نکاح کے مقاصد اور کامیاب ازدواجی زندگی

اہم عناصر خطبہ :

01.مشروعیتِ نکاح

02.نکاح کے مقاصد اورفوائد

03.کامیاب ازدواجی زندگی کے اصول

04.خاوند بیوی کے درمیان مشترکہ حقوق

پہلا خطبہ

برادران اسلام ! اسلام میں مردوعورت کیلئے نکاح مشروع کیا گیا ہے اور نکاح ایساعظیم رشتہ ہے کہ جس سے منسلک ہونے کے بعد خاوند بیوی ایک پاکیزہ زندگی گذار سکتے ہیں ۔ ایسی زندگی جس میں محبت وپیار ، ایک دوسرے سے ہمدردی اور الفت کے پاکیزہ جذبات پائے جاتے ہیں اور اس میں خاوند بیوی ایک دوسرے کے رفیق،دکھ درد کے ساتھی اور غمخوار ہوتے ہیں اور اگر وہ دونوں اپنی ازدواجی زندگی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بسر کریں تو انھیں دنیا میں سکون اور اطمینان نصیب ہوسکتا ہے اور قیامت کے روز وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

نکاح کی مشروعیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُوا فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُوْا مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَائِ مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُوا﴾ النساء4 :3

’’ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو اچھی لگیں ان میں سے دو دو ، تین تین ، چار چار سے نکاح کرلو ۔ لیکن اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ تم ان کے مابین عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لونڈی ۔ بے انصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین ِ صواب ہے ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں میں سے جو پسند آئیں دو دو ، تین تین اور حتی کہ چار چار سے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے ۔ لیکن ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے مشروط کر دیا ہے کہ وہ ان کے درمیان عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرے اور اگر اسے اندیشہ ہو کہ وہ ایسا نہیں کر سکے گا تو پھر وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کر لے یا لونڈی پر گذارا کر لے ۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:﴿وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَائَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ النور24 :32

’’ اور تم میں سے جو مردو عورت غیر شادی شدہ ہوں تم ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہو نگے تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے ۔ ‘‘

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے ۔ اس سے بعض علماء نے دلیل لی ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ نکاح کرنا مستحب ہے ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نکاح کرنے کی قدرت موجود ہو اور نکاح نہ کرنے کی وجہ سے بدکاری میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں نکاح کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آیت ِ کریمہ (وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ ۔۔۔ ) میں اللہ تعالیٰ نے سرپرستوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غیر شادی شدہ مردو عورت ( عورت چاہے کنواری ہو یا بیوہ یا مطلقہ ) کا نکاح کردیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:(( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ… )) أحمد،أبو داؤد ، سنن الترمذی،سنن ابن ماجہ ۔ صحیح الجامع للألبانی :2709

’’ جو عورت اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اس آیت میں یہ بھی ہے کہ اگر غیر شادی شدہ مردو عورت غریب ہوں تو وہ مفلسی اور غربت سے خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے گا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی اسی کی تائید کرتاہے:

(( ثَلَاثٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰہِ عَوْنُہُمْ : اَلْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ،وَالْمُکَاتِبُ الَّذِیْ یُرِیْدُ الْأَدَائَ،وَالنَّاکِحُ الَّذِیْ یُرِیْدُ الْعَفَافَ)) أحمد ، سنن الترمذی ، سنن النسائی ۔ صحیح الجامع للألبانی:3050

’’تین آدمی ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے : ایک اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔ دوسرا وہ غلام جو اپنے آقا سے مکاتبت کر لیتا ہے اور اس کی نیت ادا کرنے کی ہوتی ہے اور تیسرا وہ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کا ارادہ کرتے ہوئے نکاح کرتا ہے ۔‘‘

نکاح انبیاء ورسل علیہم السلام کی سنت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّیَّۃً﴾ الرعد13:38

’’ آپ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا ۔‘‘

امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس میں دو مسئلے ہیں : پہلا یہ کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب گیری کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ کیسا نبی ہے جو شادیاں کرتا ہے! اگر یہ واقعتا نبی ہوتا تو نبوت کے فرائض کی انجام دہی میں ہی مشغول رہتا لیکن اسے تو بس شادیوں کا ہی خیال رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ آیت اتاری اور واضح فرمایا کہ اس نے جتنے انبیاء ورسل علیہم السلام مبعوث فرمائے سب کے سب بیوی بچوں والے تھے ۔ لہٰذا اگر یہ نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) شادیاں کرتا ہے تو اس میں کیا برا ہے ! اور دوسرا یہ کہ اس آیتِ کریمہ میں نکاح کی ترغیب ہے۔ نیز یہ بھی کہ یہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی سنت ہے ۔ تفسیر القرطبی :327/9

جناب نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کو اپنی سنت قرار دیا ہے اور اس سے بے رغبتی کرنے اور منہ موڑنے والے شخص کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق سوال کیا ۔ چنانچہ انھوں نے اس کے بارے میں انھیں مطلع کیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو ( اپنے نظریے سے ) کم تصور کرتے ہوئے کہنے لگے : ہم کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو سکتے ہیں، ان کی تو اللہ رب العزت نے اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا : میں تو ہمیشہ ساری رات کا قیام کرتا رہوں گا اور دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا ۔ ان کی یہ باتیں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچیں تو آپ ان کے پاس آئے اور فرمایا :

(( أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ! أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ ، لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ،وَأُصَلِّیْ وَأَرْقُدُ،وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ،فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ )) صحیح البخاری،النکاح باب الترغیب فی النکاح:5063،صحیح مسلم،النکاح :1401

’’ کیا وہ تم ہو جنھوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں ؟ تمھیں معلوم ہوناچاہئے کہ میں تم سب کی نسبت زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور زیادہ متقی ہوں اور اس کے باوجود میں کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا اورمیں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔ تو جو شخص میری سنت سے اعراض کرے گااس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘

نکاح نصف دین ہے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آدھا دین قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ )) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی 1916

’’ ایک بندہ جب شادی کرلیتا ہے تو وہ آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ اس لئے اسے باقی نصف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے ۔ ‘‘

دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:(( مَنْ رَزَقَہُ اللّٰہُ امْرَأَۃً صَالِحَۃً فَقَدْ أَعَانَہُ عَلٰی شَطْرِ دِیْنِہٖ ،فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ الشَّطْرِ الْبَاقِی ))

’’ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی دے دے تو اس نے گویا آدھے دین پر اس کی مدد کر دی ۔ لہٰذا وہ باقی نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے ۔ ‘‘

اس حدیث میں ’’ نیک بیوی ‘‘ کا ذکر ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی عطا کردے توگویا اس نے اس کیلئے آدھا دین آسان فرما دیا اور اس پر عملدر آمد کیلئے اس کی مدد کردی اور نیک بیوی کا حصول یقینا بہت بڑی نعمت ہے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بیوی کو انسان کی سعادتمندی کی دلیل قرار دیا ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَۃِ:اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ،وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ،وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیْئُ )) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :914

’’ چار چیزیں سعادتمندی سے ہیں : نیک بیوی ، کھلا گھر ، نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری ۔ ‘‘

نکاح کے فوائد

نکاح متعدد فوائد کے پیش ِ نظر مشروع کیا گیا ہے ۔ ان میں سے چند فوائد یہ ہیں :

01. نکاح میں سکون ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْْہَا﴾ الأعراف7 :189

’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے ۔ ‘‘

اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( حُبِّبَ إِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمْ ثَلَاثٌ : اَلطِّیْبُ،وَالنِّسَائُ ، وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِیْ الصَّلَاۃِ )) أحمد،سنن النسائی،صحیح الجامع للألبانی:3124

’’ مجھے تمھاری دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں : خوشبو اور عورتیں۔جبکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ ‘‘

اس کے علاوہ فطر ی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردو عورت دونوں میں ایک دوسرے کیلئے کشش رکھی ہے ، اسی لئے وہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور فطرت کا یہ تقاضا وہ نکاح اورشادی کے ذریعے ہی پور ا کر سکتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے سکون اور راحت حاصل کر سکتے ہیں ۔

02. نکاح میں نسلِ انسانی کی بقاء ہے

نسلِ انسانی کی بقاء نکاح اور شادی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دلائی ہے جو زیادہ بچے جننے والی ہو ۔

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : مجھے ایک ایسی عورت ملی ہے جو حسب ونسب والی اور بڑی خوبصورت ہے لیکن وہ بچے جننے کے قابل نہیں ۔ تو کیا میں اس سے شادی کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ وہ پھر دوسری مرتبہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اسے منع فرمایا ۔ اس کے بعد وہ تیسری مرتبہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( تَزَوَّجُوْا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ ، فَإِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ )) سنن أبی داؤد،النکاح باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء:2050،سنن النسائی ،النکاح باب کراہیۃ تزویج العقیم،ابن حبان:4056،صحیح سنن أبی داؤد للألبانی: 1805

’’ تم خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمھارے ذریعے دوسری امتوں پر اپنی امت کی کثرت ثابت کرنے والا ہوں ۔ ‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نکاح کرنے والے مرد وعورت کے مد نظر ایک مقصد یہ بھی ہو کہ وہ بچے پیدا کریں گے اور اس امت کی تعداد میں اضافہ کریں گے ۔ یہ مقصد اس اعتبار سے انتہائی عظیم مقصد ہے کہ والدین اپنی موت کے وقت اگر اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑیں گے تو ان کا اجر وثواب ان کی موت کے بعد بھی جاری وساری رہے گا ۔ جیسا کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔

گویا شادی کے فوائد میں سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس سے نسلِ انسانی کی بقاء ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امت ِ محمدیہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر اولاد نیک ہو تو والدین کا اجرو ثواب ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور اگر اولاد میں سے دو تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہو جائیں اور والدین اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر رضا کا اظہار کریں اور صبر وتحمل کا دامن تھامے رکھیں تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کر دیتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَا مِنَ النَّاسِ مِنْ مُّسْلِمٍ یُتَوَفّٰی لَہُ ثَلَاثٌ لَمْ یَبْلُغُوْا الْحِنْثَ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہٖ إِیَّاہُمْ )) صحیح البخاری :1248،1381

’’ جس مسلمان آدمی کے تین بچے بلوغت سے پہلے فوت ہو جائیں اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت کے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے ۔ ‘‘

اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :

(( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ مَاتَ لَہَا ثَلَاثَۃٌ مِنَ الْوَلَدِ کَانُوْا لَہَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ)) قَالَتِ امْرَأَۃٌ : وَاثْنَانِ ؟ قَالَ : (( وَاثْنَانِ )) صحیح البخاری:1249،صحیح مسلم :2633

’’ جس خاتون کے تین بچے فوت ہو جائیں وہ اس کیلئے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گے ۔ ‘‘

ایک عورت نے کہا : اور دو بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اور دو بھی ۔ ‘‘

خلاصہ یہ ہے کہ اولاد اگر والدین کی زندگی میں فوت ہو جائے تو وہ بھی ان کیلئے باعث ِ خیر وبرکت اور اگر

والدین اولاد سے پہلے فوت ہو جائیں تو تب بھی اولاد ان کیلئے باعث ِ اجر وثواب ثابت ہو تی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ نعمت بغیر نکاح کے حاصل نہیں ہو سکتی ۔

03.شادی کرنے سے نظر کی حفاظت ہوتی ہے اور خاوند بیوی کو پاکدامنی حاصل ہوتی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یَامَعْشَرَ الشَّبَابِ!مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ،فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَائٌ )) صحیح البخاری ۔ النکاح باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم :6066

’’ اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شخص شادی کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے ۔ اس سے نظر جھک جاتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے ۔اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو تووہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کیلئے ڈھال کا کام دیتے ہیں ۔‘‘

اس حدیث میں نظر اور شرمگاہ کی حفاظت کیلئے ایک عظیم نسخہ بتایا گیا ہے اور وہ ہے شادی ۔ اس لئے جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہو وہ ضرور اس پر عمل کرے تاکہ اسے یہ فوائد حاصل ہو سکیں ۔

04. نکاح کرنا اللہ تعالیٰ اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری ہے

اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری پر اپنے بندوں کو اجر وثواب اور پاکیزہ زندگی عطا کرتا ہے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ خاوند بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات بھی ایک عبادت ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( وَفِیْ بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ،قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَیَأْتِیْ أَحَدُنَا شَہْوَتَہُ وَیَکُوْنُ لَہُ فِیْہَا أَجْرٌ ؟ قَالَ : أَرَأَیْتُمْ لَوْ وَضَعَہَا فِیْ حَرَامٍ أَکَانَ عَلَیْہِ وِزْرٌ ؟ فَکَذَلِکَ إِذَا وَضَعَہَا فِیْ الْحَلَالِ کَانَ لَہُ أَجْرًا )) صحیح مسلم،الزکاۃ باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف : 1006

’’ تمھارے جماع کرنے میں بھی صدقہ ہے ۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت کو پورا کرے تو اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارا کیا خیال ہے اگر وہ اپنی

شہوت ناجائز طریقے سے پوری کرے تو کیا اس پر اسے گناہ ہو گا ؟ اسی طرح اگر وہ جائز طریقے سے پورا کرے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے ۔‘‘

نکاح اور شادی کے ان عظیم فوائد کے پیش ِ نظر شادی میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے ۔ اس لئے سرپرستوں کو اپنی جوان اولاد کی شادی کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں بہت سارے سرپرست حضرات اپنے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی میں بہت تاخیرکردیتے ہیں اور وہ اپنی بہو یا اپنے داماد کے اختیار میں محض دنیاوی اعتبار سے سوچتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی مالدار آدمی مل جائے جو ان کی بیٹی کو بہت زیادہ حق مہر ادا کرے یا دولتمند گھرانے کی لڑکی مل جائے جو بیٹے کے گھر میں بہت زیادہ جہیز لے کر آئے اور یہ سوچ انتہائی غلط ہے ۔ ہماری شریعت میں ایسی سوچ وفکرکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اس کے برعکس اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ اگر دیندار اور باکردار لڑکا ملتا ہو تو اسے اپنی لڑکی بیاہ دینی چاہئے خواہ وہ غریب کیوں نہ ہو اور اسی طرح اگر دیندار لڑکی ملتی ہو تو اسے اپنے لڑکے کیلئے اس کے والدین یا سرپرست سے طلب کر لینا چاہئے اور پھر اسی سے اس کی شادی کر دینی چاہئے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( إِذَا أَتَاکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَہُ وَ دِیْنَہُ فَزَوِّجُوْہُ،إِلَّا تَفْعَلُوْا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ)) صحیح الجامع للألبانی:270: السلسلۃ الصحیحۃ :1022

’’ جب تمھارے پاس وہ شخص ( شادی کا پیغام لے کر ) آئے جس کا کردار اور اس کی دینی حالت تم کو پسند ہو تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دو ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت زیادہ فساد برپا ہو جائے گا۔‘‘

اس حدیث میں ذر اغورفرمائیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے نکاح کیلئے لڑکے کا معیار مقرر کردیا ہے اور وہ ہے اس کا کردار اور اس کی دینی حالت ، لیکن افسوس بصد افسوس آج یہ معیار بالکل بدل چکا ہے ، کردار اور دینداری کی بجائے صرف دنیا کو معیار بنا لیا گیا ہے اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق زمین پر فتنہ اور فساد برپا ہو چکا ہے ۔ لڑکیاں اپنے والدین کے ہاں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ، ان کے والدین مالدار لڑکوں اور بڑے حق مہر کے انتظار میں انھیں بوڑھی کردیتے ہیں اور لڑکوں والے انھیں اس لئے قبول نہیں کرتے کہ وہ غریب ہوتی ہیں اور اسی لئے آئے دن بدکاری کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ جب نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی

نہیں کی جائے گی تو بد کاری نہیں ہوگی تو اورکیا ہوگا ؟ والعیاذ باللہ ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ جیسے انسان کو رد تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بات یہ ہے کہ آپ کافر ہیں اور میں مسلمان اور میرے لئے حلال نہیں کہ میں آپ سے شادی کروں ۔ اگر آپ اسلام قبول کرلیں تو یہی میرا حق مہر ہو گا۔چنانچہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام قبول کرنا ہی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا حق مہر بنا ۔ قال الحافظ فی الفتح:18/9: أخرجہ النسائی بسند صحیح

تو یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ خاتون جس نے دنیا کو کوئی حیثیت نہیں دی اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کو ہی اپنا حق مہر تسلیم کر لیا ۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے انتخاب کیلئے جو معیار مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے :

(( تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ:لِمَالِہَا،وَلِحَسَبِہَا،وَلِجَمَالِہَا،وَلِدِیْنِہَا،فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ )) متفق علیہ

’’ عورت سے نکاح چار اسباب کی بناء پر کیا جاتا ہے : اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے ، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کی دینداری کی وجہ سے ۔ لہٰذا تم تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں دیندار لڑکی سے ہی نکاح کرنا۔ ‘‘

بیوی اور بہو کے انتخاب کیلئے بھی دینداری کو ہی معیار مقرر کیا گیا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیندار اور نیک بیوی کو بہترین خزانہ قرار دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ مَا یُکْنَزُ؟ اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ،إِذَا نَظَرَ إِلَیْہَا سَرَّتْہُ،وَإِذَا غَابَ عَنْہَا حَفِظَتْہُ،وَإِذَا أَمَرَہَا أَطَاعَتْہُ )) سنن أبی داؤد: 1664

’’ کیا میں تمھیں بہترین خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ ہے نیک بیوی ۔ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو وہ اس کی (عزت کی ) حفاظت کرے اور جب وہ اسے کوئی حکم دے تو وہ فرمانبرداری کرے ۔ ‘‘

کامیاب ازدواجی زندگی کے چند اُصول

برادران اسلام ! اب ہم خاوند بیوی کی کامیاب ازدواجی زندگی کے چند اصول ذکر کرتے ہیں۔ اگر وہ دونوں ان اصولوں پر کاربند رہیں تو وہ اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنا سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں :

01. معاہدے کی پابندی

نکاح خاوند بیوی کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ اگر وہ دونوں اس معاہدے کی پاسداری کریں تو وہ ایک کامیاب اور اچھی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَکَیْْفَ تَأْخُذُونَہُ وَقَدْ أَفْضَی بَعْضُکُمْ إِلَی بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنکُم مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾ النساء4 :21

’’ اور آخر تم اسے ( حق مہر کو) کس طرح واپس لے لو گے جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد وپیمان لے چکی ہیں ۔ ‘‘

’’ پختہ عہد وپیمان ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں امام ابن جریر الطبری کا کہنا ہے کہ یہ وہ عہد وپیمان ہے جو بوقتِ نکاح مرد سے اس کی بیوی کیلئے لیا جاتا ہے کہ وہ اسے یا تو اچھے طریقے سے اپنے پاس رکھے گا یا اس پر احسان کرکے اسے چھوڑ دے گا ۔ جامع البیان: 316/4

اور خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

(( فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ،فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ،وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ )) مسلم ۔ الحج:1218

’’ لہٰذا تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری پر لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ساتھ تم نے انھیں اپنے لئے حلال کیا ہے ۔ ‘‘

اس حدیث میں خاص طور پر مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور ان پر ظلم وزیادتی نہ کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد ہی عورتوں پر زیادتی کرتے ہیں اور انھیں اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ اس لئے انھیں اس سے منع کردیا گیا ہے اور اس میں ’’ کلمۃ اللہ ‘‘ کا لحاظ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کی بناء پر انھوں نے اپنی بیویوں کو اپنے لئے حلال کیا۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان

ہے:﴿فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ یعنی یا انھیں اچھے طریقے سے اپنے پاس رکھو یا احسان کے ساتھ انھیں چھوڑ دو ۔ یا اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم مقصود ہے :﴿ فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ﴾ یعنی جو عورتیں تمھیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو ۔ گویا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بناء پر و ہ تمھارے لئے حلال ہوئیں ، لہٰذا اب اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ان کے حقوق نہ مارو ۔

مذکورہ حدیث کی شرح کیلئے دیکھئے: شرح مسلم للنووی:183/8،عون المعبود :263/5

خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں مردو عورت کا نکاح ان کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جس میں مرد اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنے بیوی سے حسن سلوک کرے گا اور بیوی اس بات کا عہد کرتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے گی اور اس کے گھر ، مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرے گی اور اگر وہ دونوں اس عہد کی پاسداری اور پابندی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی ازدواجی زندگی کامیابی سے بسر نہ ہو ۔

02.خاوند بیوی کے درمیان محبت

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ الروم30 :21

’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھارے لئے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کر سکو اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند بیوی کے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی ہے جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہیں ، ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہر طرح سے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔اور یہ محبت وہمدردی ایسی ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلُ النِّکَاحِ )) صحیح الجامع للألبانی:5200،السلسلۃ الصحیحۃ :624 ’’ نکاح کرنے والے جوڑے کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس جیسی محبت کسی اور جوڑے میں نہیں دیکھی گئی۔‘‘

لہٰذا خاوند بیوی دونوں اگر اس محبت وپیار پر قائم رہیں تو یقینی طور پر ان کی زندگی انتہائی خوشگوار انداز میں گذر سکتی ہے ۔

اورہم سب کے اسوۂ حسنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے اسی محبت وپیار کا اظہار فرماتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ

’’ میں جب حالتِ حیض میں ہوتی اور پانی پیتی تو میں بچا ہوا پانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ سے پانی پیتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا ۔ اسی طرح میں جب کھانے کے دوران ایک ہڈی سے گوشت کاٹتی اور وہی ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ پر منہ رکھ کر گوشت کاٹتے جہاں میں نے منہ رکھ کر گوشت کاٹا ہوتا ۔ ‘‘ صحیح مسلم،الحیض :300

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ میں مقابلہ کیا اور میں مقابلے آپ سے آگے بڑھ گئی ۔ پھر جب میرا جسم بھاری ہو گیا اور ہم دونوں میں ایک بار پھر مقابلہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آگے بڑھ گئے اور آپ نے فرمایا : (( ہٰذِہِ بِتِلْکَ )) یعنی ’’ میری یہ جیت تمھاری اُس جیت کے بدلے میں ہے ۔ ‘‘ أحمد: 39/6،سنن أبی داؤد،الجہاد باب فی السبق علی الرجل:2578،سنن ابن ماجہ،النکاح باب حسن معاشرۃ النساء:1979،وصححہ ابن حبان 4691،والألبانی فی صحیح أبی داؤد :2248

ان دونوں احادیث سے ( اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث سے ) معلوم ہوتا ہے کہ خاوند بیوی ایک دوسرے سے محبت وپیار کے ساتھ زندگی بسر کریں ، دونوں خوشی وغمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور اگر کبھی ان دونوں میں کوئی بات ایک دوسرے کی ناراضگی کا باعث بنے تو دونوں ایک دوسرے سے در گذر کرتے ہوئے اسے اچھے انداز میں حل کرلیں ۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ کیا میں تمھیں جنتی عورتوں کے متعلق نہ بتاؤں ؟ ‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہر وہ عورت جو خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو اور جب اسے غصہ آئے یا اس سے بد سلوکی کی جائے یا اس کا خاوند اس پر ناراض ہو جائے تو وہ خاوند کے پاس جا کر اس سے کہے : یہ میرا ہاتھ تیرے ہاتھ میں ہے ، میں اس وقت تک کوئی بناؤ سنگھار نہیں کرونگی جب تک تم راضی نہیں ہو جاتے ۔ ‘‘ السلسلۃ الصحیحۃ :287

03. خاوند بیوی … ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی

خاوند بیوی ایک دوسرے کی پریشانی کو اپنی پریشانی تصور کریں اور دونوں ایک دوسرے کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کریں تو ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار انداز سے گذر سکتی ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانپتے ہوئے (شدیدپریشانی کے عالم میں)اپنے گھر میں داخل ہوئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہنے لگے:(( زَمِّلُوْنِیْ، زَمِّلُوْنِیْ )) یعنی ’’مجھے چادر اڑھا دو ، مجھے چادر اڑھا دو ۔ ‘‘ تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انھیں چادر اڑھا دی ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پورا حال سنایا اور فرمانے لگے : (( لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ)) یعنی ’’مجھے تو اپنی جان کا خطرہ پڑگیا تھا ۔ ‘‘

اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے ) کہا : (( کَلَّا،أَبْشِرْ، فَوَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ أَبَدًا،وَاللّٰہِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ،وَتَحْمِلُ الْکَلَّ،وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ،وَتَقْرِیْ الضَّیْفَ،وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ )) صحیح البخاری،کتاب بدء الوحی باب بدء الوحی :3،صحیح مسلم،الإیمان :16

’’ ہرگز نہیں ، آپ کو تو بشارت ہو ۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔ اللہ کی قسم ! آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، بوجھ برداشت کرتے ہیں ، جس کے پاس کچھ نہ ہو اسے کما کر دیتے ہیں ، مہمان نواز ہیں اور مصائب وآلام میں مدد کرتے ہیں ۔ ‘‘

پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔

آپ ذرا غور فرمائیں ! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کیسے کم کی اور کس طرح ان کے خوف کو ہلکا کیا اور انھیں تسلی دی اور نبوت کے عظیم منصب کواٹھانے کیلئے ان کی ڈھارس بندھوائی ۔

اور قصۂ صلحِ حدیبیہ میں ہے کہ کفار کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا :

(( قُوْمُوْا،فَانْحَرُوْا ، ثُمَّ احْلِقُوْا ))

’’ کھڑے ہو جاؤ ، قربانی کرو اور سرمنڈوا دو ۔ ‘‘

لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی کھڑا نہ ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی حکم دیا اور جب آپ نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اس کی تعمیل نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی پریشانی کے عالم میں

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے اور انھیں سارا قصہ سنایا ۔ اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اب آپ پھر باہر جائیں اور ان میں سے کسی سے کوئی بات نہ کریں اور آپ اپنے اونٹ ذبح کرکے اپنا سر منڈوا دیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ ذبح کردئیے ہیں اور اپنا سر منڈوا دیا ہے تو سب کے سب اٹھے اور قربانیاں کیں اور اپنے سر منڈوا دئیے ۔ صحیح البخاری،الشروط باب الشروط فی الجہاد :2732

تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی پریشانی کے عالم میں ایک اچھا مشورہ دیا جس پر عمل کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی ختم ہو گئی ۔ لہٰذا ہر خاوند بیوی کو اسی طرح پریشانی کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہئے اور غم واندوہ کے موقعہ پر اپنے رفیقِ حیات یا رفیقۂ حیات کی بھر پور مدد کرنی چاہئے ۔ یوں وہ اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

04.خاوند بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں

کامیاب وخوشگوار ازدواجی زندگی گذارنے کیلئے ضروری ہے کہ خاوند بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرے ۔ نہ خاوند بیوی کی حق تلفی کرے اور نہ بیوی خاوند کے حقوق مارے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ﴾ البقرۃ2 :228

’’ اور عورتوں کے ( شوہروں پر ) عرفِ عام کے مطابق حقوق ہیں جس طرح شوہروں کے ان پر ہیں اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کہ خاوند بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا :

(( أَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا ، وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا )) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :1930

’’ خبردار ! بے شک تمھاری بیویوں پر تمھارا حق ہے اور تم پر تمھاری بیویوں کا حق ہے ۔ ‘‘

لہٰذا خاوند بیوی اگر ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کریں تو یقینی طور پر ان کی ازدواجی زندگی انتہائی اچھے انداز سے گذر سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! جیسا کہ آپ نے پہلے خطبہ میں سماعت فرمایا کہ خاوند بیوی کی کامیاب ازدواجی زندگی کیلئے ایک اصول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور انھیں ادا کریں۔ تو آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ حقوق کونسے ہیں؟

خاوند بیوی کے حقوق تین قسم کے ہیں : (۱) مشترکہ حقوق (۲) خاوند کے حقوق (۳) بیوی کے حقوق

’ مشترکہ حقوق‘ سے مراد وہ حقوق ہیں جو خاوند بیوی کے درمیان مشترک ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ یہ حقوق دوسرے کیلئے ادا کرے اور وہ یہ ہیں :

01. نکاح کے وقت طے کردہ شرائط کو پورا کرنا

خاوند بیوی کے درمیان بوقت ِ نکاح جو جائز شرائط طے پا جائیں دونوں پر ضروری ہے کہ وہ انھیں پورا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَحَقُّ مَا أَوْفَیْتُمْ مِنَ الشُّرُوْطِ أَنْ تُوْفُوْا بِہٖ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ )) صحیح البخاری،النکاح:5151، صحیح مسلم ،النکاح :1418

’’ جن شرائط کے ساتھ تم شرمگاہوں کو حلال کر لیتے ہو انھیں پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ ‘‘

اس حدیث میں جن شرائط کے پورا کرنے کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے یہ وہ شرائط ہیں جو بوقتِ نکاح خاوند بیوی کے درمیان طے پاتی ہیں اور وہ دونوں ان کو پورا کرنے کا عہد کر لیتے ہیں۔ مثلا بیوی کیلئے حق مہر، نان ونفقہ وغیرہ اور خاوند کی اطاعت اور خدمت کرنا وغیرہ ۔

لیکن یہاں ایک ضروری امر ملحوظِ خاطر رہے اور وہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کے درمیان طے کردہ شرائط جائز ہوں تو ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور اگر ناجائز شرائط طے کر لی جائیں تو شرعا ان کی کوئی حیثیت نہیں۔مثلا بیوی یا اس کے سرپرست کی جانب سے یہ شرط لگائی جائے کہ خاوند دوسری شادی نہیں کرے گا،یا اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا تو یہ اور اس جیسی وہ تمام شرائط جو شرعی احکام کے خلاف ہوں وہ سب کی سب باطل اور ناقابل اعتبار ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَہُوَ بَاطِلٌ )) أحمد: 213/6،سنن ابن ماجہ:842/2:2521،وصححہ ابن حبان:4272،والألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ صحیح البخاری :5152، صحیح مسلم : 1408

’’ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے ۔ ‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَۃُ طَلاَقَ أُخْتِہَا لِتَکْتَفِیئَ صَحْفَتَہَا، وَلْتَنْکِحْ فَإِنَّمَا لَہَا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَہَا)) قال الحافظ فی الفتح: 125/9: أخرجہ الطبرانی فی الصغیر بإسناد حسن

’’ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اس کا رزق اپنے لئے حاصل کر لے بلکہ وہ (بلا شرط ) نکاح کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ اسے ضرور ملے گا ۔ ‘‘

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام مبشر بنت البراء بن معرور کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو انھوں نے کہا : میرے خاوند نے شرط لگائی تھی کہ میں اس کے بعد کسی سے شادی نہیں کرونگی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ شرط درست نہیں ہے ۔ صحیح البخاری ۔ بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ:3237،صحیح مسلم،النکاح: 1736

ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ناجائز شرائط کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ۔ ہاں اگر جائز شرائط ہوں تو ان کا پورا کرنا خاوند بیوی دونوں کیلئے ضروری ہے ۔

02.ایک دوسرے سے لطف اندوز ہونا

اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں کی فطرت میں شہوانی جذبات ودیعت کئے ہیں جن کی بناء پر دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور نکاح کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ وہ دونوں جائز طریقے سے ان جذبات کی تکمیل کر سکیں ۔ تو ایک دوسرے کی جنسی خواہش کو پورا کرنا خاوند بیوی دونوں کا مشترکہ حق ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إِلٰی فِرَاشِہٖ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا،لَعَنَتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ)) سنن الترمذی،والنسائی ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :1946

’’جب ایک خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے ، پھر وہ اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دے تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إِذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ،فَلْتَأْتِہٖ وَإِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّوْرِ )) البخاری،الصوم،باب من أقسم علی أخیہ : 1968

’’ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کیلئے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے اگرچہ وہ تنور پر کیوں نہ ہو۔‘‘

اور حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا ۔ چنانچہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے تو انھوں نے حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور انھوں نے کوئی بناؤ سنگھار نہیں کیا ہوا ۔ جب انھوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ تمھارا بھائی ابو الدرداء دنیا سے بالکل بے نیاز ہو چکا ہے ۔ اس کے بعد حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی گھر میں پہنچ گئے تو انھوں نے مہمان کیلئے کھانا تیار کروایا اور انھیں کھانا پیش کرکے کہنے لگے : بھائی تم کھاؤ ، میں تو روزے سے ہوں ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک تم میرے ساتھ نہیں کھاتے ! تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ کھانے لگے ۔ پھر جب رات چھا گئی تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمان سے سونے کا کہا اور خود جا کر نماز پڑھنے لگے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے کہا : جاؤ تم بھی سو جاؤ ۔ چنانچہ وہ بھی سو گئے اور جب رات کا آخری حصہ شروع ہوا تو انھوں نے کہا : اب اٹھو اور نماز پڑھ لو ۔ پھر انھوں نے کہا : تم پر تمھارے رب کا حق بھی ہے ، تمھاری جان کا حق بھی ہے اور تمھارے گھر والوں کا حق بھی ہے ۔ لہٰذا تم سب کے حقوق ادا کیا کرو ۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو پورا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سلمان نے سچ کہا ہے۔‘‘

ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کا بیوی پر اور بیوی کا خاوند پر حق ہے کہ وہ ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں اور اپنی جنسی خواہش کو پورا کریں ۔

03. خاوند بیوی کے ازدواجی تعلقات اور راز داری

میاں بیوی کا ایک دوسرے پر ایک مشترکہ حق یہ ہے کہ وہ آپس کے ازدواجی تعلقات کو صیغۂ راز میں رکھیں اور ایک دوسرے کے راز ظاہر نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ﴾ البقرۃ 2:187

’’ وہ تمھارے لئے لباس ہیں اور تم ان کیلئے لباس ہو ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلقات کیلئے نہایت لطیف استعارہ فرمایا جس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ جس طرح لباس او رجسم کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہیں ہوتی اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے سے تعلق ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور راز دان ہو ۔ تیسرے یہ کہ تم ایک دوسرے کی عزت کے شریک ہو اور چوتھے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو ۔ ‘‘ تیسیر القرآن:121/1

یاد رہے کہ ازدواجی تعلقات کے رازوں کو ظاہر کرنا حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَلرَّجُلُ یُفْضِیْ إِلَی امْرَأَتِہٖ وَتُفْضِیْ إِلَیْہِ، ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّھَا )) صحیح مسلم،النکاح :1437

’’ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سب سے برے مرتبے والا انسان وہ ہو گا جو اپنی بیوی سے لطف اندوز ہوا اور وہ اس سے لطف اندوز ہوئی ۔ پھر اس نے اپنی بیوی کے رازوں کو ظاہر کردیا۔‘‘

اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ و ہ اور چند دیگرخواتین اور کچھ مرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شاید ایک آدمی جو کچھ اپنی بیوی سے کرتا ہے اسے لوگوں کے سامنے کہہ دیتا ہے اور شاید ایک عورت جوکچھ اپنے خاوند سے کرتی ہے وہ بھی اسے ظاہر کردیتی ہے ! تو لوگ خاموش ہو گئے۔ میں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! یہ مرد وعورت ایسا ہی کرتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ ایسا نہ کیا کرو کیونکہ اس کی مثال اس شیطان کی سی ہے جو ایک شیطانہ ( مؤنث شیطان ) سے ملتا ہے ، پھر لوگوں کے سامنے اس سے جماع شروع کر دیتا ہے ‘‘ أحمد:456/6،ولہ شاہد من حدیث أبی ہریرۃ فی أبی داؤد:2174،وقال الألبانی فی آداب الزفاف : فالحدیث بہذہ الشواہد صحیح أو حسن علی الأقل

04. حقِ وراثت

خاوند بیوی کے درمیان مشترکہ حقوق میں سے چوتھا حق ، حقِ وراثت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس حق کو یوں بیان کیا ہے :﴿وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّہُنَّ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِیْنَ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ﴾ النساء4 :12

’’ اور اگر تمھاری بیویوں کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ سے تمھارا نصف حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو پھر چوتھا حصہ ہے اور یہ تقسیمِ ترکہ ان کی وصیت کی تکمیل اور ان کا قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر تمھاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کا چوتھا حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو پھر آٹھواں حصہ ہے اور یہ تقسیم بھی تمھاری وصیت کی تعمیل اور تمھارے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی ۔ ‘‘

یہ تھے خاوند بیوی کے درمیان مشترکہ حقوق ۔ رہے بیوی پر خاوند کے حقوق اور خاوند پر بیوی کے حقوق تو وہ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبہ میں بیان کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین ِ حنیف کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمین