لڑائی جھگڑے سے دور رہنا

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللهِ اَلالَدُّ الخَصِم، (رواه البخاري ومسلم)

(التخريج صحيح بخاری، کتاب المظالم والغضب، باب قول الله تعالى وهو الد الخصام، صحيح مسلم كتاب العلم، باب في الألد الخصم.)

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کے یہاں سب سے زیادہ ناپسند وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔

وَعَنْ أَبِي أَمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَا ضَلَّ قَومٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الجَدَلَ، ثم تَلَا هٰذِهِ الآية: ﴿مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلاً بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ﴾ (أخرجه الترمدي).

(سنن ترمذی: ابواب تفسير القرآن عن رسول اللهﷺ، باب ومن سورة الزخرف، وقال حسن صحيح، وحسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه: 48)

ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو قوم بھی ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہوئی تو اس وجہ سے کہ وہ جھگڑے میں لگ گئی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿مَا ضَرَبُوْهُ لَکَ إِلَّا جَدَلا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ﴾ (سوره زخرف: آیت:58)

تجھ سے ان کا یہ کہنا کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔

وَعَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَى وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّى مَجْلِسًا يومَ القِيامَةِ أحَاسِنَكُم أَخْلاقا، وَإِنَّ مِنْ أَبْعَضِكُم إِلَى وابْعَدكُمْ مِنِّى مَجْلِسًا يومَ القِيامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالمُتَشَدِّقُونَ وَالمُتَفَيهِقُونَ قالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارِينَ وَالمَتَشَدِّقِينَ، فَمَا المُتَفَيهِقُوْنَ؟ قَالَ: المُتَكَبِّرُونَ۔ (أخرجه الترمذي)

(سنن ترمذی: أبواب البر والصلة عن رسول اللهﷺ، باب ماجاء في معالى الأخلاق، حديث حسن غريب وصححه الألباني في الصحيحة:751).

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے قیامت کے دن میرے نزدیک محبوب ترین اور میرے قریب بیٹھنے والوں میں سے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور قیامت کے دن میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ ناپسند اور مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جوثر تارین یعنی بہت باتیں کرنے والے ، متشدقین یعنی بڑ مارنے والے دہن دراز اور متفہیقون ہیں، صحابہ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! ہم نے ثرثارین اور متشدقین کا مطلب تو جان لیا لیکن متفیہقوں سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، متکبر اور گھمنڈی۔

امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ثرثار سے مراد وہ شخص ہے جو بتکلف زیادہ بات کرے، اور متشدق سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی باتوں کے ذریعہ فخر کا اظہار کرے اور اپنے کلام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور سب پر فوقیت دے، البتہ متفیہق سے مراد وہ آدمی ہے جو تکبر سے باتیں کرے اور خوب کرے نیز تکبر اور گھمنڈ کے سبب عجیب و غریب کلام کرے اور دوسروں کے اوپر اپنی برتری کا اظہار کرے۔

تشریح:

اسلام نے قتل و غارت گری اور لڑائی و جھگڑا سے دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اور یہی چیز مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی قطع رحمی اور بغض و حسد کا سبب بنتا ہے اس لئے رسول اکرم ﷺ نے اس عظیم آفت سے لوگوں کو خبر دار کیا ہے اور اس سے بچنے والے کے لئے قیامت کے دن اپنی قربت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

فوائد:

٭ نبی ﷺ نے مخاصمت سے منع فرمایا ہے۔