نماز نفل کے فضائل ومسائل (۱)

اہم عناصر خطبہ :

01.نفل کا مفہوم

02. نماز نفل کے فضائل

03.نماز نفل کے بعض مسائل

04. نماز نفل کی اقسام

05. فرائض سے پہلے اور ان کے بعد مؤکدہ وغیر مؤکدہ سنتیں

06. نماز چاشت

برادران اسلام ! نماز اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، نماز آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون پہنچاتی ہے اور نماز بے حیائی اور برائی سے منع کرتی ہے ۔ آج کا خطبۂ جمعہ نمازِ نفل کے فضائل ومسائل اور اس کی بعض انواع کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو پابندی کے ساتھ فرائض ونوافل کو ادا کرنے کی توفیق دے ۔

01.نفل کا مفہوم :

نفل اس کام کو کہتے ہیں جو مسلمان پر فرض نہ ہو اور وہ اسے اپنی خوشی سے انجام دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ﴾ البقرۃ2 :184

’’ اور جو شخص اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے ‘‘

اس مفہوم کے اعتبار سے نماز نفل میں ہر وہ نماز آتی ہے جو فرض نہ ہو ۔ مثلا فرائض سے پہلے اور ان کے بعد دائمی سنتیں ، نماز وتر ، نماز چاشت اور تہجد وغیرہ۔

2۔نماز نفل کے فضائل

1۔ نماز نفل فرض نمازوں کو مکمل اور ان کے نقص کو پورا کرتی ہے ۔

اگر فرض نمازوں میں کوئی کمی رہ جائے مثلا نماز مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ نہ پڑھی جائے، یا اس کی بعض

سنتیں یا بعض مستحب امور چھوٹ جائیں تو نماز نفل فرض نمازوں کے اس طرح کے نقص کو پورا کردیتی ہے ۔

حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَّوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَلَاتُہُ، فَإِنْ کَانَ أَتَمَّہَا کُتِبَتْ لَہُ تَامَّۃً،وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ أَتَمَّہَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَلَائِکَتِہٖ :اُنْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ لِعَبْدِیْ مِنْ تَطَوُّعٍ فَتُکْمِلُوْنَ بِہَا فَرِیْضَتَہُ،ثُمَّ الزَّکَاۃُ کَذٰلِکَ،ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأعْمَالُ عَلٰی حَسَبِ ذٰلِکَ )) سنن أبی داؤد : 864، سنن ابن ماجہ :1425۔وصححہ الألبانی

’’ روزِ قیامت بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ ہے اس کی نماز۔ اگر اس نے اسے مکمل کیا ہو گا تو وہ اس کیلئے مکمل لکھ دی جائے گی ۔ اور اگر اس نے اسے مکمل نہیں کیا ہو گا تو اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دے گا : ذرا دیکھو ، میرے بندے نے کوئی نفل نماز بھی پڑھی تھی یا نہیں ؟ ( اگر نفل نماز پڑھی تھی تو ) اس کے ذریعے اس کی فرض نمازوں کو مکمل کر دو۔ پھر زکاۃ کا اور اس کے بعد باقی تمام اعمال کا حساب بھی اسی طرح سے لیا جائے گا۔ ‘‘

یہ نماز نفل کا بہت بڑا فائدہ ہے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کی فرض نمازوں میں کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے خصوصا خشوع وخضوع میں ۔ چنانچہ ہم اُس یکسوئی اور توجہ کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے جس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اور خشوع وخضوع ہی وہ چیز ہے جس کے ساتھ نماز میں لذت محسوس ہوتی ہے اور اسی سے نماز راحت وسکون کا بڑا ذریعہ بنتی ہے ۔

02.نماز نفل کے ذریعے درجات بلند ہوتے اور گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ ، فَإِنَّکَ لَا تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً إِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً،وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیْئَۃً )) صحیح مسلم : 488

’’ تم زیادہ سے زیادہ سجدے کیا کرو ، کیونکہ تم اللہ تعالی کی رضا کیلئے ایک سجدہ کرو گے تو وہ اس کے بدلے تمہارا ایک درجہ بلند کردے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹا دے گا ۔‘‘

کثرتِ سجود سے مراد فرائض کے علاوہ نماز نفل کثرت سے پڑھنا ہے تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ نوافل کی ادائیگی میں بھی مسلمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے ، کیونکہ تمام تر خیر وبھلائی صرف اس عمل میں ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ کے مطابق ہو ۔ اور جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو مد نظر نہ رکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے وہ گویا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی اور پرہیز گار کوئی نہیں ۔

03. کثرتِ نوافل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے

حضرت ربیعہ بن کعب الأسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات گذارتا تھا ۔ ایک رات میں آپ کے پاس وضو کا پانی اور آپ کی ضرورت کی اشیاء لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم سوال کرو ‘‘ میں نے کہا : میں آپ سے اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ داخل ہوں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی اور سوال ؟ میں نے کہا : بس یہی ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَأَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ )) صحیح مسلم :489

’’ تم کثرتِ سجود کے ذریعے اپنے نفس پر میری مدد کرو ۔‘‘

اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس پیارے صحابی کو جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کا خواہشمند تھا اس بات کی وصیت فرمائی کہ وہ کثرت سے سجدے کرے ۔ یعنی فرض نمازوں کو پابندی سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ نوافل کثرت سے پڑھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں ۔

04.نماز نفل جہاد کے بعد بدنی نوافل میں سب سے افضل عمل ہے

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اِسْتَقِیْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا وَاعْلَمُوْا أَنَّ خَیْرَ أَعْمَالِکُمْ الصَّلَاۃُ،وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْئِ إِلَّا مُؤْمِنٌ )) سنن ابن ماجہ :277 ۔ وصححہ الألبانی

’’ تم استقامت اختیار کرو ۔ اور تم ہرگز اس کی طاقت نہیں رکھو گے ۔ اور اس بات پر یقین کر لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز پڑھناہے ۔ اور ایک سچا مومن ہی ہمیشہ وضو کی حالت میں رہتا ہے۔ ‘‘

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو سب سے بہتر عمل قرار دیا ہے ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے نماز کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ۔

05.نماز نفل گھر میں برکت لاتی ہے

نمازِ نفل کی ادائیگی کی بہترین جگہ اپنا گھر ہے ۔ اس لئے اسے اپنے گھر میں ادا کرنا چاہئے ، کیونکہ اس سے گھر میں برکت آتی ہے ۔

جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا قَضیٰ أَحَدُکُمْ الصَّلَاۃَ فِیْ مَسْجِدِہٖ فَلْیَجْعَلْ لِبَیْتِہٖ نَصِیْبًا مِنْ صَلَاتِہٖ ، فَإِنَّ اللّٰہَ جَاعِلٌ فِیْ بَیْتِہٖ مِنْ صَلَاتِہٖ خَیْرًا )) صحیح مسلم :778

’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں نماز پڑھے تو وہ اپنی نماز میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کیلئے بھی رکھے ، کیونکہ گھر میں کچھ نماز ادا کرنے سے اللہ تعالی گھر میں خیر وبھلائی لاتا ہے۔ ‘‘

جبکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( فَصَلُّوْا أَیُّہَا النَّاسُ فِیْ بُیُوْتِکُمْ ،فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاۃِ صَلَاۃُ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃ))

’’ اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو ، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں ادا کرے ، سوائے فرض نماز کے ۔‘‘

صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں :

(( فَعَلَیْکُمْ بِالصَّلاَۃِ فِیْ بُیُوْتِکُمْ،فَإِنَّ خَیْرَ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا الصَّلَاۃُ الْمَکْتُوْبَۃُ )) صحیح البخاری:731،صحیح مسلم :781

’’ تم اپنے گھروں میں بھی نماز ضرورپڑھا کرو ، کیونکہ آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے ، سوائے فرض نماز کے ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلَاتِکُمْ،وَلَا تَتَّخِذُوْہَا قُبُوْرًا )) صحیح البخاری:432،صحیح مسلم : 777

’’ تم کچھ نماز اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور انہیں قبرستان مت بناؤ۔ ‘‘

06. نفلی عبادت بندے کی طرف اللہ تعالی کی محبت کھینچ لاتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ : مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ،وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ ،وَ َما یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ،وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا،وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِہَا، وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہُ )) صحیح البخاری:6502

’’ اللہ تعالی فرماتاہے : جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔ اور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے۔ (یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان جس کے ذریعے وہ سنتا ہے ‘ اس کی آنکھ جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے ‘ اس کا ہاتھ جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں ۔ اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کروں گا ۔ اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو میں یقینا اسے پناہ دوں گا۔‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فرائض پر ہمیشگی کرنے سے بندے کو اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوتی ہے ۔ فرائض کے بعد نفلی نماز ، نفلی روزہ ، صدقہ ، نفلی حج اور اس کے علاوہ باقی نفلی عبادات پر ہمیشگی کرنے سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا ہے ۔

07. نفلی نماز سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوتا ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے ۔ میں عرض کرتی ، اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی

اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے : (( اَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا )) صحیح البخاری :4873،صحیح مسلم :2820

’’ کیا میں شکر گزا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘

اسی طرح حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم ہو گیا ۔ آپ سے کہا گیا کہ اللہ تعالی نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں ، پھر بھی آپ اتنا لمبا قیام کرتے ہیں ! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا)) ’’ کیا میں شکر گزا ربندہ نہ بنوں؟‘‘ صحیح البخاری : 4836،صحیح مسلم :2819

لہٰذا ہمیں بھی اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں اور اس کے ان گنت احسانات پر اس کا شکرگذار ہونا چاہئے اور شکر کا اظہار ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہئے جیسا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ۔

نماز نفل کے متعلق بعض مسائل

محترم حضرات ! نمازِ نفل کے بعض فضائل کے بعد اب اس کے بعض مسائل بھی سن لیجئے ۔

01.نماز نفل بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعات پڑھتے جن میں نمازوتر شامل ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر لمبا قیام فرماتے اور پھر بیٹھ کر بھی لمبی نماز پڑھتے اور جب آپ کھڑے ہو کر قراء ت کرتے تو رکوع و سجود میں بھی قیام کی حالت سے جاتے۔ اور جب آپ بیٹھ کر قراء ت کرتے تو رکوع وسجود بھی بیٹھ کر کرتے … صحیح مسلم :730

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رات کی نماز میں بیٹھ کر قراء ت کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمر رسیدہ ہو گئے تو بیٹھ کر قراء ت فرماتے ۔ یہاں تک کہ جب کسی سورت کی تیس چالیس آیات باقی ہوتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے اور ان کی قراء ت کرکے رکوع میں چلے جاتے ۔ صحیح البخاری : 1118،1119،صحیح مسلم 1148

لیکن جب طاقت موجود ہو توکھڑے ہوکر نماز پڑھناافضل ہے۔جیسا کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( صَلَاۃُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاۃِ )) صحیح مسلم :735

’’ کسی شخص کا بیٹھ کر نماز پڑھنا آدھی نماز ہے۔ ‘‘

یعنی بیٹھ کر نماز پڑھنے سے اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی نسبت آدھا اجر ملتا ہے۔اس لئے مکمل اجر کے حصول کیلئے نماز نفل کھڑے ہو کر ہی پڑھنی چاہئے ۔

اسی طرح حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنْ صَلّٰی قَائِمًا فَہُوَ أَفْضَلُ،وَمَنْ صَلّٰی قَاعِدًا فَلَہُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَمَنْ صَلّٰی نَائِمًا فَلَہُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ)) صحیح البخاری :1115

’’ اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو یہ افضل ہے۔ اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتاہے اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کا آدھا اجر ملتا ہے ۔ اور جو آدمی لیٹ کر نماز پڑھتا ہے اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا آدھا ثواب ملتا ہے ۔ ‘‘

02.حالت ِ سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے چاہے سفر لمبا ہو یا مختصر

سواری پر نفل نماز پڑھنا درست ہے چاہے وہ کار ہو یا جہاز ہو ، کشتی ہو یا کوئی اور سواری ہو۔ لیکن فرض نماز کیلئے سواری سے اترنا لازم ہے الا یہ کہ اس سے اترنا نا ممکن ہو ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سفر کے دوران سواری کا رخ جس طرف بھی ہوتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر ہی نماز پڑھ لیتے تھے ۔ آپ رات کی نماز میں اپنے سر سے اشارہ کرتے ۔ ہاں البتہ فرض نمازیں سواری پر نہیں پڑھتے تھے ۔ اسی طرح نماز وتر بھی سواری پر ہی پڑھ لیتے تھے ۔ صحیح البخاری :999،1000،1095،1089،1105، صحیح مسلم :700

اسی طرح کی ایک حدیث حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ سفر کی حالت میں آپ کی سواری کا رخ چاہے کسی طرف بھی ہوتا آپ رات کی نفل نماز

اپنی سواری کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے ہی پڑھ لیتے تھے ۔ صحیح البخاری :1093 ،1104، صحیح مسلم :701

تاہم جب سواری پر نماز پڑھنی ہو تونمازی کو چاہئے کہ وہ تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے اپنا رخ قبلہ کی طرف کر لے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حالتِ سفر میں ہوتے اور نفل نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی جانب کر لیتے ، پھر تکبیر تحریمہ کہتے ، اس کے بعد سواری کا رخ جس طرف بھی ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے ۔ سنن أبی داؤد :1225۔وحسنہ الحافظ ابن حجر فی بلوغ المرام :228 3۔نماز نفل اپنے گھر میں پڑھنا افضل ہے

نماز نفل مسجد میں ، گھر میں اور ہر پاکیزہ مقام ( جیسے صحراء وغیرہ ) پر پڑھی جا سکتی ہے لیکن گھر میں پڑھنا افضل ہے ، سوائے اس نفل نماز کے جس کی جماعت مشروع ہے مثلا نماز تروایح جسے مسجد میں باجماعت پڑھنا افضل ہے ۔

چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃ )) صحیح البخاری :731، صحیح مسلم :781

’’ آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں ادا کرے سوائے فرض نماز کے ۔ ‘‘

04. اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نفلی عبادت وہ ہے جو ہمیشہ ادا کی جائے

اللہ تعالی کو اعمال میں سے سب سے محبوب عمل وہ ہے جسے اس کا کرنے والا ہمیشہ کرتا رہے اگرچہ وہ تھوڑاہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس بنو اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی ، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا : یہ فلاں عورت ہے، رات کو نہیں سوتی اور یہ اپنی نماز کا تذکرہ کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَہْ،عَلَیْکُمْ مَّا تُطِیْقُوْنَ مِنَ الْأعْمَالِ،فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا ))

’’ ٹھہر جاؤ ، تم اتنا عمل کیا کرو جتنا تمہاری طاقت میں ہو کیونکہ اللہ تعالی نہیں اکتاتا یہاں تک کہ تم خود اکتا جاؤ ۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی عمل سب سے زیادہ محبوب تھا جسے اس کا کرنے والا ہمیشہ کرتا رہے ۔ صحیح البخاری : 1151،785

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے توآپ نے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی باندھی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا : یہ رسی کیسی ہے ؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:

یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کیلئے ہے جو نماز پڑھتی ہیں اور جب تھک جاتی ہیں تواسی رسی کا سہارا لے لیتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا ،حُلُّوْہُ ، لِیُصَلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ ، فَإِذَا فَتََرَ فَلْیَقْعُدْ))

’’ نہیں ، اسے کھول دو ۔ اور تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز پڑھے جب تک کہ وہ چست ہو ۔ اور جب تھک جائے تو وہ بیٹھ جائے ۔‘‘ صحیح البخاری:1150، صحیح مسلم :784

جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا، وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِنَ الدُّلْجَۃِ )) صحیح البخاری :39

’’ دین ( اسلام ) یقینا آسان ہے ۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا۔ لہٰذا تم (افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ) درمیانی راہ اختیار کرو ، قریب رہو اور خوش ہو جاؤ ۔ اور صبح ، شام اورکچھ رات کے حصے میں عبادت کرکے مدد طلب کرو ۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا،وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا،وَشَیْئًا مِّنَ الدُّلْجَۃِ،وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوْا )) صحیح البخاری : 6463

’’ تم میانہ روی اختیار کرو ۔ ( اعتدال کے ) قریب رہو ۔ صبح کے وقت بھی عبادت کرو اور شام کے وقت (دوپہر کے بعد ) بھی ۔ اسی طرح رات کے کچھ حصے میں بھی عبادت کرو ۔ اور میانہ روی ہی اختیار کرو تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ ۔‘‘

ان تمام احادیث میں عمل صالح پر ہمیشگی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔اور ان میں اس بات کی دلیل بھی ہے

کہ عبادت میں میانہ روی اختیار کی جائے اور سختی اور تشددسے اجتناب کیا جائے۔

05. نماز نفل کبھی کبھی جماعت کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے

نماز نفل کبھی کبھی باجماعت ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب لمبی نماز پڑھائی یہاں تک کہ میں نے برا ارادہ کر لیا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کس چیز کا ارادہ کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا : میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ بیٹھ جاؤں اور چھوڑ کر چلا جاؤں ۔ صحیح البخاری :1135، صحیح مسلم :773

اسی طرح حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے سورۃ البقرۃ شروع کردی ۔ میں نے دل میں کہا : شاید آپ سو آیات پڑھ کر رکوع کریں گے لیکن آپ نے قراء ت جاری رکھی ۔ میں نے دل میں کہا : شاید آپ اسے دور کعات میں مکمل کریں گے لیکن آپ نے پھر بھی قراء ت جاری رکھی ۔ میں نے دل میں کہا : شاید اسے مکمل کرکے رکوع میں چلے جائیں گے لیکن آپ نے اسے ختم کرکے سورۃ النساء شروع کردی اور اسے بھی ختم کردیا ۔ پھر آپ نے سورۃ آل عمران شروع کر دی اور اسے بھی ختم کردیا ۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر قراء ت کر رہے تھے ۔ جب کسی تسبیح والی آیت سے گذرتے تووہاں تسبیح پڑھتے اور جب سوال والی آیت سے گذرتے تووہاں سوال کرتے ۔ اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تووہاں پناہ طلب کرتے … صحیح مسلم :772

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی نانی حضرت ملیکۃ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی جوانہوں نے خود تیار کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس میں سے کچھ کھایا ۔ پھر فرمایا:

(( قُوْمُوْا فَأُصَلِّیَ لَکَُمْ )) ’’کھڑے ہو جاؤ ، میں تمہیں نماز پڑھاؤں ۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک چٹائی بچھائی جو طویل عرصے سے پڑی سیاہ ہو چکی تھی ۔ میں نے اسے پانی کے ساتھ دھو دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہو گئے ۔ میں اور ایک یتیم (ہم دونوں ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور بوڑھی نانی جان ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعات پڑھائیں اور پھر چلے گئے ۔ صحیح البخاری:380،صحیح مسلم :658۔واللفظ لمسلم

ان تمام احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کی نماز ِتراویح کے علاوہ بھی نفل نماز باجماعت پڑھی جا سکتی ہے لیکن اسے ہمیشہ کیلئے عادت بنانا درست نہیں ہے ، کبھی کبھی ایسے کیا جا سکتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر وبیشتر نفل نماز اکیلے ہی ہوتی تھی ۔

نماز نفل کی بعض اقسام

حضرات ! نماز نفل کے بعض فضائل ومسائل کے بعد اب آئیے اس کی بعض اقسام کا تذکرہ قدرے تفصیل کے ساتھ سن لیجئے ۔

01. فرائض کے ساتھ مؤکدہ سنتیں

نماز نفل کی سب سے پہلی قسم فرائض سے پہلے اور اس کے بعد مؤکدہ سنتوں کی ہے اور وہ بارہ رکعات ہیں جیسا کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( مَنْ صَلّٰی اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِیْ الْجَنَّۃِ ))

’’ جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھتا ہے اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

اور دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں :

(( مَا مِنْ عَبْدٍ مُّسْلِمٍ یُصَلِّیْ لِلّٰہِ کُلَّ یَوْمٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً تَطَوُّعًا غَیْرَ فَرِیْضَۃٍ إِلَّا بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِیْ الْجَنَّۃِ أَوْ بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِیْ الْجَنَّۃِ ))

’’ جو مسلمان بندہ ہر دن اللہ تعالی کی رضا کیلئے بارہ رکعات نفل (جو کہ فرض نہیں ) ادا کرتا ہے اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ یا اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

یہ حدیث بیان کرکے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :

( مَاتَرَکْتُہُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُہُنَّ مِن رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم )

’’ میں نے جب سے ان بارہ رکعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تب سے انہیں کبھی نہیں چھوڑا ۔ ‘‘ صحیح مسلم :728

ان بارہ رکعات کی تفصیل سنن الترمذی میں موجود ہے۔ چنانچہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول

اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ صَلّٰی فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِیْ الْجَنَّۃِ:أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَہَا،وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ،وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَائِ،وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ )) سنن الترمذی :415۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھتا ہے اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے : ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد دو ، مغرب کے بعد دو ، عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعا ت ۔ ‘‘

یاد رہے کہ ایک روایت میں ظہر کے بعد بھی چار رکعات پڑھنے کی فضیلت ذکر کی گئی ہے جیسا کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ حَافَظَ عَلیٰ أَرْبَعِ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ،وَأَرْبَعٍ بَعْدَہَا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ)) أحمد فی المسند:326/6،سنن أبی داؤد :1269،سنن الترمذی:427وقال:حدیث حسن ،والنسائی:1814، وابن ماجہ :1160،وصححہ الألبانی

’’جوآدمی ظہر سے پہلے چار رکعات اور اس کے بعد بھی چار رکعات پر ہمیشگی کرتا ہے اسے اللہ تعالی جہنم کی آگ پر حرام کردیتا ہے۔‘‘

فرض نمازوں کی غیر مؤکدہ سنتیں

01.عصر سے پہلے چار رکعات

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( رَحِمَ اللّٰہُ امْرَئً ا صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا )) سنن أبی داؤد :1271،الترمذی :430وقال :حدیث حسن، وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعات ادا کیں۔‘‘

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عصر سے پہلے چار رکعات پڑھنا سنت ہے لیکن یہ سنن مؤکدہ میں سے نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہمیشگی نہیں کی ۔

02. مغرب سے پہلے دو رکعات

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں غروب شمس کے بعد اور مغرب

کی نماز سے پہلے دو رکعات پڑھتے تھے۔ صحیح مسلم :836

دوسری روایت میں ان کابیان ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں تھے اور جب مؤذن اذان کہتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جلدی جلدی ستونوں کی طرف جاتے اور دو رکعات ادا کرتے یہاں تک کہ جب باہر سے آنے والا کوئی شخص مسجد کے اندر پہنچتا تو وہ یہ سمجھتا کہ مغرب کی نماز پڑھی جا چکی ہے کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد یہ دو رکعات پڑھتی تھی۔ صحیح البخاری :625، صحیح مسلم :837

ایک روایت میں ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مغرب سے پہلے دو رکعات ادا کیں ۔ ابن حبان :457/3، برقم:1588۔ وقال شعیب الأرناؤط:إسنادہ علی شرط مسلم

یہ تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ مغرب سے پہلے دو رکعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی، فعلی اور تقریری سنت ہے ۔

03.عشاء سے پہلے دو رکعات

حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلَاۃٌ ،بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلَاۃٌ )) قال فی الثالثۃ : (( لِمَنْ شَائَ )) صحیح البخاری : 624

’’ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ۔ (پھر تیسری بار فرمایا : ) جو چاہے پڑھے ۔ ‘‘ دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔

فجر کی دو سنتوں کے متعلق بعض امور

فجر سے پہلے دو رکعات تمام سنن مؤکدہ میں سے سب سے زیادہ اہم ہیں اور ان کے متعلق چند ضروری امور یہ ہیں :

01.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعات کا شدت سے اہتمام کرتے تھے جوان کی عظمت کی دلیل ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں جتنا اہتمام فجر کی دو رکعات کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفل نمازکا نہیں کرتے تھے ۔ صحیح البخاری : 1169،صحیح مسلم :724

02. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر ان دو رکعات کی فضیلت بیان فرمائی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( رَکْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا )) صحیح مسلم :725

’’ فجر کی دو رکعات دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ہے اس سے بہتر ہیں ۔‘‘

03.فجر کی دو سنتوں میں تخفیف کرنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعات میں اس قدر تخفیف فرماتے کہ میں ( دل میں) یہ کہتی کہ پتہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں ! صحیح البخاری :1171، صحیح مسلم :724

04.ان کا وقت اذان اور اقامت کے درمیان ہے جیسا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب مؤذن فجر کی اذان کہہ کر خاموش ہوتا اور صبح صادق ظاہر ہو جاتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اقامت سے پہلے ہلکی سی دو رکعات پڑھتے تھے۔ صحیح البخاری :618، صحیح مسلم :723

05. فجر کی دو سنتوں میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص کا پڑھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعات میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے۔ صحیح مسلم :726

یا پہلی رکعت میں سورۃ البقرۃ کی آیت ( ۱۳۶) ﴿قُوْلُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا ۔۔۔﴾ اور دوسری رکعت میں سورت آل عمران کی آیت (۵۲) ﴿آمَنَّا بِاللّٰہِ وَاشْہَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ﴾ پڑھتے تھے ۔ جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتوں میں ﴿قُوْلُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا۔۔۔﴾اور ﴿تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ﴾ پڑھتے تھے ۔ صحیح مسلم :727

06. فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے ۔ صحیح البخاری :1160، صحیح مسلم 736

07. فجر کی سنتوں کی قضا: جس شخص کی فجر کی سنتیں رہ جائیں وہ فجر کی فرض نماز کے بعد یا سورج کے بلند ہونے کے بعد انہیں پڑھ سکتا ہے ۔حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مسجد میں ) تشریف لائے ۔نماز کی اقامت کہی گئی ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( گھر کو )

جانے لگے تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَہْلًا یَا قَیْسُ ! أَصَلَاتَانِ مَعًا؟ )) ’’ ٹھہر جاؤ قیس ! کیا دو نمازیں ایک ساتھ ؟ ‘‘

میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَلَا إِذَنْ )) ’’ تب کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ سنن الترمذی :422۔ وصححہ الألبانی

جبکہ حضرت قیس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے فجر کی نماز ہونے کے بعد دو رکعات ادا کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( صَلَاۃُ الصُّبْحِ رَکْعَتَانِ)) ’’ نمازِ فجر کی صرف دو رکعات ہیں ‘‘

ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : (( أَصَلَاۃُ الصُّبْحِ مَرَّتَیْن؟ ))

’’ کیا تم نے فجر کی نماز دو مرتبہ ادا کی ہے ؟ ‘‘

اس نے کہا : میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں ، اب وہی سنتیں میں نے ادا کی ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ سنن أبی داؤد : 1267، سنن ابن ماجہ :1154 وصححہ الألبانی

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ لَّمْ یُصَلِّ رَکْعَتَیْ الْفَجْرِ فَلْیُصَلِّہِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ )) سنن الترمذی :423، ابن حبان :4272 وغیرہما ۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص فجر کی دو رکعات نہ پڑھ سکا ، وہ طلوعِ آفتاب کے بعد انہیں ادا کرلے ۔ ‘‘

اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب آپ سفر میں نماز فجر کے وقت سوئے رہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی سنتیں بھی قضا کیں اور انہیں فرض نماز سے پہلے ادا کیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز ادا فرمائی ۔ اور یہ سورج کے بلند ہونے کے بعد تھا۔ صحیح مسلم :681

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ فجر کی سنتیں نیند کی وجہ سے نہیں پڑھ سکے تھے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلوعِ آفتاب کے بعد قضا کیا ۔ سنن ابن ماجہ : 1155۔ وصححہ الألبانی

جمعہ سے پہلے اور اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔

جمعہ سے پہلے مسلمان مطلق نفل نماز پڑھ سکتا ہے اور اس کی کوئی مقدار متعین نہیں کی گئی ۔ بلکہ امام کے منبر پر آنے تک اسے نفل نماز اور ذکر وغیرہ میں مشغول رہنا چاہئے ۔ جیسا کہ حضرت سلما ن الفارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ،وَیَتَطَہَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُہْرٍ،وَیَدَّہِنُ مِنْ دُہْنِہٖ،أَوْ یَمَسُّ مِنْ طِیْبِ بَیْتِہٖ،ثُمَّ یَخْرُجُ فَلَا یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ، ثُمَّ یُصَلِّیْ مَا کُتِبَ لَہُ،ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الْإِمَامُ،إِلَّا غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمعَۃِ الْأُخْرٰی )) صحیح البخاری :883

’’ جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے ، حسب استطاعت پوری طہارت کرے اور تیل لگائے یا اپنے گھر والوں کی خوشبو لگائے ، پھر(مسجد میں پہنچ کر ) دو آدمیوں کو جدا جدا نہ کرے ( جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جائے ) پھر وہ نماز ادا کرے جتنی اس کے ( مقدر میں ) لکھی گئی ہے ۔ پھر جب امام خطبہ دے تو وہ خاموشی سے سنے تو دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنِ اغْتَسَلَ ثُمَّ أَتیَ الْجُمُعَۃَ ،فَصَلّٰی مَا قُدِّرَ لَہُ،ثُمَّ أَنْصَتَ حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِہٖ ثُمَّ یُصَلِّیْ مَعَہُ ، غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی وَفَضْلُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ )) صحیح مسلم :857

’’ جو شخص غسل کرے ، پھر نمازِ جمعہ کیلئے آئے اور ( مسجد میں پہنچ کر ) نماز ادا کرے جتنی اس کیلئے مقدر کی گئی ہے ۔ پھر وہ خطیب کا خطبہ ختم ہونے تک خاموشی سے خطبہ سنتا رہے ، پھر اس کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرے تو دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور مزید تین دن کے بھی ۔ ‘‘

اگر نمازی مسجد میں تاخیر سے پہنچے اور وہ اس وقت مسجد میں داخل ہو جب امام منبر پر جا چکا ہو تو اسے اس حالت میں صرف ہلکی سی دو رکعات ہی تحیۃ المسجد کے طور پر پڑھنی چاہیئں ۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ٔجمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : اے فلان ! کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعات پڑھو ۔ ایک روایت میں فرمایا :

(( إِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ ،وَلْیَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا )) صحیح البخاری:931، مسلم :875

’’ تم میں سے کوئی شخص جب جمعہ کے روز اس وقت ( مسجد میں) آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو ، تو وہ دو رکعات ادا کرے اور ان میں تخفیف کرے ۔ ‘‘

جہاں تک جمعہ کے بعد نفل نماز کا تعلق ہے تو اس کے بعدچار رکعات کاپڑھنا سنت ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْیُصَلِّ بَعْدَہَا أَرْبَعًا))

’’ تم میں سے کوئی شخص جب نمازِ جمعہ پڑھ لے تو اس کے بعد چار رکعات پڑھے ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں اس کے الفاظ یہ ہیں :

(( مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُصَلِّیًا بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَلْیُصَلِّ أَرْبَعًا ))

’’ تم میں سے کوئی شخص جب جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والا ہو تو وہ چار رکعات پڑھے ۔ ‘‘

اس حدیث کے ایک راوی ( سہیل ) کا کہنا ہے کہ اگر تمہیں جلدی ہو تو دو رکعات مسجد میں اور دو رکعات گھر جا کر ادا کر لیا کرو ۔ صحیح مسلم :881

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نمازِ جمعہ ادا کرکے گھر کو لوٹتے تو دو رکعات پڑھتے، اس کے بعد فرماتے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔ صحیح مسلم : 882

فرض نماز کی اقامت کے بعد سنتوں کو چھوڑ دینا چاہئے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃ )) صحیح مسلم :710

’’ جب نماز کی اقامت ہو جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اقامت کے بعد دو رکعات نماز پڑھ رہا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ( فجر ) سے فارغ ہوئے تو لوگوں میں گھل مل گئے ۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو دیکھا تو فرمایا : (( آلصُّبْحَ أَرْبَعًا ؟ آلصُّبْحَ أَرْبَعًا ؟ )) ’’ کیا تم صبح کی چار رکعات پڑھتے ہو؟ کیا تم صبح کی چار رکعات پڑھتے ہو؟‘‘ صحیح البخاری :663،صحیح مسلم :711

جبکہ حضرت عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھا رہے تھے ۔ اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں پڑھیں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ ملا ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا :

(( یَا فُلَانُ ! بِأَیِّ الصَّلَاتَیْنِ اعْتَدَدْتَّ ؟ أَبِصَلَاتِکَ وَحْدَکَ أَمْ بِصَلَاتِکَ مَعَنَا؟))

’’ اے فلان ! تم نے دو نمازوں میں سے کونسی نماز کو شمار کیا ہے ؟ اس نماز کو شمار کیا ہے جو تم نے اکیلے پڑھی ہے یا اس کو جو تم نے ہمارے ساتھ ادا کی ہے؟ ‘‘ صحیح مسلم :712

فجر کی سنتوں اور وتر کے علاوہ باقی سنتوں کو بحالت ِ سفر چھوڑ دینا سنت ہے

عاصم بن عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ۔ انہوں نے ہمیں نمازِ ظہر کی دو ر کعات پڑھائیں ، پھر ہم آپ کے ساتھ وہاں چلے گئے جہاں ہم نے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا ۔ آپ بھی بیٹھ گئے اور ہم بھی بیٹھ گئے ۔ اسی دوران ان کی نظر اس جگہ کی طرف گئی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی ، انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابھی تک وہیں کھڑے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا : یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟میں نے جواب دیا : یہ نفل نماز پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا : اگر مجھے نفل نماز پڑھنی ہوتی تو میں ظہر کی نماز پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا ۔)اے میرے بھتیجے ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح قبض کر لی ۔ پھر میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سفر کیا ، لیکن آپ نے بھی دور کعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح قبض کر لی ۔ پھر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سفر کیا ، لیکن آپ نے بھی دور کعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح قبض کر لی ۔ پھر میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سفر کیا، لیکن انہوں نے بھی دو رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کی روح قبض کر لی ۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ الأحزاب33 :12

’’ یقینا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی زندگی ) میں بہترین نمونہ ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 1101،1102، صحیح مسلم : 689۔ واللفظ لمسلم

جہاں تک سنت ِ فجر اور نمازِ وتر کا تعلق ہے تو سفر وحضر دونوں حالتوں میں انہیں نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سنتِ فجر کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ صحیح البخاری :1159، صحیح مسلم :724

اور سنت ِ وتر کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں اپنی سواری پر ہی نماز پڑھ لیتے تھے ، چاہے اس کا رخ کسی طرف ہوتا ۔ آپ رات کی نماز میں اپنے سر سے اشارہ کرتے ، ہاں البتہ فرض نمازیں سواری پر نہیں پڑھتے تھے ۔ اور نماز وتر بھی سواری پر ہی پڑھ لیتے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر نمازِ وتر پڑھ لیا کرتے تھے ۔ صحیح البخاری :999،1000،1095،1098،1105، صحیح مسلم :700

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تمام نمازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

اب نماز نفل کی ایک اور قسم ( نماز چاشت) کے متعلق بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ارشادات پیش خدمت ہیں۔

01.نمازِ چاشت سنت ِ مؤکدہ ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اسے پڑھتے رہے اور آپ نے اپنے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا تاکیدی حکم دیا ۔ اور ایک آدمی کوتاکیدی حکم پوری امت کیلئے تاکیدی حکم ہوتا ہے الا یہ کہ کسی شخص کیلئے اس کے خاص ہونے کی دلیل ثابت ہو ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( أَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ صلي الله عليه وسلم بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُہُنَّ حَتّٰی أَمُوْتَ]،صِیَامِ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ،وَرَکْعَتَیِ الضُّحٰی،وَأَنْ أُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ ) صحیح البخاری :1981،1178، صحیح مسلم :721

’’مجھے میرے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا تاکیدی حکم دیا ہے جنہیں میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا۔ ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، چاشت کی دو رکعات اور یہ کہ میں نمازِ وترسونے سے پہلے پڑھوں۔‘‘

بعینہٖ یہی وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو بھی فرمائی ۔ صحیح مسلم :722

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اس کا تاکیدی حکم دیا وہاں خود بھی اس پر عمل کیا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب یہ سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ چاشت کی کتنی رکعات پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : چار

رکعات پڑھتے تھے اور کبھی کبھی زیادہ بھی پڑھ لیتے جتنی اللہ تعالیٰ چاہتا ۔ صحیح مسلم :719

02.نمازِ چاشت کی فضیلت

پہلی حدیث : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

(( یُصْبِحُ عَلٰی کُلِّ سُلَامیٰ مِنْ أَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ،فَکُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ،وَکُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ ، وَکُلُّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ،وَکُلُّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ،وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ ،وَیُجْزِیئُ مِنْ ذٰلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُہُمَا مِنَ الضُّحٰی )) صحیح مسلم :720

’’ تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر ہر دن صدقہ کرنا ضروری ہے۔ پس ہر (سبحان اللہ ) صدقہ ہے ، ہر (الحمد للہ ) صدقہ ہے ، ہر ( لا إلہ إلا اللہ ) صدقہ ہے ، ہر (اللہ اکبر ) صدقہ ہے، نیکی کا ہرحکم صدقہ ہے ، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے چاشت کی دو رکعات ہی کافی ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

دوسری حدیث : حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( فِیْ الْإِنْسَانِ ثلَاَثُمِائَۃٍ وَّسِتُّوْنَ مِفْصَلًا ، فَعَلَیْہِ أَنْ یَّتَصَدَّقَ عَنْ کُلِّ مِفْصَلٍ بِصَدَقَۃٍ ))

’’ ہر انسان میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہر جوڑ کی جانب سے ایک صدقہ کرے ۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : (( اَلنَّخَاعَۃُ فِیْ الْمَسْجِدِ تَدْفِنُہَا ، وَالشَّیْئُ تُنْحِیْہِ عَنِ الطَّرِیْقِ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدْ فَرَکْعَتَا الضُّحٰی تُجْزِئُکَ )) سنن أبی داؤد :5242 ، أحمد :354/5۔ وصححہ الألبانی

’’ مسجد میں پڑی تھوک کو دفن کردو اور راستے پر پڑی چیز کو ہٹا دو ۔ اگر تم یہ نہ پاؤ تو چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جائیں گی ‘‘

تیسری حدیث : حضرت نعیم بن ھمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : یَا ابْنَ آدَمَ ! لَا تُعْجِزْنِیْ مِنْ أَرْبَعِ رَکْعَاتٍ فِیْ أَوَّلِ النَّہَارِ ،أَکْفِکَ آخِرَہُ)) سنن أبی داؤد :1289۔ وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : اے ابن آدم ! تم دن کے اول حصے میں چار رکعات مت چھوڑو ، میں دن کے آخری حصے تک تمہیں کافی ہو جاؤں گا۔ ‘‘

چوتھی حدیث : حضرت انس رضی اللہ عنہ فجر کے بعد مسجد میں بیٹھے رہنے اور سورج کے بلند ہونے کے بعد نمازِ ِچاشت کے پڑھنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( مَنْ صَلَّی الْفَجْرَ فِیْ جَمَاعَۃٍ،ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ،ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ،کَانَتْ لَہُ کَأَجْرِ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ )) الترمذی :586۔ وصححہ الألبانی

’’ جس شخص نے نمازِ فجر باجماعت ادا کی ، پھر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا ، پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسے یقینی طور پر مکمل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا ۔‘‘

03.نمازِ چاشت کا وقت ایک نیزے کے برابر سورج کے بلند ہونے سے لے کر زوالِ آفتاب سے کچھ پہلے تک جاری رہتا ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ اسے سورج کی دھوپ کی گرمی کے وقت پڑھا جائے ۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ )) صحیح مسلم :748

’’ اوابین کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب دھوپ سخت گرم ہو جائے ۔ ‘‘

لہٰذا جو شخص اسے نیزے کے برابر سورج کے بلند ہونے کے بعد پڑھے اس پر کوئی حرج نہیں ۔ اور جو اسے سخت گرمی کے وقت زوال کا ممنوع وقت شروع ہونے سے پہلے پڑھے تووہ زیادہ بہترہے ۔ مجموع فتاوی ابن باز :395/11

04.نمازِ چاشت کی کم از کم رکعات دو ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات کے پڑھنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اور اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کرکے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بھی آپ کو بتا دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات پڑھتے تھے اور کبھی کبھی زیادہ بھی پڑھ لیتے جتنی اللہ چاہتا۔ اس کے علاوہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ دونوں نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ چاشت کی چھ رکعات پڑھیں۔ الطبرانی فی الأوسط:1065،1066،1067،سنن الترمذی فی الشمائل:245، وصححہ الألبانی فی الإرواء :463

جبکہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے دن سورج کے بلند ہونے کے بعد ان کے گھر میں آٹھ رکعات پڑھیں اور ان کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی ہلکی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع وسجود مکمل کرتے تھے۔ صحیح البخاری:1103،صحیح مسلم :336

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے مطابق کثرت سے نوافل پڑھنے کی توفیق دے اور ہمیں اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع نصیب فرمائے ۔ آمین