معاشی بحالی کے لئے سودی قرضوں کی شرعی و تاریخی حیثیت

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ (البقرة – آیت 278)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو ، اگر تم مومن ہو۔

سامعین ذی وقار !

سود ایک معاشرتی ناسور ہے، جس کے ذریعے سے محنت کش لوگوں کا خون چوس چوس کر سرمایہ داروں اور سود خوروں کا پیٹ بھرا جاتا ہے، اس نظام میں کمانے والا کوئی ہوتا ہے اور کھانے والا کوئی اور ہوتا ہے، سودی قرضہ ایک ایسا موت کا پھندا ہے جس میں نہ صرف افراد بلکہ ملکوں اور قوموں کو جکڑا جاتا ہے

اقبال نے کہا کہ

ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے

سود ایک کا لاکھوں کی لئے مرگ مفاجات

شریعت میں سود کی مذمت

سودی لوگوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ (مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، سود کھلانے والے، سودی معاملات لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت کی ہے

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَةً ‌ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ (آل عمران – آیت 130)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! مت کھاؤ سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔

حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا :

” جاہلیت کے زمانے کے تمام سود میرے قدموں کے نیچے پامال کردیے گئے ہیں اور سب سے پہلا سود جو میں باطل قرار دیتا ہوں وہ ہمارے سودوں میں سے عباس بن عبد المطلب کا سود ہے، وہ پورے کا پورا چھوڑ دیا گیا ہے۔ “ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨، عن جابر (رض) ]

سود روحانی،اخلاقی اور معاشی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے

آج ہمارے ملک میں کرپشن کا شور ہے حکمرانوں سے لیکر نچلی سطح تک تمام افراد چوری اور ڈاکے کو جائز سمجھتے ہیں چکر دے کر دولت لوٹنا اب جرم نہیں بلکہ ایک آرٹ کہلانے لگا ہے یہ سب سود کی بدولت ہے

قرضہءِ حسنہ اور سودی قرضہ میں فرق

علامہ رشید رضا مصری جو مصر کے ایک مشہور و معروف عالم ہیں وہ اپنے استاد محمد عبدہ کے بارے میں تفسیر المنار میں لکھتے ہیں کہ ہمارے استاد کا بیان ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ جب ہمارے والد صاحب کے پاس کوئی حاجت مند قرض لینے آتا تو وہ اسے بڑی ہمدردی کے ساتھ قرض حسنہ کے طور پر رقم دیتے تھے اور اسے یہ بھی کہتے تھے کہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور واپسی کا مطالبہ بھی بہت کم کرتے تھے

لیکن جب سے مصر میں بینکنگ سسٹم آیا اور معاشرے میں سودی قرضوں کی لین دین کا رواج عام ہوا تو یہی ہمارے والد صاحب جو پہلے اتنے نرم دل تھے اب ان کی یہ کیفیت بن چکی ہے کہ کسی کو بھی قرضہ دینے سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے ہیں اور اس سے سخت سودی شرائط اور معاہدے طے کرتے ہیں

آج دنیا میں جوسب سے زیادہ بے چینی ہے وہ یہی معاشی فساد ہے جسے سود کے دجالی نظام نے جکڑ کر تمام دنیا سے برکتیں ختم کر دی ہیں

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

معاشی لوٹ مار اور فواحش اسی سود کی کمائی کی وجہ سے زہر کی طرح انسانی رویے اور مزاج میں سرایت کرتے ہیں

سود، ایمان ختم کردیتا ہے

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ

اس آیت میں واضح حکم دیا گیا کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا جو سود لوگوں کے ذمے ہے چھوڑ دو ۔ معلوم ہوا کہ سود اور ایمان دونوں جمع نہیں ہوسکتے

قال الإمام مالك – رحمه الله – :

إني تصفحت كتاب الله وسنة نبيه،

فلم أر شيئاً ( أشرّ ) من الربا،

لأن الله أذن فيه بالحرب. (تفسير القرطبي ٤٠٥/٤)

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے کتاب وسنت کی ورق گردانی کی ہے میں نے سود سے بڑھ کر کسی چیز میں برائی نہیں دیکھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت چنگ کا اعلان کیا ہے

سود، بزدلی پیدا کرتا ہے

سورہ آل عمران میں جنگ احد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے سود کے متعلقہ یہ آئت مبارکہ نازل فرمائی

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَةً ‌ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ (آل عمران – آیت 130)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! مت کھاؤ سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔

اس میں عقل والوں کے لیے نشانی ہے کہ جہاد کے تذکرے میں سود کی آیت لانے کا کیا مقصد ہے بس یہی کہ سود کھانے سے جہاد میں بزدلی اور نامردی آتی ہے

کیونکہ سود، سود خور کو بخیل بناتا ہے تو جس کو مال پر اتنا بخل ہو گا وہ جان کب دینا چاہے گا۔

( تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

بقول اقبال

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

سود سے مہنگائی پیدا ہوتی ہے

سودی قسطیں واپس کرنے کے لیے ٹیکس لگائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی پیدا ہوتی ہے

پاکستان کا معاشی دور بغیر سود کے

پاکستان بننے کے بعد24سال تک اپنے ہی وسائل سے اپناملک چلاتے رہے یہ وہ دورتھاجب اس مملکت خدادادکاذکر دنیابھر کی معاشی ترقی کی نصابی کتب میں سبزانقلاب کے نام سے کیاجاتاتھااوراسے دنیابھر کے لیے ترقی کا ایک ماڈل سمجھاجاتاتھااس لیے کہ ہمیں اس وقت تک سود پرقرضہ جات کے لین دین کی لت نہیں پڑی تھی ۔اوریہی ہماری معیشت کے ماڈل ہونے کارازتھا

اس وقت پاکستان کا ایک روپیہ بھارتی ڈیڑھ روپے کے برابر تھا اور ڈالر کی قیمت صرف 1.75روپے بنتی تھی

یہ وہ دور تھا جب جرمنی جیسے ملک پاکستان سے قرضے لیتے تھے

جنوبی کوریا جیسے ملک پاکستانی ترقیاتی منصوبوں کی کاپیاں لے کر جاتے تھے تاکہ اپنی معاشی پالیسیاں اس کے مطابق مرتب کی جائیں

پاکستان کا معاشی دور سود کے ساتھ

لیکن افسوس کہ پھر عالمی ساہو کاروں نے ہمیں عیاشیوں کے سامان اور پرتکلف زندگیاں گزارنے کی لت ڈالتے ہوئے سودی قرضوں کا نشہ لگا دیا

پھر جب سے پاکستان نے سودی قرضے لینے شروع کر دیے معیشت کا وہ سنہری دور آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا

کیونکہ اللہ تعالٰی کا قانون ہے کہ

( يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا) اللہ سود کو مٹاتے ہیں

دوسرے مقام پر فرمایا

(وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ ) [ الروم : ٣٩ ]

” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

” سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام اس کا قلت ہی ہوگا۔ “

[ أحمد : ١؍٤٢٤، ح : ٤٠٢٥، عن ابن مسعود و صححہ محققہ و وافقہ الألبانی فی صحیح ابن ماجہ)

سودی قرض لینے پر ایک امریکی اخبار کا کارٹون

11 دسمبر 1950 کو ایک کارٹون، مشہور انگلش اخبار پاکستان ٹائمز میں اس وقت شائع هوا جب امریکہ نے پاکستان کو 6 لاکھ ڈالر امداد دی کارٹون کے کیپشن میں کھڑکی سے سر نکال کر دو امریکی یہ بات آپس میں کر رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکی امداد لے لی ھے یہ اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہی ھو سکے گا۔۔ اسی موقع پر نہرو نے کہا تھا جو امریکی مونگ پھلی لیاقت علی خان نے کھا لی ھے وہ پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی۔ 1950 میں کی ھوئی بات کتنی صحیح ثابت ھوئی ھے اس کا فیصلہ آپ خود کریں

انہیں سودی نحوستوں کا نتیجہ ہے کہ

1964ء میں پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت 1.75 روپیہ تھی جبکہ آج 210 روپے کا ہو چکا ہے اور آج بھارتی کرنسی بھی پاکستان سے ڈبل ہو چکی ہے اور یہ تباہی صرف اور صرف سود کی وجہ سے ہے

کل تک ہم جرمنی جیسے ملکوں کو قرضے دیتے لیکن آج ہمارے مجموعی غیر ملکی قرضے 100 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں

ہمارے آباؤ اجداد جن کفار سے جزیے وصول کیا کرتے تھے آج ہم انہیں یومیہ چھے ارب روپے سود کی مد میں دے رہے ہیں

اس ساری ذلت کی وجہ سود ہے

اب خود اندازہ لگا لیا جا ئے کہ جس قبیح فعل پر اللہ رب العزت نے اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف جنگ کی نوید سنادی ہو اس فعل کے مرتکب افراد یا قوموں کا کیا حشر ہوتا ہے

کیاسودی قرضہ جات کے علاوہ ترقی کاکوئی اورراستہ موجود نہیں ہے …؟

سادہ لوح عوام الناس کومعیشت دانوں کی طرف سے باربار یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر یہ بینک ،سوداورعالمی سودی قرضہ جات کانظام ختم کردیاجائے توزندگی تباہ ہوجائے گی معیشت کاپہیہ رک جائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض شیطانی دھوکہ ہے

جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا

اَلشَّيۡطٰنُ يَعِدُكُمُ الۡـفَقۡرَ (البقرة – آیت 268)

شیطان تمہیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے

جبکہ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب سود کے بغیر ترقی کی گئی ہے

پہلی تاریخی مثال

مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ میں ہجرت کر کے گئے تووہاں اوس وخزرج یہودی تاجروں کے سودی جال میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے جورقم قرضے کی مد میں لی تھی اس سے کہیں زیادہ سوداداکر چکے تھے لیکن اصل رقم جوں کی توں واجب الاداء تھی، آپ نے اوس وخزرج کو سودی جال سے نکالنے کے لیے سودی معیشت کابائیکاٹ کیااوران کوترقی کی نئی راہ پر گامزن کیا۔

یہ بات یادرہے کہ بحالی معیشت کی جتنی زیادہ ضرورت مدینہ میں تھی شاید ہی آج تک کسی جگہ اتنی زیادہ ضرورت محسوس کی گئی ہو ۔اچانک سینکڑوں مکی مہاجرصحابہ کی آمد رومی ،یمنی ،شامی ،حبشی اورگردونواح کے ہزاروں نومسلموں کی مدینہ میں تشریف آوری اوران کے علاوہ کتنے ہی بوریانشین اجنبی اور پردیسی اصحاب صفہ ،ان سب کو چھت ،چادراورچاردیواری سے لے کر ذریعہ معاش اورکاروباری سہولیات باہم پہنچاناریاست کے لیے بہت بڑامسئلہ تھا،ہمارے جیساکوئی ہوتاتونبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کوسودی قرضہ جات کا خوبصورت مشورہ ضروردیتالیکن آپ نے کمال حکمت ودانائی سے معاملات کوایسے احسن انداز سے حل کیاکہ دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ کی چھوٹی سی ریاست بڑے بڑے معیشت دانوں کے لیے رول ماڈل بن گئی ۔

جن کے پاس پہننے کے لیے ایک جوڑاتک نہیں ہوتاتھا چند سالوں کے بعدان میں سے ایک ایک کے پاس ہزاروں غلام تھے ۔جن کودربدرکی ٹھوکروں کے لیے گھروں سے بے گھرکردیاگیاتھا۔وہ صدقہ کرنے بیٹھتے تویک مشت چھے چھے کلو سونااور٢٩،٢٩ کلوچاندی اللہ کی راہ میں لٹادیتے ان کی معیشت ایسے ابھری کہ ترقی کی معراج کو چھونے لگی پھر وہ اینٹ بھی اٹھاتے توسونانکلتاجن کے پاس کل تک جنگ لڑنے کے لیے پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے صرف سات آٹھ سال کے مختصر عرصے کے بعدان کاایک ایک فرد نو ،نو سواونٹ اورسوسو گھوڑے اللہ کی راہ میں وقف کر رہاتھا

دوسری تاریخی مثال

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہے ۔

آپ شہروں کے شہر آبادکررہے تھے ۔

کوفہ ،بصرہ ،جزیرہ فسطاۃ (قاہرہ) جیسے نئے شہر آباد کیے

دس ہزار نئی مساجد تعمیر کیں ۔

آپ نے مہذب دنیا کے سامنے بہت سی مالی و ملکی ـ سیاسی وانتظامی معاشرتی وتمدنی باتیں تجویز وایجاد فرما ئیں ۔

بیت المال یا خزانہ باقاعدہ طور پر قائم کیا

فوج کے واسطے باقاعدہ دفترمقرر کیا،

مالی دفتر الگ قائم کیا،

رضاکاروں کی تنخواہیں مقررکیں ۔

ملک کی پیمائش کاقاعدہ جاری کیا،

مردم شماری کرائی ،

نہریں کھدوائیں ،

مقبوضہ علاقوں کوباقاعدہ صوبوں میں تقسیم کیا،

حربی تاجروں کوملک میں آنے اورتجارت کرنے کی اجازت دی ،

جیل خانہ قائم کیا،

پولیس کامحکمہ قائم کیا،

راتوں کوگشت کر کے رعایاکے حال سے باخبر رہنے کاطریقہ نکالا،

پرچہ نویس مقرر کیے ،

مسافروں کے لیے کنویں اورمکانات بنوائے ،

حتی کہ مفلوک الحال عیسائیوں اوریہودیوں کے روزینے مقرر کیے وغیرہ وغیرہ۔ [تاریخ اسلام ١/٤٤٢ (از اکبر شاہ خان نجیب آبادی)]

فاروق اعظم tکے دور خلافت میں معیشت کاپہیہ اتنی تیزی سے گھوماکہ پیداہوتے ہی بچے کاوظیفہ مقررہونے لگا۔لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کبھی سودی قرضہ جات کے لین دین کاسوچابھی ہو

تیسری تاریخی مثال

ماضی قریب میں ہندوستان پر انگریزی تسلط کا مشاہدہ کریں ۔انگریز برصغیر کو لوٹنے اوریہاں سے کمانے آیاتھااس کو سنوارنے نہیں آیاتھا،اس کو کیامصیبت پڑی تھی کے اپنے پیسوں سے یہاں ترقیاتی کام کرے ۔

لیکن آپ 1860ء سے لیکر 28فروری 1947ء تک پورے ہندوستان میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیں ۔

کلکتہ سے لیکر طورخم اورچمن تک ریلوے کامربوط نظام جس میں صرف سبی سے کوئٹہ تک 29سرنگیں آتی تھیں ۔صرف چمن کے خوجک پہاڑکی سرنگ ساڑھے تین میل لمبی تھی ۔ریلوے اسٹیشن کے پھاٹک ،کوارٹر،کالونیاں اوراعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں یہ سارانظام اس وقت کے لحاظ سے کسی میٹرو یااورنج ٹرین سے کم نہیں تھا ۔

سب سے بڑانہری نظام قائم کیااس نہری نظام پر تین کروڑپچاس لاکھ پاؤنڈ لاگت آئی تھی ۔

ہسپتال ،کالج ،سکولز، یونیورسٹیاں قائم کیں ،ٹیلی گرام سسٹم قائم کیا،1926ء میں کلکتہ ریڈیو کاآغازکیا،صرف لاہور ، راولپنڈی اورمری کے مال روڑ کی عمارات یادہلی اورکلکتہ کی خوبصورت تعمیرات کوگننا شروع کریں تووہ ہزاروں تک ہیں۔

اس کے علاوہ 2کروڑ بیس لاکھ پاؤنڈ سالانہ اپنی فوج پر خرچ کرتے تھے اورسالانہ تیس کروڑ پاؤنڈ برطانیہ بھیجتے تھے ۔کیا خیال ہے انگریز نے ہندوستان میں اتنے بڑے بڑے مالی پراجیکٹ اپنی جیب سے مکمل کیے یاکسی بیرنی ملک سے قرضہ لیکر تعمیر اتی سکیموں کو مکمل کیا۔

اس کا دماغ خراب تو تھالیکن اتنابھی نہیں کہ ایک بیگانے ملک کی تعمیر وترقی کے لیے قرضوں کے بھاری بوجھ اٹھاتاپھرتایہ سارے کام اس نے اسی ملک کے وسائل اورسرمائے سے کیے تھے

اگر انگریز اسی ملک کے وسائل سے ترقیاتی کام کرسکتے تھے اور بہت بڑی رقم اپنے ملک برطانیہ میں بھی بھیج سکتے تھے تو آج ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے

چوتھی تاریخی مثال

جو کہ بالکل قریب ہے اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے

افغانستان میں قائم ہونے والی مجاہدین کی حکومت جنہوں نے حالیہ دنوں میں بغیر کسی سودی قرض کے بجٹ پیش کرکے مثال پیش کردی ہے

1995ءسے لیکر 2001ءتک افغانستان میں قائم ہونے والی انہی مجاہدین کی اسلامی حکومت نے بھی بغیر سودی قرضوں کے اپنے ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرتے ہوئے دنیا کو حیران کر دیا تھا کہ دیکھو سود کے بغیر ترقی آج بھی ممکن ہے انہوں نے کہا تھا کہ ہماری زمین گندم اور پیاز اگاتی ہے، ہم گندم کی روٹی پر پیاز کاٹ کر گزارا کرلیں گے لیکن کبھی بھی کسی سے سود نہیں لیں گے

تاریخ میں سودی قرضوں کی بنیاد پر ترقی کی کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی

لیکن اس کے برعکس دنیا میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ کسی قوم نے غیر ملکی سودی قرضوں کی بنیاد پر ترقی کی ہو حتی کہ آج سود کے عالمی ٹھیکیدار یورپی ممالک میں بھی سودی نظام دم توڑ رہا ہے یورپی ممالک میں سود کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں جن میں پلے کارڈ پر لکھا ہوتا ہے

islamie economik system ahold be implementdeیعنی اسلامی اقتصادی نظام نافذ کیا جائے

سودی نظام کاایک متبادل راستہ

سودی نظام کامتبادل راستہ اسلامی معاشی نظام ہے جس کاایک پہلوزکوٰۃ فی سبیل اللہ ہے ۔مثال کے طورپر اگرایک شخص کے پاس دس کروڑ روپے ہوں تواس کی سالانہ زکوٰۃ پچیس لاکھ بنتی ہے وطن عزیز پاکستان کے تقریباسبھی شہروں میں ایک کروڑ ،دوکروڑ پانچ دس کروڑ ملکیت کے کئی آدمی پائے جاتے ہیں اگر تمام صاحب نصاب حضرات زکوٰۃ اداکریں توچند سالوں میں بہت محتاجوں اورمسکینوں کے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ زکوٰۃ 20 ارب روپے بنتی ہے صرف ایک سال کی زکوٰۃ سے اگراوسط درجے کے مکان تعمیر کیے جائیں تودولاکھ مکان بن سکتے ہیں جس سے زبردست ہاؤس بلڈنگ سکیم ترتیب دی جاسکتی ہے اوریہ صرف زکوٰۃ کی بات ہے ۔نفلی صدقات کی ترغیب وتحریض اس کے علاوہ ہے اگرزکوٰۃ کے ساتھ ان کو بھی کاؤنٹ کیاجائے توسالانہ آمدن جوزکوٰۃ وصدقات سے حاصل ہوگی وہ کھربوں روپے تک پہنچ سکتی ہے اوراتنی بڑی رقم سے ملک میں عظیم معاشی انقلاب بپاکیاجاسکتاہے اوریہ اربوں روپیہ سیٹھوں ،سرداروں اورتاجروں کی جیب سے نکل کر جب گردش میں آئے گا توکتنے کاریگر،مستری ،مزدوراوردوکانداروں کی شکل میں براہ راست عام آدمی کی خوشحالی کاسبب ہوگا۔پھر وہ وقت آئے گاکہ سودی قرضے دیناتو دور کی بات آپ زکوٰۃ دیں گے اورکوئی لینے والانہیں ہوگا۔

ایک اورمتبادل راستہ

اسلامی معاشی نظام کاایک پہلوجہادفی سبیل اللہ بھی ہے یہ سودی نظام معیشت کا بہت ہی شاندار متبادل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:((جعل رزقی تحت ظل رمحی ))

میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے ہے

افریقہ کے صحراؤں سے لیکر مصرکے دریاؤں تک، چین کے بادشاہوں سے لیکریورپ کے کلیساؤں تک ،ہند کے بت کدوں سے لےکر ایران کے آتش پرستوں تک سب کے سب جزیہ وخراج لیکر دستہ بدستہ تمہارے سامنے کھڑے ہونگے یاپھر اسلام قبول کرلیں گے ۔

پھر بادل جہاں بھی برسے گا نفع تم کوہی ہوگا۔کھیت تمہارے ہی لہلہائےں گے تمہارے بچوں کے بھی وظیفے مقرر ہونگے تم آگے آگے اوردنیاکامال تمہارے پیچھے پیچھے ہوگا۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ آج ہم نے زکوٰۃ اورجہاد دونوں کو چھوڑدیاتواللہ تعالیٰ نے عذاب کے طورپر سودجیسی لعنت میں پھنسادیاجوگلے کی ایسی ہڈی بنی کہ اگلنے سے اگلتی نہیں اورنگلنے سے نگلتی نہیں ۔

لہذایہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہمارے آج کے تمام مسائل کاحل صرف اورصرف جہادفی سبیل اللہ میں ہے

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین