قرآن کے حیرت انگیز اور معجزاتی پہلو

یہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 23 ہے

اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے معاندین اور مخالفین کو کھلا چیلنج ہے فرمایا :

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (البقرة : 23)

اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آئو اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔

چیلنج کے اوپر چیلنج

اللہ تعالیٰ نے صرف اس جیسی سورۃ لانے کا ہی نہیں کہا بلکہ مزید یہ بھی فرمایا کہ اگر تم آج نہیں لا سکے تو یاد رکھو قیامت تک بھی نہیں لا سکو گے

فرمایا :

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (البقرة : 24)

پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کرو گے تو اس آگ سے بچ جائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔

چینلج میں جنات کو بھی شامل کردیا

فرمایا :

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (الإسراء : 88)

کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔

چیلنج کا شاندار پہلو

حیران کن بات یہ ہے کہ قرآن کی سب سے چھوٹی سورۃ "الکوثر” ہے جو کہ صرف 3 آیات پر مشتمل ہے گویا چیلنج یہ تھا کہ 3 آیات پر مشتمل کوئی سورۃ بنا لاؤ

مقامِ حیرت

اس وقت اہل عرب میں ادب و لغت کا ایسا غلغلہ تھا کہ شاعری کے مقابلے ہوا کرتے تھے

امرء القیس، عنترہ اور زہیر جیسے نامور شعراء کی بلاغت ابھی تازہ دم تھی

بھلا وہ عرب لوگ جو اپنی فصاحت پر بے حد اِتراتے اور نازاں تھے ان کے لیے تین آیات بنانا کیا مشکل تھا؟

جو، بڑے بڑے قصیدے اور معلقات لکھ سکتے تھے وہ تین جملوں کی ایک عبارت بنانے سے کیوں عاجز آگئے؟

اور پھر وہ لوگ اسلام کی دشمنی میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور یقیناً اس حوالے سے بھی انہوں نے ضرور بہت کوشش کی ہوگی کہ کوئی عبارت بنا کر قرآن کے اس چیلنج کا جواب دے کر اسے جھوٹا ثابت کیا جائے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ایسا نہ کرسکے

مزید حیران کن بات

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو کہ اس وقت تعلیم و تعلم کا اتنا رواج نہیں تھا جہالت کا غلبہ تھا تو وہ اجڈ لوگ کیسے اس چیلنج کو پورا کرتے

مگر

یہ خیال اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ 14 سو سال کا لمبا عرصہ گزر گیا ہے اس دوران بڑے بڑے غیر مسلم عربی دان گزرے ہیں اور آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مصر، یمن، فلسطین، شام کے علاقوں میں عربی زبان پر عبور رکھنے والے لاکھوں غیر مسلم تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں

مگر

پھر بھی یہ چیلنج جوں کا توں برقرار ہے اور اسے توڑا نہ جا سکا

اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ یہ منزل من اللہ ہے

لیکن

پھر اس کا مصنف بھی نہیں بتاتے

اگر کہتے ہیں کہ اس کا مصنف کوئی انسان ہی ہے تو پھر سوال ہوتا ہے کہ تم بھی تو انسان ہی ہو تم بھی اس جیسی کوئی کتاب بنا کر پیش کرو

وہ کوئی انوکھا انسان تھا کہ نہ اس سے پہلے اس جیسا کوئی پیدا ہوا اور نہ ہی اس کے بعد

گر ہم آج سے چودہ سو سال پہلے کی دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم پائیں گے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ متمدن معاشروں کو بھی مناطق زمنیہ یا بالفاظ دیگر ٹائم زون (Time Zone) کے متعلق کچھ خبر نہ تھی۔ لیکن قرآن کریم اس ضمن میں جو اظہار خیال کرتا ہے وہ انتہائی حد تک حیرت انگیز ہے۔ یہ تصور کہ ایک خاندان کے بعض افراد کسی ملک میں صبح کا ناشتہ تناول فرما رہے ہوں، دریں اثناء اسی خاندان کے بعض دوسرے افراد کسی دوسرے ملک میں ڈنر ٹیبل پر تشریف رکھتے ہوں، اپنے آپ میں بڑا تعجب خیز ہے اور آج بھی اس کو عجوبہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کا انسان اپنے کمزور وسائل سفر کے باعث اس قابل نہیں ہوسکا تھا کہ عام حالات میں وہ ایک دن میں تیس میل سے زیادہ مسافت طے کرسکے۔ مثال کے طور پر صرف ہندستان سے مراکش کا سفر کئی مہینوں میں ہوتا تھا اور گمان غالب یہی ہے کہ مراکش میں موجود ہندستانی مسافر دوپہر کا کھانا تناول کرتے ہوئے یہی خیال کرتے ہوں گے کہ ہندستان میں ان کے اہل خانہ بھی اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔

قرآن حکیم چوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جس کا علم مطلق ہے اور جس سے کائنات کی کوئی حقیقت پوشیدہ نہیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم جب قیامت کی بات کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے واقع ہوگا :

وَمَآاۂ مْرُالسَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِأَوْھُوَ أَقْرَبُ۔ (النحل: ۷۷)

’’اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بل کہ اس سے بھی کچھ کم‘‘۔

تو وہ کہتا ہے کہ یہ قیامت بعض لوگوں کو دن میں آلے گی اور بعضوں کو رات میں آ دبوچے گی:

أَفَاۂ مِنَ أَھْلُ الْقُرَیٰ أَنْ یَأتِیْہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتاً وَّہُمْ نَآئِمُوْنَ۔ أَوْأَمِنَ أَھْلُ الْقُرَیٰ أَنْ یّأْتِیَہُمْ بِأْسُنَا ضُحیً وَّہُمْ یَلْعَبُوْنَ۔أَفَأَمِنُوْا مَکْرَاللّٰہِ فَلاَ یَأْمَنُ مَکْرُاللّٰہِ اِلّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ۔ (الاعراف: ۹۷۔۹۹)

’’کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آ جائے جب وہ سوتے پڑے ہوں ؟یا انھیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں ؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ؟ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔

ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وقت کے مختلف مناطق کا علم کائنات کے خالق کے کلام میں موجود ہے، جب کہ یہ معلومات چودہ صدیوں پہلے کسی کے حیطۂ خیال میں نہیں تھیں۔ ٹائم زون کی آفاقی سچائی، قدیم انسان کی نظروں سے اوجھل اوراس کے تجربات کے دائرے سے خارج تھی اور تنہا یہ حقیقت قرآن کو منزل من اللہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

لَتَجِدَنَّ اۂ شَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْالْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْلَّذیْنَ قَالُوْااِنَّا نَصَارٰی۔(المائدہ:۸۲)

اس آیت کے ذریعے یہودیوں کے ہاتھ اسلام کے ابطال اور قرآن حکیم کو غیر منزل من اللہ ثابت کرنے کا ایک سنہرا موقع میسر آ گیا ہے۔ ان کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر اتفاق کر کے چند برسوں کے لیے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کر لیں کیوں کہ اس کے بعد وہ ببانگ دہل اعلان کرسکتے ہیں کہ اب تمہارا مقدس قرآن حکیم

ابو لہب کی کہانی

أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً (النساء :۸۲)

یہ قرآن کا سیدھا اور کھلا چیلنج ہے۔ یہ اصلاً منکرین کو سیدھی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس میں کوئی خطا یا غلطی نکال کر دکھائیں۔ اس نوعیت کی دعوتِ مبارزت دینا کسی انسان کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔دنیا میں کوئی آخری درجہ کا عالم و فاضل شخص بھی اس بات کی جرأت نہیں کر سکتا کہ امتحان گاہ سے اٹھتے ہوئے اپنی کاپی کے پہلے صفحے پر یہ نوٹ آویزاں کر دے کہ اس کاپی میں مندرج جملہ جوابات درست ہیں اور اگر کسی جانچنے والے کو اپنی قابلیت کا غرہ ہو تو اس دعوے کو غلط ثابت کر کے دکھائے۔ایسا کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر کوئی بھی ممتحن اس میں غلطی کو ڈھونڈے بغیر ساری رات سو نہ سکے گا۔ لیکن یقین جانئے کہ قرآن اپنا پہلا تعارف اسی حیثیت سے کراتا ہے

اب سے کچھ سال پہلے ہم نے ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant) کا قصہ سنا۔ اس تاجر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر میں گزارا تھا، کسی مسلمان ساتھی نے اس کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔اس جہاز راں تاجر کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے کچھ واقفیت نہ تھی، لیکن اس کو یہ ترجمہ بہت پسند آیا۔ قرآن لوٹاتے ہوئے اس نے مسلمان دوست سے پوچھا :یہ محمد کوئی جہاز راں تھے؟گویااس کو قرآن کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سمندر اور اس کے طوفانی حالات سے متعلق قرآن کا سچا اور باریک بیں تبصرہ اور مسلمان کا یہ بتا دینا کہ’‘‘‘ در حقیقت محمدﷺ ایک صحرا نشیں انسان تھے‘‘اس تاجر کے اسلام لانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس جہاز راں کا بیان تھا کہ وہ بذاتِ خود اپنی زندگی میں بارہا سمندر کے نامساعد حالات کا سامنا کر چکا ہے اور اسے کا مل یقین ہے کہ قرآن میں مذکور سمندر کے طوفانی حالات کی منظر کشی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہو۔ ورنہ ان حالات کا ایساخاکہ کھینچنا انسانی تخیل کے بس کی بات نہیں :

أَوْکَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌج مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا (النور: ۴۰)

‘‘ پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اُس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔’’

مذکور بالا قرآنی نقشہ کسی ایسے ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتا جو عملی طور پر ان حالات کو برت نہ چکا ہو اور جس کو تجربہ نہ ہو کہ سمندری طوفان کے گرداب میں پھنسے انسانوں کے احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن کو کسی خاص زمانہ یا مقام سے مقید و مربوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس کے علمی مضامین اور آفاقی سچائیاں چودہ سو سال پہلے کے کسی صحرا نشیں ذہن کی تخلیق ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔

علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں : اُنزلَ أشرفُ الکُتب باَشرف اللُّغات علی اَشرف الرُّسل بسَفارتِ أَشرفِ الملائکۃِ وکان ذلکَ فی أشرفِ بِقاعِ الأَرض واُبتدیٔ انزالُہ فی أشرفِ شہورِ السَّنۃ وہو رمضان فکمُل من کلِّ الوجوہ۔ (ابن کثیر: سورہ یوسف:۲)

یعنی قرآن میں شرافت کی سب جہتیں جمع ہوگئی ہیں : کتاب بہترین، زبان سب سے اشرف عربی، رسول سب سے اشرف نبی آخرالزماں ﷺ، بیچ میں واسطہ سب سے اشرف فرشتہ جبرئیل، نزول کی ابتداء ہوئی سب سے بہترین زمین کے ٹکڑے مکہ مکرمہ میں اور بہترین ماہ رمضان میں ۔۔۔۔ لیلۃ القدر میں قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا پھر بتدریج ۲۳ سال میں پیغمبر پر اترا، نیز اسی شب میں پیغمبر پر اس کے نزول کی ابتداء ہوئی

صاحت وبلاغت

علامہ طنطاویؒ نے اپنی تفسیر’’الجواہر فی تفسیر القرآن‘‘ میں اپنے دوست کا ایک واقعہ نقل کیا ہے ان کے دوست نے فرمایا کہ میں جرمنی میں تھا، وہاں کے چند عربی علوم سے دلچسپی رکھنے والے فضلاء کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ان میں سے ایک نے پوچھا کیا تم بھی عام مسلمانوں کی طرح قرآن کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہو کہ قرآن عربیت وفصاحت وبلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہے؟ میں نے کہا ہاں میں ایمان رکھتا ہوں اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ یہ تو ایک علمی مسئلہ ہے اس کا امتحان ابھی ہوسکتا ہے میں ایک بات کہتاہوں آپ اس کو فصیح عربی میں ادا کریں ، وہ یہ ہے: جہنم بے حد وسیع ہے، ان سب نے مل کر ۱۵-۲۰ جملے بنائے مثلاً ان جہنم لوسیعۃ، ان جہنم لاوسع مما تظنون، ان سعۃ جہنم لا یتصورہا عقل انسان، کل ما خطر ببالک فی سعۃ جہنم فانہا لارحب منہ واوسع وغیرہ، میں نے کہا اور محنت کیجیے، انھوں نے کہا ہم اپنی محنت اور فکر ختم کرچکے، میں نے کہا قرآن نے جو بیان کیا ہے اس کو سنیے: یوم نقول لجہنم ہل امتلئت وتقول ہل من مزید (ق:۳۰) چونکہ وہ عربی داں تھے، اچھل پڑے اور اپنی رانوں پر ہاتھ دے مارے اور اقرار کیا کہ ہم عاجز رہے۔ (تفسیر الجواہر للطنطاوی ۲۳/۱۰۷)

ولیطلف

تمشي علی استحیاء

استمعوہ

فاوقد لی یا ہامان

رجعوا الی انفسھم

ھل امتلئت

علی ذات الواح ودسر

اوکصیب من السماء

آمنا… انا معکم

عیسیٰ علیہ السلام نے یا قومی نہیں کہا

قرآن کی خصوصیت ہے کہ یہ زبانی یاد کیا جاتا ہے

بقول شاعر

نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں

وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ

بلکہ یہ تو واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر جو ظالم ہیں۔

(العنكبوت آیت 49)

قرآن میں دو نمایاں اوصاف ہیں

ایک یہ کہ اس جیسا نہ کوئی لا سکا ہے نہ لا سکے گا

جیسا کہ فرمایا :

« وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ » [ البقرۃ : ۲۳ ]

’’اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔‘‘

دوسرا وصف یہ کہ پہلی تمام کتابیں کسی نہ کسی چیز میں لکھی ہوئی تھیں اور انھیں صرف لکھ کر محفوظ کیا گیا تھا، جب کہ یہ قرآن اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اگرچہ اسے لکھا بھی گیا ہے مگر یہ لکھے ہوئے کا محتاج نہیں اور یہ قرآن مجید کی خصوصیت ہے کہ اسے لانے والا اُمّی ہے، جو لکھے ہوئے سے پڑھتا ہی نہیں، بلکہ یہ کتاب اس کے سینے میں ہے اور یہ ہر دور میں امت مسلمہ کے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتی ہے، کوئی شخص اس کے کسی لفظ یا نقطے یا زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اگر دنیا سے اس کے تمام نسخے بھی غائب کر دیے جائیں، تو بھی اس کی حفاظت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ جب کہ پہلی تمام کتابوں کا دارومدار لکھے ہوئے نسخوں پر تھا اور پیغمبر یا ایک آدھ شخص کے سوا ان کا کوئی حافظ ہونا ثابت نہیں۔ اس لیے ان میں کمی بیشی اور تحریف و تصحیف ممکن تھی اور واقع بھی ہوئی، جیسا کہ بائبل میں جمع شدہ نوشتے اس کی واضح دلیل ہیں

( تفسیر القرآن الكريم)

دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہو کہ اسے ہروقت ہر عمر کے لوگ حفظ کر رہے ہوں

بچے بوڑھے اور جوان ہر طرح کے لوگ حفاظ بنتے ہیں پانچ چھے سال کی عمر میں حفظ قرآن کے ریکارڈ موجود ہیں

چھے ماہ، تین ماہ حتی کہ ایک ماہ میں قرآن حفظ کرنے کے واقعات موجود ہیں

یہ اعزاز فقط قرآن کو حاصل ہے

اللہ تعالیٰ حُفاظ کرام کے ذریعے قرآن کو محفوظ رکھتے ہیں

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر، آیت9)

بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔

یعنی یہ ’’ذکر‘‘ تو خود ہم ہی نے نازل کیا اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس وقت قرآن مجید، لاکھوں کروڑوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔

اور یہ بھی قرآن کا معجزہ ہے کہ اس میں رد و بدل نہیں ہو سکے گا۔

قرآن کی حفاظت کا یہ وعدہ حیرت انگیز طور پر پورا ہو رہا ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس طرح محفوظ ہو کہ اس کے کسی ایک حرف میں رد و بدل نہ ہوا ہو۔ دنیا بھر میں قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں ان میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں ہے۔ مسلمانوں پر زوال اور غلامی کے ایام بھی آئے، مگر قرآن کی حفاظت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت جو کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوئی اور قرآن کی اس طرح حفاظت کے غیر مسلم مخالف بھی معترف ہیں۔

نوے سال تک روس کی غلامی میں رہنے والی مسلم ریاستوں میں جبکہ وہاں قرآنی اوراق تک ختم کردیئے گئے تھے، ہزاروں حفاظ کرام نے سینہ بسینہ قرآن کو محفوظ رکھا

آج یہود و نصاری اور ان کی محرف کتب تورات و انجیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کو من و عن محفوظ قرآن کا تحفہ انہیں حفاظ کی مرہون منت ہے

یہ حفاظ و علماء امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر دین کے پہرے دار اور نوکر ہیں

أولئك کان سعیہم مشكورا