والدین کے حقوق  (2)

==============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا [الإسراء : 23]

اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ’’اف‘‘ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا [الإسراء : 24]

اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکا دے اور کہہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جیسے انھوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔

ماں،بچوں پر شفقت کیوں کرتی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیںِ، اس میں سے ایک رحمت جن و انس، جانوروں اور زہریلے سانپوں اور کیڑوں میں اتاری، اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر شفقت اور ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور ننانویں رحمتیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر کر رکھی ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘

 [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی… : ۲۷۵۲، ۲۷۵۳، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]

اور بخاری کی روایت میں ہے

فَمِنْ ذَلِكَ الجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الخَلْقُ، حَتَّى تَرْفَعَ الفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا، خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ»

(بخاری كِتَابُ الأَدَبِ،بَابٌ جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ،6000)

 اسی (ایک حصہ ) کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے ، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کواٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس سے اس بچہ کو تکلیف نہ پہنچے

09.  والدین کے پاس موجود رہیں اور انہیں وقت دیں

اویس قرنی رضی اللہ عنہ اور والدہ کی خدمت میں حاضری

 اُسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:

کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے

«يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ»

 کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔

 تو میرے لئے دعا کرو۔ پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔

(مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،6492)

سوچنے کی بات ہے کہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت کیسے حاصل ہوئی

اویس کوئی بہت زیادہ نوافل کا اہتمام نہیں کرتے تھے

زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے

زیادہ صدقات نہیں کرتے تھے

نہ ہی انہوں نے کوئی بہت بڑے بڑے معرکے سر کررکھے تھے

اویس کی بڑی خوبی یہی تھی کہ ماں کی خدمت کے لیے ماں کے پاس موجود رہتے تھے اور ماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے تھے حتی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت پر بھی ماں کی خدمت کو ترجیح دی تھی

ہجرت اور جہاد کے لیے آنے والے کو والدین کی خدمت کے لیے واپس کر دیا

حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ

(میرے والدمحترم) حضرت جاہمہؓ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے

 يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ

 : اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔

آپﷺ نے فرمایا:

هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ

 ’’تیری والدہ ہے؟‘‘

 اس نے کہا:

 نَعَمْ جی ہاں!

 آپ نے فرمایا:

 فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا

(نسائی ،كِتَابُ الْجِهَادِ،الرُّخْصَةُ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَةٌ،3106 حسن صحيح)

 ’اس کے پاس ہی رہ (اور خدمت کر)۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے۔‘‘

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 وَيْحَكَ أَحَيَّةٌ أُمُّكَ

 تیرا بھلا ہو، کیا تیری ماں زندہ ہے؟

 میں نے کہا:

 نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ

 جی ہاں، اے اللہ کے رسول!

 رسول اللہﷺ نے فرمایا:

وَيْحَكَ الْزَمْ رِجْلَهَا فَثَمَّ الْجَنَّةُ

(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابُ الرَّجُلِ يَغْزُو وَلَهُ أَبَوَانِ،2781 صحیح)

 تیرا بھلا ہو، اس کے قدموں میں پڑا رہ جنت وہیں ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا :

 میں آپ کے پاس ہجرت پر بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں

آپ ﷺ نے فرمایا

ارْجِعْ عَلَيْهِمَا, فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا

(ابوداؤد ،كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَغْزُو وَأَبَوَاهُ كَارِهَانِ،2528 صحیح)

’’ان کے پاس جا اور انہیں ہنسا ( اور خوش کر ) جیسے کہ تو نے انہیں رلایا ہے‘‘

والدین کو چھوڑ کر بیرون ملک جانے والے

یہاں ان لوگوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جو کاروبار یا پیسہ کمانے کے چکروں میں والدین کو اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں

وطن عزیز پاکستان میں بہت سے گھر ایسے موجود ہیں کہ سبھی بیٹے بیرون ملک پیسہ کمانے کے لیے پہنچے ہوئے ہیں اور پیچھے والدین اکیلے ان کی راہیں تک رہے ہیں

سوچئے کہ اگر ماں کو چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا ضروری نہیں ٹھہرا بلکہ قابل تعریف قرار پایا ہے

اور والدین کو چھوڑ کر ہجرت اور جہاد بھی مستحسن قرار نہ پائے

تو ماں کو چھوڑ کر بیرون ملک کاروبار کے لیے جانا کیسے درست ہوسکتا ہے

بیٹوں کا والدین کے پاس موجود رہنا اللہ تعالیٰ کی نعمت شمار کیا جاتا ہے

قرآن مجید میں پاس موجود رشتوں کو بطور نعمت ذکر کیا گیا ہے

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا [المدثر : 11]

چھوڑ مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔

وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَمْدُودًا [المدثر : 12]

اور میں نے اسے لمبا چوڑا مال عطا کیا۔

وَبَنِينَ شُهُودًا [المدثر : 13]

اور حاضر رہنے والے بیٹے (عطا کیے)۔

وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا [المدثر : 14]

اور میں نے اس کے لیے سامان تیار کیا، ہر طرح تیار کرنا۔

والدین کے ساتھ بے تکلف دوستانہ ماحول میں گپ شپ خوش طبعی کریں

والدین کے پاس بیٹھ کر واٹس ایپ، موبائل-فون ،دفتر، جامعہ، مدرسہ،سکول، کالج، کاروبار الغرض والدین سے غیر متعلقہ کسی بھی قسم کی کوئی باتیں نہ کریں

ان سے صرف وہ باتیں کریں جن سے وہ محظوظ ہوں

اگر ان چیزوں کے متعلق بات کرنا ضروری ہی ہو تو ان میں اپنی کسی کامیابی کی خبر دیں اپنے ادارے کی ترقی کی رپورٹ پیش کریں اپنے اچھے رزلٹ کی خبریں دیں جس سے انہیں خوشی محسوس ہو

والدین کے پاس بیٹھ کر واٹس ایپ وغیرہ کا استعمال نہ کریں بلکہ موبائل-فون سائیلنٹ کرکے جیب میں ڈال لیں اور اگر واٹس ایپ دیکھنا بہت ہی ضروری ہو تو پھر جو میسج آجا رہے ہیں وہ پاس بیٹھے والدین کو بھی سناتے رہیں کوئی اچھی معلومات فراہم کریں جس سے ان کی طبیعت فرحت محسوس کرے نیز والدین کے پاس خاموش بھی نہ بیٹھے رہیں کوئی نہ کوئی بات سناتے رہیں ان کے ساتھ بے تکلف مخلص دوستی کا ماحول پیدا کریں

اولاد والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے مگر یہ ٹھنڈک تبھی بنے گی جب ان کے پاس بیٹھیں گے اور انہیں وقت دیں گے

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا [الفرقان : 74]

اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔

باپ نے بیٹے کا ٹائم لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ درج کر دیا

ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا تاکہ اپنی شکایت(مقدمہ)قاضی کے سامنے پیش کرے-

*قاضی نے پوچھا آپ کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟

اس نے کہا اپنے بیٹے کے خلاف۔

قاضی حیران ہوا اور پوچھا کیا شکایت ہے،

بوڑھے نے کہا،

میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں،

قاضی نے کہا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہےکہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے*

*بوڑھے نے کہا قاضی صاحب ! اس کے باوجود کہ میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں ہوں،

لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں-*

*قاضی حیرت میں پڑ گیا اور اس سے اس کے بیٹے کا نام اور پتہ لیکر اسے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔

بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی نے اس سے پوچھا کیا یہ آپ کے والد ہیں؟

بیٹے نے کہا جی ہاں یہ میرے والد ہیں-*

قاضی نے کہا انہوں نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہےکہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو-

*بیٹے نے حیرت سے کہا،

وہ مجھ سےخرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ وہ خود بہت مالدار ہیں اور انہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے-*

قاضی نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔

*بوڑھے نے کہا قاضی صاحب!

اگر آپ اس کو صرف ایک دینارماہانہ ادا کرنے کا حکم دیں تو میں خوش ہو جاوں گا بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بلاتاخیر اور بلا واسطہ دیا کریے۔

قاضی نے کہا بالکل ایسا ہی ہو گا یہ آپ کا حق ہے-*

پھر قاضی نے حکم جاری کیا کہ "فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بلاواسطہ دیا کرے گا”

کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائر کیوں کیا تھا،جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا؟

*بوڑھے نے روتے ہوئے کہا،

 قاضی محترم !میں اپنے اس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس رہا ہوں، اور اس کو اس کے کاموں نے اتنا مصروف کیا ہےکہ میں ایک طویل زمانے سے اس کاچہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں جبکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت رکھتا ہوں*

اور ہر وقت میرے دل میں اس کا خیال رہتا ہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیلیفون پر بھی-

اس مقصد کے لئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی، میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔

*یہ سن کر قاضی بےساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے بھی،

اور بوڑھے باپ سےکہا، اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کرتے تو میں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا۔

بوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا۔*

"سیدی قاضی! آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا "

کاش بیٹے جانتے کہ ان کے والدین کے دلوں میں ان کی کتنی محبت ہے، اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے ان کی قدر کیجئے۔

ایک عربی پوسٹ کاترجمہ۔

10.  والدین کی کبھی بھی نافرمانی نہ کریں

 مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَمَنَعَ وَهَاتِ وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ

(بخاری ،كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ مَا يُنْهَى عَنْ إِضَاعَةِ المَالِ،2408)

، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں ( اور باپ ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، ( واجب حقوق کی ) ادائیگی نہ کرنا اور ( دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر ) دبالینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اورکثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

 انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا

«الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ»

(بخاری ،كِتَابُ الشَّهَادَاتِ،بَابُ مَا قِيلَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ،2653)

 کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا ۔

نو کبیرہ گناہوں میں سے ایک والدین کی نافرمانی

 جناب عبید بن عمیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں جو کہ صحابی تھے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے پوچھا :مَا الْكَبَائِرُ

 اے اللہ کے رسول ! کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟

 آپ ﷺ نے فرمایا ;

هُنَّ تِسْعٌ

 وہ نو ہیں

(سات یہ ہیں)

الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ

 اور مزید کہا :

 وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ الْمُسْلِمَيْنِ وَاسْتِحْلَالُ الْبَيْتِ الْحَرَامِ قِبْلَتِكُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا

(ابوداؤد ،كِتَابُ الْوَصَايَا،بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي أَكْلِ مَالِ الْيَتِيمِ،2875 حسن)

مسلمان ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور بیت اللہ الحرام کی بےحرمتی کرنا جو جیتے مرتے تمہارا قبلہ ہے ۔

والدین کا نافرمان جنت میں نہیں جائے گا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّيُّوثُ وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ وَالْمُدْمِنُ عَلَى الْخَمْرِ وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى

(نسائی ،كِتَابُ الزَّكَاةِ،الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى،2563 حسن صحيح)

  ’۔تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نہیں دیکھے گا: والدین کا نامفرنا، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور بے غیرت خاوند، نیز تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔‘‘

مکافات عمل

یہ بات یاد رکھیں کہ جو والدین کا نافرمان ہوگا اس کی اولاد اس کی نافرمان ہوگی

کتاب "سعادۃ الدارین فی بر الوالدين” میں لکھا ہے

ایک نوجوان اپنے بوڑھے باپ سے تنگ آکر اسے ایک غار میں چھوڑنے کے لیے چلا گیا بوڑھے باپ نے کہا بیٹا یہاں اس غار میں سردی بہت ہے کم از کم مجھے کوئی چادر، کمبل ہی دے دو

اس نافرمان کا ایک سات آٹھ سالہ چھوٹا بیٹا بھی ساتھ تھا اس نے بیٹے سے کہا گھر جاؤ اور دادا کی چادر اٹھا لاؤ وہ بچہ دادا کی چادر کاٹ کر اس کا آدھا حصہ لے آیا اس نے جب آدھی چادر دیکھی تو کہنے لگا یہ تو نے کیا کیا ہے اس پر چھوٹے بیٹے نے جواب دیا میں آدھی چادر گھر ہی چھوڑ آیا ہوں وہ آپ کے لیے ہے جب آپ بوڑھے ہو جائیں گے تو میں آپ کو اسی غار میں چھوڑوں گا اور وہ آدھی چادر بھی آپ کو دوں گا

(بحوالہ والدین اطاعت و نافرمانی واقعات کی زبانی از عبدالمالك مجاھد ص 272)

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

بابانِ مُعجَّلانِ عُقوبتُهما في الدنيا : البَغْيُ ، و العقُوقُ

(السلسلة الصحيحة ١١٢٠ صحيح • إسناده صحيح على شرط مسلم  •

 أخرجه الحاكم (٧٣٥٠) مطولاً واللفظ له،

والبخاري في «الأدب المفرد» (٨٩٥))

دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی سزا دنیا میں ہی جلد مل جاتی ہے ایک ظلم، سرکشی اور بغاوت دوسری نافرمانی

11. والدین کا شکر ادا کریں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ [لقمان : 14]

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا ۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدًا، إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ»

(مسلم، كِتَابُ الْعِتْقِ،بَابُ فَضْلِ عِتْقِ الْوَالِدِ،3799)

 "کوئی بیٹا والد کا حق ادا نہیں کر سکتا، الا یہ کہ اسے غلام پائے، اسے خریدے اور آزاد کر دے۔”

والدہ کو اپنی پشت پر اٹھائے بیت اللہ کا طواف

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ایک یمنی آدمی اپنی والدہ کو اپنی پشت پر اٹھائے بیت اللہ کا طواف کررہا تھا اور ساتھ کہہ رہا تھا

انی لھا بعیرھا المذلل إن أذعرت رکابھا لم أذعر

بے شک میں اس کی مطیع و فرمانبردار سواری ہوں اگر یہ مجھے اپنی ایڑی کے ذریعے خوفزدہ کرنا چاہے تو میں خوفزدہ نہیں ہوں گا

پھر اس نے ابن عمر سے پوچھا کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا تو آپ نے فرمایا نہیں  [الادب المفرد للبخاری 66/1]

12.   والدین کا قرض اتارا جائے

والدین کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ مقروض فوت ہو گئے ہیں تو ان کا قرض ادا کیا جائے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الصَّدَقَاتِ،بَابُ التَّشْدِيدِ فِي الدَّيْنِ،2413 صحیح)

مومن کی جان اس پر قرضہ کی وجہ سے لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ قرض ادا کر دیا جائے

 سعد بن اطول رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی وفات پا گئے، اور ( ترکہ میں ) تین سو درہم اور بال بچے چھوڑے، میں نے چاہا کہ ان درہموں کو ان کے بال بچوں پر صرف کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ أَخَاكَ مُحْتَبَسٌ بِدَيْنِهِ فَاقْضِ عَنْهُ

تمہارا بھائی اپنے قرض کے بدلے قید ہے، اس کا قرض ادا کرو

   انہوں نے کہا: اللہ کے رسول!

  قَدْ أَدَّيْتُ عَنْهُ إِلَّا دِينَارَيْنِ ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَيْسَ لَهَا بَيِّنَةٌ

میں نے ان کی طرف سے سارے قرض ادا کر دئیے ہیں، سوائے ان دو درہموں کے جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیا ہے، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فَأَعْطِهَا فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ [ابن ماجه 2433]

اس کو بھی ادا کر دو اس لیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ [نسائى]

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کردیا جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید کردیا جائے پھر زندہ کیا جائے اور اس کے ذمے کچھ قرض ہو تو وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ اس کی طرف قرض ادا کر دیا جائے

۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا، پس ہم نے اسے غسل دیا اور خوشبو لگائی، پھر ہم اسے لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی نمازجنازہ ادا فرمائیں۔ ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا کہ آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں، آپ چند قدم چل کررک گئے اور فرمایا:

 أَعَلَيْهِ دَيْنٌ

کیا اس پر قرض ہے؟

 ہم نے کہا: جی ہاں، دودینار ہیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو واپس چل پڑے،پھر سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی اور ہم دوبارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دودیناروں کی ذمہ داری لے لی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

  أُحِقَّ الْغَرِيمُ وَبَرِئَ مِنْهُمَا الْمَيِّتُ

کیا اب قر ض خواہ تجھ سے یہ حق طلب کرے گا اور میت اس سے بری ہو گئی ہے؟

  سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، تب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نمازجنازہ ادا کی۔ ایک دن کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ دیناروں کا کیا بنا؟ سیدناابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابھی کل تو وہ فوت ہوا ہے، پھر وہ لوٹے اور اگلے دن ان کی ادائیگی کر کے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ان کو ادا کر دیا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

 الْآنَ بَرَدَتْ عَلَيْهِ جِلْدُهُ

  اب اس کی جلد ٹھنڈی ہوئی ہے۔

مسند احمد(6069) ونسائى واللفظ لأحمد

13, فوت شدہ والدین کے لئے دعا کی جائے

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَدَبِ،بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ،3660)

 جنت میں آدمی کا درجہ بلند کیا جاتا ہے ۔ وہ کہتا ہے:یہ کس وجہ سے ہوا؟اسے کہا جاتا ہے:تیری اولاد کے تیرے لئے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ ] [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان … : ۱۶۳۱ ]

 ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس کا عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، صدقہ جاریہ سے، یا اس علم سے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، یا نیک اولاد سے جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

استغفار کا تحفہ بھیجیں

 مؤرخ تقي الدين المقریزي رحمه الله کی اہلیہ جوانی میں فوت ہو گئیں. وہ اُن کے حالات لکھتے ہوئے کہتے ہیں :

’’… وكنت أكثر الاستغفار لها فأُريتُها في المنام، فقلت لها: يا أم محمد! الذي أرسله إليكِ يصل -أي الاستغفار- ؟! قالت: نعم، في كل يوم تصل هديتك إليَّ. ثم بكت وقالت: قد علمتَ أني عاجزة عن مكافأتك!‘‘

"میں اس کی بخشش کیلیے کثرت سے دعا کیا کرتا تھا. ایک دن میں نے اسے خواب میں دیکھا تو پوچھا :

 اے ام محمد! جو کچھ میں آپ کو بھیجتا ہوں (یعنی جو استغفار کرتا ہوں)، وہ آپ تک پہنچتا ہے؟

کہنے لگی : جی روزانہ آپ کا ہدیہ مجھے پہنچتا ہے. پھر وہ رو پڑی اور کہا: آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے اس تحفے کا بدلہ چکانے سے قاصر ہوں!”

 [ درر العقود الفريدة : ٧٩/٣ ]|

حج و صدقہ وغیرہ

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے باپ کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات اور حج وغیرہ کرنے کے متعلق پوچھا کہ کیا اسے کچھ فائدہ ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

 إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ [ابو داود]

اگر وہ مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے کوئی غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو یہ اسے پہنچتے

امام ابن جوزی رحمہ اللہ کا واقعہ

يقول ابن الجوزي رحمه الله :

كنت يوما من الأيام نائما فى المسجد، فاستيقظت على صوت جنازة قد دخلت، فقلت سأصلي عليها، فصليت، ثم قلت : سأذهب لأدفنه معهم.

ابن الجوزي لايعرف الميت ولم ير وجهه يوما.

يقول : فلما انتهى الناس من الدفن انصرفوا جميعا، فتعجبت، وبقيت وحدي، فجلست عند القبر، ثم قلت :

يارب، هذا ضيف قد جاء عندك، أنا لا أعرفه، يارب هذا الضيف لو جاء عندي أنا وأنا لا أعرفه لأكرمته، فكيف بك أنت وأنت أكرم الأكرمين.

يقول : ثم خرجت، وعدت إلى المسجد، ونمت، وكنت على سفر،

فرأيت فى منامي رجلا بحلة بيضاء، فقال لى : أأنت الذى دعوت الله لي؟،

فقلت له : من أنت؟

قال : أنا الذي دعوت له عند القبر، والله لقد غفر الله لي بدعوتك.

اللهم سخر لنا من عبادك المخلصين (صفة الصفوة لابن الجوزي: 253/2)

اپنے مرحوم والدین کے لیے قبر پر جا کر دعا کیا کریں

عثمان بن سودہ الطفاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ

جب میری والدہ کی وفات ہوئی تو میں ہر جمعے ان کی قبر پر آ کر ان کے لیے دعا اور استغفار کیا کرتا تھا اور صرف اپنی والدہ ہی نہیں بلکہ دیگر فوت شدگان کے لیے بھی دعا کرتا.

ایک روز خواب میں والدہ کی زیارت ہوئی تو میں نے پوچھا:

امی جان! آپ کیسی ہیں؟

تو انہوں نے بتلایا کہ اللہ کا بہت ہی کرم ہے. اس نے مجھے نرم و گداز بستر اور باریک و دبیز ریشم کے تکیے دے رکھے ہیں.

میں نے پوچھا: کیا اور بھی کسی چیز کی ضروت ہے؟

تو میری والدہ نے کہا:

ہاں، بس یہی ضرورت ہے کہ تم دعا کرنے آتے رہا کرو اور یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ کرنا، کیونکہ تم جب بھی آتے ہو تو مجھے (راحت و آرام کی) بشارت ملتی ہے، اور مجھے باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا بیٹا تم سے ملنے کے لیے آیا ہے. یہ سن کر مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے اور میرے ارد گرد کے فوت شدگان بھی خوش ہو جاتے ہیں (یعنی انہیں بھی تمہاری دعا سے راحت ملتی ہے).

14. (والدین کےدوست واقرباءکی عزت کرنااورانکاخیال رکھنا)

ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے والد کے دوست ایک بوڑھے شخص کا احترام کرنا

عبداللہ بن دینار نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کی کہ وہ مکہ مکرمہ کے لیے نکلتے تو جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو ان کا گدھا ( ساتھ ہوتا ) تھا جس پر وہ سہولت کے لیے سواری کرتے ۔ اور ایک عمامہ ( ہوتا ) تھا جو اپنے سر پر باندھتے تھے ۔ تو ایسا ہوا کہ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ ایک بادیہ نشیں ان کے قریب سے گزرا ، انہوں نے اس سے کہا؛

 أَلَسْتَ ابْنَ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ، قَالَ: بَلَى،

 تم فلاں بن فلاں کے بیٹے نہیں ہو! اس نے کہا : کیوں نہیں ( اسی کا بیٹا ہوں )

فَأَعْطَاهُ الْحِمَارَ، وَقَالَ: ارْكَبْ هَذَا وَالْعِمَامَةَ، قَالَ: اشْدُدْ بِهَا رَأْسَكَ، فَقَالَ لَهُ: بَعْضُ أَصْحَابِهِ غَفَرَ اللهُ لَكَ أَعْطَيْتَ هَذَا الْأَعْرَابِيَّ حِمَارًا كُنْتَ تَرَوَّحُ عَلَيْهِ، وَعِمَامَةً كُنْتَ تَشُدُّ بِهَا رَأْسَكَ،

  تو انہوں نے گدھا اس کو دے دیا اور کہا : اس پر سوار ہو جاؤ اور عمامہ ( بھی ) اسے دے کر کہا : اسے سر پر باندھ لو ۔ تو ان کے کسی ساتھی نے ان سے کہا : اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ نے اس بدو کو وہ گدھا بھی دے دیا جس پر آپ سہولت ( تکان اتارنے ) کے لیے سواری کرتے تھے اور عمامہ بھی دے دیا جو اپنے سر پر باندھتے تھے ۔

 انہوں نے کہا :

 إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ وَإِنَّ أَبَاهُ كَانَ صَدِيقًا لِعُمَرَ [مسلم ترمذي ابوداؤد]

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : والدین کے ساتھ بہترین سلوک میں سے یہ ( بھی ) ہے کہ جب اس کا والد رخصت ہو جائے تو اس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والے آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ اور اس کا والد ( میرے والد ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا

ابو بردہ فرماتے ہیں میں ایک دفعہ مدینہ منورہ آیا تو سیدنا عبداللہ بن عمر میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا جانتے ہو میں کیوں آیا ہوں میں نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ھے

من احب ان یصل اباہ فی قبرہ فلیصل اخوان ابیہ بعدہ وانہ کان بین ابی عمر وبین ابیک اخاء وود فاحببت ان اصل ذاک [صحیح ابن حبان]

خدیجہ رضی اللہ عنھا کی سہیلیوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں

  مَا غِرْتُ عَلَى نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى خَدِيجَةَ وَإِنِّي لَمْ أُدْرِكْهَا قَالَتْ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَبَحَ الشَّاةَ فَيَقُولُ أَرْسِلُوا بِهَا إِلَى أَصْدِقَاءِ خَدِيجَةَ قَالَتْ فَأَغْضَبْتُهُ يَوْمًا فَقُلْتُ خَدِيجَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا

(مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب فَضَائِلِ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا،6278)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے مجھے کسی پر رشک نہیں آتاتھا،سوائے حضرت خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ،حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں دیکھا تھا۔ کہا:اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے:”اس کو خدیجہ کی سہیلیوں کی طرف بھیجو۔”کہا:میں نے ایک دن آپ کو غصہ دلادیا۔میں نے کہا:خدیجہ؟(آپ انھی کا نام لیتے رہتے ہیں)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” مجھے ان کی محبت عطا کی گئی ہے۔”

وفي رواية لمسلم

 وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ ثُمَّ يُهْدِيهَا إِلَى خَلَائِلِهَا

وقع عند النسائي ” من كثرة ذكره إياها وثنائه عليها

15.  (فوت شدہ والدین کی اچھی خوبیوں کا تذکرہ کرنا اور ان کی یادگار کا احترام)

ان کی اچھائیوں کا تذکرہ کریں گے تو ان کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جائے گا ان شاءاللہ

 انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

 مَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا وَجَبَتْ قَالَ هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ

(بخاري كِتَابُ الجَنَائِزِ،بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى المَيِّتِ،1367)

صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہوگئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔

بعض لوگوں کو اپنے فوت شدہ والدین خصوصا والد کے متعلق نازیبا کلمات کہتے ہوئے سنا گیا ہے

مثال کے طور پر اگر والد صاحب کی کچھ جائیداد وغیرہ تھی اور اس نے اپنی زندگی میں ہی اسے بیچ دیا تو دیکھا گیا ہے کہ بیٹے عموماً اپنے والد کی اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے منفی طرز کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ ہمارے والد نے اچھا نہیں کیا زمین بیچ کر پیسہ کھا گیا ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا وغیرہ وغیرہ

حقیقت یہ ہے کہ ایسے جملے بولنا اچھا نہیں ہے

خديجه نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد ان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کرتے تھے

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں

 كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ خَدِيجَةَ أَثْنَى عَلَيْهَا فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ قَالَتْ فَغِرْتُ يَوْمًا فَقُلْتُ مَا أَكْثَرَ مَا تَذْكُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا خَيْرًا مِنْهَا قَالَ مَا أَبْدَلَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْهَا قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ كَفَرَ بِي النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَوَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِي النَّاسُ وَرَزَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ [مسند احمد]

خديجه رضی اللہ عنہا كا هار

جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور ﷺ کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب کو ان کی والدہ حضرت خدیجہ نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور ﷺ کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت خدیجہ اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دوں

یہ سن کر تمام صحابۂ کرام نے سرتسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت زینب کے پاس مکہ بھیج دیا گیا

 (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ذکر رؤیا عاتکۃ۔..الخ،ص270  تاریخ طبری ص 1348)

16.  (اباو اجداد کے اچھے نسب کا خیال کرتے ہوئے ہوئے گھٹیا کاموں سے بچیں)

مریم علیھا السلام کا واقعہ اور قوم کا تبصرہ

جب مریم علیھا السلام کے ہاں بیٹے نے جنم لیا اور وہ اسے لے کر اپنی قوم کے سامنے آئیں

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [مريم : 27]

پھر وہ اسے اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس لے آئی، انھوں نے کہا اے مریم! یقینا تو نے تو بہت انوکھا کام کیا ہے۔

يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا [مريم : 28]

اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار تھی۔

یہ بات اپنی جگہ مسلَّم اور ایک حقیقت ہے کہ مریم علیھا السلام ایک پاکدامن عورت تھیں اور آپ کی پاکدامنی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے

یہاں ہمارا استشهاد صرف اس جملے سے ہے جو قومِ مریم نے مریم علیھا السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

 "اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار تھی”

اس سے معلوم ہوا کہ جن کے والدین، بہن بھائی اور خاندان کے لوگ بہتر روایات، شرافت، نیکی اور اچھی ناموری رکھتے ہوں تو معاشرے کے لوگ ان سے بھی اسی طرح کی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں اور ان سے کسی بھی غلطی کو انتہائی تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں

17.  (فوت شدگان کے اچھے کاموں کو جاری رکھاجائے)

بنی اسرائیل کو ان کے باپ کی اچھی خوبی کا تذکرہ کرتے ہوئے، خطاب

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا [الإسراء : 3]

اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا! بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔

  یعنی تم ان صالح لوگوں کی اولاد ہو جنھیں ہم نے نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار کرکے نجات بخشی۔ مقصد بنی اسرائیل کو ایمان اور عمل صالح پر ابھارنا ہے کہ دیکھو تم کن لوگوں کی اولاد ہو، تمھارے لیے اپنے صالح آبا و اجداد کے نقش قدم پر چل کر ایک اللہ کی عبادت کا پابند رہنا، اپنے باپ نوح علیہ السلام کی طرح ہر وقت اسی کا شکر گزار رہنا اور اس کے سوا کسی کو اپنا وکیل، کارساز اور بھروسے کے قابل نہ سمجھنا لازم ہے۔

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

زکریا علیہ السلام نے اپنے اچھے پروجیکٹس کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے نیک بیٹے کی درخواست کی

قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا [مريم : 4]

کہااے میرے رب! یقینا میں ہوں کہ میری ہڈی کمزور ہوگئی اور سر بڑھاپے سے شعلے مارنے لگا اور اے میرے رب! میں تجھے پکارنے میں کبھی بے نصیب نہیں ہوا۔

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا [مريم : 5]

اور بے شک میں اپنے پیچھے قرابت داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی شروع سے بانجھ ہے، سو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي

  کا مطلب ہے

مجھے ان (قریبی رشتے داروں اور چچوں کے بیٹوں) میں سے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکے اور میرا اور آل یعقوب کا علمی و عملی وارث بن سکے، جس سے تیرے دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہ سکے، بلکہ مجھے ان سے خطرہ ہے کہ وہ دین کو بگاڑیں گے اور اپنی من مانیاں کریں گے

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

لھذا اے میرے رب مجھے کوئی ایسا بیٹا چاہیے

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا [مريم : 6]

جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے پسند کیا ہوا بنا۔

قصہ مختصر کہ پھر جب یحییٰ علیہ السلام پیدا ہو گئے اور پھر جوان ہو گئے تو والد کے جانشین کے طور پر تیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا

يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [مريم : 12]

اے یحییٰ! کتاب کو قوت سے پکڑ اور ہم نے اسے بچپن ہی میں فیصلہ کرنا عطا فرمایا۔

تورات کو قوت کے ساتھ پکڑو، یعنی اسے حفظ کرو، معانی و مطالب سمجھو، اس پر عمل کرو اور اس کے احکام پوری قوت کے ساتھ اپنے آپ پر اور پوری قوم پر نافذ کرو۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں بچپن ہی میں فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما دی اور وہ نو عمری ہی میں اپنے والد کے علم و فضل، بنی اسرائیل کی سیادت اور وحی و نبوت کے وارث بن گئے اور پوری قوت سے بنی اسرائیل کو تورات پڑھانے اور فیصلے کرنے لگے۔ والد کمزور تھے اور یہ نوجوان، سو والد کی جگہ لوگوں کو کتاب کا علم سکھانے لگے۔

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

تیر اندازی کرو تمہارا باپ بہت اچھا تیر انداز تھا

سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ قَالَ فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ قَالُوا كَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْمُوا فَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ  [بخاري]

 ( ينتضلون ) بالضاد المعجمة أي يترامون

تمہارا باپ بھی یہ دم کیا کرتا تھا

 ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

  كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ، وَيَقُولُ:   إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ [بخاري 3371]

 کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کے لئے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا ( ابراہیم علیہ السلام ) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اوراسحاق علیہ السلام کے لئے مانگا کرتے تھے “ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہرنقصان پہنچانے والی نظر بد سے ۔

باپ کے اچھے پروگرامز کو جاری نہ رکھنے کا وبال

سورہ قلم (آیت 17 تا 33)میں باغ والوں کا واقعہ کہ ان کا باپ اپنے باغ کا ایک حصہ غریب عوام میں تقسیم کیا کرتا تھا باپ کی وفات کے بعد بیٹوں نے یہ سلسلہ منقطع کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا باغ ہی تباہ کر دیا

فوت شدہ نے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کررکھا ہو تو اس کا وارث اسے پورا کرے [بخاری 2296]