واللہ خیر الرازقين

( بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا رزق )

وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ خَشۡيَةَ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُهُمۡ وَاِيَّاكُمۡ‌ؕ اِنَّ قَتۡلَهُمۡ كَانَ خِطۡاً كَبِيۡرًا (الإسراء – آیت 31)

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ بیشک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

( أَنْفِقْ بلاَلُ ! وَلاَ تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا ) [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 2661 ]

” بلال ! خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے فقیری سے مت ڈر۔ “

ہماری، ہماری اولاد حتی کہ پوری دنیا کی روزی کا مالک صرف اور صرف ایک اللہ رب العزت ہے، ہر پیدا ہونے والے انسان کا رزق اللہ کے ذمے ہے

مگر افسوس کہ آج بہت سے لوگ اس معاملے میں غلط راہ پر چل پڑے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری اولاد ہمارے حصے کا کھا جائے گی یا ہم ہی ان کے رزق کے ذمہ دار ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے بچوں کو قبل از ولادت ہی قتل کر دیتے ہیں قتلِ اولاد کے پیچھے ہمیشہ سے یہ فکر رہی ہے کہ اگر اولاد زیادہ ہوگی تو ان کی ضروریات کہاں سے پوری کریں گے ۔

مہذب دور میں بچوں کا قتل

زمانہ ماضی ہو یا موجودہ، دونوں زمانوں میں وجہ قتل ایک ہی ہے

پہلے بھی لوگ اپنی اولاد کو قتل کیا کرتے تھے

مگر آج ترقی یافتہ دور میں پڑھے لکھے لوگوں نے انفرادی طور پر نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بچے قتل کرنے کے لیے مستقل ادارے قائم کر رکھے ہیں۔

اور صبح شام میڈیا کے ذریعے کروڑوں روپے خرچ کرکے لوگوں کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ

’’بچے دو ہی اچھے ‘‘

’’چھوٹا خاندان زندگی آسان ‘‘

’’چھوٹا خاندان خوشحالی کی ضمانت ہے‘‘

وغیرہ وغیرہ

اور اس ضمن میں خطیر سرمایہ میڈیسن پر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ اگر یہی سرمایہ زراعت اور آمدنی کے حصول کے ذرائع پر خرچ کیا جائے تو اناج کی قلت سے بچا جا سکتا ہے

اللہ تعالٰی بہترین رزق دینے والے ہیں

رزق کے سلسلے میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ رب العزت جو ہمارا خالق ہے وہی ہمارا رازق ہے

فرمایا :

فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ (العنكبوت – آیت 17)

سو تم اللہ کے ہاں ہی رزق تلاش کرو اور اسی کی عبادت کرو

اور فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّةِ الۡمَتِيۡنُ (الذاريات – آیت 58)

بیشک اللہ ہی بےحد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے۔

اور فرمایا :

اَللّٰهُ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ (العنكبوت – آیت 62)

اللہ رزق فراخ کردیتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے اور اس کے لیے تنگ کردیتا ہے۔

توکل اور رزق

ایک روایت میں فرمایا

لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا ()

’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کروجس طرح توکل کرنے کاحق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں سے لوٹتے ہیں۔

انسان تو پھر انسان ہیں اللہ تعالٰی ان جانوروں کو بھی رزق دیتے ہیں جن کے پاس کوئی سائنسی ترقی ہے نہ ہی اسباب و وسائل ہیں

فرمایا

وَ كَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَ اِيَّاكُمْ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ

’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق نہیںاُٹھائے پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔

(العنکبوت:20)

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ

’’اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کے قیام اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے ۔‘‘ (ھود:6)

اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریباً 10 لاکھ اور نباتات کی تقریباً2 لاکھ انواع کا پتا چلا ہے اللہ تعالٰی ان سب کو رزق دے رہے ہیں

فرمایا

وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ وَمَنۡ لَّسۡتُمۡ لَهٗ بِرٰزِقِيۡنَ

اور ہم نے تمہارے لیے اس میں روزیاں بنائی ہیں اور ان کے لیے بھی جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔

الحجر – آیت 20

( ومن لستم لہ برزقین )سے مراد سمندر کی گہرائیوں، پہاڑوں کی بلندیوں ، صحراؤں کی وسعتوں ، زمین کی تہوں اور فضاؤں میں بیشمار مخلوق ہے جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔ بلکہ صرف اللہ ہی روزی دیتا ہے

اس کے علاوہ دیگر چوپائے، سواریاں، بیوی بچے اور نوکر چاکر وغیرہ، جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ ہم انھیں کھانے کو دے رہے ہیں، خوب سمجھ لو کہ تم ہرگز انھیں روزی نہیں دے رہے، انہیں بھی صرف اللہ ہی روزی دے رہا ہے

اسی طرح پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہاہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے ،مچھلیاں دریامیں ،پرندے ہوامیں اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اورماحول میں مطمئن اورخوش وخرم دکھائی دیتے ہیں

اللہ تعالٰی نے زمین کو مخلوقات کے رزق کے لیے تیار کیا ہے

فرمایا

وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (الاعراف:10)

’’بلاشبہ ہم نے تمہیں زمین میں ٹھہرایا اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔‘

وَ قَدَّرَ فِيْهَا اَقْوَاتَهَا (حٰمٓ السجدۃ: 9۔10)

اور اس نے زمین میں سب طلبگاروں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا انتظام فرما دیا، ۔‘‘

اس سے ان ملحد لوگوں، خصوصاً حکمرانوں کی بات کا غلط ہونا صاف واضح ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آبادی زیادہ بڑھ رہی ہے، جب کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، ہم سب کی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتے، اس لیے آبادی کم کرو، ضبط ولادت کرو، ایک یا دو بچے پیدا ہونے دو ۔

الغرض ہر جان دار کا رزق اللہ کے ذمے ہے اور ہر شخص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک منہ کھانے کے لیے اور دو ہاتھ کمانے کے لیے دے کر بھیجتا ہے

اللہ تعالٰی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کے مطابق اتنی ہی مقدار میں رزق بھی اتارتے ہیں

ماں چھوٹے کو کم اور بڑے کو زیادہ روٹی کیوں دیتی ہے

جو لوگ بڑھتی ہوئی آبادی سے خوفزدہ ہیں کہ ان کی خوراک کا بندوبست کیا ہوگا وہ لوگ درحقیقت اللہ پر ایمان نہیں رکھتے،

جس نے فرمایا کہ ہمارے پاس ہر چیز کے بیشمار خزانے ہیں، مگر ہم مقرر اندازے کے ساتھ ہی اسے نازل کرتے ہیں

فرمایا

اِنَّا كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقۡنٰهُ بِقَدَرٍ (القمر – آیت 49)

بیشک جو بھی چیز ہے، ہم نے اسے ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا

وَكُلُّ شَىۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ‏ (الرعد – آیت 8)

اور ہر چیز اس کے ہاں ایک اندازے سے ہے۔

مخلوقات کو جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالٰی اتنا ہی پانی نازل کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ

اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا

کیونکہ اگر اس مخصوص مقدار سے زیادہ بارش برستی تو سمندر خشکی پر چڑھ کر زندگی کا سلسلہ نیست و نابود کردیتے اور اگر کم برستی تو انسان، حیوان، درخت اور کھیت زندہ نہ رہ سکتے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا

( مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُصَرِّفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٣، ح : ٣٥٢٠۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٥؍٤٦٠، ح : ٢٤٦١ ]

” کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال کی نسبت بارش زیادہ ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے بارش میں کمی بیشی کرتا ہے۔ “

صرف پانی ہی نہیں بلکہ ہر چیز ہی جتنی مخلوق کو ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی اللہ تعالٰی اتار دیتے ہیں

ارشاد فرمایا

وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآٮِٕنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ‏ (الحجر – آیت 21)

اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔

یعنی جس چیز کی جس وقت جتنی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالٰی اسی حساب سے وہ چیز اتار دیتے ہیں

شیطان فقر سے ڈراتا ہے

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة : 268)

شیطان تمھیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے اور تمھیں شرمناک بخل کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمھیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والاہے۔

اس آیت میں فقر سے مراد معیشت کی کمزوری ہے

اور فضل سے مراد رزق ہے

یعنی شیطان فقر سے ڈراتا ہے

اور رحمان رزق کا وعدہ کرتا ہے

حقیقت بات تو یہ ہے کہ یہ محض شیطان ہے جو لوگوں کو معیشت کی کمزوری سے ڈرا رہا ہے ورنہ غربت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

فو اللہ لا الفقر، اخشی علیکم

پس اللہ کی قسم ! میں تم پر فقیری سے تو ڈرتا ہی نہیں،

(بخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والمودۃ مع اھل الذمۃ والحرب :3158)”

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں

قرأتُ في تسعين موضعاً من القرآن: أنَّ الله

قدَّرَ الأرزاقَ وضمنها لخلقه

وقرأتُ في موضعٍ واحدٍ:

{الشيطانُ يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء}،

فشككنا في قول الصادق في تسعين موضعاً ! وصدَّقنا الكاذبَ في موضعٍ واحد!.  [ذكره القرطبي في كتاب-قمع الحرص بالزهد والقناعة(ص60) الأثر رقم120].

بڑھتے ہوئے رزق کے چند مناظر دیکھئیے

جلانے اور روشنی کے لیے لکڑی استعمال ہوتی تھی، جب آبادی زیادہ ہوئی تو کوئلہ نکل آیا، مزید بڑھی تو پٹرولیم عطا ہوا، اس سے بھی بڑھی تو گیس نکل آئی،اور پھر بجلی کے اوون ایجاد ہوگئے۔

بجلی اور دوسری ایجادات سے جو آسائشیں آج عام آدمی کو میسر ہیں وہ چند سو سال پہلے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی میسر نہ تھیں، بلکہ ان کے خیال میں بھی نہ تھیں، الا یہ کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) جیسا ہو

توانائی اور سواری کے لیے جانور استعمال ہوتے تھے، پھر پہیہ ایجاد ہوا، پھر کوئلہ استعمال ہونے لگا، پھر پٹرولیم، گیس، بجلی اور ایٹم،

پیدل سفر اور اونٹوں، گھوڑوں کی جگہ گاڑیاں اور جہاز ایجاد ہو گئے

لق و دق صحراؤں کی جگہ آبادیاں اور نہایت صاف اور کشادہ سڑکیں اور ریلویز

اُون اور کپاس کی جگہ پٹرولیم کے کپڑے۔

ہر روز نیا پھل آتا ہے

اللہ تعالیٰ کیسے مہمانوں کی طرح اپنی مخلوق کی تواضع کررہے ہیں

گوگل سے پھلوں فہرست دیکھیں

اللہ کا کرم دیکھو، جو زمین پہلے دس من غلہ پیدا کرتی تھی اب سو من نکالتی ہے

1965ء تک پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیدا وار پندرہ ،سولہ من سے زیادہ نہیں تھی ۔ لیکن آج فی ایکڑ پیداوار چار گنا سے زائد ہو چکی ہے ۔ یہی اضافہ چاول اور دیگر اجناس میں پایا جاتا ہے

ایک ایک سیزن میں دو دو فصلیں تیار ہونے لگیں

( ایڈوانس کائنات )کے نام سے چاول کا نیا بیج آیا ہے جس کی صرف دو ماہ کے مختصر عرصے میں فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے

ایسی کھادیں اور سپرے تیار ہو چکی ہے کہ راتوں رات کھیرے، سبزیاں اور ترکاریاں تیار ہونے لگی ہیں

یہ سب اللہ تعالٰی کی تدبیر اور حکمت سے ہے

مَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُـنۡۢبِتُوۡا شَجَرَهَا ؕ (النمل – آیت 60)

تمہارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے

جدید آلات سے کاشت کاری اور کھیتی باڑی میں تیزی آئی ہے

بیلوں کے ساتھ ہل چلانے کا کام جو کئی دنوں میں ہوتا تھا اب ٹریکٹر کے ذریعے چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے

تھریشر مشین ایک مہینے کا کام ایک گھنٹے میں کر دیتی ہے

پہلے بیلوں کے ذریعے راہٹ چلائے جاتے تھے جو کہ تھوڑی سی زمین سیراب کرنے کے لیے کئی دن درکار ہوتے تھے

لیکن اب

ٹیوب ویل پر نصب پیٹر، انجن، موٹریں اور ٹربائنیں چند گھنٹوں میں کئی ایکڑ زمین سیراب کردیتی ہیں

کمپیوٹر اور موبائل-فون سے جوڑی ہوئی معیشت

اس وقت کروڑوں لوگوں کا ذریعہ معاش موبائل سے منسلک ہے

کوئی ایزی لوڈ کر رہا ہے،

کوئی ریپیئرنگ کر رہا ہے،

کوئی سمیں فروخت کر رہا ہے

کوئی باڈی کور بیچ رہا ہے

کوئی چارجر بیچ رہا ہے

کوئی بیٹریاں ،

کوئی موبی کیش اور ایزی پیسہ کی دکانیں کھولے بیٹھا ہے

تو کوئی ہینڈ فری لیے پھرتا ہے

الغرض، صرف ایک موبائل کے ذریعے کتنا پیسہ مارکیٹ میں گردش کر رہا ہے اور یہ کتنے بڑے پیمانے پر ذریعہ معاش بن چکا ہے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سمٹ گئے لوگوں کا وقت اور کرایہ بچ گیا

آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ کتنی بڑی سہولت پیدا ہو گئی ہے کیا آج سے چند سال قبل کہیں ایسا تصور بھی موجود تھا

بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے گوشت کا بندوبست

بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اللہ تعالٰی نے گوشت کا بندوبست کرتے ہوئے برائلر مرغ پیدا کردیا جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ گوشت کی ڈیمانڈ پوری کی گئی بلکہ اتنا وافر ہوا کہ بسا اوقات سبزیوں سے بھی سستا ہو جاتا ہے

جبکہ ایک وقت تھا گھروں میں مرغی کا گوشت صرف اسی وقت پکا کرتا تھا جب کبھی چھے مہینے سال کے بعد کوئی مہمان آیا کرتا تھا

امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پولٹری کی جدید صنعت 1950 میں قائم ہوئی جبکہ پاکستان میں تجارتی پولٹری فارمنگ کا آغاز 1963ءمیں ہوا

اور یاد رہے کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا شور بھی اسی عرصے میں شروع ہوا تھا یعنی اللہ تعالٰی رزق بڑھا رہے ہیں اور ہم نا شکرے بن کر آبادی کم کرنے پر تلے ہوئے ہیں

اللہ تعالٰی کی قدرت دیکھئیے صرف 32 سے 40 دن کے درمیان ڈیڑھ، دو کلو کا مرغا تیار ہو جاتا ہے جبکہ ایک وقت تھا کہ دو کلو کا مرغا چھے مہینے سے کم تیار نہیں ہوتا تھا

جدید تکنیکوں کے ذریعے اب صرف ایک شخص 25000 سے 50000 مرغیوں کی دیکھ‌بھال کر سکتا ہے جبکہ چند سال قبل اکٹھے ایک ہزار مرغ شائد ہی کبھی کسی نے دیکھے ہوں

اس وقت پاکستان میں روزانہ 700ارب روپے کا کاروبار صرف پولٹری پروڈکٹس پہ ہو رہا ہے

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17ء کے دوران ملک میں برائلر مرغیوں کی پیداوار 962 ملین مرغیاں رہی ہے جس سے 1.15 ارب ٹن مرغی کا گوشت حاصل کیا گیا

کیا چند دہائیاں پہلے رزق کے اتنے بڑے خزانے کے متعلق کبھی کسی نے سوچا بھی تھا

آخر وہ کون ہے جو اپنی مخلوق کا اتنا خیال رکھتا ہے

اپنی اولاد کو قتل کرنا شریعت اسلامیہ میں کبیرہ گناہ ہے

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (زخرف :32)

دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں

جب رزق کی تقسیم اللہ نے کرنی ہے تو ہمیں کسی کے پیدا ہونے سے کیوں پریشانی ہو

فرمایا

وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا (الاسراء:31)

’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم ہی انھیںاور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا

أَيُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللَّهِ أَكْبَرُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "”أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ””، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَيٌّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "”ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ””، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَيٌّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "”أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ””، ‏‏‏‏‏‏. (بخاری 4761)

کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہاری روزی میں شریک ہو گی۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کو قتل نہ کرنے کی بیعت لی

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَسْرِقُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَزْنُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ (بخاری)

کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے

اولاد کو قتل کرنا صرف اخلاقی جرم نہیں بلکہ اس کے پیچھے شرک جیسا ناقابل معافی گناہ بھی پایا جاتا ہے ۔ جس سے اللہ کے رزاق ہونے کی نفی ہوتی ہے

شریعت اسلامیہ میں آبادی بڑھانے کی ترغیب

ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی حکم ہے کہ آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرو، دنیا میں غلبے کا یہ ایک مضبوط ذریعہ بھی ہے اور قیامت کے دن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دوسرے انبیاء سے اپنی امت کے زیادہ ہونے کی خوشی اور فخر کا باعث بھی

جیسا کہ معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے

: ( تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّيْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ )[ أبوداوٗد، النکاح، باب النھي عن تزویج من لم یلد من النسآء : ٢٠٥٠۔ نسائی : ٣٢٢٩، و صححہ الألباني)

” ایسی عورت سے نکاح کرو جو (خاوند سے) بہت محبت کرنے والی ہو اور بہت بچے جننے والی ہو، کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کرنے والا ہوں گا۔ “

سنن الترمذي أبواب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. | باب : ما جاء في صف أهل الجنة

2546 حدثنا حسين بن يزيد الطحان الكوفي ، قال : حدثنا محمد بن فضيل ، عن ضرار بن مرة ، عن محارب بن دثار ، عن ابن بريدة ، عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” أهل الجنة عشرون ومائة صف ؛ ثمانون منها من هذه الأمة، وأربعون من سائر الأمم ".

حكم الحديث: صحيح

رہا آبادی اور وسائل کا تناسب، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جانتا ہے، اگر آبادی کم کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی غیبی تدبیر سے خود ہی کم کرلیتا ہے، کبھی طوفانوں سے، کبھی جنگوں سے، کبھی زلزلوں سے، کبھی وباؤں کے ذریعے سے۔

وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (إبراهيم : 34)

اور تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پائو گے۔ بلاشبہ انسان یقینا بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔