نبی ہمارے بڑی شان والے

صلی اللہ علیہ وسلم

 

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سے چنے ہوئے انسان ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ". (صحيح مسلم |2276)

اللہ جل جلالہ نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے اور بنی ہاشم کو قریش میں سے اور مجھے بنی ہاشم میں سے چنا

ہمارے نبی بہترین نسب والے تھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب بیان کرتے ہوئے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ (بخاری : 7)

آپ ہمارے اندر عالی نسب والے تھے

اللہ تعالیٰ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد بنی نوع انسان پر رحمت کرنا ہے

فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الأنبياء : 107)

اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ (سنن أبي داود | 8 ،حسن)

میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت سے ہوں کہ تمہیں سکھاتا ہوں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین حواس، ذہانت اور جسمانی فٹنس میں پیدا کیا گیا

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواس، ذہانت اور جسمانی نشو نما بھی بہتر سے بہترین شکل میں ڈھال دی اور آپ کو ہر قسم کے ذہنی اور اخلاقی عیب سے بچا لیا گیا

آپ کو ہر طرح کی دیوانگی، نادانی اور ذہنی کمزوری سے بے عیب قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (القلم : 2)

کہ تو اپنے رب کی نعمت سے ہرگز دیوانہ نہیں ہے۔

اور فرمایا :

وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ (التكوير : 22)

اور تمھارا ساتھی ہرگز کوئی دیوانہ نہیں ہے۔

سبحان اللہ! جس کے دیوانہ نہ ہونے کی گارنٹی خود اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں اندازہ کیجئے کہ وہ کس قدر کمالِ عقل رکھتا ہوگا

آپ بہترین اخلاق پر فائز تھے

اور آپ کا اخلاق و کردار کس قدر اعلی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : 4)

اور بلاشبہ یقینا تو ایک بڑے خلق پر ہے۔

آپ کا مبارک سینہ انسانی بشری کمزوریوں سے پاک کردیا گیا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (الشرح : 1)

کیا ہم نے تیرے لیے تیرا سینہ نہیں کھول دیا۔

سینہ مبارک چاک کرنے کا واقعہ

یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند و بالا شان ہے کہ آپ کو انسانی بشری کمزوریوں سے پاک کرنے کے لیے دو مرتبہ آپ کا سینہ مبارک کھول کر اور دھو کر صاف کیا گیا ۔ ایک دفعہ مائی حلیمہ سعدیہ کے پاس بچپن میں اور دوسری بار معراج کے موقع پر۔

پہلی مرتبہ، بچپن میں حلیمہ سعدیہ کے پاس

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ” أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً ، فَقَالَ : هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ لأَمَهُ ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ ، فَقَالُوا : إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ ” قَالَ أَنَسٌ : وَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ .)) (صحيح مسلم: 162.)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بچپنے میں جب بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو جبرئیل امین نے آکر آپ کو زمین پر چت لٹایا اور سینہ چاک کرکے آپ کادل مبارک با ہر نکالا اور پھر اس کے اندر سے جما ہوا کچھ خون نکالا اور کہا یہ آپ کے دل میں شیطان کاحصہ ہے ۔ پھرایک طلائی طشتری میں آبِ زم زم سے آپ کے قلب مبارک کو غسل دیا اور پھر اس کو شگاف سے ملایا اور اس کی اصلی جگہ پر اسے رکھ دیا۔ اتنے میں دو سرے بچوں نے دوڑ کر آپ کی رضائی والدہ کو اطلاع دی کہ محمدقتل کردیا گیا ہے تو انہوں نے آکر آپ کا اڑا ہوا رنگ دیکھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینہ مبارک پر ٹانکوں کے نشان دیکھے ہیں۔‘

دوسری مرتبہ، معراج پر جانے سے پہلے

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَفَرَجَ صَدْرِي ، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا ، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ، ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا (صحيح البخاري | 349)

میں ایک رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھر محو خواب تھا کہ جبرئیل امین میرے گھرکی چھت پھاڑ کر میرے پاس تشریف لائے اور میرا سینہ چاک کیا، آبِ زمزم سے دھویا اور پھر ایمان وحکمت سے بھری ہوئی ایک طلائی طشتری میرے سینہ میں انڈیل دی اور پھر اسے بند کردیا ۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان سے بچا لیا گیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ ". قَالُوا : وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” وَإِيَّايَ، إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ، فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ ". (صحيح مسلم |2814)

"تم میں سے کو ئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔)”انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین )نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا ،اس لیے(اب)وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایسی عظیم ذات ہے کہ آپ کو دیکھ لینا ہی بڑی سعادت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” طوبى لمن رآني وطوبى لمن راى من رآني ولمن راى من راى من رآني وآمن بي”. (سلسله أحاديث الصحیحۃ 2205)

”‏‏‏‏جس نے مجھے دیکھا اس کے لیے خوشخبری ہے، جس نے میرے صحابی کو دیکھا اس کے لیے خوشخبری ہے اور جس نے میرے صحابی کو دیکھنے والے (‏‏‏‏یعنی تابعی) کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اس کے لیے بھی خوشخبری ہے۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بہترین زمانہ ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا

«خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» (بخاری : 2652 )

"لوگوں میں سے بہترین میرے دور کے لوگ(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین)ہیں،پھر وہ جو ان کے ساتھ(کے دورکے) ہوں گے(تابعین رحمۃ اللہ علیہ )،پھر وہ جوان کے ساتھ(کے دور کے) ہوں گے(تبع تابعین۔)”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور گھر کی درمیانی جگہ کی فضیلت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ” (صحيح البخاري |1195)

میرے گھر سے میرے منبر تک کا درمیانی فاصلہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے

نیند میں بھی آپ کا دل بیدار رہتا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي "(صحيح البخاري |3569)

”میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے بھی دیکھ لیتے تھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي (صحيح البخاري | 418)

میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں

اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو اپنے نبی کی اطاعت سے جوڑ دیا

فرمایا :

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (آل عمران : 31)

کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گااور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

فرشتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا :

فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ. (صحيح البخاري | 7281)

پس جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں کے درمیانی فرق کرنے والے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی عزت و وقار کے ساتھ معراج پر لے جایا گیا

فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الإسراء : 1)

پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

بیت المقدس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاء بننے کا شرف حاصل ہوا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَجُمِعَ لِيَ الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَام، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ (سنن النسائي |450)

پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا۔ وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام جمع کیے گئے تھے، چنانچہ مجھے جبریل علیہ السلام نے آگے کر دیا۔ میں نے ان کی امامت کی۔ پھر مجھے لے کر قریبی (پہلے) آسمان کی طرف چڑھے۔

اس روایت کی سند میں کلام ہے بعض علماء نے تو اسے منکر تک لکھا ہے مگر صحیح مسلم کی درج ذیل روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے

صحيح مسلم کی اردو مکتبہ شاملہ کے مطابق 430 نمبر روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں ۔ اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور (وہاں ) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں ، آپ نے اپنی ذات مراد لی ، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی

تمام انبیاء سے آپ کی مدد کا عہد لیا گیا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (آل عمران : 81)

اور جب اللہ نے سب نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں کتاب و حکمت میں سے جو کچھ تمھیں دوں، پھر تمھارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لائو گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا؟ انھوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو گواہ رہو اور تمھارے ساتھ میں بھی گواہوں سے ہوں۔

جبریل اور میکائیل علیھما السلام آپ کی سکیورٹی پر مامور

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

لَقَدْ رَأَيْتُ يَوْمَ أُحُدٍ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ يَسَارِهِ – رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ، يُقَاتِلَانِ عَنْهُ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ (مسلم : 2306)

غزوہ احد کے موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ دو اور اصحاب ( یعنی جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام انسانی صورت میں ) آئے ہوئے تھے۔ وہ آپ کو اپنی حفاظت میں لے کر کفار سے بڑی سختی سے لڑ رہے تھے۔ ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے۔ میں نے انہیں نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ پکڑتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ : 67)

اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔

اور فرمایا :

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ (الحجر : 95)

بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے دشمنوں کی جڑ ہی کاٹ دی

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (الكوثر : 3)

یقینا تیر ا دشمن ہی لا ولد ہے۔

جہنم کا داروغہ بھی آپ کو سلام کہتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :(معراج کے موقع پر) ایک کہنے والے نے کہا :

” يَا مُحَمَّدُ! هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ، فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ ” (مصنف ابن أبي شيبة:(٣١٧١٩)

مسند أحمد:(١٤٣٣٣)حسن)

اے محمد! یہ مالک ہیں ، جہنم کے داروغے ، انہیں سلام کہیے : میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہل کر کے مجھےسلام کیا۔‘‘

زمین و آسمان کے درمیان ہر چیز جانتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں

سیدنا جابر بن عبدالله رضی الله عنه بیان کرتے ہیں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

ﺇﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﺷﻲء ﺑﻴﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﻭاﻷﺭﺽ، ﺇﻻ و ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻧﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، غير ﻋﺎﺻﻲ اﻟﺠﻦ ﻭاﻹﻧﺲ

زمین وآسمان کے درمیان موجود ہر چیز جانتی ہے کہ یقینا میں الله كا رسول ہوں سواے نافرمان جنوں اور انسانوں کے

درخت اور پتھر بھی آپ کو سلام کرتے تھے

علی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں : خرجت مع النبی صلی الله عليه وسلم فجعل لا یمر علی حجر و لا شجر الا سلم عليه۔

طبرانی أوسط:(5431) سندہ حسن لذاتہ۔

کہ میں نبی رحمت صلی الله عليه وسلم کے ساتھ باہر نکلتا تو جس بھی درخت اور پتھر کے پاس سے گذر ہوتا تو وہ درخت اور پتھر آپ صلی الله عليه وسلم کو سلام پیش کرتے۔

مکے کا ایک پتھر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ ". (مسلم : 2277)

"میں مکہ میں اس پتھر کو اچھی طرح پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا،بلاشبہ میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔”

درختوں نے آپ کو چھپا لیا

جابر رضی الله عنه کہتے ہیں :

رسول الله صلی الله عليه وسلم رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے

مگر آپ کو وہاں بطور پردہ کوئی

چیز نظر نہ آئی ۔آپ صلی الله

علیہ وسلم نے ادھر، ادھر دیکھا

تو وادی کے کنارے پر آپ صلی الله

عليه وسلم کو دو درخت نظر آے جو ایک دوسرے سے خاصے

فاصلے پر تھے آپ صلی الله عليه وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنی کو پکڑا اور فرمایا : تو میرے لیے الله کے حکم سے مطیع ہو جا تو درخت آپ کے پیچھے یوں چل دیا جیسے نکیل

ڈالا اونٹ چلتا ہے۔آدھا فاصلہ طے ہو گیا تو آپ صلی الله عليه وسلم نے دوسرے درخت کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اب وہ دونوں درخت حکم الہی سے آپس میں مل گئے تو آپ صلی الله عليه وسلم ان کے پردے میں قضاے حاجت سے فارغ ہوئے تو وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے ۔

صحیح مسلم :3012 ۔

نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کی رسالت عالمگیر ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبأ : 28)

اورہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

” أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ؛ فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ” (صحيح البخاري |335)

مجھے پانچ خصوصیات دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں( اسی روایت میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیںﻟﻢ ﻳﻌﻄﻬﻦ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻗﺒﻠﻲ کہ مجھے سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں)

01. ایک ماہ کی مسافت تک دشمن پر رعب وداب قائم کیا جانا

02.ساری زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی تو جو شخص جہاں نماز کا وقت پا لے وہیں مماز پڑھ لے

03.میرے لیے مال غنیمت کا حلال ہونا جو مجھ سے پہلے کس کے لیے حلال نہیں تھا

04.اور مجھے امت کے گنہگاروں کے لیے شفاعت کا مرتبہ عطاء کیا گیا

05.مجھے سب لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اے میرے محبوب! میں آپ کو اتنا دوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے

فرمایا :

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى (الضحى : 5)

اور یقینا عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہو جائے گا۔

ایک دفعہ آپ اپنی امت کی بخشش کے متعلق بہت پریشان بیٹھے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جبریل سے فرمایا: "جبریل! محمد کے پاس جاؤ اور کہہ دو:

إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ (مسلم : 202)

ہم آپکو آپکی امت کے بارے میں راضی کر دینگے ، آپکو ناراض نہیں کرینگے”

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یہ حدیث اس امت کیلئے پر امید احادیث میں سے ایک ہے، یا اس سے بڑھ کر امید والی حدیث کوئی نہیں ہے”

لوگوں میں سب سے پہلے قبر سے نکلنے والے بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ (مسلم : 5940)

(میں) پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی

سنن ترمذی میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ (ترمذی : 3148،صحیح)

میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی( اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں

قیامت کے دن سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئیں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى ؛ فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ ” (صحيح البخاري |2411)

لوگ قیامت میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا۔ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انہیں پہلی بے ہوشی جو طور پر ہو چکی ہے وہی کافی ہوگی

قیامت کے دن آپ کی امت کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی

انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَنَا أَكْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح مسلم:(196))

قیامت کے دن سب سے زیادہ پیروکار میرے ہوں گے

اور فرمایا :

لَمْ يُصَدَّقْ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَا صُدِّقْتُ، وَإِنَّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيًّا مَا يُصَدِّقُهُ مِنْ أُمَّتِهِ إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ ". (صحيح مسلم : 196)

’’ انبیاء میں سے کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری کی گئی ۔ اور بلاشبہ انبیاء میں ایسا بھی نبی ہوگا جن کی امت (دعوت) میں سے ایک شخص ہی ان کی تصدیق کرتا ہو گا۔‘‘

اور فرمایا :

فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ ” (سنن أبي داود | 2050 ،صحيح)

میں (تمہاری کثرت تعداد کی وجہ سے) دوسری امتوں کے مقابلے میں تم پر فخر کروں گا

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر فائز کریں گے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا (الإسراء : 79)

اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’مقام محمود‘‘ جو صرف ایک ہی شخص کو ملے گا اور جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے، وہ مقام شفاعت ہے، جس پرسب پہلے اور پچھلے آپ کی تعریف کریں گے۔ ایک شفاعت میدان محشر کی تنگی سے خلاصی دلا کر حساب کتاب شروع کرنے کی عام شفاعت ہے کہ اس پر سب پہلے اور پچھلے آپ کی تعریف کریں گے اور ایک اپنی امت کے لیے خاص شفاعت ہے جس پر پوری امت آپ کی احسان مند ہو گی اور تعریف کرے گی۔آپ کے نام ’’احمد‘‘ اور ’’محمد‘‘ کی شان اس وقت پوری طرح ظاہر ہو گی۔

تفسیر القرآن الكريم

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قیامت کے دن لوگ گروہوں کی شکل میں ہوں گے، ہر امت اپنے نبی کا پیچھا کرے گی کہ اے فلاں! آپ سفارش کیجیے، یہاں تک کہ آخر میں شفاعت (کی درخواست) نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آ پہنچے گی تو یہ وہ دن ہے جب اللہ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔ [ بخاری : 4818 ]

قیامت کے دن سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کی اجازت ملے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ ". (صحيح مسلم |2278)

” میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلا ہوں گا جس کی شفاعت قبول ہوگی۔”

آپ شفاعت کبری کریں گے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی

لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟۔

چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

پھر سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں۔ نوح علیہ السلام بھی اسی طرح کی بات کریں گے اور کہیں گے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے، ابراہیم علیہ السلام بھی اسی طرح کی بات کریں گے اور کہیں گے ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔

سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام بھی وہی بات کہیں گے پھر کہیں گے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! ہماری شفاعت کیجئے، عیسیٰ بھی وہی کہیں گے نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔

سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے (بخاری 4712)

قیامت کے دن سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے کی اجازت ملے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِالسُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسند أحمد |21737،حسن)

قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے ہی سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی

میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسلم : |2278)

میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔

اور بخاری میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحيح البخاري |4712)

میں قیامت کے دن سب لوگوں کا سردار ہوں گا

قیامت کے دن سب انبیاء کرام علیہم السلام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہوں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمٗ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي (سنن الترمذي |3148)

میرے ہاتھ میں حمد (وشکر) کا پرچم ہوگا اور مجھے (اس اعزاز پر ) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے امام اور خطیب ہوں گے

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ ". (ابن ماجہ : 4314 حكم الحديث: حسن سنن ترمذی : 3613، صحیح)

جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اوراس پرمجھے) کوئی گھمنڈنہیں

شدید پیاس والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حوض کوثر دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان کو بہت اونچا کردیا

فرمایا :

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (الكوثر : 1)

بلاشبہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی۔

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ بَيْنَمَا أَنَا أَسِيْرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ، قُلْتُ مَا هٰذَا يَا جِبْرِيْلُ !؟ قَالَ هٰذَا الْكَوْثَرُ الَّذِيْ أَعْطَاكَ رَبُّكَ فَإِذَا طِيْبُهُ أَوْ طِيْنُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ ] [ بخاري : 6581 ]

’’میں جنت میں چلا جا رہا تھا تو اچانک ایک نہر آگئی جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے کہا : ’’اے جبریل! یہ کیا ہے؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا : ’’یہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔‘‘ پھر دیکھا تو اس کی خوشبو یا مٹی مہکنے والی کستوری کی طرح تھی۔‘‘

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

نہر کوثر جنت میں ہے اور حوض کوثر محشر کے میدان میں ہوگا، بعض اوقات اس پر بھی نہر کوثر کا لفظ آتا ہے، کیونکہ اس حوض میں بھی جنت کے دوپرنالوں سے پانی گر رہا ہوگا۔ گویا حوض کا اصل بھی جنت والی نہر کوثر ہے۔

پل صراط سے سب سے پہلے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزریں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَيُضْرَبُ جِسْرُ جَهَنَّمَ

جہنم کا پل رکھا جائے گا .

” فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ (صحيح بخاری :6573)

تو سب سے پہلے میں ہی اسے عبور کروں گا

تمام انسانوں میں سب سے پہلے آپ ہی جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ ". (صحیح مسلم:(196))

میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَسْتَفْتِحُ

’’میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا او ردروازہ کھلواؤں گا۔

جنت کا دربان پوچھے گا:

مَنْ أَنْتَ ؟

آپ کون ہیں؟

میں جواب دوں گا:

مُحَمَّدٌ

وہ کہے گا :

بِكَ أُمِرْتُ، لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ ". (صحيح مسلم : 197)

مجھے آپ ہی کےبارےمیں حکم ملا تھا ( کہ ) آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔‘‘

سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ (مسند أحمد : 12469)

قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں بھی میں ہی داخل ہوں گا