نماز میں نمازیوں کی اخطاء

اہم عناصرِ خطبہ :

01.  نمازیوں کے لباس میں اخطاء

02.  نمازیوں کی جائے نماز میں اخطاء

03. نمازیوں کی نماز میں اخطاء

04.  نمازیوں کی نماز با جماعت میں اخطاء

پہلا خطبہ

محترم حضرات !

نماز دین ِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ اور عبادات میں سب سے اہم عبادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے باقی تمام عبادات کی فرضیت ومشروعیت زمین پر نازل کی اور جب نماز کی باری آئی تو اس نے اپنے حبیب حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے پاس بلایا اور وہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کی امت پر نمازوں کو فرض کیا ۔  اور نماز کی اہمیت اور قدر ومنزلت کے پیش نظر قیامت کے روز سب سے پہلے اسی نماز کا حساب لیا جائے گا ۔ اور اسی کی بناء پر انسان کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کیا جائے گا ۔

حریب بن قبیصہ  رحمہ اللہ   ( جو ایک تابعی ہیں وہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ آیا تو میں نے دعا کی کہ (اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِی جَلِیْسًا صَالِحًا )  ’’ اے اللہ ! مجھے کسی اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنے کا موقع دے ۔ ‘‘ چنانچہ مجھے جناب ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ   کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے کسی اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنے کا موقع دے ۔ تو آپ سے گزارش ہے کہ مجھے کوئی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی ہو ، شاید اللہ تعالی اس کے ذریعے مجھے فائدہ پہنچائے ۔ تو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے آپ کا یہ ارشاد سنا تھا کہ

( إن أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہِ : صَلَاتُہُ ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ۔۔۔۔)  [الترمذی :۴۱۳ ، النسائی :۴۶۵ ۔ وصححہ الألبانی ]

  ’’ بے شک قیامت کے روز سب سے پہلے بندے کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ہے اس کی نماز ، اگر وہ ٹھیک طرح سے ادا کی گئی ہوگی تو وہ کامیاب وکامران ہو جائے گا ۔ اور اگر وہ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کی گئی ہوگی تو وہ ذلیل وخوار اور خسارہ اٹھانے والا ہو گا ۔ ‘‘

بلکہ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی اعمال کی قبولیت کا دار ومدار بھی اسی نماز کی قبولیت پر ہوگا ۔  اس روایت کے الفاظ یوں ہیں :

( أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ عَلَیْہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : الصَّلَاۃُ ، فَإِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِہٖ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِہٖ )  [ رواہ الطبرانی فی الأوسط ۔  وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۱۳۵۸]

 ’’ قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا ، اگر نماز ٹھیک طرح سے ادا کی گئی ہوگی تو باقی تمام اعمال بھی درست تسلیم کر لئے جائیں گے ۔ اور اگر نماز فاسد نکلی تو باقی تمام اعمال بھی فاسد ہی تصور کئے جائیں گے ۔ ‘‘

اس لئے مسلمان بھائیو ! ہمیں اپنی نمازوں کی فکر کرنی چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم نماز رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق ادا کرتے ہیں ؟ یا ہم باقی اعمال کی طرح نماز میں بھی من مانی کرتے ہیں اور اپنی منشاء یا اپنے مخصوص مسلک کے مطابق اسے ادا کرتے ہیں ؟

حضرت مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم چند ہم عمر نوجوان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے  بیس راتیں آپ کے پاس قیام کیا ۔ پھر آپ کو یہ گمان ہوا کہ جیسے ہم اپنے گھر والوں سے ملنے کا شوق رکھتے ہیں ، چنانچہ آپ نے ہم سے ہمارے گھر والوں  کے بارے میں معلومات لیں ۔ ہم نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ۔اور چونکہ آپ بڑے نرم مزاج اور رحمدل تھے اس لئے آپ نے فرمایا :

( اِرْجِعُوا إِلٰی أَہْلِیْکُمْ فَعَلِّمُوْہُمْ وَمُرُوْہُمْ ، وَصَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِی أُصَلِّیْ ، وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ ) [ البخاری : ۶۲۸، ۶۳۱،مسلم : ۶۷۴]

’’ تم اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ ، پھر انھیں بھی تعلیم دو اور میرے احکامات ان تک پہنچاؤ ۔اور تم نماز

 اسی طرح پڑھنا جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہے ، پھر تم میں جو بڑا ہو وہ امامت کرائے ۔‘‘

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان نوجوانوں کو جو تعلیم دی ، یہ دراصل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پوری امت کیلئے ہے ۔ لہذا پوری امت پر یہ لازم ہے کہ وہ نماز اسی طرح پڑھے جیسا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھا کرتے تھے ۔

ویسے بھی اللہ تعالی نے ہم سب اہل ِ ایمان کیلئے حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہر عمل میں بہترین نمونہ قرار دیا ہے  ۔ اس کا فرمان ہے :

 ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ [ الأحزاب : ۲۱]

  ’’ یقینا تمھارے لئے رسول اللہ  (  صلی اللہ علیہ وسلم  ) میں عمدہ نمونہ موجود ہے ، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور بکثرت اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہو۔ ‘‘

اگر ہم واقعتا اللہ تعالی سے ملاقات اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں جناب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بہترین نمونہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نمازوں کی اصلاح کرنی چاہئے ۔

آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم نمازیوں کی بعض اخطاء کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جو کہ عموما ان کی نمازوں میں ہمیں نظر آتی ہیں ۔ ان اخطاء کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسی غلطیاں کرنے سے بچیں اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ِ مبارکہ کے مطابق نماز ادا کریں ۔

01. نمازیوں کے لباس میں اخطاء

02.  تنگ لباس میں نماز پڑھنا

بعض لوگ نہایت ہی تنگ لباس پہنے ہوئے نماز پڑھتے ہیں ، حتی کہ ان میں سے کچھ لوگوں پر تو تنگ  لباس کی وجہ سے سجدہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ اورحتی کہ بعض لوگ اس کی وجہ سے نماز ہی نہیں پڑھتے ۔

یہ تنگ لباس ’ پینٹ ‘ کی شکل میں ہوتا ہے جس میں دو برائیاں پائی جاتی ہیں : پہلی یہ کہ اس میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے ، کیونکہ یہ لباس پہلے مسلمانوں میں نہیں پایا جاتا تھا ، اِس سے پہلے مسلمان کھلا لباس پہننے کے عادی تھے ، پھر جب استعماری طاقتوں کو کئی ملکوں کو چھوڑ کر جانا پڑا تو جاتے جاتے وہ اپنے پیچھے اپنی ثقافت کا گند بھی چھوڑ گئیں ، جسے بصد افسوس مسلمانوں نے قبول کر لیا۔ اُسی کا ایک حصہ وہ ہے جو لباس سے متعلق ہے ۔ اور دوسری یہ کہ ’ پینٹ ‘ انسان کے ستر کو نمایاں کرتی ہے، خاص طور پر سجدہ کی حالت میں ۔ جبکہ اسلام میں اِس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ ستر ڈھانپنے کی چیز ہے ، لہذا اس کا مکمل پردہ کیا جائے اور اسے نمایاں ہونے سے بچایا جائے۔ صرف نماز ہی میں نہیں بلکہ

عام حالات میں بھی اس کی تاکید کی گئی ہے ۔

’پینٹ ‘ پہننے والے لوگوں میں سے بعض لوگ اُن خواتین کو برا بھلا کہتے ہیں جو تنگ لباس پہنتی ہیں اور جس میں ان کے اعضائے زینت نمایاں ہوتے ہیں ۔ جبکہ یہی لوگ خود جب ’پینٹ ‘ پہنتے ہیں تو ان کے بھی بعض اعضاء نمایاں ہو جاتے ہیں ! اور ان کا نمایاں ہونا شرعی طور پر معیوب ہے ۔ تو وہ چیز جو عورتوں کیلئے نا جائز ہے وہ مردوں کیلئے کیسے جائز ہوگئی ؟ جبکہ نتیجہ دونوں کیلئے ایک ہی ہے ، یعنی بعض مخصوص اعضاء کا نمایاں ہونا ۔

بعض لوگ ’ پینٹ ‘ سے اوپر جو شرٹ پہنتے ہیں وہ بھی چھوٹی سی ہوتی ہے ، اگر ایسے لوگ نماز پڑھیں تو عموما دیکھا جاتا ہے کہ جب وہ رکوع وسجود میں جاتے ہیں تو شرٹ اوپر کو چلی جاتی ہے اور ستر کا کچھ حصہ ننگا ہو جاتا ہے  !  اِس سے نماز یقینی طور پر باطل ہوجاتی ہے کیونکہ پوری نماز میں پورے ستر کا ڈھانپنا نماز کی درستگی کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط ہے ۔

ہاں اگر پینٹ کھلی ہو ، تنگ نہ ہو اور اس سے اوپر شرٹ یا قمیص بھی لمبی ہو جو ناف اور گھٹنوں کے درمیانے حصے کو ڈھانپے رکھے اور رکوع وسجود میں بعض اعضاء نمایاں نہ ہوں تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

03.  باریک اور پتلے کپڑوں میں نماز پڑھنا

بعض لوگ نہایت ہی باریک اور پتلے کپڑوں میں نماز پڑھتے ہیں ، خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں ، اِس طرح کے کپڑے اپنے پتلے پن اور باریکی کی وجہ سے پہننے والے شخص کے اعضاء کی شکل وصورت کا پتہ دیتے ہیں۔ جبکہ فقہاء نے صحت ِ نماز کی شرطوں کے ضمن میں لکھا ہے کہ

( یُشْتَرَطُ فِی السَّاتِرِ أَن یَّکُونَ کَثِیْفًا ، فَلاَ یُجْزِیُٔ السَّاتِرُ الرَّقِیْقُ الَّذِیْ یَصِفُ لَوْنَ الْبَشْرَۃِ )  [ الدین الخالص ج ۲ ص ۱۰۱ ، المجموع ج ۳ ص ۱۷۰ وغیرہ ]

’’  ستر کو ڈھانپنے والے کپڑے میں شرط یہ ہے کہ وہ موٹا ہو ، لہذا باریک و پتلا کپڑا جس کے اندر سے جلد کا رنگ معلوم ہو جائے وہ کا فی نہیں ہوتا ۔ ‘‘

عرب ملکوں میں کئی لوگ باریک ، لمبا جُبّہ پہنتے ہیں اور نیچے شلوار یا پاجامہ نہیں پہنتے ، اس سے رکوع وسجود کی حالت میں بعض مخصوص اعضاء نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔

اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں امام شافعی   رحمہ اللہ   کہتے ہیں : ( وَإِنْ صَلّٰی فِی قَمِیْصٍ یَشِفُّ عَنْہُ ، لَمْ تُجْزِہِ الصَّلاَۃُ )    [ الأم ج ۱ ص ۷۸]

’’ اور اگر وہ ایسی قمیص میں نماز میں پڑھے کہ جو اس کے اندرونی اعضاء کا پتہ دے تو اس کی نماز اسے کفایت نہیں کرے گی ۔ ‘‘

اِس سلسلے میں عورتوں کا معاملہ اور زیادہ سنگین ہے ۔ کیونکہ ُان کیلئے تو عام حالات میں بھی یہ جائز نہیں کہ وہ باریک اور پتلے کپڑے پہنیں ، جن میں ان کے اعضائے زینت واضح طور پر نظر آئیں ۔ تو نماز کی حالت میں یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے !

04. گندے ، میلے کپڑوں اور نیندکے لباس میں نماز پڑھنا

بعض لوگ بہت ہی گندے اور میلے کپڑوں میں نماز پڑھتے ہیں ، حتی کہ کئی لوگوں کے کپڑوں سے پسینے وغیرہ کی بد بو بھی آرہی ہوتی ہے !  اور بعض لوگ جس لباس میں سوتے ہیں اسی لباس میں نماز پڑھنے لگتے  ہیں !  حتی کہ یہ لوگ اگر مسجد میں نماز پڑھنے آئیں تو بھی اسی لباس میں چلے آتے ہیں !

اوریہ یقینی طور پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب کے خلاف ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾ [ الأعراف : ۳۱ ]

’’ اے آدم کی اولاد ! تم ہرمسجد(میں نماز پڑھتے )وقت اپنی زینت لے لیا کرو ۔ ‘‘

’ مسجد ‘ سے مراد ہر وہ جگہ ہے جہاں نماز پڑھی جائے ۔ اور ’ زینت ‘ سے مراد وہ لباس ہے جو آرائش کیلئے پہنا جاتا ہے ۔  لہذا ہر نماز کے وقت اچھا اور صاف ستھرا  لباس پہننا ضروری ہے ۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  نے اپنے شاگرد ’نافع ‘ کو دیکھا کہ وہ ایک ہی کپڑا پہنے خلوت میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ تو انھوں نے کہا : میں نے تمھیں دو کپڑے نہ پہنائے تھے ؟ نافع نے کہا : کیوں نہیں ! ابن عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : کیا تم ایک ہی کپڑا پہنے بازار میں جا سکتے ہو ؟ انھوں نے کہا : نہیں ! تو ابن عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :

( فَاللّٰہُ أَحَقُّ أَن یُّتَجَمَّلَ لَہُ )  [ شرح معانی الآثار للطحاوی ج ۱ ص ۳۷۷ ]

 ’’تو اللہ تعالی زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کیلئے خوبصورتی اختیار کی جائے ۔ ‘‘

اور وہ لوگ جو گندا لباس پہنے یا [ sleeping dress] پہنے نماز پڑھتے ہیں ، انھیں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اِس لباس میں کسی بڑے آدمی کے سامنے جانا گوارا کریں گے ؟ یقینا نہیں ، تو وہ اس لباس میں اللہ کے سامنے جو کہ بادشاہوں کا بادشاہ اور پوری دنیا کا خالق ومالک ہے ، کھڑا ہونا کیسے گوارا کرتے ہیں ؟

05. ننگے کندھوں کے ساتھ نماز پڑھنا

بعض لوگ اپنے اوپر والے حصے پر صرف بنیان پہنے ہوئے نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی بغیر بازووں کے ، جس کے نتیجے میں ان کے کندھے زیادہ تر ننگے رہتے ہیں ۔ اور ایسا کرنا غلط ہے۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( لَا یُصَلِّیَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الثَّوبِ الوَاحِدِ ، لَیْسَ عَلٰی عَاتِقَیْہِ مِنْہُ شَیْیٌٔ )  [ البخاری : ۳۵۹ ، ومسلم  ۵۱۶  واللفظ لہ ]

’’ تم  میں سے کوئی شخص ایک ہی کپڑا پہنے نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کچھ بھی نہ ہو ۔ ‘‘

اس حدیث میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کندھوں پر کچھ پہنے بغیر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ اِس حالت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء کے نزدیک نماز کی حالت میں کندھوں کو کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ڈھانپنا واجب ہے ۔ اور اگر کسی شخص کے کندھے بالکل ہی ننگے ہوں تو حنابلہ اور بعض سلف صالحین   رحمہ اللہ م کے نزدیک اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک اس کی نماز ہو جاتی ہے لیکن اس کا یہ عمل ( نماز کی حالت میں کندھوں کو ننگا رکھنا ) مکروہ ہے اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے خلاف ہے ۔

06.  کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھنا

کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا کبیرہ گناہ ہے ۔ چاہے چادر ہو یا شلوار ، پینٹ ہو یا پاجامہ ، یا لمبا جُبّہ ہو جو ٹخنوں سے نیچے تک لٹک رہا ہو ۔ اور نماز میں اسے لٹکانا تو اور بھی بڑا گناہ ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ( لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلٰی صَلَاۃِ رَجُلٍ یَجُرُّ إِزَارَہُ بَطَرًا )   [ صحیح ابن خزیمہ  ج ۱ ص ۳۸۲ ]

’’ اللہ تعالی اُس آدمی کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جو اپنے تہہ بند کو تکبر سے گھسیٹ رہا ہو ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا: (مَنْ أَسْبَلَ إِزَارَہُ فِی صَلَاتِہِ خُیَلَائَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِی حِلٍّ وَّلاَ حَرَامٍ )  [ أبو داؤد : ۶۳۷ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جو شخص اپنی نماز میں تکبر کی بناء پر اپنے تہہ بند کو نیچے لٹکائے تو وہ اللہ تعالی سے لا تعلق ہو گیا ۔ ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے تہہ بند کو لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا ، تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا : ( إذہب فتوضأ )  ’’ جاؤ ، وضو دوبارہ کرو ۔ ‘‘  وہ گیا ، وضو کیا ، پھر واپس آیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر بھی اسے یہی حکم دیا کہ جاؤ ، وضو کرو ۔ تب ایک آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے اسے وضو دوبارہ کرنے کا حکم دیا ہے ؟  تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّہُ کَانَ یُصَلِّی وَہُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَہُ ، وَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ صَلَاۃَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَہُ )  [ ابو داؤد : ۶۳۸  ۔  قال النووی فی ریاض الصالحین (۷۹۵) : صحیح علی شرط مسلم ۔ وصححہ الذہبی فی الکبائر ص ۱۷۲]

’’ وہ اپنا تہہ بند لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالی اس آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا جس نے اپنے تہہ بند کو لٹکایا ہوا ہو ۔ ‘‘

07. نماز میں خواتین کا لباس !

بعض خواتین ِاسلام اِس طرح نماز پڑھتی ہیں کہ ان کے پورے بال کھلے ہوتے ہیں ، یا کچھ بال ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور یہ بالکل غلط ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے  : ( لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ صَلَاۃَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ)

’’ اللہ تعالی کسی بالغ عورت کی نمازقبول نہیں کرتا ، سوائے اس کے کہ اس نے دوپٹہ اوڑھ کر پردہ کر رکھا ہو۔ ‘‘

اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خاتون سر پر دوپٹہ اوڑھے بغیر نماز پڑھے تواس کی نماز اللہ تعالی قبول نہیں کرتا ۔

یہ وہ اہم اخطاء تھیں جن کا تعلق نمازیوں کے لباس سے ہے ۔

02.  نمازیوں کی جائے نماز میں اخطاء

وہ اخطاء جن کا تعلق جائے نماز ، یعنی اس جگہ کے ساتھ ہے جہاں نمازی نماز ادا کرتا ہے ، تو اب ہم ان کا تذکرہ کرتے ہیں :

01.  ایسی جگہ پر نماز پڑھنا جہاں تصویریں ہوں

حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے پاس ایک اُونی ، رنگین پردہ تھا جس کے ساتھ انھوں نے اپنے گھر کی ایک جانب کو ڈھانپا ہوا تھا۔ تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا : ( أَمِیْطِی عَنِّی ، فَإِنَّہُ لَا یَزَالُ تَصَاوِیْرُہُ تُعْرَضُ لِی فِی صَلَاتِی )  [ البخاری : ۳۷۴،۵۹۵۹]

’’ اسے مجھ سے ہٹا دو ، کیونکہ اس کی تصویریں میری نماز میں میرے سامنے آرہی تھیں ۔ ‘‘

اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسی جگہ جہاں تصویریں ہوں اور وہ نمازی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہوں تو اس جگہ پر نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تصویروں والے پردے کو ہٹانے کا حکم دیا ۔

اِس کے علاوہ وہ حدیث بھی مد نظر رہنی چاہئے جس میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُورَۃٌ )    [ مسلم : ۲۱۰۶]

’’ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو ۔ ‘‘

02.  قبر پر یا قبرکی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا

بعض لوگ قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں ۔ اور قبروں کے سامنے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں ۔ اور جس مسجد میں قبر بھی ہو اس میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں نماز پڑھنے سے افضل سمجھتے ہیں ۔ اور یہ بالکل غلط ہے ۔

جندب بن عبد اللہ البجلی  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے پانچ دن قبل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے آپ کا یہ ارشاد سنا : ( أَلَا وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ ، فَإِنِّی أَنْہَاکُمْ عَنْ ذَلِکَ )   [ مسلم : ۵۳۲ ]

’’ خبر دار ! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیتے تھے ، خبر دار ! تم لوگ قبروں کو مساجد نہ بنانا، کیونکہ میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں ۔ ‘‘

اسی طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( وَلَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ ، وَلَا تُصَلُّوْا إِلَیْہَا )   [ مسلم : ۹۷۲ ]

’’ اور تم قبروں پر مت بیٹھنا اور ان کی طرف رخ کرکے نماز بھی نہ پڑھنا ۔ ‘‘

03.  مسجد میں اپنے لئے کسی جگہ کو خاص کرنا

بعض لوگ مسجد میں اپنے لئے کسی ایک جگہ کو خاص کر لیتے ہیں ، پھر وہ ہمیشہ اسی میں نماز پڑھتے ہیں ۔ اور یہ غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے ۔

عبد الرحمن بن شبل  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ

( نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  عَن نَّقْرَۃِ الْغُرَابِ ، وَافْتِرَاشِ السَّبُعِ ،  وَأَن یُّوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَکَانَ فِی الْمَسْجِدِ کَمَا یُوَطِّن الْبَعِیْرُ )    [ أبو داؤد : ۸۶۲ ، ابن ماجہ : ۱۴۲۹ ۔ وحسنہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۱۱۶۸ ]

’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوے کے چونچ مارنے کی طرح جلدی جلدی سجدہ کرنے سے ، درندوں کی طرح اپنے بازو زمین پر بچھانے سے اور مسجد میں کسی جگہ کو خاص کرنے سے منع فرمایا جیسا کہ اونٹ ایک جگہ کو اپنے لئے خاص کرلیتا ہے ۔ ‘‘

04.  بغیر سترہ کے نماز پڑھنا

بعض لوگ بغیر سترہ کے نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں ، حتی کہ ان میں سے کئی لوگ تو بالکل مسجد کے بیچ کھڑے ہو

کر سترہ کے بغیر نماز شروع کردیتے ہیں ۔ جس سے آنے جانے والوں کو کافی مشکل پیش آتی ہے ۔  اور یہ بالکل غلط ہے ۔ نمازی کو مسجد میں دیوار ، ستون یا رَحل یا کرسی وغیرہ کا سترہ ضرور رکھنا چاہئے ۔

ابن عمر  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلٰی سُتْرَۃٍ ، وَلَا تَدَعْ أَحَدًا یَّمُرُّ بَیٍْنَ یَدَیْکَ ، فَإِنْ أَبٰی فَلْتُقَاتِلْہُ فَإِنَّ مَعَہُ الْقَرِیْنَ )  [ مسلم : ۲۶۰]

’’ تم سترہ کی طرف ہی نماز پڑھا کرو ۔ اور کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دیا کرو ۔ اگر وہ ( گزرنے والا) انکار کرے ( اور ضرور گزرنا چاہے ) تو اس سے لڑائی کرو ،کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے ۔ ‘‘

اسی طرح ابوسعید الخدری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیُصَلِّ إِلٰی سُتْرَۃٍ وَلْیَدْنُ مِنْہَا ، وَلَا یَدَعْ أَحَدًا یَّمُرُّ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا ، فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یَّمُرُّ فَلْیُقَاتِلْہُ فَإِنَّہُ شَیْطَانٌ )  [ ابوداؤد : ۶۹۷ ، ابن ماجہ : ۹۵۴ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنا چاہے تو سترہ کی طرف پڑھے اور اس سے قریب ہو جائے ۔ اور اپنے اور سترہ کے درمیان کسی کو گزرنے نہ دے ۔ پھر اگر کوئی شخص آئے تو وہ اس سے لڑائی کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ ‘‘

یہ دونوں احادیث اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بغیر سترہ کے نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔اور ان احادیث کے الفاظ (  لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلٰی سُتْرَۃٍ  )   اور (فَلْیُصَلِّ إِلٰی سُتْرَۃٍ ) کو سامنے رکھتے ہوئے بعض اہل علم نے نماز میں سترہ رکھنا واجب قرار دیا ہے ۔  [ السیل الجرار للشوکانی : ج ۱ ص ۱۶۷ ]

بہر حال اِس سلسلے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو نمازی کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ  سترہ کی طرف ہی نمازپڑھے ۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  اِس معاملے میں بہت سختی کرتے تھے ، جیسا کہ قرۃ بن ایاس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ مجھے عمر  رضی اللہ عنہ  نے دیکھا کہ میں دو ستونوں کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہوں ۔ تو انھوں نے مجھے میری گُدی سے پکڑا اور سترہ کے قریب کھڑا کردیا اور فرمایا : ( صَلِّ إِلَیْہَا )  ’’ اس کی طرف نماز پڑھو۔‘‘   ذکرہ البخاری تعلیقا : کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ إلی الأسطوانۃ ]

سترہ کے مسائل میں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ سترہ کی لمبائی کم ازکم ایک ہاتھ ہونی چاہئے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( إِذَا وَضَعَ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ مِثْلَ مُؤَخِّرَۃِ الرَّحْلِ فَلْیُصَلِّ ، وَلَا یُبَالِی مَنْ مَّرَّ وَرَائَ ذَلِکَ )   [ مسلم : ۴۹۹ ]

’’ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز رکھ لے تو وہ نماز پڑھ لے اور اس کے پیچھے سے جو بھی گزرے اس کی پروا نہ کرے ۔ ‘‘

’ پالان کی پچھلی لکڑی ‘ تقریبا ایک ہاتھ کے برابر ہوتی ہے ۔

سترہ کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ امام کا سترہ تمام نمازیوں کا سترہ ہوتا ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخص دوران ِ جماعت صفوں کے درمیان سے گزرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا اور اس وقت میں جوان ہونے کو تھا ،  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  منٰی میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ، چنانچہ میں صف کے سامنے سے گزرا ، پھر میں نیچے اترا اور گدھی کو چرنے کیلئے چھوڑ دیا ۔ پھر میں صف میں شامل ہو گیا ۔ تو کسی نے مجھے کچھ بھی نہ کہا ۔  [ البخاری : ۷۶ ،مسلم : ۴۰۵]

3۔  نماز میں نمازیوں کی اخطاء

اب ہم ان خطاء کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا تعلق نماز کی کیفیت کے ساتھ ہے ۔

1۔  نیت زبان کے ساتھ کرنا

بعض لوگ نماز کی نیت زبان کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کے وہ الفاظ جو بعض لوگوں کی طرف سے ایجاد کئے گئے ہیں انھیں وہ اپنی زبان کے ساتھ دہراتے اور پھر نماز شروع کرتے ہیں ۔ اور یہ بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ ’نیت ‘ دل کے ارادے کا نام ہے ۔ لہذا جو بھی نماز پڑھنی ہو اس کا تعین کرتے ہوئے دل میں اس کا ارادہ کر لیا جائے تو یہی کافی ہے ۔ اگر نیت زبان کے ساتھ کرنی لازم ہوتی تو اُس کے الفاظ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو سکھلاتے اور وہ اپنی نمازوں کو انہی الفاظ کے ساتھ شروع کرتے ۔ لیکن کسی بھی حدیث میں ، حتی کہ ضعیف حدیث میں بھی ایسے الفاظ ذکر نہیں کئے گئے ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان الفاظ کا دین میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اہل علم نے زبان کے ساتھ نیت کرنا بدعت قرار دیا ہے ۔ چاہے وہ شافعی ہوں یا مالکی ، حنبلی ہوں یا حنفی ، حتی کہ امام ابن ابی العز حنفی   رحمہ اللہ   کہتے ہیں کہ

( لَمْ یَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْأئِمَّۃِ الْأرْبَعَۃِ ، لَا الشَّافِعِیُّ وَلَا غَیْرُہُ بِاشْتِرَاطِ التَّلَفُّظِ بِالنِّیَّۃِ ، وَإِنَّمَا النِّیَّۃُ مَحَلُّہَا الْقَلْبُ بِاتِّفَاقِہِمْ ) [ الاتباع : ص ۶۲ ]

’’ چاروں اماموں میں سے کسی نے بھی ، نہ شافعی نے اور نہ کسی اور نے زبان کے ساتھ نیت کرنا شرط نہیں کہا ۔ بلکہ ان سب کا اتفاق ہے کہ نیت کی جگہ دل ہے ۔ ‘‘

اور امام ابن القیم   رحمہ اللہ   کہتے ہیں :

’’ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز کو کھڑے ہوتے تو ( اللہ أکبر ) کہتے ۔ اس سے پہلے کچھ بھی نہیں کہتے تھے ۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے نیت زبان کے ساتھ کی ہو ۔ اور نہ ہی آپ نے یوں کہا کہ

میں نماز پڑھتا ہوں اللہ کیلئے ، فلاں نماز ، منہ طرف قبلہ شریف ، چار یا دو رکعات ، امام یا مقتدی ، ادا ء یا قضاء ، فرض یا نفل ۔۔۔۔ یہ دس بدعات ہیں جن کا ایک لفظ بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول نہیں ہے ، نہ صحیح سند کے ساتھ ، نہ ضعیف سند کے ساتھ ، نہ کسی مسند یا مرسل روایت کے ساتھ ، نہ کسی صحابی سے مروی ہے اور نہ ہی تابعین یا ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اسے مستحسن عمل قرار دیا ہے ۔ ‘‘ [ زاد المعاد : ج ۱ ص ۲۰۱ ]

اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ ( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  یَسْتَفْتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیْرِ )  [ مسلم : ۴۹۸ ]

’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کا افتتاح تکبیر کے ساتھ کرتے تھے ۔ ‘‘

اور جب ایک شخص نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے تین مرتبہ نماز پڑھی اور ہر مرتبہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  اسے یہ فرمایا کہ ( اِرْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ )  ’’ لوٹ جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ۔ ‘‘ تو اس نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ ہی مجھے سکھلا دیں کہ میں نماز کیسے پڑھوں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے فرمایا :

( إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاۃِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوْئَ ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ ، فَکَبِّرْ ، ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَیَسَّر مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ۔۔۔۔۔ )  [ البخاری : ۷۵۷ ، مسلم : ۳۹۷ ]

’’ جب تم نماز کی طرف کھڑے ہونے کا ارادہ کر لو تو مکمل وضو کرو ، پھر قبلہ رخ ہو کر تکبیر کہو ، پھر قرآن مجید میں سے جو بآسانی پڑھ سکو پڑھ لو ۔ ‘‘

اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیت زبان کے ساتھ کرنا ضروری نہیں ہے ، کیونکہ اگر یہ ضروری ہوتا تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اِس شخص کو ضرور اِس کی تعلیم دیتے ۔  یہ موقع تعلیم کا تھا اور ایسے موقع پر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے شایان شان نہیں کہ وہ ایک جاہل انسان کو مکمل تعلیم نہ دیں ۔

2۔  نماز میں ہاتھ سینے پرنہ باندھنا

بعض لوگ نماز میں اپنے ہاتھ سینے پر نہیں باندھتے ، بلکہ اپنے پیٹ پر باندھتے ہیں ، یا ناف کے اوپر یا اس سے نیچے باندھتے ہیں ۔ اوریہ بالکل غلط ہے ۔

حضرت وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ

( صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرَی عَلٰی صَدْرِہِ )  [ صحیح ابن خزیمہ :ج ۱ ص ۲۴۴ : ۴۷۹ ، السنن الکبری للبیہقی :ج ۲ ص۳۰]

’’ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان دونوں کو اپنے سینے پرباندھ لیا ۔ ‘‘

اسی طرح طاؤس    رحمہ اللہ   بیان کرتے ہیں کہ

(کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرَی ثُمَّ یَشُدُّ بَیْنَہُمَا عَلٰی صَدْرِہِ  وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ  ) [ أبو داؤد : ۷۵۹ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے ، پھر ان دونوں کو اپنے سینے پر کَس کے باندھ لیتے تھے ۔ ‘‘

یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے ، تاہم اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ اسی لئے اس کو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے ۔ اور ’ مرسل ‘ روایت کسی اورکے نزدیک قابل حجت ہو یا نہ ہو احناف کے نزدیک بہر حال قابل حجت ہے ۔  [ ظفر الأمانی ۔ عبد الحی لکھنوی : ص ۳۵۱ ]

3۔  نماز کے دوران آسمان کی طرف نظر اٹھانا

نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھانا درست نہیں ہے ۔ اور اس کے بارے میں حدیث شریف میں بہت سخت وعید آئی ہے ۔

حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا :

( مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَّرْفَعُونَ أَبْصَارَہُمْ إِلَی السَّمَائِ فِی صَلَاتِہِمْ ! ) فَاشْتَدَّ قَولُہُ فِی ذَلِکَ حَتّٰی قَالَ : ( لَیَنْتَہُنَّ عَنْ ذَلِکَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُہُمْ )   [ البخاری : ۷۵۰ ]

’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی نماز میں آسمان کی طرف اپنی نظروں کو اٹھاتے ہیں ! ‘‘ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اِس سلسلے میں بہت سخت گفتگو فرمائی ، حتی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ لوگ اِس سے باز آجائیں ورنہ ان کی نظریں اُچک لی جائیں گی ۔ ‘‘

4۔  نماز میں غیر ضروری حرکت !

بعض لوگ نماز کے دوران غیر ضروری حرکت کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی خارش کرتے ہیں تو کبھی داڑھی میں ہاتھ

 پھیرنے لگتے ہیں ، کبھی انگلیاں چٹخاتے ہیں تو کبھی ناخن صاف کرنا شروع کردیتے ہیں ، کبھی اپنے کپڑے سنوارتے ہیں تو کبھی گھڑی کو دیکھنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ اِس طرح کی کئی اور بے ہودہ حرکات بھی کثرت سے کرتے ہیں۔ تو یہ سب حرکتیں نماز میں خشوع وخضوع کے بالکل برخلاف ہیں ۔ جو شخص اِس طرح کی حرکتیں کر رہا ہو اس کے بارے میں یقین کر لینا چاہئے کہ اس کے دل میں خشوع نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو وہ ہرگز ایسی حرکتیں اللہ رب العزت کے سامنے کھڑا ہو کر نہ کرتا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ ٭الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ﴾ [ المؤمنون : ۱۔ ۲ ]

’’ وہ مومن یقینا کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں ( قلب وجوارح کی ) یکسوئی اور انہماک اختیار کرتے ہیں ۔ ‘‘

اور ر سول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( مَا لِی أَرَاکُمْ رَافِعِی أَیْدِیْکُمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ ، أُسْکُنُوا فِی الصَّلَاۃِ )  [ مسلم : ۴۳۰ ]

’’ مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمھیں یوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھتا ہوں کہ جیسے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں ! تم نماز میں سکون اختیار کرو ۔ ‘‘

اِس حدیث میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دائیں بائیں سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھانے والوں کو سرکش گھوڑوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کہ آرام وسکون سے ٹھہرتا نہیں ، بلکہ اپنی ٹانگوں اور دُم کو بہت زیادہ حرکت دیتا رہتا ہے ۔ ’سکون ‘ کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کی دُم کی طرف بار بار حرکت نہ کیا کرو ۔ بلکہ نہایت عاجزی وانکساری کے ساتھ نماز پڑھا کرو ۔

5۔  امام کے پیچھے تکبیراتِ انتقال نہ کہنا

بعض لوگ امام کے پیچھے بالکل ہی خاموش رہتے ہیں ۔ حتی کہ اس کے ساتھ تکبیراتِ انتقال بھی نہیں کہتے ۔ اور یہ غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوْا ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوْا ، وَإِنْ صَلّٰی قَائِمًا فَصَلُّوْا قِیَامًا ) [ البخاری : ۳۷۸]

’’ بے شک امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ۔ لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو ۔ اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو ۔ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو ۔ اور اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو ۔ ‘‘

6۔  ارکان نماز میں عدم اعتدال

بعض حضرات ارکان ِنماز اعتدال واطمینان سے مکمل نہیں کرتے ، بلکہ جلد بازی کا ارتکاب کرتے ہیں جو نماز کی روح کے سرا سرخلاف ہے ۔ رکوع میں جاتے ہیں تو پیٹھ اور سر کو برابر کئے بغیر ہی جلدی سے کھڑے ہو جاتے ہیں ، پھر قومہ میں ابھی کمر سیدھی نہیں ہوتی کہ سجدے میں چلے جاتے ہیں ، پھر دونوں سجدے بھی جلدی جلدی کرتے ہیں اور ان کے درمیان سیدھے ہو کر اطمینان سے نہیں بیٹھتے ۔ ارکان ِ نماز میں اِس بے اعتدالی اور عدم اطمینان کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی ۔ بلکہ نماز پڑھنے کے باوجود بھی ایسے ہوتا ہے جیسے اس نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ اسی لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( لَا تُجْزِیُٔ صَلَاۃُ الرَّجُلِ حَتّٰی یُقِیْمَ ظَہْرَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ ) [ ابو داؤد : ۸۵۵ ، الترمذی : ۲۶۵ ، النسائی :۱۰۲۷ ، ابن ماجہ : ۸۷۰۔ وصححہ الألبانی ]

’’ کسی آدمی کی نماز کفایت نہیں کرتی ، یہاں تک کہ وہ رکوع وسجود میں اپنی پیٹھ کو سیدھا کرے ۔ ‘‘

اور حضرت ابوہریرۃ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   مسجد کے کونے میں تشریف فرما تھے۔اس شخص نے ( جلدی جلدی ) نماز پڑھی ۔ پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا۔ آپ نے اسے جواب دیا اور فرمایا:

 ( اِرْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ )  ’’ لوٹ جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ۔ ‘‘

وہ پھر گیا اور نماز پڑھی (جس طرح پہلے جلدی جلدی پڑھی تھی) پھرآیا اور سلام کیا ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا ، پھر فرمایا :  ( اِرْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ )

’’ واپس جاؤ اور نمازپڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘  لہذا  اس شخص نے تیسری بار(بھی جلدی جلدی ) نماز پڑھنے کے بعد کہا : یارسول اللہ! مجھے (نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ) سکھلا دیجئے ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

( إذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاَسْبَغِ الْوُضُوْئَ ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ ، ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَائِمًا ، ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ، ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ : ( ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَائِمًا ، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِکَ فِیْ صَلٰوتِکَ کُلِّھَا ) [ البخاری : ۷۵۷ ، مسلم : ۳۹۷ ]

’’ جب تم نماز کے ارادے سے اٹھو تو (پہلے) خوب اچھی طرح وضو کرو ۔ پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر تکبیر

 (تحریمہ) کہو ۔ پھر قرآن سے جو تجھے میسر ہو پڑھو ۔ پھر رکوع کرو ، یہاں تک کہ تم رکوع کی حالت میں مطمئن ہو جاؤ ۔ پھر (سر رکوع سے) اٹھاؤ ، یہاں تک کہ (قومہ میں) سیدھے کھڑے ہوجاؤ ۔ پھر سجدہ کرو ، یہاں تک کہ سجدے کی حالت میں اطمینان کر لو ۔ پھر (اپنا سر) اٹھاؤ ، یہاں تک کہ اطمینانِ خاطر سے (جلسہ میں) بیٹھ جاؤ ۔ پھر (دوسرا) سجدہ کرو ، یہاں تک کہ اطمینانِ خاطر سے سجدہ کرلو ، پھر (اپنا سر) اٹھاؤ ، یہاں تک کہ اطمینانِ خاطر سے (جلسہ ٔ استراحت میں) بیٹھ جاؤ۔ ‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ (سر کو سجدے سے ) اٹھاؤ ، یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ ۔ (یعنی اس روایت میں جلسہ  ٔ استراحت مذکور نہیں۔ )  پھر اسی طرح اپنی نماز پوری کرو۔ ‘‘

اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ

’’ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کا افتتاح تکبیر سے اور قراء ت کا آغاز  ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) سے کرتے تھے۔ اور جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع کرتے تھے تو اپنا سر نہ اوپر اٹھاتے اور نہ ہی نیچے کو جھکاتے تھے بلکہ دونوں کے درمیان رکھتے تھے ۔ اور جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو سجدے میں نہیں جاتے تھے یہاں تک کہ بالکل سیدھے کھڑے ہو جاتے ۔ اور جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سجدے سے سر اٹھاتے تو دوسرے سجدے کیلئے نہیں جاتے تھے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے ۔ اور ہر دو رکعات کے بعد ( التحیات ۔۔۔ ) پڑھتے تھے ۔ اور اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے ۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  شیطان کے بیٹھنے کی طرح بیٹھنے سے منع فرماتے تھے ۔ ( اپنی پنڈلیوں کو کھڑا کئے اور ہاتھوں کو زمین پر رکھے ہوئے سرین کے بل بیٹھنا ) اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اِس سے منع کرتے تھے کہ کوئی آدمی ( سجدے کی حالت میں ) درندوں کی طرح اپنے دونوں بازووں کو زمین پر بچھائے ۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کا اختتام سلام کے ساتھ کرتے تھے ۔ ‘‘ [ مسلم : ۴۹۸ ]

لہٰذا رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقۂ نماز کی طرح ارکان ِ نماز کو نہایت اطمینان اور اعتدال کے ساتھ پورا کرنا چاہئے ۔ ورنہ یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ جو شخص اعتدال واطمینان کے بغیر نماز پڑھتا ہے   وہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مطابق بد ترین چور ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( أَسْوَأُ النَّاسِ سَرِقَۃً الَّذِیْ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہِ )

’’ لوگوں میں بد ترین چور وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے ۔‘‘

تو صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : کوئی شخص اپنی نماز میں سے کیسے چوری کر سکتا ہے ؟

تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( لَا یُتِمُّ رُکُوعَہَا وَلَا سُجُودَہَا ) أَوْقَالَ : ( لَا یُقِیْمُ صُلْبَہُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ )

’’ وہ  رکوع وسجود کو مکمل نہیں کرتا ۔ ‘‘ یا آپ نے فرمایا : ’’ وہ رکوع وسجود میں اپنی پیٹھ کو سیدھا نہیں کرتا ۔ ‘‘ [أحمد : ۲۲۶۹۵۔ وصححہ الأرناؤط فی تحقیق المسند ۔ والألبانی فی صحیح الترغیب : ۵۲۴]

7۔  سات اعضاء پر مکمل سجدہ نہ کرنا

بعض نمازی سجدہ اُن سات اعضاء پر مکمل نہیں کرتے جن پر سجدہ کرنے کا حکم اللہ تعالی نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ : عَلَی الْجَبْہَۃِ ۔ وَأَشَارَ بِیَدِہِ عَلٰی أَنْفِہِ ۔ وَالْیَدَیْنِ، وَالرُّکْبَتَیْنِ ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَیْنِ ) [  البخاری : ۸۱۲ ، ومسلم : ۴۹۰ ]

’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں ۔ پیشانی پر اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنی ناک کی طرف بھی اشارہ کیا ۔ (یعنی پیشانی اور ناک ایک ہی عضو ہوا ۔ ) اور دو ہاتھوں پر ، دو گھٹنوں پر اور پیروں کی انگلیوں پر ۔ ‘‘

اِس حدیث سے معلوم ہواکہ پیشانی کے ساتھ ناک کا بھی زمین پر لگنا ضروری ہے ۔ اسی طرح دونوں پیروں کی انگلیوں کا بھی ۔ جبکہ کئی لوگ صرف پیشانی زمین پر لگاتے ہیں اور ان کی ناک اس سے اٹھی ہوئی ہوتی ہے ۔ اور یہ غلط ہے ۔ اسی طرح پیروں کی انگلیوں کا زمین پر نہ لگانا بھی غلط ہے ۔ اِس طرح سجدہ نہیں ہوتا اور جب سجدہ نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی ۔

8۔  سجدے میں اپنے بازووں کو زمین پر بچھانا

بعض لوگ سجدے کی حالت میں اپنے بازووں کو زمین پر بچھا دیتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ صرف ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنا چاہئے اور اپنے بازووں کو زمین سے اٹھا کر رکھنا چاہئے ۔

حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( اِعْتَدِلُوْا فِی السُّجُودِ ، وَلَا یَبْسُطْ أَحَدُکُمْ ذِرَاعَیْہِ اِنْبِسَاطَ الْکَلْبِ )   [ البخاری : ۸۲۲ ومسلم : ۴۹۳ ]

’’ تم سجدے میں اعتدال اختیار کیا کرو ۔ اور تم میں سے کوئی شخص اپنے بازووں کو اس طرح نہ بچھائے جیسے کتا بچھاتا ہے ۔ ‘‘

9۔  تشہد میں کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے انگشت ِ شہادت کو اٹھانا

بعض لوگ تشہد کی حالت میں ( التحیات ۔۔۔) پڑھتے ہوئے جب کلمۂ شہادت پر پہنچتے ہیں تو اسی میں بس ایک بارانگشت ِ شہادت کو اٹھاتے اور پھر نیچے کو کر لیتے ہیں ۔ اور یہ غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پورے تشہد میں ، شروع سے لے کر آخر تک اپنی انگلی ٔ شہادت کو حرکت دیتے رہتے تھے ۔ جیسا کہ وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

( ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَہُ ، وَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا ، یَدْعُوْ بِہَا ) [النسائی : ۸۸۹ ، ۱۲۶۸۔ وصححہ الألبانی ]

’’ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے انگلی کو اٹھایا ۔ اور میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ دعا بھی کر رہے ہیں ۔ ‘‘

اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پورے تشہد میں اپنی انگشت ِ شہادت کو اٹھا کر اسے حرکت دیتے رہتے تھے ۔ لہذا اسی طرح کرنا چاہئے ۔

4۔  با جماعت نماز میں نمازیوں کی اخطاء

1۔  جماعت کے ساتھ ملنے کیلئے دوڑتے ہوئے آنا

بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ امام کے ساتھ رکوع کی حالت میں ملنے کیلئے جلد بازی کرتے ہیں اور دوڑتے ہوئے آکر صف میں مل جاتے ہیں ۔ اور یہ غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گر امی ہے :

(إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَۃَ فَامْشُوْا إِلَی الصَّلَاۃِ،وَعَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ وَالْوَقَارِ ، وَلَاتُسْرِعُوْا، فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا ، وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوْا )  [ البخاری : ۶۳۶ ]

’’ جب تم اقامت کی آواز سن لو تو نماز کی طرف چل کر آؤ ۔ اور تم پر لازم ہے کہ تم پرُ سکون اور با وقار انداز سے چلو ۔ اور جلدی نہ کرو ۔ پھر تم جو نماز ( امام کے ساتھ ) پا لو وہ پڑھ لو ۔ اور جو نماز تم سے فوت ہو جائے تو اسے مکمل کر لو ۔ ‘‘

2۔  اقامت ہونے کے بعد سنتیں شروع کرنا ، یا سنتیں جاری رکھنا

بعض لوگ اقامت ہونے کے بعد فرض نماز کی جماعت میں شامل ہونے کی بجائے سنتیں پڑھناشروع کردیتے ہیں ۔ یا اگر وہ سنتیں پڑھ رہے ہوں اور اُدھر اقامت ہو جائے تو وہ پھر بھی سنتیں جاری  رکھتے ہیں ۔  اور یہ غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ ، فَلَا صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوبَۃَ )   [ مسلم : ۷۱۰ ]

’’ جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو پھر کوئی نماز نہیں ہوتی سوائے فرض نماز کے ۔ ‘‘

اور جہاں تک فجر کی سنتوں کا تعلق ہے تو وہ اگر فرض نماز سے پہلے نہ پڑھی جا سکیں تو نماز کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہیں ۔ جیسا کہ قیس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے تو نماز کی اقامت کہی گئی ۔ چنانچہ میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی ۔ پھر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   جانے لگے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( مَہْلًا یَا قَیٍْسُ ! أَصَلَاتَانِ مَعًا ؟ )  ’’ ٹھہر جاؤ  قیس ! کیا دو نمازیں ایک ساتھ ؟ ‘‘ تو میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے فجر کی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( فَلَا إِذَنْ )  ’’ تب کوئی حرج نہیں ہے ۔ ‘‘ [ الترمذی : ۴۲۲ ۔ وصححہ الألبانی ]

3۔ صفوں کو سیدھا نہ کرنا یا مل کر کھڑا نہ ہونا

بعض نمازی صفوں کو سیدھا کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کا اہتمام نہیں کرتے ۔ چنانچہ وہ صفوں میں آگے پیچھے ہوتے ہیں یا ان کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے ۔ اور یہ غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  فرمایا کرتے تھے : ( سَوُّوْا صُفُوفَکُمْ فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ )  [ البخاری : ۷۲۳]

’’ تم صفیں برابر کرو ، کیونکہ صفیں برابر کرنا نماز کو قائم کرنے سے ہے ۔ ‘‘

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ( سَوُّوْا صُفُوفَکُمْ فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ )  [ مسلم : ۴۳۳]

’’ تم صفیں برابر کرو ، کیونکہ صف کو برابر کرنا نماز کو مکمل کرنے سے ہے ۔ ‘‘

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نماز اُس وقت قائم نہیں ہوتی یا اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں صفیں سیدھی نہ کی جائیں ۔ اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  صفیں سیدھی کرنے کا اِس قدر اہتمام کرتے تھے کہ نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں : ( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  یُسَوِّیْ صُفُوفَنَا حَتّٰی کَأَنَّمَا یُسَوِّیْ بِہَا  الْقِدَاحَ )  [ مسلم : ۴۳۶ ]

’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہماری صفوں کو سیدھا کرتے تھے ، حتی ایسے لگتا تھا کہ جیسے آپ ان کے ساتھ تیر کی لکڑی کو سیدھا کر رہے ہوں ۔ ‘‘

اور ابو مسعود کہتے ہیں کہ ( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  یَمْسَحُ مَنَاکِبَنَا فِی الصَّلَاۃِ وَیَقُولُ : اسْتَوُوْا وَلَا تَخْتَلِفُوْا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُکُمْ )   [ مسلم : ۴۳۲]

’’ رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے تھے : تم برابر ہو جاؤ اور آگے پیچھے نہ ہٹو ورنہ تمھارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔ ‘‘

اور جہاں تک مل کر کھڑے ہونے کا تعلق ہے تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے :

(  أَقِیْمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوْا بَیْنَ الْمَنَاکِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ ، وَلِیْنُوْا بِأَیْدِیْ إِخْوَانِکُمْ ، وَلَا تَذَرُوْا فُرُجَاتٍ لِلشَّیْطَانِ ، وَمَنْ وَّصَلَ صَفًّا وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَہُ اللّٰہُ )   [ ابو داؤد : ۶۶۶۔ وصححہ الألبانی ]

’’ تم صفیں سیدھی کرو ۔ اور کندھوں کو برابر کرو ۔ اور خالی جگہ کو پُر کرو ۔ اور اپنے بھائیوں کو صف میں ملنے کا موقع فراہم کرو ۔ اور شیطان کیلئے خالی جگہیں نہ چھوڑو ۔ اور جو شخص صف کو ملائے گا اسے اللہ تعالی ( اپنی رحمت سے ) ملائے گا ۔ اور جو صف کو کاٹے گا اسے اللہ تعالی ( اپنی رحمت سے ) کاٹ دے گا ۔ ‘‘

اسی طرح جابر بن سمرۃ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( أَلَا تَصُفُّوْنَ کَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا ؟ )

’’ کیا تم اُس طرح صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں ؟ ‘‘

تو ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں ؟

تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( یُتِمُّوْنَ الصُّفُوفَ الْأوَّلَ فَالْأوَّلَ ، وَیَتَرَاصُّوْنَ فِی الصُّفُوفِ )  [ مسلم : ۴۳۰ ]

’’ وہ صفیں مکمل کرتے ہیں ، پہلے آگے والی صف اور پھر اس کے بعد والی ۔ اور وہ صفوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ ‘‘

اور حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  اِس کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کس طرح صفوں میں مل کر کھڑے ہوتے تھے ۔ وہ فرماتے ہیں : ( کَانَ أَحَدُنَا یُلْزِقُ مَنْکِبَہُ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہِ وَقَدَمَہُ بِقَدَمِہِ )  [ البخاری : ۷۲۵ ]

’’ ہم میں سے ہر ایک اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے قدموں کو اس کے قدموں سے ملاتا تھا۔ ‘‘

اور نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ( فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یُلْزِقُ مَنْکِبَہُ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہِ وَرُکْبَتَہُ بِرُکْبَۃِ صَاحِبِہِ وَکَعْبَہُ بِکَعْبِہِ )  [ ذکر بعضہ البخاری تعلیقا ، ورواہ أبو داؤد : ۶۶۲ واللفظ لہ ،وصححہ الألبانی ]

’’ چنانچہ میں نے دیکھا کہ ہر آدمی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملائے ہوئے ہے ۔ ‘‘

عزیز القدر بھائیو ! صف میں خالی جگہ کو پُر کرنے کی اتنی زیادہ فضیلت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں : ( مَنْ سَدَّ فُرْجَۃً رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً ، وَبَنَی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ )  [ رواہ الطبرانی ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب : ۵۰۵ ]

’’ جو شخص خالی جگہ کو پُر کرے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

لہٰذا ہمیں یہ فضیلت حاصل کرنے کیلئے صفوں میں موجود خلاء کو پُر کرنا چاہئے ۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ اپنے پیروں کو اپنے جسم کی ضخامت کے مطابق ہی کھولنا چاہئے ۔ اس سے زیادہ نہیں ۔ کیونکہ اگر اپنے جسم کی ضخامت سے زیادہ اپنے پیروں کو دائیں بائیں پھیلائیں گے تو اس کے نتیجے میں کندھوں کے ساتھ کندھے نہیں ملیں گے ۔ لہٰذا حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے ۔

4۔  نماز کے اعمال میں امام سے سبقت لے جانا

بعض لوگ نماز میں جلد بازی کرتے ہیں اور امام سے سبقت لے جاتے ہیں ۔ مثلا امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں چلے جاتے ہیں ، یا اس سے پہلے رکوع سے سر اٹھا لیتے ہیں ، یا اس سے پہلے سجدے سے سر اٹھا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ بالکل غلط ہے ۔

حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف منہ کرکے ارشاد فرمایا :

( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنِّی إِمَامُکُمْ فَلَا تَسْبِقُوْنِی بِالرُّکُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ وَلَا بِالْقِیَامِ وَلَا بِالْإِنْصِرَافِ۔۔۔۔ )  [ مسلم : ۴۲۶]

’’ اے لوگو ! میں تمھارا امام ہوں ، لہٰذا تم مجھ سے سبقت نہ لے جاؤ رکوع میں اور نہ سجدے میں ۔ اور نہ قیام میں اور نہ سلام پھیرنے میں ۔ ‘‘

اور امام سے سبقت لے جانا اتنا سنگین جرم ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( أَمَا یَخْشَی الَّذِیْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَن یُّحَوِّلَ اللّٰہُ رَأْسَہُ رَأْسَ حِمَارٍ )  [ البخاری : ۶۹۱ ، مسلم : ۴۲۷ واللفظ لہ ]

’’ وہ شخص جو امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے توکیا وہ اِس سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالی اُس کے سر کو گدھے کے سر میں تبدیل کردے  ؟ ‘‘

اور حضرت براء  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ

( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  إِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ : لَمْ یَحْنِ أَحَدٌ مِّنَّا ظَہْرَہُ حَتّٰی یَقَعَ النَّبِیُّ  صلی اللہ علیہ وسلم  سَاجِدًا ، ثُمَّ نَقَعُ  سُجُودًا بَعْدَہُ)  [البخاری : ۶۹۰]

’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ  کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ کو نہیں جھکاتا تھا ، یہاں تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سجدے میں چلے جاتے ۔ پھر ہم بھی سجدے میں گر جاتے ۔ ‘‘

5۔  پیاز یا لہسن وغیرہ کھا کر با جماعت نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں آنا

بعض لوگ کچا پیاز یا کچا لہسن کھانے کے بعد سیدھے مسجد میں چلے آتے ہیں ، جبکہ ان کے منہ سے بد بو آرہی ہوتی ہے ۔ پھر اسی حالت میں وہ نماز بھی پڑھتے ہیں جو کہ بہت بڑی غلطی ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( مَنْ أَکَلَ ثَوْمًا أَوْ بَصَلًا فَلْیَعْتَزِلْنَا ، أَوْ لِیَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا ، وَلْیَقْعُدْ فِی بَیْتِہِ)  [ البخاری : ۸۵۵ ، مسلم : ۵۶۴]

’’ جو شخص لہسن یا پیاز کھائے تو وہ ہم سے دور رہے ( یا آپ نے فرمایا )  وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے ۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے ( مَنْ أَکَلَ الْبَصَلَ وَالثَّوْمَ وَالْکُرَّاثَ فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ بَنُو آدَمَ ) [ مسلم : ۵۶۴]

’’ جو شخص پیاز ، لہسن اور کڑی کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب تک نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو بھی ہر اُس چیز سے اذیت پہنچتی ہے جس سے انسانوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ ‘‘

محترم حضرات ! ہم نے نمازیوں کی بہت ساری اخطاء کی نشاندہی کر دی ہے ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان اخطاء سے بچیں اور نمازیں سنت ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق پڑھیں ۔ تاکہ ان کی نمازیں اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہو جائیں ۔ اللہ تعالی سب کو اِس کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! آخر میں نمازیوں کی کچھ مزید اخطاء کی نشاندہی بھی کرتے چلیں ۔

1۔  ان اخطاء میں سے ایک یہ ہے کہ بعض لوگ با جماعت نماز کے دوران اونچی آواز سے اذکار اور دعائیں وغیرہ پڑھتے ہیں ۔ جس سے ان کے دائیں بائیں نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے ۔ اور ایسا کرنا غلط ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( أَلَا إِنَّ کُلَّکُمْ مُّنَاجٍ رَبَّہُ ،فَلَا یُؤْذِیَنَّ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ، وَلَا یَرْفَعَنَّ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ بِالْقِرَائَ ۃِ )   [ أبو داؤد : ۱۳۳۴ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ خبردار ! تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرنے والا ہے ۔ لہذا تم میں سے کوئی بھی کسی کو ایذاء نہ پہنچائے اور تم میں سے کوئی کسی پر قراء ت کے ساتھ آواز بلند نہ کرے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( أَمَا إِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَا قَامَ فِی الصَّلَاۃِ فَإِنَّہُ یُنَاجِیْ رَبَّہُ ، فَلْیَعْلَمْ أَحَدُکُمْ مَّا یُنَاجِیْ رَبَّہُ ، وَلَا یَجْہَرْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ  بِالْقِرَائَ ۃِ فِی الصَّلَاۃِ )  [ مسند أحمد : ۴۹۲۸ ۔ وصححہ الأرناؤط ]

’’ خبردار ! تم میں سے کوئی شخص جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے ۔ لہٰذا اسے جان لینا چاہئے کہ وہ اپنے رب سے کیا سرگوشی کرتا ہے ۔ اور تم میں سے کوئی بھی کسی پر نماز میں قراء ت کے ساتھ آواز بلند نہ کرے ۔ ‘‘

2۔  موبائل ٹیلیفون کو کھلا چھوڑ دینا

بعض لوگ نماز کی حالت میں اپنے موبائل فون کھلے چھوڑ دیتے ہیں ، چنانچہ جب انھیں کوئی فون کرتا ہے تو ان کے موبائل سے عجیب وغریب آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ حتی کہ بعض لوگوں کے موبائلوں سے موسیقی اور گانوں کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اور یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ کیونکہ اِس سے پوری مسجد میں تشویش ہوتی ہے اور تمام نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہے ۔ اورستم بالائے ستم یہ ہے کہ اگر کسی کا فون بجنا شروع ہو تو صاحب ِ فون اسے بند کرنا بھی گوارا نہیں کرتا ، بلکہ بجتے بجتے جب تک وہ خود خاموش نہ ہو وہ اسے خاموش نہیں کراتا ۔

ہونا یہ چاہئے کہ نماز سے پہلے ہی تمام لوگ اپنے اپنے فون سیٹ بند کردیں ، یا کم ازکم سائلینٹ پہ کردیں ، تاکہ اگر کسی کا فون آئے بھی تو اس کی آواز نہ نکلے ۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسا کرنا بھول جائے ، پھر نماز کے دوران اس کے فون

کی گھنٹی بجے یا اس سے کسی قسم کی آواز آنا شروع ہو جائے تو وہ اسے فورا اپنی جیب سے نکالے اور نماز کے دوران ہی اسے بند کردے۔ اِس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ کیونکہ قراء تِ قرآن کے ساتھ اگر اپنی آواز کو بلند نہیں کیا جا سکتا تو اِس شیطانی آواز کو چلتا رہنے دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟

حیرت ہے ان لوگوں پر جو نماز کے اندر بھی شیطانی آوازوں کو بند نہیں کرتے ۔ ایک طرف قرآن پڑھا جا رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف شیطان کی آواز بجنا شروع ہو جاتی ہے !  ایسے لوگوں کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہئے اور اپنے موبائلوں کی شیطانی آوازوں سے اللہ کے گھروں کو پاک رکھنا چاہئے ۔

3۔  سلام پھیرتے ہی اپنی جگہ کو چھوڑ دینا

بہت سارے لوگ جماعت ختم ہوتے ہی اپنی جگہ چھوڑ کر یا توچلے جاتے ہیں یا دائیں بائیں یا آگے پیچھے ہو جاتے ہیں ۔ اور اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے اور وہیں اذکارمکمل کرنے کی جو فضیلت ہے وہ اس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :  ( ۔۔۔۔۔وَالْمَلاَئِکَۃُ یُصَلُّوْنَ عَلیٰ أَحَدِکُمْ مَادَامَ فِیْ مَجْلِسِہِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ ، یَقُوْلُوْنَ : اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ ، مَا لَمْ یُؤْذِ فِیْہِ ، مَا لَمْ یُحْدِثْ فِیْہِ)  [ البخاری : ۲۱۱۹ ، مسلم : ۶۴۹]

’’اور تم میں سے کوئی  جب تک اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اے اللہ!  اس پر رحم فرما ۔ اے اللہ!  اس کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ!  اس کی توبہ قبول فرما ۔  وہ بدستور اسی طرح دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ کسی کو اذیت نہ دے یا اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے ۔ ‘‘

لہٰذا فرض نماز کے بعد نمازی کو اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہنا چاہئے ۔ اور اسی دوران اسے مسنون اذکار مکمل کرنے چاہئیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کی نمازیں قبول فرمائے ۔ اور ہمیں اپنی منشاء اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق نمازیں پڑھنے کی توفیق دے ۔