی الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوْبُ أُمَّتِيْ فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُوْرَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أُوْتِيَهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا ]

’’میرے سامنے میری امت کے اجر پیش کیے گئے، یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالے اور میرے سامنے میری امت کے گناہ پیش کیے گئے، تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی آدمی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت عطا کی گئی پھر اس نے اسے بھلا دیا۔‘‘

تبصرہ :

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ ابن جریج اور مطلب بن عبد اللہ دونوں مدلس ہیں اور اسے ’’عن‘‘ کے لفظ سے روایت کرتے ہیں اور بخاری اور ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ضعیف ابی داؤد (۷۱)۔

حافظ صاحب مزید لکھتے ہیں

ضعیف اور موضوع روایات نے امت کو کس قدر نقصان پہنچایا اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دیکھا کہ وہ ان روایات ہی کی وجہ سے قرآن حفظ کرنے سے محروم رہے، حالانکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جسے کسی مصروفیت یا بیماری یا غفلت کی وجہ سے قرآن بھول جائے وہ اس شخص سے ہزار گنا بہتر ہے جس نے قرآن پڑھا ہی نہیں، یا یاد ہی نہیں کیا، کیونکہ وہ اس سے تو ہر حال میں قرآن کا علم زیادہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اسے سب سے بڑے گناہ شرک کے قائم مقام قرار دینا یا کوڑھی ہونے کا باعث قرار دینا راویوں کی جہالت اور تدلیس ہی کا کارنامہ ہے۔

03. مشکل کتاب

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کتاب ہے یہ عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے اگر کوئی عامی اسے پڑھے گا تو بجائے مستفید ہونے کے العیاذ باللہ گمراہ ہوجائے گا

لھذا اسے صرف عالم لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں

حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی فضول قسم کی بات ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (القمر : 17)

اور بلا شبہ یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟

قرآن کتنی قدر آسان کتاب ہے اسے سمجھنے کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ قرآن نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کس قدر آسان آسان مثالیں بیان کی ہیں

أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (الغاشية : 17)

تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے۔

وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ (الغاشية : 18)

اور آسمان کی طرف کہ وہ کیسے بلند کیا گیا ۔

وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (الغاشية : 19)

اور پہاڑوں کی طرف کہ وہ کیسے نصب کیے گئے۔

وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ (الغاشية : 20)

اور زمین کی طرف کہ وہ کیسے بچھائی گئی۔

کون ہے جس نے کبھی اونٹ، آسمان، پہاڑ، زمین، چاند، سورج، ستارے، ہوائیں اور پانی نہ دیکھا ہو

ان مثالوں کو سمجھنے کے لیے کون سے فلسفے کی ضرورت ہے

پورے قرآن میں کوئی ایک آیت ایسی نہیں کہ جس کا تعلق انسان کی ھدائت سے ہو اور وہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہو

بعض مقامات واقعی مشکل ہیں لیکن کیا ان کا یہ مطلب ہے اب قرآن پڑھنا ہی چھوڑ دیا جائے

فزکس اور کیمسٹری کے بعض فارمولے جو مشکل ہوتے ہیں انہیں حل کیا جاتا ہے یا چھوڑ دیا جاتا ہے؟

04.فرقہ پرستی کی جکڑ بندی

مسلمانوں میں بہت سے لوگ وہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں، یہ بڑے بڑے عالم و فاضل لوگوں کا کام ہے، جو چودہ یا اکیس علوم پڑھے ہوئے ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ساری عمر متعدد مشکل سے مشکل علوم و فنون پڑھتے رہتے ہیں، مگر قرآن کے قریب نہیں جاتے، اپنے چودہ یا اکیس علوم پورے کرتے کرتے ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ کئی تو ایسے ظالم ہیں، جو کہتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے قرآن کا ترجمہ پڑھنا ممنوع ہے، کیونکہ اس سے گمراہی کا خطرہ ہے۔ حالانکہ قرآن مجید عربی مبین میں اترا اور لوگوں کی ہدایت کے لیے اترا، ہر عام و خاص اور عالم و جاہل عرب نے اسے سنا، سمجھا، اس پر عمل کیا اور آگے پہنچایا۔ ہماری زبان اردو میں قرآن مجید کے تقریباً ستر(۷۰) فیصد الفاظ موجود ہیں، تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ہر آدمی قرآن کا ترجمہ سمجھ سکتا ہے۔ مگر جن لوگوں نے قرآن و حدیث کے مقابلے میں نیا دین بنا لیا اور توحید کے مقابلے میں شرک اور سنت کے مقابلے میں بدعت کو اختیار کر لیا ہے، ان کی پوری کوشش ہے کہ لوگ اصل قرآن مجید اور حدیث سے آگاہ نہ ہو جائیں، ورنہ وہ ان کے پنجے سے نکل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور مسلمانوں کو قرآن و سنت کی طرف پلٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔

05.قوالی اور مختلف اذکار و وظائف

کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کا متبادل ڈھونڈ رکھا ہے اور وہ اسی پر خوش ہیں مختلف خود ساختہ وظائف میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ انہیں تلاوت قرآن کی فرصت ہی نہیں ملتی کسی کو کسی پیر صاحب نے کسی کو کسی گدی نشین نے کسی کو کسی عامل نے ایسے مشکل اور بھاری وظائف بتارکھے ہیں کہ وہ انہیں ہی پورا کرنے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں پانچ ہزار مرتبہ فلاں کلمات پڑھنے ہیں دس ہزار مرتبہ فلاں کلمات پڑھنے ہیں اور طرفہ تماشا یہ کہ ان میں سے اکثر و بیشتر کلمات ویسے ہی مسلمہ اسلامی عقائد کے خلاف ہوتے ہیں

اور اگر کوئی وظائف و اوراد کے چکروں سے بچا ہوا ہے تو اس نے مختلف قسم کی قوالیوں کو ہی حرف آخر سمجھ رکھا ہے صبح صبح اپنی دکان، گاڑی یا دفتر میں گھنٹہ، دو گھنٹے قوالی لگا کر چوبیس گھنٹے ہرقسم کی عبادت و تلاوت کا فرض کفایہ سمجھ کر اپنے تئیں خوش ہورہے ہوتے ہیں

06.والدین کی عدم توجھی

بہت سے لوگ قرآن مجید سے اس وجہ سے دور ہوتے ہیں کہ بچپن میں ان کے والدین نے اپنی جہالت یا کسی بھی وجہ سے انہیں قرآن پڑھایا نہیں ہوتا تو پھر وہ بے چارے بڑے ہو کر خود بھی پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ چلیں والدین سے اگر کوتاہی ہوگئی ہے تو اب ہم ہی اس کمی کو پورا کر لیں

یہاں والدین کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ بچے کا ذہن تو سفید کاغذ کی طرح ہوتا ہے اس پر جو چاہو نقش کرسکتے ہو

کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم کے لئے تو بہت کوشش کرتے ہیں مگر دینی تعلیم کا ایک فیصد بھی اھتمام نہیں کرتے

ایسے والدین درحقیقت اپنی اولاد کے خیر خواہ نہیں ہوتے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (الزمر : 15)

کہہ دے بے شک اصل خسارہ اٹھانے والے تو وہ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا۔ سن لو! یہی صریح خسارہ ہے۔

07.بڑھاپا

بعض لوگوں کا یہ بہت عذر ہوتا ہے کہ چونکہ اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں اب نہ تو ہمارے زہن وہ کام کرتے ہیں اور نہ ہی زبان پر الفاظ صحیح طرح جاری ہوتے ہیں

تو وہ یہ نظریہ بنا لیتے ہیں کہ اب قرآن پڑھنا یا سیکھنا ہمارے بس میں نہیں رہا

جبکہ یہ بات درست نہیں ہے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بڑی عمر میں اسلام میں داخل ہوئے پھر وہ ایسے چراغ بنے کہ دنیا کو روشن کرنے لگے

بندہ اپنی عمر کی جس سٹیج پر بھی ہو اسے قرآن سے تعلق نہیں توڑنا چاہیے

اگر قرآن کے الفاظ اس کی زبان پر جاری نہیں ہونگے اٹک اٹک کر پڑھے گا تو پھر بھی اسے اجر ملے گا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ (بخاری، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ سُورَةُ عبس4937)

اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے ، مکرم اور نیک لکھنے والے ( فرشتوں ) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے ۔ پھر بھی وہ اس کے لئے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا ۔

امام ابو حنیفہ کے شاگرد زفر بن ہذیل کا واقعہ

شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھا ہے کہ

‏أنّ زفر بن الهذيل [أكبر تلامذ أبي حنيفة]

‏حفظ القرآن في آخر سَنَتَين مِن عمره،

‏فرُئِيَ بعد موته في المنام،

‏فسُئل: ما حالك؟ فقال:

‏لولا السّنتَين لَهَلَك زفر!! ".

‏[شرح مسند أبي حنيفة (١/٤٥)

زفر بن ہذیل امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں قرآن مجید حفظ کیا تھا

ان کی موت کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا

ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا کیا حال ہے

تو انہوں نے کہا

اگر میری زندگی کے آخری دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا

امام کسائی رحمہ اللہ چالیس سال کی عمر میں قرآن کا علم حاصل کرتے ہیں

‏ الإمام الكسائي رحمه الله

‏ كان راعياً للغنم حتى بلغ ٤٠ عاماً وفى يوم من الأيام وهو يسير رأى أمّا تحث ابنها على الذهاب إلى الحلقة لحفظ القرآن

‏والولد لا يريد الذهاب

امام کِسائی رحمہ اللہ بکریوں کے چرواہے تھے حتی کہ چالیس سال عمر ہوگئ ایک دن چل رہے تھے کہ انہوں نے ایک ماں کو دیکھا جو اپنے بیٹے کو حفظ قرآن کی کلاس میں جانے کا کہہ رہی تھی جبکہ بیٹا کلاس میں جانا نہیں چاہتا تھا

‏فقالت لابنها : يا بني اذهب إلى الحلقة لتتعلم حتى إذا كبرت لا تكون مثل هذا الراعي !!

‏تو اس عورت نے اپنے بیٹے سے کہا :اے میرے بیٹے کلاس میں علم حاصل کرنے کے لیے چلا جا تاکہ جب تو بڑا ہوجائے تو اس چرواہے کی طرح نہ بنے

‏فقال الكسائى : أنا يضرب بى المثل في الجهل

‏فذهب فباع غنماته وانطلق إلى التعلم وتحصيله فأصبح:

‏إماماً فى اللغة

‏إماما فى القراءات

‏ويضرب به المثل في العلم وكبر الهمة

امام کِسائی نے( دل میں) کہا کہ میں تو جہالت میں ضرب المثل بن گیا ہوں پھر انہوں نے اپنی بکریاں بیچ دیں اور علم حاصل کرنے چل پڑے چنانچہ وہ لغت اور قرأت کے ایسے امام بن گئے کہ علم اور بلند ہمتی میں ان کی مثال دی جانے لگی

(الجواهر و الدرر لابن حجر)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وفات تک لکھتے رہے

‏قال عبدالله بن أحمد بن حنبل:

"ما زال القلم في يد أبي حتى مات”. [الكفاية، ص187].

آپ کے بیٹے عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں

"قلم، ہمیشہ میرے باپ کے ہاتھ میں ہی رہی یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے "

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ

صحابیِ رسول حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ساداتِ قریش میں سے تھے اور آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس علم حاصل کیا کرتے تھے

باوجود اس بات کے کہ وہ معاذ سے پچاس سال بڑے تھے

ان سے کہا گیا کہ آپ اس لڑکے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں

تو انہوں نے فرمایا

إنما أهلكنا التكبر الآداب الشرعية لابن مفلح ٢/٢١٥

(اس میں حرج ہی کیا ہے) ہمیں تکبر نے ہلاک کردیا ہے

بوڑھے ہوگئے ہیں تو پھر کیا ہوا بڑھاپے میں جنت کے راستے پر چلیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ

(مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ6853)

اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے

08.عصری نظام تعلیم

ہمارے عصری نظام تعلیم نے بھی لوگوں کو قرآن و حدیث کے علم سے دور کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے

کتنے زہین بچے ہیں جو انگلش پر اپنی صلاحیتیں اور وقت صرف کررہے ہیں اور ڈگریوں کی چکاچوندھ میں ایسے دھندیا گئے ہیں کہ اور کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا

اللہ تعالیٰ بھلا کرے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کا جنہوں نے تعلیمی اداروں میں ترجمہ و ناظرہ قرآن لازم کردیا ہے اور یہ بھی ابھی سو میں سے دس فیصد کام ہوا ہے جبکہ اس حوالے سے نوے فیصد کام ابھی باقی ہے

ورنہ پہلے تو بس سرسری سی اسلامیات پڑھا کر فرض ادا کر دیا جاتا تھا

گلا تو گھونٹ دیا اھل مدرسہ نے تیرا

کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

09.موبائل-فون

موبائل سے پہلے لوگوں کی روٹین کیا تھی صبح صبح ہر گھر میں قرآن کی تلاوت ہوتی تھی رات کو لوگ سورہ ملک وغیرہ پڑھ کر سوتے تھے

مگر جب سے موبائل-فون عام ہوئے ہیں تب سے اس کے غیر معتدل اور بے جا استعمال نے لوگوں کو قرآن سے بہت دور کردیا ہے اب وہ بہت سے لوگ جو کبھی قرآن کو وقت دیا کرتے تھے ان کا وہی وقت موبائل میں گزرتا ہے

ائمہ وعلماء سے رویہ

قرآن پڑھنے سیکھنے اور آگے پڑھانے والے عمل کے تمام تر فضائل سے واقفیت کے باوجود لوگ اپنے بچوں کو اس فیلڈ میں اس لیے نہیں لے کر آتے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں پہلے سے مشغول افراد کے ساتھ معاشرے کا رویہ کیسا ہے

اوروں سے کیا شکوہ کریں

مساجد و مدارس کے منتظمین اور ذمہ داران بھی اس ظلم ڈھانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں الا ما رحم ربی

مسجد کی تعمیر و تزیین پر کروڑوں روپے لگادیتے ہیں مگر مسجد کے امام یا خطیب کو پندرہ بیس سے زیادہ تنخواہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے

مسجد کا مینار بنائیں گے تو چالیس پچاس لاکھ روپے صرف مینار پر لگا دیں گے، بہترین اور مہنگا ترین اے سی سسٹم نصب کریں گے کہ گرمیوں میں بھی سردی لگنا شروع ہو جائے، ہر سال مسجد کا قالین تبدیل کریں گے دوسرے تیسرے سال ٹائل تبدیل ہوگی اور بہت سے فضول اخراجات کرتے رہیں گے مزید یہ کہ بیک وقت مسجد کے اکاؤنٹ میں دس، بارہ لاکھ روپے رقم بھی پڑی ہوگی مگر جیسے ہی مسجد کے امام و خطیب کی تنخواہ بڑھانے کی بات آئے گی تو غش کھا کر زمین پر گر جائیں گے

میں ایک ایسے خطیب اور امام کو بھی جانتا ہوں جس نے ستائیس سال ایک مسجد میں خطبہ جمعہ دیا اور لوگوں کے بچوں کو ناظرہ قرآن وغیرہ پڑھاتا رہا ستائیس سالوں میں ایک نسل پل کر جوان ہوجاتی ہے مگر اتنا لمبا عرصہ خدمت والے کو محض اس لیے نکال دیا گیا کہ اس نے منتظمین کی محبوب سیاسی پارٹی پر خطبہ جمعہ میں کچھ تنقید کردی تھی

جب لوگ مساجد کے ائمہ و خطباء کے ساتھ یہ رویہ دیکھتے ہیں تو پھر اپنے بچوں کو اس میدان میں اترنے نہیں دیتے

حالانکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں

سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ»

قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟

قَالَ: «هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ، أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ»

(ابن ماجہ، كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ215)

’’ لوگوں میں سے کچھ افراد اللہ والے ہوتے ہیں۔‘‘

صحابہ کرام نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟

فرمایا:

’’ قرآن والے ،وہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘

اور ان کی عزت کرنا اللہ تعالیٰ کی عزت کرنے سے ہے

سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ (ابو داؤد كِتَابُ الْأَدَبِ،بَابٌ فِي تَنْزِيلِ النَّاسِ مَنَازِلَهُمْ4843)

دیکھئے صحیح الجامع ، حدیث 2095

” بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے ۔ “