لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے

==============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [المطففين : 1]

بڑی ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ۔

الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ [المطففين : 2]

وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔

وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ [المطففين : 3]

اور جب انھیں ماپ کر، یا انھیں تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔

مطفف کا مطلب

’’اَلطَّفِيْفُ‘‘ بالکل تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ ’’صاع‘‘ بھرا ہوا ہو، مگر پورا بھرنے سے کم ہو تو اس کمی کو ’’طَفَّ الصَّاعُ‘‘ کہتے ہیں۔ چونکہ ماپ تول میں کمی کرنے والا کوئی بڑا مال نہیں چراتا بلکہ تھوڑی سی چیز چراتا ہے، اس لیے اسے ’’اَلْمُطَفِّفُ‘‘ کہتے ہیں۔

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

پیمانے میں تبدیلی کی بعض معاشرتی صورتیں

گندم کا آٹا بنانے والی چکی والے ایک صاحب کے متعلق معلوم ہوا کہ اس نے اپنی دوکان پر بیس کلو کے دو باٹ رکھے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک کو نیچے سے بلیڈ یا کٹر وغیرہ کی مدد سے تراش کر تقریباً پاؤ آدھ کلو وزن کم کیا ہوا ہے

اب اگر کوئی اس کی دوکان پر پسوانے کے لیے دانے لے کر آتا ہے تو پورے باٹ سے وزن کرتا ہے اور اگر کوئی آٹا خریدنے آتا ہے تو تراشے ہوئے باٹ سے وزن کرکے دیتا ہے

پٹرول اور ڈیزل بیچنے والی ایجنسیوں کے بعض مالکان پلاسٹک کی لیٹر اور ڈیڑھ لیٹر والی بوتلوں کو پہلے گرم پانی میں پھینکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کچھ سکڑ جاتی ہیں اور ان کا اندرونی حجم کم ہوجاتا ہے پھر ان میں تیل ڈال ڈال کر لوگوں کو فروخت کرتے ہیں

پٹرول پمپ پہ کام کرنے والے ایک بھائی نے بتایا کہ بعض پمپوں والے مشین کی سکرین پر نظر آنے والے نمبروں میں کوئی ایسی سیٹنگ کرتے ہیں کہ پچانوے کا تیل ڈلے گا تو سکرین پر سو شو ہوگا اور اگر ایک سو نوے کا ڈلے گا تو سکرین پر دوسو ظاہر ہوگا

یہ اور دیگر پیمانوں میں اس طرح کی خرد برد، تطفیف کی مختلف شکلیں ہیں اور ایسا کام کرنے والے مطففین ہیں اور ان کے لیے ہلاکت ہے

پورا تولنے کے متعلق حکم الہی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا  [الإسراء : 35]

اور ماپ کو پورا کرو، جب ماپو اور سیدھی ترازو کے ساتھ وزن کرو۔ یہ بہترین ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت زیادہ اچھا ہے۔

سورہ رحمن میں ہے

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ [الرحمن : 7]

اور آسمان، اس نے اسے اونچا اٹھایا اور اس نے ترازو رکھی۔

أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ [الرحمن : 8]

تاکہ تم ترازو میں زیادتی نہ کرو۔

وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ [الرحمن : 9]

اور انصاف کے ساتھ تول سیدھا رکھو اور ترازو میں کمی مت کرو۔

ماپ تول میں کمی بیشی کرنے والی ایک قوم کا خطرناک انجام

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ [هود : 84]

اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول کم نہ کرو، بے شک میں تمھیں اچھی حالت میں دیکھتا ہوں اور بے شک میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتاہوں۔

وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [هود : 85]

اور اے میری قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد کر تے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔

سورہ شعراء میں اس خطاب کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے

فرمایا

أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ [الشعراء : 181]

ماپ پورا دو اور کم دینے والوں میں سے نہ بنو۔

وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ  [الشعراء : 182]

اور سیدھی ترازو کے ساتھ وزن کرو۔

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [الشعراء : 183]

اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔

قوم نے ماننے کی بجائے انکار کر دیا

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ [هود : 87]

انھوں نے کہا اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم انھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے، یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں کریں جو چاہیں، یقینا تو توُ نہایت بردبار، بڑا سمجھ دار ہے۔

اس قوم کا انجام

فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ [الأعراف : 91]

تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا، تو انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے گھر میں گرے پڑے تھے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ناپنے اور تولنے والوں سے ارشاد فرمایا

” إِنَّكُمْ وُلِّيتُمْ أَمْرَيْنِ هَلَكَ فِيهِمَا أُمَمٌ سَالِفَةٌ قَبْلَكُمْ ". (ترمذی شریف۱/۱۴۶)

تمہارے ہاتھ میں دو ایسے کام ہیں جن کے سبب تم سے پہلے قومیں ہلاک ہوئیں(یعنی پورا وزن نہ ناپنے اور کم دینے کے سبب ہلاک ہوئیں تم ایسا نہ کرنا)

ماپ تول میں کمی کی وجہ سے تین قسم کے عذاب آتے ہیں

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ، إِلاَّ أُخِذُوْا بِالسِّنِيْنَ، وَشِدَّةِ الْمَؤُوْنَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ ]

[ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ۴۰۱۹ ]

’’جو قوم بھی ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالیوں، سخت مشقت اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے۔‘‘

شیخ البانی رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم کی سند کی وجہ سے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔

[ دیکھیے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۱۰۶ ]

تولتے وقت ترازو جھکانے کا حکم

حضرت سعید بن قیس ؓ نے فرمایا: میں اور حضرت مخرفہ عبدی ؓ ہجر (کے شہر) سے کپڑا لائے۔ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہم سے ایک شلوار کا سودا کیا۔ ہمارے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت پر تولتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وزن کرنے والے سے فرمایا

” يَا وَزَّانُ زِنْ وَأَرْجِحْ ” [ابن ماجة 2220]

اے وزن کرنے والے وزن کر اور پلڑا جھکا کر رکھ

ادائیگی میں اچھائی اپنانے کا حکم

جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَى وَإِذَا اقْتَضَى [بخاری :2076]

اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدا ہوا اونٹ واپس کیا اور ساتھ اس کی قیمت بھی واپس کردی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے اونٹ خریدا اور قیمت کی ادائیگی کے وقت فرمایا

خذ جملک ودراھمک [بخاری 2305]

اپنا اونٹ بھی لے جا اور اس کی قیمت بھی لے جا

اور ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے ایک اونٹ خریدا طے یہ ہوا تھا کہ اس کے بدلے آپ کو ایک اور اونٹ دیا جائے گا تو جب متبادل دینے کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اونٹ لیا تھا اس سے اچھا اونٹ واپس کیا

امانت دار تاجر کا اچھا انجام

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ [ترمذي 1209]

سچا اور امانت دار تاجر( قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا’

خیانت کرنے والے تاجر کا برا انجام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا ، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا :

’’ غلے کے مالک! یہ کیا ہے ؟‘‘

اس نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! اس پر بارش پڑ گئی تھی ۔

آپ نے فرمایا :

’’ توتم نے اسے ( بھیگے ہوئے غلے ) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے ؟

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي

"جس نے دھوکا کیا ، وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘

ماپ تول میں کمی بیشی کرنے، لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانوں کی چند معاشرتی مثالیں

ایک شخص دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتا ہے اور وہی دودھ میں پانی ڈالنے والا جب گوشت لینے جاتا ہے تو گوشت بیچنے والے کو گالیاں نکال رہا ہوتا ہے کہ اس نے گوشت کو پانی لگا رکھا ہے

اور گوشت میں پانی لگانے والا

جب پٹرول پمپ سے تیل لینے جاتا ہے تو پٹرول پمپ والے کو گالیاں نکال رہا ہوتا ہے کہ اس نے میری موٹر سائیکل میں کم اور دو نمبر پٹرول ڈالا ہے

اور دو نمبر پٹرول بیچنے والا جب شہد والے سے شہد خریدنے جاتا ہے تو شہد بیچنے والے کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے کہ اس نے شہد میں چینی ملا رکھی ہے

اور شہد میں چینی ملانے والا جب میڈیکل سٹور سے میڈیسن خریدنے جاتا ہے تو میڈیکل سٹور والے کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے کہ وہ دو نمبر دوائی بیچتے ہیں

الغرض ہمارے معاشرے کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ لوگ خود تو دوسروں کو کم، دو نمبر اور ناقص چیزیں دیتے ہیں اور دوسروں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ انہیں پورا، خالص اور ایک نمبر دیں

یہ سب تطفیف کی مختلف شکلیں ہیں

جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ". [بخاری 13]

تم سے کوئی بھی تب تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ سب کچھ پسند نہیں کرتا جو اپنے لیے پسند کرتا ہے

ایک کلو کی پیکنگ میں نو سو گرام چینی

حکایت مشہور ہے کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے جانوروں کے دودھ سے گھی بنا کر شہر میں لاکر کسی سوداگر کو بیچتا اور اس سے گھر کی ضرورت کی چیزیں چینی، دالیں وغیرہ لے جاتا ہے

ایک دن سوداگر نے دیہاتی کے گھی کا وزن کیا تو وہ پورے کلو کی بجائے نوسو گرام تھا اس نے دیہاتی کو پکڑ لیا اور اسے کوسنا شروع کر دیا کہ تو میرے ساتھ دھوکہ کرتا ہے اور مجھے کم وزن دیتا ہے دیہاتی بے چارہ کہنے لگا کہ دیکھو میرے گھر میں تو وزن کرنے والا باٹ ہی نہیں ہے دراصل میں آپ کی دوکان سے ایک کلو چینی لے کر گیا تھا اور اسی کے وزن کے برابر گھی تول کر لے آیا ہوں آپ پہلے اپنی چینی کا وزن چیک کریں تو جب اس کی دوکان پر چینی کے کلو کلو کی پیکنگ والے پیکٹ چیک کیے گیے تو وہ ہی نوسو گرام کے نکلے

الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ

وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ

جانوروں کے تھنوں میں دودھ روک کر دھوکہ دینا

دھوکہ دہی کی ایک پرانی اور قبیح شکل یہ بھی ہے کہ دودھ والے جانور کو بیچنے سے پہلے اس کا دودھ روک لینا

کھیرے جانور کو قربانی کے موقع پر دوندا ثابت کرنے کے لیے خود ہی اس کے سامنے کے دانت توڑ دینا

سینگوں والے جانور کے سینگ نکال دینا

جانور بیچنے کے لیے یہ سب شیطانی کام کیے جاتے ہیں جبکہ یہ کام کرنے والوں میں سے کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ ان کے ساتھ بھی اسی قسم کا کوئی فراڈ کیا جائے

جھوٹ بول کر مال کمانے کے متعلق سخت وعید

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنِ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينٍ كَاذِبَةٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ". [بخاری 7445]

جو شخص جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال کھاتا ہے تو قیامت کے دن جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سخت غصہ والے ہوں گے

اور مسلم کی روایت میں ہے

” مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ فَقَدْ أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ” [137]

اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے جہنم کی آگ لازم کردیتے ہیں اور اس پر جنت حرام کردیتے ہیں

لینے اور دینے کے پیمانوں میں تفاوت صرف مال ہی نہیں اخلاقیات میں بھی مذموم ہے

کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے لیے انصاف طلب کرتے ہیں اور خود دوسروں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں

ایک افسر اپنے سے نیچے لوگوں سے رشوت لیتا ہے مگر جب کبھی اپنے سے بڑے افسر سے واسطہ پڑے اور وہاں رشوت دینی پڑ جائے تو بڑبڑاتا ہے

کتنے لوگ ایسے ہیں جو خادموں، نوکروں، مزدوروں اور ملازموں سے خدمت اور مزدوری کا کام ٹھوک بجا کر لیتے ہیں اور ان کا حق الخدمت، اجرت اور مزدوری کم دیتے ہیں

اور کتنے ہی خادم، مزدور اور نوکر ایسے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کے کام اور خدمت میں کمی، سستی کرتے ہیں اور حق الخدمت، مزدوری و اجرت پوری وصول کرتے ہیں

بیٹی اور بہو میں تفریق

بہت سے لوگ اپنی بیٹی سے متعلق یہ زہن رکھتے ہیں کہ وہ سسرال جا کر کوئی کام نہ کرے

مگر اپنی بہو سے گھر کے سبھی کام لیتے ہیں

لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی اپنے خاوند کے ساتھ اپنی ساس اور سسر سے علیحدہ ہو کر الگ سے کسی مکان میں رہے

مگر

جب یہی مطالبہ اپنی بہو کی طرف سے سنتے ہیں تو سیخ پا ہوجاتے ہیں

ایک عورت اپنے شوہر کو گھر میں علیحدگی پر مجبور کرتی ہے

مگر

وہی عورت والدین کے گھر جا کر اپنے بھائیوں کو اکٹھا رہنے کی تلقین کرتی ہے

والدین اپنی طلاق یافتہ بیٹی کی تو دوبارہ شادی کروانا چاہتے ہیں

مگر

اپنے بیٹے سے ایک طلاق یافتہ لڑکی کی شادی نہیں کروانا چاہتے

بیٹے اور داماد میں فرق

لوگ اپنے داماد کی تعریف کرتے ہیں جب وہ ان کی بیٹی سے اچھا سلوک کرے کھلا خرچ کرے اور اس کی ضروریات کا خوب خیال کرے

مگر

جب یہی رویہ اپنا بیٹا اپنی بیوی سے اپنائے تو برا مانتے ہیں

بہن اور بیوی میں تفریق

مرد کی تربیت کا تب پتہ نہیں چلتا جب وہ اپنی بہن بیٹی کو خوش رکھے بلکہ پتہ تب چلتا ہے جب کسی کی لائی ہوئی بہن بیٹی اس سے خوش ہو

اپنی نظر میں حیاء پیدا کر تاکہ تیری ماں، بہن، بیٹی دوسروں کی نظر سے محفوظ رہے

رکشے یا موٹر-سائیکل پہ بیٹھی دوسروں کی بہن بیٹی کو دیکھتا ہے

مگر

جب کوئی اس کی بہن بیٹی کو دیکھے تو غصہ کرتا ہے

الغرض یہ بھی تطفیف کی مختلف شکلیں ہیں جو ہمارے اخلاقی رویوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [المطففين : 1]

بڑی ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ۔

الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ [المطففين : 2]

وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔

وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ [المطففين : 3]

اور جب انھیں ماپ کر، یا انھیں تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔