قربانی کے مسائل 
ہر امت کے لیے قربانی مقرر
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (الحج : 34)
اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ سو تمھارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے فرماںبردار ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔
قربانی کا حکم
قربانی صاحب استطاعت کے لیے فرض ہے، اس کے دلائل درج ذیل ہیں
پہلی دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر : 2)
پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
اس آیت سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز وقربانی صرف اللہ کے لیے ہو، وہاں ان دونوں عبادتوں کا حکم اور اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے.
صیغہ امر کو دیکھا جائے، اور پھر نماز وقربانی کے اکٹھ کو دیکھا جائے تو قربانی کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے. اسے محض ایک تاکیدی سنت کہنا مشکل محسوس ہوتا ہے.
صَلِّ اور اِنْحَرْ صیغہ امر ہیں اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔
دوسری دلیل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلٰى كُلِّ اَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً…  (سنن أبي داود |2788،حكم الحديث: حسن)
اے لوگو! یقینا ہر گھر والوں کے ذمے ہرسال ایک قربانی ہے
یہاں لفظ "علی” کا معنی واجب ہے
تیسری دلیل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کے لیے امر کا صیغہ بھی اس کے وجوب پر دلالت کرتا ہے اور اس کے بعد کسی امتی کے عمل کی طرف دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی
جُندَب بَجَلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرمایا:
 مَنْ كَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ ذَبَحَ فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ(مسلم،كِتَابُ الْأَضَاحِي 5067)
 "جس نے نماز پڑھنے سے پہلے(اپنی قربانی کا جانور) ذبح کردیا تھا، وہ اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرے۔”
"علی اسم اللہ” کے بغیر
«مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ(بخاری ،كِتَابُ الأَضَاحِيِّ،5562)
چوتھی دلیل
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :
” مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ". (ابن ماجه،  3123، حكم الحديث: حسن)
’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘
اس روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے البتہ اس کے موقوف صحیح ہونے میں سب متفق ہیں اور یہ ایسی موقوف ہے جو حکما مرفوع ہے کیونکہ کسی فعل کے ترک پر وحی کے بغیر سزا وارد نہیں کی جا سکتی
بعض اشکالات کا ازالہ
پہلا اشکال
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے کہ وہ قربانی نہیں کرتے تھے،
بالخصوص بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ وضاحت بھی ثابت ہے کہ وہ اسی لیے نہیں کرتے تھے تاکہ لوگ فرض نہ سمجھیں.
جواب :
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صریحاً ثابت ہے کہ وہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کو عیدگاہ کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے. جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال آپس میں مختلف ہوں تو انہیں ایک دوسرے پر بطور حجت پیش نہیں کیا جاسکتا. بلکہ ایسی صورت میں حکم یہی ہے کہ اس مسئلے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا جائے تو جب ہم ادھر لوٹتے ہیں تو وہاں صیغہ امر پاتے ہیں
دوسرا اشکال
 یہ پیش کیا جاتا ہے کہ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعَرِهِ، وَأَظْفَارِهِ ".
(صحيح مسلم |1977)
جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے بال اور ناخن تراشنے سے رک جانا چاہیے۔
اس حدیث میں ’’ ارادہ کرے‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ
قربانی ہر انسان کے اپنے ارادے پر موقوف ہے، چاہے تو کرے، نہ چاہے تو نہ کرے،
یہ استدلال انتہائی کمزور اور سطحی ہے کیونکہ لفظ "ارادہ” سے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں نکلتا
لفظ ارادہ کی مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث دیکھیں
 ” إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ ؛ فَلْيَغْتَسِلْ ". (مسلم :844)
"جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھنے کا ارادہ کرے تو غسل کرے "
سوچیے کہ کیا جمعے کے لیے آنا واجب ہے یا ارادے پر موقوف ہے
کیا یہاں لفظ "اراد” سے جمعے کے وجوب کا سقوط نکل سکتا ہے
شيخ ابن عثيمين رحمه الله لکھتے ہیں:
” وعندي أن التفويض إلى الإرادة لا ينافي الوجوب ، إذا قام عليه الدليل، فقد قال النبي صلى الله عليه وسلم في المواقيت : (هن لهن ولمن أتي عليهن من غير أهلهن ممن يريد الحج والعمرة)، ولم يمنع ذلك من وجوب الحج والعمرة بدليل آخر… والأضحية لا تجب على المعسر فهو غير مريد لها، فصح تقسيم الناس فيها إلى مريد وغير مريد ، باعتبار اليسار والإعسار”
(أحكام الأضحية والذكاة ص47) .
میرے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی حکم کے وجوب کی کوئی دلیل مل جائے تو اسے ارادے کے ساتھ معلق کردینا اس کے واجب ہونے کے منافی نہیں ہے
جیسا کہ حدیث میں آتا ہے (ممن يريد الحج والعمرة) یعنی جو حج اور عمرے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ لفظ (یرید) حج اور عمرے کے واجب ہونے کے منافی نہیں ہے
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأمَّا الأضحية فالأظهرُ وجوبُها………. ونُفاةُ الوجوب ليس معهم نصٌّ
زیادہ واضح دلائل کی روشنی میں قربانی واجب ہے
قربانی کی فرضیت کی جو لوگ نفی کرتے ہیں، ان کے پاس کوئی نص نہیں ہے.
فتاوی ابن تیمیہ.
تیسرا اشکال
یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حدیث میں قربانی کے لیے "سنت” کا لفظ آیا ہے  اور یہ لفظ دلیل ہے کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے، واجب نہیں۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا.”
(صحیح البخاري: ٥٥٤٥)
”آج (عیدالاضحیٰ کے دن) کی ابتدا ہم نماز (عید) سے کریں گے پھر واپس آکر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح عمل کیا تو اس نے ہماری سنت کو اختیار کیا۔”
جواب : یہاں لفظ” سنت” فرض ،واجب، حرام یا مکروہ کی قسم میں سے نہیں آیا بلکہ یہاں لفظ” سنت” طریقے کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسی حدیث کا سیاق بتا رہا ہے
کیا قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے
قربانی کرنے کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، نہ قرآن کریم سے نہ سنت سے نہ اجماع سے نہ آثار سلف سے، یہ ایک بے بنیاد موقف ہے، جس کے پاس بھی قربانی کی گنجائش ہو تو اسے قربانی کرنی چاہیے، چھوڑنا مناسب نہیں، چاہے وہ صاحب نصاب نہ بھی ہو، کتنے لوگ ایسے ہیں جو صاحب نصاب نہیں لیکن قربانی کر سکتے ہیں۔
قرض لے کر قربانی کرنا
آدمی اگر قرض لے کر قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے بشرطیکہ وقت آنے پر قرض اتار بھی سکے، اور اگر نہیں لینا چاہتا قرض تو نہ لے اور نہ قربانی کرے، اور اگر کسی شخص پر قرض ہے تو وہ دیکھے کہ کیا قرض کی ادائیگی کے ساتھ میں قربانی کر سکتا ہوں، کر سکتا ہے تو کر لے وگرنہ قرض اتارنے کا وقت آ چکا ہے تو پہلے قرض ادا کرے پھر قربانی کا سوچے۔
کیونکہ
(لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ
قربانی کی فضیلت
قربانی کی فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت کی ہے اور یہ سابقہ سبھی انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے
اس کے علاوہ فضائل کے انداز میں خاص قربانی کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے
سب سے افضل قربانی اونٹ کی پھر گائے پھر بھیڑ اور پھر بکری کی
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً.”
صحیح البخاري: ٨٨١ ۔ صحیح مسلم: ٨٥٠
‘جو شخص جمعہ کے دن غسلِ جنابت کی طرح (اہتمام سے) غسل کرے پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا الله کی راہ میں صدقہ کیا۔”
سینگ والے جانور کی قربانی بغیر سینگ والے جانور سے افضل ہے۔
 انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"ضَحَّى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ.”
صحیح مسلم: ١٩٦٦
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی۔”
قربانی کی فضیلت سے متعلق چند روایات کا جائزہ
پہلی روایت
 حضرت زيد بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے کہا :
اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ»
’’تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں ۔ ‘‘
انہوں نے کہا :
 اس میں ہمارے لیے کیا (ثواب ) ہے ؟
 آپ نے فرمایا :
 ہربال کے بدلے نیکی ہے ‘‘۔
انہوں نے کہا :
اےاللہ کے رسول ! اور اون ؟
فرمایا:
’’اون کے بھی ہر بال کے بدلے نیکی ہے ۔‘‘
سنن ابن ماجه، كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ:3127
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے
تبصرہ
اس روایت کی سند درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَائِذُ اللَّهِ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ
اس میں زید بن أرقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ابوداؤد نقیح بن حارث متروک راوی ہیں اور ان پر احادیث گھڑنے کے بارے بھی کہا جاتا ہے
دوسری روایت
 حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ،نبیﷺ نے فرمایا :
’’قربانی کے دن آدم کا بیٹا کوئی ایسا عمل نہیں کرتا جو اللہ کو خون بہانے (جانور کی قربانی کرنے ) سے زیادہ محبوب ہو ۔وہ ( جانور ) قیامت کے دن اپنے سینگوں ،کھروں اور بالوں سمیت آئے گا (اور نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا ۔قربانی کے جانور کا )خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں (قبولیت کا)مقام حاصل کرلیتا ہے ، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو ۔‘‘
سنن ابن ماجه، كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ:3126
اسے بھی شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے
تبصرہ
اس کی سند درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْمُثَنَّى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ
اس سند میں ہشام بن عروہ سے بیان کرنے والے ابو المثنى کے متعلق ابو حاتم نے کہا : "منكر الحديث”
اور تقریب میں اسے ضعيف کہا گیا ہے
تیسری روایت
 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يا فاطِمةُ ‍‍ ! قومي إلى أُضحِيتِكِ فاشهَديها ، فإنَّه يُغفَرُ لكِ عندَ أوَّلِ قطرةٍ من دمِها كلُّ ذنبٍ عمِلتيه ، و قولي :  إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ  قال عمرانُ بنُ حُصَينٍ : قلتُ يا رسولَ اللهِ ‍ ! هذا لكَ و لأهلِ بيتِك خاصَّةً و أهلُ ذاك أنتُم – أم للمُسلِمينَ عامَّةً ؟ قال : لا بل للمُسلمينَ عامَّةً.
    المصدر:  السلسلة الضعيفة    الصفحة أو الرقم:  528      خلاصة حكم المحدث:  منكر
تبصرہ
اسے امام حاکم نے اپنی مستدرک میں  اس (أبي حمزة الثمالي عن سعيد بن جبير عن عمران بن حصين) سند سے بیان کیا ہے
ذہبی رحمہ اللہ نے "المستدرك” میں لکھا ہے "أبو حمزة الثمالي ضعيف”
اور امام بیہقی نے کہا ہے "في إسناده مقال”
 اور ابن أبي حاتم نے  "العلل” میں اپنے والد (ابو حاتم) سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں "إنه حديث منكر” .
امام حاکم اور بیھقی نے اسے علی رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی روایت کیا ہے اس میں "عمرو بن خالد الواسطي” متروک ہے
قربانی کی قبولیت کی شرائط
 کسی بھی عبادت اورعمل صالح کی قبولیت کیلئے درج ذیل شرائط ہیں :
پہلی شرط
عقیدہ توحید
 یعنی عمل کرنے والا شخص موحد ہو۔ اگر وہ شرک کرتا ہو تو اس کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے، بلکہ اس کے اعمال غارت اور برباد ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ (الزمر 65)
اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔
دوسری شرط
ریا کاری نہ ہو
 یعنی اس کی نیت میں ریاکاری اور دکھلاوا مقصود نہ ہو اسے اخلاص کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
” إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ ” قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ” الرِّيَاءُ، يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً ” [مسند أحمد  : 23630]
’’ میں‌ تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں‌ وہ چھوٹا شرک ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں‌ کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں‌ سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں‌ کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام : 162)
کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
تیسری شرط
تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول
ارشادِ ربانی ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة : 27)
اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔
اور فرمایا :
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (الحج : 37)
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دے۔
چوتھی شرط
قربانی کا سارا عمل سنت کے مطابق ہو
یعنی طریقہ کار قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔کیونکہ ایسا عمل جو قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو وہ نا قابل قبول ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [1]
’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے۔‘‘
پانچویں شرط
بندہ نمازی ہو
  بندہ نمازی ہو ورنہ بے نماز آدمی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
َ "مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً حَتَّى تَفُوتَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ”  [مصنف ابن أبي شيبة  : 3358]
جس نے بغیر عذر کے فرض نماز چھوڑ دی تو تحقیق اس کے عمل ضائع ہو گئے
بریدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے
«مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ العَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ»
(صحیح البخاری 1/ 115رقم 553 ) کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے، تو سمجھ لو کہ اس کے نیک عمل ضائع ہو گیا
چھٹی شرط
 مال حلال ہو
 یعنی عمل کرنے والے کا مال حلال ہو، حرام مال سے کیا ہوا عمل قبول نہیں ہوتا
سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا.” (صحیح مسلم: ١٠١٥ ۔ سنن الترمذي: ٢٩٨٩)
لوگو! بے شک الله تعالیٰ پاک ہے اور پاک مال ہی قبول فرماتا ہے۔”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ ”  (صحیح مسلم 2/ 703 رقم 1015)
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے پریشان بال جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو
میت کی طرف سے قربانی
میت کی طرف سے قربانی جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی خاص صحیح صریح دلیل موجود نہیں
نیز کسی صحابی، تابعی اور تبع تابعی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں۔
اس سلسلہ میں پیش کی جانے والی چند روایات کا جائزہ
پہلی روایت
علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے
 أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، فَقِيلَ لَهُ، فَقَالَ : أَمَرَنِي بِهِ – يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا  (سنن الترمذي 1495)
کہ وہ دومینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرمﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، توان سے اس بارے میں پوچھاگیا توانہوں نے بتایاکہ مجھے اس کا حکم نبی اکرمﷺ نے دیاہے، لہذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا
 مگر یہ کمزور روایت ہے ۔
اس کی سند یہ ہے
 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ
اس سند میں کئی خرابیاں ہیں
01. شریک بن عبداللہ نخعی بوجہ کثرتِ غلط اور حافظے کی کمزوری، ضعیف راوی ہے
امام ترمذی رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ
02. اور ان کے شیخ ابو الحسناء مجہول(نہ معلوم) ہونے کی وجہ سے کمزور ہیں
علی بن مدینی نے کہتے ہیں اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے میں نے ان سے دریافت کیا کہ
 راوی ابوالحسناء کاکیانام ہے؟
تو وہ اسے نہیں جان سکے
03. علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے، حنش متکلم فیہ راوی ہیں
امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حنش هو أبو المعتمر الكناني الصنعاني وتكلم فيه غير واحد
 اور ابن حبان البستي فرماتے ہیں : وكان كثير الوهم في الأخبار ينفرد عن علي بأشياء لا يشبه حديث الثقات حتى صار ممن لا يحتج به
دوسری روایت
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عید الاضحی والے دن ایک مینڈا منگوایا اور اسے ذبح کرتے وقت یہ الفاظ کہے:
بِسْمِ اللهِ, اللهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَمِنْ مُحَمَّدٍ لَكَ [السنن الکبری للبیہقی :19187]
”بسم اللہ، اے اللہ! یہ قربانی تیری عطا ہے اور تیری رضا کے لیے ہے، محمد کریمﷺ کی طرف سے خالصتاً تیرے لیے قربانی کی جارہی ہے۔“
تبصرہ:
اس کی سند ضعیف ہے۔
01.. عاصم بن شریب راوی مجہول ہے، اسے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل: ٤٨٧/٦) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ (میزان الاعتدال: ٣٥٢/٢) نے ”مجہول“ کہا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات (٢٣٩/٥) میں ذکر کیا ہے۔
02. ابوبکر بن رجاء زبیدی کی توثیق ثابت نہیں۔
03. ابو الفضل، سفیان بن محمد بن محمود جوہری کی توثیق نہیں ملی۔
04. ابونصر احمد بن عمرو بن محمد عراقی کی توثیق نہیں ملی۔
فائدہ
بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کی نیت سے قربانی کی جا سکتی ہے
مگر
یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس شکل پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی صحابی کا عمل نہیں ملتا
نیز ایسی صورت میں قربانی کے حصوں میں شریک ہونا درست نہیں کیونکہ وہ حصے قربانی کے ہیں صدقے کے نہیں .
نیز اگر تم اسے صدقہ ہی سمجھتے ہو تو پھر قربانی کے وقت اور شرائط کی پابندی تو ضروری نہیں پھر کبھی عید کی نماز سے پہلے بھی ذبح کرکے دکھاؤ
قربانی کے جانور کے اوصاف
پہلا وصف
پالتو جانور ہو
پالتو جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے وحشی جانور قربانی کے لیے جائز نہیں ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (الحج : 28)
تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
ہرن حلال ہے اور بکری سے مشابہت بھی رکھتا ہے مگر وحشی ہونے کی وجہ سے قربانی کے کے لیے جائز نہیں ہے
اور گھوڑا اگرچہ پالتو جانور ہے مگر چونکہ عہد نبوی میں اس کی قربانی ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ بھی قربانی کے لیے جائز نہیں ہے
دوسرا وصف
دوندا ہو
حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ (مسلم،كِتَابُ الْأَضَاحِي 5082)
صرف مسنہ (دودانتا ) جانور کی قربانی کرو ہاں ! اگر تم کو دشوار ہو تو ایک سالہ دنبہ یا مینڈھا ذبح کر دو۔”
مسنہ کی وضاحت
امامِ نووی رح لکھتے ہیں
قال العلماء: المسنۃ ھی الثنیۃ من کل شيء من الإبل و البقر والغنم فما فوقها
اھل علم نے کہا کہ مسنہ دوندا یا اس سے اوپر اونٹ، گاے، بھیڑ اور بکری کو کہتے ہیں
( شرح مسلم 2/155)
امام شوكانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : المسنۃ، ھی الثنیۃ فما فوقها
( نیل الاوطار)
مسنہ یہ دوندا یا اس سے اوپر پر بولا جاتا ہے
دوندے سے کیا مراد ہے
کیا سامنے والے دو دانت یا دونوں میں سے کسی ایک دانت کا گر جانا ہی کافی ہے یا نئے دانتوں کا نکلنا بھی ضروری ہے؟
جواب : صرف گر جانا ہی کافی نہیں ہے، نئے دانتوں کا نکل آنا بھی ضروری ہے دراصل پہلے دو دانت گرتے ہی نئے دانتوں کی وجہ سے ہیں
اگر کبھی ایسا ہو کہ پہلے دانت گر چکے ہیں اور نئے نظر نہیں آرہے تو سمجھ لیں کہ گرے نہیں ہیں بلکہ بیوپاری نے زبردستی گرائے ہیں
اعتبار دانتوں کا ہے عمر کا نہیں
بعض لوگ کہتے ہیں کہ بکری ایک سال کی اور بھیڑ چھ ماہ کی اور گائے دوسال کی ہو جائے تو قربانی کے اہل ہے
ان کی یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ شرعی عمر کا اعتبار دو دانتا سے کیا جائے گا نہ کہ سال پورے ہونے پہ
اس لیے کہ یہ( لاتذبحوا الا مسنہ) کے بالکل خلاف ھے
حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ
 فرمایا کرتے تھے کہ بکرا اگر حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کا ہو دوندا نہیں تو قربانی نہیں ہوسکتی.
شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ
 فرماتے ہیں :
” لوگ پوچھتے ہیں کیا کھیرا بکرا گھر کا پالا ہوا موٹا تازہ قربانی کے لیے جائز ہے؟
میں کہتا ہوں : بکرا اگر دو دانتا نہیں ہے، وہ جنت کا پلا ہو، جبریل امین لے کر آئے ہوں تو پھر بھی جائز نہیں، کیونکہ فرمان رسول ہے :
” دو دانتا کے علاوہ (یعنی اس سے کم) ذبح نہ کرو، الا یہ کہ مشکل ہو تو بھیڑ کا جذعہ(ایک سالہ) قربان کردو. "
قربانی کے جانور کے ممنوعہ عیوب
پہلا عیب
کھیرا ہونا
"حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( عید کی نماز سے پہلے ) ذبح کر چکے تھے (تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا تو) انھوں نے کہا :
 میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو دودانتا بکرے سے بہتر ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ(بخاری ،كِتَابُ الأَضَاحِيِّ،5545) (مسلم،كِتَابُ الْأَضَاحِي، 5073)
"تم اس کو ذبح کردو ،اور تمھارے بعد یہ کسی کی طرف سے کا فی نہ ہو گی”
کھیرے کے جواز کی ایک دلیل
کھیرے کے مجوزین ایک دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
«إِنَّ الْجَذَعَ يُوفِي، مِمَّا تُوفِي مِنْهُ الثَّنِيَّةُ» (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ،3140 صحیح)
’’بلاشبہ جذعہ (ایک سالہ )ثنیہ(دو دانتے )کی جگہ کفایت کر جاتاہے ۔‘‘
جائزہ
یہ روایت کھیرے کے جواز پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اگر مکمل روایت پڑھی جائے تو مسئلہ نکھر کر سامنے آ جائے گا
مکمل روایت یہ ہے کہ
 کلیب بن شہاب ؓ نے فرمایا:
 ہم رسول اللہ کے ایک صحابی کےساتھ تھے جن کانام حضرت مجاشع (بن مسعود )تھا جو کہ قبیلہ بنو سلیم میں سے تھے ۔(قربانی کے لیے ) بکریاں (تقسیم کی گئیں تو ) کم پڑ گئیں ،چنانچہ انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے :
’’بلاشبہ جذعہ (ایک سالہ )ثنیہ(دو دانتے )کی جگہ کفایت کر جاتاہے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم مسنہ کے کم پڑ جانے کی صورت میں ہے مطلق نہیں ہے
جوکہ صحیح مسلم کی اس روایت کے عین مطابق ہے
 «لَا تَذْبَحُوا، إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً، مِنَ الضَّأْنِ»
بھیڑ کے کھیرے کی گنجائش کی دو صورتیں
01.منڈی میں مسنہ دستیاب ہی نہ ہو
02. دستیاب تو ہے مگر لینے کی استطاعت نہ ہو
تو ایسی صورت حال میں "جذعة من الضأن” یعنی بھیڑ کی جنس سے کھیرا لگ جائے گا
بھیڑ کا کون سا کھیرا لگے گا
سوال یہ ہے کہ کھیرا 6 ماہ کا بھی ہوتا ہے اور 1 سال 6 ماہ کا بھی ہوسکتا ہے تو کون سا کھیرا چلے گا؟
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
الجذع مالہ سنۃ تامۃ ھذا ھوالاصح عند أصحابنا وھو الأشهر عند اھل اللغۃ
شرح مسلم تحت الحديث. 1963
جذع اسے کہتے ہیں جسکو سال مکمل ہو چکا ہو یہی ہمارے اصحاب کے ہاں صحیح ترین قول ہے اور یہی اھل لغت کے ہاں مشہور ترین ہے
حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
جذعۃ کے متعلق مختلف اقوال ہیں صحیح ترین قول یہ ہے
"مالہ سنۃ تامۃ”
مقالات نورپوری ص 225
 جسکا ایک سال مکمل ہو جائے
خلاصہ کلام
01. کھیرے جانور کی قربانی نہیں ہوتی خواہ کچا کھیرا ہو خواہ پکا کھیرا ہو
02. دوندے کی دشواری کی صورت میں صرف بھیڑ کی نسل میں سے کھیرا قربانی پر لگے کا
03. بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ میں سے کھیرا نہیں لگے
04. بھیڑ کا بھی وہ کھیرا قربانی کے قابل ہے جو ایک سال یا اس سے اوپر ہو اس سے نیچے والا بھیڑ کا کھیرا بھی جائز نہیں ہے
دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں عیب
سیدنا براء بن عازب ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ :
 الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا
 وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا
 وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا
 وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى (ابوداؤد ،كِتَابُ الضَّحَايَا،2802،صحیح)
 ” چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ہیں:
کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو
 بیمار جس کی بیماری واضح ہو
 لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو
 اور انتہائی کمزور کہ اس کی ہڈی میں گودا نہ ہو ۔ “
امام ابوداؤد ؓ نے  «لا تنقى» کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا:
لَيْسَ لَهَا مُخٌّ
 جس ( کی ہڈیوں ) میں گودا نہ ہو ( بالکل لاغر ‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو ) ۔
فائدہ : حدیث میں وارد لفظ بَيِّنٌ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کے یہ چاروں عیوب اگر معمولی اور غیر واضح ہیں تو قربانی کے لیے شرعی عیب نہیں ہیں ۔
فائدہ : اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں۔
چھٹا عیب
کان اور آنکھ کا عیب
علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ (نسائی، كِتَابُ الضَّحَايَا 4381 حسن صحيح)
 کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ غور سے یکھیں(کہ ان میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہ ہو)۔
ساتواں عیب
سینگ ٹوٹ جانا
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
 نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ (مسند أحمد 1294،حكم الحديث: إسناده حسن )
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ اور کان کٹے جانور سے منع کیا ہے کہ اس کی قربانی کی جائے
جانور خریدنے کے بعد کوئی نقص پیدا ہو تو
قربانی کا جانور ان مذکورہ عیوب سے پاک ہونا چاہیے۔ تاہم اگر جانور خریدنے کے بعد اس میں کوئی نقص پیدا ہوجائے تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے قربانی کے جانوروں میں ایک بھینگی (کانی) اونٹنی دیکھی تو فرمایا:
"إِنْ كَانَ أَصَابَهَا بَعْدَمَا اشْتَرَيْتُمُوهَا فَأَمْْضُوهَا وَإِنْ كَانَ أَصَابَهَا قَبْلَ أَنْ تَشْتَرُوهَا فَأَبْدِلُوهَا.” «السنن الكبير للبیهقي: ١٩٢٢٢ وسندہ صحیح»
”یہ عیب اگر خریداری کے بعد ہوا ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر خریداری سے پہلے تھا تو اسے بدل لو۔”
قربانی کے جانور کے غیر ممنوعہ عیوب
چوگا،چھگا
بعض علماء کرام کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ چوگا اور چھگا بھی قربانی کے لیے جائز نہیں ہے
مگر ان کی بات درست نہیں ہے
علی رضی اللہ عنہ مسنہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
 ثَنِیّاً فصاعدا واستسمن فإن اکلت اکلت طيبا وإن اطعمت اطعمت طيبا (سنن الکبری للبیھقی 9..273 وسندہ صحیح)
(قربانی کا جانور)  دوندا یا اس سے اوپر ہو اسے خوب موٹا کیجیے اور اچھا کھائیں اور اچھا کھلائیں
خصی ہونا
یاد رہے کہ ہر طرح کا عیب قربانی کے لیے رکاوٹ نہیں ہے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کے جو عیوب بیان فرمائے ہیں بس وہ ہی ممنوع ہیں ان میں جانور کے خصی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے لهذا خصی و غیر خصی ہر دو طرح کے جانور کی قربانی بالکل جائز اور درست ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا کہ خصی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، بے کار بات ہے
 امام احمد بن حنبل الشيبانی رحمہ اللہ سے اس بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
"أَرْجُو أَلَّا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ.” «مسائل الإمام أحمد وإسحاق : ٢٨٦٣»
”مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔”
حاملہ،دم کٹا،چکی کٹا، تھن کٹا اور مخنث ہونا بھی ممنوعہ عیوب میں سے نہیں ہے
بھینس کی قربانی
یہ مسئلہ علماء کرام کے مابین معرکۃ الآراء مسائل میں سے ایک ہے چوں کہ یہ ایک خالص اجتهادی مسئلہ ہے اس لیے اس میں شدت پسندی سے بہر صورت بچنا چاہیے۔
ہمارے رجحان کے مطابق بھینس کی قربانی جائز ہے
 تمام اہلِ لغت کے نزدیک بھینس، گائے کی ہی ایک جنس ہے۔
امام احمد بن حنبل الشيبانی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا بھینس (کی قربانی) میں سات حصے ہوسکتے ہیں؟”
تو امام صاحب رحمه الله نے فرمایا:
"لَا أَعْرِفُ خِلَافَ هَذَا.”
مسائل الإمام أحمد وإسحاق برواية الكوسج رقم المسألة: ٢٨٦٥
”میں نہیں جانتا کہ اس (مسئلہ) میں کسی کا اختلاف ہے۔”
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ، بھینس کے بارے میں فرماتے ہیں:
"اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ فِي الْقُرْآنِ الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ.” «مجموع فتاوىٰ ورسائل ٣٤/٢٥»
”بھینس، گائے ہی کی نسل ہے۔ الله عز وجل نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔ (دور جاہلیت میں) عرب، جانوروں میں سے، جسے چاہتے حلال قرار دے دیتے اور جسے چاہتے حرام قرار دے دیتے تھے اور بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی (اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا نہ کہ نسلیں)۔”
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ بھینس کی قربانی کے جواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے
قربانی کے جانور کی تعظیم کرنا
قربانی کے جانور کی تعظیم کریں اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، گلے میں قلادے ڈالے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ (الحج :30)
یہ اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے
اور فرمایا :
ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج : 32)
یہ اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔
قربانی کے جانور بھی ’’شعائر الله‘‘ میں داخل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
« وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ »  [ الحج : ۳۶ ]
 ’’اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔‘‘
قربانی کے جانور سے فائدہ اٹھانا
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں سے اس وقت تک فائدہ اٹھانا جائز ہے جب تک انھیں قربانی کے لیے نامزد نہ کیا جائے، اس کے بعد سواری یا دودھ یا اون کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں
کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج : 33)
تمھارے لیے ان میں ایک مقرر وقت تک کئی فائدے ہیں، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ اس قدیم گھر کی طرف ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
 [ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً يَسُوْقُ بَدَنَةً فَقَالَ ارْكَبْهَا فَقَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ فَقَالَ ارْكَبْهَا قَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا وَيْلَكَ ]  [ بخاري : ۱۶۸۹۔ مسلم، : ۱۳۲۳ ]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک بدنہ (قربانی کے لیے مکہ جانے والا اونٹ) ہانک کر لے جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :
 ’’اس پر سوار ہو جاؤ۔‘‘
اس نے کہا : ’’یہ بدنہ ہے۔‘‘
 فرمایا : ’’اس پر سوار ہو جاؤ۔‘‘
 اس نے کہا : ’’یہ بدنہ ہے۔‘‘
فرمایا : ’’اس پر سوار ہو جاؤ، افسوس ہو تم پر۔‘‘
 جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ اِرْكَبْهَا بِالْمَعْرُوْفِ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتّٰی تَجِدَ ظَهْرًا ]  [ مسلم : ۱۳۲۴ ]
 ’’اس پر اس طرح سوار ہو جاؤ کہ اسے تکلیف نہ دو، جب تمھیں اس کی ضرورت پڑ جائے، یہاں تک کہ تمھیں کوئی اور سواری مل جائے۔‘‘
ایک گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی
 عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوا کرتی تھیں؟
 انہوں نے بتایا:
 كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ فَصَارَتْ كَمَا تَرَى ۔  [سنن الترمذی:1505]
 ایک آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتا تھا۔اور اسی سے وہ خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ (زیادہ تعداد میں جانور ذبح کرکے) آپس میں فخر کرنے لگے جیسا کہ تم (آج کل) دیکھ رہے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے قربانی کی
سیدۃ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
"وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ.” ( صحيح البخاري: ٢٩٤ ۔ صحيح مسلم: ٨۔١٢١١)
”رسول الله ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی دی۔”
صحابی رسول عبداللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ کا عمل
عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا ان کے متعلق صحیح بخاری میں ہے :
وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ [صحيح البخاری:7210]
 وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتے تھے
فائدہ:
جن کا خیال یہ ہے کہ ایک بندے کی طرف سے ایک ہی قربانی ہوتی ہے، اور اس کی قربانی گھر والوں کی طرف سے کفایت نہیں کرتی ان کا موقف بھی دلیل سے خالی ہے، ایک قربانی ایک فیملی کی طرف سے سنت سے ثابت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک قربانی کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں قربانیاں تقسیم کیں لیکن اپنی بیویوں کو نہیں دیں، بلکہ گھر والوں کی طرف سے خود ہی کی، آپ نے خود مینڈھا بھی قربان کیا ہے اور گائے بھی۔
ایک آدمی اور کئی قربانیاں
اوپر بیان ہوا ہے کہ ایک گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی ہی کافی ہے
مگر
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک گھر والے ایک سے زائد قربانیاں نہیں کرسکتے
زائد کی کوئی حد نہیں ہے اپنی استطاعت کے مطابق جتنی قربانیاں چاہیں کرسکتے ہیں
 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ وَأَنَا أُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ.” ( البخاري: ٥٥٥٣، مسلم: ١٩٦٦)
”نبی کریم ﷺ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی (ہی) قربانی کرتا ہوِں۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر 100 اونٹ نحر کیے تھے
سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا، فَنَحَرَ مَا غَبَرَ.” (صحیح مسلم: ١٢١٨)
”پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ اپنے دستِ مبارک سے نحر (یعنی قربان) کیے۔ باقی سیدنا علي رضي الله عنه کے حوالہ کر دیے جنہیں انہوں نے نحر کیا۔”
قربانی کرنے والے پر پابندیاں
قربانی کی نیت رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں حجامت کروائے نہ ہی ناخن کاٹے
 قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص جب ذوالحجہ کا چانددیکھ لے یا یہ خبر عام ہو جائے کہ چاند نظر آگیا ہے تو اس رات سے لے کر اپنے جانور کی قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی حصے سے کوئی بال یا ناخن نہ کاٹے کیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ»  (صحیح مسلم:۱۹۷۷)
"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
یہ پابندی قربانی کرنے تک ہے
صحیح مسلم اور سنن ابو داود میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
(( فَلاَ یَاْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَ لاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ شَیْئًا حَتّٰی یُضَحِّيَ ))
’’وہ اپنے جانور کو ذبح کرلینے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘
المستدرک على الصحيحين میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے
"ﺣﺘﻰ ﺗﺬﺑﺢ ﺃﺿﺤﻴﺘﻚ”
یعنی یہ ناخنوں اور بالوں کی پابندی قربانی کرلینے تک ہے
حدیث نمبر 7519
مؤطا امام مالک میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے بعد سر کے بال کٹوائے
ﻓﺤﻠﻖ ﺭﺃﺳﻪ ﺣﻴﻦ ﺫﺑﺢ اﻟﻜﺒﺶ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﻟﻢ ﻳﺸﻬﺪ اﻟﻌﻴﺪ ﻣﻊ اﻟﻨﺎﺱ
موطا ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ
کٹنگ کی پابندی گھر کے سربراہ پر یا تمام گھر والوں پر؟
بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی صرف گھر کے سربراہ پر ہے
لیکن ہماری دانست میں راجح بات یہ ہے کہ یہ پابندی سب گھر والوں پر ہے
اس کی دلیل یہ روایت ہے
نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں :
"أَنَّ ابْنَ عُمَرَ مَرَّ بِامْرَأَةٍ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِ ابْنِهَا فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  ان دس دنوں میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کے بال کاٹ رہی تھی
 تو آپ نے فرمایا :
” لَوْ أَخَّرْتِيهِ إِلَى يَوْمِ النَّحْرِ كَانَ أَحْسَنَ.”
 مستدرک للحاکم 7520، وسندہ حسن لذاته
اگر تو اسے قربانی کے دن تک مؤخر کردیتی تو بہتر ہوتا
قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا شخص پوری قربانی کا اجر کیسے حاصل کرے؟
 سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
 اگر مجھے دودھ والے جانور کے سوا کوئی اور جانور نہ ملے تو کیا میں اسی کی قربانی کر دوں؟
 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.” (سنن أبي داؤد: ٢٧٨٩ ۔ سنن النسائي: ٤٣٧٠ وسندہ حسن لذاته)
”نہیں! بل کہ (عیدالاضحیٰ کے بعد) اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیرِ ناف کی صفائی کرلو، اﷲ عز وجل کے ہاں یہی تمہاری کامل قربانی ہو گی۔”
فائدہ:
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا اس نے بھی پورا عشرہ بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی پابندی کرنی ہے
لوگوں کا یہ خیال درست نہیں ہے، حدیث میں اس شخص پر ان دس دنوں میں پابندی کی کوئی بات نہیں ہے بس اتنا ہے کہ وہ نماز عید سے فارغ ہو کر ایک دفعہ بال ناخن وغیرہ کاٹ لے (خواہ اس نے پورے عشرہ میں کاٹے ہوں یا نہ کاٹے ہوں) تو اسے قربانی کا اجر مل جائے گا
اونٹ اور گائے کے حصے
اس کی دو صورتیں ہیں :
01. حج کے موقع پر
02. حج کے علاوہ عام حالات میں
حج کے موقع پر
حج کے موقع پر اونٹ اور گائے دونوں میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :
 [ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّيْنَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ نَّشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ، وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِيْ بَدَنَةٍ ]  [ مسلم : 1318/351 ]
 ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے نکلے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹوں اور گائیوں میں شریک ہو جائیں، ہم میں سے ہر سات آدمی ایک بدنہ میں شریک ہو جائیں۔‘‘
حج کے علاوہ عام حالات میں
  حج کے علاوہ دوسرے مقامات پر عید الاضحی کے موقع پر اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں :
 [ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحٰی فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْجَزُوْرِ عَشْرَةً ]  [ ترمذي، : ۹۰۵،  صحیح ]
 ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو نحر (قربانی کا وقت) آگیا تو ہم نے گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی اور اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے۔‘‘
 ترمذی کے علاوہ اسے احمد، نسائی اور طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔
رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں
عَدَلَ عَشْرًا مِنْ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ (مسلم، كِتَابُ الْأَضَاحِي، 5093)
آپ نے(سب کے حصے تقسیم کرنے کے لیے) دس بکریوں کو ایک اونٹ کے مساوی قرار دیا۔
نماز عید سے قبل قربانی جائز نہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی:
 «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْبَحُ وَيَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى» (بخاری ،كِتَابُ الأَضَاحِيِّ،5552)
 کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( قربانی ) ذبح اور نحر عید گاہ میں کیا کرتے تھے ۔
جُندَب بَجَلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرمایا:
 مَنْ كَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ ذَبَحَ فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ(مسلم،كِتَابُ الْأَضَاحِي 5067)
 "جس نے نماز پڑھنے سے پہلے(اپنی قربانی کا جانور) ذبح کردیا تھا، وہ اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرے۔”
حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ
 میرے ماموں حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کردی
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ (مسلم كِتَابُ الْأَضَاحِي 5069)
” یہ گوشت کی ایک(عام) بکری ہے(قربانی کی نہیں۔)”
قربانی کے دن
قربانی کے دن کتنے ہیں؟ اس میں علماء کرام کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک تین اور بعض کے نزدیک چار دن ہیں راجح بات جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قربانی کے چار دن ہیں واللہ اعلم بالصواب
پہلی دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ  (الحج :28)
اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں
تفسیر القرآن الكريم میں ہمارے استاذ گرامی لکھتے ہیں :
’’ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ ‘‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں قربانی کی جاتی ہے اور وہ یوم النحراور اس کے بعد دو دن یا تین دن ہیں۔‘‘
یوم النحر کے بعد پورے ایام تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳) یعنی چار دن میں قربانی کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
[ كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ ]
’’ایام تشریق سارے ذبح کے دن ہیں۔‘‘
 شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’ مَنَاسِكُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ‘‘ میں فرمایا کہ اسے احمد نے روایت کیا اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور یہ میرے نزدیک اپنے مجموع طرق کے ساتھ قوی ہے، اسی لیے میں نے اسے سلسلہ صحیحہ (۲۴۷۶) میں درج کیا ہے۔ انتہی
اس روایت پر تسلی بخش بحث دیکھنے کے لیے اسی موضوع پر مولانا کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ تعالیٰ کا رسالہ  قربانی کے چار دن لائقِ مطالعہ ہے
دوسری دلیل
منی سارے کا سارا ذبح کرنے کی جگہ اور وقت ہے
منی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
 ” وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ ” (سنن أبي داود |1937)
منی سارے کا سارا منحر (نحر کرنے کی جگہ اور وقت) ہے
یہاں چار دن قربانی کے جواز کے لیے ہمارا استدلال لفظ "منحر” سے ہے یہ اسم ظرف کا صیغہ ہے جس میں زمان اور مکان دونوں آتے ہیں یعنی منَی کی ساری جگہ اور منی میں ٹھہرنے کا سارا عرصہ ہی ذبح کی جگہ اور وقت ہے
اسم ظرف کے بیک وقت زمان اور مکان دونوں کے لیے استعمال ہونے کی ایک دلیل قرآن کی یہ آیت بھی ہے
 فرمایا :
فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ مَكَانًا سُوًى (طه : 58)
تو ہم بھی ہر صورت تیرے پاس اس جیسا جادو لائیں گے، پس تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان وعدے کا ایک وقت طے کردے کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تو، ایسی جگہ میں جو مساوی ہو۔
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"مَوْعِدًا ‘‘ ظرف زمان بھی ہو سکتا ہے، مکان بھی اور مصدر میمی بھی، یعنی ہمارے ساتھ وہ وقت بھی طے کر لو جس میں مقابلہ ہو گا اور جگہ بھی”
مِنَی کی جگہ تو محدود اور متعین ہے جسے سبھی جانتے ہیں اب رہی بات کہ منی میں کتنا عرصہ ٹھہرنا ہوتا ہے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (البقرة : 203)
اور اللہ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو، پھر جو دو دنوں میں جلد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس شخص کے لیے جو ڈرے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جائو گے۔
یہ آیت مبارکہ منی میں ٹھہرنے کے متعلق ہے اس آیت میں وارد لفظ "أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ” کے متعلق عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا :
 ’’ایام معدودات ایام تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ) ہیں۔‘‘  [ بخاری : ۹۶۹ ]
 فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ : سے مراد یہ ہے کہ کوئی صاحب گیارہ اور بارہ کو (دو دن) جمرات کو کنکر مار کر چلا آئے تب بھی جائز ہے
 وَمَنْ تَأَخَّرَ : سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی تاخیر کرے یعنی پورے تین دن منیٰ میں ٹھہرا رہے تو بھی جائز ہے،  (ابن کثیر)
آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ منی میں ٹھہرنے کا عرصہ 11، 12 اور 13 تاریخ یعنی تین دن ہیں اور حدیث (كُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ) سے معلوم ہوا کہ منی کا سارا علاقہ اور سارا وقت ہی قربانی کی جگہ اور وقت ہے تو ان تین دنوں کے ساتھ چوتھا دن یوم النحر بھی شامل کریں تو لامحالہ قربانی کے ٹوٹل چار دن بنتے ہیں
پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے
اس کے کئی ایک دلائل اور شواہد ہیں
01.دس ذوالحجہ کے دن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ”
سنن ابی داؤد :1765
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے
02. دس ذوالحجہ کا دن عشرہ ذوالحجہ میں شامل اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ عشرہ تمام دنوں سے عظیم ترین ہے کہ ان دنوں کے عمل کا کوئی مقابلہ نہیں
لہذا اسی دن کے جملہ اعمال صالحہ سمیت قربانی کرنا افضل ہے
03. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دس ذوالحجہ کے دن قربانی کرنا ثابت ہے،لہذا آپ کا فعل بھی دس ذوالحجہ کے دن قربانی کی فضیلت و استحباب پر دال ہے۔
عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْبَحُ وَيَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى (صحیح البخاری :۵۵۵۲)
 رسول اللہﷺ عید الاضحی کے دن عید گاہ میں جانور ذبح کرتے تھے
رات کو قربانی
رات کے وقت قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ لفظ "ایام” کا اطلاق دن اور رات دونوں پر ہوتا ہے
ذبح کے آداب
ذبح کرنے میں احسان کریں اور احسان یہ ہے کہ چھری خوب تیز ہو
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهٗ فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهٗ ]  [ مسلم : ۱۹۵۵ ]
’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان یعنی اس سے اچھا سلوک کرنا فرض فرمایا ہے، سو تم جب قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور لازم ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے۔‘‘
 عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:رسول الله کے حکم پر قربانی کے لیے ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”(عائشة!) چھُری لاؤ۔ پھر فرمایا:
 اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ فَفَعَلَتْ ثُمَّ أَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ.” (صحیح مسلم: ١٩٦٧ ۔ سنن أبي داؤد: ٢٧٩٢)
 اس کو پتھر سے تیز کر لو۔ میں نے تیز کر دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور اسے ذبح کر دیا۔”
جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں
 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں:
ایک شخص بکری کو ذبح کرنے کے لیے لٹا کر چھُری تیز کر رہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے مخاطب ہو کر) فرمایا:
"أَتُرِيدُ أَنْ تُمِيتَهَا مَوْتَاتٍ؟ هَلا حَدَدْتَ شَفْرَتَكَ قَبْلَ أَنْ تُضْجِعَهَا.” (المستدرك على الصحيحين: ٧٥٦٣ ۔ المعجم الأوسط للطبراني: ٣٥٩٠ وسندہ صحیح)
”کیا توُ اسے کئی موتیں مارنا چاہتا ہے؟ توُ نے اسے لٹانے سے قبل چھُری تیز کیوں نہیں کرلی؟”
جانور کو لٹا کر اس کے پہلو پر اپنا پاؤں رکھ کر بسم اللہ اکبر پڑھیں
 انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : [ ضَحَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صِفَاحِهِمَا يُسَمِّيْ وَيُكَبِّرُ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهٖ]  [بخاري : ۵۵۵۸۔ مسلم : ۱۹۶۶ ]
 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ’’ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ ‘‘ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔‘‘
 صحیح مسلم میں ہے
سَمَّى وَكَبَّرَ
مسلم كِتَابُ الْأَضَاحِي، 5088
 آپ نے اللہ کا نام لیا(بسم اللہ پڑھی ) اور تکبیر کہی
صحیح مسلم ہی میں ہے انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذبح کرتے تو
بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ
کہتے
مسلم كِتَابُ الْأَضَاحِي،5090
ذبح کے وقت یہ دعا بھی پڑھ سکتے ہیں
 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا :
 بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ ضَحَّى بِهِ
مسلم كِتَابُ الْأَضَاحِي،5091
 کہ بسم اللہ، اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آل کی طرف سے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔
اونٹ کو ذبح کی بجائے نحر کریں
 ابن عمر رضی اللہ عنھما ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس نے اپنی اونٹنی بٹھا رکھی تھی اور اسے نحر کر رہا تھا تو فرمایا :
ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً ؛ سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ بخاري : ۱۷۱۳]
 ’’اسے کھڑا کرکے پاؤں باندھ کر نحر کرو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘
اونٹ نحر کرنے کا طریقہ
اس کا طریقہ یہ ہے کہ اونٹ کو اگلی بائیں ٹانگ بندھی ہونے کی حالت میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے سینے کے گڑھے میں، جہاں سے گردن شروع ہوتی ہے، کوئی برچھا یا نیزہ یا چھرا ’’بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ‘‘ پڑھ کر مارا جاتا ہے جس سے خون کا پرنالہ بہ نکلتا ہے، بہت سا خون نکل جانے پر اونٹ دائیں یا بائیں کروٹ پر گر پڑتا ہے۔ اس کی جان پوری طرح نکلنے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا گوشت کا کوئی ٹکڑا کاٹنا منع ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (الحج : 36)
اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھائو اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم شکر کرو۔
اس آیت کریمہ کے الفاظ
’’ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا ‘‘
 (جب ان کے پہلو گر پڑیں) سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اونٹوں کو کھڑا کرکے نحر کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ان کے پہلو پہلے ہی زمین پر ہوں تو وہ کیسے گریں گے؟
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ
اونٹ کا کون سا گھٹنا باندھیں، دائیاں یا بائیاں؟
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
 [ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهٗ كَانُوْا يَنْحَرُوْنَ الْبَدَنَةَ مَعْقُوْلَةَ الْيُسْرٰی قَائِمَةً عَلٰی مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا ] [ أبوداوٗد : ۱۷۶۷ و صححہ الألباني ]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اونٹوں کو اس طرح نحر کرتے تھے کہ ان کے اگلے بائیں پاؤں کا گھٹنا بندھا ہوتا اور وہ باقی ٹانگوں پر کھڑے ہوتے۔‘‘
 عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ اونٹوں کو تین ٹانگوں پر کھڑا کر کے نحر کیا جائے، اس طرح کہ ان کی اگلی بائیں ٹانگ اکٹھی کرکے باندھی ہوئی ہو۔
[ طبري بسند ثابت ]
عوام الناس میں پائی جانے والی ایک اہم غلطی
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو یوں اونٹ نحر کرتے دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے اونٹ کا دائیاں گھٹنا باندھا ہوتا ہے اس میں دو خرابیاں ہیں :
ایک تو یہ سنت کے خلاف ہے کیونکہ سنت یہ ہے کہ بائیاں گھٹنا باندھا جائے
 دوسرا اس وجہ سے بہت سے نقصانات بھی دیکھے گئے ہیں کہ جب اونٹ اچھلتا ہے تو اس کا گھٹنا نحر کرنے والے کی چھاتی پہ لگتا ہے
عورت بھی ذبح کر سکتی ہے
اس میں کوئی حرج نہیں ہے
بھاگے ہوئے جانور کو فائر مار کر ذبح کرنا
رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَإِذَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا شَيْءٌ فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا (مسلم كِتَابُ الْأَضَاحِي،5092)
اونٹوں میں سے ایک اونٹ بگڑ گیا، ایک شخص نے اس کو تیر سے مارا تو وہ ٹھہر گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان اونٹوں میں بھی بعض بگڑ جاتے ہیں اور بھاگ نکلتے ہیں جیسے جنگلی جانور بھاگتے ہیں۔ پھر جب کوئی جانور ایسا ہو جائے تو اس کے ساتھ یہی کرو۔ (یعنی دور سے تیر سے نشانہ کرو)۔
قربانی کے گوشت کا مصرف
قربانی کرنے والا خود بھی کھا سکتا ہے
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ أَنَّ الْبُدْنَ الَّتِيْ نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ مِئَةَ بَدَنَةٍ نَحَرَ بِيَدِهٖ ثَلاَثًا وَّ سِتِّيْنَ وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِيْ قِدْرٍ ثُمَّ شَرِبَا مِنْ مَرْقِهَا ]  [ مسند أحمد : 331/3، ح : ۱۴۵۶۱ ]
 ’’وہ اونٹ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کیے ایک سو اونٹ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (۶۳) اونٹ نحر کیے اور باقی علی رضی اللہ عنہ نے کیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا جو ایک دیگ میں ڈالے گئے، پھر دونوں نے اس کا کچھ شوربا پیا۔‘‘
 شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے
«أَمَرَ مِنْ كُلِّ جَزُورٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ، فَأَكَلُوا مِنَ اللَّحْمِ، وَحَسَوْا مِنَ الْمَرَقِ»( ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ،3158)
 کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سےہر اونٹ کی ایک ایک بوٹی لے کر ہنڈیا میں ڈالی (اور پکائی گئی ۔) تب انہوں نے (رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ) کچھ گوشت کھایا اور کچھ شوربہ پیا ۔
دوسروں کو بھی کھلائیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (الحج : 28)
سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
اور فرمایا :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (الحج :36)
تو ان سے کچھ کھائو اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔
ہمارے استاذ گرامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فَكُلُوْا ‘‘ میں ’’فاء‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کی جان پوری طرح نکلنے کے بعد جتنی جلدی ہو سکے اس کا گوشت کھانے اور کھلانے کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ قربانی کے گوشت ہی سے ناشتہ کرنا مستحب ہے۔
قربانی کا گوشت ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے
ایک سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ رکھنے سے منع کر دیا تھا پھر اگلے سال کھلی اجازت دے دی تھی
 جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :
 أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ قَالَ بَعْدُ كُلُوا وَتَزَوَّدُوا وَادَّخِرُوا (مسلم، كِتَابُ الْأَضَاحِي، 5104)
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فر ما یا :
” کھا ؤ اور زاددراہ بناؤ اور رکھو۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پہ ایک بکری بطور  اضحیہ قربان فرمائی اور ثوبان رضی اللہ عنہ کو گوشت سنبھالنے کا حکم دیا، وہ مدینہ پہنچنے تک وہی گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھاتے رہے
صحیح مسلم ١٩٧٥ سنن ابی داود ٢٨١٤
پندرہ دن تک ذخیرہ
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :‏‏‏‏
 لَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَيَأْكُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ .(سنن ابن ماجہ 3313،صحیح )
 ہم لوگ قربانی کے گوشت میں سے پائے اکٹھا کر کے رکھ دیتے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ روز کے بعد انہیں کھایا کرتے تھے
پورا سال ذخیرہ
یزید بن ابی یزید انصاری کی بیوی نے سیدہ عائشہ  رضی ‌اللہ ‌عنہا سے قربانیوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: سیدنا علی  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی سفر سے ہمارے پاس واپس آئے، ہم نے ان کو قربانی کا گوشت پیش کیا، انھوں نے کہا: میں اس وقت تک یہ نہیں کھاؤں گا، جب تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  سے پوچھ نہیں لوں گا، پھر جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  سے پوچھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:
 ((کُلُوْہُ مِنْ ذِي الْحِجَّۃِ إِلٰی ذِي الْحِجَّۃِ۔))  (مسند أحمد: 25218،حسن)
  تم اس گوشت کو ایک ذوالحجہ سے دوسرے ذوالحجہ تک کھا سکتے ہو۔
قربانی کا گوشت بطور اجرت قصاب کو دینا ممنوع ہے۔ اور بیچنا بالاولی ناجائز ہے۔
علی بن ابی الطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا:
"أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا.”
(صحیح البخاري: ١٧١٧ ۔ صحیح مسلم: ١٣١٧)
”وہ قربانی کے اونٹوں کی نگہداشت کریں اور ان کا گوشت چمڑا اور جھولیں سب خیرات کر دیں۔ نیز قصاب کو بطور اُجرت ان میں سے کوئی چیز نہ دیں۔”
قربانی کی کھال بیچنا بھی منع ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ.”(المستدرك على الصحيحين: ٣٤٦٨ ۔ السنن الكبير للبيهقي: ١٩٢٥٩ وسندہ حسن لذاته)
”جس شخص نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی تو اس کی قربانی نہیں۔”
قربانی کی کھال کا مصرف
اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے مساکین میں تقسیم کیا جائے
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، لِلْمَسَاكِينِ
(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ،3157)
 کہ رسول اللہ ﷺ نےانہیں حکم دیا کہ وہ آپ کے (قربانی کے )تمام اونٹوں کا گوشت ، ان کی کھالیں اور جھولیں غریبوں میں تقسیم کردیں
قربانی اور عقیقے کو جمع کرنا
 قربانی اور عقیقے کو جمع نہیں کرسکتے کہ بکرے کو قربانی اور عقیقے دونوں کی نیت سے قربان کیا جائے اور نہ ہی بڑے جانور میں عقیقے کا حصہ ڈال سکتے ہیں، عقیقہ ہوتا ہی چھوٹے جانور کا ہے