نبوت محمدی کی حقانیت پر مہر ثبت کرتی ہوئی نبی کریم کی پیش گوئیاں

صلی اللہ علیہ وسلم

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الفرقان : 56)

اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر ۔

اور فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الأحزاب : 45)

اے نبی! بے شک ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔

ان آیات سے موضوع پر استدلال یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا اور انذار و تبشیر آنے والے دنوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور وہ شخص کبھی بھی مبشر یا نذیر نہیں بن سکتا کہ جو آنے والے دنوں میں کسی ہونے والے واقعہ کی خبر دے اور وہ وقوع پذیر نہ ہو گویا یہ آیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے برحق اور ضرور واقع ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی نبوت کی حقانیت کی خبر دے رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ چیلنج بھی ہے کہ اگر کسی کو آپ کے نبی برحق میں شک ہے تو آپ کی کی ہوئی کسی پیش گوئی کو غلط ثابت کر کے دکھائے

یہ آیات و معجزات حقانیت کی مہر ہوتی ہیں

دیگر معجزات کی طرح پیش گوئی کا برحق ہونا بھی ایک معجزہ ہوتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں بھی آپ کا معجزہ ہیں اور یہ ایسا معجزہ ہے جو آج تک اپنے قائل کی صداقت بیان کررہا ہے

تکلیف محض چمڑے میں ہوتی ہے

سعودی عرب کے شہر جدہ میں ڈاکٹروں کی ایک عالمی مجلس ہوتی ہے جس میں دنیا کے کئی نامور ڈاکٹر شریک مجلس تھے ایک یورپین ڈاکٹر نے اپنی تحقیق بیان کی کہ انسان کو چوٹ لگنے یا جلنے کی تکلیف اس کی جلد میں محسوس ہوتی ہے اگر چمڑا نہ ہو تو درد کا احساس جاتا رہتا ہے وہاں ایک قرآن کے طالب علم نے کہا :

یہ بات تو ہمیں قرآن نے چودہ سو سال پہلے سے بتا دی ہے اس ڈاکٹر نے کہا : بتائیں قرآن میں کہاں لکھا ہے تو اس نے یہ آیت پڑھی

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء : 56)

بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہم انھیں عنقریب ایک سخت آگ میں جھونکیں گے، جب بھی ان کی کھالیں گل سڑ جائیں گی ہم انھیں ان کے علاوہ اور کھالیں بدل دیں گے، تاکہ وہ عذاب چکھیں، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

اس نے کہا کہ اگر کھال کے سڑ جانے کے بعد بھی احساسِ درد باقی رہتا تو نئے چمڑے چڑھانے کی کوئی وجہ نہیں تھی

یہ قرآن کا اعجاز ہے اور اس کے برحق ہونے کی دلیل ہے کہ دیکھیں کیسے قرآن کی کہی ہوئی ایک بات سے صدیوں بعد جدید آلات موافقت کررہے ہیں اور آج سے صدیوں پہلے جدید آلات اور لیبارٹریز کے بغیر کوئی انسان اپنی طرف ایسی بات نہیں کہہ سکتا جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی تصنیف نہیں اور نہ ہی کسی دوسرے انسان کی بتائی ہوئی باتیں ہیں بلکہ منزل من اللہ اور برحق ہے

حقانیت اسلام کی ایک اور بڑی دلیل

ابولہب کی وفات سے 15 سال پہلے بتادیا کہ وہ اور اس کی بیوی حالت کفر پر مریں گے

امریکی فوج کا ایک بڑا افسر مسلمان ہوتا ہے کسی نے قبول اسلام کی وجہ پوچھی تو کہتا ہے مطالعہ قرآن اس کی وجہ ہے اس نے مزید پوچھا تو کہنے لگا سورہ لہب کی وجہ سے اسلام قبول کیا ہے پوچھا گیا کہ اس سورہ میں اسلام اور عیسائیت کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے تو آپ کو کیا نظر آیا کہنے لگا :

ابولہب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کا بیٹا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلےکوہ صفا والے وعظ میں حاضر ہوا تھا جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سنی تو کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں اس کام کے لئے بلایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اس پر اللہ تعالی نے یہ سورۃ نازل کی

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (المسد : 1)

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔

مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (المسد : 2)

نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔

سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ (المسد : 3)

عنقریب وہ شعلے والی آگ میں داخل ہو گا۔

وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ (المسد : 4)

اور اس کی بیوی (بھی آگ میں داخل ہوگی) جو ایندھن اٹھانے والی ہے۔

فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ (المسد : 5)

اس کی گردن میں مضبوط بٹی ہوئی رسی ہوگی۔

اس صورت کا مضمون صاف صاف بتا رہا ہے کہ ابو لھب اور اس کی بیوی مرتے دم تک کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے پھر ایسا ہی ہوا اس کے بعد 15 سال تک ابولہب زندہ رہا اس دوران اس کے کتنے دوست احباب رشتہ دار اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ابو لہب اور اس کی بیوی پندرہ سال کے عرصے میں مسلسل حالت کفر پر ہی رہے اور اسی پر انہیں موت آئی

سوچئے بھلا کوئی جھوٹی یا کسی انسان کی لکھی ہوئی کوئی کتاب 15 سال قبل اتنی بڑی بات کرسکتی ہے

الغرض کہ

پیش گوئی کا پورا ہونا اپنے قائل کی صداقت کی دلیل ہے اور پیش گوئی کا جھوٹ ثابت ہونا اپنے قائل کے جھوٹا ہونے کی نشانی ہے

کیونکہ جو سچا نبی ہوتا ہے وہ مستقبل کی کوئی بھی خبر وحی الہی کی روشنی میں دیتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی کہی ہوئی بات پوری نہ ہو

اور جو جھوٹا مدعی نبوت ہوگا وہ ایسی کوئی بھی بات یا تو صاف جھوٹ سے کہہ رہا ہوگا یا کہانت و نجامت کی یاوا گوئی کا سہارا لے رہا ہوگا

مرزا قادیانی کی پیش گوئی، مرزا جی کے جھوٹا ہونے کی دلیل ثابت ہوئی

جیسا کہ عرض کیا ہے کہ پیش گوئی کا پورا نہ ہونا اپنے قائل کے جھوٹ کی علامت ہے

مرزا قادیانی کا ایک رشتہ دار تھا مرزا احمد بیگ، اس کی ایک بیٹی تھی جسے محمدی بیگم کہا جاتا تھا

مرزا جی اس سے شادی کے خواہاں تھے لیکن مرزا احمد بیگ نہیں مان رہا تھا بالآخر مرزا نے دعویٰ کردیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ضرور ہی تیری شادی محمدی بیگم کے ساتھ ہوگی مرزا کی یہ پیش گوئی بہت مشہور ہوگئی لوگ انتظار میں تھے کہ دیکھیں کب یہ شادی ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ نے مرزا کو یوں رسوا کیا کہ مرزا احمد نے لاہور میں سلطان محمد نامی ایک لڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کروادیا یہ 1893 کی بات ہے سلطان اپنی بیگم کو لے کر لاہور چلا گیا

اب لوگ مرزا قادیانی کے پاس آتے اور پوچھتے کہ حضرت جی آپ نے وحی کی روشنی میں پیش گوئی کی تھی مگر یہ کیا ہوا

تو مرزا نے جواب دیتے ہوئے ایک اور پیش گوئی کردی کہ آپ دیکھو گے کہ اس کی اپنے خاوند کے ساتھ سیٹنگ درست نہیں رہے گی نیز تین سال کے اندر اندر اس کا باپ مرزا احمد فوت ہو جائے گا اور ہاں مرزا احمد کے فوت ہونے سے پہلے اس کا داماد سلطان بھی اڑھائی سال کے اندر اندر فوت ہو جائے گا اور پھر اس عورت کا نکاح میرے ساتھ ہوگا

اب اللہ تعالیٰ نے مرزا کو یوں جھوٹا ثابت کیا کہ مرزا 1908 میں فوت ہو گیا

جبکہ وہ عورت مرزا کی وفات کے 58 سال بعد 1966 میں فوت ہوئی اور اس کا خاوند 1945 میں فوت ہوا

آئینہ کمالات اسلام از مرزا غلام احمد قادیانی

معلوم ہوا کہ

مرزا جھوٹا نبی تھا کیونکہ سچا نبی اپنی زبان سے جھوٹی بات نہیں نکال سکتا

اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ کی کہی ہوئی تمام باتیں سچ ثابت ہوئی ہیں

میرے بعد میرے خاندان میں سے سب سے پہلے فاطمہ رضی اللہ عنہا فوت ہوگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند لمحے پہلے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي (بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ،3624)

مجھے یقین ہے کہ اب میری موت قریب ہے اور میرے گھرانے میںسب سے پہلے مجھ سے آملنے والی تم ہوگی ۔

تو چشم فلک نے دیکھا کہ واقعی ایسے ہی ہوا اور اہل بیت میں سب سے پہلے فاطمہ ہی کی وفات ہوئی

حالانکہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی تھی اس وقت فاطمہ جوان، صحت مند اور تندرست تھیں اور بظاہر موت کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے تھے

عمر و عثمان شہید ہونگے جبکہ ابوبکر کوطبعی موت آئے گی

رضی اللہ عنھم اجمعین

عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ایڈوانس خبر دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«أُسْکُنْ أُحُدُ فَلَیْسَ عَلَیْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّیقٌ وَ شَهِيدَانِ» [صحيح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب عثمان بن عفان أبى عمرو القرشي: 369937]

’’احد! حرکت بند کردے۔ تجھ پر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘

عمار، رضی اللہ عنہ شہید ہونگے اور شہید بھی باغی گروہ کرے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کے بارے فرمایا :

وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ (بخاری ،كِتَابُ الصَّلاَةِ،447)

افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی

عمار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پر کس قدر یقین تھا

عمار رضی اللہ عنہ کی ایک خادمہ بتاتی ہے

اشْتَكَى عَمَّارُ شَكْوَى ثَقُلَ مِنْهَا فَغُشِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ وَنَحْنُ نَبْكِي حَوْلَهُ، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكُمْ؟ أَتَخْشَوْنَ أَنِّي أَمُوتُ عَلَى فِرَاشِي؟ أَخْبَرَنِي حَبِيبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

کہ عمار بہت بیمار ہوگئے حتی کہ غشی طاری ہونے لگی اور ہم رونے لگے اسی دوران عمار کو کچھ افاقہ ہوا تو ہمیں روتا دیکھ کر پوچھا کہ

تم کیوں رورہے ہو

کیا تم اس بات سے ڈر رہے ہو کہ مجھے بستر پر موت آ جائے گی

ایسا ہرگز نہیں ہوگا مجھے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ

أَنَّهُ تَقْتُلْنِي الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، وَأَنَّ آخِرَ زَادِي مَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ (مسند أبي يعلى الموصلي (3/ 189)،1614)

مجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور یہ کہ میری آخری غذا کچھ پانی ملے دودھ کا ایک گھونٹ ہوگی

پھر لوگوں نے دیکھا اور تاریخ میں رقم ہوا کہ واقعی عمار رضی اللہ عنہ کو بستر پر موت نہیں آئی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 27 سال بعد عمار میدان جنگ میں باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے

نوٹ : یہ باغی گروہ اسی گروہ کا ہی چلتا ہوا سلسلہ تھا جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر اس سے مراد نہیں لیا جا سکتا اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ شہادت عمار سے پہلے اور بعد فریقین میں سے کسی نے بھی اس چیز کو اپنے حق میں یا دوسرے کی مخالفت میں بطور دلیل پیش نہیں کیا حتی کہ علی اور عمار رضی اللہ عنہما نے بھی اس سے وہ استدلال نہیں کیا جو آج کل بعض معاویہ دشمن لوگ کررہے ہیں (ھداھم اللہ تعالیٰ)

ام حرام بحری جنگ میں شہید ہوگی

ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا "

میری امت کا پہلا گروہ جو بحری جنگ لڑے گا اس پر جنت واجب ہوگئی

تو انس رضی اللہ عنہ کی خالہ ام حرام رضی اللہ عنہا کہنے لگیں ایک اللہ کے رسول کیا میں بھی اس لشکر میں شرکت کروں گی

تو آپ نے فرمایا

” أَنْتِ فِيهِمْ ” (صحيح البخاري | كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ2924)

ہاں تو اس لشکر میں شامل ہوگی

پھر آپ کی یہ پیش گوئی آپ کی وفات کے 18 سال بعد پوری ہوئی

صحیح بخاری میں ہے

چنانچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں غزوہ سے لوٹتے وقت جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو ام حرام رضی اللہ عنہ کے قریب ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن جانور نے انہیں گرا دیا اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ (صحيح البخاري | كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ2800)

حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوں گے اور شہید بھی عراق میں ہوں گے

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا :

«أَنَّ الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ» ( السلسلة الصحیحة : ۳؍۲۴۵ :رقم ۱۱۷۱)

’’کہ حسین رضی اللہ عنہ کو فرات کے کنارے پر شہید کیا جائے گا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 51 سال بعد حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور ہوئی بھی فرات کے علاقے عراق یعنی کوفہ میں

اندازہ کیجئے کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی اس وقت حسین رضی اللہ عنہ چھوٹے بچے تھے ایک بچے کے متعلق کم و بیش 50 سال قبل بتادینا کہ یہ بچہ طبعی موت نہیں بلکہ شہید ہوگا اور جائے شہادت بھی بتا دینا، یقیناً یہ امر آپ کی نبوت کی سچائی کی قطعی دلیل ہے

یہ لڑکا سو سال زندہ رہے گا

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا :

يَعِيشُ هَذاَ الْغُلَام قَرْنًا

یہ بچہ ایک صدی زندہ رہے گا

فَعَاشَ مِئَة سَنَة (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 3644)

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ ایک سو سال زندہ رہے

سلسلہ صحیحہ کی اس روایت میں ابن عساکر کے حوالے سے مزید یہ ہے کہ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی :

’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ قربان! قرن کتنا ہوتا ہے؟‘‘

آپ نے فرمایا :

’’سو سال۔‘‘

عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پچانوے برس جی چکا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہونے میں پانچ برس رہ گئے ہیں۔

محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ ہم نے بعد میں پانچ سال گنے، پھر وہ فوت ہو گئے۔

غور کریں کہ

آپ نے یہ بات علی الإعلان کہی تھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی سب اسے جانتے تھے ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ کوئی کافر یا اسلام دشمن اٹھ کر عبداللہ بن بسر کو سو سال ہونے سے پہلے ہی قتل کرنے کی کوشش کرتا اور اپنے تئیں پیغمبر اسلام کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتا مگر جو واقعی سچا ہو بھلا اسے کون جھوٹا کرسکتا ہے

یہ بیٹا دو جماعتوں کے درمیان صلح کروائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا تھا

ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ (بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ عَلاَمَاتِ 3629)

میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں ملاپ کرادے گا ۔

اس میں آپ نے کئی باتوں کی پیش گوئی فرمائی

01.مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں بن جائیں گی

02. دونوں کی باہم لڑائی ہوگی

03. حسن رضی اللہ عنہ سردار ہوں گے کیونکہ دو متحارب جماعتوں کی صلح کوئی عام بندہ نہیں کرواسکتا

04. اس وقت تک حسن زندہ رہیں گے

سبحان اللہ، پھر ایک وقت آیا یہ سب باتیں ہو بہو پوری ہوئیں

مصر فتح ہوگا ایک اینٹ برابر جگہ پر دو لوگ لڑیں گے

ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ أَرْضًا يُذْكَرُ فِيهَا الْقِيرَاطُ، فَاسْتَوْصُوا بِأَهْلِهَا خَيْرًا، فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ، فَاخْرُجْ مِنْهَا» (مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم6493)

تم عنقریب ایک زمین کو فتح کرو گےجس میں قیراط کا نام لیا جاتا ہوگا(یہ ان کے چھوٹے سکے کا نام ہوگا)تم اس سرزمین کے رہنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بات سن رکھو،کیونکہ ان کا(ہم پر) حق بھی ہے اور رشتہ بھی،پھر جب تم دو انسانوں کو ایک اینٹ کی جگہ کے لئے قتال پر آمادہ دیکھو تو وہاں سے چلے آنا۔”

وہ کہتے ہیں :

فَمَرَّ بِرَبِيعَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، ابْنَيْ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ، يَتَنَازَعَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ، فَخَرَجَ مِنْهَا

تو وہ حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں ربیعہ اور عبدالرحمان کے قریب سے گزرے،وہ ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑ رہے تھے تو وہ وہاں(مصر) سے نکل آئے۔

سبحان اللہ کس قدر باریک پیش گوئی ہے کہ ایک بڑا ملک فتح ہوگا اس کا یہ نام ہے اور اس کی کرنسی کا نام بھی بتا دیا اور پھر اتنے بڑے ملک کے کسی کونے کھدرے میں ایک اینٹ برابر جگہ پر ہونے والی لڑائی کا بھی بتا دیا

مدینے میں ایک بندہ آئے گا اس کا نام اس کے والد، علاقے اور قبیلے کا نام اس کی جسمانی شناخت اور گھریلو مسئلہ سب بتادیا

ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ»

کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔

اُسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:

کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ سب کچھ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے

پھر کہا تو آپ میرے لئے دعا کرو۔ پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی۔

(مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،6492)

جاؤ وہ عورت روضہ خاخ میں ملے گی

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر اورمقداد بن اسود ( رضی اللہ عنہم ) کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ نے فرمایا :

«انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، وَمَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا»

جب تم لوگ روضہ خاخ ( جومدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے ) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا ۔

ہم روانہ ہوئے اورہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لئے جا رہے تھے ۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اوروہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی ۔ہم نے کہا:

أَخْرِجِي الكِتَابَ

کہ خط نکال ۔

وہ کہنے لگی : میرے پاس تو کوئی خط نہیں ۔

تو ہم نے کہا:

لَتُخْرِجِنَّ الكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاري ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،3007)

اگر تو نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتاردیں گے ۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کردیا‘ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے

سوچئے! ایک ایسا وقت کہ جب نہ کوئی واٹس ایپ تھی نہ کال اور ایس ایم ایس کا دور تھا اور نہ ہی کوئی فاسٹ ذرائع ابلاغ تھے

تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دور روضہ خاخ میں چلی جانے والی ایک عورت کی خبر کس نے دی

کیا وحی الہی کے بغیر کسی انسان کے بس میں یہ بات ہوسکتی ہے

تم تین عجیب و غریب واقعات دیکھو گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے تین باتیں ارشاد فرمائیں

01. عدی ! اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور ( مکہ پہنچ کر ) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا ۔ میں نے ( حیرت سے ) اپنے دل میں کہا ، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکووں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کردیا ہے اور فساد کی آگ سلگارکھی ہے

02. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے ( تم پر ) کھولے جائیں گے ۔ میں ( حیرت میں ) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز ( ایران کا بادشاہ ) کسریٰ آپ نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز !

03. اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تویہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا ، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوگی ( جو اس کی زکوٰۃ ) قبول کرلے لیکن اسے کوئی ایساآدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کرلے

تینوں باتیں پوری ہوئیں

حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور ( مکہ پہنچ کر ) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے ( ڈاکو وغیرہ ) کا ( راستے میں ) خوف نہیں تھا

اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے ۔

اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لوگے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ( زکوٰۃ کا سونا چاندی ) بھر کر نکلے گا ( لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا ) (بخاری، 3595،كِتَابُ المَنَاقِبِ)

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عمر بن عبدالعزیز کی سلطنت میں تیسری بات بھی پوری ہو گئی

میرا شہر دنیا کے تمام شہروں کو کھا جائے گی

أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ (بخاری كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ،1871)

مجھے ایک ایسے شہر (میں ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھالے گا۔ (یعنی سب کا سردار بنے گا ) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے

آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب ہجرت کر رہے تھے دشمن تلاش کررہا تھا سر کی قیمت لگی ہوئی تھی غار میں چھپے بیٹھے تھے نہ کوئی ملک تھا نہ کوئی حکومت تھی تھوڑی سی جماعت اور وہ بھی بکھری پڑی

مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کس طرح میرے نبی کا شہر دنیا کی بادشاہت کا دارالحکومت بنا

مدینے میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے متعلق فرمایا :

لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ (بخاری كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ،1880)

نہ اس میں طاعون آسکتا ہے نہ دجال

آج چودہ سو پچاس سال گزر گئے ہیں مدینہ میں باقی امراض ضرور پائے جاتے ہوں گے مگر میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق آج تک مدینہ میں کبھی بھی طاعون کا نام و نشان نہیں دیکھا گیا

پیش گوئیاں اور مسئلہ علم غیب

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ سب پیش گوئیاں اور ان کا برحق ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی حقانیت کے لیے ہے

لیکن

یہاں سے کوئی یہ مت سمجھ لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم الغيب جاننے والے تھے کیونکہ یہ مسلَّمہ اور بنیادی اسلامی عقیدہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے

جیسا کہ سورہ نمل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (النمل : 65)

کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

انبیاء کرام علیہم السلام بشمول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،غائب حاضر، گزشتہ اور آئندہ میں سے صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ رب تعالیٰ انہیں بذریعہ وحی بتا دیتا ہے

انبیاء کی اگر ایک طرف یہ حالت ہے کہ بیٹے کی قمیض چلتی ہے تو سینکڑوں میل دور سے خوشبو سونگ کر قمیض کی آمد پر مطلع ہوجاتے ہیں تو دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ وہی بیٹا چند میل دور کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے مگر باپ کو پتہ ہی نہیں چلتا اور بیسیوں سال بیٹے کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے معراج کروا دیا، مگر جوتوں پر لگی گندگی کا علم اسی وقت ہوا جب جبریل علیہ السلام نے آکر نماز میں بتایا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بکری کا زہریلہ گوشت

ایک یہودی عورت نے بکری کے گوشت میں زہر ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے کچھ اصحاب کو کھلا دیا جس کی وجہ سے آپ کا ایک ساتھی شہید بھی ہوا اور خود آپ بھی آخری وقت اس زہر کی تکلیف کا اظہار کرتے رہے۔

[ دیکھیے بخاري، الھبۃ و فضلھا : ۲۶۱۷ ]

اونٹنی کے نیچے پڑے ہار کا پتہ نہ چلا

ایک سفر میں عائشہ رضی اللہ عنھا کا ہار گم ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگ آپ کے ساتھ اس کی تلاش کے لیے ٹھہر گئے۔ بعد میں اس اونٹ کو کھڑا کیا جس پر عائشہ رضی اللہ عنھا سو رہی تھیں تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔

[ دیکھیے بخاري، التیمم، باب : ۳۳۴ ]

دشمن نے دھوکے سے ستر قراء کو شہید کردیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے کہنے پر ستر صحابہ کو مشرکین کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، انھوں نے ان سب کو شہید کر دیا جس پر آپ سخت غمگین ہوئے۔

[ دیکھیے بخاري، الوتر، باب القنوت قبل الرکوع و بعدہ : ۱۰۰۲ ]

ان واقعات اور اوپر بیان کردہ پیش گوئیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم نہیں جانتے تھے ہاں یہ ہے کہ جو بھی کہتے تھے وحی الہی کی روشنی میں کہتے تھے اور آپ کی دی ہوئی پیشگی خبریں بھی وحی کے مطابق ہیں

جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (النجم : 3)

اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : 4)

وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔

اور

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :

[ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ ][ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : « عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ أحدا » … : ۷۳۸۰، ۴۸۵۵ ]

’’جو شخص تجھے یہ کہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے اس نے جھوٹ کہا۔‘‘