نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں اور ہمارے اعمال

اہم عناصر خطبہ :

01.متفرق پیشین گوئیاں

02.بعض اعمال کے متعلق پیشین گوئیاں

برادران اسلام !

اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی معجزات عطا کئے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقِ نبوت پر دلالت کرتے ہیں۔ان کا ایک حصہ ان پیشین گوئیوں سے تعلق رکھتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں اور وہ ہو بہو پوری ہوئیں اورکچھ پیشین گوئیاں وہ ہیں جو اب تک پوری نہیں ہوئیں اور ان کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ وہ یقینا پوری ہونگی ۔ جو پیشین گوئیاں پوری ہو چکی ہیں ان میں سے چند ایک آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہیں ۔ ہم ان پیشین گوئیوں کو دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ، ایک تو وہ پیشین گوئیاں ہیں جو متفرق واقعات سے متعلق ہیں اور دوسری وہ پیشین گوئیاں ہیں جو بعض اعمال کے بارے میں ہیں ۔ ہم یہ پیشین گوئیاں اس لئے ذکر کر رہے ہیں کہ ان کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کر یں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔

تو لیجئے سب سے پہلے وہ پیشین گوئیاں سماعت کیجئے جن کا تعلق بعض واقعات سے ہے ۔

01.راستے پر امن ہو جائیں گے اور مسلمان کسری کے خزانوں کو فتح کر لیں گے

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے فقر وفاقہ کی شکایت کی ۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے شکایت کی کہ راستے پر امن نہیں ہیں اور لوٹ مار عام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ اے عدی ! کیا تم نے( الحِیرَۃ ) علاقہ دیکھا ہے ؟

میں نے کہا : نہیں ، میں نے دیکھا تو نہیں البتہ اس کے بارے میں میں کچھ نہ کچھ جانتا ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتَرَیَنَّ الظَّعِیْنَۃَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِیْرَۃِ حَتّٰی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَۃِ،لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّٰہَ))

’’ اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم ضرور بالضرور دیکھو گے کہ ایک عورت اکیلی (الحیرۃ) سے سفر کر کے آئے گی یہاں تک کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کا خوف نہیں ہو گا ۔‘‘ (یعنی

راستے پر امن ہو جائیں گے ۔)

میں نے دل میں کہا : اُ س وقت قبیلہ طی کے بدمعاش کہاں ہونگے جنہوں نے ملک میں لوٹ مار مچا رکھی ہے ؟

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتُفْتَحَنَّ کُنُوْزُ کِسْرٰی ) قُلْتُ : کِسْرَی بْنُ ہُرْمُزَ ؟ قَالَ : ( کِسْرَی بْنُ ہُرْمُزَ ))

’’ اگر تم لمبے عرصے تک زندہ رہے تو ( تم دیکھو گے کہ ) کسری کے خزانے یقینا فتح کر لئے جائیں گے۔ ‘‘ میں نے کہا : کسری بن ہرمز کے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں کسری بن ہرمز کے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتَرَیَنَّ الرَّجُلَ یُخْرِجُ مِلْئَ کَفِّہٖ مِنْ ذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ یَطْلُبُ مَنْ یَّقْبَلُہُ مِنْہُ ، فَلَا یَجِدُ أَحَدًا یَقْبَلُہُ مِنْہُ،وَلَیَلْقَیَنَّ اللّٰہَ أَحَدُکُمْ یَوْمَ یَلْقَاہُ، وَلَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ تَرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَہُ فَیَقُوْلَنَّ:أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَیْکَ رَسُوْلًا فَیُبَلِّغَکَ؟فَیَقُوْلُ: بَلٰی،فَیَقُوْلُ:أَلَمْ أُعْطِکَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَیْکَ ؟ فَیَقُوْلُ:بَلٰی،فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِیْنِہٖ فَلَا یَرَی إِلَّا جَہَنَّمَ،وَیَنْظُرُ عَنْ یَسَارِہٖ فَلَا یَرَی إِلَّا جَہَنَّمَ ))

’’ اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم یقینا دیکھو گے کہ ایک آدمی مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کر لے لیکن وہ ایسا آدمی نہیں پائے گا جو اس سے اس کا صدقہ ( مٹھی بھر سونا یا چاندی ) قبول کرلے اورتم میں سے ایک شخص جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو اس حال میں ملے گا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا ۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تمھاری طرف رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تمہیں میرا دین پہنچایا ؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا : کیا میں نے تمہیں مال دے کر تم پر مہربانی نہیں کی تھی ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں !پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی اور اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو ادھر بھی اسے جہنم ہی نظر آئے گی ۔ ‘‘

حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق دیکھا کہ ایک عورت (الحیرۃ ) سے اکیلی سفر کرکے آئی یہاں تک کہ اس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا ڈر اورخوف نہ تھا اورکسری بن ہرمز کے خزانوں کے فاتحین میں میں خود شامل تھا اورمیرے بعد جو شخص لمبے عرصے تک زندہ رہے گا وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشین گوئی کو ( مٹھی بھر سونے / چاندی کے متعلق ) بھی لفظ بلفظ پورا ہوتے ہوئے دیکھ لے گا ۔ صحیح البخاری :3595

اِس حدیث میں تین پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جن میں سے دو کو حرف بحرف پورا ہوتا ہوا خود حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور تیسری پیشین گوئی بھی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور ِ خلافت میں پوری ہو گئی جب تمام لوگ نہایت خوشحال ہو گئے اور ان میں سے کوئی شخص مٹھی بھر سونا چاندی لیکر نکلتا تو اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ملتا ۔

02.خوارج کا ظہور

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس گمراہ فرقے کے ظہور کے بارے میں جوپیشین فرمائی وہ حرف بحرف پوری ہوئی ۔

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اور آپ کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے ۔ اسی دوران بنی تمیم کا ایک شخص ذو الخویصرۃ نامی آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! آپ عدل و انصاف کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وَیْلَکَ!وَمَنْ یَّعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ ؟ قَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَّمْ أَکُنْ أَعْدِلُ ))

’’ تم ہلاک ہو جاؤ ، اگر میں عدل نہیں کرونگا تو اور کون کرے گا؟ اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو میں خائب و خاسر ہوا ۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( دَعْہُ،فَإِنَّ لَہُ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ مَعَ صَلَاتِہِمْ، وَصِیَامَہُ مَعَ صِیَامِہِمْ،یَقْرَؤُنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ،یُنْظَرُ إِلٰی نَصْلِہٖ فَلَا یُوْجَدُ فِیْہِ شَیْئٌ ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلٰی رِصَافِہٖ فَمَا یُوْجَدُ فِیْہِ شَیْئٌ ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلٰی نَضِیِّہٖ وَہُوَ قِدْحُہُ، فَلَا یُوْجَدُ فِیْہِ شَیْئٌ،ثُمَّ یُنْظَرُ إِلٰی قُذَذِہٖ،فَلَا یُوْجَدُ فِیْہِ شَیْئٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ))

’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کے اور کئی ساتھی ہیں جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے ۔ وہ قرآن کریم کو پڑھیں گے تو سہی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا اوروہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر شکار میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پھل کو دیکھا جاتا ہے تو اس میں کچھ نہیں ملتا ، پھر پیکان کی جڑ کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا ، پھر تیر کی لکڑی کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں بھی کوئی نشان نظر نہیں آتا ، پھر اس کے پر کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہیں ملتا

حالانکہ تیر شکار کے خون اور لید کے درمیان میں سے گذر کر آتا ہے ۔ ‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بعض نشانیاں ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

(( آیَتُہُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَی عَضُدَیْہِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَۃِ ، أَوْمِثْلُ الْبَضْعَۃِ تَدَرْدَرُ ، وَیَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِیْنِ فُرْقَۃٍ مِنَ النَّاسِ ))

’’ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی سیاہ رنگ کا ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی مانند ہو گایا تھل تھل کرتے گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اوریہ لوگ اس وقت ظاہر ہو نگے جب لوگوں میں افتراق پیدا ہو چکا ہوگا ۔‘‘

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ ( یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ظاہر ہوئے ) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا اور میں خود بھی ان کے ساتھ شامل تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو ڈھونڈا جائے (جس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔) چنانچہ اسے لایا گیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کا حلیہ بالکل وہی تھا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا ۔ صحیح البخاری :3610، صحیح مسلم :1064

اِس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بعض اوقات ایک انسان بظاہر بڑا نمازی اور نیک وپارسا معلوم ہوتا ہے لیکن اپنے باطل نظریات اور غلط عقائد کی بناء پر وہ قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرکے دین سے یوں نکل جاتا ہے جیسا کہ تیر شکار کو لگنے کے بعد اس کے جسم سے بڑی تیزی سے نکل جاتا ہے ۔ یہ گمراہ فرقہ جس کا ذکر اِس حدیث میں کیا گیا ہے یہ وہ فرقہ ہے جومسلمانوں میں سے کبیرہ گناہ کے مرتکب کو خارج عن الملۃ قرار دیتا ہے اورجب یہ ظاہر ہوا تھا تو اِس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتوی لگاکر ان کے خلاف اعلان ِجنگ کردیا تھا ۔

03.بدر میں سردارانِ قریش کا مقتل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر سے ایک دن پہلے قریش کے متعدد کفار کے نام لیکر ان کی قتل گاہ کی نشاندہی کی کہ فلاں شخص اِس جگہ پر قتل ہو گا اور فلاں اِس جگہ پر قتل ہو گا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی حرف بحرف ثابت ہوئی ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان حضرت عمر رضی اللہ عنہ

کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ اس دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بدر کے متعلق ایک حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا کہ جنگِ بدر سے ایک دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آگاہ فرمایا کہ (( ہٰذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ )) ’’ فلاں شخص کل یہاں قتل کیا جائے گا ان شاء اللہ ۔ ‘‘

پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! جو جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے قتل کی مقرر کی تھی وہ اس سے ذرہ برابر بھی اِدھر اُدھر نہ ہوا ، یعنی بعینہ اسی جگہ پر قتل ہوا ۔ صحیح مسلم :2873

04.خود کشی کرنے والے شخص کا انجام

حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا ( کسی جنگ میں )آمنا سامنا ہوا اور دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیامگاہ کی طرف لوٹ آئے اور دوسرے لوگ اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں ایک شخص ایسا تھا کہ اس کے سامنے مشرکین میں سے جو بھی آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی بہادری دیکھی تو اس کے متعلق کہا : جس طرح آج اس شخص نے شجاعت وبہادری کے کارنامے دکھائے ہیں اس طرح ہم میں سے کسی نے بھی نہیں دکھائے !

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ )) ’’ خبردار ! وہ جہنمی ہے ۔ ‘‘

تو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : آج میں اس کے ساتھ ہی رہونگا ( تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ جہنمی کیوں ہے ) یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ نکل گیا ۔ وہ جہاں رکتا یہ بھی رک جاتا اوروہ جہاں تیزچلتا یہ بھی تیزچلنے لگتا ۔ آخر کار وہ شخص شدید زخمی ہو گیا ۔ چنانچہ وہ صبر نہ کر سکا اور اس نے اپنی موت کیلئے جلد بازی کرتے ہوئے تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور تلوار کی نوک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھ کر اپنے بدن کا پورا بوجھ اس پر ڈال دیا اور یوں اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ اس کا یہ انجام دیکھتے ہی تعاقب کرنے والا صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: (( أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ )) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : بات کیا ہے ؟ اس نے کہا : آپ نے جب یہ فرمایا تھا کہ فلاں آدمی جہنمی ہے تو لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گذری تھی ۔ اس پر میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آج میں اس کا تعاقب کرونگا اور تمھیں بتاؤنگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکل گیا یہاں تک کہ جب وہ شدید زخمی ہوا تو اس نے

موت کیلئے جلد بازی کی ۔ تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے جسم کا پورا وزن اس پر ڈال دیا اوریوں وہ خود کشی کرکے ہلاک ہو گیا ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) صحیح البخاری :2898، صحیح مسلم :112

’’ بے شک ایک آدمی بظاہر اہلِ جنت والا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے اورایک آدمی بظاہر اہلِ جہنم والا عمل کرتا ہے اور درحقیقت وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے ۔ ‘‘

اس واقعہ سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشین گوئی کی وہ حرف بحرف پوری ہوئی وہاں ہمیں اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اعمال کا دار ومدار خاتمہ پر ہے ۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گذرے ، اُس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اور اُس کی محرمات سے اجتناب کرتے ہوئے ہم اُس ذمہ داری کو پورا کریں جس کیلئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے ۔ تاکہ جب ہمارا خاتمہ ہو تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حسن ِ خاتمہ نصیب کرے اور برے خاتمہ سے بچائے ۔

05.حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور دو جماعتوں کے درمیان صلح

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گھر سے باہر لائے ، پھر اسے منبر پر لے گئے اور ارشاد فرمایا :

(( اِبْنِی ہٰذَا سَیِّدٌ ،وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )) صحیح البخاری :3629

’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے ۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی بعینہ پوری ہوئی ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فوج ان سے جنگ کرنے پر تیار ہو گئی لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے جس سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کی راہ ہموار ہو گئی ۔ صلح کا یہ پورا واقعہ صحیح بخاری میں موجود ہے ۔حدیث : 2704

06.قیصر وکسری کی ہلاکت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا ہَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہُ ، وَإِذَا ہَلَکَ قَیْصَرُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہُ ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتُنْفَقَنَّ کُنُوْزُہُمَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ))

’’ جب کسری ( بادشاہِ ایران ) ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی اورکسری نہیں آئے گا اورجب قیصر (بادشاہِ روم ) ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہیں آئے گا اوراس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! ان دونوں کے خزانے یقینا اللہ کے راستے میں خرچ کئے جائیں گے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 3618 ، صحیح مسلم :2918

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی لفظ بلفظ پوری ہوئی ۔ چنانچہ خلفائے راشدین ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کے ادوار میں قیصر وکسری کی سلطنتیں فتح ہو گئیں اور اس کے بعد دوبارہ قائم نہ ہو سکیں اوران دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کئے گئے ۔

07. مدعیان نبوت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( ۔۔۔۔۔۔۔وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِّنْ ثَلَاثِیْنَ ، کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ )) صحیح البخاری :3609

’’ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس کے قریب جھوٹے دجال آئیں گے اور ان میں ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔‘‘

اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( …وَإِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِیْ أُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ،کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ،وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ،لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ )) سنن أبی داؤد :4252، سنن الترمذی :2219۔ وصححہ الألبانی

’’ اور میری امت میں تیس کذاب ( جھوٹے ) آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی

ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں انبیاء کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں ۔ اس لئے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ‘‘

ان دونوں احادیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی اور یہ بھی ہو بہو پوری ہوئی ۔ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے نبوت کا دعوی کردیا تھا ۔ صحیح البخاری :3620 ،3621

پھر ان کے بعد بھی مختلف ادوار میں کئی لوگ اسی طرح نبوت کا جھوٹا دعوی کرتے رہے یہاں تک کہ ہندوستان میں ضلع گورداسپورکے ایک قصبے (قادیان) میں ایک شخص بنام مرزا غلام احمدپیدا ہوا اور اس نے بھی نبوت کا جھوٹا دعوی کیا ۔ مدعیان نبوت کے بارے میں مزید تفصیل کیلئے ( الإذاعۃ لماکان وما یکون بین یدی الساعۃ : ص : ۱۲۵ ۔۱۲۷) میں رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

08. منکرین حدیث

حضرت المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَلَا إِنِّی أُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ،أَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِیْکَتِہٖ یَقُوْلُ:عَلَیْکُمْ بِہٰذَا الْقُرْآنِ،فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْہُ ،وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ ، أَلَا لَا یَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَہْلِی،وَلَا کُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ ۔۔۔)) سنن أبی داؤد :4604۔ وصححہ الألبانی

’’ خبردار !مجھے قرآن مجید دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی ۔ خبردار ! عنقریب ایک آدمی آئے گا جو سیر ہو کر اپنے تکیے کا سہار الئے ہوئے کہے گا : تم بس اس قرآن پر ہی عمل کرو اور تمہیں اس میں جو حلال ملے اسی کو حلال سمجھو اور اس میں جس چیز کو حرام کہا گیا ہو صرف اسی کو حرام سمجھو ۔ خبردار ! تمھارے لئے گھریلو گدھے کا گوشت حلال نہیں ہے اور نہ ہی کچلیوں والے درندے حلال ہیں ۔۔۔ ‘‘

اور سنن ابن ماجہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں :

(( یُوْشِکُ الرَّجُلُ مُتَّکِئًا عَلٰی أَرِیْکَتِہٖ یُحَدِّثُ بِحَدِیْثٍ مِّنْ حَدِیْثِیْ فَیَقُوْلُ : بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَمَا وَجَدْنَا فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ اِسْتَحْلَلْنَاہُ ، وَمَا وَجَدْنَا فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاہُ ، أَلَا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ)) سنن ابن ماجہ :12۔ وصححہ الألبانی

’’ عنقریب ایک آدمی اپنے تکیے کا سہارا لئے ہوئے میری احادیث میں سے ایک حدیث بیان کرے گااور پھر کہے گا : ہمارے اور تمھارے درمیان بس کتاب اللہ ( قرآن مجید ) ہی کافی ہے ۔ لہذا ہم جس چیز کو اس میں حلال پائیں گے بس اسی کو حلال سمجھیں گے اور جس چیز کو اس میں حرام پائیں گے بس اسی کو حرام سمجھیں گے ۔ خبر دار ! جس چیز کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام قرار دیں وہ بھی ایسے ہے جیسے اسے اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیا ۔ ‘‘

ان دونوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی کہ کچھ لوگ آئیں گے جو صرف قرآن مجید کو حجت تصور کریں گے ۔اور جس چیز کو قرآن مجید میں حلال یا حرام کہا گیا ہو گا وہ صرف اسی کو حلال یا حرام مانیں گے اورجہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کا تعلق ہے تو وہ ان کاانکار کردیں گے اور جس چیز کو ان میں حلال یا حرام قرار دیا گیا ہو گا وہ اسے حلال یا حرام نہیں مانیں گے ۔

یہ پیشین گوئی بھی بعینہ پوری ہو چکی ہے اور کئی لوگ جو اہلِ قرآن کے نام سے اب بھی موجود ہیں وہ صرف قرآن مجید کو حجت سمجھتے ہیں اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو ناقابل ِ حجت تصور کرتے ہیں ۔

اور یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی احادیث ِ مبارکہ کو یاد کرتے تھے اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باقاعدہ انھیں لکھا بھی کرتے تھے ۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ انھیں سرے سے حجت ہی نہیں سمجھتے اورکئی لوگ انھیں حجت تو مانتے ہیں لیکن جب ان کے امام کا قول احادیث سے ٹکراتا ہو تو وہ اپنے امام کے قول کو چھوڑنے کی بجائے احادیث کی ناروا تاویلات کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کس قدر لگاؤ اور پیار تھا اس کا اندازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک قصہ سے کیا جا سکتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم لوگ شاید یہ گمان کرتے ہو گے کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت احادیث روایت کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا دن مقرر ہے ( اور اگر میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتاہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ضرور سزا دے گا ۔) حقیقت یہ ہے کہ میں ایک مسکین آدمی تھا اور تھوڑا بہت کھا پی کر زیادہ تر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذارتا تھا جبکہ مہاجرین رضی اللہ عنہم بازاروں میں کاروبار میں مصروف رہتے تھے اور انصار ی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے مالوں کی حفاظت میں مشغول رہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انھیں اپنی زمینوں کا کام کاج ہی مشغول رکھتا تھا ۔۔۔ چنانچہ جب وہ غائب ہوتے تو میں حاضر ہوتا اور جب وہ بھول جاتے تومیں یاد رکھتا ۔]

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ یَّبْسُطُ ثَوْبَہُ فَلَنْ یَّنْسٰی شَیْئًا سَمِعَہُ مِنِّیْ ))

’’ جو شخص اپنی چادر پھیلائے گا وہ مجھ سے سنی ہوئی میری احادیث کو کبھی نہیں بھولے گا ۔‘‘

وَفِی رِوَایَۃٍ : (( أَیُّکُمْ یَبْسُطُ ثَوْبَہُ فَیَأْخُذُ مِنْ حَدِیْثِی ہٰذَا،ثُمَّ یَجْمَعُہُ إِلٰی صَدْرِہٖ فَإِنَّہُ لَمْ یَنْسَ شَیْئًا سَمِعَہُ مِنِّی ))

دوسری روایت میں ہے کہ ’’ جو شخص اپنی چادر پھیلائے گا ، پھر میری اس حدیث کو سنے گا اور اس کے بعد اسے اپنے سینے سے لگالے گا تو وہ میری احادیث کو کبھی نہیں بھولے گا ۔‘‘

چنانچہ میں نے اپنی ایک چادر بچھا دی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو سے فارغ ہو گئے۔پھر میں نے اسے اپنے سینے سے لگالیا ۔اسی لئے میں اس دن کے بعد آج تک کوئی حدیث نہیں بھولا ۔ صحیح البخاری :2047،118،2350، صحیح مسلم :2492

طلب ِ حدیث کیلئے سفر

کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صرف طلبِ حدیث کیلئے باقاعدہ لمبے لمبے سفر کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں ہم یہاں صرف دو واقعات ذکر کررہے ہیں جبکہ علومِ حدیث کی کتابیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں :

01. حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک صحابی کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پہنچی جسے خودمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا تھا ۔ لہذا میں نے ایک اونٹ خریدا اور اس پر کجاوا کسنے کے بعد میں اس صحابی کی طرف روانہ ہو گیا جو کہ ملک شام میں مقیم تھے ۔ میں مکمل ایک ماہ تک سفر کرتا رہا یہاں تک کہ شام میں پہنچ گیا ۔ وہ صحابی عبد اللہ بن أنیس الأنصاری رضی اللہ عنہ تھے ، میں سیدھا ان کے پاس پہنچا اور میں نے کہا : مجھے مظالم ( حقوق ) کے بارے میں آپ کے واسطے سے ایک حدیث پہنچی ہے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا اورمجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے وہ حدیث براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اورمجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں حدیث سننے سے پہلے ہی میری موت نہ آجائے یا کہیں آپ انتقال نہ کر جائیں ۔انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

(( یُحْشَرُ النَّاسُ غُرْلًا بُہْمًا))قُلْنَا:وَمَا بُہْمٌ؟قَالَ:(( لَیْسَ مَعَہُمْ شَیْئٌ، فَیُنَادِیْہِمْ نِدَائً یَسْمَعُہُ مَنْ بَعُدَ کَمَا یَسْمَعُہُ مَنْ قَرُبَ : أَنَا الدَّیَّانُ ، لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِّنْ أَہْلِ النَّارِ أَنْ یَّدْخُلَ النَّارَ وَأَحَدٌ مِّنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ عِنْدَہُ مَظْلَمَۃٌ حَتّٰی أَقُصَّہَا مِنْہُ ، وَ لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِّنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ أَنْ

یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ وَأَحَدٌ مِّنْ أَہْلِ النَّارِ یَطْلُبُہُ بِمَظْلَمَۃٍ حَتّٰی أَقُصَّہُ مِنْہُ حَتَّی اللَّطْمَۃ )) قُلْنَا : کَیْفَ وَإِنَّمَا نَأْتِی اللّٰہَ عُرَاۃً غُرْلاً بُہْمًا ؟ قَالَ : (( بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ))

’’ لوگوں کو اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ غیر مختون اور خالی ہاتھ ہوں گے ( یعنی وہ اس طرح ہونگے جیسا کہ وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے۔) پھر ایک پکارنے والا انھیں پکارے گا اور اس کی آواز دور والا بھی اسی طرح سنے گا جیسا کہ اسے قریب والا سنے گا : آج میں ہی حساب لینے والا ہوں اور کوئی جہنمی اس حال میں جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا کہ اہلِ جنت میں سے کسی شخص کا اس پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے بدلہ لے لوں اورکوئی جنتی اس حال میں جنت میں داخل نہیں ہو سکتا کہ اہلِ جہنم میں سے کسی شخص کا اس پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے بدلہ لے لوں حتی کہ ایک تھپڑ کا بھی بدلہ لیا جائے گا ۔‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا : بدلہ کیسے لیا جائے گاجبکہ ہم تو اس دن ننگے بدن،غیر مختون اور خالی ہاتھ ہونگے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بدلہ نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ لیا جائے گا۔‘‘ البخاری فی الأدب المفرد ، أحمد،الطبراني ، البيهقي

02. حضرت ابو ایو ب الأنصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ کی طرف محض اس لئے سفر کیا کہ وہ ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کرنا چاہتے تھے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے والوں میں ان کے علاوہ کوئی اورصحابی موجود نہ تھا ۔چنانچہ وہ مدینہ منورہ سے سیدھے امیرِ مصر حضرت مسلمہ بن مخلد الأنصاری رضی اللہ عنہ کے گھر جا پہنچے ۔ حضرت مسلمہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہا : انھیں جگا دو۔ ان کے گھر والوں نے کہا : نہیں، ابھی نہیں جگاتے یہاں تک کہ وہ خود بیدار ہوں۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ، میں انتظار نہیں کر سکتا ۔ تب انھوں نے انھیں بیدار کر دیا ۔ چنانچہ وہ اٹھے ا ور اپنے مہمان کو خوش آمدید کہا اوران سے کہا: اپنا سامان وغیرہ اپنی سواری سے اتاردو اور آرام کرو ۔ انھوں نے کہا : نہیں یہاں تک کہ آپ حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ کو بلوائیں جن سے مجھے ایک ضروری کام ہے ۔ چنانچہ انھیں بلوا لیا گیا ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا آپ نے مومن کے عیبوں پر پردہ پوشی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی تھی ؟ انھوں نے کہا: جی ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد خود سنا کہ

(( مَنْ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِی الدُّنْیَا عَلٰی کُرْبَتِہٖ سَتَرَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ))

’’ جس شخص نے دنیا میں کسی مومن کے عیب پر پردہ ڈالا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس ( کے عیبوں ) پر پردہ ڈال دے گا ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھی کہ (( مَنْ وَّجَدَ مُسْلِمًا عَلٰی عَوْرَۃٍ فَسَتَرَہُ فَکَأَنَّمَا أَحْیَا مَوْؤُدَۃً مِنْ قَبْرِہَا ))

’’ جس شخص نے کسی مسلمان میں کوئی عیب دیکھا ، پھر اس پر پردہ ڈال دیا تو اس نے گویا کہ زندہ در گور کی ہوئی لڑکی کو اس کی قبر سے دوبارہ زندہ کیا ۔ ‘‘

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا : جی ہاں یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھی۔ اس کے بعدحضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ اپنی سواری کی طرف بڑھے اور اس پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ الحمیدی:389/1، أحمد:656,613/28۔ السنۃ ومکانتہا فی التشریع الإسلامی:73،تدریب الراوی:586/2

کتابت ِ حدیث کا اہتمام

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سنتا اسے یاد رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ۔ تو قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا : تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات نہ لکھا کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں اور کبھی خوشی میں اور کبھی غصے میں گفتگو فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو لکھنا بند کردیا ۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (( اُکْتُبْ ! فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إِلَّا حَقٌّ )) سنن أبی داؤد :3646۔ وصححہ الألبانی

’’ تم لکھا کرو کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس ( منہ ) سے حق کے سوا کبھی کوئی اور بات نہیں نکلی ۔ ‘‘

یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو سننے ، یاد کرنے اور لکھنے کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا شوق ۔ تو اس شخص سے بڑا بد نصیب کون ہو سکتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور حتی کہ خود قرآن مجید کی آیات کو نظر انداز کرکے صرف کتاب اللہ کو حجت سمجھے اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کو در خور اعتنا نہ سمجھے !

احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنے اور انھیں آگے پہنچانے والے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بشارت سنائی :

(( نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئً ا سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاہَا وَحَفِظَہَا وَبَلَّغَہَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إلِیٰ مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ )) سنن الترمذی:2658 ،سنن ابن ماجہ :230 وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کا چہرہ تروتازہ اور حسین وجمیل کردے جس نے میری بات سنی پھر اسے ذہن نشین کر لیا اور اسے اچھی طرح حفظ کر کے آگے پہنچایا ۔ کیونکہ بسا اوقات ایک شخص ایک مسئلے کو سمجھتا ہے اور اسے اس شخص تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے ۔ ‘‘

دوسری روایت میں فرمایا : (( نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئً ا سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَہُ کَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ )) سنن الترمذی :2657۔ وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کا چہرہ تروتازہ اور حسین وجمیل کردے جس نے ہم سے کوئی بات سنی ، پھر اسے اسی طرح آگے پہنچایا جیسا کہ اس نے ہم سے اسے سنا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس شخص کو حدیث پہنچائی جائے گی وہ سننے والے سے زیادہ اسے ذہن نشین کرنے والا اور زیادہ سمجھ دار ہو ۔ ‘‘

لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا اور بشارت کے حصول کی خاطر احادیثِ مبارکہ کو سننا ، پڑھنا اور انھیں یاد کرکے آگے پہنچانا چاہئے ۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض متفرق پیشین گوئیوں کا تذکرہ سننے کے بعد آئیے اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض وہ پیشین گوئیاں بھی سماعت کر لیجئے جن کا تعلق لوگوں کے بعض اعمال سے ہے اور ان میں سے اکثر وبیشتر اعمال ہمارے معاشرے میں بالکل اُسی طرح موجود ہیں جیسا کہ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ۔

بعض اعمال کے متعلق پیشین گوئیاں

01.یہ امت یہود ونصاری کے طور طریقوں کی پیروی کرے گی

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ ، حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ)) قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم : (( فَمَنْ ؟ )) صحیح البخاری:3456،7320 ، صحیح مسلم :2669

’’ تم یقینا اپنے سے پہلے لوگوں کی ہو بہو پیروی کرو گے جیسا کہ ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک بازو دوسرے بازو کے برابر ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں داخل ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے۔ ‘‘ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم یہود و نصاری کی پیروی کریں گے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو اور کس کی ؟ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی بالکل لفظ بلفظ پوری ہوچکی ہے ۔ چنانچہ آج مسلمانوں کی اکثریت یہود ونصاری کے طور طریقوں کو اپنائے ہوئے ہے ، عقائد میں بھی اور اعمال میں بھی۔ رہن سہن ، اٹھنا بیٹھنا ، ظاہری وضع قطع ، خاندانی تعلقات ، مالی معاملات ۔۔۔ الغرض یہ کہ طرز بودو باش وہی ہے جو یہود ونصاری کا ہے ۔ بقول علامہ اقبال :

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یہاں ہم یہود ونصاری کے طور طریقوں کی پیروی کی خاص طور پر تین مثالیں ذکر کر رہے ہیں:

01. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں بار بار یوں ارشاد فرماتے : (( لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَأَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ )) صحیح البخاری:3453 ،3454

’’ یہود ونصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔‘‘

اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اپنی امت کو ڈرانا تھا کہ وہ بھی یہود ونصاری کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنائیں ۔ اور جب ایک نبی کی قبر کو سجدہ گاہ بنانا حرام ہے تو یقینا نبی سے کم تر کسی اور انسان کی قبر کو سجدہ بنانا بھی بالأولی حرام ہے ۔۔۔۔ لیکن آج امتِ محمدیہ میں بصد افسوس کتنے ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے والعیاذ باللہ ۔ تو کیا یہ یہود ونصاری کے طور طریقوں کی پیروی نہیں ؟

02. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ التوبۃ 9:31

’’ انھوں ( یہود ونصاری ) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ۔ ‘‘

یہود ونصاری نے اپنے علماء ومشائخ کو کس طرح اپنا رب بنا لیاتھا ؟ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے :

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( یَا عَدِیُّ ! اِطْرَحْ عَنْکَ ہٰذَا الْوَثَن ) ’’ اے عدی ! اس بت کو اتار پھینکو۔ ‘‘ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت براء ت کی یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا : ﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَہُمْ،وَلٰکِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا أَحَلَّوْا لَہُمْ شَیْئًا اِسْتَحَلَّوْہُ،وَإِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ)) سنن الترمذی:3095وحسنہ الألبانی

’’ خبردار ! وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جب کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال تصور کر لیتے اور وہ جب کسی چیز کو حرام کہتے تو یہ اسے حرام مان لیتے ۔ ‘‘

گویا یہود ونصاری کا علماء اور درویشوں کو اپنا رب بنانے کا معنی یہ ہے کہ انھوں نے ان کو حلت وحرمت کے اختیارات دے رکھے تھے حالانکہ یہ اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ۔

اور آج مسلمانوں میں سے بھی بہت سارے لوگوں نے اپنے ائمہ ، فقہاء ، علماء اور پیروں کے اقوال کو بلا دلیل قبول کرنا واجب سمجھ رکھا ہے ۔ جسے تقلیدکہا جاتا ہے ۔ اس طرح بہت سے مسائل میں وہ غیر شعوری طور پر انھیں یہی اختیارات دیتے ہیں اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے ۔

03. حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتٰی عَلٰی بَنِی إِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ،حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَّصْنَعُ ذَلِکَ،وَإِنَّ بَنِی إِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَۃ)) قَالُوْا : وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : (( مَا أَنَاعَلَیْہِ وَأَصْحَابِی )) سنن الترمذی:2641۔وصححہ الألبانی

’’ میری امت میں بھی ویسی ہی صورتحال پیدا ہو جائے گی جیسی بنی اسرائیل کی تھی اورمیری امت کی ان کے ساتھ مشابہت اتنی زیادہ ہوگی جتنی ایک جوتے کے جوڑے میں ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی شخص اپنی ماں سے علی الاعلان بد کاری کرے گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ضرور آئے گا اوربنو اسرائیل کے لوگ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : نجات پانے والی ایک جماعت کونسی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’جس منہج پر میں اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اسی منہج پر چلنے والی جماعت جہنم سے نجات پائے گی ۔ ‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے افتراق کے بارے میں جو پیشین گوئی فرمائی ہے وہ پوری ہو چکی ہے اور فرقہ بندی میں امت مسلمہ بنو اسرائیل سے بھی آگے بڑھ گئی ہے ۔ ان کے بہتر فرقے تھے جبکہ اس امت کے تہتر ہیں ۔

02.یہ امت فخر وتکبر اور بغض وحسد کی بیماری میں مبتلا ہو گی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سَیُصِیْبُ أُمَّتِی دَائُالْأُمَمِ))فَقَالُوْا:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!وَمَا دَائُ الْأُمَمِ؟ قَالَ:(( اَلْأشرُ وَالْبَطْرُ،وَالتَّکَاثُرُ وَالتَّنَافُسُ فِی الدُّنْیَا،وَالتَّبَاغُضُ،وَالتَّحَاسُدُ حَتّٰی یَکُوْنَ الْبَغْیُ )) رواہ الحاکم : وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :680 وصحیح الجامع:3658

’’ میری امت عنقریب داء الأمم میں مبتلا ہو گی ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! داء الأممکیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فخر وتکبر کرنا ، مال ودولت وغیرہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا، دنیا کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ، ایک دوسرے سے بغض رکھنا اور ایک دوسرے سے اس قدر حسد کرنا کہ نوبت ظلم تک جا پہنچے۔ ‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امراض کے بارے میں پیش گوئی فرمائی وہ سب کی سب آج مسلم معاشرے میں بصد افسوس موجود ہیں ۔ فخر وتکبر بھی پایا جاتا ہے ، مال ودولت کے حصول کیلئے مسلمانوں کے مابین دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ اسی طرح ان کے مابین پیار ومحبت کے بجائے ایک دوسرے سے بغض پایا جاتا ہے اور حسد اِس قدر زیادہ ہے کہ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ لہذا ہمیں اپنے ان افسوسناک رویوں کی اصلاح کرنی چاہئے اور اِن بری خصلتوں کو چھوڑ کر ان کی جگہ اچھی اور نیک خصلتوں کو اختیار کرنا چاہئے۔

03. امت مسلمہ کی زبوں حالی کے بارے میں پیش گوئی

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یُوْشِکُ الأُمَمُ أُنْ تَدَاعیٰ عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِہَا،فَقَالَ قَائِلٌ : وَمِنْ قِلَّۃٍ

نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ، وَلَیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِی قُلُوْبِکُمُ الْوَہْنَ،قَالُوا:وَمَا الْوَہْنُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ:حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ )) سنن أبی داؤد:4297۔وصححہ الألبانی فی صحیح سنن أبی داؤد،والصحیحۃ:956

’’ قریب ہے کہ تم پر امتیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ بہت سارے کھانے والے ایک پیالے ( یا بادیہ ) پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک کہنے والے نے کہا : کیا ہم اس دن قلیل تعداد میں ہونگے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ تم اس دن کثیر تعداد میں ہو گے لیکن تمھاری حیثیت ایسے ہوگی جیسے سیلاب کے پانی میں تیرنے والے تنکوں کی ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کے سینوں سے تمھارا رعب ودبدبہ نکال لیں گے اور تمھارے دلوں میں اللہ تعالیٰ (الوہن ) ڈال دیں گے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے گذارش کی : اے اللہ کے رسول ! (الوہن ) کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ۔ ‘‘

اس حدیثِ مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل میں امت مسلمہ کی کمزوری اورزبوں حالی کی پیشین گوئی فرمائی ہے اور یہ کہ مختلف قومیں اس پر ٹوٹ پڑیں گی اوراس کی حیثیت سیلابی پانی میں تیرنے والے تنکوں کی طرح ہو گی اوراس کے مخالفین کے دلوں سے اس کا رعب ودبدبہ نکل جائے گا ۔۔۔اور اس کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ مسلمانوں کے دلوں میں دنیا سے شدید محبت اور موت سے انتہائی نفرت پیدا ہو جائے گی ۔ یہ وہ چیز ہے جو بعینہ اس دور کے مسلمانوں میں موجود ہے اور اسی وجہ سے ان پر ذلت وخواری کے بادل چھائے ہوئے ہیں ، ان کا خون جس کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک خانہ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے اس قدر ارزاں ہے کہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے اورظلم وستم کی ہربجلی بے چارے مسلمانوں پر ہی آکر گرتی ہے ۔ اس پر اگر کوئی شخص آوازِ احتجاج بلند کرتا ہے تو اسے دہشتگردوں کا ساتھی قرار دے کر یا تو اس کا گلا ہمیشہ کیلئے گھونٹ دیا جاتا ہے ۔ یا پھر بغیر مقدمہ چلائے اسے ہمیشہ کیلئے پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے اورانسانی حقوق کا واویلا کرنے والے اسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں ، نہ اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے احتجاج پر کوئی کان دھرتا ہے اور نہ اس کے کسی جائز مطالبہ پر کسی کے کانوں پر جوں رینگتی ہے ۔

04.مساجد کی آباد کاری کے بجائے ان کو مزین کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کرنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَتَبَاہَی النَّاسُ فِی الْمَسَاجِدِ )) سنن أبی داؤد : 449۔ وصححہ الألبانی

’’ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ مساجد بنانے اور انھیں مزین کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَا أُمِرْتُ بِتَشْیِیْدِ الْمَسَاجِدِ)) ’’ مجھے مساجد کو مزین کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔‘‘

قَالَ ابنُ عَبَّاس : ( لَتُزَخْرِفُنَّہَا کَمَا زَخْرَفَتِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی ) سنن أبی داؤد :448۔وصححہ الألبانی

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم مساجد کو ضرور بالضرور مزین کروگے جیسا کہ یہود ونصاری نے کیا ۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی بعینہ پوری ہو چکی ہے ۔ چنانچہ بہت سارے مسلمان عالیشان مساجد کی تعمیر اور ان کی خوب تزیین وآرائش پر گراں قدر سرمایہ توخرچ کر رہے ہیں لیکن انھیں آباد کرنے پر توجہ نہیں دے رہے ۔ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں اورجو پڑھتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو مساجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی بجائے جہاں ان کا جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں ۔

جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(( مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یَأْتِہِ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ)) سنن ابن ماجہ :793 ۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص اذان سن لے پھر مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی سوائے اُس کے جس کے پاس عذر ہو ۔ ‘‘

05. حلال وحرام کی تمیز ختم ہو جائے گی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْئُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنَ الْحَلاَلِ أَمْ مِنْ حَرَامٍ )) صحیح البخاری : 2059،2083

’’ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ جس میں کسی شخص کو اس کی پروا نہیں ہو گی کہ اس نے مال کیسے حاصل کیا ، حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے ۔ ‘‘

اور یہ پیشین گوئی بھی بعینہ پوری ہو چکی ہے کہ اس دور میں بہت سارے لوگوں نے زیادہ سے زیادہ مال ودولت کو جمع کرنااپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے اوراس سلسلے میں ان کے نزدیک حلال وحرام کے درمیان تمیز کرنے کی کوئی حیثیت

نہیں ہے ۔ بس مال حاصل ہونا چاہئے خواہ جائز طریقے سے ہو یا نا جائز طریقے سے۔ رشوت اس قدر عام ہو چکی ہے کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی رشوت دئیے بغیر پورا نہیں ہوتا ۔ سودی کاروبار مختلف ناموں سے جاری ہے اور سیونگ سرٹیفیکٹ یا پرائز بانڈزکے نام پر جُوا بھی کھلے عام ہو رہا ہے۔ دھوکہ ، فراڈ ، خیانت ، چوری اور ڈاکہ زنی وغیرہ یہ ایسے طریقے ہیں جو ناجائز طور پر مال کمانے کے ہیں اور بصد افسوس مسلمانوں میں بکثرت موجود ہیں ۔

06.بدکاری ، ریشم کا لباس ، منشیات کا استعمال اور آلات موسیقی

حضرت ابو عامر ۔ یا ابو مالک ۔ الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِیْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ))

’’ میری امت میں ایسے لوگ یقینا آئیں گے جو زنا ، ریشم کا لباس ، شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال تصور کر لیں گے ۔ ‘‘ صحیح البخاری،الأشربۃ باب ما جاء فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہ :5590

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اعمال کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی ہے وہ بھی امت مسلمہ میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئی مسلمان انھیں حلال بھی تصور کرتے ہیں ، حالانکہ شریعت میں ان کی حرمت کے واضح دلائل موجود ہیں ۔ کئی اسلامی ملکوں میں بدکاری کے اڈے کھولنے کیلئے باقاعدہ لائسنس جاری کرکے یہ پیشہ اپنانے والی خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ روافض تو زنا کو ’ متعہ ‘ کے نام پر نہ صرف حلال بلکہ نہایت اجروثواب کا عمل قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قیامت تک کیلئے حرام فرمایا ہے ۔ ریشمی لباس جو اس امت کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے اسے کئی لوگ سرِ عام پہنتے ہیں جبکہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق اِس امت کے مردوں پر ریشم حرام ہے ۔

اور شراب کی بوتلیں مختلف ناموں سے بازاروں اور مارکیٹوں میں عام ملتی ہیں اور سرکاری سرپرستی میں شراب وکباب ، رقص وسرور اور ناچ گانوں کی محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں ۔ یاد رہے کہ ( الخمر ) سے مراد صرف شراب ہی نہیں بلکہ اس میں تمام نشہ آور چیزیں شامل ہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ،وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی الدُّنْیَا فَمَاتَ وَہُوَ یُدْمِنُہَا لَمْ یَتُبْ لَمْ یَشْرَبْہَا فِی الآخِرَۃِ )) صحیح مسلم : 2003

’’ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے اورجو شخص دنیا میں شراب نوشی کرتا رہے اور بغیر توبہ کے

مر جائے تو وہ آخرت میں ( جنت کی ) شراب سے محروم ہو جائے گا ۔ ‘‘

اور جہاں تک گانوں کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے نہ صرف گناہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ کئی ’’روشن خیال ‘‘ لوگوں نے اس کے جواز کے فتوے بھی جاری کردئیے ہیں اوراسی لئے اب لوگ اسے دل بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور پیشین گوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے ، گانے عام ہو جائیں گے اور شراب نوشی کو حلال تصور کر لیا جائے گا تو اُس وقت اللہ کا سخت عذاب نازل ہو گا ۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سَیَکُوْنُ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ،قِیْلَ:وَمَتٰی ذَلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : إِذَا ظَہَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ )) صحیح الجامع للألبانی :3665

’’ آخری زمانے میں لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا ، ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی اور ان کی شکلیں مسخ کی جائیں گی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایسا کب ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے ، گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب کو حلال سمجھ لیا جائے گا ۔ ‘‘

07. خلوت میں محرمات کا ارتکاب نیکیوں کیلئے تباہ کن

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِی یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالَ جِبَالِ تِہَامَۃَ بَیْضًا،فَیَجْعَلُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہَبَائً مَّنْثُوْرًا،قَالَ ثَوْبَانُ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! صِفْہُمْ لَنَا،جَلِّہِمْ لَنَا،أَن لَّا نَکُوْنَ مِنْہُمْ وَنَحْنُ َلا نَعْلَمُ؟قَالَ:أَمَا إِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَمِنْ جِلْدَتِکُم،وَیَأخُذُوْنَ مِنَ اللَّیْلِ کَمَا تَأخُذُوْنَ،وَلٰکِنَّہُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰہِ انْتَہَکُوْہَا )) سنن ابن ماجہ:4245وصححہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ والصحیحۃ:505

’’میں یقینا اپنی امت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے روز ایسی نیکیاں لے کر آئیں گے جو تہامہ کے پہاڑوں کی مانند روشن ہو نگی لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ان نیکیوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کی مانند اڑا دے گا۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کر دیجئے اور ان کے بارے میں کھل کر بیان کر دیجئے تاکہ ہم لا علمی میں ایسے لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبر دار ! وہ تمہارے بھائی اور تمہاری قوم سے ہی ہونگے ۔ اور وہ رات کو اسی طرح قیام کریں گے جیسا کہ تم کرتے ہو لیکن وہ ایسے لوگ ہونگے کہ جب خلوت میں انھیں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ملیں گی تو وہ ان سے اپنا دامن نہیں بچائیں گے۔ ‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ اس امت میں کئی لوگ ایسے آئیں گے جو بڑے بڑے نیک اعمال کریں گے اور تہجد گذار بھی ہونگے لیکن جب وہ خلوت میں جائیں گے تووہاں اللہ کی طرف سے حرام قرار دئیے گئے کاموں کا ارتکاب کریں گے اورجب یہ لوگ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونگے تو وہ ان کی بڑی بڑی نیکیوں کو ان کے بڑے بڑے گناہوں کی وجہ سے ضائع کر دے گا جنہیں وہ خلوت میں کیا کرتے تھے ۔ اس لئے ہم سب کو ظاہر وباطن میں ، جلوت اور خلوت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام محرمات سے پرہیز کرنے کی توفیق دے اور اپنا حقیقی خوف نصیب فرمائے۔ آمین