’نفاق‘ اور منافق کی نشانیاں

اہم عناصرِ خطبہ :

01.نفاق کسے کہتے ہیں ؟

02. نفاق کی اقسام

03.  نفاق کا ڈر اور خوف

04.  خطرناک ٹولہ !

05.  منافق کی نشانیاں

06. منافق کا انجام

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ایک خطرناک گروہ کے متعلق گفتگو کریں گے ( إن شاء اللہ ) یہ وہ گروہ ہے کہ جو مسلمانوں کیلئے یہود ونصاری سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اور وہ ہے منافقین کا گروہ ۔ اِس گروہ کے متعلق کچھ ذکر کرنے سے قبل ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ نفاق کسے کہتے ہیں اور ا س کی کتنی قسمیں ہیں ؟

’نفاق ‘ عربی زبان میں نَافَقَ کا مصدر ہے  ۔کہا جاتا ہے : نَافَقَ یُنَافِقُ نِفَاقًا وَمُنَافَقَۃً۔جس کا معنی ہے چھپانا اور حقیقت پہ پردہ ڈالنا ۔اور منافق کو ’ منافق ‘ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔

 اور ’ نفاق‘ نَافِقَاء سے ماخوذ ہے جو ’یربوع‘ یعنی ایک قسم کے جنگلی چوہے کے بل سے نکلنے کے راستے کو کہتے ہیں ، کیونکہ بل میں داخل ہونے کیلئے اس کا راستہ الگ ہوتا ہے اور خطرے کے وقت اس سے نکلنے کا راستہ دوسرا ہوتا ہے ۔اور وہ نکلنے کے راستے پر پردہ ڈالے رکھتا ہے جس کا باہر سے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ جب اسے بل کے ایک سوراخ سے تلاش کیا جاتا ہے تو وہ دوسرے خفیہ سوراخ سے بھاگ نکلتا ہے ۔ اسے ’نفاق ‘اس لئے کہا گیا ہے کہ منافق اسلام میں ایک راستے سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے راستے سے نکل جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’نفاق‘  نَفَق سے مشتق ہے جس کا معنی ہے سرنگ، یا وہ سوراخ  جس میں چھپنے والا چھپ جاتا ہے ۔ [ النھایۃ لإبن الأثیر : ۵/۹۸]

اور شرعی اصطلاح میں ’نفاق ‘ کا معنی ہے : اسلام کو ظاہر کرنا اور کفر کو دل میں چھپانا۔ یا خیر کو ظاہر کرنا اور شرکو چھپانا ۔ اور چونکہ منافق اسلام کو ظاہر کرتا اور کفر کو دل میں چھپاتا ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا :

﴿ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ﴾      [ التوبۃ : ۶۷]

’’بے شک منافق ہی فاسق لوگ ہیں۔ ‘‘

فاسقوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو دائرہ شریعت سے خارج ہیں ۔

اور’نفاق ‘کی دو قسمیں ہیں :

پہلی قسم :اعتقادی نفاق ، جس کو نفاقِ اکبر بھی کہتے ہیں ۔ اس میں ایک منافق اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے لیکن اپنے اند کفر چھپائے رکھتا ہے ۔ اس قسم کے نفاق سے آدمی مکمل طور پر دین سے خارج ہوجاتا ہے اور جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اِس طرح کے منافق ہر زمانے میں رہے ہیں ، خاص طور پر اس وقت جب اسلام کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے اور یہ لوگ اس کا کھل کرمقابلہ نہیں کر سکتے تو یہ اسلام میں داخل ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں ۔ پھر یہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی جان ، عصمت اور اپنے مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور درپردہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اعتقادی نفاق کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں مثلا :

01. رسول اﷲ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو جھٹلانا ۔ یا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی ہوئی شریعت کے بعض حصے کو جھٹلانا ۔

02. رسول اﷲ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے دلی دشمنی رکھنا ۔ یاآپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی ہوئی شریعت کے بعض حصے سے بغض رکھنا ۔

03. امت مسلمہ کے زوال پر خوش ہونا۔یا اس کے بر عکس جب دینِ اسلام کو دیگر ادیان پر غلبہ حاصل ہو اور مسلمان کافروں پر فتح حاصل کریں تو اس پر رنج والم میں مبتلا ہونا ۔

دوسری قسم۔ عملی نفاق ، جس کو نفاق اصغر بھی کہتے ہیں ۔ اس سے مراد ہے : دل میں ایمان باقی رکھنالیکن اس کے ساتھ ساتھ منافقوں کے اعمال میں سے کسی عمل کا ارتکاب کرنا یا ان کی صفات میں سے کسی صفت کو اختیار کرنا ۔ مثلا بات بات میں جھوٹ بولنا  ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا وغیرہ ۔ اِس نفاق سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔ اُس میں کچھ اچھی اور کچھ بری خصلتیں ہوتی ہیں ، کچھ ایمانی خصلتیں ہوتی ہیں اور کچھ کفر اور نفاق کی عادتیں ہوتی ہیں ۔ اور وہ اپنے اچھے اور برے عمل کے اعتبار سے ثواب یا عقاب کا مستحق ہوتا ہے ۔

نفاقِ اکبر اور نفاقِ اصغر کے درمیان فرق :

01.نفاقِ اکبرسے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، جبکہ نفاقِ اصغر سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

02. نفاقِ اکبر ایک سچے مومن سے صادر نہیں ہوسکتا ، جب کہ مومن سے نفاقِ اصغر کا صادر ہونا ممکن ہے ۔

03. نفاقِ اکبر کا مرتکب اگر اسی حالت میں مر جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے ۔ جبکہ نفاقِ اصغر کا مرتکب اگر بغیر توبہ کے مر جائے تو قیامت کے روز اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ جیسے چاہے گا فیصلہ فرمائے گا ۔ہو سکتا ہے کہ اسے عقیدۂ توحید کی بناء پر اپنے فضل وکرم سے معاف کرکے جنت میں داخل کردے اور ہو سکتا ہے کہ اسے پہلے جہنم میں داخل کرکے اس کو اس کے گناہوں کی سزا دے ؛ پھر اسے جنت میں داخل کرے ۔

عزیز بھائیو !

’نفاق ‘ نہایت ہی خطرناک مرض ہے ۔ جو لوگ اِس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کے مرض میں اور اضافہ کردیتا ہے ۔ اس کا فرمان ہے :﴿ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ﴾    [ البقرۃ :۱۰]

’’ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اﷲ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا اور جو وہ جھوٹ بک رہے ہیں اس کے عوض ان کو قیامت کے دن دردناک عذاب ملے گا ۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نفاق سے بہت زیادہ ڈرتے رہتے تھے۔

ابن ابی ملیکۃ کہتے ہیں : ( أَدْرَکْتُ ثَلَاثِیْنَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ  صلی اللہ علیہ وسلم  کُلُّہُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلٰی نَفْسِہِ ) [ البخاری ۔ کتاب الإیمان باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر ]

’’ میں نے تیس صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو پایا جن میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا خوف تھا ۔ ‘‘

اور حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  جناب حذیفۃ بن الیمان  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرا نام منافقوں میں لیا تھا ؟ یہ کون ہیں ؟ عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  !  جوجس راستے پر چلتے تھے تو شیطان بھی اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جاتا تھااور جنھیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خصوصی طور پر دعا کرکے اللہ تعالی سے طلب کیا تھا اور جنھیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نام لے کر جنت کی بشارت سنائی تھی  ، وہ  اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا نام منافقوں میں تونہیں لیا تھا !

اگر ان صحابۂ کرام کو اپنے اوپرنفاق کا اِس قدر خوف تھا  تو ہمیں تو اور زیادہ ڈرنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر منافقت تو نہیں ہے !

 اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منافقوں کا پردہ فاش کیا ہے ، انکے بھیدوں کو طشت از بام کیا ہے اور اپنے بندوں کو ان کے متعلق آگاہ کردیا ہے تاکہ وہ نفاق اور منافقوں سے  بچے رہیں ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک مکمل سورت ان کے متعلق نازل کردی جس کانام ہے سورۃ المنافقون ۔ اسی سورت میں اللہ تعالی نے منافقوں کو مومنوں کا اصل دشمن قرار دیا اور فرمایا :

﴿ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ ﴾   [ المنافقون : ۴]

’’یہی دشمن ہیں ، ان سے ہوشیار رہئے ۔ ‘‘

 اس کے علاوہ اس نے سورۂ بقرۃ کے شروع میں لوگوں کے تین گروہ یعنی مومنین ، کفار اور منافقین کا تذکرہ کیا ہے۔ مومنوں کا تذکرہ چار آیتوں میں اور کافروں کا دو آیتوں میں کیا ۔ جبکہ منافقوں کا تذکرہ پورے ایک رکوع میں میں کیا جس میں تیرہ آیات ہیں۔ بھلے لوگو !  ذرا سوچو اللہ تعالی نے ایسا کیوں کیا ؟

اس نے ایسا اس لئے کیا کہ منافقوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگوں میں ان کے نفاق کے پھیلنے کا شدید اندیشہ تھا اور وہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے ایک عظیم فتنہ ثابت ہوسکتے تھے ۔ اس لئے اس نے ان کے متعلق تفصیل سے آگاہ کردیا ۔

اور اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان منافقوں کی  دسیسہ کاریوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑے بڑے مصائب جھیلنا پڑے ، ان کی سازشوں کی وجہ سے مسلمانوں کو متعدد مرتبہ شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ کیونکہ یہ لوگ اسلام کے سخت ترین دشمن ہونے کے باوجود مسلمان کہلائے جاتے تھے اور اسلام کے مددگار و حامی سمجھے جاتے تھے لیکن انھوں نے اسلام اور مسلمانوں سے اپنی دشمنی اور بغض کی بناء پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہیں کیا ۔یہ لوگ ہر دور میں اپنی چالوں اور سازشوں کے ذریعے میں عالم اسلام میں فتنے بپا کرتے رہے ہیں ۔ اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ کفی اللہ المسلمین شرہم ۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے ۔

منافق کی نشانیاں

سامعین کرام ! ویسے تو منافق کی نشانیاں بہت زیادہ ہیں ، لیکن ہم یہاں چند اہم نشانیاں ذکر کرتے ہیں۔

01. جھوٹ بولنا

منافقوں کی بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی زبان پر سچ کم ہی آتا ہے ۔ ان کے جھوٹا ہونے کی شہادت خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مرتبہ دی ہے ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اِِذَا جَآئَکَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ ﴾  [ المنافقون :۱]

’’ جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں ۔ اور اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ منافق سراسر جھوٹے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہٗ کَمَا یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْئٍ اَلَآ اِِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ﴾  [ المجادلۃ : ۱۸]

’’ جس دن اللہ ان سب ( منافقوں )کو اٹھائے گا تو اس کے سامنے بھی ایسے ہی قسمیں کھائیں گے جیسے تمھارے سامنے کھاتے ہیں اور یہ سمجھیں گے کہ ان کا کام بن جائے گا ۔ خبردار ! یہی جھوٹے لوگ ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :  ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤمِنِیْنَ﴾  [ البقرۃ : ۸]

’’ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ’ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ‘ حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ۔ ‘‘

02. مکرو فریب کرنا اور دھوکہ دینا

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ مکروفریب اور دھوکہ بازی کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ اللہ تعالی کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ وہ ایسا کر نہیں کرسکتے ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ٭ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۹۔۱۰]

’’یہ لوگ اﷲ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔حالانکہ ( یہ لوگ ) اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے ہیں ۔ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اﷲ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا۔ اور جھوٹے ایمان کا اظہار کرنے کی وجہ سے ان کو قیامت کے دن دردناک عذاب ملے گا  ۔ ‘‘

03. بزعم اصلاح زمین میں فساد پھیلانا

منافقوں کی ایک اور بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ’ اصلاح ‘ کا دعوی کرتے ہوئے فساد بپا کرتے ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :  ﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ٭اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لَکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ  ﴾  [ البقرۃ : ۱۱۔۱۲]

’’اور جب انھیں کہا جائے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں  ! خوب سن لو ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر وہ ( یہ بات ) سمجھتے نہیں ۔ ‘‘

ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے کے منافقوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ زمین میں فساد بپا کرتے تھے اور جب انھیں اس سے منع کیا جاتا تھا تووہ کہتے تھے کہ ہم ہی تو ہیں اصلاح کرنے والے !

نہایت افسوس ہے کہ اِس طرح کے منافق آج بھی موجود ہیں جو ’اصلاح ‘کا دعوی کرتے ہوئے زمین میں فساد پھیلا رہے ہیں ۔ مثلا جعلی پیر ، نجومی ، عامل اور جادو گر ! جو سادہ لوح عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور معاشرے میں اِس قدر فساد بپا کر رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ !  ان لوگوں کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر مشکل دور کرتے ہیں ، ہر مسئلے کا حل بتاتے ہیں اور ہر پریشانی کا علاج کرتے ہیں وغیرہ !!! جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ معاشرے میں مسلمانوں کی مشکلات اوران کی پریشانیوں میں اور اضافہ کرتے ہیں ۔ ان کے مسائل کو اور زیادہ الجھاتے ہیں ۔ چنانچہ انہی لوگوں کی وجہ سے :

٭ کئی گھر اجڑ گئے !

٭ کئی خاندان برباد ہو گئے !

٭ کئی لوگوں کی عزتیں لٹ گئیں !

٭ کئی پاکباز خواتین ان کی نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئیں !

٭ اور کئی کھاتے پیتے لوگ دیوالیہ ہو گئے !

حقیقت یہ ہے کہ یہ اِس دور کے بہت بڑے منافق ہیں جنھوں نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے ۔

ان لوگوں کے ’ ریپ ‘ کے واقعات اکثر وبیشتر میڈیا میں آتے رہتے ہیں ، لیکن پھر بھی لوگ ان کے پاس جانے سے باز نہیں آتے ، حالانکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ ( مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَيْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً )  [ مسلم : ۲۲۳۰]

’’ جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے ، پھر اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے تو اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں کی جاتیں ۔ ‘‘

عزیز بھائیو ! ذرا سوچو ! ان بد بختوں کے پاس جا کر کسی چیز کے بارے میں صرف سوال کرنے کی وجہ سے چالیس راتوں کی نمازیں رد کردی جاتی ہیں !  اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس جانا کتنا بڑا گناہ ہے ! اور جہاں تک ان کے پاس جا کر ان کی باتوں کی تصدیق کرنے کا تعلق ہے تو وہ کفر ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

(مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْ کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ   صلي الله عليه وسلم  )  [ صحیح الجامع للألبانی : ۵۹۳۹]

  ’’ جو شخص کسی کاہن ( علمِ غیب کا دعویٰ کرنے والے کسی عامل ) کے پاس جائے ، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر اتارے گئے دینِ الٰہی سے کفر کیا ۔ ‘‘

04. صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو برا بھلا کہنا

منافقوں کی ایک اور بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ ان شخصیات کو برا بھلا کہتے ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ کا دین پوری دنیا تک پہنچا ۔ جن کے ذریعے ہمارے نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعت آپ کی امت تک پہنچی ۔ جن کے ذریعے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک ایک سنت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک ایک ارشاد محفوظ ہوا ۔ یہ منافق ان حضرات کو گالی گلوچ کرتے ہیں کہ جن کو اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ساتھ دینے کیلئے منتخب فرمایا ، جن سے اللہ تعالی نے راضی ہونے کا اعلان کیا اور جن سے ہمیشہ رہنے والی جنتوں کا وعدہ کیا ۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالی منافقوں کی یہ نشانی ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :  ﴿  وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۳ ]

’’ اور جب انھیں کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں : کیا ہم ایمان لائیں جیسے احمق لوگ ایمان لائے ہیں ! خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ احمق ہیں مگر وہ ( یہ بات ) جانتے نہیں ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ میں ( الناس ) سے مراد صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  ہیں جو اِس آیت کے نزول کے وقت ایمان لا چکے تھے ۔ اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو بر ابھلا کہتے ہیں !  اور ساتھ ہی آگاہ کیا ہے کہ جو لوگ ان حضرات کو برا بھلا کہتے ہیں ، درحقیقت وہی احمق اور بے وقوف ہیں ۔

بڑے ہی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ انہی منافقوں کے طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے اِس دور میں بھی بعض وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ،ان صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو گالی گلوچ کرتے اور انھیں برا بھلا کہتے ہیں ۔ بالکل اُسی طرح جیسا کہ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کے دور میں منافق ان پر تہمتیں لگاتے تھے آج بھی کئی لوگ ان شاگردانِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر

تہمتیں لگاتے ہیں ۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  پر منافقوں نے ہی بہتان باندھا تھا اور آج بھی انہی جیسے منافق لوگ اِس پاکباز خاتون ، مومنوں کی ماں  صدیقہ ، طاہرہ  رضی اللہ عنہا  پر تبرا بازی کرتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن مجیدمیں ان کی براء ت کا اعلان ہو چکا ، لیکن پھر بھی ان لوگوں کا بہتان بازی سے باز نہ آنا یقینا قرآن مجید کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔

05. غداری کرنا

منافقوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی سے عہد کرنے کے بعد غداری کرتے ہیں اور اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ٭ فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ٭ فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن ﴾ [ التوبۃ : ۷۵۔ ۷۷]

’’ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں اپنی مہربانی سے ( مال ودولت) عطا کرے گا تو ہم ضرورصدقہ کریں گے اور نیک بندے بن جائیں گے ۔ پھر جب اللہ نے اپنی مہربانی سے انھیں مال عطا کردیا تو بخل کرنے لگے اور کمال بے اعتنائی سے ( اپنے عہد سے ) پھر گئے ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں اس دن تک کیلئے نفاق ڈال دیا جس دن وہ اس سے ملیں گے کیونکہ انھوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی اور اس لئے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے ۔ ‘‘

06. کفار ا ور یہود سے دوستانہ تعلقات قائم کرکے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا

منافقوں کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ یہود ونصاری اور دیگر کفار سے دوستانہ تعلقات قائم کرکے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ٭ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤمِنِیْنَ اَیَیْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ﴾ [ النساء : ۱۳۸ ۔ ۱۳۹]

’’منافقوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ ان کیلئے درد ناک عذاب ہو گا ، جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ کافروں کے ہاں عزت چاہتے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری اللہ ہی کیلئے ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اَلَمْ تَرَ اِِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلاَ مِنْہُمْ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ [ المجادلۃ : ۱۴]

’’ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں ایسے لوگوں سے دوستی لگائی جن پر اللہ کا غضب ہوا ۔ نہ تو وہ تم میں سے اور نہ ہی ان میں سے ہیں ۔ اور وہ جان بوجھ کر جھوٹ پر قسم کھاتے ہیں ۔‘‘

اللہ کا غضب کن لوگوں پر ہوا ؟ یہود پر ۔ تو منافق لوگ یہودِ مدینہ سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور انہی کے ساتھ اظہار ہمدردی بھی کرتے تھے ، لیکن عملی طور ان کی حالت یہ ہوگئی کہ ﴿ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلاَ مِنْہُمْ﴾ یعنی ’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ۔ ‘‘

منافقوں کے اِس طرز عمل پر اللہ تعالی انھیں شدید اور رسوا کن عذاب کی وعید سناتے ہوئے فرماتا ہے :

﴿ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا اِِنَّہُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ٭ اتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ﴾  [ المجادلۃ : ۱۵۔ ۱۶]

’’ اللہ نے ان کیلئے شدید عذاب تیار کیا ہے ۔ بلا شبہ جو یہ کر رہے ہیں بہت برا ہے ۔ انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے ۔ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔ لہذا ان کیلئے رسوا کن عذاب ہو گا ۔ ‘‘

اللہ تعالی مزید فرماتا ہے : ﴿لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلاَدُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾ [ المجادلۃ : ۱۷]

’’ اللہ کے ہاں نہ ان کے مال کچھ کام آئیں گے اور نہ اولاد ۔ یہی لوگ اہلِ جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘

اس کے بعد اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ’شیطان کی پارٹی ‘ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :

﴿ اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰہُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ﴾ [ المجادلۃ : ۱۹]

’’ شیطان ان پر مسلط ہو گیا ہے جس نے انھیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے ۔ یہی لوگ شیطان کی پارٹی ہیں ۔ سن لو ! شیطان کی پارٹی کے لوگ ہی خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔ ‘‘

اِس سے ثابت ہواکہ یہودیوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے منافق لوگ ’شیطانی ٹولہ ‘ہیں ۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں ، مگر اِس کے ساتھ ساتھ وہ یہود ونصاری کو اپنا دوست بناتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالی اہلِ ایمان کو اِس سے منع کرتے ہوئے فرماتا ہے :

﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [ المائدۃ : ۵۱]

’’ اے ایمان والو ! یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ ۔ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا تو وہ یقینا انہی میں سے ہوگا ۔ بے شک اللہ ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ‘‘

یہ منافق یہود ونصاری کو نہ صرف دوست بناتے ہیں بلکہ ان کے ’مفادات ‘کیلئے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو وہ ہم پر حملہ کردیں گے اور ہمیں تباہ وبرباد کردیں گے ! اِن منافقوں کی یہ حجت بالکل وہی حجت ہے جو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور کے منافق پیش کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالی ان لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿ فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ ﴾  [ المائدۃ : ۵۲]

’’آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے وہ انہی ( یہود ونصاری ) میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں ۔ ‘‘

یہ جو ایک دوسرے کے دوست ہیں ، منافقین اور یہود  ! اللہ تعالی ان دونوں گروہوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے انھیں یوں وعید سناتا ہے :

﴿  لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا ٭ مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا﴾ [ الأحزاب :۶۰۔۶۱]

’’ اگر منافق لوگ اور وہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینہ میں دہشت انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں ، اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھا کھڑا کریں گے ، پھر وہ تھوڑی ہی مدت آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے ۔ ان پر اللہ کی پھٹکار برسے گی ۔ یہ جہاں کہیں بھی ہونگے پکڑ لئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے ۔ ‘‘

ان آیات میں ﴿وَ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ  ﴾ سے مراد بنو قریظہ ہیں جو مدینہ منورہ میں بے بنیاد خبریں پھیلا کر اہلِ مدینہ کو پریشان کرنے کی مذموم کوشش کرتے تھے ۔ اللہ تعالی نے انھیں اور ان جیسے منافقوں کو کہ جن کی ریشہ دوانیوں سے مسلمانانِ مدینہ تنگ آ چکے تھے ، شدید دھمکی دی کہ اگر یہ سب ایذا رسانی سے باز نہیں آتے تو اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ! ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا حکم دیں گے ۔ پھر ان پر اللہ کی پھٹکار پڑے گی اور یہ جہاں کہیں ملیں گے انھیں پکڑ کر بری طرح سے قتل کردیا جائے گا ۔

07. اللہ کے قوانین کو نافذ نہ کرنا اور خود ساختہ قوانین پر عمل کرنا

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی شریعت اور اس کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق نہ خود  فیصلے کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو ایسا کرنے دیتے ہیں ۔ بلکہ ان کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی ہے کہ  وہ شرعی قوانین سے انحراف کرکے خود ساختہ قوانین کو نافذکرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ اور ایسے لوگ اِس دور میں بھی بکثرت موجود ہیں ۔

اللہ تعالی ایسے ہی منافقوں کے متعلق ارشاد فر ماتا ہے :

﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا ٭ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا ﴾  [ النساء :۶۰ ۔ ۶۱ ]

’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کی طرف اتارا گیا وہ اس پر ایمان لائے ہیں اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتارا گیا ، مگر یہ چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ ’ طاغوت ‘ کے پاس لے جائیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ ’ طاغوت ‘ کے فیصلے تسلیم نہ کریں ۔ اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ انھیں گمراہ کرکے بہت دور تک لے جائے ۔ اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کی ہے اور رسول کی طرف آؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں ۔ ‘‘

08. نماز کی طرف آنے میں سستی کرنا اور ریا کاری کرنا

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ نمازوں میں سستی کرتے  ہیں ۔ اور جب نماز پڑھتے ہیں تو صرف لوگوں کو دکھلانے کی خاطر نماز پڑھتے ہیں ۔ اور س میں اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی ان کی یہ نشانی یوں بیان فرماتا ہے :﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَاؤُنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً ﴾ [ النساء : ۱۴۲]

  ’’ یہ منافق اللہ سے دھوکہ بازی کرتے ہیں ، جبکہ اللہ ہی انھیں دھوکے کا ( بدلہ دینے والا ) ہے۔ او رجب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھلانے کیلئے ( نماز ادا کرتے ہیں ) اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ھُمْ کُسَالٰی﴾   [ التوبۃ :۵۴]

’’اور نماز کو نہایت سستی کی حالت میں ہی آتے ہیں ۔ ‘‘

منافقوں پر خاص طور پر دو نمازیں انتہائی بھاری ہوتی ہیں ۔ نمازِ عشاء اور نمازِ فجر ۔

  حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ صَلَاۃُ الْعِشَائِ وَصَلَاۃُ الْفَجْرِ ، وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا ۔۔ )   [ البخاری : ۶۴۴ ، مسلم : ۶۵۱]

’’ بے شک منافقوں پر سب سے بھاری نماز ‘ نمازِ عشاء اور نمازِ فجر ہے۔ اور اگر انھیں معلوم ہو جاتا کہ ان دونوں میں کتنا اجر ہے تو وہ گھٹنوں کے بل چل کر بھی یہ نمازیں ادا کرنے کیلئے ضرور حاضر ہوتے ۔۔۔ ‘‘

اسی طرح وہ شخص جو عصر کی نماز کو اتنا لیٹ کردے کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو جائے تو اسے بھی رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے منافق کہا ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے 🙁 تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِ یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی إِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَی الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرَہَا أَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْہَا إِلَّا قَلِیْلًا )  [ مسلم : ۶۲۲ ]

’’ وہ منافق کی نماز ہے کہ وہ سورج کی تاک لگائے بیٹھا رہے ، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان پہنچ جائے ( یعنی غروب ہونے کے قریب ہو ) تو کھڑا ہو جائے ، پھر عصر کی چار ٹھونگیں جلدی جلدی مارلے اور ان میں اللہ کا ذکر کم ہی کرے ۔ ‘‘

09. مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے سے پیچھے رہنا

منافقوں کی ایک اور بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرنے کیلئے مساجد میں حاضر نہیں ہوتے اور اکثر وبیشتر اس سے پیچھے رہتے ہیں ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں:

(وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُومُ النِّفَاقِ ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤْتٰی بِہِ یُہَادَی بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتّٰی یُقَامَ فِی الصَّفِّ)  [ رواہ مسلم : ۶۵۴]

 ’’اور ہم ( نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں ) دیکھتے تھے کہ باجماعت نماز سے صرف وہ منافق پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا ۔ اور ایک شخص کو مسجد میں باجماعت نماز کیلئے اس حالت میں لایا جاتا تھا کہ اس نے  دو آدمیوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا لیا ہوا ہوتا ، یہاں تک کہ اسے صف میں لا کھڑا کیا جاتا ۔ ‘‘

10. برائی کا حکم دینا اور نیکی سے منع کرنا

اہلِ ایمان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔ جبکہ منافق اِس کے برعکس نیکی سے منع کرتے ہیں اور برائی کا حکم دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کی یہ صفت یوں بیان کرتا ہے :

﴿  اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۶۷]

’’ منافق مرد ہوں یاعورتیں ، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ، برے کام کا حکم دیتے ہیں اور بھلے کام سے روکتے ہیں ۔ اور اپنے ہاتھ ( صدقہ وغیرہ سے ) بھینچ لیتے ہیں ۔ اور اللہ کو بھول گئے تو اس نے بھی انھیں بھلا دیا ۔ یہ منافق در اصل ہیں ہی نافرمان ۔ ‘‘

اِس آیت سے منافقوں کی ایک نشانی یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالی ان کے متعلق فرماتا ہے :

﴿  وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ ھُمْ کٰرِھُوْنَ ﴾  [ التوبۃ :۵۴]

 ’’ اور خرچ کرتے ہیں تو مجبورا ہی کرتے ہیں ۔ ‘‘

11. مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت پیدا کرنا اوراختلافات کو ہوا دینا

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا اتفاق واتحاد قطعا پسند نہیں کرتے اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مابین اختلافات اور نزاعی امور کو ہوا دے کر انھیں فرقوں میں تقسیم کریں ۔ خاص طور پر مساجد کے ذریعے ان میں تفر قہ ڈالیں ۔ منافقین ِ مدینہ منورہ کی اِس صفت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے :

﴿ وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ [ التوبۃ :۱۰۷]

’’ کچھ اور ہیں جنھوں نے مسجد بنائی اس غرض سے کہ وہ ( دعوت حق کو ) نقصان پہنچائیں ، کفر پھیلائیں ، مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور یہ اُن لوگوں کیلئے کمین گاہ بنے جو اس سے قبل اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے برسر پیکار رہے ہیں ۔ اور وہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ بھلائی کے سوا کچھ نہیں ۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ یقینا جھوٹے ہیں ۔ ‘‘

یہ آیت کریمہ ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خاطر ایک مسجد بنائی ، ان کا پروگرام یہ تھا کہ وہ اس مسجد کو اپنے اڈے اور کمین گاہ کے طور پر استعمال کریں گے ۔ اِس کے علاوہ وہ اس کے ذریعے مسلمانوں میں تفرقہ بھی ڈالیں گے ۔ انھوں نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دعوت دی کہ آپ تشریف لائیں اور اس میں دو رکعت نماز ادا کریں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت تبوک کو روانہ ہو رہے تھے ۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں واپسی پر یہاں نماز پڑھوں گا ۔ پھر جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  واپس لوٹ رہے تھے تو وحی کے ذریعے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اِس مسجد کی حقیقت سے آگاہ کردیا گیا ۔ اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس میں نماز ادا نہ کی بلکہ اسے گرانے کا حکم دے دیا ۔

نہایت افسو س کی بات ہے کہ اِس دور میں بھی بہت سارے لوگ مساجد کو مسلمانوں کے اتفاق واتحاد کا ذریعہ بنانے کی بجائے انھیں فرقہ واریت کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ مسجد کے منبر ومحراب کو اپنے ان نظریات کی نشرو اشاعت کا ذریعہ بناتے ہیں کہ جو قرآن وحدیث کے سراسر خلاف ہیں ۔ اسی سے فرقے بنتے ہیں اور مسلمان گروہی تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں ۔

12. حقائق کو مسخ کرنا اور افواہیں پھیلانا

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اصل حقائق کو مسخ کرکے جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے اور بے بنیاد افواہیں پھیلاتے ہیں جس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان پریشان ہوں اور انھیں چین وسکون نصیب نہ ہو ۔ اِس کی سب سے بڑی دلیل واقعۂ افک ہے جس کے ذریعے منافقوں نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے خلاف زہر افشانی کی  اور ان  پر بدکاری کا بہتان باندھا  ۔

حالانکہ واقعہ صرف اتنا تھا کہ غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر مدینہ منورہ کے قریب جب لشکر نے پڑاؤ کرنے کے بعد کوچ کیا تو اُس وقت عائشہ  رضی اللہ عنہا  قضائے حاجت کیلئے گئی ہوئی تھیں ۔ چونکہ آپ دبلی پتلی تھیں اس لئے جب ان کا ہودج اٹھایا گیا تو اٹھانے والے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو محسوس نہ ہوا کہ آپ اس میں نہیں ہیں ۔ ہودج اٹھا کر اونٹ پہ رکھ دیا گیا ، لشکر روانہ ہو گیااور سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  پیچھے رہ گئیں ۔ آپ جب اپنی جگہ پر واپس لوٹیں تولشکر کو وہاں نہ پاکر اسی جگہ پر بیٹھ گئیں تاکہ تلاش کرنے والا شخص تلاش کرتے کرتے جب وہاں پر آئے تو وہ انھیں پا لے ۔ انتظار کرتے کرتے آپ کی آنکھ لگ گئی۔ صفوان بن معطل سلمی  رضی اللہ عنہ  کی ڈیوٹی تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہیں تاکہ کسی کی کوئی چیز گرے تو وہ اسے اٹھا لیں یا کوئی راستہ بھول جائے تو وہ اس کی راہنمائی کردیں ۔ جب موصوف کا وہاں سے گزر ہوا تو چونکہ انھوں نے عائشہ  رضی اللہ عنہا  کو پردے کا حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا ہوا تھا اس لئے انھوں نے آپ کو پہچان لیا اور فورا کہا : انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ یہ سن کر عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیدا رہوگئیں اور فورا چہرے کا پردہ کرلیا ۔ صفوان  رضی اللہ عنہ  نے اپنی سواری کو ان کے قریب بٹھایا اور اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا تاکہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  اس پر سوار ہو جائیں ۔ وہ سوار ہوئیں اور پھر صفوان  رضی اللہ عنہ  سواری کی نکیل پکڑ کر لشکر کے پیچھے روانہ ہو گئے ۔ جب منافقوں نے یہ منظر دیکھا کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  صفوان  رضی اللہ عنہ کے ساتھ اکیلی آ رہی ہیں تو فورا ان پر بہتان باندھ دیا ۔ پھر ان کے بارے میں بدکلامی شروع کردی اور مدینہ منورہ میں یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ صفوان  رضی اللہ عنہ  نے عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے ( نعوذ باللہ ) برائی کی ہے ۔ منافقوں نے اِس بہتان کا اتنا پروپیگنڈا کیا کہ کئی مسلمان بھی اس میں بہک گئے ۔ اِس واقعہ کے نتیجے میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  بہت زیادہ پریشان ہوئے ۔ خود عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیمار ہو گئیں اور آپ کے والدین بھی شدید پریشانی میں مبتلا ہوئے ۔ آخر کار اللہ تعالی نے سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی براء ت کے متعلق آیات نازل کردیں جن میں اللہ نے اِس واقعہ کو  ’ بہتان عظیم ‘ اور منافقوں کو جھوٹا قرار دیا ۔

13. اللہ کی راہ میں آنے والی آزمائشوں کو برداشت نہ کرنا اور دین سے پھر جانا

منافقوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ اگر انھیں خیر ملتی رہے تو مطمئن رہتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش آجائے تو اس پر صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اللہ کی عبادت کو ترک کرکے کفر کی طرف واپس پلٹ جاتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾  [الحج :۱۱]

’’ اور بعض لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں ۔ اگر انھیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انھیں آ لیتی ہے تو ( کفر کی طرف ) پلٹ جاتے ہیں ۔ اپنی دنیا اور آخرت دونوں گنوا دیتے ہیں ۔ یہی واضح نقصان ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ وَ لَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ اَوَ لَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ ٭ وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ  ﴾ [ العنکبوت : ۱۰ ۔ ۱۱ ]

’’ اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو یہ کہتا ہے کہ ’ ہم اللہ پر ایمان لائے ‘  مگر جب اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو یوں سمجھتا ہے جیسے اللہ کا عذاب ہو ۔ اور اگر آپ کے رب کی طرف سے نصرت آجائے تو ضرور کہے گا کہ ہم ( دل سے ) تو تمھارے ساتھ ہی تھے ۔ کیا دنیا جہان کے لوگوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ! اور اللہ تعالی ضرور یہ جان کر رہے گا کہ ایمان والے کون ہیں اور منافق کون ؟

14. مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو خوش ہوتے ہیں

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کوئی اچھائی نصیب ہو تو انھیں بہت برا لگتا ہے اور اگر ان پر کوئی مصیبت آجائے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ جنگ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤھُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ فَرِحُوْنَ  ﴾ [ التوبۃ :۵۰ ]

’’ اگر آپ کو کوئی بھلائی ملے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں : ہم نے تو اپنا معاملہ ہی درست رکھا تھا ۔ پھر وہ خوش خوش واپس چلے جاتے ہیں ۔ ‘‘

15. مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا اور ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنا

منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ جنگی حالات میں بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، خود بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی خوفزدہ کرکے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ۔ اِس کی سب سے بڑی دلیل جنگ خندق کا واقعہ ہے کہ جب کفار اپنے تمام گروہوں کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے ، انھوں نے ہر جانب سے اہلِ مدینہ پر چڑھائی کی تھی اور خود مدینہ کے بعض یہودی قبائل بھی مسلمانوں سے بد عہدی کرتے ہوئے کفار کا ساتھ دے رہے تھے  ! اِن سنگین حالات میں مومنوں کی شدید آزمائش ہوئی اور انھیں جھنجوڑ کر رکھ دیا گیا ۔ مومنوں کی اِس حالت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے :

﴿ اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا  ٭ ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا  ﴾ [ الأحزاب : ۱۰۔۱۱ ]

’’ جب وہ تمھارے اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب آنکھیں پھر گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے ۔ اِس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور وہ بری طرح ہلا دئیے گئے ۔ ‘‘

ایسے میں منافق بول اٹھے اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرتے ہوئے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے لگے ۔ اللہ تعالی ان کے متعلق فرماتا ہے :  ﴿وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا  ﴾  [ الأحزاب : ۱۲]

’’ جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا ، بس دھوکہ ہی تھا ۔ ‘‘

اِس کے بعد فرمایا :

﴿ وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْھُمْ یٰٓاَھْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْھُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَ مَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا ﴾ [ الأحزاب : ۱۳]

’’ اور جب ان کا ایک گروہ کہنے لگا : یثرب والو ! ( آج ) تمھارے ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ، لہذ۱ واپس آجاؤ ۔ اور ان کا ایک گروہ نبی سے ( واپس جانے کی ) اجازت مانگ رہا تھا اور کہتا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ۔ حالانکہ ان کے گھر غیر محفوظ نہیں تھے ، وہ صرف جنگ سے فرار چاہتے تھے ۔ ‘‘

16. وفاداریاں تبدیل کرنا

منافقوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر وفاداریاں بہت جلد تبدیل کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی یہ نشانی یوں بیان کی ہے :

﴿  اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعًا ٭اَلَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَ اِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤمِنِیْن﴾  [ النساء : ۱۴۰ ۔ ۱۴۱ ]

’’ اللہ تعالی تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔ یہ لوگ آپ کے بارے میں ہر وقت منتظر رہتے ہیں ، اگر اللہ کی مہربانی سے تمھیں فتح نصیب ہو تو کہتے ہیں : کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہے تو انھیں کہتے ہیں : کیا ہم تم پر قابو پانے کی قدرت نہ رکھتے تھے ؟ اور ہم نے تمھیں مومنوں سے بچا نہیں لیا ؟ ‘‘

نہایت افسوس ہے کہ آج بھی ایسے منافق بہت زیادہ پائے جاتے ہیں ، خاص طور پر سیاسی پارٹیوں میں ،  کہ جو ہوا کا رخ دیکھتے ہی فورا اپنی پارٹی کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں جس کو اقتدار ملنے والا ہو یا مل چکا ہو ۔ ایسے لوگوں کو صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے ۔ یہ ملک وقوم کے خیر خواہ نہیں ہوتے ۔

17. چرب لسانی

منافقوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ بہت ہی میٹھی میٹھی باتیں اور انتہائی لچھے دار گفتگو کرتے ہیں ، لیکن ان کے دلوں میں وہ نہیں ہوتا جو ان کی زبانوں پر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی سورۃ المنافقون کے شروع میں فرماتا ہے :

﴿وَاِِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَاِِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ﴾   [ المنافقون : ۴ ]

’’ اگر آپ انھیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو بھلے لگیں اور اگر وہ بات کریں توآپ ان کی بات سنتے ہی رہ جائیں ۔ گویا وہ دیواروں کے ساتھ لگی ہوئی لکڑیاں ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح مدینہ منورہ کے ارد گرد بسنے والے بعض منافقوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے :

﴿ سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ  ﴾ [ الفتح : ۱۱]

’’ دیہاتیوں میں سے جو لوگ ( فتح مکہ سے ) پیچھے رہ گئے تھے وہ اب آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور گھر والوں نے ہمیں مشغول رکھا تھا ، لہذا ہمارے لئے بخشش کی دعا کیجئے ۔ یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی ۔ ‘‘

سامعین کرام ! ہم نے منافقوں کی متعدد نشانیاں قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کی ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر ہمارے اندر بھی یہ نشانیاں پائی جاتی ہوں تو ہم اپنی اصلاح کریں اور ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اِس کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

معزز سامعین !  پہلے خطبۂ جمعہ میں ہم نے منافقوں کی زیادہ تر نشانیاں قرآن مجید سے ذکر کی ہیں ۔ آئیے اب وہ نشانیاں بھی معلوم کرلیں جنھیں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاص طور پر منافقوں کی علامات قرار دیا ۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

﴿ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ : إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ﴾ [ البخاری : ۳۳]

’’ منافق کی نشانیاں تین ہیں : وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اسے امانت سونپی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘

اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا : ﴿ أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا ، وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا : إِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ﴾ [ البخاری : ۳۴]

’’ چار خصلتیں جس میں پائی جاتی ہوں وہ پکا منافق ہوتا ہے ۔ اور جس میں ان میں سے ایک خصلت پائی جاتی ہو اس میں منافقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ پہلی یہ کہ اسے جب امانت سونپی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے ۔ دوسری یہ کہ وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ تیسری یہ کہ وہ جب عہد کرے تو اسے توڑ دے اور چوتھی یہ کہ وہ جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔‘‘

اللہ تعالی ہم سب کو ان مذموم عادات سے بچنے کی توفیق دے ۔

عزیز بھائیو ! آخر میں یہ بھی جان لیجئے کہ منافق کا انجام کیا ہو گا ؟

منافقوں کا انجام

اللہ تعالی منافقوں کے بارے میں فرماتا ہے :

﴿ وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ﴾    [ التوبۃ : ۱۰۱ ]

’’اور تمھارے ارد گرد بسنے والے دیہاتیوں میں کچھ منافق موجود ہیں اور کچھ خود مدینہ میں بھی موجود ہیں جو اپنے نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ؛ انھیں تم نہیں جانتے ، ہم انھیں جانتے ہیں ۔ جلد ہی ہم انھیں دو مرتبہ سزا دیں گے۔ پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ‘‘

’بڑے عذاب ‘ سے مراد کیا ہے ؟ وہ اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے :

﴿ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ [ النساء : ۱۴۵]

’’بے شک منافقین جہنم کی سب سے نچلی کھائی میں ہوں گے ۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالی منافقوں کے برے انجام کے متعلق ارشاد فرماتا ہے :

﴿ وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ھِیَ حَسْبُھُمْ وَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ ﴾  [ التوبۃ : ۶۸]

’’ اللہ نے منافق مردوں ، منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ وہ انھیں کافی ہے ۔ اور ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کیلئے دائمی عذاب ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾  [ التوبۃ : ۷۳]

’’اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ۔ ان کی پناہ گاہ جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی ہم سب کو جہنم سے محفوظ رکھے اور نفاق اور منافقوں کی صفات سے بچنے کی توفیق دے ۔