نماز نفل کے فضائل ومسائل(۲)

اہم عناصر خطبہ :

01.تہجد کا مفہوم

02. نمازتہجد کا حکم

03.نمازتہجد کے بعض فضائل

04. نماز تہجد کا سب سے افضل وقت

05.نماز تہجد کی رکعات

06.نماز تہجد کے بعض آداب

07. نماز وتر

08.قیام اللیل کیلئے معاون اسباب

محترم حضرات ! گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے نماز نفل کے فضائل ومسائل کے علاوہ اس کی بعض اقسام ذکر کی تھیں اور آج کا خطبہ بھی اسی موضوع کی ایک کڑی ہے۔ لہٰذا آج ہم ان شاء اللہ تعالیٰ نماز تہجد کے فضائل وآداب اور اسی طرح نماز وتر کے بعض فضائل ومسائل قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کریں گے۔

1۔نمازِ تہجد سنت مؤکدہ ہے

نمازِ تہجد کی عظمت واہمیت کی بناء پراللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا:

﴿ یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ٭ قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلِیْلاً ٭ نِصْفَہُ أَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً ٭ أَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ﴾ المزمل: 4-1

’’ اے کپڑا اوڑھنے والے ! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی قیام کیجئے ، رات کا آدھا حصہ یا اس سے کچھ کم کر لیجئے ،یا اس سے زیادہ کیجئے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجئے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا :﴿وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ الإسراء17: 79

’’ اور رات کو تہجد ادا کیجئے ، یہ آپ کیلئے زائد کام ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز کردے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا :﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ تَنْزِیْلاً ٭ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تُطِعْ مِنْہُمْ آثِمًا أَوْ کَفُوْرًا ٭ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً ٭ وَمِنَ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہُ وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاً﴾ الإنسان76:26-23

’’ ہم نے ہی آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے ۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجئے ۔ اور ان میں سے کسی گنہگار یا نا شکرے کی بات نہ مانئے ۔ اور صبح وشام اپنے رب کانام ذکر کیجئے ۔ اور رات کو بھی اس کے حضور سجدہ کیجئے۔ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کیجئے ۔ ‘‘

ان تمام آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور اس کی تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے طویل رات تک قیام فرماتے اور اس پر ہمیشگی فرماتے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازتہجد سنت مؤکدہ ہے ۔

بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نمازکا اتنا اہتمام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے۔ میں عرض کرتی : اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے : (( أَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا )) ’’ کیا میں شکر گزا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘ صحیح البخاری:4837، صحیح مسلم :2820

اور حضرت عبد اللہ بن رواحۃ رضی اللہ عنہ نے چند اشعار میں آپ کے قیام کی کیفیت یوں بیان کی:

وَفِیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ یَتْلُو کِتَابَہُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الْفَجْرِ سَاطِعُ

یَبِیْتُ یُجَافِی جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْکَافِرِیْنَ الْمَضَاجِعُ

’’ اور ہم میں ایک ایسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اس وقت کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں جب صبح صادق کی روشنی پھیلتی ہے ۔ اور آپ رات اس حالت میں گذارتے ہیں کہ آپ کا پہلو بستر سے دور رہتا ہے جبکہ کافر اس وقت اپنی گہری نیند میں مست ہوتے ہیں ۔ ‘‘

لہٰذا ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے رات کو نماز تہجد کا اہتمام کرنا چاہئے ۔

02. نماز تہجد کے فضائل

01. نمازِ تہجد دخولِ جنت کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ بڑی تیزی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے ( اور آپ کا استقبال کیا) اور ہر جانب یہ آواز لگائی گئی کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ۔ چنانچہ میں بھی لوگوں میں شامل ہو گیا تاکہ آپ کو دیکھ سکوں ۔ پھر جب میں نے آپ کا چہرہ ٔانور دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہو سکتا ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سب سے پہلی حدیث سنی وہ یہ تھی : (( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! أَفْشُوْا السَّلَامَ،وَأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ،وَصِلُوْا الْأَرْحَامَ ،وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ، تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ )) سنن ابن ماجہ:1334،3251،سنن الترمذی:2485،1984والحاکم :13/3،واحمد: 451/5۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :569وإرواء الغلیل:239/3

’’ اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو اور رات کو اس وقت نماز پڑھا کرو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ ( اگر یہ کام کرو گے تو ) جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے ۔‘‘

اور کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

أَلْہَتْکَ لَذَّۃُ نَومَۃٍ عَنْ خَیْرِ عَیْشٍ مَعَ الْخَیْرَاتِ فِی غُرَفِ الْجِنَانِ

تَعِیْشُ مُخَلَّدًا لَا مَوتَ فِیْہَا وَتَنْعَمُ فِی الْجِنَانِ مَعَ الْحِسَانِ

تَیَقَّظْ مِنْ مَنَامِکَ إِنَّ خَیْرًا مِنَ النَّومِ التَّہَجُّدُ بِالْقُرْآنِ

’’ تجھے نیند کی لذت نے اس بہترین زندگی سے غافل کردیا ہے جو جنت کے بالا خانوں میں خوب سیرت عورتوں کے ساتھ ہو گی ، تم وہاں ہمیشہ رہو گے اور وہاں موت نہیں آئے گی ۔ تم جنت میں خوبصورت عورتوں کے ساتھ عیش کرو گے ۔ (لہٰذا) اپنی نیند سے بیدار ہو جاؤ ، کیونکہ نمازِ تہجد میں قرآن پڑھنا سونے سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ قیام اللیل للمروزی:90، التہجد وقیام اللیل لابن ابی الدنیا :317

02. قیام اللیل جنت کے بالا خانوں میں درجات کی بلندی کا ایک سبب ہے ۔

حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاہِرُہَا مِنْ بَاطِنِہَا،وَبَاطِنُہَا مِنْ ظَاہِرِہَا، أَعَدَّہَا اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ،وَأَلَانَ الْکَلَامَ،وَتَابَعَ الصِّیَامَ،وَأَفْشَی السَّلَامَ ،وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ )) أحمد :343/5،ابن حبان ( موارد الظمآن ):641،الترمذی (عن علی5):2527، وحسنہ الألبانی فی صحیح سنن الترمذی وصحیح الجامع :2119

الذاریات 51:15،18

’’ بے شک جنت میں ایسے بالاخانے ہیں کہ جن کا بیرونی منظر اندر سے اور اندرونی منظر باہر سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کیلئے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتا ہو ، بات نرمی سے کرتا ہو ، مسلسل روزے رکھتا ہو اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ ‘‘

03. قیام اللیل پر ہمیشگی کرنے والے متقین اور محسنین میں سے ہیں جو کہ اللہ کی رحمت اور اس کی جنت کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ. آخِذِیْنَ مَا آتَاہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ. کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ. وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ الذاریات 51:15،18

’’بلا شبہ متقی ( اس دن ) باغات اور چشموں میں ہونگے ۔جو کچھ ان کا رب ان کو دے گا وہ لے لیں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔ وہ رات کو کم سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت مغفرت مانگا کرتے تھے ۔ ‘‘

04. اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے ضمن میں قیام اللیل کرنے والوں کی یوں تعریف فرمائی :

﴿وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا﴾ الفرقان25 : 64

’’ اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں رات گذارتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بعض اوصاف ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

﴿اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ . اَلصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْأَسْحَارِ ﴾ آل عمران:17-16

’’(اس کے بندے دعا کرتے ہوئے ) کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے ہیں۔ لہٰذا ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے ۔ یہ لوگ صبر کرنے والے ، سچ بولنے والے ، فرمانبردار ، خرچ کرنے والے اور رات کے آخری حصے میں استغفار کرنے والے ہیں ۔ ‘‘

05. اللہ تعالیٰ نے قیام اللیل کرنے والوں کے ایمانِ کامل کی شہادت یوں دی :

﴿إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِہَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ . تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ ٭ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ السجدہ 32:17-15

’’ہماری آیات پر تو وہی ایمان لاتے ہیں کہ جب انہیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ۔ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے کیا چیزیں ان کیلئے چھپا کر رکھی گئی ہیں۔یہ ان کاموں کا بدلہ ہو گا جو وہ کیا کرتے تھے ۔ ‘‘

06.اللہ تعالیٰ نے قیام کرنے والوں کو ان لوگوں کے برابر قرار نہیں دیا جو قیام نہیں کرتے اور اس نے ان ایمان والوں کواصحابِ علم قرار دیا ہے جو رات کو قیام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا مرتبہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ بڑا بیان کیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًا یَّحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُوْ رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ﴾ الزمر39:9

’’ کیا ( یہ بہتر ہے ) یا جو شخص رات کے اوقات سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کرتے گذارتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے۔ ان سے پوچھئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ مگر ان باتوں سے سبق تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔ ‘‘

07. قیام اللیل گناہوں کو مٹاتا اور برائیوں سے روکتا ہے

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَإِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ ،وَہُوَ قُرْبَۃٌ إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمُکَفِّرٌ لِلسَّیِّئَاتِ،وَمَنْہَاۃٌ لِلْآثَامِ )) سنن الترمذی:3549، الحاکم:308/1،البیہقی :502/2،وحسنہ الألبانی فی صحیح سنن الترمذی،وإرواء الغلیل : 452

’’ تم قیام اللیل ضرور کیا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کی عادت تھی ، اس سے تمہیں تمہارے رب کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، یہ گناہوں کو مٹانے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہے ۔ ‘‘

08.فرض نماز کے بعد قیام اللیل سب سے افضل نماز ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِتہجدکی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

(( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ : شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ : صَلَاۃُ اللَّیْلِ)) صحیح مسلم :1163

’’ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں ، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز ہے ۔ ‘‘

09. مومن کا شرف قیام اللیل میں ہے

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:

( یَا مُحَمَّدُ!عِشْ مَا شِئْتَ فَإِنَّکَ مَیِّتٌ،وَأَحْبِبْ مَنْ شِئْتَ فَإِنَّکَ مُفَارِقُہُ، وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَإِنَّکَ مَجْزِیٌّ بِہٖ) ثُمَّ قَالَ : یَا مُحَمَّدُ ! شَرَفُ الْمُؤْمِنِ قِیَامُ اللَّیْلِ، وَعِزُّہُ اسْتِغْنَاؤُہُ عَنِ النَّاسِ )

’’ اے محمد ! آپ جتنا عرصہ چاہیں زندہ رہیں ، آخر کار آپ پر موت ہی آنی ہے۔ اور جس سے چاہیں محبت کر لیں ، آخر کار آپ اس سے جدا ہونے والے ہیں ۔ اور آپ جو چاہیں عمل کریں ، آپ کو اس کا بدلہ ضرور دیا جائے گا ۔‘‘ پھر انہوں نے کہا : ’’ اے محمد ! مومن کا شرف قیام اللیل میں ہے ۔ اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے ۔ ‘‘ الحاکم:325/4۔ وصححہ ووافقہ الذہبی،وحسن إسنادہ المنذری فی الترغیب والترہیب :640/1 وحسنہ الألبانی فی الصحیحۃ :831

10. قیام اللیل کے عظیم ثواب کی بناء پر قیام کرنے والا قابلِ رشک ہے ، کیونکہ قیام دنیا اورا س کے اندر جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا حَسَدَ إِلَّا فِیْ اثْنَتَیْنِ : رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَقُوْمُ بِہٖ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ،وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ )) صحیح مسلم : 815

’’ صرف دو آدمی ہی قابلِ رشک ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا (اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) اور وہ اس کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں قیام کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔ ‘‘

11.قیام اللیل میں قراء تِ قرآن کرنا بہت بڑی غنیمت ہے

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آیَاتٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ،وَمَنْ قَامَ بِمِائَۃِ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِیْنَ،وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِیْنَ )) سنن أبی داؤد:1398،وابن خزیمہ:181/2:1142،وصححہ الألبانی فی صحیح سنن ابی داؤد والصحیحۃ :643

’’ جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ غافلوں میں نہیں لکھا جاتا ۔ اور جو شخص سو آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ فرمانبرداروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔اور جو شخص ایک ہزار آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے اسے اجر وثواب کے خزانے حاصل کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ ‘‘

03. قیام اللیل کا سب سے افضل وقت رات کاآخری تہائی حصہ ہے

نمازِ تہجد کا سب سے افضل وقت رات کاآخری تہائی حصہ ہے تاہم رات کے ابتدائی حصے میں ، درمیانے حصے میں اور اس کے آخری حصے میں بھی تہجد پڑھنا جائز ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں اس قدر روزے چھوڑتے کہ ہم یہ گمان کرتے کہ آپ نے اس میں سرے سے روزے رکھے ہی نہیں ۔ اور کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے کہ ہم یہ گمان کرتے کہ آپ نے کبھی روزہ چھوڑا ہی نہیں ۔ اور رات کے جس حصہ میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ضرور دیکھ لیتے ۔ اور جس حصہ میں آپ کو سوئے ہوئے دیکھنا چاہتے دیکھ لیتے ۔ صحیح البخاری :1141

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اس مسئلہ میں آسانی ہے اور کوئی مسلمان رات کے کسی حصے میں جب بآسانی قیام اللیل کرسکتا ہو تو وہ کر لے ۔ تاہم رات کے آخری تہائی حصے میں کرنا افضل ہے ۔

جیسا کہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ الْآخِرِ،فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُوْنَ مِمَّنْ یَّذْکُرُ اللّٰہَ فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ فَکُنْ )) سنن الترمذی :3579، سنن أبی داؤد:1277، سنن النسائی:572۔ وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب رات کے آخری حصے کا وسط ہوتا ہے ، لہٰذا اگر تم اس بات کی طاقت رکھو کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ تو ایسا ضرور کرنا ۔ ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ)) وفی روایۃ لمسلم : (( فَلَا یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ )) صحیح البخاری :1145،6321،7494، صحیح مسلم :758

’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے جب ہر رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے ۔ ‘‘

اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ فِیْ اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لَا یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اللّٰہَ خَیْرًا مِّنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَۃٍ )) صحیح مسلم :757

’’بے شک ہر رات کو ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں کوئی مسلمان بندہ جب اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی ضرور عطا کرتا ہے ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَحَبُّ الصَّلَاۃِ إِلیَ اللّٰہِ صَلَاۃُ دَاؤُدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، وَأَحَبُّ الصِّیَامِ إِلیَ اللّٰہِ صِیَامُ دَاؤُدَ، وَکاَنَ یَنَامُ نِصْفَ اللَّیْلِ وَیَقُوْمُ ثُلُثَہُ،وَیَنَامُ سُدُسَہُ،وَیَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا،وَلَا یَفِرُّ إِذَا لَاقٰی)) صحیح البخاری:1131،1979، صحیح مسلم :1159

’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب نماز حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب روزے حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں۔ وہ آدھی رات سوتے تھے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے تھے اور اس کا چھٹا

حصہ سو جاتے تھے ۔ اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے۔ اور جب (دشمن سے ) ملاقات کرتے تو راہِ فرار اختیار نہ کرتے ۔ ‘‘

04.رکعاتِ نماز تہجد

نماز تہجد یا قیام اللیل کیلئے کوئی ایک عدد خاص نہیں کیا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( صَلَاۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی،فَإِذَا خَشِیَ أَحَدُکُمُ الصُّبْحَ صَلّٰی رَکْعَۃً وَّاحِدَۃً تُوْتِرُ لَہُ مَا قَدْ صَلّٰی )) صحیح البخاری :990، صحیح مسلم :749

’’ رات کی نفل نماز دو دو رکعات ہے ۔ لہٰذا تم میں سے کسی شخص کو جب صبح کے طلوع ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ ایک رکعت ادا کر لے جو اس کی نماز کو وتر (طاق ) بنا دے گی ۔ ‘‘

تاہم افضل یہ ہے کہ گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھی جائیں ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناعمل یہی تھا ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے(جسے لوگ العتمۃ یعنی رات کی نماز کہتے ہیں ) فارغ ہو کر فجر کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے ۔ ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیتے ۔۔۔۔ صحیح مسلم :736

اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

(مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلاَ ِفیْ غَیْرِہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً ۔۔۔۔) صحیح البخاری :1147، صحیح مسلم :738

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور اس کے علاوہ باقی تمام مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔‘‘

جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ) صحیح مسلم :764

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات پڑھتے تھے ۔ ‘‘

05. قیام اللیل کے آداب

01. سوتے وقت قیام اللیل کی نیت کرے اور نیند کے ذریعے اطاعت کیلئے طاقت کے حصول کا ارادہ کرے تاکہ اس کی نیند پر بھی اسے ثواب حاصل ہو ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( مَا مِنِ امْرِیئٍ تَکُوْنُ لَہُ صَلَاۃٌ بِلَیْلٍ فَغَلَبَہُ عَلَیْہَا نَوْمٌ إِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ أَجْرَ صَلَاتِہٖ ، وَکَانَ نَوْمُہُ صَدَقَۃً عَلَیْہِ )) سنن النسائی :1784،سنن أبی داؤد :1314،المؤطأ :117/1۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص رات کو نماز پڑھنے کا عادی ہو ، لیکن ( کسی رات ) اس پر نیند غالب آجائے تو اس کیلئے اس کی نماز کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اور اس کی نیند اس کیلئے صدقہ ہوتی ہے ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ أَتٰی فِرَاشَہُ وَہُوَ یَنْوِیْ أَنْ یَّقُوْمَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ فَغَلَبَتْہُ عَیْنَاہُ حَتّٰی أَصْبَحَ کُتِبَ لَہُ مَا نَوٰی ، وَکَانَ نَوْمُہُ صَدَقَۃً عَلَیْہِ مِنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ )) سنن النسائی :687۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص اپنے بستر پر اس نیت کے ساتھ آئے کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر اس پر نیند غالب آگئی یہاں تک کہ اس نے صبح کر لی تو اس کیلئے اس کی نیت کے مطابق اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اس کی نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کیلئے صدقہ ہوتی ہے ۔ ‘‘

02. بیدار ہوتے وقت نیند کے آثار ختم کرنے کی غرض سے اپنا ہاتھ منہ پرپھیرے ، پھر (بیدار ہونے کی ) دعا پڑھے اور اس کے بعد مسواک کرکے یہ دعا پڑھے :

(لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ) صحیح البخاری:1154

’’ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کیلئے ساری بادشاہت ہے اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں ۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے ، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اور اللہ پاک ہے ۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اوراللہ کی توفیق کے بغیر نہ کسی برائی سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ کچھ کرنے کی۔ اے میرے اللہ ! مجھے معاف کردے ۔ ‘‘

کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جو شخص رات کو بیدار ہو ، پھر یہ دعا پڑھے تواس کے بعد وہ جو دعا بھی کرتا ہے اسے قبول کیا جاتا ہے ۔ ‘‘

03.رات کی نفل نماز کا آغازدو ہلکی سی رکعات سے کرے ۔وضو کے بعد کی اس نماز کو اہل علم ’تحیۃ الوضوء ‘ کانام دیتے ہیں ۔ اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کی غرض سے کھڑے ہوتے تو اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی پھلکی رکعات سے کرتے۔ صحیح مسلم : 767

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ مِنَ اللَّیْلِ فَلْیَفْتَتِحْ صَلَاتَہُ بِرَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ )) صحیح مسلم :768

’’ تم میں سے کوئی شخص جب رات کے قیام کیلئے کھڑا ہو تو دو ہلکی پھلکی رکعات سے اپنی نماز کا افتتاح کرے۔‘‘

04. نمازِ تہجدگھر میں پڑھنا مستحب ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ہی تہجد پڑھتے تھے۔

اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( ۔۔فَعَلَیْکُمْ بِالصَّلَاۃِ فِیْ بُیُوْتِکُمْ،فَإِنَّ خَیْرَ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا الصَّلَاۃُ الْمَکْتُوْبَۃُ )) صحیح البخاری:731،صحیح مسلم :781

’’ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ تم اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھا کرو کیونکہ آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں ادا کرے سوائے فرض نماز کے۔ ‘‘

05. قیام اللیل بغیر انقطاع کے ہمیشہ جاری رکھنا چاہئے۔ اور بہتر یہ ہے کہ مسلمان چند معلوم رکعات پر ہمیشگی کرے ۔ اگر وہ ہشاش بشاش ہو تو ان میں لمبا قیام کرے اور اگر اس میں سستی ہو تو ہلکا قیام کرے ۔ اور اگر وہ رکعات اس سے فوت ہو جائیں تو وہ انہیں قضا کرے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( خُذُوْا مِنَ الْأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ،فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا،وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلیَ اللّٰہِ مَا دُوْوِمَ عَلَیْہِ وَإِنْ قَلَّ)) صحیح البخاری :1970، صحیح مسلم :782۔ واللفظ لہ

’’ تم اپنی طاقت کے مطابق ہی عمل کیا کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم خود نہ اکتا

جاؤ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے چاہے وہ کم کیوں نہ ہو۔ ‘ ‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :

(( یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! لَا تَکُنْ مِثْلَ فُلَانٍ ، کَانَ یَقُوْمُ اللَّیْلَ فَتَرَکَ قِیَامَ اللَّیْلِ )) صحیح البخاری :1152، صحیح مسلم :1159

’’ اے عبد اللہ ! تم فلاں آدمی کی طرح نہ بنو کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا پھر اس نے قیام اللیل کوچھوڑ دیا۔ ‘‘

06. اگر اس پر اونگھ طاری ہو تو اسے قیام اللیل ترک کرکے سو جانا چاہئے یہاں تک کہ اس سے اونگھ کے آثار ختم ہو جائیں اور وہ ہشاش بشاش ہو جائے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا نَعَسَ أَحَدُکُمْ فِیْ الصَّلَاۃِ فَلْیَرْقُدْ حَتّٰی یَذْہَبَ عَنْہُ النَّوْمُ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَا صَلّٰی وَہُوَ نَاعِسٌ لَعَلَّہُ یَذْہَبُ یَسْتَغْفِرُ فَیَسُبُّ نَفْسَہُ )) صحیح البخاری : 212، صحیح مسلم :786

’’ تم میں سے کسی شخص کوجب حالتِ نماز میں اونگھ آئے تو وہ سو جائے یہاں تک کہ اس سے نیند کے آثار ختم ہوجائیں ، کیونکہ تم میں سے کوئی شخص جب حالتِ اونگھ میں نماز جاری رکھے تو ہو سکتا ہے کہ وہ استغفار کرنا چاہتا ہو لیکن وہ اپنے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردے ۔ ‘‘

07. اس کیلئے مستحب ہے کہ وہ قیام اللیل کیلئے اپنے اہلِ خانہ کو بھی بیدار کرے جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام کرتے ، پھر جب وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی ارشاد فرماتے :

(( قُوْمِیْ،فَأَوْتِرِیْ یَا عَائِشَۃُ )) صحیح البخاری :997، صحیح مسلم :744

’’ اے عائشہ ! اٹھو اور وتر پڑھ لو۔ ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلّٰی،ثُمَّ أَیْقَظَ امْرَأَتَہُ فَصَلَّتْ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِیْ وَجْہِہَا الْمَائَ،وَرَحِمَ اللّٰہُ امْرَأَۃً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ،ثُمَّ أَیْقَظَتْ زَوْجَہَا،فَإِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِیْ وَجْہِہِ الْمَائَ )) سنن النسائی:1610،ابن ماجہ :1336، ابو داؤد :1308۔ وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت فرمائے جو رات کو بیدار ہوا اور اس نے نماز پڑھی ، پھر اس نے اپنی بیوی کو بھی جگایا اور اس نے بھی نماز پڑھی ۔ اگر اس نے انکار کیا تو اس نے اس کے چہرے پر پانی چھڑکا ۔ اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحمت فرمائے جو رات کو بیدار ہوئی اور اس نے نماز پڑھی ، پھر اس نے اپنے خاوند کو بھی جگایا اور اس نے بھی نماز پڑھی ۔ اگر اس نے انکار کیا تو اس نے اس کے چہرے پر پانی چھڑکا ۔ ‘‘

اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِذَا اسْتَیْقَظَ الرَّجُلُ مِنَ اللَّیْلِ وَأَیْقَظَ امْرَأَتَہُ فَصَلَّیَا رَکْعَتَیْنِ،کُتِبَا مِنَ الذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَالذَّاکِرَاتِ )) سنن ابن ماجہ : 1335، سنن أبی داؤد :1309۔ وصححہ الألبانی

’’ جب ایک شخص رات کو بیدار ہو اور وہ اپنی بیوی کو بھی جگائے ، پھر وہ دو رکعات ادا کریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والوں اور ذکرنے والیوں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات کے وقت آئے اور آپ نے فرمایا : ( أَلَا تُصَلِّیَانِ؟ ) ’’ تم دونوں نماز نہیں پڑھتے ؟ ‘‘ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جب چاہے گا توہمیں اٹھا دے گا۔ میں نے جب یہ بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا تاہم جب آپ پیٹھ پھیر رہے تھے تو اس وقت میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ اپنی ران پر مارا اور فرمایا : (وَکَانَ الْإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا ) ’’انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری:1127،صحیح مسلم :775

اگرقیام اللیل کا اتنا زیادہ اجر وثواب نہ ہوتا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی اور اپنے چچا زاد کے پاس ایسے وقت میں نہ جاتے جسے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے آرام کیلئے بنایا ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے آرام و سکون پر قیام اللیل کی فضیلت کو ترجیح دی تاکہ وہ دونوں اسے حاصل کرسکیں ۔

اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا ہٹ کی حالت میں بیدار ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا :

(( سُبْحَانَ اللّٰہِ ! مَاذَا أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْخَزَائِنِ!وَمَاذَا أَنْزَلَ مِنَ الْفِتَنِ ! أَیْقِظُوْا صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ ۔ یُرِیْدُ أَزْوَاجَہُ حَتّٰی یُصَلِّیْنَ ۔ ، رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِیْ الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ فِیْ الْآخِرَۃِ )) صحیح البخاری :115 ، 1126،6218

’’ سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے کتنے خزانے نازل فرمائے ہیں اور کتنے فتنے اتارے ہیں ! ان حجروں والیوں کو جگا دو یعنی آپ کی ازواج مطہرات کو تاکہ وہ نماز پڑھ لیں ۔ دنیا میں لباس پہننے والی کئی عورتیں قیامت کے دن برہنہ ہونگی ۔ ‘‘

08. نماز تہجد پڑھنے والا شخص حسبِ طاقت اس میں قرآن مجید کی قراء ت کرے اور غور وفکر کے ساتھ کرے ۔ اور اسے اختیار ہے چاہے تو اونچی آواز سے کرے اور چاہے تو پست آواز سے کرے ۔ تاہم اگر اونچی آواز سے قراء ت کرنا اسے چست رکھنے کا باعث ہو ، یا اس کے پاس کوئی ایسا شخص ہو جو اس کی قراء ت سن رہا ہو ، یا اس سے فائدہ اٹھا رہا ہو تو پھر قراء ت جہرا کرنا افضل ہے ۔ اور اگر اس کے قریب کوئی اور شخص بھی تہجد پڑھ رہا ہو، یا اس کی اونچی آواز سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس حالت میں قراء ت سرا (پست آواز کے ساتھ ) کرنا افضل ہے اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو وہ جیسے چاہے قراء ت کرے ۔تاہم درمیانی آواز میں افضل ہے ۔

چنانچہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( نماز میں ) کھڑا ہوا ۔ آپ نے سورۃ البقرۃ کی قراء ت فرمائی ۔ آپ جب رحمت والی آیت سے گذرتے تو رک جاتے اور (رحمت کا ) سوال کرتے اور جب عذاب والی آیت سے گذرتے تو رک کر اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور وہ بھی اتنا ہی لمبا تھا جتنا قیام تھا ۔ آپ رکوع میں یہ دعا بار بار پڑھتے رہے : (سُبْحَانَ ذِیْ الْجَبَرُوْتِ ، وَالْمَلَکُوْتِ ، وَالْکِبْرِیَائِ ، وَالْعَظَمَۃِ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام ہی کے بقدر سجدہ کیا اور اس میں بھی یہی دعا پڑھتے رہے ۔ پھر آپ دوسری رکعت کیلئے کھڑے ہوئے تو اس میں سورۃ آل عمران کی تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورت پڑھتے رہے ۔ سنن أبی داؤد : 873، سنن النسائی :1049۔ وصححہ الألبانی

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے چار رکعات پڑھیں اور ان میں سورۃ البقر ۃ ، سورۃ آل عمران ، سورۃ النساء ، سورۃ المائدۃ اور سورۃ الأنعام کو پڑھا۔ سنن أبی داؤد :774۔ وصححہ الألبانی

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک شخص نے بتایا کہ وہ ایک ہی رکعت میں پوری مفصل سورتوں کو پڑھتا ہے۔ تو انہوں نے کہا : تم اشعار کی طرح قرآن کو انتہائی تیزی کے ساتھ پڑھتے ہو ! میں ان ملتی جلتی سورتوں کو جانتا ہوں جن کو ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے ، پھر انھوں نے بیس سورتیں ذکر کیں۔ صحیح البخاری :775، صحیح مسلم :822

مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : تم قرآن مجید کو شعروں کی طرح انتہائی تیزی کے ساتھ پڑھتے ہو ! بے شک کئی لوگ ایسے ہیں جو قرآن مجید کو پڑھتے ہیں لیکن قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا ۔ اور جب قرآن دل میں اتر جائے اور اس میں راسخ ہو جائے تو وہ اس کیلئے نفع بخش ہوتا ہے۔ اور نماز کا سب سے افضل حصہ رکوع وسجود والا حصہ ہے … صحیح مسلم :822

اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیام میں صبح ہونے تک ایک ہی آیت بار بار پڑھتے رہے اور وہ ہے: ﴿إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ سنن ابن ماجہ :1350 ۔ وحسنہ الألبانی

یہ تمام احادیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ رات کی نفل نماز میں اپنی جسمانی اور ایمانی طاقت کے مطابق اورجتنی اللہ تعالیٰ بندے کو توفیق دے ، اسے مختلف سورتوں کو پڑھنا چاہئے ۔

رہی یہ بات کہ قیام اللیل میں قراء ت جہرا ہو یا سرا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز میں قراء ت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ جہرا پڑھتے یا سرا ؟ تو انہوں نے جواب دیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں عمل کیا کرتے تھے ، کبھی جہرا اور کبھی سرا ۔ أحمد :149/6، ابو داؤد : 1437، الترمذی:2924،النسائی:1662،ابن ماجہ:1354 ۔ وصححہ الألبانی

اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اے ابو بکر ! آپ نماز پڑھ رہے تھے تو میں آپ کے پاس سے گذرا اور آپ کی آواز پست تھی۔ ‘‘

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں جس سے سرگوشی کر رہا تھا بس اسی کو سنا رہا تھا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اِرْفَعْ قَلِیْلًا) ’’ اپنی آواز تھوڑی سی اونچی کر لیا کرو۔ ‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : میں آپ کے پاس سے گذرا تو آپ نمازپڑھ رہے تھے اور آپ کی آواز اونچی تھی! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اِخْفِضْ قَلِیْلًا) ’’ اپنی آواز ذرا پست رکھا کرو ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد :1329 ،سننالترمذی:447۔ وصححہ الألبانی

09. نمازِ تہجد کا اختتام نمازِ وتر کے ساتھ کرے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( اِجْعَلُوْا آخِرَ صَلَاتِکُمْ بِاللَّیْلِ وِتْرًا )) ’’ تم رات کی آخری نماز وتر بناؤ ۔‘‘

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ( مَنْ صَلّٰی مِنَ اللَّیْلِ فَلْیَجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِہٖ وِتْرًا ( قَبْلَ الصّبُحِ ) فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم کَانَ یَأْمُرُ بِذٰلِکَ )

’’ جو شخص رات کو نفل نماز پڑھے وہ اس کے آخر میں ( صبح ہونے سے پہلے ) نمازِ وتر پڑھے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیا کرتے تھے ۔‘‘ صحیح البخاری : 998، صحیح مسلم :751

10.اپنی نیند اور اپنے قیام دونوں پر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کا طلبگار ہو

ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے آپس میں اعمال صالحہ کا مذاکرہ کیا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے عبد اللہ ( ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا نام) آپ قرآن کیسے پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں ہمیشہ دن رات پڑھتا رہتا ہوں ۔ اور اے معاذ ! آپ کیسے پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا: میں رات کے ابتدائی حصے میں سوتا ہوں ، پھر بیدار ہو کر قرآن پڑھتا ہوں جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ۔ یوں میں اپنی نیند پر بھی اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتا ہوں اور اپنے قیام پر بھی ۔ ۔۔۔۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ قرآن کیسے پڑھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں بیٹھے ہوئے ، کھڑے ہوئے ، اپنی سواری پر ہر حال میں اور دن اور رات میں ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں ۔ اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رات کو سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ۔ یوں میں نیند اور قیام دونوں پر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھتا ہوں ۔ صحیح البخاری :4341، صحیح مسلم :1733

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نماز تہجد پڑھنے کی توفیق دے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ نماز تہجد کا اختتام نماز وتر کے ساتھ کرنا چاہئے تو آئیے اب نماز وتر کے متعلق بھی چند ضروری گذارشات سماعت کر لیجئے ۔

01. نمازِوتر سنت ِ مؤکدہ ہے اور وتر رات کی نفل نماز کا حصہ ہے ۔ اور اس کی ( کم از کم ) ایک رکعت ہے جس کے ساتھ رات کی نفل نماز کا اختتام ہوتا ہے۔

حضرت ابو ایوب الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( اَلْوِتْرُ حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ،فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّوْتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْیَفْعَلْ،وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّوْتِرَ بِوَاحِدَۃٍ فَلْیَفْعَلْ )) سنن أبی داؤد:1422،سنن النسائی:1712،سنن ابن ماجہ:1190۔ وصححہ الألبانی

’’ نمازِ وتر ہر مسلمان پر حق ہے ، لہٰذا جو شخص تین وتر پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے ۔ اور جو شخص ایک وتر پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔ ‘‘

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(( اَلْوِتْرُ لَیْسَ بِحَتْمٍ کَصَلَاتِکُمُ الْمَکْتُوْبَۃِ،وَلٰکِنْ سُنَّۃٌ سَنَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم )) سنن الترمذی :454، سنن النسائی :1677، وغیرہما ۔ وصححہ الألبانی

’’ وتر فرض نماز کی طرح ضروری نہیں ، بلکہ یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہے ۔ ‘‘

02. وتر کی فضیلت :

وتر کی بڑی فضیلت ہے جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافۃ العدوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ أَمَدَّکُمْ بِصَلَاۃٍ وَہِیَ خَیْرٌ لَّکُمْ مِّنْ حُمُرِ النَّعَمِ ، وَہِیَ الْوِتْرُ، فَجَعَلَہَا لَکُمْ فِیْمَا بَیْنَ الْعِشَائِ إِلٰی طُلُوْعِ الْفَجْرِ )) سنن أبی داؤد:1418،الترمذی:452، ابن ماجہ:1168،والحاکم:306/1، وصححہ ووافقہ الذہبی

’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز زائد عطا کی ہے جو کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ ہے نمازِ وتر۔ اسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عشاء اور فجر کے درمیان رکھ دیاہے ۔ ‘‘

03. نمازِ وتر کا وقت :

01.نمازِ عشاء کے بعد طلوعِ فجر تک پوری رات نمازِ وتر کا وقت ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حضرت ابو بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ زَادَکُمْ صَلَاۃً وَہِیَ الْوِتْرُ، فَصَلُّوْہَا فِیْمَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْعِشَائِ إِلٰی صَلَاۃِ الْفَجْرِ )) أحمد :397/6،180/2،206،208۔ وصححہ الألبانی فی إرواء الغلیل: 258/2

’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز زیادہ عطا کی ہے اور وہ ہے نمازِ وتر ۔ لہٰذا تم اسے نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کے درمیان کسی وقت پڑھ لیا کرو۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کا وقت نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کے درمیان ہے چاہے کوئی شخص نمازِ عشاء اپنے وقت پر ادا کرے یا اسے مغرب کے ساتھ جمع تقدیم کرکے پڑھے ، کیونکہ وتر کا وقت نمازِ عشاء کے بعد سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔

اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ أَدْرَکَ الصُّبْحَ فَلَمْ یُوْتِرْ، فَلَا وِتْرَ لَہُ )) ابن حبان ۔ الإحسان : 168/6:2408،ابن خزیمہ:148/2 :1092، والحاکم :301/1 وصححہ ووافقہ الذہبی ، وصححہ الألبانی فی تحقیق ابن خزیمۃ

’’ جس شخص کی صبح اس حالت میں ہو ئی کہ اس نے نمازِ وتر نہیں پڑھی تو اب اس کی نماز وتر نہیں ۔‘‘

اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَہَبَ کُلُّ صَلَاۃِ اللَّیْلِ وَالْوِتْرُ،فَأَوْتِرُوْا قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ )) سنن الترمذی :469۔ وصححہ الألبانی

’’ جب فجر طلوع ہو جائے تو رات کی ساری نمازکا اور اسی طرح نمازِ وتر کا وقت چلا جاتا ہے ، لہٰذا تم طلوعِ فجر سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ ‘‘

ان تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ بات کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ وتر کا وقت نمازِ عشاء کے بعد شروع ہوتا ہے اور فجر صادق کے طلوع ہونے پر ختم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے بعد کسی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں ۔

02.جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں بیدار نہ ہونے کا اندیشہ ہو اس کیلئے سونے سے پہلے وتر پڑھنا مستحب ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

( أَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ صلي الله عليه وسلم بِثَلاَثٍ لَا أَدَعُہُنَّ حَتّٰی أَمُوْتَ ] صِیَامُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ، وَرَکْعَتَیِ الضُّحٰی ، وَأَنْ أُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ) البخاری:1981،1178،مسلم :721

’’ مجھے میرے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا تاکیدی حکم دیا ہے جنہیں میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا اور وہ ہیں ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، چاشت کی دو رکعات اور یہ کہ میں نمازِ وترسونے سے پہلے پڑھوں ۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ وتر کا معاملہ لوگوں کے احوال اور ان کی طاقت پر موقوف ہے ۔ اس کی ایک اور دلیل حضرت

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : تم وتر کس وقت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا :عشاء کے بعد رات کے ابتدائی حصہ میں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:تم کس وقت پڑھتے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا:رات کے آخری حصے میں۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَمَّا أَنْتَ یَا أَبَا بَکْرٍ فَأَخَذْتَ بِالْوُثْقٰی ، وَأَمَّا أَنْتَ یَا عُمَرُ فَأَخَذْتَ بِالْقُوَّۃِ )) سنن ابن ماجہ :1202 ۔ وأبو داؤد : 1434من حدیث أبی قتادۃ ۔ وصححہ الألبانی

’’ اے ابو بکر ! تم نے مضبوطی کو پکڑا ہے ، اور اے عمر ! تم نے قوت کو پکڑا ہے ‘‘

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عمل کو مستحسن اور مضبوط قرار دیا کیونکہ وہ احتیاط سے کام لیتے اور نیند کی وجہ سے وتر کے فوت ہونے کے اندیشے کے پیشِ نظر اسے سونے سے پہلے پڑھ لیتے ۔ اور چونکہ نیند کو قربان کرکے نماز کیلئے بیدار ہونا ایک مشکل امر ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں داد تحسین دی کہ تم نے طاقت ، ہمت اور پختہ ارادے کا ثبوت دیا ہے ۔

03.جس شخص کو بیدار ہونے کا یقین ہو اس کیلئے وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ خَافَ أَنْ لَّا یَقُوْمَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوْتِرْ أَوَّلَہُ ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَّقُوْمَ آخِرَہُ فَلْیُوْتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ ، فَإِنَّ صَلَاۃَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْہُوْدَۃٌ،وَذٰلِکَ أَفْضَلُ )) صحیح مسلم : 755

’’ جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ رات کے ابتدائی حصہ ہی میں وتر پڑھ لے ۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کا خواہشمند ہو تو وہ آخری حصہ ہی میں پڑھے ، کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے ۔ ‘‘

اور آخرِ شب میں وتر پڑھنے کی فضیلت ایک اور حدیث سے بھی ثابت ہوتی ہے جسے ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں اور یہاں دوبارہ اس کی یاددہانی کراتے ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ)) وفی روایۃ لمسلم : (( فَلَا یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ )) صحیح البخاری :1145،6321،7494، صحیح مسلم :758

’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے ہر رات کا جب آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے ۔‘‘

04. اگر کوئی شخص تہجد کیلئے بیدار ہونے کا ارادہ کرکے سوئے ، پھر وہ بیدا رنہ ہو سکے تو اسے نماز تہجد ( وتر سمیت ) جتنی وہ پڑھنے کا عادی تھا ، اس پر ایک رکعت بڑھا کر اشراق سے لیکر زوال تک کسی وقت قضاء کرلینی چاہئے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز شروع فرماتے تو اسے ہمیشہ جاری رکھتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب آجاتی یا آپ کو کوئی تکلیف ہوتی جس سے آپ قیامِ لیل نہ کر پاتے تو دن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ رکعات پڑھ لیتے ۔۔۔۔ صحیح مسلم : 746

اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :

(( مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہٖ أَوْ نَامَ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ بَیْنَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الظُّہْرِ کُتِبَ لَہُ کَأَنَّمَا قَرَأَہُ مِنَ اللَّیْلِ )) صحیح مسلم :747

’’ جو شخص اپنا ورد یا اس کا کچھ حصہ نیند کی وجہ سے نہ پڑھ سکے اور اسے نماز فجر اورنمازِ ظہر کے درمیان پڑھ لے تو وہ اس کیلئے ایسے ہی لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ اس نے اسے رات کو پڑھا۔ ‘‘

04. رکعاتِ نماز وتر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کی متعدد کیفیات ورکعات ثابت ہیں :

01. گیارہ رکعات : ہر دو رکعتوں کے بعد سلام اور آخر میں ایک وتر۔ صحیح مسلم :736

02.تیرہ رکعات : ہر دو رکعتوں کے بعد سلام اور آخر میں ایک وتر۔ صحیح البخاری 992،صحیح مسلم : 736

03.نو رکعات : ان رضی اللہ عنہم یں آٹھ رکعات ایک ہی تشہد کے ساتھ اور پھر ایک وتر۔ صحیح مسلم :746

04.سات رکعات : اور یہ دو طرح سے ثابت ہیں۔ ایک ہی تشہد کے ساتھ ۔ صحیح مسلم:746،سنن النسائی :1718، سنن ابن ماجہ :1192

اور چھ رکعات ایک ہی تشہد کے ساتھ اور پھر ایک وتر۔ ابن حبان :2441۔ وہو صحیح

05.پانچ رکعات : ایک ہی تشہد کے ساتھ۔ سنن أبی داؤد : 1422،سنن النسائی:1712، ابن ماجہ : 1195۔ وصححہ الألبانی

06.تین رکعات:اور یہ دو طرح سے ثابت ہیں۔ دو رکعات کے بعد سلام اور پھر ایک وتر ۔ صحیح البخاری:991عن ابن عمر موقوفا ،ابن حبان :2433 ۔ وہو صحیح

اورتینوں رکعات ایک ہی تشہد کے ساتھ ، کیونکہ اگر تین رکعات دو تشہد کے ساتھ ہوں تو اس سے مغرب کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا تُوْتِرُوْا بِثَلَاثٍ،أَوْتِرُوْا بِخَمْسٍ أَوْ بِسَبْعٍ،وَلَا تَشَبَّہُوْا بِصَلَاۃِ الْمَغْرِبِ )) ابن حبان:2429،الدارقطنی:24/2،البیہقی:31/3،وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی، وقال الحافظ فی الفتح :481/2: إسنادہ علی شرط الشیخین

’’تم تین رکعات نمازِ وترنہ پڑھو ، بلکہ پانچ یا سات رکعات پڑھو اور اسے مغرب کی طرح نہ پڑھو ۔ ‘‘

07.ایک رکعت جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلْوِتْرُ رَکْعَۃٌ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ ))

’’ نمازِوتر رات کے آخری حصے میں ایک ہی رکعت ہے ‘‘ صحیح مسلم :752

برادرانِ اسلام !آج کا خطبۂ جمعہ رات کی نفل نماز کے متعلق تھا جس میں ہم نے نماز تہجد اور نماز وتر کے فضائل ومسائل کا تفصیل سے تذکرہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ نوافل خاص طورپر نماز تہجد اور فرائض سے پہلے اور ان کے بعد والی سنتوں کو ہمیشہ پڑھنے کی توفیق دے ۔آمین