وطن سے محبت اور اس کا دفاع

وطن کی محبت فی نفسہ ایک مشروع محمود اور فطری چیز ہے.

اور یہ ہر انسان کا حق ہے ۔

وطن سے محبت کوئی معیوب چیز نہیں ہے اپنے وطن سے نفرت کا اظہار کرنا دل کی سختی کی علامت ہے

یعنی وطن سے محبت ایک معتبر اور جائز عمل ہے. یہ محبت سب کو ہونی چاہیے. محض "وطنیت” کے نام سے ایک فطری و محمود شے کو یکسر ختم نہیں کیا جا سکتا

ہم وطن سے محبت بھی سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم سمجھ کر کرتے ہیں. اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے امن و امان کی حفاظت کی جائے اور اس کے حکام اور عوام کی خیر خواہی کی جائے.

امام ابن بطال(المتوفى: 449) فرماتے ہیں

فرماتے ہیں:

”وقد جبل الله النفوس على حب الأوطان والحنين إليها، وفعل ذلك عليه السلام، وفيه أكرم الأسوة“ [شرح صحيح البخارى لابن بطال 4/ 453]

”اللہ تعالی نے لوگوں کو وطن کی محبت اور اس کے ساتھ اشتیاق پر پیدا کیا ہے اور آپ ﷺ نے بھی وطن سے محبت کی اس میں بہترین اسوہ ہے“

پاکستان سے محبت کیوں

پاکستان جو نظریہ اسلام پر بنا ہوا ہے اور جس کے بارے معروف ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اس بنیاد پر پاکستان کا دفاع لاالہ إلا اللہ کے نظریے کا دفاع سمجھا جائے.

اگر ہم تحریک پاکستان کو غور سے پڑھیں تو ہمیں سمجھ آجائے کہ پاکستان میں آنے والوں نے بہت بڑی ہجرت کی تھی ہندوستان میں اپنی زمینوں جائدادوں کو چھوڑ کر وہ لاالہ إلا اللہ کی خاطر پاکستان آئے تھے، ہندوؤں سکھوں کے اکثریتی علاقوں کو اسلام کی خاطر ہی چھوڑا تھا مکہ چھوڑنے والے مدینہ سے اسلام کی وجہ سے ہی محبت کرتے تھے تو ہندوستان چھوڑنے والوں کے لیے پاکستان سے محبت کی دلیل بھی وہی ہے. اسلام دشمن ملحدین کے پراپیگنڈا سسٹم کی بجائے قربانی دینے والوں کو دیکھا جائے تو نتیجہ ان شاء اللہ یہی نکلے گا. کہ جو وجہ مدینہ سے محبت کی ہے وہی وجہ پاکستان سے محبت کی ہے (مدینہ کے فضائل و امتیازات ایک الگ بحث ہیں)

وطن کی نعمت استاذ الاساتذہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی نظر میں

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ جن کی کوششوں سے مسلمانانِ ھند کو آزاد ملک نصیب ہوا ان کے متعلق حافظ محمد محدث گوندلوی رحمه الله فرماتے تھے :

”پاکستان بنانا ہی محمد علی جناح کا جنت میں جانے کا ذریعہ بن جائے گا۔“

(تذکرہ حافظ گوندلوی از شاہد فاروق ناگی : ١٩٣)

ان حافظ گوندلوی رحمه الله کے بارے میں محدث البانی رحمه الله فرماتے ہیں :

”میں نے روئے زمین پر ان سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ آپ ہر فن کے امام اور بر صغیر کے بڑے علماء میں سے تھے۔“

(مجموع رسائل المحدث الكوندلوي : ٩٠/١)

خارجیوں کا نعرہ

وطنیت کو رگڑتے رہنا رگڑتے رہنا حتی کہ اسے کفر تک لے جانا اور دفاع وطن کو یا حب وطن کو گناہ کبیرہ خیال کرنا یہ خارجی، تکفیری قسم کے لوگوں کا نظریہ ہے

یہی وجہ ہے کہ اگر آپ خارجی فکر کا غور سے مشاہدہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ وطن سے محبت کے اظہار کو کفر سے کم نہیں سمجھتے

حالانکہ ضروريات دين کے مقابلے میں تو اپنے گھر کی محبت بھی ناجائز ہے. مگر ایک حد تک گھر کی محبت کو کبھی کسی نے شرک یا کفر نہیں کہا. اسی طرح اپنے وطن سے محبت اس لئے کرنا اور اس کا دفاع کرنا مستحب ہے کہ یہاں ہمیں اپنی زندگی میں دین کے ان کاموں کی بھی اجازت ہے جن کا تصور بھی بہت سے ممالک میں محال ہے.

شیخ عبدالله ناصر رحمانی حفظه الله کا فتویٰ

شیخ فرماتے ہیں

”پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور ہمیں پاکستان سے محبت ہے۔ یہ وطنیت نہیں ہے۔ کچھ لوگ اسے وطنیت اور عصبیت کا نام دیتے ہیں لیکن نہیں۔ وطن سے محبت عصبیت نہیں ہے۔ ہاں یہ محبت کسی غلط بنیاد پر نہ ہو۔ بنیاد اگر حق ہے تو پاکستانیت مطلوب ہے۔ کیوں مطلوب ہے؟ اس لیے کہ پاکستان کی اساس لا اله الا ﷲ ہے۔ تو تعصب تو نہ ہوا۔ یہ تو توحید کی محبت کا مظہر ہے۔ یہ تو عقیدے کی محبت کا مظہر ہے۔“

(شیخ عبدالله ناصر رحمانی حفظه الله)

وطن ایک نعمت ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے

وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (الأنفال : 26)

اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور سمجھے گئے تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمھیں اچک کر لے جائیں گے تو اس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمھیں قوت بخشی اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، تاکہ تم شکر کرو۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سمجھانے کے لیے آپ کے وطن کی قسم اٹھائی

فرمایا

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (البلد : 1)

نہیں، میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں!

وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ (البلد : 2)

اور تو اس شہر میں رہنے والا ہے۔

اور فرمایا

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (التين : 1)

قسم ہے انجیر کی! اور زیتون کی!

وَطُورِ سِينِينَ (التين : 2)

اور طور سینین کی!

وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (التين : 3)

اور اس امن والے شہر کی!

ابراهيم علیہ السلام اپنے وطن کے امن اور معیشت کی دعا کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (البقرة : 126)

اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس (جگہ) کو ایک امن والا شہر بنا دے اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے رزق دے، جو ان میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ فرمایا اور جس نے کفر کیا تو میں اسے بھی تھوڑا سا فائدہ دوں گا، پھر اسے آگ کے عذاب کی طرف بے بس کروں گا اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن کی برکت کے لیے دعا کرتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَدَعَا لِأَہْلِہَا،وَإِنِّیْ حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَۃَ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاہِیْمُ مَکَّۃَ،وَإِنِّیْ دَعَوْتُ فِیْ صَاعِہَا وَمُدِّہَا بِمِثْلَیْ مَا دَعَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمُ لِأَہْلِ مَکَّۃَ)) (صحیح البخاری:2129، صحیح مسلم:1360)

’’ بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیااور مکہ والوں کے حق میں دعا کی اور میں مدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور میں نے اہلِ مدینہ کے ناپ تول کے پیمانوں (صاع اور مد ) میں اُس برکت سے دوگنا زیادہ برکت کی دعا کی ہے جس کی دعا ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ مکہ کیلئے کی تھی ۔‘‘

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:

(( اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِیْنَۃِ ضِعْفَیْ مَا بِمَکَّۃَ مِنَ الْبَرَکَۃِ )) (صحیح البخاری:1885،صحیح مسلم:1369)

’’ اے اللہ ! مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ کی بہ نسبت دوگنی برکت دے ۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن یعنی مدینہ سے محبت کی دعا کرتے ہیں

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں آئے تو اس میں وبا پھیلی ہوئی تھی جس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے ۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تودعا کرتے ہوئے فرمایا :

(اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِیْنَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃ أَوْ أَشَدَّ،اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَفِیْ مُدِّنَا،وَصَحِّحْہَا لَنَا،وَانْقُلْ حُمَاہَا إِلَی الْجُحْفَۃِ) (صحیح البخاری:1889،صحیح مسلم:1376)

’’ اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے جیسا کہ ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اے اللہ ! ہمارے صاع اور مد میں برکت دے اور اس ( مدینہ منورہ) کو ہمارے لئے صحت افزا مقام بنا اور اس کی بیماریوں کو جحفہ کی طرف منتقل کردے ۔ ‘‘

ایک روایت میں ہے آپ نے یوں دعا فرمائی :

اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ (صحيح البخاري:1889)

ترجمہ: اے اللہ ! مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔

امام ذھبی رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

امام ذهبي رحمه الله نے بہت سی چیزوں کا تذکرہ کیا کہ جن سے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو محبت تھی. اس میں فرمایا :

« ويحب وطنه ». [ سير أعلام النبلاء : ٣٩٤/١٥ ]

اور آپ صلى الله عليه وسلم کو اپنے وطن سے محبت تھی.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ مجھے میرے وطن سے نکال دیا جائے گا تو پریشان ہو گئے

اللہ کے نبی ﷺ پر جب پہلی وحی آئی اورآپ ﷺ نے اس کا تذکرۃ ورقہ بن نوفل سے کیا تو مختلف روایات کے مطابق ورقہ بن نوفل نے کئی پیشین گوئیاں کیں، لیکن جیسے ہی ورقہ نے یہ کہاکہ :

”ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك“ ، ”کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی“

تو آپ ﷺ نے چونک کر کہا:

”أو مخرجي هم؟“ [صحيح البخاري ، رقم 3]

”کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟“

اس کی تشریح میں امام سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”يؤخذ منه شدة مفارقة الوطن على النفس فإنه ﷺ سمع قول ورقة أنهم يؤذونه ويكذبونه فلم يظهر منه انزعاج لذلك فلما ذكر له الإخراج تحركت نفسه لذلك لحب الوطن وإلفه فقال: أو مخرجي هم“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 12/ 359]

”اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وطن کی مفارقت دل پربہت گراں گذرتی ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے یہ سب کہتے ہوئے سنا کہ یہ لوگ آپ کو تکلیف دیں گے ، اور جھٹلا دیں گے لیکن ان باتوں پر آپ کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی ورقہ نے یہ ذکر کیا کہ یہ لوگ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے ، اس پر آپ ﷺ کا دل لرز اٹھا وطن کی محبت اور اس سے الفت کے باعث اور آپ ﷺ نے بے ساختہ کہا :

کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟“

ابراہیم بن ادھم رحمه الله اور حب الوطنی

معروف زاہد ابراہیم بن ادھم رحمه الله کہتے ہیں :

« ما قاسيت فيما تركت شيئا أشد علي من مفارقة الأوطان ». [ حلية الأولياء لأبي نعيم : ٣٨٠/٧ ، سنده حسن ]

میں نے چیزوں کو چھوڑنے میں سب سے ذیادہ مشکل وطنوں کو چھوڑنا پایا ہے.

جلدی اپنے وطن پہنچنے کا نبوی ذوق و شوق

سیدنا انس رضي الله عنه فرماتے ہیں :

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا (بخاری ،كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ،بَابٌ: المَدِينَةُ تَنْفِي الخَبَثَ،1886)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمه الله لکھتے ہیں :

« وفي الحديث دلالة على فضل المدينة، وعلى مشروعية حب الوطن، والحنين إليه ». [ فتح الباري : ٦٢١/٣ ]

کہ اس حدیث میں مدینہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وطن کی محبت اور کشش ایک جائز اور شرعی امر ہے

وطن واپس لوٹتے ہی رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ( غزوہ بنولحیان میں جو ۶ھ میں ہوا ) عسفان س واپس ہوتے ہوئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپ نے سواری پر پیچھے ( ام المومنین ) حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا

پھر جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی ۔

«آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى دَخَلَ المَدِينَةَ (بخاری ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا رَجَعَ مِنَ الغَزْوِ؟، 3085)

” ہم اللہ کی طرف واپس ہونے والے ہیں ۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد پڑھنے والے ہیں ‘ ‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوگئے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی ریاست کی پہرہ داری کرتے ہوئے

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ (بخاری 2908)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔

دفاعِ وطن کی خاطر خندق کھودنے والے صحابہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بخشش کی دعا کرتے ہیں

غزوہ خندق میں جو لوگ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا اندازہ کرکے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے ان سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو مہاجرین و انصار سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے، ان کے پاس کوئی غلام نہ تھے، جو ان کے بجائے یہ کام سرانجام دیتے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا :

اَللّٰهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَهْ

فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ

’’اے اللہ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔‘‘

صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہا :

نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا

عَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا

’’ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواب میں کہتے :

اَللّٰهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُ الْآخِرَهْ

فَبَارِكْ فِي الْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ

’’اے اللہ! خیر تو بس آخرت ہی کی خیر ہے، سو تو انصار و مہاجرین میں برکت فرما۔‘

سن ہجری کی بنیاد حب الوطنی کی یاد

ہجرت نام ہی دین کے لئے وطن کی محبت کو قربان کرنے کا ہے اور ہجرت افضل ترین اعمال سے ہے۔اس لیے کہ مہاجر انسان اپنی محبوب ترین چیز یعنی وطن کی قربانی دے کر ہجرت کرتا ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جو سب سے بڑی قربانی شمار کی گئی ہے وہ ہجرت یعنی ترک وطن کی قربانی ہے ، عہد فاروقی میں جب صحابہ نے اپنے اسلامی سن کی بنیاد ڈالی تو مشورہ ہوا کہ اسے کس نام سے موسوم کیا جائے ، یہ بہت اہم مسئلہ تھا کیونکہ کسی چیز کو سن کے ساتھ جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر سال ، ہر ماہ ، ہر دن اور ہر لمحہ کے لئے یاد گار بنایا جارہا ہے ، اب غور طلب بات یہ تھی نبی ﷺ اور صحابہ کی پوری زندگی میں ایسی کون سی سب سے اہم بات تھی جسے ہمیشہ کے لئے یادگار بنادیا جائے ، بہت ساری باتیں کہی گئیں لیکن جس چیز پر اتفاق ہوا وہ یہ کہ واقعہ ہجرت سے اسلامی سن کو موسوم کیا جائے۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ

مَا عَدُّوا مِنْ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا مِنْ وَفَاتِهِ مَا عَدُّوا إِلَّا مِنْ مَقْدَمِهِ الْمَدِينَةَ (بخاری ،کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ،بَابُ التَّارِيخِ، مِنْ أَيْنَ أَرَّخُوا التَّارِيخَ،3934)

” اسلامی تاریخ کا شمار نہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کے سال سے ہوا اور نہ آپ کی وفات کے سال سے بلکہ اس کا شمار مدینہ کی ہجرت کے سال سے ہوا“

یہ ہجرت کا مقدس اورعظیم الشان عمل جسے اسلامی تاریخ کے ساتھ جڑنے کا شرف ملا ، یہ ترک وطن کی قربانی سے عبارت تھا ، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وطن کی محبت کیا چیز ہوتی ہے اور ایمان وعمل کی چوٹیوں پر پہنچنے کے باوجود بھی وطن سے جدائی کتنی بڑی قربانی ہوتی ہے۔

یہ بات بھی پیش نظر رکھئے کہ اسی وطن میں اہل وطن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا ، کتنوں کی جائداد پرقبضہ کرلیا ، کتنوں کو دردناک سزائیں دیں اور کتنوں کے اقرباء و اہل وعیال کو جان سے مارڈالا لیکن اہل وطن کی ان مظالم کے باوجود بھی وہ اپنے وطن کی محبت سے دست بردار نہ ہوسکے ۔

بلال رضی اللہ عنہ کی وطن سے محبت

ایک آزاد شخص کو تو چھوڑیں مکہ میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے بلال رضی اللہ عنہ کا حال دیکھیں جنہیں اسلام لانے کے سبب اہل مکہ نے ہولناک سزائیں بھی دیں ، صحیح بخاری کی روایت ہے ، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، بلال رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرکے مدینہ آگئے تو وہ بخار میں مبتلا ہوگئے اور بلال رضی اللہ عنہ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے :

أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً

بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ

وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ

وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ (بخاری ،كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ،بَابٌ،1889)

کاش ! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس ) ہوتیں۔

کاش ! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش ! میں شامہ اور طفیل (پہاڑوں ) کو دیکھ سکتا۔

بلال رضی اللہ عنہ کی، وطن سے نکالنے والوں پر بددعا

بلال رضی اللہ عنہ نے کہا

اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ (بخاری ،كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ،بَابٌ،1889)

اے میرے اللہ ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ ا ور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔

ملاحظہ فرمائیے کہ اہل وطن کی ظلم وزیادتی بھی اس کی محبت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، اور ہر شخص کا دل اپنے وطن کی محبت سے شرسار ہوتاہے ، یہ ایک فطری بات ہے

بلال کی طرح اقبال بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں

رضی ورحمھما اللہ تعالیٰ

جیسے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو تمام تر تکالیف کے باوجود وطن سے بے پناہ محبت تھی

ایسے ہی اقبال نے بھی ہندوستان میں انگریز، ہندو اور سکھ کے تمام تر مظالم کے باوجود وطن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے

سارے جہاں سے اچھّا ہندوستاں ہمارا

ہم بُلبلیں ہیں اس کی، یہ گُلِستاں ہمارا

غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں

سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا

حصول وطن اور دفاع وطن کے لیے لڑنا بھی جہاد فی سبیل اللہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ (البقرة : 191)

اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پائو اور انھیں وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تمھیں نکالا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (البقرة : 246)

کیا تو نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا، جب انھوں نے اپنے ایک نبی سے کہا ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر کہ ہم اللہ کے راستے میں لڑیں۔ اس نے کہا یقینا تم قریب ہو کہ اگر تم پر لڑنا فرض کر دیا جائے تو تم نہ لڑو۔ انھوں نے کہا اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ کے راستے میں نہ لڑیں، حالانکہ ہمیں ہمارے گھروں اور ہمارے بیٹوں سے نکال دیا گیا ہے۔ پھر جب ان پر لڑنا فرض کر دیا گیا تو ان میں سے بہت تھوڑے لوگوں کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔

حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ کا موقف

اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

معلوم ہوا کہ مسلمان اگر اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے لڑیں تو یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ زمین پر کفار کے قبضے سے اللہ کا کلمہ نیچا اور مسلمانوں کے قبضے سے اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے۔ کچھ نادان بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں لڑائی کو وطن کے لیے لڑائی قرار دے کر اس کے فی سبیل اللہ قتال ہونے سے انکار کرتے ہیں، انھیں ان آیات پر غور کرنا چاہیے۔

دفاعِ وطن کے لئے مورچہ زن رہو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران : 200)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

اپنے مال، اھل، دین اور خون کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہونے والا شہید ہے

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ (بخاری ،كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ،بَابُ مَنْ قَاتَلَ دُونَ مَالِهِ،2480)

کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ» (نسائی، كِتَابُ المُحَارَبَة،مَنْ قَاتَلَ دُونَ دِينِهِ،4100صحيح) (ترمذی ،أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ،1421صحيح) (ابو داؤد، كِتَابُ السُّنَّةِ،بَابٌ فِي قِتَالِ اللُّصُوصِ،4772صحیح)

’’جو شخص اپنے مال کو (لٹیروں سے) بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے گھر والوں کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے دین کی خاطر مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔ اور جو شخص اپنی جان بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔‘‘

اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ مَظْلُومًا فَلَهُ الْجَنَّةُ» (نسائی، كِتَابُ المُحَارَبَة،مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ،4091صحيح)

’’جو اپنے مال کی حفاظت میں مظلوم مارا جائے، اس کے لیے جنت ہے۔‘‘

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ

شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں

: «لا شك أن الدفاع عن الدين والنفس والأهل والمال ((والبلاد وأهلها)) = من الجهاد المشروع، ومن يقتل في ذلك وهو مسلم يعتبر شهيدا؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "من قتل دون دينه فهو شهيد، ومن قتل دون ماله فهو شهيد، ومن قتل دون أهله فهو شهيد، ومن قتل دون دمه فهو شهيد”»اهـ «مجموع فتاوى ابن باز» (18/ 93).

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین، نفس، اھل اور جان حتی کہ ملک اور اس کے باسیوں کا دفاع کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں سے ہی ہے اور جو مسلمان اس دوران قتل ہو گیا تو وہ شہید ہے اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے

’’جو شخص اپنے مال کو (لٹیروں سے) بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے گھر والوں کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے دین کی خاطر مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔ اور جو شخص اپنی جان بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔‘‘

اسلامی سرحدوں پر ایک دن کا پہرہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَالرَّوْحَةُ يَرُوحُهَا العَبْدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ الغَدْوَةُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا» (بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ فَضْلِ رِبَاطِ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2892)

اللہ کے راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن کا پہرہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں شام کو چلے یا صبح کو تو وہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہے

ایک دن کا پہرہ ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے

سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا

«رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ، وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ» (مسلم ،كِتَابُ الْإِمَارَةِ،بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،4938)

"ایک دن اور ایک رات سرحد پر پہرپ دینا، ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر (پہرہ دینے والا) فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جو وہ کر رہا تھا، (آئندہ بھی) جاری رہے گا، اس کے لیے اس کا رزق جاری کیا جائے گا اور وہ (قبر میں سوالات کر کے) امتحان لینے والے سے محفوظ رہے گا۔”

ایک دن کا پہرہ ایک ہزار دن سے بہتر ہے

حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:

رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنْ الْمَنَازِلِ (نسائى كِتَابُ الْجِهَادِ،فَضْلُ الرِّبَاطِ،3171حسن)

’’اللہ تعالیٰ کے راسے میں ایک دن سرحد پر تیار ہو کر بیٹھنا (نیکی کے) دوسرے مقامات میں ہزار دن بیٹھنے سے افضل ہے۔

حجر اسود کے پاس قیام اللیل سے بھی بہتر عمل

عن أبي هريرة أنه كان في الرباط ففزعوا فخرجوا إلى الساحل ثم قيل لا بأس فانصرف الناس وأبو هريرة واقف فمر به إنسان فقال ما يوقفك يا أبا هريرة فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فذكره .

موقف ساعة في سبيل الله خير من قيام ليلة القدر عند الحجر الأسود

الصفحة أو الرقم : 57 / 1068 خلاصة حكم المحدث : صـحـيـح اسم الكتاب : السلسلة الصحيحة

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی پہرے پر موجود تھے کہ لوگ گھبرائے اور ساحل کی طرف چلے گئے پھر لوگوں کو خبر دی گئی کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے تو لوگ واپس تشریف لائے جبکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جگہ پر کھڑے رہے ان کے پاس سے ایک شخص گزرا اس نے پوچھا اے ابوہریرہ آپ کو کس چیز نے یہاں کھڑے رکھا تو ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ہے آپ فرماتے تھے

اللہ کی راہ میں (پہرہ دینے کے لیے) ایک گھڑی کھڑا ہونا حجر اسود کے پاس رات بھر قیام کرنے سے بہتر ہے

اسلامی سرحدوں کی پہرے داری ایک جاری عمل ہے اور پہرے دار فتنہ قبر سے محفوظ رہے گا

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُنْمَى لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ (ترمذي،أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا، 1621صحيح)

‘ہرمیت کے عمل کا سلسلہ بند کردیاجاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوے مرے، تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اوروہ قبرکے فتنہ سے مامون رہے گا

اسلامی سرحدوں کا پہرے دار، روز قیامت بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَجْرَى عَلَيْهِ أَجْرَ عَمَلِهِ الصَّالِحِ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُ وَأَجْرَى عَلَيْهِ رِزْقَهُ وَأَمِنَ مِنْ الْفَتَّانِ وَبَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ آمِنًا مِنْ الْفَزَعِ (ابن ماجہ، كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2767صحیح)

جو شخص اللہ کی راہ میں محاذ جنگ پر جہاد کے لیے تیار ہونے کی حالت میں فوت ہوا تووہ جو نیک عمل کرتا تھا اللہ اس کے لیے اس عمل کا ثواب جاری فرمادیتا ہے۔اور اس کا رزق جاری فر دیتا ہے اسے آزمانے والوں( منکرنکیر) کا خوف نہیں ہوتا۔ اور اللہ اسے قیامت کے دن خوف سے محفوظ اٹھائے گا۔

سرحدوں پر پہرے دینے والے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ هَلْ تَدْرُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ ؟ قَالُوْا اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَوَّلُ مَنْ يَّدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُوْنَ الَّذِيْنَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَيُتَّقٰی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلاَئِكَتِهِ إئْتُوْهُمْ فَحَيُّوْهُمْ فَتَقُوْلُ الْمَلاَئِكَةُ نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ وَ خَيْرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَّأْتِيَ هٰؤُلاَءِ فَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ إِنَّهُمْ كَانُوْا عِبَادًا يَعْبُدُوْنِيْ، لاَ يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا، وَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَ يُتَّقَی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً، قَالَ فَتَأْتِيْهِمُ الْمَلاَئِكَةُ عِنْدَ ذٰلِكَ، فَيَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ : «سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ » ] [ مسند أحمد : 168/2، ح : ۶۵۷۸۔ ابن حبان : ۷۴۲۱۔ قال شعیب الأرنؤط و إسنادہ جید ]

’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے فقراء اور مہاجرین داخل ہوں گے، جن کے ذریعے سے سرحدیں محفوظ کی جاتی تھیں اور ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا اور ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں باقی ہوتی تھی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں سے جنھیں چاہے گا حکم دے گا کہ ان کے پاس جاؤ اور انھیں سلام کرو۔ فرشتے کہیں گے : ’’ہم تیرے آسمان کے رہنے والے اور تیری مخلوق میں سے تیرے چنے ہوئے ہیں، کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور انھیں سلام پیش کریں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’یہ میرے بندے تھے، میری بندگی کرتے تھے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تھے، ان کے ساتھ سرحدیں محفوظ رکھی جاتی تھیں اور ان کے ذریعے سے ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا، ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس حال میں کہ اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں ہوتی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چنانچہ فرشتے اس وقت ان کے پاس آئیں گے اور ہر دروازے سے ان کے پاس داخل ہوں گے (اور کہیں گے) : ’’سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا، سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔‘‘

گمنام پہرے دار کا اللہ کے ہاں مقام و مرتبہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے

آپ نے فرمایا

طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَشْعَثَ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِي الحِرَاسَةِ، كَانَ فِي الحِرَاسَةِ، وَإِنْ كَانَ فِي السَّاقَةِ كَانَ فِي السَّاقَةِ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشَفَّع (بخاري ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ الحِرَاسَةِ فِي الغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2887)

مبارک وہ بندہ جو اللہ کے راستے میں ( غزوہ کے موقع پر ) اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے ، اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں اور اس کے قدم گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں ، اگر اسے چوکی پہرے پر لگادیا جائے تو وہ اپنے اس کام میں پوری تندہی سے لگارہے اور اگر لشکر کے پیچھے ( دیکھ بھال کے لیے ) لگادیا جائے تو اس میں بھی پوری تندہی اور فرض شناسی سے لگا رہے ( اگرچہ زندگی میں غربت کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہ ہو کہ ) اگر وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اسے اجازت بھی نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش بھی قبول نہ کیجائے ۔

دو آنکھیں جہنم سے آزاد کردی گئی ہیں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :

عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (ترمذی ،ابْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْحَرَسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ1639صحيح)

دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اورایک وہ آنکھ جس نے راہ ِجہاد میں پہرہ دیتے ہوے رات گزاری ہو’۔

وطن کی ناجائز محبت

ہمیں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ جب وطن کے مفادات امت مسلمہ کے مفادات اور دین سے بھی مقدم ہوجائیں، تو پھر یہ وطن پرستی ہے.

بس یہ خیال رہنا چاہیے کہ وطن خدا نہیں ہے. وطن ولاء و براء کا معیار نہیں ہے. وطن کی مصلحت دین کی مصلحت سے مقدم نہیں ہے. ہمیں افراط و تفریط کے رویوں سے بچنا چاہیے. ہماری اصل اور بنیادی شناخت اور تشخص اسلام ہے

وطن سے محبت قرابت داری کی طرح مشروع ہے لیکن دین کی محبت ان سب سے بالاتر ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة : 24)

کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے وطن کی محبت کو ناجائز نہیں قرار دیا ھاں جب یہ محبت اللہ اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے بڑی ہو جائے گی تب یہ ہرحال میں مذموم محبت ہے

اسی مذموم محبت کی طرف اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے