مسجد کی اہمیت، فضیلت اور آداب

 

مساجد، اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جگہیں ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ أَسْوَاقُهَا ” [ مسلم، المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ… : ۶۷۱ ]

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام بلاد (جگہوں) میں سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام بلاد (جگہوں) سے زیادہ نا پسند ان کے بازار ہیں۔‘‘

مساجد اللہ کے گھر ہیں اور ان میں اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ،بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ)

اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔

مسجد بنانے کی فضیلت

امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ ". [ بخاری، الصلاۃ، باب من بنی مسجدًا : ۴۵۰ ]

’’جو کوئی مسجد بنائے جس کے ساتھ وہ اللہ کا چہرہ طلب کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس جیسا (گھر) جنت میں بنائے گا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يُصَلَّى فِيهِ ؛ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ فِي الْجَنَّةِ أَفْضَلَ مِنْهُ ” (مسند احمد 16005)

جس نے مسجد بنائی کہ اس میں نماز پڑھی جائے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں اس سے افضل بنائے گا

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ أَوْ أَصْغَرَ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (ابن ماجة، كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ،بَابُ مَنْ بَنَى لِله مَسْجِدًا،738)

’’جس نے اللہ کے لئے قطات کے گھونسلے جتنی یا اس سے بھی چھوٹی مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تیار کرے گا۔‘‘

إن الله لينادي يوم القيامة أين جيراني أين جيراني قال فتقول الملائكة ربنا ومن ينبغي أن يجاورك فيقول أين عمار المساجد )

الصفحة أو الرقم : 512 / 2728

خلاصة حكم المحدث : صـحـيـح

اسم الكتاب : السلسلة الصحيحة

مسجد بنانا ایسا نیک عمل ہے جو مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ (ابن ماجه 242)

مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا ۔

مسجد میں، اپنے فن، ہنر، پیشے یا کاروبار سے متعلقہ کوئی چیز بنا کر رکھنا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ أَجْعَلُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُلاَمًا نَجَّارًا؟ قَالَ: «إِنْ شِئْتِ» فَعَمِلَتِ المِنْبَرَ (بخاری، كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا،450)

ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا دوں جس پر آپ بیٹھا کریں۔ میرا ایک بڑھئی غلام بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو منبر بنوا دے۔

فخریہ اور تقابلی انداز سے مسجد بنانا منع ہے

اسلام نے جہاں مساجد تعمیر کرنے اور بنانے کی ترغیب دی ہے وہاں پر ہی اس بات سے بھی سختی کے ساتھ منع کیا ہے کہ مساجد کی تعمیر اور انہیں بنانے میں فخر، ریا اور مقابلہ بازی کا عنصر نہیں ہونا چاہیے

سیدنا انس ؓ سے روايت ہے كہ نبی کریم ﷺ نے فرمايا

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ (ابو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بابٌ فِي بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ،449)

” قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ لوگ مساجد میں باہم فخر نہیں کرنے لگیں گے ۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد بنانے کا جذبہ

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

فَلَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً وَأُسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاري 3694)

کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فلم بنو عمرو بن عوف کے ہاں دس سے کچھ اوپر چند راتیں ٹھہرے تو آپ نے وہاں اس مسجد کی بنیاد رکھی کہ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ایک بھی مسجد نہیں تھی مگر آپ کی وفات کے وقت مدینہ منورہ میں دس کے قریب مساجد بن چکی تھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی تعمیر میں بذات خود حصہ لیتے ہیں

صحیح بخاری میں مسجد نبوی کی تعمیر کا واقعہ ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین فرماتے

ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا، وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُولُ، وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ: هَذَا الحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَرْ، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرْ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّ الأَجْرَ أَجْرُ الآخِرَهْ، فَارْحَمِ الأَنْصَارَ، وَالمُهَاجِرَهْ (بخاری، کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ،بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ،3906)

مسجد کی تعمیر کے وقت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے ۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ” یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں باقی رہنے والا ہے اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما تے تھے کہ ” اے اللہ ! اجر تو بس آخرت ہی کا ہے پس ، تو انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما “

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں

أَنَّهُمْ كَانُوا يَحْمِلُونَ اللَّبِنَ لِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ قَالَ فَاسْتَقْبَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَارِضٌ لَبِنَةً عَلَى بَطْنِهِ فَظَنَنْتُ أَنَّهَا قَدْ شُقَّتْ عَلَيْهِ قُلْتُ نَاوِلْنِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ خُذْ غَيْرَهَا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَإِنَّهُ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ (مسند احمد 8728)

کہ وہ مسجد کی تعمیر کے لئے اینٹیں اٹھا رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے سے دیکھا کہ آپ نے اینٹیں اٹھائی ہوئی تھی میں نے خیال کیا کہ اس وجہ سے آپ پر مشقت ہو رہی ہے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ اینٹیں آپ مجھے پکڑا دیں تو آپ نے فرمایا اے ابو ہریرہ آپ اس کے علاوہ اینٹیں پکڑ لو کیونکہ زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اذان کی آواز سنتے ہی مسجد کی طرف چلے آتے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے اتنی محبت کرتے کہ سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلَّى فِيهِ (رواہ البخاری معلقا 432)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد میں جاتے اور وہاں نماز ادا کرتے

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ قَالَ لِي ادْخُلْ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ (بخاري 2921)

میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا جب ہم مدینہ واپس آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد میں جاؤ اور دو رکعتیں ادا کرو

انتہائی شدید تکلیف کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے سہارے مسجد تشریف لاتے ہیں

مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بہت ہی زیادہ خراب تھی ایک دن نبیﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دوآدمیوں عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت ابو بکرؓ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ آپﷺ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ اوران دونوں حضرات سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ آپﷺ کو ابوبکرؓ کے دائیں بٹھا دیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے ابو بکرؓ رسول اللہﷺ کی نماز کی اقتدا کرر ہے تھے۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکبیر سنا رہے تھے (بخاری 687)

مسجد کے ساتھ دلی لگاؤ رکھنے والے کو اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ دیں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ…….. وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ (بخاري ،كِتَابُ الأَذَانِ،بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ،660)

سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔…….. (ان میں سے ایک) ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے

مسجد آباد کرنے کی فضیلت

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (توبہ آیت18)

اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا۔ تو یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والوں سے ہوں گے۔

کسی نمازی کی وجہ سے مسجد چھوڑ دینا

بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ آپس میں کسی لڑائی کی وجہ سے یا کسی نمازی کی باتوں کی وجہ سے یا انتظامیہ میں سے کسی کی مخالفت کی وجہ سے مسجد کو چھوڑ دیا جاتا ہے یا مسجد کے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا جاتا ہے

ایسے لوگوں کا یہ فیصلہ بالکل درست نہیں ہوتا بھلا آپس کی لڑائی میں مسجد جو اللہ کا گھر ہے اس کا کیا قصور ہے

اگر آپ مسجد کے ساتھ اللہ کے لیے تعاون کرتے ہیں اور اس کو اللہ کا گھر سمجھتے ہیں تو پھر کسی کی مخالفت یا کسی کی دشمنی اپنے اس کام میں رکاوٹ نہیں بنانی چاہیے

اس سلسلہ میں ہمارے لئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت پر بہترین نمونہ ہے کہ وہ اپنے ایک خالہ زاد بھائی مسطح بن اثاثہ کے ساتھ اللہ کے لیے تعاون کیا کرتے تھے

جب آپ کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگی اور باتیں کرنے والوں میں مسطح بن اثاثہ بھی تھے تھے آپ نے اس کے ساتھ تعاون ختم کر دیا

مگر اللہ تعالی نے جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے سے منع کیا تو انہوں نے مسطح کی مخالفت کے باوجود اپنا فیصلہ واپس لے لیا

اللہ کی مسجدوں سے منع کرنا ظلم ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرة : 114)

اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے؟ یہ لوگ، ان کا حق نہ تھا کہ ان میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا ہی میں ایک رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔

اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو مسجد کی خدمت کے لیے وقف کریں

قرآن میں اللہ تعالی نے ایک عورت کا ذکر کیا ہے جس نے یہ نذر مانی تھی کہ اللہ میرے پیٹ میں جو اولاد ہے میں اس کو تیری مسجد کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں

فرمایا

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

جب عمران کی بیوی نے کہا اے میرے رب ! بے شک میں نے تیرے لیے اس کی نذر مانی ہے جو میرے پیٹ میں ہے کہ آزاد چھوڑا ہوا ہو گا، سو مجھ سے قبول فرما، بے شک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک معلق روایت میں

( نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا )

کی تفسیر منقول ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

لِلْمَسْجِدِ يَخْدُمُهَا

یعنی میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے تیری مسجد کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ میں تفسیر قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے

”مُحَرَّرًا“ کے معنی ہیں کہ وہ صرف مسجد کی خدمت ہی کے لیے وقف رہے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں مسجد کی ایک خادمہ کا مقام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ

أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ أَوِ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَ يَقُمُّ المَسْجِدَ فَمَاتَ، فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَاتَ، قَالَ: «أَفَلاَ كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ – أَوْ قَالَ قَبْرِهَا – فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا» (بخاری، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ كَنْسِ المَسْجِدِ وَالتِقَاطِ الخِرَقِ وَالقَذَى وَالعِيدَانِ،458)

ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو انتقال کر گئی۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، پھر آپ قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز پڑھی۔

بخاری کی 1272 نمبر روایت میں ہے

فَحَقَرُوا شَأْنَهُ

صحابہ کرام نے اس کا معاملہ معمولی سمجھا (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتایا)

ابن ماجہ کی 1533 نمبر حدیث میں

كَانَتْ سَوْدَاءُ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ کے الفاظ ہیں جس سے معلوم ہوا کہ وہ عورت تھی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

وَلَا أُرَاهُ إِلَّا امْرَأَةً (بخاری 448)

یعنی وہ عورت ہی تھی

بیہقی کی روایت میں ہے کہ ام محجن نامی عورت تھی، وہ مسجد کی صفائی ستھرائی وغیرہ کی خدمت انجام دیا کرتی تھی

مسجد بنانے والے یا اس کی خدمت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا

ابو سعید رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی تعمیر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ (بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ المَسْجِدِ،447)

ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو (پیار سے) ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے

اور بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے

وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر سے غبار کو صاف کیا

مساجد کی صفائی ستھرائی کی اہمیت

ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے فرماتی ہیں کہ

أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ (ابو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بَابُ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ،455)

رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاکیزہ ، صاف ستھرا اور معطر رکھا جائے ۔

مسجد میں تھوکنا گناہ ہے

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«البُزَاقُ فِي المَسْجِدِ خَطِيئَةٌ وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا» (بخاری، كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ كَفَّارَةِ البُزَاقِ فِي المَسْجِدِ،415)

مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے ( زمین میں ) چھپا دینا ہے۔

یہ دفن کرنے والا معاملہ تب ہے کہ اگر مسجد میں مٹی یا ریت ہو

اور اگر مسجد پختہ ہے ماربل پتھر وغیرہ کے ساتھ تو پھر اس کو وہاں سے اٹھانا اور مسجد سے باہر پھینکنا لازمی ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى بُصَاقًا فِي جِدَارِ القِبْلَةِ، فَحَكَّهُ (بخاری، كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ حَكِّ البُزَاقِ بِاليَدِ مِنَ المَسْجِدِ،407)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی دیوار پر تھوک دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچ ڈالا

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا

«عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ» (مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بابُ النَّهْيِ عَنِ الْبُصَاقِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا،1233)

’’ میرے سامنے میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے ، میں نے اس کے اچھے اعمال میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو دیکھا ، اس کے برے اعمال میں بلغم کو پا یا جو مسجد میں ہوتا ہے اور اسے دفن نہیں کیا جاتا ۔‘‘

مساجد گندگی پھیلانے کی جگہیں نہیں ہیں

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ :

ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک بدوی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا

تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نےکہا:

کیا کر رہے ہو ؟ کیاکر رہے ہو ؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اسے (درمیان میں ) مت روکو، اسے چھوڑ دو۔‘‘

صحابہ کرام نےاسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا

پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایااور فرمایا:

«إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ، وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ»

’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔ ‘‘

پھر آپ نے لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا ، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا

(مسلم، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غُسْلِ الْبَوْلِ وَغَيْرِهِ مِنَ النَّجَاسَاتِ إِذَا حَصَلَتْ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنَّ الْأَرْضَ تَطْهُرُ بِالْمَاءِ، مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ إِلَى حَفْرِهَا،661)

مسجد میں بن سنور کر آنا چاہئے

مسجد میں آنے والا اللہ تعالی کا مہمان ہوتا ہے ہے تو جس طرح لوگوں کے گھر مہمان جانے والے بن سنور کر جاتے ہیں ایسے ہی اللہ کا حق ہے کہ اللہ کے گھر جائیں تو بن سنور کر جائیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (الأعراف : 31)

اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ گزرو، بے شک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ،بَابُ تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ،265)

اللہ خود جمیل ہے ، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے

ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ جمعہ کے دن عمر رضی اللہ عنہ کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اصحابِ نبی اور مہاجرین اولین میں سے ایک شخص مسجد میں داخل ہوا

فَنَادَاهُ عُمَرُ أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ

عمر رضی اللہ عنہ نے اسے آواز دے کر کہا جمعہ کے لیے آنے کا یہ کون سا وقت ھے

انہوں نے کہا

إِنِّي شُغِلْتُ فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلَى أَهْلِي حَتَّى سَمِعْتُ التَّأْذِينَ فَلَمْ أَزِدْ أَنْ تَوَضَّأْت

میں کسی کام میں مصروف تھا اپنے گھر بھی نہیں جا سکا اور جب میں نے آذان سنی تو صرف وضوء کیا اور مسجد آگیا ہوں

ُ آپ نے غصے سے کہا

وَالْوُضُوءُ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ (بخاری)

اچھا صرف وضوء ہی کیا ہے جبکہ تجھے پتا بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے

مساجد کی طرف چل کر جانے کی کی فضیلت

سیدنا بریدہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا

بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ابو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ فِي الظَّلَامِ،561)

” خوشخبری دو ۔ قیامت کے روز کامل نور کی ، ان لوگوں کو جو اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چل چل کے آتے ہیں ۔ “

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي جَمَاعَةٍ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ وَصَلَاتِهِ فِي سُوقِهِ، خَمْسًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً, وَذَلِكَ بِأَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، وَأَتَى الْمَسْجِدَ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ، وَلَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً، إِلَّا رُفِعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ (ابو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ،559)

” باجماعت نماز گھر یا بازار میں اکیلے نماز ( پڑھنے ) کی بہ نسبت پچیس درجے زیادہ ہوتی ہے ۔ وہ یوں کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور کامل اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں آئے اور اس کی نیت صرف نماز ہی ہو اور نماز ہی نے اسے اٹھایا ہو تو وہ جو قدم بھی اٹھائے گا اس سے اس کا ایک درجہ بلند ہو گا اور ایک غلطی معاف ہو گی حتیٰ کہ مسجد میں داخل ہو جائے ۔ “

سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا

الْأَبْعَدُ فَالْأَبْعَدُ مِنَ الْمَسْجِدِ أَعْظَمُ أَجْرًا (ابو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ،556صحیح)

” جو شخص جتنا مسجد سے دور ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ ثواب کا حقدار ہوتا ہے ۔ “

یعنی جو شخص جس قدرزیادہ قدم چل کر جائے گا۔اور مشقت برداشت کرے گا۔اس کو اسی قدر ثواب بھی زیادہ ہوگا

سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ (ابو داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ،558حسن)

جو آدمی اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اجر و ثواب ایسے ہے جیسے کہ حاجی احرام باندھے ہوئے آئے

مسجد میں صبح و شام آنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«مَنْ غَدَا إِلَى المَسْجِدِ وَرَاحَ، أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ» (بخاری، كِتَابُ الأَذَانِ،بابُ فَضْلِ مَنْ غَدَا إِلَى المَسْجِدِ وَمَنْ رَاحَ،662)

کہ جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا۔ وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

«أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟» قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ» (مسلم، كِتَابُ الطَّهَارَةِ،بَابُ فَضْلِ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ،587)

’’کیا میں تمہیں ایسی جیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے او ر درجات بلند فرماتا ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کےر سول کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا: ’’ناگواریوں باوجود اچھی طرح وضوکرنا ، مساجد تک زیادہ قدم چلنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی ہے۔‘‘

خواتین بھی مسجد میں تشریف لا سکتی ہیں

سیدنا ابن عمر ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ، وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ (ابو داؤد كِتَابُ الصَّلَاةِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ،567صحیحح)

” اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو ، مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔ “

لیکن شرط یہ ہے کہ خواتین مسجد میں خوشبو لگائے بغیر آئیں

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا:

«إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِيبًا» (مسلم، كِتَابُ الصَّلَاةِ،بَابُ خُروجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ إِذَا لَمْ يَتَرَتَّبْ عَلَيْهِ فِتْنةٌ، وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً،997)

’’ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو وہ خوشبو کو ہاتھ نہ لگائے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ (مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ،بابُ خُروجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ إِذَا لَمْ يَتَرَتَّبْ عَلَيْهِ فِتْنةٌ، وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً،998)

’’ جس عورت کو (بخور) خوشبودار دھواں لگ جائے، وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إِذَا خَرَجَتْ الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْتَغْتَسِلْ مِنْ الطِّيبِ كَمَا تَغْتَسِلُ مِنْ الْجَنَابَةِ (نسائى،كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ،اغْتِسَالُ الْمَرْأَةِ مِنْ الطِّيبِ،5130صحيح)

جب کوئی عورت مسجد کو جانے لگے ( اور اس نے پہلے خوشبو لگارکھی ہو)تو وہ اچھی طرح غسل کرے، جیسے وہ غسل جنابت کرتی ہے۔

مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے آداب

صحیح بخاری میں معلق روایت ہے

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَبْدَأُ بِرِجْلِهِ الْيُمْنَى فَإِذَا خَرَجَ بَدَأَ بِرِجْلِهِ الْيُسْرَى

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو پہلے دایاں پاؤں سے اور جب مسجد سے نکلتے تو پہلے بایاں پاؤں باہر رکھتے

تحت رقم الحديث 416

رسول اللہ ﷺ کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَقُولُ: «بِسْمِ اللَّهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ» ، وَإِذَا خَرَجَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ» (ابن ماجہ، كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ،بابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ دُخُولِ الْمَسْجِدِ،771)

رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو فرماتے تھے: ( بِسْمِ اللَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى ذُنُوبِى وَافْتَحْ لِى أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ )’’اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں، اور اللہ کے رسول پر سلام ہو، اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اور جب (مسجد سے) باہر تشریف لاتے تو فرماتے تھے:( بِسْمِ اللَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى ذُنُوبِى وَافْتَحْ لِى أَبْوَابَ فَضْلِكَ) ’’اللہ کے نام سے باہر نکلتا ہوں اور اللہ کے رسول پر سلام ہو ،اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘

مسجد کا حق ہے کہ مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کی جائیں

ابوقتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ (بخاری ،كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ،444)

جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے

جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَلَسَ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْكُ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا ثُمَّ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا (مسلم، كِتَابُ الْجُمُعَةِ،بابُ التَّحِيَّةُ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ،2024)

سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعے کے دن(اس وقت ) آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے کہا:”اے سلیک!ا ٹھ کر دو رکعتیں پڑھو اور ان میں سے اختصار برتو۔”اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!”جب تم میں سے کوئی جمعے کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔”

مسجد میں لیٹنا جائز ہے

عباد بن تمیم رضی اللہ عنہ کے چچا بیان کرتے ہیں

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ مُسْتَلْقِيًا (بخاري ،كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ،بَابُ الِاسْتِلْقَاءِ،6287)

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومسجد میں چت لیٹے دیکھا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا

«أَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهُوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لاَ أَهْلَ لَهُ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (بخاري، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِي المَسْجِدِ،440صحيح)

کہ وہ اپنی نوجوانی میں جب کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں سویا کرتے تھے

مسجد میں بیٹھ کر کھانہ کھایا جا سکتا ہے

حضرت عبد اللہ بن حارث زبیدی ؓ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا

«أَكَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فِي الْمَسْجِدِ، لَحْمًا قَدْ شُوِيَ، فَمَسَحْنَا أَيْدِيَنَا بِالْحَصْبَاءِ، ثُمَّ قُمْنَا نُصَلِّي، وَلَمْ نَتَوَضَّأْ» (ابن ماجة، كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ،بابُ الشِّوَاءِ،3311صحيح)

ہم نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ مسجد میں کھانا کھایا جو بھنا ہوا گوشت تھا۔پھر ہم(زمین پر بچھی ہوئی)کنکریوں سے ہاتھ پونچھ کر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے ہم نے (نیا) وضو نہیں کیا

مساجد میں زیادہ وقت گزارنے اور نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا:

«مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّكْرِ، إِلَّا تَبَشْبَشَ اللَّهُ لَهُ، كَمَا يَتَبَشْبَشُ أَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ» (ابن ماجہ، كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ، بَابُ لُزُومِ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ،800 صحیح)

’’جو مسلمان مرد نماز اور ذکر کے لئے مسجدوں میں پابندی سے حاضر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے، جس طرح مسافر کے گھر والے اس کے گھر آنے پر خوش ہوتے ہیں۔ ‘‘

آذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنا ممنوع ہے

سنن ترمذی میں روایت موجود ہے

خَرَجَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَمَا أُذِّنَ فِيهِ بِالْعَصْرِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(سنن الترمذي | أَبْوَابُ الصَّلَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | أَبْوَابُ الْأَذَانِ | بَابٌ : كَرَاهِيَةُ الْخُرُوجِ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْأَذَانِ 204)

ایک آدمی عصر کی اذان کے بعد مسجد سے باہر نکل گیا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا اس شخص نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے

مسجد میں شور کرنا منع ہے

صحیح مسلم میں حدیث ھے

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا،

تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ میں کوئی کام نہ کروں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔

دوسرے نے کہا، بلکہ مسجد حرام کی آباد کاری ( افضل ہے)۔

ایک اور نے کہا، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم کہہ رہے ہو۔

تو عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آوازیں مت بلند کرو، یہ جمعہ کے دن کی بات ہے، لیکن جب تم جمعہ پڑھ چکو گے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور تمھارے اس جھگڑے کا فیصلہ کروا لوں گا،

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری

أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (التوبة : 19)

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجدِ حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

مسلم 1879

طائف سے آئے ہوئے دو شخص مسجد میں شور کررہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے اُنہیں ڈانٹ پلائی

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں مسجد میں کھڑا تھا کہ مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دو آدمیوں کو میرے پاس لے کر آؤ جب میں انہیں لے آیا تو آپ نے ان سے پوچھا

مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا

تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو

وہ کہنے لگے

مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ

ہم طائف سے آئے ہیں

آپ نے کہا

لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاري 470)

اگر تم اسی شہر کے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا اس وجہ سے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو

مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان مسجد کے ادب کے خلاف ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا» (مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بَابُ النَّهْيِ عَنْ نَشْدِ الضَّالَّةِ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ سَمِعَ النَّاشِدَ،1260)

’’جوشخص کسی آدمی کو مسجد میں کسی گم شدہ جانور کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے : اللہ تمھارا جانور تمھیں نہ لوٹائے کیونکہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘

صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے

أَنَّ رَجُلًا نَشَدَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا وَجَدْتَ، إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ» (مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بَابُ النَّهْيِ عَنْ نَشْدِ الضَّالَّةِ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ سَمِعَ النَّاشِدَ،1262)

ایک آدمی نے مسجد میں اعلان کیا اور کہا : جو سرخ اونٹ(کی نشاندہی )کے لیے آواز دے گا ۔ تو نبی ﷺ فرمانے لگے : ’’تجھے (تیرا اونٹ )نہ ملے ، مسجدیں صرف انھی کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں جن کے لیے انھیں بنایا گیا۔ ‘‘

مسجد میں خریدوفروخت کی ممانعت

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ فَقُولُوا لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً فَقُولُوا لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ

(ترمذی ،أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب النَّهْيِ عَنِ الْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ،1321صحيح)

جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید وفروخت کررہاہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کودیکھوجو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اُسے) تلاش کرتاہو تو کہو : اللہ تمہاری چیزتمہیں نہ لوٹائے’

جس شخص نے لہسن ، پیاز یا ان جیسی کوئی نا گوار بو والی چیز کھائی ہو تو اس کے لیے بوختم ہونے تک مسجد میں جانے کی ممانعت اور اسے مسجد سے نکالنا

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

«مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا، فَلْيَعْتَزِلْنَا أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ» (مسلم ،كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بَابُ نَهْيِ مَنْ أَكَلِ ثُومًا أَوْ بَصَلًا أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا،1253)

’’جس نے لہسن یا پیاز کھایا وہ ہم سے دور رہے یا ہماری مسجدوں سے دور رہے اور اپنے گھر بیٹھے ۔‘‘

امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا

أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ شَجَرَتَيْنِ لَا أَرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، هَذَا الْبَصَلَ وَالثُّومَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ، أَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا (كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بَابُ نَهْيِ مَنْ أَكَلِ ثُومًا أَوْ بَصَلًا أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا،1258)

اے لوگو! تم دو پودے کھا تے ہو ، میں انھیں (بو کے اعتبار سے ) برے پودے ہی سمجھتا ہوں ، یہ پیاز اور لہسن ہیں ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ، جب مسجد میں آپ کو کسی آدمی سے ان کی بوآتی تو آپ اسے بقیع کی طرف نکال دینے کا حکم صادر فرماتے ، لہذا جو شخص انھیں کھانا چاہتا ہے وہ انھیں پکاکر ان کی بو مار دے ۔

پسینہ کی بدبو

تمباکو کی بدبو

گوبر کی بدبو

وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہے

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ