کرونا وائرس کی آزمائش میں خوف وہراس نہیں ایمان و صبر سے کام لیجئیے

ہمارے استاذ گرامی جناب نصر جاوید صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں جن دنوں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا پھر تھوڑے وقت کے بعد عراق پر حملہ کردیا دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی دو عظیم حکومتیں تاراج ہوگئیں تیزی سے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا ہر طرف مایوسی کا سماں بندھا ہوا تھا

ابتلاء و آزمائش کے ان حالات میں کیفیت یہ بن گئی تھی کہ بہت سے لوگوں کی ایمانی کیفیت ہچکولے کھانے لگی

وہ فرماتے ہیں، کسی پروگرام کے اختتام پر ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا مسلمانوں کا کوئی خدا موجود بھی ہے (جو ان کی مدد کرسکے) یا نہیں (العیاذ باللہ)

اور دوسری طرف کچھ وہ بھی تھے جو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ایمان ویقین کے ساتھ امریکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے

دیکھیں آزمائشوں، مصیبتوں اور پریشانیوں میں ایمان کیسے لڑکھڑاتے، ڈولتے، ڈگمگاتے اور کیسے بنتے، سنورتے اور مضبوط ہوتے ہیں

یہ آزمائشیں تو ہوتی ہی پرکھنے کے لیے ہیں

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملك : 2)

وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہی سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔

آزمائش کا سامنا کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ایک وہ جو صبر شکر کرتے ہوئے اپنے ایمان و یقین کو مضبوط کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رب العزت کو ناراض کرنے والی باتیں کرتے ہیں

غزوہ احزاب کی آزمائش اور لوگوں کی دو مختلف آراء

احزاب کے حالات ہمارے سامنے ہیں اتنی سخت آزمائش تھی کہ خود اللہ رب العزت نے اس کو یوں بیان کیا

إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (الأحزاب : 10)

جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آگئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔

هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (الأحزاب : 11)

اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔

اس آزمائش کا سامنا کرنے والے بے صبرے، بے شکرے اور منافق لوگ کہنے لگے

مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (الأحزاب : 12)

اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔

جبکہ اسی آزمائش کا سامنا کرنے والے صابر وشاکر مومن لوگ کہنے لگے

هَذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (الأحزاب : 22)

یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اوراس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔

مومن ہر حال میں صبر شکر کرتا ہے

صحيح مسلم میں روائت ہے صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ

:”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔”

صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خوشخبری سناتے ہیں

فرماتے ہیں

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (البقرة : 155)

اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔

ایسے حالات میں صبر و صلوۃ سے کام لینے والے کو نصرت و ثبات کا مژدہ سنایا گیا ہے

جیسا کہ اللہ نے سورۃ البقرہ آیت (٤٥) میں فرمایا ہے : (واستعینوا بالصبر والصلوۃ) کہ اے مسلمانو ! تم لوگ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو

خوف ہراس کا ماحول مت بنائیں

گلی محلے میں

یا اعزہ واقربہ میں

یا دوست و احباب میں کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی دو چار اموات سے گھبرا جاتے ہیں

جھٹ سے معاشرے میں ایسی ایسی سنسنی خیز خبریں پھیلا دی جاتی ہیں کہ ہر کوئی ڈرا سہما محسوس ہونے لگتا ہے

اسلامی تعلیمات سے عاری میڈیا جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے جھوٹی خبریں پھیلا پھیلا کر پوائنٹ سکورنگ کی دوڑ میں شامل ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے

یہی وجہ ہے کہ کرونا کا مریض اچھوت بن کر رہ گیا ہے اسے کوئی ڈاکٹر ہاتھ لگاتا ہے نہ کوئی رضا کار

بیمار ہوتے ہی ہر شخص اپنے آپ کو مایوسی کے عالم میں موت کے منہ میں دیکھتا ہے

کثرت اموات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اسوہءحسنہ

ہم نے شاید آج تک اپنی آنکھوں سے اکٹھی اموات اتنی تعداد میں نہیں دیکھی جتنی صحابہ دیکھ چکے ہیں

غزوہ احد میں آنا فانا 70 صحابہ شہید ہوگئے اور اتنے ہی زخمی بھی ہوئے لیکن وہ کمال جواں حوصلہ لوگ تھے کہ چہروں پر اطمینان اور مسکراہٹ بدستور جاری تھی محال ہے کہ ان میں سے کسی کے قریب سے بھی موت کا خوف گزرا ہو، ان کی صفوں میں کوئی کھلبلی مچی ہو یا خوف و ہراس میں حواس باختہ ہوئے ہوں

اسی شام کا واقعہ ہے، ابھی راستے میں ہیں، اپنے گھروں کو واپس بھی نہیں آئے خبر ملتی ہے کہ دشمن پلٹ کر حملہ کرنا چاہتا ہے زبانِ حال و مقال سے فرمانے لگے حسبنا اللہ ونعم الوكيل نعم المولى ونعم النصير

بئر معونہ کا دعوتی مشن

70 صحابہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعوتی مشن پر روانہ کیا راستے میں دشمن نے غدر کرتے ہوئے دھوکے سے سب کو شہید کر دیا خبر مدینہ میں پہنچی بہت بڑی تعداد تھی بیک وقت اتنے ساتھیوں کا بچھڑ جانا بہت بڑا صدمہ تھا

لیکن پہاڑ کی طرح مضبوط حوصلوں کو سلام، ایمان لرزے نہ ہی جذبات ماند پڑے ساتھیوں کے بچھڑنے کا غم ضرور تھا لیکن مدینہ کی فضاء حوصلے سے یوں کی توں بھری رہی اس کے بعد بھی دعوتی و جہادی قافلے مشکًَل ہوتے رہے

رکے نہ تھمے،

بکے نہ جھکے،

ڈرے نہ سہمے

کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ موت کا وقت مقرر ہے وہ آگے ہوگا نہ پیچھے

جنگ یمامہ کا سانحہ اور صحابہ کی فکر

جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے 700 سے زائد صحابہ شہید ہو گئے سب کے سب قرآن کے حافظ، عالم وقاری تھے 700 قیمتی لاشیں آنکھوں کے سامنے پڑی ہوئی تھیں حقیقت تھی کوئی پوائنٹ سکورنگ یا میڈیا ریٹنگ نہیں تھی

مگر اس سب کے باوجود کسی پر موت کا خوف طاری نہ ہوا اس کے بعد بھی جنگیں ہوئیں کبھی کسی نے پست ہمت نہیں دکھائی

ہاں کثیر تعداد میں اموات دیکھ کر صحابہ کو ایک فکر لاحق ہوئی تھی اور وہ ہماری فکر سے بالکل جدا فکر تھی

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ امیرالمومنین ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے عرض کیا اے امیر

إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِالنَّاسِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ الْقُرْآنَ

جنگ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر مزید جگہوں میں ایسا ہوا تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا لہذا آپ قرآن کو جمع کرنے کا اھتمام کریں

ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے

كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں وہ کام کیسے کروں جو نبی علیہ السلام نے نہیں کیا

تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا

هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ

قسم اللہ کی یہ خیر ھے

ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں

فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ (بخاري)

عمر مسلسل میرے ساتھ تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے وہی سمجھا جو عمر کہہ رہے تھے

موت کا وقت مقرر ہے

یہ یقین کرلیں کہ موت کا وقت مقرر ہے اور یہ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا

اور یہ بھی یقین کرلیں کہ کرونا وائرس کا موت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بغیر بھی موت آ سکتی ہے

کتنے لوگ ایسے ہیں جو کرونا وائرس کا شکار ہوئے اور پھر صحت مند بھی ہوگئے اور کتنے ایسے ہیں جو کرونا کے بغیر ہی فوت ہو گئے

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے

سنن ترمذی کی 2516 نمبر روایت ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا کہ آپ نے مجھے فرمایا

يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں ‘

کراچی میں کریش ہونے والے جہاز کی مثال

کرونا وائرس سے احتیاط کرتے ہوئے 150 کی بجائے 90 افراد کو سوار کیا گیا لیکن رب العالمین کے فیصلے کچھ اور تھے لینڈ کرنے سے صرف ایک دو منٹ پہلے جہاز کریش کرگیا ساری دنیا نے دیکھا خوفناک وڈیو مناظر سامنے آئے ایک لمحے میں سب مسافر ہلاک ہوگئے صرف دو کو بچا کر رب العالمین نے دنیا کو پیغام دیا کہ زندگی اور موت کا مالک کرونا وائرس نہیں بلکہ وہ ذات ہے جس کے ہاتھ میں کرونا سمیت ہر چیز کا کنٹرول ہے

یونس علیہ السلام کی مثال

مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے بظاہر کوئی سبب موجود نہیں ہے

خوراک نہیں ہے

ہوا نہیں ہے

پانی نہیں ہے

اندھیرا ہے

قید ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے

موت ہی موت نظر آرہی ہے

یقینی موت

مگر اللہ تعالیٰ بچانا چاہتے ہیں جس کے ہاتھ میں موت ہے وہ ابھی مارنا نہیں چاہتا

یونس علیہ السلام نے اس حالت میں اپنے رب کو پکارا پھر اللہ تعالیٰ نے بچا کر دکھایا اور دنیا نے دیکھا

عیسی علیہ السلام کی مثال

لوگ آپ کے قتل کے درپے ہو گئے گھر کا محاصرہ کر لیا گیا سب مارنے والے کوئی مددگار نہیں سب دشمن کوئی دوست نہیں

مگر اللہ تعالیٰ جوکہ فعال لما یرید اور علی کل شیئ قدیر ہے، عیسی علیہ السلام کو بچانا چاہتے تھے لوگوں کے بیچوں بیچ زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا

موسی علیہ السلام کی مثال

جن دنوں موسی علیہ السلام پیدا ہوئے اس وقت فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر رہا تھا موسی علیہ السلام پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ محترمہ کو حکم دیا کہ اس بچے کو سمندر میں پھینک دے والدہ نے بحکم الہی بچے کو صندوق میں بند کیا اور سمندر میں پھینک دیا

اب عقل کی کروڑ دلیلیں یہی کہتی ہیں کہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی کیفیت میں نومولود زندہ بچ سکے

بھوک

پیاس

بند صندوق میں آکسیجن کی کمی

پانی کے ہچکولے

سورج کی دھوپ

پانی کی ٹھنڈک

ڈوبنا

دشمن کا تیرتے پانی سے پکڑ کر قتل کر دینا

الغرض کتنے اسباب تھے جو موسی علیہ السلام کو موت کی نیند سلا سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ تھے کہ موسی علیہ السلام کو بچانا چاہتے تھے پھر ایسا ہی ہوا جس فرعون نے ایک موسی کے ڈر سے ہزاروں بچے قتل کروائے تھے اسی فرعون کے گھر میں اللہ تعالیٰ نے موسی کی پرورش کا ساماں کردیا

وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (يوسف : 21)

اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یوسف علیہ السلام کی مثال

دس بھائی اکٹھے ہو کر نہتے یوسف کو قتل کرنے کے لیے لے گئے

جنگل ہے

یوسف اکیلے ہیں

کوئی مددگار نہیں ہے

مقابلے میں دس گھبرو جوان ہیں

کنویں میں پھینک دیتے ہیں

کنواں گہرا ہے

باہر نکلنے کا کوئی چارہ نہیں ہے

خوراک، رہائش، سیفٹی، سیکیورٹی کچھ بھی نہیں

بظاہر یقینی موت ہے

لیکن

جس کے ہاتھ میں موت ہے اسے کچھ اور منظور ہے

گہرے کنویں سے، جہاں ہرطرف موت کے آثار نظر آرہے تھے، بچا لیا

اور شاہی تخت پر جہاں موت دور دور نظر نہیں آرہی تھی موت کی نیند سلا دیا

یہ میرا رب ہے

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (الأنبياء : 23)

اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔

سلیمان علیہ السلام کی وفات

اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی موت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، اگر اس سے کوئی بچتا تو سلیمان علیہ السلام ضرور بچ جاتے، جن کے پاس بہت عظیم قوتیں تھیں۔

سلیمان علیہ السلام کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ جنّات ان کاموں میں مصروف تھے جن کا حکم انھیں سلیمان علیہ السلام نے دے رکھا تھا، انھیں معلوم نہیں ہو سکا کہ سلیمان علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ بدستور کام میں جتے رہے۔ دیمک ان کی لاٹھی کو اندر سے کھاتی رہی، جب لاٹھی اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور سلیمان علیہ السلام کا بوجھ برداشت نہ کر سکی تو وہ گر پڑے۔ تب جا کر لوگوں اور جنّوں کو ان کی وفات کا پتا چلا۔

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ (سبأ : 14)

پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔

سبحان اللہ، یہ کرونا وائرس کیا چیز ہے اللہ تعالیٰ چاہیں تو جلتی آگ سے ابراہیم علیہ السلام کو زندہ بچا لیں اور چاہیں تو سکون سے لاٹھی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے سلیمان علیہ السلام کو موت کی آغوش میں لے لیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور زہریلا گوشت

ایک یہودی عورت نے زہریلے گوشت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی آپ اس کی دعوت پر تشریف لے گئے آپ نے بھی کھایا آپ کے اصحاب نے بھی کھایا آپ کا ایک ساتھی موقعہ پر فوت بھی ہوگیا

غور کریں ایک ہی زہر ہے کھانے والوں نے بیک وقت کھایا ہے لیکن موت اسی کو آئی ہے جس کا وقت آگیا ہےمعلوم ہوا جس طرح ہر زہر کھانے والے کو ضروری نہیں کہ موت ہی آئے اسی طرح ہر کرونا کے مرض میں مبتلا ہونے والا لازم نہیں کہ ضرور مر کر ہی رہے گا

2005 کا زلزلہ کسے یاد نہیں ہے

کیا قیامت خیز منظر تھا

آنا فانا ایک منٹ سے کم وقت صرف 52 سیکنڈ میں ایک لاکھ انسانوں کی موت واقع ہوئی تھی

دنیا کی تاریخ میں اتنی تھوڑی مدت میں اتنی بڑی تعداد میں اموات کا شائد ہی پہلے کوئی واقعہ گزرا ہو

ذرا سوچیں کیا کبھی انہوں نے کرونا وائرس کا سوچا بھی ہوگا شاید کہ ان میں سے کسی نے زندگی بھر کبھی اس وبا کا نام بھی نہیں سنا ہوگا

لیکن وہ مرگئے سب کے سب مرگئے ہم نے بھی مرنا ہے آج نہیں تو کل ہماری بھی باری آ رہی ہے کرونا تو ایک معمولی سی چیز ہے اللہ تعالیٰ کے پاس موت کے ہزارہا طریقے ہیں

ہمارا کام ہے اس موت کی تیاری کریں

ہمیں موت کیسے آنی ہے یہ اللہ کے علم میں ہے

جیسے بھی آنی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے

ہمارا کام یہ ہے کہ اسلام اور ایمان کی حالت میں موت آنی چاہیے

فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران : 102)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

چونکہ موت کا علم ہی نہیں کب آ جائے، اس لیے موت آنے تک ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اسی طرح ڈرتے رہو۔

بیرون ملک مقیم لوگوں کی مثال

کبھی آپ نے کاروبار اور کام کی غرض سے بیرون ملک جانے والے لوگوں کا مشاہدہ کیا ہو ایسے لوگ دیار غیر میں ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی نہیں جیتے

وہاں لگژری گاڑیاں نہیں خریدتے

پرتکلف رہائش گاہیں نہیں تعمیرتے

دوچار نوجوان مل کر ہلکا سا کوئی کمرہ رینٹ پر لیتے ہیں روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتے ہیں پیسہ کماتے ہیں پیسہ بچاتے ہیں اور پھر اس پیسے سے اپنے آبائی وطن میں اچھا گھر اچھی گاڑی اچھی اشیاء خریدتے ہیں

ایسا کیوں

اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں یہ ہمارا عارضی ملک ہے

اور وہ ہمارا مستقل ملک ہے لہذا ہم اپنا پیسہ وہاں خرچ کریں جہاں ہم نے مستقل رہنا ہے

ہمارا مستقل ٹھکانہ کیا ہے

لیکن

اگر اس سے تھوڑا آگے سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ دیار غیر ہو یا آبائی وطن ہو، درحقیقت یہ دونوں ہی عارضی ہیں ہمارا مستقل ٹھکانہ مرنے کے بعد والا ہے ہمارا کام یہ ہے کہ اپنا پیسہ وہاں انویسٹ کریں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : 18)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ اس سے پور ی طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔

سنن ابن ماجہ میں 4195 نمبر روایت ہے

سیدنابراء ؓ نے فرمایا:

كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جِنَازَةٍ فَجَلَسَ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ فَبَكَى حَتَّى بَلَّ الثَّرَى ثُمَّ قَالَ يَا إِخْوَانِي لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا

ہم ایک جنازے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ مٹی تر ہو گئی۔ پھر فرمایا: ‘‘بھائیو! ایسی چیز (قبر) کے لئے تیاری کر لو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی سے قیامت کی تیاری کے متعلق پوچھتے ہیں

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا

بَيْنَمَا أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجَانِ مِنْ الْمَسْجِدِ فَلَقِيَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْدَدْتَ لَهَا فَكَأَنَّ الرَّجُلَ اسْتَكَانَ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا كَبِيرَ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلَكِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قَالَ أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ (بخاري 7153)

میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل رہے تھے کہ ایک شخص مسجد کی چوکھٹ پر آکر ہم سے ملا اور دریافت کیا یا رسول اللہ! قیامت کب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس پر وہ شخص خاموش سا ہوگیا، پھر اس نے کہا یا رسول اللہ! میں نے بہت زیادہ روزے، نماز اور صدقہ قیامت کے لیے نہیں تیار کئے ہیں لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔

لمحہ فکریہ

آج ہم کرونا وائرس سے بہت خوفزدہ ہیں حالانکہ اس کا زیادہ سے زیادہ انجام ہماری موت کی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ موت تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے آنا ہی آنا ہے اگر کرونا کے ذریعے نہ بھی آئی تو کسی نہ کسی اور ذریعے سے آ جائے گی

اصل ہمیں جس چیز سے خوفزدہ ہونا چاہئے تھا وہ ہم نے اپنے دل سے نکال دی ہے اور غفلت میں ڈوب چکے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (الأنبياء : 1)

لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ