نظرِ بدثبوت، علاج اور احتیاطی تدابیر شریعت کی روشنی میں
نظر بد کے ثبوت کے چند دلائل
  نظر لگ جانابرحق ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
 «العَيْنُ حَقٌّ» وَنَهَى عَنِ الوَشْمِ  (بخاری 5944)
  نظر لگ جانا حق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے سے منع فرمایا ۔
نظر انسان کو موت تک پہنچا دیتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اکثر من یموت من امتی بعد قضاء اللہ وقدرہ بالعین (صحیح الجامع 1206)
میری امت کے اکثر لوگوں کو قضاء وقدر کے بعد نظر سے موت آتی ہے
سلسلۃ الأحاديث الصحیحہ 747
نظر بد اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کردیتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
العین تدخل الرجل القبر والجمل القدر  (صحیح الجامع 4144)
نظر بد انسان کو موت اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کردیتی ہے
نظر بد انسان کو بلندی سے گہرائیوں میں گرا دیتی ہے
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ الْعَيْنَ لَتُولِعُ بِالرَّجُلِ بِإِذْنِ اللَّهِ حَتَّى يَصْعَدَ حَالِقًا ثُمَّ يَتَرَدَّى مِنْهُ (مسند احمد 20795 صحیح الجامع  الصحیحہ 889)
نظر بد کسی کو لگتی ہے یہاں تک کہ وہ بلند جگہ سے نیچے گر جاتا ہے
نظر کو نظر لگ گئی
میری نظروں کی کمزوری کی وجہ یہ ہیکہ ایک دن میں کسی مسجد میں بیٹھ کر چھوٹے سے مصحف میں قرآن مجید کی تلاوت میں مگن تھا کہ میرے برابر میں موجود ایک شخص نے حیرت زدہ ہوکر کہا کہ تم عمر کی اس حدتک پہنچنے کے باوجود اتنے چھوٹے اور باریک سطروں والے  مصحف میں قرات کررہے ہو،
میں نماز کے بعد مسجد سے نکلا تو اگلے دن ہی میری آنکھوں میں بیماری پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے میری نظر کمزور ہوگئ!
 المجموع في ترجمة العلامة المحدث ‎#حماد_الأنصاري ١/٤٥١
لیزر شعاعوں کی مثال
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ نظر بد کے وجود کو لیزر شعاعوں کی مثال سے سمجھاتے ہیں
استاذ گرامی لکھتے ہیں
 دراصل نظر لگانے والے کی آنکھ سے کوئی ایسی تاثیر رکھنے والی شعاع نکلتی ہے جو نشانہ بننے والے کو نقصان پہنچاتی ہے، جیسا کہ اب لیزر (شعاع) سے پتھر بھی توڑ دیا جاتا ہے۔ یہ حسد کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور اپنے پیاروں کو بھی لگ جاتی ہے، کسی کی آنکھ میں یہ تاثیر زیادہ ہوتی ہے کسی میں کم۔ بچوں پر یہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہے
تفسیر القرآن الكريم
نظر کے اسباب
نظر بد کےکئی ایک اسباب ہیں
مثال کے طور پر
حد سے زیادہ اظہار نعمت
اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو یا اپنے مال وأسباب کو خوب بنا سنوار کر پیش کرنا
آج کے دور میں فوٹو گرافی، فوٹو سیشن، سیلفی کا بڑھتا ہوا رجحان، بناؤ سنگھار، تیاری اورمیک اپ
 اور پھر خواہ یہ خود نمائی قصداً ہو یا غیر ارادی طور پر ہو دونوں صورتوں میں نظر بد لگنے کا قوی امکان ہوتا
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
استعينوا على إنجْاحِ الحوائِجِ بالكتمانِ فإنَّ كلَّ ذي نعمةٍ محسودٌ (صحيح الجامع: 943 ، صحيح ، الألباني)
بہت زیادہ خود نمائی
شیخی بکھیرنے والے نوجوانوں میں ایک چیز بہت دیکھی گئی ہے
فٹنگ والی شرٹیں پہن کر مسلز کی رونمائی کرتے ہیں
آنکھوں پر کالے رنگ کا خوبصورت چشمہ چڑھاتے ہیں
نیو ون ٹو فائیو گاڑی پر بیٹھ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں
پھر تھوڑی دیر بعد ایکسیڈنٹ، یا کسی نقصان کی خبر پہنچ جاتی ہے
یہ خودنمائی اور پھر نقصان بھی دراصل نظر بد کا ہی نتیجہ ہوتا ہے
کیونکہ دیکھنے والوں میں واہ واہ کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن دعا دینے والا شائد کوئی نہیں ہوتا
ابن ماجہ 3509 میں ہے کہ { سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی پر تمہارا شک بھی ہے ؟ “ لوگوں نے کہا ، ہاں ، عامر بن ربیعہ پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہیئے کہ اس کے لیے برکت کی دعا کرے “ } ۔
نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن نسائی:7617،قال الشیخ الألبانی:صحیح)
حضرت سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول االلہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے
 إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ (مسلم 7432)
 ،”اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو ، غنی ہو، گم نام(گوشہ نشیں)ہو۔
حسد
نظر بد، حسد کی وجہ سے بھی لگ جاتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کل ذی نعمۃ محسود ( صحیح الجامع)
ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے
ہمارے استاذ گرامی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
(یہ حسد کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے)
تفسیر القرآن الكريم
قرآن میں حاسد کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے
فرمایا
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (الفلق : 5)
اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
 حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے
 أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اشْتَكَيْتَ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ (مسلم 5700)
 کہ جبرائیل علیہ السلام  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور کہا:اے محمد!کیا آپ بیمار ہوگئے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہاں۔”حضرت جبرائیل  علیہ السلام  نے یہ کلمات کہے:”میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتاہوں،ہر چیز سے(حفاظت کے لئے) جو آپ کو تکلیف دے،ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے،اللہ آپ کو شفا دے،میں اللہ کے نام سے آ پ  کو دم کر تا ہوں۔”
بہت زیادہ خوشی میں بھی نظر لگ جاتی ہے
اکثر شادی شدہ جوڑے دیکھے گئے ہیں کہ شادی کے بعد دوسرے دن، دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بیمار ہو جاتا ہے
اس لیے کہ وہ دونوں بہت خوش ہوتے ہیں اور خوشی میں انسان کا چہرہ پہلے سے زیادہ تروتازہ اور کِھلا ہوا ہوتا ہے اور انہیں دیکھنے والے دوست و احباب، رشتہ دار بھی خوش ہوتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے شادی شدہ کو برکت کی دعا دینے کا حکم دیا ہے
 حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ قَالَ مَا هَذَا قَالَ إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ (بخاري 5155)
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو نکاح کی مبارکباد دیتے تو فرماتے :
بارَكَ اللَّهُ لَكَ ، وبارَكَ علَيكَ ، وجمعَ بَينَكُما في خيرٍ (صححہ الألباني ، أبي داود ، 2130)
 ترمذی کی روایت میں یوں ہے۔
بارک اللہ لک وعلیک وجمع بینکما فی خیر
نظر بد کی علامات
اچانک گر جانا یا بیہوشی طاری ہو جانا
جیسا کہ (اوپر بیان کردہ) سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے
جسم کا لاغر کمزورہوجانا
 جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بچے
حضرت جا بر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں
  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےاسماء بنت عمیس  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے فر ما یا :
  مَا لِي أَرَى أَجْسَامَ بَنِي أَخِي ضَارِعَةً تُصِيبُهُمْ الْحَاجَةُ قَالَتْ لَا وَلَكِنْ الْعَيْنُ تُسْرِعُ إِلَيْهِمْ قَالَ ارْقِيهِمْ قَالَتْ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ ارْقِيهِمْ (مسلم 5726)
"کیا ہوا ہے میں اپنے بھا ئی (حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ) کے بچوں کے جسم لا غر دیکھ رہا ہوں ،کیا انھیں بھوکا رہنا پڑتا ہے؟”انھوں نے کہا : نہیں لیکن انھیں نظر بد جلدی لگ جاتی ہے ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا :”انھیں دم کرو ۔”انھوں (اسماء بنت عمیس  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )نے کہا : تومیں نے (دم کے الفاظ کو) آپ کے سامنے پیش کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا :”(ان الفاظ سے) ان کو دم کردو۔”
چہرے کی رنگت کی تبدیلی
چہرے کی رنگت کا تبدیل ہو جانا یا چہرے پر داغ دھبے اور چھائیاں بن جانا نظر بد کی علامات میں سے ہے
 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا
 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وَجْهِهَا سَفْعَةٌ، فَقَالَ:
«اسْتَرْقُوا لَهَا، فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ» (بخاری 5739)
 کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر ( نظر بد لگنے کی وجہ سے ) کالے دھبے پڑ گئے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر دم کرادو کیونکہ اسے نظر بد لگ گئی ہے ۔
بلندی سے نیچے گرنا
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ الْعَيْنَ لَتُولِعُ بِالرَّجُلِ بِإِذْنِ اللَّهِ حَتَّى يَصْعَدَ حَالِقًا ثُمَّ يَتَرَدَّى مِنْهُ (مسند احمد 20795 صحیح الجامع  الصحیحہ 889)
نظر بد کسی کو لگتی ہے یہاں تک کہ وہ بلند جگہ سے نیچے گر جاتا ہے
بچوں کا رونا
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر داخل ہوئے
فَسَمِعَ صَوْتَ صَبِیٍّ یَبْکِیْ
 اور ایک بچے کے رونے کی آواز سنی
تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
 ((مَا لِصَبِیِّکُمْ ھٰذَا یَبْکِیْ، فَہَلَّا اِسْتَرْقَیْتُمْ لَہُ مِنَ الْعَیْنِ)) (مسند احمد ،الصحیحۃ :۱۰۴۸ ،، صحیح الجامع الصغیر جلد اول حدیث ۱۶۶۲ ،۲؍۹۸۸ ، حدیث : ۵۲۶۲)
 تمہارے اس بچے کو کیا ہو گیا ہے، یہ کیوں رو رہا ہے، تم اسے نظر کا دم کیوں نہیں کرواتے۔
دیگر علامات
بعض علماء و حکماء نے اپنے تجربات کی رو سے نظر بد کی دیگر علامات قلمبند کی ہیں
مثال کے طور پر
بلا سبب غمگین، اضطراب، بے چینی، رشتہ داروں سے دوری، دل دڑھکن کا تیز، دل ڈوب جانا، خوف، نبض کا تیز ہو جانا، آنکھوں سے پانی، بوقت تلاوت یا اذکار جمائیاں، سر کے پچھلے حصے میں درد، کندھوں پر بوجھ، برے خواب، ذہین طالب کا پڑھائی سے چالو ہوجانا، کاروبار میں غلط فیصلے کرنے لگ جانا
(من افادۃ الاخی الفاضل إعجاز حسن حفظہ اللہ تعالیٰ)
کن چیزوں کی نظر لگ سکتی ہے
انسان کی نظر لگ سکتی ہے
جیسا کہ یہ بات عام معروف ہے
اور اس پر کئی ایک دلائل کتاب و سنت میں موجود ہیں
جنات کی نظر لگ سکتی ہے
اگر جنات سے بچنے کے لیے شرعی تدابیر اور اللہ تعالیٰ کے کلمات و اذکار کی پناہ حاصل نہ کی گئی ہو تو انسان جنات کی نظر بد اور شرارتوں کا شکار ہو سکتا ہے
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
 «وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا »  [ الأنعام : ۱۱۲ ]
’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیاطین کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔‘‘
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انصار صحابہ سے فرمایا :
[ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِيْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ، وَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يَّقْذِفَ فِيْ قُلُوْبِكُمَا سُوْئًا أَوْ قَالَ شَيْئًا ]  [ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ إبلیس و جنودہ : ۳۲۸۱ ]
’’ شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور میں ڈرا کہ وہ تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ، یا فرمایا کوئی چیز ڈال دے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جنات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے
مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس : 6)
جنوں اور انسانوں میں سے۔
بالخصوص جب انسان قضائے حاجت کے لیے ننگا ہوتا ہے
 علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
 سَتْرُ مَا بَيْنَ أَعْيُنِ الْجِنِّ وَعَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُهُمْ الْخَلَاءَ أَنْ يَقُولَ بِسْمِ اللَّهِ  (ترمذي 606)
 ‘جنوں کی آنکھوں اورانسان کی شرمگاہوں کے درمیان کاپردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی پاخانہ جائے تووہ بسم اللہ کہے’۔
 نوٹ:(شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الإرواء: ۵۰)
بحوالہ مکتبہ شاملہ اردو
جانوروں کی نظر بھی لگ سکتی
من کل عین کا عموم
نظر بد سے بچنے کی دعا
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ (بخاري 3371)
میں  (کل عین)  کا لفظ عام ہے جوکہ انسان، جنات اور جانوروں سبھی کو شامل ہے
زہریلے سانپ کی نظر
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے،انھوں نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی:
 «اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ وَذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرَ، فَإِنَّهُمَا يَسْتَسْقِطَانِ الْحَبَلَ وَيَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ» (مسلم 5825)
"سانپوں کو قتل کردو اور (خصوصاً)دو سفید لکیروں والے اور دم بریدہ کو ، کیونکہ یہ حمل گرا دیتے ہیں اور بصارت زائل کردیتے ہیں۔”
ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
 وهذا أمر قد اشتهر عن نوع من الأفاعي أنها إذا وقع بصرها على الإنسان هلك ، فمنها ما تشتد كيفيتها وتقوى حتى تؤثر في إسقاط الجنين ، ومنها ما تؤثر في طمس البصر (زاد المعادج4ص149 )
یہ نظر بد والا معاملہ زہریلے سانپوں کے متعلق معروف ہے جب ان کی نظر کسی انسان کو لگتی ہے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور بعض اوقات یہ کیفیت اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ اسقاط حمل کا سبب بن جاتی ہے اور کبھی بصارت کے زائل ہو جانے کا سبب بن جاتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید لکیروں والے اور دم بریدہ سانپ کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ حمل گرا دیتے ہیں اور بصارت زائل کردیتے ہیں
کتے کی نظر
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
 أن الكلاب من الجن وهي بقعة الجن فإذا غشيتكم (وفی روایۃ، عند الطعام) فألقوا لها بشيء فإن لها أنفسا يعني أعينا”
کتے جنات میں سے ہیں پس جب یہ تمہیں(کھانے کے وقت) پا لیں تو ان کے سامنے کوئی( کھانے کی) چیز ڈال دیا کرو کیونکہ ان کی نظر بد لگ جاتی ہے
التمهيد لابن عبدالبر ج 14 ص 229
ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول
 ” فإن لها نفسا "
کے متعلق لکھا ہے
 يريد بذلك أن لها عينا قد تصيب من يأكل أمامها ولا يعطيها منه
اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ان کی نظر بد ہوتی ہے جو ایسے شخص کو لگ جاتی ہے جو ان کے سامنے کھاتا ہے لیکن اس میں سے انہیں کچھ نہیں دیتا
جاحظ اپنی کتاب، کتاب الحیوان میں لکھتے ہیں  :
 ( .. علماء الفرس ، والهند ، وأطباء اليونان ، ودهاة العرب ، وأهل التجربة من نازلة الأمصار .. : يكرهون الأكل بين يدي السِّباع ، يخافون نفوسها وأعينها ، للذي فيها من الشَّرَه والحرص ، والطَّلب والكَلَبِ ،……. ، وينفصل من عيونها من الأمور المفسدة التي إذا خالطت طباع الإنسان نَقَضَتْهُ .. ولذلك كانوا يكرهون قيام الخدمِ بالمَذَابِّ والأشربة على رؤوسهم وهم يأكلون مخافة النفس والعين ، وكانوا يأمرون بإشباعهم قبل أنْ يأكلوا .. ) .
فارسی، ھندی ،یونانی، عربی اور دیگر شہروں کے علماء اور تجربہ کار لوگ درندہ قسم کے جانوروں (کتے اور بلے وغیرہ) کے سامنے کھانہ کھانے کو ناپسند کیا کرتے تھے وہ ان کی نظر بد سے ڈرا کرتے تھے  اس لیے کہ ان میں لالچ، حرص، طلب اور شرارت کا پہلو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس وقت ان کی آنکھوں سے ایسے فاسد مادے نکلتے ہیں جو انسانی طبیعت کے لیے مضر ہوتے ہیں
اور اسی طرح نظر بد کے خوف کی وجہ سے وہ پسند نہیں کیا کرتے تھے کہ کھانے کے دوران ان کے خادم مکھیاں اڑانے والے پنکھے یا پانی وغیرہ کے برتن پکڑے ان کے پاس کھڑے رہیں اور وہ کھانے سے پہلے اپنے خدام کو کھلانے کا حکم دیا کرتے تھے
اس بات کی تائید حدیث سے ثابت ہے
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ، فَلْيُنَاوِلْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ، أَوْ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ، فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَعِلاَجَهُ» (بخاري 5460)
 جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم اےک یادو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلادے ( کیونکہ ) اس نے ( پکاتے وقت ) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے ۔
نظر بد کا علاج
نظر بد کا علاج شرعی و تجرباتی طور پر کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے
چند ایک طریقے
احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں
جیسا کہ اظہار نِعَم کم سے کم کیا جائے
کیونکہ لوگوں میں برکت کی دعا دینے والے کم ہوتے ہیں اور حسد کرنے والے اور جلنے والے زیادہ ہوتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
استعينوا على إنجْاحِ الحوائِجِ بالكتمانِ فإنَّ كلَّ ذي نعمةٍ محسودٌ (صحيح الجامع: 943 ، صحيح ، الألباني)
یعقوب علیہ السلام کی احتیاط
اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو اپنے صحت مند، قوی، جوان اور خوب صورت بیٹوں کے مصر میں اکٹھے داخل ہونے پر نظرِ بد لگنے کا خطرہ تھا
اس لیے انہوں نے اپنے بیٹوں کو شہر میں ایک ہی دروازے سے داخل ہونے سے منع کر دیا
قرآن میں ذکر ہے
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (يوسف : 67)
اور اس نے کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔
شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
 ’’یہ ٹوک (نظر بد) سے بچنے کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا، ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچاؤ کرنا درست ہے۔‘‘ (موضح)
بحوالہ تفسير القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ
روحانی طریقہ علاج
اذکار و وظائف کے ذریعے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
استعیذوا باللہ من العین فان العین حق (صحیح الجامع)
نظر بد سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو کیونکہ اس کا لگنا برحق ہے
یہ دعا پڑھیں
أعوذ بكلمات اللہ التامات من شر ما خلق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَن نَزَلَ مَنْزِلًا، ثُمَّ قالَ: أَعُوذُ بكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ ما خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ شيءٌ، حتَّى يَرْتَحِلَ مِن مَنْزِلِهِ ذلكَ.
(صحيح مسلم , 2708 (6878)
بسم اللہ پڑھیں
 علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
 سَتْرُ مَا بَيْنَ أَعْيُنِ الْجِنِّ وَعَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُهُمْ الْخَلَاءَ أَنْ يَقُولَ بِسْمِ اللَّهِ  (ترمذي 606)
 ‘جنوں کی آنکھوں اورانسان کی شرمگاہوں کے درمیان کاپردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی پاخانہ جائے تووہ بسم اللہ کہے’۔
تشریح : نوٹ:(شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الإرواء: ۵۰)
واش روم وغیرہ میں
بسم اللہ پڑھ کر کپڑے اتاریں
نوٹ
آجکل واش روم میں آئینہ لگانے کا فیشن بڑھتا جا رہا ہے جوکہ نظر بد کے ساتھ ساتھ کئی ایک برائیوں کا سبب ہے اس سے مکمل اجتناب کیا جائے اور آئینہ واش روم کی بجائے باہر آویزاں کیا جائے
دم کروائیں
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا
 «أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَمَرَ أَنْ يُسْتَرْقَى مِنَ العَيْنِ» (بخاري 5738)
 کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا یا ( آپ نے اس طرح بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر معوذتین سے دم کرلیا جائے ۔
 دم توحید پر مبنی ہو
 عوف بن مالک راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ لَا بَأْسَ بِالرُّقٰي مَا لَمْ يَكُنْ فِيْهِ شِرْكٌ ] [ مسلم، السلام، باب لا بأس بالرقٰی … : ۲۲۰۰ ]
’’دموں میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ وہ شرک نہ ہوں۔‘‘ مشرک صوفیوں اور گدی نشینوں کے بجائے خود ہی مسنون دم کر لیا کریں،
 مولانا وحیدالزماں لکھتے ہیں
 کہ نظر بد والے پر آیت
وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ  ( القلم :51 )
 پڑھ کر پھونکے یہ عمل مجرب ہے۔ شرکیہ دم جھاڑ کرنا قطعاً حرام بلکہ شرک ہے،
کوئی چیز اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کریں
 اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ کوئی چیز اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إذا رأى أحدُكم من نفسِه أو مالِه أو من أخيِه ما يُعجبُه فلْيدعُ له بالبركةِ ، فإنَّ العينَ حقٌّ  (صحيح الجامع : 556 | صحيح)
جب تم میں سے کوئی اپنے نفس، مال یا اپنے بھائی سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے اچھی لگے تو وہ اس کے لیے برکت کی دعا کرے کیونکہ نظر کا لگ جانا برحق ہے
 مثلاً :
[تَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ فِيْهِ ]
یا اپنی مادری زبان میں کہہ دے ’’یا اللہ! اس میں برکت فرما۔‘‘
قرآن مجید سے ثابت ہے کہ کوئی اپنے خوب صورت باغ وغیرہ میں داخل ہو تو یہ کہے :
 « مَا شَآءَ اللّٰهُ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ »  [ الکھف : ۳۹ ]
 اس آیت سے یہی الفاظ اپنی ہر پیاری چیز پر پڑھنے کی ترغیب بھی ملتی ہے، اس سے وہ چیز نظربد سے محفوظ رہے گی۔
گھر سے باہر نکلیں تو دعا ضرور پڑھیں
عموماً جب لوگ اپنے گھروں سے باہر سفر وغیرہ پر نکلتے ہیں تو نہا دھو کر، بن سنور کر، اچھے کپڑے اور خوشبو لگا کر نکلتے ہیں
اور راستے میں کئی طرح کے لوگ ملتے ہیں
لہذا ضروری ہے کہ گھر سے نکلتے ہی وہ دعا پڑھ لی جائے جو ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ-
” جب بندہ اپنے گھر سے نکلے اور یہ کلمات کہہ لے :«بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله» ” اﷲ کے نام سے ، میں اللہ عزوجل پر بھروسا کرتا ہوں ۔ کسی شر اور برائی سے بچنا اور کسی نیکی یا خیر کا حاصل ہونا اﷲ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ “
قَالَ:- يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ (ابو داؤد 5095)
  تو اس وقت اسے یہ کہا جاتا ہے : تجھے ہدایت ملی ، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچا لیا گیا ( ہر بلا سے ) ۔ چنانچہ شیاطین اس سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسرا شیطان اس سے کہتا ہے تیرا داؤ ایسے آدمی پر کیونکر چلے جسے ہدایت دی گئی ، اس کی کفایت کر دی گئی اور اسے بچا لیا گیا ۔ “
کتنا سعادت مند ہے وہ بندہ جو بلا مشقت اللہ تعالیٰ کی امان حاصل کرتا اور شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے
پس لازم ہے کہ ان ازکار سے غفلت نہ برتی جائے۔
صبح و شام کے اذکار اپنی روٹین میں شامل کیے جائیں
نعمت کے زوال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ تھی:
 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ (مسلم 6944)
 "اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری نعمت کے زوال سے، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے، تیری ناگہانی سزا سے اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔”
دم حسنین رضی اللہ عنہما
اپنے بچوں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ دم کریں جو دو عظیم الشان پیغمبر جناب ابراہیم علیہ السلام اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچوں کو کیا کرتے تھے
 ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
  كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ، وَيَقُولُ:   إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ (بخاري 3371)
 کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کے لئے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا ( ابراہیم علیہ السلام ) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اوراسحاق علیہ السلام کے لئے مانگا کرتے تھے “ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہرنقصان پہنچانے والی نظر بد سے ۔
دم جبریل علیہ السلام
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اہلیہ حضرت  عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے،انھوں نے کہا:
 كَانَ إِذَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَاهُ جِبْرِيلُ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ يُبْرِيكَ وَمِنْ كُلِّ دَاءٍ يَشْفِيكَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ كُلِّ ذِي عَيْنٍ (مسلم 5699)
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  بیمار ہوتے تو جبریل علیہ السلام  آپ کو دم کرتے،وہ کہتے:”اللہ کے نام سے،وہ آپ کو بچائے اور ہر بیماری سے شفا دے اور حسد کرنے والے کے شر سے  جب وہ حسد کرے اورنظر لگانے والی ہر آنکھ کے شرسے(آپ کومحفوظ رکھے۔)”
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تیمار داری کے لئے حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اتنی سخت تکلیف تھی کہ اس کی شدت کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، جب میں پچھلے پہر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں حاضر ہوا تو آپ اچھی طرح تندرست ہوچکے تھے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کی: میں صبح کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، اس وقت تو آپ کو اتنی شدید تکلیف تھی کہ بس اللہ ہی جانتا تھا کہ وہ تکلیف کیسی تھی، اب میں آپ کے پاس پچھلے پہر حاضر ہوا ہوں تو آپ صحت یاب ہوچکے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے صامت کے بیٹے! جبریل علیہ السلام نے مجھے دم کیا ہے، یہ ایسا دم تھا کہ میں صحت یاب ہوگیا ہوں، کیا میں تجھے وہ دم سکھا دوں؟ میں نے کہا: جی کیوں نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس دم کی تعلیم دی: بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیکَ، مِنْ حَسَدِ کُلِّ حَاسِدٍ وَعَیْنٍ، بِسْمِ اللّٰہِ یَشْفِیکَ (اللہ کے نام کے ساتھ تجھے ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو تجھے ایذا پہنچائے اور ہرحسد والے کے حسد سے اور ہر آنکھ سے، اس اللہ کے نام کے ساتھ جو تجھے شفاء دیتا ہے۔ )ایک روایت میں ہے: ہر حاسد کے حسدسے اور ہر نظر بد سے اللہ کے نام کے ساتھ دم کرتا ہوں جو تجھے شفاء دیتا ہے۔ (مسند احمد 7715)
معوذتین کے ذریعے
01.ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
 ’’معوذ تین نازل ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں سے اور انسان کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب معوذتین اتریں تو آپ نے ان دونوں کو معمول بنا لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا۔‘‘
 [ ترمذي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في الرقیۃ بالمعوذتین : ۲۰۵۸ ]
ترمذی نے اسے حسن صحیح اور البانی نے صحیح کہا ہے
02.ابن عابس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :
 [ أَلاَ أُخْبِرُكَ بِأَفْضَلِ مَا يَتَعَوَّذُ بِهِ الْمُتَعَوِّذُوْنَ؟ قَالَ بَلٰي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» وَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ » هَاتَيْنِ السُّوْرَتَيْنِ ]  [ نسائي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في سورتي المعوذتین : ۵۴۳۴ ]
 ’’کیا میں تمھیں سب سے بہتر وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ پناہ پکڑنے والے پناہ پکڑتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘ اور ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ یہ دو سورتیں۔‘‘
مادی طریقہ علاج
وضو اور غسل
یہ نظرِ بد کا انتہائی مؤثر علاج ہے
اس حوالے سے نظر بد کی دو صورتیں ہیں
01.یا تو نظر لگانے والا یقینی یا ظن غالب کے طور پر معلوم ہے
02.یا پھر معلوم نہیں ہے
اگر تو کسی کے متعلق یقین یا غالب توقّع ہو کہ اسی کی نظرِ بد لگی ہے تو اُسے غسل [یا کم از کم وضوء ]کرنے کا کہیں اور اسکاوہ پانی جس سے اُس نے غسل یا وضوء کیا ہو، وہ گرنے اور بہنے نہ دیں بلکہ کسی ٹب و غیرہ میں محفوظ کرلیں اور وہ مریض کے پیچھے سے اسکے سر پر ڈال دیں گویا کہ وہ اس پانی سے تر ہوجائے ۔ ایسا کرنے سے نظرِ بد بِاِذْنِ اللّٰہِ جاتی رہے گی
جیسا کہ صحیح مسلم کی میں موجود ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کی کہ آ پ نے فرمایا:
 الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا (مسلم 5702)
 "نظر حق(ثابت شدہ بات) ہے ،اگر کوئی ایسی چیز ہوتی جو  تقدیر پر سبقت لے جاسکتی تو نظرسبقت لے جاتی۔اور جب(نظر بد کے علاج کےلیے) تم سے غسل کرنے کے لئے کہا جائے تو غسل کرلو۔”
سہل رضی اللہ عنہ کا واقعہ
ابن ماجہ 3509 میں ہے کہ { سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی پر تمہارا شک بھی ہے ؟ “ لوگوں نے کہا ، ہاں ، عامر بن ربیعہ پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہیئے کہ اس کے لیے برکت کی دعا کرے “ } ۔
 پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا : ” تم وضو کرو ، منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمبد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو “ } ۔   دوسری روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو “
(سنن نسائی:7617،قال الشیخ الألبانی:صحیح)
 ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا بیان کرتی ہیں کہ
 كَانَ يُؤْمَرُ الْعَائِنُ فَيَتَوَضَّأُ ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ الْمَعِينُ (ابو داؤد 3880)
 جس شخص کی نظر لگتی اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وضو کر کے ( وضو کا پانی ) دے ‘ پھر اس سے بیمار کو ( جسے نظر لگی ہو ) غسل کرایا جاتا تھا
 یا کم از کم اس کا چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں کہنیاں، دونوں گھٹنے، پیروں کی انگلیاں اور تہ بند کے اندر کا حصہ کسی برتن میں دھو کر وہ پانی مریض پر ڈالا جائے (تو وہ تندرست ہو جائے گا)۔
[ الموطأ، العین، باب الوضوء من العین : ۲ ]
اگر نظر لگانے والا معلوم نہ ہو
بعض علماء کرام و حکماء نے تجربات سے کہا ہے کہ
اگر نظر لگانے والے کا علم نہ ہو تو پھر اپنے ہی کسی نیک، متقی فیملی ممبر سے وضو یا غسل وغیرہ کروایا جائے اور وہ پانی جسے نظر لگی ہو اس پر بہا دیا جائے
اسی طرح
عجوہ کھجور ، حجامہ ،شہد، زیتون، کلونجی، پاک مٹی، اور بارش کا پانی بھی بہت مؤثر ہیں
نظر بد سے متعلق چند غلط رسومات
پاؤں کی مٹی اٹھا کر معین پر پھینکنا
بعض لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کی نظر بد لگنے کا خدشہ ہو تو چلتے ہوئے جہاں وہ پاؤں رکھے وہاں سے کچھ مٹی اٹھا کر جسے نظر لگنے کا خدشہ ہے اس پر پھینک دیں تو نظر بد سے بچا جا سکتا ہے
یہ محض ایک وہم اور رسم ہے جس سے بچنا ہی بہتر ہے
جلنے والے کا منہ کالا
یہ جملہ بھی محض ایک وہم اور رسم ہے جس کا نظر بد کے علاج سے کوئی تعلق نہیں ہے
بلکہ اخلاقی طور پر بھی ایسے جملے کی کوئی گنجائش نہیں ہے
گاڑی یا مکان وغیرہ پر جوتا، کالا کپڑا، یا پراندہ لٹکانا
یا الٹی ہنڈیا مکان کی چھت پر رکھنا
بعض لوگ یہ سب کام نظر بد سے بچنے کے لیے کرتے ہیں جبکہ یہ بھی محض ایک خیال اور وہم ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے
 آنکھ کی شکل کا بنا ہوا گونگایا شرکیہ کلمات پر مشتمل تعویذ لٹکانا
 بعض لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں انسانی آنکھ کی شکل میں بنے ہوئے گھونگھے لٹکائے ہوتے ہیں تاکہ ان کی گاڑی نظر بد یا کسی بھی ناگہانی آفت سے محفوظ رہے
یہ تو قطعاً حرام اور ناجائز ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے
 سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا
 إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ (ابو داؤد 3883)
 ” دم جھاڑ ‘ گنڈے منکے اور جادو کی چیزیں یا تحریریں شرک ہیں ۔ “
تمائم سے مراد وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظرِبد سے  بچانے کے لیئے پہناتے تھے تممیہ اور تمائم کہلاتے تھے اس میں وہ کوڑیاں ،منکے،پتھر،لوہا ،چھلے،انگوٹھیاں،لکڑی اور دھاگےوغیرہ سب چیزیں شامل ہیں جو  جاہل لوگ بغرضِ علاج پہنتے پہناتے تھے۔ اس میں وہ تعویز بھی آتے ہیں جو کفریہ،شر کیہ اور غیر شرعی تحریروں پر مشتمل ہوں
التِّوَلَةَ  سے مراد محبت کے ٹوٹکے ،تعویز اور گنڈے جادو کی قسم ہے
قرآنی تعویذ لٹکانا
اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم یا دُعائیں لکھ کر لٹکانارسول اللہ ﷺسے کسی طرح ثابت نہیں حالانکہ اس دور  میں کاغذ ،قلم،سیاہی اور کاتب سبھی مہیا تھےاور مریض بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتے تھےمگر آپنے کبھی کسی کو یہ طریقہ علاج ارشاد نہیں فرمایا۔آپﷺ نے اُنھیں دم کیا  یا مختلف اذکار بتائےیا کو ئی مادی علاج تجویز فرمادیا۔آیات یا دُعائوں کو بطور تعویز لٹکانابعد کی بات اور اختلافی مسئلہ ہے۔ علمائے سنت کا ایک گروہ اسکا قائل و فاعل رہا ہےاور دوسرا انکاری
  علمائے راسخین کی اور ہماری ترجیح یہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔مگر کلام اللہ یا مسنون دُعائوں کو تمیمہ جیسا برا نام دینا بڑا ظلم ہے۔
بحوالہ مکتبہ شاملہ اردو
واجب یہ ہے کہ
ہر مسلمان ایمان و یقین کے ساتھ مسنون اعمال اختیار کرےاور یقین رکھے کہ جلد یا بدیر شفاء ہو جائے گی۔اگر نہ ہو تو دقت نظر سے اپنا جائزہ لےکہ دُعا قبول نہ ہونے کا کیا سبب ہےاورپھر صبر سے بھی کام لےاور اللہ کے ہاں اجر اور رفع درجات کا اُمید وار رہے۔