نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیاری زھد اور پرتعیش زندگی سے کنارہ کشی

01. مکے کی انتہائی مالدار خاتون خدیجہ رضی اللہ عنھا آپکی زوجہ محترمہ تھیں اور ایسی جانثار، وفادار تھیں کہ انہوں نے اپنا سارا کاروبار، ساری تجارتی انویسٹمنٹ اور ساری دولت اشاعت و تبلیغ اسلام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دی

02.مکے کے سب سے زیادہ مالدار شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ نہ صرف یہ کہ آپ کے خاص دوست تھے بلکہ ان کی بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی زوجہ محترمہ تھی

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسے سخی اور فراخ دل تھے کہ آپ نے ایک موقع پر اپنا سارا مال حاضرِ خدمت کردیا۔ اور بال بچوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے سواکچھ نہ چھوڑا۔ اس وقت ان کے صدقے کی مقدار چار ہزار درہم تھی

03. مکے کے بہت ہی مالدار شخص عثمان رضی اللہ عنہ آپ کے داماد تھے

صرف تبوک کے موقع پر حضرت عثمان بن عفانؓ نے جو صدقہ کیا اس صدقے کی مقدار

ساڑھے پانچ کلو سونا

ساڑھے انتیس کلو چاندی

نوسو اونٹ

اور ایک سو گھوڑے تک جاپہنچی

(الرحیق المختوم)

اگر آج کے حساب سے اسے کیلکولیٹ کیا جائے تو ساڑھے پانچ کلو سونا 550 تولے بنتا ہے اور ایک تولہ کم و بیش ایک لاکھ کا ہے اور یوں نقد رقم جو عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی تھی ساڑھے پانچ کروڑ روپے بنتی ہے

یہ صرف سونے کا حساب ہے

اونٹ، گھوڑے اور چاندی کی قیمت اس سے الگ ہے

04. لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کی مالیت کے برابر ملنے والے مال غنیمت میں سے خمس، پانچواں حصہ آپ کی ملکیت ہوتا تھا

اور مال فے پورے کا پورا آپ کا ہوتا تھا

05. عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :

’’جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خمس میں سے ہر بیوی کو اسّی (۸۰) وسق (دو سو چالیس من) کھجوریں اور بیس (۲۰) وسق (ساٹھ من) جو دیا کرتے تھے (اور یہ وظیفہ آپ کی وفات کے بعد بھی جاری رہا)۔‘‘ [ أبو داوٗد، الخراج، باب ما جاء في حکم أرض خیبر : ۳۰۰۶، و قال الألباني حسن الإسناد ]

کھجور اچھی بھی ہوتی ہے درمیانی بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی

اگر ہم اوسط ریٹ فی کلو 500 کے مطابق بھی حساب کریں تو 80 وسق یعنی 240 من کھجور (جوکہ 9600 کلو بنتی ہے) 48 لاکھ روپے مالیت ہے

اور 20 وسق یعنی 60 من جو (جوکہ 2400 کلو بنتے ہیں)

فی کلو جو کا اوسط ریٹ 80 روپے ہے

60 من جو تقریباً 2 لاکھ روپے کے بنتے ہیں

گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر زوجہ محترمہ کو ٹوٹل 50 لاکھ روپے سالانہ دیا کرتے تھے

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیک وقت 9 ازواج مطہرات موجود رہی ہیں

اس حساب سے 9 بیویوں کا سالانہ خرچ ساڑے چار کروڑ روپے بنتا ہے

کیا دنیا میں کوئی شخص اتنا مالدار پایا گیا ہے جو اپنی بیویوں کو اتنی بھاری رقم سالانہ جیب خرچ کے طور پر دیتا ہو ؟

خلفائے راشدین کے زمانے میں روم و شام، مصر اور فارس فتح ہوئے، تو امہات المومنین میں سے ہر ایک کا سالانہ وظیفہ بارہ ہزار درہم مقرر ہو گیا، جو تقریباً ایک ہزار دینار (ساڑھے چار کلو یعنی 450 تولہ سونے) کے برابر تھا۔ جوکہ ساڑھے چار کروڑ روپے مالیت کے برابر ہے یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے ان کی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتی تھیں

اور اسی زندگی پر قناعت کرتیں جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اختیار کی تھی

06. بڑے بڑے مالدار صحابہ جان نچھاور کرنے اور مال پیش کرنے کے لئے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے تھے

کہ اگر آپ اظہار خواہش کرتے تو دنیا جہاں کی دولت آپ کے قدموں میں ہوتی

07. زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار غلام تھے جو روزانہ شام کو آپ کے پاس پیسے کما کر لایا کرتے تھے

08. آپ کے انتہائی قریبی دوست عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا شمار انٹرنیشنل تاجروں میں ہوتا تھا

تبوک کے موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ دوسو اوقیہ (تقریباً ساڑھے ۲۹ کلو ) چاندی لے آئے

09. تبوک کے موقع پر حضرت عاصم بن عدیؓ نوے وسق (یعنی ساڑھے تیرہ ہزار کلو ،ساڑھے ۱۳ ٹن ) کھجور لے کر آئے۔

جو کہ تقریباً اڑسٹھ(68) لاکھ روپے کی مالیت ہے

دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں ایک ہی شخص کو دے دیں

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

آپ فرماتے ہیں

” مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ ” (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6020)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام (لا نے) پر جوبھی چیز طلب کی جا تی آپ وہ عطا فر ما دیتے ،کہا: ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں اسے دے دیں ،وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا : میری قوم !مسلمان ہو جاؤ بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ تک نہیں رکھتے۔

10. اکیلے صفوان کو تین سو اونٹ دے دیئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین میں خونریز جنگ کی، اللہ نے اپنے دین کو اور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی

وَأَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ مِائَةً مِنَ النَّعَمِ ثُمَّ مِائَةً ثُمَّ مِائَةً

اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے ،پھر سواونٹ پھر سواونٹ۔

صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :

«وَاللهِ لَقَدْ أَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَانِي، وَإِنَّهُ لَأَبْغَضُ النَّاسِ إِلَيَّ، فَمَا بَرِحَ يُعْطِينِي حَتَّى إِنَّهُ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6022)

اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو عطا فر ما یا ،مجھے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ بغض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا ۔پھر آپ مجھے مسلسل عطا فرما تے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے تمام انسانوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو گئے

11. مقروض میت کا قرض اپنے ذمے لیتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر رکھا تھا

فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ (بخاری ،كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ تَرَكَ دَيْنًا،2399)

جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو اس کے ورثاءاس کے مالک ہوں۔ وہ جو بھی ہوں

اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آجائیں کہ ان کا ولی میں ہوں۔

اس سب مال و دولت کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں میں اکڑ، تکبر یا غرور نہیں تھا

حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو انصاری)ؓ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا:

أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَكَلَّمَهُ، فَجَعَلَ تُرْعَدُ فَرَائِصُهُ

ایک آدمی نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آ پ سے بات کرنے لگا۔(رسول اللہﷺ کے رعب کی وجہ سے )اس کے کندھے کانپنے لگے(اس پر کپکپی طاری ہو گئی)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«هَوِّنْ عَلَيْكَ، فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ تَأْكُلُ الْقَدِيدَ» (ابن ماجة، كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ،بَابُ الْقَدِيدِ،3312صحیح سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانى رقم :1876)

’’گھبراؤ مت‘میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تو ایک ایسی(عام سی غریب)عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سائل کو نفی میں جواب نہیں دیا

حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا

«مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6018)

: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے (ناں یا نہیں ) فرمایا ہو۔

دنیا سے بے تعلقی اور انفاق فی سبیل اللہ کا عزم ایسا کہ اگر احد پہاڑ برابر بھی سونا ہوتا تو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ (بخاری ،كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ أَدَاءِ الدَّيْنِ،2389)

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس ( سونے ) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔

ضرورت کے باوجود مانگنے والے کو چادر دے دی

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ” بردہ “ (یعنی وہ لنگی جس میں حاشیہ بنا ہوا ہوتا ہے) لے کر آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لنگی ان سے قبول کر لی ۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے پہن لیا ۔

صحابہ میں سے ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پروہ لنگی دیکھی تو عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے ، آپ یہ مجھے عنایت فرما دیجئے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لو ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو اندر جا کروہ لنگی بدل کرتہہ کرکے عبدالرحمن کو بھیج دی

(بخاري، كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ حُسْنِ الخُلُقِ وَالسَّخَاءِ، وَمَا يُكْرَهُ مِنَ البُخْلِ،6036)

خریدا ہوا اونٹ لوٹا دیا اور رقم بھی واپس نہ لی

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوق یہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرالیا ۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کردی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ( میں حاضر ہوا تو ) آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاو، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ ( اور قیمت واپس نہیں لی )

(صحيح البخاري كِتَابُ الشُّرُوطِ، بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ البَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ،2718)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا

خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ (مسلم، بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ،715)

اپنا اونٹ بھی لے لے اور اپنے درہم بھی لے لے یہ تیرا مال ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا

لطف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ] [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ : ۱۰۵۵ ]

’’اے اللہ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مِسْكِيْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا ] [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین… : ۲۳۵۲ ]

’’اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! یہ کیوں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (۴۰) سال پہلے جائیں گے۔‘‘

ابو سعید خدری‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ (رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی)

اللهمّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحشرنِي فِي زَمْرَة الْمَسَاكِين. [سلسلہ صحیحہ:1331] [عبد بن حمید فی المنتخب من المسند:2/110]

اے اللہ مجھے مسكینی كی حالت میں زندہ ركھ ، اور مسكینی كی حالت میں فوت كر ، اور مجھےمساكین كے گروہ میں جمع كر۔

آپ نے کبھی ٹیک لگا کر شاہانہ طور طریقے سے کھانا نہیں کھایا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَا آکُلُ مُتَّکِئًا (صحیح بخاری: 5398)

’’میں ٹیک لگاکر نہیں کھاتا‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی کبھی میدہ نہیں کھایا

ابو حازم نے بیان کیاکہ

میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا

هَلْ أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ؟

، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میدہ کھایا تھا ؟

انہوں نے کہاکہ

«مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ، مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ»

جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا اس وقت سے وفات تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ دیکھا بھی نہیں تھا ۔

میں نے پوچھا

هَلْ كَانَتْ لَكُمْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنَاخِلُ؟

کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے پاس چھلنیاں تھیں

انہوں نے کہا کہ

«مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْخُلًا، مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ»

جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا اس وقت سے آپ کی وفات تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھلنی دیکھی بھی نہیں ۔

انہوں نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا

كَيْفَ كُنْتُمْ تَأْكُلُونَ الشَّعِيرَ غَيْرَ مَنْخُولٍ؟

آپ لوگ پھر بغیر چھنا ہوا جو کس طرح کھاتے تھے ؟

انہوں نے بتلایا

كُنَّا نَطْحَنُهُ وَنَنْفُخُهُ، فَيَطِيرُ مَا طَارَ، وَمَا بَقِيَ ثَرَّيْنَاهُ فَأَكَلْنَاهُ (بخاری، كِتَابُ الأَطْعِمَةِ، بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَصْحَابُهُ يَأْكُلُونَ،5413)

 ہم اسے پیس لیتے تھے پھر اسے پھونکتے تھے جو کچھ اڑنا ہوتا اڑجاتا اورجو باقی رہ جاتا اسے گوندھ لیتے ( اور پکاکر ) کھالیتے تھے

آپ کے گھر والوں نے کبھی مسلسل تین راتیں پیٹ بھر کر کھانہ نہیں کھایا

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

[ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِيْنَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ ] [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم و أصحابہ… : ۶۴۵۴ ]

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے، جب سے آپ مدینہ میں آئے، تین دن پے در پے گندم کا کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا، یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پتلی روٹی یا سٹیم روسٹڈ بکری نہیں کھائی

حضرت انس رضی اللہ عنہ لوگو ں سے کہتے کہ

«كُلُوا، فَمَا أَعْلَمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَغِيفًا مُرَقَّقًا حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ، وَلاَ رَأَى شَاةً سَمِيطًا بِعَيْنِهِ قَطُّ»

کھاؤ ، میں نے کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتلی روٹی کھاتے نہیں دیکھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی آنکھ سے بھنی ہوئی بکری دیکھی ۔ یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا ( صلی اللہ علیہ وسلم )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،گھر میں، کوئی چیز کل کے لیےذخیرہ نہیں کیا کرتے تھے

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ» (ترمذي،أَبْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي مَعِيشَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَهْلِهِ2362صحيح)

نبی اکرمﷺ آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے

مسافر مہمان کو کھانہ کھلانے کے لیے میرے نبی کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيْفُ هٰذَا؟ ]

’’اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا؟‘‘

انصار میں سے ایک آدمی (جن کا نام ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھا :صحیح مسلم) نے کہا:

’’میں لے جاؤں گا۔‘‘

چنانچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کرو۔‘‘

اس نے کہا:

’’ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

اس نے کہا:

’’کھانا تیار کر لو، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دو۔‘‘

اس نے کھانا تیار کر لیا، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں، مگر انھوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ ضَحِكَ اللّٰهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا ]

’’آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا۔‘‘

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

« وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ » [ الحشر: ۹ ]

’’اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔‘‘ [ بخاري، مناقب الأنصار، باب قول اللّٰہ عزوجل: «و یؤثرون علی أنفسہم …» : ۳۷۹۸۔ مسلم : ۲۰۵۴ ]

مانگنے والی عورت کو دینے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں صرف ایک کھجور

امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا واقعہ سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔

[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]

متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، رقم الحدیث ۵۹۹۵، ۱۰/۴۲۶؛ وصحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، رقم الحدیث ۱۴۷۔(۲۶۲۹)، ۳/۲۰۲۷۔ الفاظ حدیث صحیح مسلم کے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے جب لگزری زندگی گزارنے کی خواہش کی تو آپ ان سے ناراض ہو گئے

بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (الأحزاب : 28)

اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آئو میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اورتمھیں رخصت کردوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر،حجرات

’’یہ نو حجرے تھے، ہر بیوی کے پاس ایک حجرہ تھا اور یہ کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں کے ٹاٹ کے پردے تھے۔

داؤد بن قیس رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’میں نے وہ حجرے دیکھے ہیں، کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، جنھیں باہر کی جانب سے بالوں کے ٹاٹوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور میرا گمان ہے کہ صحن کے دروازے سے کمرے کے دروازے تک چھ یا سات ہاتھ (نو یا ساڑھے دس فٹ) کا فاصلہ تھا اور کمرے کا اندرونی حصہ دس ہاتھ (پندرہ فٹ) تھا اور میرا گمان ہے کہ گھر کی چوڑائی سات آٹھ ہاتھ (ساڑھے دس بارہ فٹ) کے درمیان تھی۔‘‘

بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے اسے روایت کیا ہے

اور حسن سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا :

’’میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے کمروں میں جایا کرتا تھا تو ان کی چھت کو ہاتھ لگا لیتا تھا۔ ولید بن عبد الملک رحمہ اللہ کے عہد میں ان کے حکم سے ان گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا جس پر لوگ بہت روئے۔‘‘

اور سعید بن مسیب نے فرمایا :

’’اللہ کی قسم! مجھے پسند تھا کہ ان حجروں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جاتا، تاکہ اہلِ مدینہ کے بچے بڑے ہوتے اور تمام دنیا سے آنے والے آتے تو دیکھتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیسے گھروں پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی حرص اور اس پر فخر کے بجائے زہد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی۔‘‘

بوقت وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی کیفیت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ

«لَقَدْ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا فِي رَفِّي مِنْ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ، إِلَّا شَطْرُ شَعِيرٍ فِي رَفٍّ لِي، فَأَكَلْتُ مِنْهُ، حَتَّى طَالَ عَلَيَّ، فَكِلْتُهُ فَفَنِيَ» (بخاری ،كِتَابُ الرِّقَاقِ،بَابُ فَضْلِ الفَقْرِ،6451)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میرے توشہ خانہ میں کوئی غلہ نہ تھاجو کسی جاندار کے کھانے کے قابل ہوتا، سوائے تھوڑے سے جو کے جو میرے توشہ خانہ میں تھے، میں ان میں سے ہی کھاتی رہی آخر جب بہت دن ہوگئے تو میں نے انہیں ناپا تو وہ ختم ہوگئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت یا ترکہ

عمر وبن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا عَبْدًا وَلَا أَمَةً إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ الَّتِي كَانَ يَرْكَبُهَا وَسِلَاحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا لِابْنِ السَّبِيلِ صَدَقَةً (بخاري ،كِتَابُ المَغَازِي،بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ،4461)

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ درہم چھوڑے تھے ، نہ دینا ر ، نہ کوئی غلام نہ باندی ، سوااپنے سفید خچر کے جس پر آپ سوار ہواکرتے تھے اور آپ کا ہتھیار اور کچھ وہ زمین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مجاہدوں اور مسافروں کے لیے وقف کررکھی تھی

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرنے والے تھے

جب پیدا ہوئے تو باپ فوت ہو چکا تھا

کچھ وقت گزرا تو ماں بھی دنیا سے چلی گئی

تھوڑی ہی مدت گزری کہ چچا بھی وفات پا گئے

اس کے ساتھ ہی وفادار بیوی داغ مفارقت دے گئی

پھر ایک وقت آیا کہ قوم نے تنگ کرنا شروع کر دیا نوبت یہاں تک پہنچی کہ بائیکاٹ کر دیا گیا

کچھ امید لے کر طائف میں تشریف لے گئے لیکن وہاں سے بھی پتھر کھانے پڑے

پھر واپس آئے تو اپنی ہی قوم قتل کے منصوبے بنا رہی تھی

مجبور ہو کر آبائی شہر چھوڑ دیا

دیار غیر میں پناہ گزیں ہوئے لیکن دشمن نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا

الغرض اتنی ساری تکالیف کے باوجود اپنے رب کی بہت عبادت کیا کرتے تھے ایک دن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھ ہی لیا کہ اتنی عبادت ؟

تو فرمانے لگے

أفلا اکون عبدا شکورا

کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں