موت ایک اٹل حقیقت

اہم عناصرِ خطبہ:

01.موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں

02.موت کی یاد

03.موت سے غفلت کیوں ؟

04.موت کی سختیاں

05.نیک اور بد کی موت میں فرق

06.موت کی کیفیت کے متعلق حضرت براء رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث

07.اعمال کا دار ومدار خاتمہ پر ہے

پہلا خطبہ

برادران اسلام! موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں اور یہ وہ قانون الہٰی ہے کہ جس سے نہ انبیاء ، نہ اولیاء اور نہ ہی شاہ وگدا مستثنی ہیں ۔ کسی نے سچ کہا ہے :

اَلْمَوْتُ قَدْحٌ کُلُّ نَفْسٍ شَارِبُہُ وَالْقَبْرُ بَابٌ کُلُّ نَفْسٍ دَاخِلُہُ

موت ہر زندہ پر آتی ہے ۔ بڑے پر بھی اور چھوٹے پر بھی ۔ مرد پر بھی اور عورت پر بھی ۔ نیک پر بھی اور برے پر بھی ۔ مالدار پر بھی اور غریب پر بھی ۔۔۔ اور جس پر آتی ہے وہ نہ تو خود اس سے بچ سکتا ہے اور نہ اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے اس کے ورثاء اس کو اس سے بچا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ الغرض یہ کہ کسی کو اس سے چھٹکارا نہیں ۔ کوئی طاقتور ہو تب بھی اور کوئی کمزور ہو جب بھی ، ہر حال میں اسے اس کا ذائقہ چکھنا ہی ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں دو ٹوک فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا ہے :

﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ ٭ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ﴾ الأنبیاء21:35-34

’’ اور آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی ۔ کیا آپ فوت ہو گئے تو وہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے ؟ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ ‘‘

یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! نہ تو آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشہ کیلئے زندہ رکھا گیا اور نہ ہی آپ ہمیشہ زندہ رہنے

والے ہیں ، بلکہ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔

اور سچ ہے کہ

لَوْ کَانَ فِی الدُّنْیَا بَقَائُ لَمَا مَاتَ خَیْرُ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدُ

یعنی اگر دنیا میں کسی کیلئے بقاء ہوتی تو افضل الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت نہ ہوتے۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

( أُرْسِلَ مَلَکُ الْمَوْتِ إِلٰی مُوْسٰی فَلَمَّا جَائَ ہُ صَکَّہُ،فَرَجَعَ إِلٰی رَبِّہٖ فَقَالَ : أَرْسَلْتَنِیْ إِلٰی عَبْدٍ لَا یُرِیْدُ الْمَوْتَ ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَیْہِ فَقُلْ لَّہُ یَضَعُ یَدَہُ عَلٰی مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَہُ بِمَا غَطّٰی یَدُہُ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ سَنَۃٌ ، قَالَ : أَیْ رَبِّ،ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : ثُمَّ الْمَوْتُ۔قَالَ : فَالْآنَ) صحیح البخاری:1339،3407، صحیح مسلم:2372

’’ موت کے فرشتے کو حضرت موسی علیہ السلام کی طرف بھیجا گیا ، چنانچہ وہ جب ان کے پاس آیا تو انھوں نے اسے تھپڑ رسید کر دیا ( اور اس کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالی ۔ مسلم) وہ اپنے رب کے پاس واپس لوٹا اور کہا : تو نے مجھے اُس بندے کی طرف بھیجا جو موت کا خواہشمند نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے (اس کی آنکھ اسے واپس لوٹائی اور )کہا : جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ ایک بیل کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھے ، پھر جتنے بال اس کے ہاتھ کے نیچے آئیں ان میں سے ہر بال کے بدلے اُس کیلئے ایک سال مزید ہے ۔ تو حضرت موسی علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب ! اس کے بعد پھر کیا ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر موت۔ تو انھوں نے کہا : پھر تو موت ابھی منظورہے ۔ ‘‘

اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ موت سے قطعا چھٹکارا نہیں ہے چاہے کوئی کتنی لمبی عمر کیوں نہ پائے ۔

حضرات ! موت ایسی چیز ہے جو اپنے وقت ِ مقررہ پر ہی آتی ہے ۔ نہ ایک لمحہ پہلے آتی ہے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إِذَا جَائَ أَجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ المنافقون63:11

’’ اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے ۔ ‘‘

کسی انسان کو نہ موت کا وقت معلوم ہے او رنہ اسے یہ پتہ ہے کہ یہ کہاں آئے گی ۔ اپنی موت کے مقررہ وقت پر کوئی جس حالت میں ہو گا اورجہاں ہو گا اسے موت آکر رہے گی ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ

إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ لقمان31:34

’’ کوئی ( بھی ) نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا ؟ اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور نہایت باخبر ہے۔ ‘‘

یعنی کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اسے موت کہاں آئے گی ؟ گھر میں یا گھر سے باہر ؟ اپنے وطن میں یا دیارِ غیر میں ؟ جوانی میں یا بڑھاپے میں ؟ اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد یا پہلے ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ أَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِککُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ﴾ النساء4 : 78

’’ تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں آپکڑے گی ، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو ۔ ‘‘

اور موت سے کوئی شخص راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّونَ مِنْہُ فَإِنَّہُ مُلَاقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلٰی عَالِمِ الْغَیْْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ الجمعۃ62: 8

’’ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تمھیں پہنچ کر رہے گی ۔ پھر تم سب اس ذات کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے جو ہر چھپی ہوئی اور ہر ظاہر چیز کو جاننے والا ہے ۔اور وہ تمھیں تمھارے کئے ہوئے تمام کاموں کے متعلق خبردار کرے گا ۔ ‘‘

عزیزان گرامی ! جو آیات ہم نے اب تک ذکرکی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ۔اور یہ اپنے اس مقررہ وقت پر ہی آتی ہے جس کا کسی کو علم نہیں ۔ اور ہر حال میں آ کر رہتی ہے چاہے کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے ۔ لہٰذا ہر انسان کو موت سے پہلے کا وقت غنیمت تصور کرنا چاہئے اور اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہی لگانا چاہئے تاکہ جب اس کی موت آئے تو اس کا پروردگار اس سے راضی ہو۔ ورنہ اگر انسان اپنی زندگی مستی اور عیش پرستی میں گذار دے اور اس دوران اس دھوکے میں پڑا رہے کہ ابھی نیکی اور توبہ کرنے کو بہت وقت پڑا ہے اور پھر اسی حالت میں اس کی موت آجائے تو اس سے بڑھ کر سیاہ بختی اور محرومی ٔ قسمت اور کیاہوگی ؟

ارشاد باری ہے : ﴿وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِیْ إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِیْنَ﴾ المنافقون63:10

’’ اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے اس میں سے موت کے آنے سے پہلے ( ہماری راہ میں ) خرچ کر

لو۔ ( ورنہ جب موت آجائے گی تو وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے ) کہے گا : اے میرے رب ! مجھے تو نے تھوڑی دیر کیلئے مہلت کیوں نہ دی کہ میں اس میں صدقہ کرلیتا اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا ۔ ‘‘

گویا موت کے وقت نیکی کرنے کی خواہش اور نیک لوگوں میں سے ہوجانے کی تمنا کسی کام نہیں آئے گی ۔ اس لئے وہ وقت آنے سے پہلے ہی انسان کو نیکی اور توبہ کرلینی چاہئے ۔

موت کی یاد

برادرانِ اسلام ! موت کو ہر دم یاد رکھنا چاہئے اور کبھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے ۔ اور ہر انسان کو اپنے ان رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق سوچنا چاہئے کہ جو کل تک دنیا میں اس کے ساتھ تھے اور آج مٹی کے ڈھیر تلے دب چکے ہیں ۔ بڑی حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو اپنے کندھوں پر کئی جنازے اٹھا چکا ہو ، اپنے ہاتھوں کئی فوت شدگان کو دفن کر چکا ہو ، اپنی آنکھوں سے قبرستان کے کئی خوفناک مناظر دیکھ چکا ہو ، اپنے کانوں سے کئی لوگوں کی اچانک موت کے واقعات سن چکا ہو اور پھر بھی اپنی موت سے غافل ہو !

امام ابن قدامہ نے موت کی یاد کے حوالے سے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے :

ایک وہ انسان ہے جو کہ دنیاوی کاموں میں بری طرح مشغول رہتا ہے اور دنیا کی طلب میں دن رات ایک کردیتا ہے ۔ ایسا شخص موت سے غافل رہتا ہے اور اگر کبھی اسے موت یاد بھی آتی ہے تو وہ اس سے نفرت کرتا ہے ۔

دوسرا وہ انسان ہے جو کہ موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کو یاد کرکے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے وہ کثرت سے توبہ کرتا رہتا ہے ۔ ایسا شخص موت سے محبت کرنے والا ہوتا ہے اور اگر اس کے دل میں کبھی موت کو ناپسند کرنے کا خیال آتا بھی ہے تو وہ محض اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہ گار تصور کرتا ہے اور مزید نیکیاں کمانے کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ اور اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو ۔ تو اس تمنا کے پورا ہونے تک اگر وہ موت کو ناپسند کرتا ہو تو اور بات ہے ورنہ عام حالات میں موت اسے پسند ہی ہوتی ہے۔

اور تیسرا انسان وہ ہے جو کہ موت کو ہر دم یاد رکھتا ہے اور کسی بھی لمحے اس سے غافل نہیں ہوتا ۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے جلد ملاقات کرنے کا متمنی ہوتا ہے تاکہ وہ دنیا کی پریشانیوں سے نجات پاکر جلد از جلد نعمتوں والے گھر میں جا پہنچے ۔

ان تینوں میں سے سب سے بہتر شخص تیسرا ہے ، اس کے بعد دوسرا اور سب سے بد تر انسان پہلا ہے جو کہ موت سے مکمل طور پر غافل رہتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَکْثِرُوْا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتَ،فَإِنَّہُ لَمْ یَذْکُرْہُ أَحَدٌ فِیْ ضَیْقٍ مِّنَ الْعَیْشِ إِلَّا وَسَّعَہُ عَلَیْہِ )) شعب الإیمان،صحیح ابن حبان۔ صحیح الجامع للألبانی:1211

’’ لذتوں کو ختم کردینے والی چیز یعنی موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کرو ، کیونکہ جو شخص بھی اسے تنگ حالی میں یاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوشحال بنادیتا ہے ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ اچانک ایک انصاری آیا ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا ، پھر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! مومنوں میں سب سے افضل کون ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَحْسَنُہُمْ أَخْلاَقًا))

’’ ان میں جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو ۔‘‘

اس نے پھر پوچھا : مومنوں میں سب سے زیادہ عقلمند کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُہُمْ لِمَا بَعْدَہُ اسْتِعْدَادًا،أُولٰئِکَ الْأکْیَاسُ)) سنن ابن ماجہ :4259۔ وصححہ الألبانی

’’ ان میں جو سب سے زیادہ موت کویاد کرنے والا ہواور جو موت کے بعد آنے والے مراحل کیلئے سب سے زیادہ تیاری کرنے والا ہو وہی لوگ زیادہ عقلمند ہیں ۔ ‘‘

الدقاق کا کہنا ہے کہ جو شخص موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اس کا تین طرح سے اکرام کیا جاتا ہے : ایک یہ کہ اسے جلدی توبہ کرنے کی توفیق مل جاتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ جتنا ملتا ہے اسے اتنے پر قناعت نصیب ہوتی ہے ۔ اور تیسرا یہ کہ اسے عبادت میں لذت اور نشاط محسوس ہوتی ہے ۔ اور جو شخص موت کو بھلا دیتا ہے اسے تین طرح سے سزا دی جاتی ہے : ایک یہ کہ اسے جلدی توبہ کرنے کی توفیق نہیں ملتی ۔ دوسرا یہ کہ جتنا آتا ہے اس پر قناعت نصیب نہیں ہوتی ۔ اور تیسرا یہ کہ عبادت میں سستی اور بے دلی محسوس ہوتی ہے ۔

اور اللہ رب العزت کے اس فرمان :﴿ اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً﴾ الملک67 :2

’’(اللہ وہ ہے )جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون زیادہ

اچھا ہے۔ ‘‘

کے متعلق السدی کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم میں کون زیادہ موت کو یاد کرنے والا ،اس کی تیاری کرنے والا اور اس سے ڈرنے والا ہے۔

جو چیز موت اور آخرت کی یاد دلاتی ہے اور دنیا سے بے رغبت کردیتی ہے وہ ہے قبرستان کی زیارت۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر گئے تو آپ خود بھی روئے اور جو آپ کے ساتھ تھے آپ نے انھیں بھی رلایا ۔ پھر فرمایا:

(( اِسْتَأْذَنْتُ رَبِّیْ فِیْ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَہَا فَلَمْ یُؤْذَنْ لِیْ،وَاسْتَأْذَنْتُہُ فِیْ أَنْ أَزُوْرَ قَبْرَہَا فَأَذِنَ لِیْ،فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَإِنَّہَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ )) صحیح مسلم،الجنائز باب استئذان النبی صلي الله عليه وسلم ربہ عز وجل فی زیارۃ قبر أمہ:976

’’ میں نے اپنے رب سے والدہ کیلئے استغفار کی اجازت طلب کی لیکن مجھے اجازت نہیں ملی ۔ پھر میں نے والدہ کی قبر پر آنے کی اجازت طلب کی تو اجازت مل گئی ۔ لہٰذا تم قبرستان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ ( قبریں ) موت کی یاد دلاتی ہیں ۔ ‘‘

اس لئے انسان کو گاہے بگاہے قبرستان میں ضرور جانا چاہئے تاکہ اسے عبرت حاصل ہو اور وہ اپنے انجام کو یاد کرکے راہِ راست پر آجائے ۔ یا اگر وہ پہلے ہی راہِ راست پر چل رہا ہے تو موت کو یاد کرکے استقامت کے ساتھ اسی راہِ راست پر چلتا رہے ۔

پتھر دلوں کا علاج

پتھر دل لوگ اگر اپنے دل نرم کرنا چاہتے ہوں تو ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ :

01.جن گناہوں میں منہمک ہوں انھیں فورا چھوڑ دیں اور دینی مجلسوں میں حاضر ہوں ۔

02.موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کریں۔وہ موت جو لذتوں کو ختم کردیتی ہے ، پیاروں سے جدا کردیتی ہے اور بچوں کو یتیم بنا دیتی ہے ۔

03.جن لوگوں کی موت کا وقت قریب ہو اور وہ سکراتِ موت میں مبتلا ہوں ان کے پاس بیٹھیں۔ اس سے بھی پتھر دل نرم ہوجاتے ہیں ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ،إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَخْبَرَ مُوْسٰی بِمَا صَنَعَ قَوْمُہُ فِیْ الْعِجْلِ فَلَمْ یُلْقِ الْألْوَاحَ،فَلَمَّا عَایَنَ مَا صَنَعُوْا أَلْقَی الْألْوَاحَ فَانْکَسَرَتْ )) مسند أحمد:260/4:2447،صحیح ابن حبان :6213۔ وہو حدیث صحیح

’’ کسی خبر کا سننا اس کو دیکھنے کی مانند نہیں ہوتا ۔ اسی لئے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کی قوم کے بارے میں خبر دی کہ اس نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ہے تو انہوں نے اپنی تختیاں نہ پھینکیں ، لیکن جب انہوں نے جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو ( غصے سے ) تختیاں پھینک دیں جس سے وہ ٹوٹ گئیں ۔ ‘‘

یعنی جن لوگوں کی موت کا وقت قریب ہوانھیں دیکھنا ، قبروں پر جا نا اورمیت کو غسل دینے ،کفن پہنانے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد اس کی تدفین کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا ، محض خبریں سننے کی بہ نسبت زیادہ مؤثر اور عبرتناک ہے ۔

موت سے غفلت کیوں ؟

موت اور موت کے بعد آنے والے تمام مراحل کٹھن اور انتہائی خوفناک ہیں ۔ اس لئے سچا مومن جب بھی موت اور قبر کا تصور اپنے ذہن میں لاتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اس کے خوف سے کانپ اٹھتا ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے ایک انسان کو پر خطر سفر طے کرنا ہو تو وہ سفر شروع کرنے سے پہلے ہر وقت اس کے متعلق سوچ وبچار میں پڑا رہتا ہے اور ہر ممکن حد تک اس کے خطرات کو کم کرنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ۔ بالکل اسی طرح آخرت کا سفر ہے جس کا آغاز موت سے ہوتا ہے اور اس کی پہلی منزل قبر ہے ۔۔ جی ہاں ! ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی کہ جہاں کوئی دوست کام آئے گا نہ رشتہ دار ساتھ دیں گے ۔۔۔

کہا احباب نے ہر دفن کے وقت اب ہم وہاں کا کیاحال جانیں

لحد تک آپ کی تعظیم کردی آگے آپ کے نامہ اعمال جانیں

پھر اس کے بعد آنے والی تمام منزلیں اس سے بھی زیادہ سنگین ۔۔۔ تو ایسے پر خطر سفر سے آخر ہم لوگ کیوں غافل ہیں ؟ موت کا تصور ہمیں کیوں نہیں جھنجھوڑتا ؟ موت کو یاد کرکے ہم خوابِ غفلت سے کیوں بیدار نہیں ہوتے؟ بظاہر اس کے دو اسباب ہیں : ایک دنیا کی محبت اور دوسرا جہالت

چنانچہ دنیا کی محبت اور اس کی لذتوں اور شہوتوں میں ہم اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ جس طرح ہمارے باپ دادا اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے اسی طرح ہمیں بھی اسے الوداع کہنا ہے ۔

لیکن صد افسوس ! ہمارے سامنے ہر وقت دنیاوی خواہشات کی ایک لمبی چوڑی فہرست رہتی ہے جس کو پورا کرنا ہمارا مقصدِ حیات ہوتا ہے ۔ اور جب تک ان میں سے چند خواہشات پوری ہوتی ہیں تب تک زندگی کا بڑا حصہ گذر چکا ہوتا ہے اور مزید خواہشات جنم لے چکی ہوتی ہیں ۔ اور ابھی بہت ساری خواہشات نامکمل ہوتی ہیں کہ فرشتۂ اجل دروازے پر آ پہنچتا ہے ۔ تب سوائے پچھتاوے اور افسوس کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا یَزَالُ قَلْبُ الْکَبِیْرِ شَابًّا فِیْ اثْنَتَیْنِ : فِیْ حُبِّ الدُّنْیَا ، وَطُوْلِ الْأمَلِ )) صحیح البخاری:6420

’’دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں عمر رسیدہ انسان کا دل ہمیشہ جوان رہتا ہے : دنیا سے محبت اور لمبی لمبی امیدیں ۔ ‘‘

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یَکْبُرُ ابْنُ آدَمَ وَیَکْبُرُ مَعَہُ اثْنَانِ : حُبُّ الْمَالِ ، وَطُوْلُ الْعُمُرِ )) صحیح البخاری:6421

’’ ابنِ آدم جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اس کے ساتھ دو چیزیں بھی بڑی ہوتی رہتی ہیں : مال کی محبت اور لمبی زندگی کی خواہش۔ ‘‘

حالانکہ ابن ِ آدم ذرا سا سوچے تو اسے یقین ہو جائے کہ اس کی موت نے تواسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع لکیر کھینچی ، پھر اس کے عین درمیان میں ایک اورلکیر کھینچی جو ایک جانب سے باہر کو جا رہی تھی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیان والی لکیر کی دونوں جانب چھوٹی چھوٹی اور لکیریں کھینچیں ۔ پھر ارشاد فرمایا :

(( ہٰذَا الْإِنْسَانُ،وَہٰذَا أَجَلُہُ مُحِیْطٌ بِہٖ،وَہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ خَارِجٌ:أَمَلُہُ، وَہٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ:الْأعْرَاضُ،فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہٰذَا نَہَشَہُ ہٰذَا،وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہٰذَا نَہَشَہُ ہٰذَا )) صحیح البخاری:6417

’’یہ ( درمیان والی لکیر ) انسان ہے اور یہ ( مربع لکیر ) اس کی موت ہے جس نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ اور یہ جو لکیر باہر کو نکل رہی ہے یہ اس کی امیدیں ہیں ۔ اور یہ جو درمیان والی لکیر کی دونوں جانب چھوٹی چھوٹی لکیریں ہیں یہ اس کو پیش آنے والی غیر دائمی پریشانیاں ہیں ۔ اگر وہ اس ( پریشانی ) سے بچ جائے تو یہ اسے آ دبوچتی ہے اور اگر وہ اس سے بچ جائے تو ایک اور پریشانی اسے ڈس لیتی ہے ۔ ‘‘

لہٰذا موت سے غافل ہونے کی بجائے ہمیشہ موت کو یاد رکھنا چاہئے اور دنیا میں یوں رہنا چاہئے جیسا کہ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا :

(( کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ))

’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :

(( إِذَا أَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ،وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ،وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ،وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ)) صحیح البخاری،الرقاق باب قول النبی صلي الله عليه وسلم (کن فی الدنیا کأنک غریب…):6416

’’ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے ۔ اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کما لوکہ جو موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں ۔ ‘‘

مسند احمد وغیرہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

(( کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَہْلِ الْقُبُوْرِ )) الصحیحۃ للألبانی:1157

’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا :

(( یَا ابْنَ آدَمَ ! اِعْمَلْ کَأَنَّکَ تَرَی اللّٰہَ،وَعُدَّ نَفْسَکَ مَعَ الْمَوْتٰی،وَإِیَّاکَ وَدَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ)) المرجع السابق

’’ اے ابن آدم ! تم عمل یوں کرو کہ جیسے تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو ۔ اور اپنے آپ کو فوت شدگان میں شمار کرو ۔ او رمظلوم کی بد دعا سے بچو ۔ ‘‘

جہاں تک موت سے غفلت کا دوسرا سبب ( یعنی جہالت ) کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی جوانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت جوانی میں نہیں بڑھاپے میں آتی ہے۔ اور یہی سمجھ کر وہ موت سے غافل ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر وہ اپنے محلے میں بوڑھے لوگوں کی گنتی کریں تو شاید وہ دس سے بھی کم ہوں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیادہ تر لوگ بڑھاپے تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں ۔

جبکہ کئی لوگ اپنی تندرستی سے دھوکہ کھاجاتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ موت تو بیماری کی حالت میں

آتی ہے حالانکہ اگر وہ اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں کا جائزہ لیں تو انھیں معلوم ہو گا کہ کتنے لوگ صحتمند ہونے کے باوجود اچانک اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ تو کیا ان جیسی اچانک موت ان پر نہیں آسکتی ؟

موت کی سختیاں

اللہ تعالیٰ نے موت کی سختیوں کا ذکر چار آیاتِ قرآنیہ میں کیا ہے :

01. ﴿ وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ ق50 : 19

’’ موت کی سختی حق کے ساتھ آ چکی ۔ ‘‘

02. ﴿وَلَوْتَرٰی إِذِ الظَّالِمُوْنَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ﴾ الأنعام6:93

’’ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے ‘‘

03. ﴿فَلَوْ لَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ﴾ الواقعۃ56 :83

’’ پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے ۔ ‘‘

04. ﴿کَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ﴾ القیامۃ75 :26

’’ ہرگز نہیں ، جب روح ہنسلی تک پہنچ جائے گی ۔ ‘‘

جس وقت انسان پر موت آتی ہے وہ لمحہ آسان نہیں بلکہ انتہائی مشکل اور زندگی کا سب سے سخت لمحہ ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( کی وفات کے وقت ) آپ کے سامنے پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا ، آپ پانی میں اپنے ہاتھ داخل کرتے اور اپنے چہرے پر پھیرتے ہوئے فرماتے: ( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ إِنَّ لِلْمَوْتِ لَسَکَرَاتٍ) ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، یقینا موت کی سختیاں ہوتی ہیں‘‘ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا اور فرمانے لگے : ( فِیْ الرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی ) یہاں تک کہ آپ کی روح قبض کر لی گئی اور آپ کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔ صحیح البخاری :4449

یہ حالت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالانکہ آپ تو انسانوں میں سب سے افضل انسان اور انبیاء علیہم السلام میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ لہٰذا ذرا سوچئے تو سہی کہ موت کے وقت میری اور آپ کی کیا حالت ہو گی ! اگر

پیغمبروں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی موت کی سختیوں کا احساس ہو رہا تھا تو کوئی اور انسان موت کی ان سختیوں سے کیونکر بچ سکتا ہے ؟

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ (مَاتَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم وَإِنَّہُ لَبَیْنَ حَاقِنَتِیْ وَذَاقِنَتِیْ،فَلَا أَکْرَہُ شِدَّۃَ الْمَوْتِ لِأَحَدٍ أَبَدًا بَعْدَ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم )

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ( آپ کا سر مبارک ) میری ٹھوڑی اور ہنسلی کے درمیان تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گردن اور میرے سینے کے درمیان تھا ] اور جب سے میں نے آپ کی موت کو دیکھا ہے اس کے بعد میں کسی کی موت کی سختی کو ناپسند نہیں کرتی ۔ صحیح البخاری:4446

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی سختی کو دیکھ کر مجھے اب کسی اور کی موت کی سختی پر کوئی تعجب نہیں ہوتا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں سب سے اونچا مرتبہ آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین رحمہ اللہ کا ہے ۔ تو آئیے ذرا دیکھیں کہ موت کے وقت ان صلحائِ امت کے احساسات کیا تھے :

01. حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ پر موت کی گھڑی آئی تو کہنے لگے : کیا کوئی ہے جو اس گھڑی کیلئے عملِ صالح کرلے ؟ کیا کوئی ہے جو اس دن کیلئے کچھ کما لے ؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کردیا ۔ ان کی بیوی نے کہا : آپ تو صحابی ٔرسول ہیں ، آپ کیوں روتے ہیں ؟ انھوں نے کہا : میں کیوں نہ روؤں جبکہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میرے کس گناہ پر میری پکڑ ہو جائے !

02. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے موت کے وقت رونا شروع کردیا تو کسی نے پوچھا : کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں دنیا کو چھوڑنے کے غم میں نہیں رو رہا بلکہ اس لئے رو رہا ہوں کہ ابھی میں ایک لمبے سفر پر روانہ ہونے والا ہوں اور میرا سفر خرچ بہت کم ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ میں جنت میں جاؤں گا یا جہنم میں !

03. حضرت عطاء السلمی رحمہ اللہ کی موت کا وقت قریب آیا تو ان سے کسی نے پوچھا : آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟ تو کہنے لگے : موت میری گردن میں ہے ، قبر میرے سامنے ہے ، روزِ قیامت مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور پھر پل صراط سے گذرنا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ ان تمام مراحل میں میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ! یہ کہہ کر انھوں نے رونا شروع کردیا اور اتنے روئے کہ بے ہوش ہو گئے ۔ پھر جب افاقہ ہوا تو دعا کرتے ہوئے کہنے لگے : اے اللہ ! تو میرے حال پر رحم فرما اورقبر میں آسانی فرما اور موت کا لمحہ آسان کردے ۔

04. حضرت محمد بن المنکدر رحمہ اللہ نے موت کے وقت رونا شروع کیا تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے

ہیں ؟ تو انھوں نے کہا: میں اپنے کسی گناہ پر نہیں رو رہا بلکہ اس لئے رو رہا ہوں کہ میں نے کہیں کوئی کام ہلکا سمجھ کر نہ کرلیا ہو اور وہ اللہ کے ہاں بہت بڑا ہو ۔

05. حضرت سفیان الثوری رحمہ اللہ نے موت کی گھڑی میں کہا : موت کی سختی سے زیادہ سخت موقع مجھ پر کبھی نہیں آیا اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں اس سخت مرحلے میں مجھ پر مزید سختی نہ کی جائے ۔

عزیزان گرامی! اب وقت آ چکا کہ غفلت کی نیند میں سویا ہوا انسان بیدار ہو جائے اور موت کے کڑوے گھونٹ کو پینے کا وقت آنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ سانس اور حرکاتِ قلب بند ہو جانے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔ اور قبر کا سفر شروع کرنے سے پہلے غافل اپنی غفلت سے خبردار ہو جائے ۔

جب موت نے انبیاء ورسل علیہم السلام اور اولیاء و متقین کومعاف نہیں کیا تو ہم کون ہیں کہ موت کو یاد نہیں کرتے؟ اور اس کی تیاری نہیں کرتے ؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ قُلْ ہُوَ نَبَأٌ عَظِیْمٌ٭أَنْتُمْ عَنْہُ مُعْرِضُوْنَ﴾ ص:38 68-67

’’ کہہ دیجئے ! وہ بہت بڑی خبر ہے جس سے تم اعراض کرتے ہو ۔ ‘‘

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ مجھے تین باتوں نے ہنسایا ہے اور تین باتوں نے رونے پر مجبور کیا ہے۔جن تین باتوں نے مجھے ہنسایا ہے وہ ہیں : دنیا کو طلب کرنے والا انسان جبکہ وہ خود موت کو مطلوب ہے ۔ اور ایک غافل انسان جبکہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس سے غافل نہیں ۔ اور ایسا انسان جو منہ بھر کر ہنستا ہے اور اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے اس طرح اللہ تعالیٰ کو راضی کیاہے یا ناراض ؟ اور جن تین باتوں نے مجھے رونے پر مجبور کیا ہے وہ ہیں : اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی جدائی ۔ اور موت کی سختیوں کے وقت قریب المرگ انسان کا شدید خوف ۔ اور اس دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا جب ہر خفیہ چیز ظاہر ہو جائے گی اور انسان کو کچھ پتہ نہ ہو گا کہ اس کاٹھکانا جنت ہے یا جہنم ؟‘‘

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’کیا میں تمھیں ان دو دنوں اور ان دو راتوں کے متعلق نہ بتاؤں کہ ان جیسے دن اور رات کبھی کسی نے نہیں دیکھے ؟ دو دنوں میں سے پہلا دن وہ ہے جب تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اس کی رضا یا اس کی ناراضگی کو لے کر آئے گا ۔ اور دوسرا دن وہ ہے جب تمھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا ، پھر تمھیں تمھارا نامہ اعمال تمھارے دائیں ہاتھ میں یا تمھارے بائیں ہاتھ میں پکڑادیا جائے گا ۔ اور دو راتوں میں سے پہلی رات وہ ہے جوکہ میت کو قبر میں گذارنی ہے اور دوسری رات وہ ہے جس کی صبح کو قیامت قائم ہوگی ۔ ‘‘

نیک اور بد کی موت میں فرق

جس طرح نیک اور بد کی زندگی اور اللہ کے فرمانبردار اور اس کے نافرمان کی زندگی ایک جیسی نہیں ہوتی اسی طرح ان دونوں کی موت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَّحْیَاہُم وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾ الجاثیۃ45 :21

’’ کیا برے کام کرنے والوں کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ؟ کیا ان کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا ؟ برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘

یعنی اگر ان مجرموں کا یہ خیال ہے کہ ان کا اور ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا تو یقینی طور پر ان کا یہ خیال برا ہے ، کیونکہ ان کی موت وحیات میں بہت فرق ہے ۔۔۔ اور یہ فرق کیا ہے ؟ اس بارے میں متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ موجود ہیں ۔ ان میں سے چند ایک آپ بھی سماعت فرما لیں :

نیک اور صالح انسان کی موت کی کیفیت کواللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں :

﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ. ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً . فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ الفجر89: 30-27

’’ اے اطمینان والی روح ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل ، اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش ۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا ۔ ‘‘

یہ عظیم خوشخبری مومن کو اس کی موت کے وقت دی جاتی ہے ۔ گویا اس کی موت آسان ہوتی ہے اور اس حالت میں اس پر آتی ہے کہ جب وہ اللہ سے اور اللہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ کے نافرمان کی موت اس حالت میں آتی ہے کہ فرشتۂ موت اسے موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی خبر سناتا ہے اور اس کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : تو اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرف چلی جا ۔

برے اور نافرمان انسان کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُوا أَیْْدِیْہِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ﴾ الأنعام6: 93

’’ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا کر انہیں کہہ رہے ہوتے ہیں : اپنی جانیں نکالو ، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم اللہ پر جھوٹ بولتے تھے اور تم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔ ‘‘

اس آیت میں غور فرمائیں کہ ظالم کی موت کتنی بری اور کس قدر سخت ہوتی ہے کہ فرشتے اس کی جان نکالنے پر تیار نہیں ! وہ اسی کو حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی جان خود نکالو ! اور موت کے وقت ہی اسے عذابِ الہی کی دھمکی سنا دیتے ہیں !

اور کافر کی موت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یوں کھینچا ہے :

﴿ فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ﴾ محمد47:27

’’ پس ان کی کیسی ( درگت ) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور سرینوں پر ماریں گے ۔ ‘‘

جبکہ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداروں اور نافرمانوں کی موت کے فرق کو یوں واضح کیا ہے:

سب سے پہلے نافرمانوں کی موت کے متعلق فرمایا :

﴿اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلائِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنفُسِہِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوئٍ بَلیٰ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ. فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ﴾ النحل16:29-28

’’ وہ جو ( نافرمانی کرکے ) اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو وہ نیاز مندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم توکوئی برا کام نہیں کرتے تھے ۔( تو ان سے کہا جاتا ہے) کیوں نہیں ! اللہ تمھارے عملوں کو خوب جاننے والا ہے ۔ لہٰذا تم ہمیشہ کیلئے جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ، پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا ! ‘‘

اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبرداراور نیک لوگوں کی موت کا تذکرہ یوں فرماتا ہے :

﴿اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ النحل16:32

’’ وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں فرشتے انہیں کہتے ہیں : تمھارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے ، جاؤ جنت میں چلے جاؤ اپنے ان اعمال کے سبب جو تم کرتے تھے ۔ ‘‘

ان آیات سے ثابت ہوا کہ نیک لوگوں کو ان کی موت کے وقت فرشتے سلامتی اور جنت کی عظیم خوشخبری

سناتے ہیں جبکہ نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی سخت وعید سناتے ہیں ۔ یہی بنیادی فرق ہے نیک اور بد کی موت میں ۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، پھر اگر مرنے والا نیک ہو تو وہ کہتے ہیں : اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل ، تُو قابلِ ستائش حالت میں نکل اور تجھے آرام اور عمدہ روزی کی خوشخبری ہو اور اس بات کی کہ اللہ تجھ پر راضی ہے ۔ فرشتے یہ باتیں بار بار اسے کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے ۔ پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے : یہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ تو کہا جاتا ہے : اس پاک روح کو خوش آمدید جو پاک جسم میں تھی ، تم قابلِ ستائش حالت میں اندر آ جاؤ ۔ اور تمھیں آرام اور عمدہ روزی کی خوشخبری ہو اور اس بات کی کہ اللہ تم پر راضی ہے۔ فرشتے اسے بار بار یہ خوشخبریاں سناتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس آسمان پر پہنچ جاتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ ہے (یعنی علیین میں)

اور اگر مرنے والا برا ہو تو فرشتہ کہتا ہے: اے وہ ناپاک روح جو ناپاک جسم میں تھی نکل ، تُو قابلِ مذمت حالت میں نکل ۔ اور تجھے جہنم اور پیپ اور طرح طرح کے عذاب کی خوشخبری ہو ، پھر اس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے ، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اس کیلئے جب آسمان کا دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے : اس ناپاک روح کو کوئی خوش آمدید نہیں جو ناپاک جسم میں تھی ، تم قابلِ مذمت حالت میں واپس پلٹ جاؤ اور تمھارے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جا سکتے ۔ پھراسے واپس بھیج دیا جاتا ہے اورپھر وہ قبر میں آ جاتی ہے۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ :4262۔ وصححہ الألبانی

حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ ، وَمَنْ کَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ))

’’جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہو اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔ اورجو شخص اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہو اللہ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اگر اس سے مراد موت کو نا پسند کرنا ہے تو اسے توہم سب نا پسند کرتے ہیں !

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( لَیْسَ کَذٰلِکَ،وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ،فَلَیْسَ شَیْئٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہُ،فَأَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ، وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ،وَإِنَّ

الْکَافِرَ إِذَا حَضَرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللّٰہِ وَعُقُوْبَتِہٖ،فَلَیْسَ شَیْئٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہُ ، فَکَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ، وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ )) صحیح البخاری:6507،صحیح مسلم :2684

’’ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی رضا کی خوشخبری دی جاتی ہے اور اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتہائی کریم ہے ۔ اس لئے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے سوا کوئی اور چیز زیادہ محبوب نہیں ہوتی ۔ اور وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کی خوشخبری دی جاتی ہے ، اس لئے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے سوا کوئی اور چیز زیادہ ناپسندیدہ نہیں ہوتی ۔ اوروہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘

موت کی کیفیت کے متعلق حضرت براء رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کا جنازہ لے کر نکلے ، ہم قبرستان میں پہنچے تو ابھی اس کیلئے لحد تیار نہیں کی گئی تھی ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہو کربیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے ارد گرد یوں پر سکون ہو کر بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین میں کچھ کرید رہے تھے ۔ اِس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی آسمان کی طرف دیکھتے اور کبھی زمین پر دیکھتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار اوپر نیچے دیکھا ، پھر فرمانے لگے : ’’ تم عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کیا کرو ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ دعا کی :

(( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ))

’’ اے اللہ ! میں عذابِ قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بے شک بندہ ٔمومن جب دنیا سے منقطع ہو کر آخرت کی طرف جانے لگتا ہے تو آسمان سے سفید چہرے والے فرشتے اس کی طرف نازل ہوتے ہیں ۔ اُن کے چہرے سورج کی طرح روشن ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن اور جنت کی خوشبوؤں میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے۔ وہ اس سے حدِ نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت ( علیہ السلام ) آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتا ہے : اے پاک روح ! تو اللہ کی مغفرت اور اس کی رضا کی طرف نکل ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اس کی

روح یوں نکلتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا ایک قطرہ بہہ نکلتا ہے ۔ پھر وہ ( فرشتہ ) اسے وصول کر لیتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اس کی روح نکلتی ہے تو زمین و آسمان کے درمیان اوراسی طرح آسمان پر جتنے فرشتے ہوتے ہیں سب اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں ،آسمان کے دروازے اس کیلئے کھول دئے جاتے ہیں اور ہر دروازے پر متعین فرشتے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح کو ان کے راستے سے اوپر لے جایا جائے ] پھر جب ملک الموت اس کی روح کوقبض کرلیتا ہے تو وہ فرشتے جو اس کیلئے جنت سے کفن اور خوشبو لے کر آتے ہیں اور دور بیٹھے ہوتے ہیں وہ پلک جھپکتے ہی اس کے پاس آ جاتے ہیں اور ملک الموت سے اس کی روح کو لے لیتے ہیں اور اسے جنت کے کفن اور خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں۔ یہی معنی ہے اللہ کے اس فرمان کا:﴿تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُوْنَ﴾ الأنعام6 :61 یعنی ’’ اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔‘‘

اور اس کی روح سے زمین پر پائی جانے والی سب سے اچھی کستوری کی خوشبو پھوٹ نکلتی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر وہ اسے لے کر( آسمان کی طرف ) اوپر جاتے ہیں اور وہ جتنے فرشتوں کے پاس سے گذرتے ہیں سب کہتے ہیں : یہ کتنی پاکیزہ روح ہے ! تو وہ جواب دیتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ وہ اسے سب سے اچھے نام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس کا دنیا میں تذکرہ کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اسے لے کر آسمانِ دنیا ( پہلے آسمان ) پر پہنچ جاتے ہیں ۔ فرشتے اس کیلئے دروازہ کھلواتے ہیں ، چنانچہ ان کیلئے دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر ہرآسمان پر اللہ کے سب سے مقرب فرشتے اسے الوداع کہنے کیلئے دوسرے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اسے ساتویں آسمان تک لے جاتے ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے کی کتاب علیین میں لکھ دو:﴿وَمَا أَدْرَاکَ مَا عِلِّیُّوْنَ٭کِتَابٌ مَّرْقُوْمٌ٭یَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ المطففین83 :21-19

’’ تجھے کیا پتہ کہ علیین کیا ہے ! وہ تو لکھی ہوئی کتاب ہے ، مقرب فرشتے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ‘‘

لہٰذا اس کی کتاب علیین میں لکھ دی جاتی ہے ۔ پھر کہا جاتا ہے : اسے زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں نے انھیں اسی سے پیدا کیا ہے ، میں انھیں اسی میں لوٹاؤں گا اور ایک بار پھر انھیں اسی سے اٹھاؤں گا ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بے شک کافربندہ ( ایک روایت میں فاجر کا لفظ ہے )جب دنیا سے منقطع ہو کر آخرت کی طرف جانے لگتا ہے تو آسمان سے سخت دل اور مضبوط اور سیاہ چہروں والے فرشتے اس کی طرف نازل

ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ جہنم کا ایک ٹاٹ ہوتاہے۔ وہ اس سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت ( علیہ السلام ) آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتا ہے : اے ناپاک روح ! تو اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف نکل ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں ادھر ادھر جاتی ہے تو ملک الموت اسے یوں کھینچتا ہے جیسے گوشت بھوننے والی سیخ کو تر اُون سے کھینچا جائے ۔ اس سے اس کی رگیں اور آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں ۔ پھر زمین و آسمان کے درمیان اوراسی طرح آسمان پر جتنے فرشتے ہوتے ہیں سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ اور آسمان کے دروازے اس کیلئے بند کر دئے جاتے ہیں ۔ اور ہر دروازے پر متعین فرشتے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح کو ان کے راستے سے اوپر نہ لے جایا جائے ۔ پھر جب ملک الموت اس کی روح کوقبض کرلیتا ہے تو وہ فرشتے جو اس کیلئے جہنم سے ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور دور بیٹھے ہوتے ہیں وہ پلک جھپکتے ہی اس کے پاس آ جاتے ہیں اور ملک الموت سے اس کی روح کو لے لیتے ہیں اور اسے اس ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں ۔ اس کی روح سے زمین پر پائی جانے والے کسی مردہ جانور کی سب سے گندی بد بو پھوٹ نکلتی ہے ۔ پھر وہ اسے لے کر( آسمان کی طرف ) اوپر جاتے ہیں اور وہ جتنے فرشتوں کے پاس سے گذرتے ہیں وہ سب کہتے ہیں : یہ کتنی ناپاک روح ہے ! تو وہ جواب دیتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ وہ اسے سب سے برے نام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جس کے ساتھ دنیا میں اس کا تذکرہ کیاجاتاتھا یہاں تک کہ وہ اسے لے کر آسمانِ دنیا ( پہلے آسمان) پر پہنچ جاتے ہیں ۔ تو فرشتے اس کیلئے دروازہ کھلواتے ہیں لیکن اس کیلئے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ﴾ الأعراف7:40

یعنی ’’ ان کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے ۔ ‘‘

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس کی کتاب سجین ( سب سے نچلی زمین ) میں لکھ دو ۔ پھر کہا جاتا ہے : اسے زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں نے انھیں اسی سے پیدا کیا ہے ،میں انھیں اسی میں لوٹاؤں گا اور ایک بار پھر انھیں اسی سے اٹھاؤں گا ۔ تو اس کی روح کو آسمان سے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :

﴿وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَاخَرَّ مِنَ السَّمَائِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُأَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ﴾ الحج22 :31

’’ اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گرپڑا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے گی۔۔۔ ‘‘ سنن أبی داؤد،الحاکم،الطیالسی،الآجری،أحمد۔صحیح الجامع للألبانی:1676

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک لوگوں کی موت نصیب کرے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔

دوسرا خطبہ

حضرات محترم!

پہلے خطبہ میں ہم نے موت کے متعلق چند گذارشات تفصیل سے عرض کی ہیں ۔ ان گذارشات کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر لحظہ موت کیلئے تیار رہیں اور موت سے غافل نہ ہوں ۔ اگر کوئی انسان اب تک موت سے غافل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے کرتے اس نے زندگی کا بڑا حصہ گذار لیا ہے تو وہ فورا توبہ کر لے اور صراط مستقیم پر آجائے ۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿أَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَائَ کُمُ النَّذِیْرُ﴾ فاطر35:37

’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو حاصل کر لیتا اور تمھارے پاس نذیر (ڈرانے والا ) آ چکا ۔ ‘‘

’ نذیر ‘ سے بعض مفسرین نے قرآن مجید مراد لیا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے چالیس سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد سفید بالوں کا نمودار ہونا مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿حَتّٰی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ﴾ الاحقاف46:15

’’ یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا : اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے ۔ ‘‘

لہٰذاجس شخص نے علمائے کرام ( جو کہ انبیاء علیہم السلام کے ورثاء ہیں) کی وعظ ونصیحت کو سنا ، اُدھر اس کے سر اور چہرے میں بڑھاپے کا ظہور ہوا اور وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا،پھر بھی اس نے توبہ نہ کی،نیک عمل کرکے

آخرت کیلئے تیار نہ ہوا اور اسی حالت میں اچانک اس کی موت آگئی اور مزید مہلت نہ ملی تو وہ کسی اور کو ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ہی ملامت کرے ، کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے حقوق بجا نہ لانے کا اس کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَعْذَرَ اللّٰہُ إِلَی امْرِیئٍ أَخَّرَ أَجَلَہُ حَتّٰی بَلَّغَہُ سِتِّیْنَ سَنَۃً )) صحیح البخاری: 6419

’’ اس شخص کیلئے اللہ تعالیٰ نے کوئی عذر نہیں چھوڑا جس کی موت کو اس نے اتنا مؤخر کیا کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ ‘‘

اگر کوئی انسان اللہ کے فضل وکرم سے اب تک صراط مستقیم پر چلتا رہا ہے اور اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے پرامید رہے اور اپنے آپ کو سنوارنے کی مزید کوشش کرتا رہے۔ کیونکہ اعمال کا دارو مدار خاتمہ پر ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیْلَ بِعَمَلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ ، ثُمَّ یُخْتَمُ لَہُ عَمَلُہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ،وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیْلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ،ثُمَّ یُخْتَمُ لَہُ عَمَلُہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) صحیح مسلم :2651

’’ بے شک ایک آدمی لمبے عرصے تک اہلِ جنت والا عمل کرتا رہتا ہے ، پھر اس کا خاتمہ جہنمیوں کے کسی عمل پر ہو جاتا ہے ۔ اور ایک آدمی لمبے عرصے تک جہنم والوں کے عمل کرتا رہتا ہے ، پھر اس کا خاتمہ اہلِ جنت کے کسی عمل پر ہو جاتا ہے۔ ‘‘

اور حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا ( کسی جنگ میں )آمنا سامنا ہوا اور دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیامگاہ کی طرف لوٹ آئے اور دوسرے لوگ اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں ایک شخص ایسا تھا کہ اس کے سامنے مشرکین میں سے جو بھی آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی بہادری دیکھی تو اس کے متعلق کہا : جس طرح آج اس شخص نے شجاعت وبہادری کے کارنامے دکھائے ہیں اس طرح ہم میں سے کسی نے بھی نہیں دکھائے !

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ )) ’’ خبردار ! وہ جہنمی ہے ۔ ‘‘

تو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : آج میں اس کے ساتھ ہی رہونگا ( تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ جہنمی کیوں ہے۔) یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ نکل گیا ، وہ جہاں رکتا یہ بھی رک جاتا اور وہ جہاں تیزچلتا یہ بھی تیزچلنے لگتا ۔ آخر کار وہ شخص شدید زخمی ہو گیا ۔ چنانچہ وہ صبر نہ کر سکا اور اس نے اپنی موت کیلئے جلد بازی کرتے ہوئے تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھ کر اپنے بدن کا پورا بوجھ اس پر ڈال دیا ۔ یوں اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ اس کا یہ انجام دیکھتے ہی تعاقب کرنے والا صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : (أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : بات کیا ہے ؟ اس نے کہا : آپ نے جب یہ فرمایا تھا کہ فلاں آدمی جہنمی ہے تو لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گذری تھی ۔ اس پر میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آج میں اس کا تعاقب کرونگا اور تمھیں بتاؤنگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکل گیا یہاں تک کہ جب وہ شدید زخمی ہوا تو اس نے موت کیلئے جلد بازی کی ۔ تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے جسم کا پورا وزن اس پر ڈال دیا ۔ یوں وہ خود کشی کرکے ہلاک ہو گیا ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) وفی روایۃ للبخاری : (( وَإِنَّمَا الْأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ )) صحیح البخاری : 2898،6607،صحیح مسلم :112

’’بے شک ایک آدمی بظاہر اہلِ جنت والا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے ۔ اور ایک آدمی بظاہر اہلِ جہنم والا عمل کرتا ہے اور درحقیقت وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے ۔ اور اعمال کا دار ومدار خاتموں پر ہوتا ہے ۔ ‘‘

’’ اعمال کا دار ومدار خاتمہ پر ہے ‘‘ اس سے مقصود یہ ہے کہ جس عمل پر انسان کا خاتمہ ہوتا ہے موت کے بعد اسی کے مطابق اس سے سلوک کیا جاتا ہے ۔ اگر ایمان اورعمل صالح پر خاتمہ ہوا تو قبر میں اس سے اچھا سلوک کیا جاتا ہے ، اس کی قبر کو جنت کا باغ بنا دیا جاتا ہے اور روزِ قیامت اسے ایمان اور عمل صالح پر ہی اٹھایا جائے گا ۔ اور اگر اس کا خاتمہ ( نعوذ باللہ ) کفر یا فسق وفجور پر ہوتا ہے تو قبر میں اس سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی قبر کو جہنم کا ایک گڑھا بنا دیا جاتا ہے اور روزِ قیامت اسے کفر یا فسق وفجور پر ہی اٹھایا جائے گا ۔ جیسا کہ رسول

اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَنْ مَّاتَ عَلیٰ شَیْئٍ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ )) رواہ الحاکم وقال:صحیح علی شرط مسلم ۔ صحیح الجامع للألبانی:6543

’’ جس عمل پر انسان کا خاتمہ ہوتا ہے اسی پر اللہ تعالیٰ اسے ( روزِ قیامت ) اٹھائے گا ۔ ‘‘

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ کَانَ آخِرَ کَلاَمِہٖ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ )) سنن أبی داؤد:3116۔ وصححہ الألبانی

’’ جس شخص کی آخری بات لا إلہ إلا اللہ ہو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘

اورحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ،خُتِمَ لَہُ بِہَا،دَخَلَ الْجَنَّۃَ،وَمَنْ صَامَ یَوْمًا ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ،خُتِمَ لَہُ بِہَا،دَخَلَ الْجَنَّۃَ،وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ، خُتِمَ لَہُ بِہَا،دَخَلَ الْجَنَّۃَ )) مسند أحمد:350/38:23324۔ وہو حدیث صحیح لغیرہ کما قال محقق المسند وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:985

’’ جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے لا إلہ إلا اللہ کہا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ اور جس شخص نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی جنت میں داخل ہو گا ۔ اور جس شخص نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطرصدقہ کیا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘

یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اطاعت وفرمانبرداری اور ایمان اور عمل صالح پر ثابت قدمی کی دعا کرتے رہتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا فرماتے تھے :

(( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی طَاعَتِکَ))

’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرا دل اپنی اطاعت پر ثابت رکھنا ۔‘‘

تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ اکثر یہ دعا فرماتے ہیں ، کیا آپ کو کوئی خدشہ ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:(( وَمَا یُؤْمِنِّیْ وَإِنَّمَا قُلُوْبُ الْعِبَادِ بَیْنَ أُصْبُعَیِ الرَّحْمٰنِ،إِنَّہُ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّقْلِبَ قَلْبَ عَبْدٍ قَلَبَہُ )) أحمد :151/41: 24604،230/43: 26133۔ وہو صحیح لغیرہ

’’اے عائشہ ! مجھے کونسی چیزبے خوف کرسکتی ہے جبکہ بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جب کسی کے دل کو پھیرناچاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ ‘‘

حضرات! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوف تھا تو ہمیں بالأولی خوف ہونا چاہئے اور خصوصا سوئِ خاتمہ سے ہمیں ڈرتے رہنا چاہئے ، کیونکہ جو شخص ڈرتا ہے وہی اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے ۔ اور جو شخص اپنی اصلاح کی کوشش مسلسل کرتا رہتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی دعا بھی کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اعمالِ صالحہ پر قائم رہنے کی توفیق دیتا ہے اور اسے حسن خاتمہ نصیب کرتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ خَافَ أَدْلَجَ،وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ،أَلَا إِنَّ سِلْعَۃَ اللّٰہِ غَالِیَۃٌ،أَلَا إِنَّ سِلْعَۃَ اللّٰہِ الْجَنَّۃُ )) سنن الترمذی:2450۔ وصححہ الألبانی

’’ جس شخص کو خوف ہوتا ہے وہ رات بھر چلتا رہتا ہے اور جو آدمی رات بھر چلتا رہتا ہے وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے ۔ خبر دار ! اللہ تعالیٰ کا سودا مہنگا ہے اور اللہ تعالیٰ کا سودا جنت ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر ثابت رکھے ۔ وہی ہمیں کافی ہے اور بہترین کارساز ہے ۔