پرسنل ڈیٹا اوپن کرنے والا دن

جب سے واٹس ایپ نے اپنا ڈیٹا فیس بک کے سامنے رکھنے کا اعلان کیا تو سب پریشان اور فکر مند نظر آنے لگے ہیں ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ پالیسی درست نہیں ہے اس سے ہماری پرسنل معلومات اور پرائیویسی ایکسپوز ہوکر رہ جائے گی

جبکہ دوسری طرف ہزاروں بار ہمارے سامنے یہ اعلان ہوتا رہا کہ ایک دن آئے گا جب آپکی زندگی کا مکمل ڈیٹا سب کے سامنے رکھا جائے گا اور اسکا حساب و کتاب ہوگا…!

لیکن ہائے افسوس کہ ہم لوگوں نے نہ کبھی اس سلسلے میں سوچا اور نہ ہی فکر مند ہوئے…!

کاش کہ ہم اب بھی بیدار ہوجائیں

آخرت کی تیاری کرلیں

اللہ تعالیٰ فرماتے تھے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : 18)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ اس سے پور ی طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔

آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اس دن اپنے آپ کو رسوائی سے بچانے کے لیے نہ صرف ظاہری بلکہ پرسنل عادات بھی درست کریں کیونکہ

اس دن پرسنل معاملات بھی دیکھیں جائیں گے

فرمایا

يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ (الطارق : 9)

جس دن چھپی ہوئی باتوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی ۔

اور فرمایا

يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ (الحاقة : 18)

اس دن تم پیش کیے جاؤ گے، تمھاری کوئی چھپی ہوئی بات چھپی نہیں رہے گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں

اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِي

اے اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔

تنہائی میں گناہ کرنا اور لوگوں کے سامنے نیک بننا

بعض لوگ ظاہر میں دین دار اور عبادت گزار ہوتے ہیں لیکن وہ تنہائی میں گناہوں سے اپنے دامن کو نہیں بچاتے۔ ایسے لوگوں کی دینداری انہیں کچھ کام نہ آئے گی۔ ان کی عبادت اور نیکیوں کی ﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی قیمت نہ ہوگی ۔

روز قیامت ان کی ساری نیکیاں بے وقعت و بے حیثیت اور رائیگاں ہوسکتی ہیں ۔

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي، يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ، بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ".

قَالَ ثَوْبَانُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا ؛ أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ.

قَالَ : ” أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا ".

(ابن ماجہ وصححہ الالبانی رحمہ اللہ)

(میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا)

اس پر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اوصاف واضح کر کے بتلائیں کہیں ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے!”

تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری قوم سے ہیں، وہ بھی رات کو اسی طرح قیام کرتے ہوں گے جس طرح تم کرتے ہو، لیکن [ان میں منفی بات یہ ہے کہ] وہ جس وقت تنہا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کر بیٹھتے ہیں )

مت سمجھو کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا

ابن کثیر نے امام احمد رحمہ اللہ کے متعلق نقل فرمایا کہ وہ یہ دو اشعار پڑھا کرتے تھے، جو یا تو ان کے ہیں یا کسی اور کے ہیں

إِذَا مَا خَلَوْتَ، الدَّهْرَ، يَوْماً، فَلَا تَقُلْ

خَلَوْتُ وَلَكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيبُ

کسی دن خلوت میں ہو تو یہ مت کہنا میں تنہا ہوں، بلکہ کہو: مجھ پر ایک نگران ہے

ولاَ تحْسَبَنَّ اللهَ يَغْفَلُ سَاعَةً

وَلَا أنَ مَا يُخْفَى عَلَيْهِ يَغِيْبُ

اللہ تعالی کو ایک لمحہ کیلیے بھی غافل مت سمجھنا، اور نہ یہ سمجھنا کہ اوجھل چیز اس سے پوشیدہ ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے

فرمایا

أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (العلق : 14)

تو کیا اس نے یہ نہ جانا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

اور فرمایا

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الملك : 14)

کیاوہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے

اتنا لطیف کہ اس سے ایک ذرہ بھی نہیں چھپ سکتا

فرمایا

إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ (آل عمران : 5)

بے شک اللہ وہ ہے جس پر کوئی چیز نہ زمین میں چھپی رہتی ہے اور نہ آسمان میں۔

فرمایا

عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (سبا : 3)

جو سب چھپی چیزیں جاننے والا ہے ! اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں اور نہ اس سے چھوٹی کوئی چیز ہے اور نہ بڑی مگرایک واضح کتاب میں ہے۔

اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں

فرمایا

وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (النحل : 19)

اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔

اللہ تعالیٰ اونچی اور پست، سب آوازیں جانتے ہیں

فرمایا

إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى (الأعلى : 7)

یقینا وہ کھلی بات کو جانتا ہے اور اس بات کو بھی جو چھپی ہوئی ہے۔

دوسری جگہ فرمایا

وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (طه : 7)

اور اگر تو اونچی آواز سے بات کرے تو وہ تو پوشیدہ اور اس سے بھی پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا

إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ (الأنبياء : 110)

بے شک وہ بلند آواز سے کی ہوئی بات کو جانتا ہے اور وہ بھی جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔

اللہ تعالیٰ لوگوں کی سرگوشی کی باتیں بھی سنتے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا (مجادله :7)

کوئی تین آدمیوں کی کوئی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں بھی ہوں

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :

[ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَنَا فِيْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، تَشْكُوْ زَوْجَهَا وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُوْلُ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ : « قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا» ] [ ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فیما أنکرت الجھمیۃ : ۱۸۸ ]

’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی سماعت تمام آوازوں پر وسیع ہے، وہ جھگڑنے والی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جب کہ میں گھر کے ایک طرف موجود تھی، وہ اپنے خاوند کی شکایت کر رہی تھی اور میں وہ نہیں سنتی تھی جو وہ کہہ رہی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : « قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا » ’’یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔‘‘

اللہ تعالیٰ لوگوں کی آنکھوں کے اشارے بھی جانتے ہیں

فرمایا

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الأنعام : 103)

اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔

انسان کے ظاہری اعمال میں سب سے پوشیدہ عمل آنکھ کا عمل ہوتا ہے

مثلاً لوگوں سے چوری کسی ایسی چیز کو دیکھنا جسے دیکھنا حرام ہے اور آنکھ کے اشارے سے ناجائز تعلق قائم کر لینا وغیرہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے آنکھوں کی خیانت اور دل کے چھپائے ہوئے سب اعمال معلوم ہیں۔ قیامت کے دن ایسی تمام خیانتیں اور دلوں میں چھپائے ہوئے اعمال سب ظاہر کر دیے جائیں گے

فرمایا

يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (غافر : 19)

وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ دلوں میں آنے والے خیالات بھی جانتے ہیں

فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق : 16)

اور بلا شبہ یقینا ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتاہے اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

فرمایا

وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ (القصص : 69)

اور تیرا رب جانتا ہے جو کچھ ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔

إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (الملك : 13)

یقینا وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والاہے۔

سورہ آل عمران میں ہے

قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ (آل عمران : 29)

کہہ دے اگر تم اسے چھپائو جو تمھارے سینوں میں ہے، یا اسے ظاہر کرو اللہ اسے جانتا ہے

اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کون، کب، کہاں، کیا کررہا ہے

فرمایا

وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ (الأنعام : 3)

اور وہ جانتا ہے جو تم کماتے ہو۔

سورہ رعد میں ہے

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ (الرعد : 9)

وہ غیب اور حاضر کو جاننے والا، بہت بڑا، نہایت بلند ہے۔

سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (الرعد : 10)

برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے اور جو اسے بلند آواز سے کرے اور وہ جو رات کو بالکل چھپا ہوا ہے اور (جو) دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ قدموں کے نشانات بھی جانتے ہیں

فرمایا

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (يس : 12)

بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی اور جو بھی چیز ہے ہم نے اسے ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔

آثار، کی تفسیر میں دو قول ہیں

اور دونوں درست ہیں

دوسرا قول یہ ہے کہ نیکی یا بدی کی طرف چل کر جانے والے قدموں کے نشانوں کو بھی اللہ تعالیٰ لکھ لیتے ہیں۔

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کے ارد گرد زمین کے کچھ قطعے خالی ہو گئے تو بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب منتقل ہو جائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘

انھوں نے کہا : ’’ہاں، یا رسول اللہ! ہم نے یہ ارادہ کیا ہے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ يَا بَنِيْ سَلِمَةَ! دِيَارَكُمْ! تُكْتَبْ آثَارُكُمْ دِيَارَكُمْ! تُكْتَبْ آثَارُكُمْ ] [ مسلم، المساجد، باب فضل کثرۃ الخطا إلی المساجد : ۶۶۵ ]

’’اے بنو سلمہ! اپنے گھروں ہی میں رہو، تمھارے قدموں کے نشانات لکھے جائیں گے، (اے بنو سلمہ!) اپنے گھروں ہی میں رہو، تمھارے قدموں کے نشانات لکھے جائیں گے۔‘‘

اللہ تعالیٰ فارمیٹ کی ہوئی فائلیں اور ڈیلیٹ کی گئ پوسٹوں کو بھی جانتے ہیں

ابن کثیر نے ابن ابی حاتم سے جید سند کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کا قول ذکر کیا ہے، انھوں نے فرمایا :

[ فَلَوْ كَانَ اللّٰهُ مُغْفِلًا شَيْئًا لَأَغْفَلَ مَا تَعَفِّي الرِّيَاحُ مِنْ أَثَرِ قَدَمَيِ ابْنِ آدَمَ ] [ ابن کثیر : 219/6 ]

’’اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز سے غفلت کرنے والا ہوتا، تو ابن آدم کے قدموں کے نشانوں سے ضرور غفلت برتتا، جنھیں ہوائیں مٹا دیتی ہیں (مگر اللہ تعالیٰ ان سے بھی غافل نہیں)۔‘‘

اللہ تعالیٰ درختوں کے ایک ایک پتے اور زمین کی تہوں میں پڑے دانے کو بھی جانتے ہیں

فرمایا

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (الأنعام : 59)

اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتّا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔

مرغی وہاں ذبح کرنی ہے جہاں آپ کو کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو

ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک استاد نے اپنے چند شاگردوں سے کہا کہ میرے پاس ایک ایک مرغی ذبح کرکے لاو لیکن یہ خیال رہے کہ آپ میں سے ہر ایک نے تنہائی میں اس جگہ مرغی ذبح کرنی ہے جہاں آپ کو کوئی اور نہ دیکھ رہا ہو اگلے دن اس کے شاگرد ذبح کی ہوئی مرغی لے کر استاد کے پاس پہنچ گئے لیکن ایک شاگرد ایسا تھا جس کے ہاتھ میں زندہ مرغی تھی

استاد نے پوچھا آپ نے مرغی ذبح کیوں نہیں کی تو اس نے کہا مجھے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی کہ جہاں مجھے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو میں جہاں بھی چھپتا تھا جہاں بھی جاتا تھا ہر جگہ مجھے اللہ تعالی دیکھ رہے ہوتے تھے اس لئے میں زندہ مرغی ہی لے کر واپس آگیا ہوں

ایک بکری ہمیں فروخت کر دو بکریوں کے مالک سے کہنا بھیڑیا کھا گیا ہے

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے باہر کسی سفر پر تھے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے ایک جگہ پڑاؤ کیا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا

اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آؤ اس دسترخوان پر بیٹھو

اس نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(تعجب سے ) اسے کہا اتنے سخت گرمی والے دن اور ان پتھریلے ٹیلوں میں بکریوں کے پیچھے چلتے ہوئے تو نے روزہ رکھا ہوا ہے

اس نے کہا میں آنے والے دنوں کی تیاری کر رہا ہوں

عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا تو اپنی ایک بکری ہمیں بیچے گا ہم اس کا گوشت بھی تمہیں کھلائیں گے کہ تو اس کے ساتھ روزہ افطار کر لینا اور تجھے اس کی قیمت بھی ادا کریں گے

اس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہے یہ میرے مالکوں کی ہیں

اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(امتحان کی غرض سے) کہا کہ اگر تو انہیں کہہ دے گا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو تیرے مالک تجھے کچھ نہیں کہیں گے

چرواہے نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے چل پڑا

فأين الله ؟؟؟

تو پھر اللہ کہاں ہے

(یعنی اگر میرے مالک نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں)

اس کے چلے جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل یہ جملہ دہراتے رہے

فأين الله ؟؟؟ فأين الله ؟؟؟

اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے

پھر جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو انہوں نے اس چرواہے کہ مالک سے بات چیت کرکے اس سے بکریاں بھی خرید لیں اور بکریوں کا چرواہا بھی خرید لیا پھر اس چرواہے کو آزاد کرکے وہ ساری بکریاں اس کو تحفے میں دے دیں

[ صفة الصفوة (١٨٨/٢)

شعب الإيمان للبیھقی 5291 مختصر العلو للألباني وسندہ حسن ]

ھالینڈ میں ایک عرب نوجوان کا واقعہ

ایک عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ : اُن دنوں جب میں ھالینڈ میں رہ رہا تھا تو ایک دن جلدی میں ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔ بتی لال تھی اور سگنل کے آس پاس کوئی نہیں تھا، میں نے بھی بریک لگانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور سیدھا نکل گیا۔ چند دن کے بعد میرے گھر پر ڈاک کے ذریعے سے اس خلاف ورزی:

"وائلیشن” کا ٹکٹ پہنچ گیا۔ جو اُس زمانے میں بھی 150 یورو کے برابر تھا۔

ٹکٹ کے ساتھ لف خط میں خلاف ورزی کی تاریخ اور جگہ کا نام دیا گیا تھا، اس خلاف ورزی کے بارے میں چند سوالات پوچھے گئے تھے، ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

میں نے بلا توقف جواب لکھ بھیجا: جی ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ کیونکہ میں اس سڑک سے گزرا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے اس خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔

میں نے یہ جان بوجھ کر لکھا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اس سے آگے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں؟

میرے خط کے جواب میں لگ بھگ ایک ہفتے کے بعد محکمے کی طرف سے ایک جواب ملا۔ ان کے خط میں میری کار کی تین تصاویر بھی ساتھ ڈالی گئی تھیں۔ پہلی سگنل توڑنے سے پہلے کی تھی، دوسری میں میں گزر رہا تھا اور بتی لال تھی، تیسری میں میں چوک سے گزر چکا تھا اور بتی ابھی تک بھی لال تھی۔

یعنی سیدھا سادا معاملہ تھا، میں جرم کا مرتکب تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ میں مرتکب ہوا تھا اور بس۔ نہ بھاگنے کی گنجائش اور نہ مکر جانے کا سوال۔ چپکے سے اقرار نامہ لکھ بھیجا، جرمانہ ادا کیا اور چُپ ہو گیا۔

لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالٰی کے پاس بھی فوٹو مشین ہے

سوچیں کہ بندے کی بنی ہوئی مشین سے تو ہم بھاگ نہیں سکتے پھر اللہ کی بنائی ہوئی مشین سے کیسے بھاگ سکیں گے

کدھر ہوگا بھاگنے کا راستہ؟

سورہ قیامۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ (القيامة : 10)

انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

اللہ تعالیٰ کی خبر رساں ایجنسیاں اور خفیہ کیمرے

یوں تو اللہ تعالیٰ عالم الغيب ہیں اور اپنے کامل علم سے سب کچھ جانتے ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایک سسٹم وضع کررکھا ہے

01. کراما کاتبین

اس سے مراد اعمال کی کاؤنٹنگ کرنے والے فرشتے ہیں

فرمایا

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (الإنفطار : 10)

حالانکہ بلاشبہ تم پر یقینا نگہبان (مقرر) ہیں۔

كِرَامًا كَاتِبِينَ (الإنفطار : 11)

جو بہت عزت والے ہیں، لکھنے والے ہیں۔

يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (الإنفطار : 12)

وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔

سورہ ق میں ہے

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (ق : 17)

جب (اس کے ہر قول و فعل کو) دو لینے والے لیتے ہیں، جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق : 18)

وہ کوئی بھی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگران ہوتا ہے۔

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ (الزخرف : 80)

یا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور ان کی سرگوشی نہیں سنتے، کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس لکھتے رہتے ہیں۔

02. کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو انسانوں کے متعلق رپورٹ کرے گی

فرمایا

وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (الفتح : 7)

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اورزمین کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ، وَ حَتّٰی يُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرُهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ ] [ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ۲۱۸۱، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : 84/3، ح : ۱۱۷۹۸ ]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔‘‘

3 کھانے کا لقمہ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

[ وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ ] [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ۳۵۷۹ ]

’’ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) کھانے کی تسبیح سنتے تھے، جب کہ وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔‘‘

04. درخت اور پودے

فرمایا

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (الرحمن : 6)

اور بے تنے کے پودے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ۔

05. زمین

دیکھیے سورہ زلزال

06. انسانی اعضاء رپورٹ کریں گے

زبان

فرمایا

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النور : 24)

جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

ہاتھ اور پاؤں

فرمایا

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (يس : 65)

آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اوران کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔

کان ،آنکھیں اور چمڑے

اس آیت میں ہاتھوں اور پاؤں کے بولنے اور شہادت دینے کا ذکر ہے، جبکہ دوسرے مقامات پر جسم کے دوسرے اعضا کے بولنے کا بھی ذکر ہے، چنانچہ فرمایا :

حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (فصلت : 20)

یہاں تک کہ جوں ہی اس کے پاس پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

سی ڈی اور کیسٹ کی مثال

زبان گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جس رب کے حکم سے اس میں کلام کی قوت پیدا ہوئی ہے اسی کے حکم سے جسم کے ہر حصے میں یہ قوت پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے ہاتھ، پاؤں اور چمڑوں کے کلام پر تعجب نہیں ہونا چاہیے، فرمایا : « اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ » [ یٰسٓ : ۸۲ ] ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ آج کل پلاسٹک کی سی ڈی اور کیسٹ سے آواز نکلتی ہے اور کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔

انسان اپنے ہی اعضاء کو ملامت کرے گا

فرمایا

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (فصلت : 21)

اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ اچانک ہنس دیے اور فرمایا :

’’جانتے ہو میں کس بات پر ہنسا ہوں؟‘‘

ہم نے کہا :

’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَلَمْ تُجِرْنِيْ مِنَ الظُّلْمِ؟

قَالَ يَقُوْلُ بَلٰی،

قَالَ فَيَقُوْلُ فَإِنِّيْ لَا أُجِيْزُ عَلٰی نَفْسِيْ إِلَّا شَاهِدًا مِنِّيْ،

قَالَ فَيَقُوْلُ كَفٰی بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيْدًا وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِيْنَ شُهُوْدًا

قَالَ فَيُخْتَمُ عَلٰی فِيْهِ فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِيْ

قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ

قَالَ ثُمَّ يُخَلّٰی بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ

قَالَ فَيَقُوْلُ بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ ] [مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر : ۲۹۶۹ ]

’’میں بندے کی اپنے رب سے گفتگو پر ہنسا ہوں (جو وہ قیامت کے دن کرے گا)،

وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا؟‘‘

وہ فرمائے گا: ’’کیوں نہیں؟‘‘

کہے گا : ’’میں اپنے سوا کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا (میرا بدن میرا اپنا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں)۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’آج تیری ذات ہی تیرے خلاف بطور گواہ کافی ہے اور کراماً کاتبین گواہ کافی ہیں۔‘‘

چنانچہ اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے جسم کے اعضا سے کہا جائے گا : ’’بولو!‘‘ تو وہ اس کے سارے اعمال بول کر بتائیں گے،

پھر اسے بولنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا : ’’تمھارا ستیاناس ہو اور تم (مجھ سے) دور ہو جاؤ، میں تو تمھارا ہی دفاع کر رہا تھا۔

قیامت کے دن زندگی کی کتاب کھول کر سامنے رکھ دی جائے گی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (الإسراء : 13)

اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔

اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (الإسراء : 14)

اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔

ایسا مضبوط سسٹم کہ ایک لمحہ بھی اوجھل نہیں رہ سکتا

وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (الكهف : 49)

اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی! اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے، اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیںگے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

اور فرمایا

وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ (القمر : 52)

اور ہر چیز جسے انھوں نے کیا وہ دفتروں میں درج ہے۔

وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ (القمر : 53)

اور ہر چھوٹی اور بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔

یعنی کہ ہمارے اعمال کاپی کیے جارہے ہیں، کچھ بھی نہیں بھلایا جا رہا، ہارڈ ڈسک کے خراب ہونے، میموری کے فارمیٹ ہو جانے، آندھی بارش طوفان کی وجہ سے کچھ خرابی پیدا ہونے کا کہیں بھی کوئی اندیشہ نہیں۔ کوئی ہیکر پہنچ نہ پائے کوئی وائرس خراب نہ کر پائے، ہائے یہ کیسا کمپیوٹر ریکارڈ ہوگا؟

یا الہی: سارے گناہ لکھوائے جارہے ہیں کیا؟

تاریخ کے ساتھ؟

مقام اور جگہ کے ساتھ؟

بیک گراؤنڈ کے ساتھ؟

انسان کو اس کے سب اعمال بتا دیئے جائیں گے

فرمایا

ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (مجادلہ :مجادلہ :7)

پھر وہ انھیں قیامت کے دن بتائے گا جو کچھ انھوں نے کیا۔ یقینا اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔

دوسرے مقام پر فرمایا

يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (القيامة : 13)

اس دن انسان کو بتایا جائے گا جو اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا۔

انسان کو اس کے سب اعمال دکھا دیئے جائیں گے

فرمایا

وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (النجم : 40)

اور یہ کہ اس کی کوشش جلد ہی اسے دکھائی جائے گی۔

ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى (النجم : 41)

پھر اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا، پورا بدلہ۔

ذرہ برابر عمل بھی دکھایا جائے گا

فرمایا

يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ (الزلزلة : 6)

اس دن لوگ الگ الگ ہو کر واپس لوٹیں گے، تاکہ انھیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (الزلزلة : 7)

تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔

وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزلة : 8)

اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔

’’ ذَرَّةٍ ‘‘ بکھرے ہوئے غبار کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ جو روشن دان میں سورج کی شعاعوں سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔

رائی کے دانے برابر عمل بھی سامنے لایا جائے گا

وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ (الأنبياء : 47)

اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

گناہوں کی تفصیل دیکھ کر انسان کیا خواہش کرے گا

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (آل عمران : 30)

جس دن ہر شخص حاضر کیا ہوا پائے گا جو اس نے نیکی میں سے کیا اور وہ بھی جو اس نے برائی میں سے کیا، چاہے گا کاش! اس کے درمیان اور اس کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہوتا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ بندوں سے بے حد نرمی کرنے والا ہے۔

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ (الحاقة : 25)

اور لیکن جسے اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔

وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ (الحاقة : 26)

اور میں نہ جانتا میرا حساب کیا ہے۔

يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ

اے کاش کہ وہ ( موت) کام تمام کردینے والی ہوتی۔

الحاقة : 27

مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ (الحاقة : 28)

میرا مال میرے کسی کام نہ آیا۔

هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ (الحاقة : 29)

میری حکومت مجھ سے برباد ہو گئی۔

قیامت کے دن ہرشخص کو اسکی ڈیٹا ہارڑ (نامہ اعمال) کے ساتھ پکارا جائے گا

فرمایا

وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (الجاثية : 28)

اور تو ہر امت کو گھٹنوں کے بل گری ہوئی دیکھے گا، ہر امت اپنے اعمال نامہ کی طرف بلائی جائے گی، آج تمھیں اس کا بدلہ دیا جائے گا جوتم کیا کرتے تھے ۔

هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (الجاثية : 29)

یہ ہماری کتاب ہے جو تم پر حق کے ساتھ بولتی ہے، بے شک ہم لکھواتے جاتے تھے ، جو تم عمل کرتے تھے۔

اور فرمایا

يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (إسراء : آیت 71)

جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے، پھر جسے اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں دی گئی تو یہ لوگ اپنی کتاب پڑھیں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے برابر (بھی) ظلم نہ ہو گا۔

یہاں امام سے مراد اعمال نامہ بھی ہے

قیامت اس لیے قائم کی جائے گی تاکہ ہرشخص کو اس کے کیئے کا بدلہ دیا جا سکے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (طه : 15)

یقینا قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔

اسی لیے اس کا ایک نام "یوم الدین” بھی ہے

فرمایا

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة : 4)

بدلے کے دن کا مالک ہے۔

قیامت کا دن فیصلے کا دن ہے

إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ (الدخان : 40)

یقینا فیصلے کا دن ان سب کا مقرر وقت ہے۔

فیصلے کی کیفیت کیا ہوگی

وکیل سے کام نہیں چلے گا خود حاضر ہونا پڑے گا

فرمایا

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (يس : 32)

اور نہیں ہیں وہ سب مگر اکٹھے ہمارے پاس حاضر کیے جانے والے ہیں۔

حاضری اتنی سخت ہوگی کہ کوئی انسان عدالت سے غیر حاضر نہیں ہوسکے گا

‏*عدالتی بیلف(فرشتے)ہانکتےہوئے عدالت میں پیش کریں گے*

فرمایا

وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ (ق : 21)

اور ہر شخص آئے گا، اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہی دینے والا ہے۔

ہانکنے والا رب العزت کی عدالت تک لا کر چھوڑے گا

وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ (ق : 23)

اور اس کا ساتھی (فرشتہ) کہے گا یہ ہے وہ جو میرے پاس تیار ہے۔

یعنی وہ فرشتہ جو اسے ہانک کر محشر میں لانے پر مقرر تھا کہے گا، اے رب! وہ مجرم جسے لانے پر تو نے مجھے مقرر فرمایا تھا یہ میرے پاس حاضری کے لیے تیار ہے اور وہ فرشتہ جو شہادت کے لیے ساتھ تھا کہے گا، اس کے متعلق جس جس شہادت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے جو میرے پاس تیار ہے۔

کیس کی مکمل تفصیلات بالکل اوپن ہوں گی

فرمایا

وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (الإسراء : 13)

اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔

ہر کوئی اپنا فیصلہ خود ہی وصول کرے گا

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ (الحاقة : 19)

سو جسے اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا لو پکڑو، میرا اعمال نامہ پڑھو۔

اور

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ (الحاقة : 25)

اور لیکن جسے اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔

ایسے کیس بھی کھلیں گے جنہیں انسان بھول چکا ہوگا

فرمایا

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المجادلة : 6)

جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا، پھر انھیں بتا ئے گا جو انھوں نے کیا۔ اللہ نے اسے محفوظ رکھا اور وہ اسے بھول گئے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

یہ اس سوال کا جواب ہے کہ ہزاروں لاکھوں سالوں کے بعد اگر سب لوگوں کو زندہ کر بھی لیا گیا تو انھوں نے جو کچھ کیا اسے مدتیں گزر چکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ اتنی بے شمار مخلوق کے بے شمار اعمال انھیں کیسے بتائے گا؟ فرمایا وہ اپنا کیا ہوا بے شک بھول چکے ہوں، مگر اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ محفوظ کر رکھا ہے

کسی قسم کی بھول چوک بھی نہیں ہوگی

فرمایا

وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ( مریم : 64)

اور تیرا رب کبھی کسی طرح بھولنے والا نہیں

فیصلہ میرٹ پر ہوگا

فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ (الأنبياء : 47)

اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

فیصلے میں کوئی ردوبدل نہیں ہوگا

فرمایا

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (ق : 29)

میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور میں بندوں پر ہرگز کوئی ظلم ڈھانے والا نہیں۔

رشوت اور تعلقات بالکل نہیں چلیں گے

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (الشعراء : 88)

جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔

واٹس ایپ پالیسی سے خائف اے انسان❗اپنی تنہائیوں کو درست کرتے ہوئے آخرت کی جوابدہی کی فکر کر

اے انسان وہ وقت یاد کر جب تو اللہ رب العزت کی عدالت میں کھڑا ہو گا، ساری دنیا تجھے دیکھ رہی ہوگی اور تیرا پرسنل غیر پرسنل ڈیٹا اوپن کردیا جائے گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن : 46)

اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔

اللہ کے نبی کریم سیدنا یوسف علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب ایک عورت نے تنہائی میں انہیں برائی کی دعوت دی تو انہوں نے کس طرح اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنی حفاظت فرمائی

یوسف علیہ السلام نے فرمایا

قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (یوسف :23)

اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے

ایسے ہی وہ سات قسم کے لوگ جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے

ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنی تنہائی کی حفاظت کرنے والا ہوگا

فرمایا

وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ (یوسف :23)

اور (ان میں سے ایک) ایسا آدمی جسے کسی منصب و جمال والی عورت نے برائی کی دعوت دی تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں