لوگوں کو بھلائی کی دعوت دینا

ارشاد ربانی ہے: ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ) (سورة جمعہ آيت:2).

ترجمہ: وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ﴿كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾ (سورة آل عمران: آیت:110)۔

ترجمہ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔

عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عُقبة بن عَامِرٍ الْأَنْصَارِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرٍ فَاعِلِهِ. (اخرجه مسلم)

(صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب فضل إعانة الغازي في سبيل الله بمركوب وغيره و خلافته)

ابو مسعود عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو کوئی نیکی کی راہ بتادے اس کو اتناہی ثواب ہے جتنا نیکی کرنے والے کو۔

وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى هُدى كَانَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورٍ، مَنْ بَعَهُ، لَا يَنقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آتَامٍ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثامهم شيئًا. (اخرجه مسلم)

(صحيح مسلم، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلى هدى أو ضلالة.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس کو ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی پیروی کرنے والوں کو ملے گا۔ مگر اس سے ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہوگی اور جو کسی کو کسی گمراہی کی طرف بلائے گا تو اس پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کا اتنا وبال بھی ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے۔ اور ان کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔

وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إنَّ اللهَ وَمَلائِكَتَهُ وَ أَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَير. (أخرجه الترمذي)

(سنن ترمذی: أبواب العلم عن رسول الله باب ماجاء في فضل الفقه على العبادة، وقال حسن صحيح. وصححه الألباني في المشكاة رقم (213)

ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل کرتا ہے، اس کے فرشتے ، اور زمین و آسمان میں بسنے والی تمام مخلوقات حتی کی چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی (سمندر میں ) اس کے لئے دعائے خیر کرتی ہے۔

تشریح:

اللہ تعالی نے انبیاء کرام کو دینی تعلیم اور بھلائی کی دعوت دینے کی غرض سے مبعوث کیا ہے ان کے بعد انہیں کے نقش قدم پر چلنے والے علماء کرام کو اس کام کے لئے منتخب کیا ہے۔ اللہ تعالی ایسے لوگوں پر اپنی خاص توجہ رکھتا ہے جو لوگوں کو بھلائی ، نیکی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تعلیم دیتے ہیں حتی کہ ان کے لئے فرشتے ، زمین و آسمان کی ساری مخلوقات اور مچھلیاں تک بھی دعائے خیر کرتی رہتی ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تعلیم کو عام کرنے کی توفیق بخشے۔

فوائد:

٭ انبیاء کرام کی بعثت کا اولین مقصد لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینا ہے۔

٭ اللہ تعالی کی خصوصی توجہ دینی تعلیم دینے والوں پر ہوتی ہے۔

٭ خیر کی دعوت دینے والوں کے لئے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات دعائے

مغفرت کرتی رہتی ہیں۔