ممنوع الفاظ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا قَالَ الرُّ‏َجُلُ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا، فَإِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيهِ (متفق عليه).

(صحیح بخاري كتاب الأدب، باب من أكفر أخاء بغير تأويل فهو كما قال، صحیح مسلم کتاب الإيمان، باب بيان حال الإيمان من قال لأخيه المسلم يا كافر.)

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بھی اپنے کسی بھائی کو کہا: اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔ اگر حقیقہ وہ کافر ہے جیسا کہ اس نے کہا تو ٹھیک، ورنہ کہنے والا ہی کا فر ہو جائے گا۔

وَعَنْ أَبِي ذَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ دَعَا رَجُلاً بِالكُفْرِ أَوْ قَالَ: عَدُوَّ اللهِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِلا حَارَ عَلَيْهِ. (متفق عليه).

(صحیح بخاری: کتاب المناقب، باب صحیح مسلم: كتاب الإيمان، باب بيان حال الإيمان من قال لأخيه المسلم يا كافر.)

ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے کسی آدمی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہا تو کہنے والا ہی کا فر یا اللہ کا دشمن ہو جائے گا۔

وَعَن أَبِي المُليحٍ عَن رَجُلٍ قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ ﷺ فَعَشَرَتْ دابتُهُ فَقُلْتُ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: لَا تَقُلْ تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَإِنكَ إِذا قُلتَ ذلك تعاظَمَ حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ البَيتِ وَيَقُولُ: بِقُوَّتِي، وَلٰكِنْ قُلْ: بِسْمِ اللَّهِ فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ تَصَاغَرَ حَتَّى يَكُوْنَ مِثْلَ الذُّباب- (أخرجه أبو داود).

(سنن ابو داود: کتاب الأدب، باب لا يقال خبثت نفسي، وصححه الألباني في صحيح الكلم الطيب (237)

ابو ملیح ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا میں نبی ﷺ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کی سواری کو ٹھوکری لگی تو میری زبان سے نکلا بلاک ہو شیطان۔ تو آپﷺ نے فرمایا: یہ مت کہو تم جب یہ کہتے ہو تو وہ پھول جاتا ہے یہاں تک کہ ایک گھر کے برابر ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری قوت سے اس کو ٹھوکر لگی ہے، البتہ ’’بسم اللہ‘‘ کہو یعنی اللہ کے نام سے، تم جب ایسا کہتے ہو تو وہ سکڑ جاتا ہے حتی کہ مکھی کی مانند ہو جاتا ہے۔

تشریح:

اسلام نے اہل ایمان کے عقائد و اعمال میں پاکیزگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان و بیان کے اسلوب و محاورات کو بھی پاکیزہ بنایا ہے چنانچہ نے اللہ تعالی نے فرمایا ﴿بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقَ بَعْدَ الإِيْمَانِ﴾ (سورہ حجرات:10) کہ ایمان لے آنے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے۔ مسلمان کے ہر ہر لفظ اور کلام کا محاسبہ ہوتا ہے اگر اس نے اچھی بات کہی ہے تو ثواب کا مستحق ہے اگر بری بات زبان سے نکالی ہے تو اس پر گرفت ہے اور گناہ لکھے جاتے ہیں اس لئے رسول اکرم ﷺ نے بعض باتیں کہنے سے منع کیا ہے اور اس کی جگہ پر دوسری مناسب باتیں کہنے کی تعلیم دی ہے۔ نیز اللہ تعالی کے نام میں بڑی برکت ہوتی ہے اس سے شیطان ذلیل ورسوا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو ہر موقع پر مسنون اذکار پڑھنے کا حریص ہونا چاہئے۔

فوائد:

٭ مسلمان کو کا فرکہتا منع ہے۔

٭ مسلمانوں کو اللہ کا دشمن کہنا نا جائز ہے۔

٭ جسے کافر یا اللہ کا دشمن کہا گیا ہے اگر وہ اس کا مستحق نہیں ہے تو وہ کلمہ کہنے والے پر لوٹ آئے گا۔