کفار کے متحارب گروہوں میں سے کسی ایک کی طرف داری کرنے کی شرعی حیثیت اور حالیہ روس و یوکرائن جنگ

===============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ [الأنعام : 65]

کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پائوں کے نیچے سے، یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے، دیکھ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ سمجھیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ  (مسلم كِتَابُ الْقَدرِ6774)

 جس چیز سے تمہیں نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو (مایوس ہو کر نہ بیٹھ) جاؤ،

اس وقت یوکرائن اور روس کی باہمی جنگ جاری ہے ایک طرف یوکرائن اور سارا یورپ اور امریکہ اور اسرائیل کی بڑی بڑی طاقتیں زور آزمائی کر رہی ہیں تو دوسری جانب روس اپنی پوری قوت سے میدان جنگ میں برسر پیکار ہے

یہ دونوں ہی بڑی مضبوط طاقتیں ہیں اور دونوں اسلام کے بدترین دشمن ہیں اگرچہ یہ جنگ اسلام کے دو دشمنوں کے بابین لڑی جا رہی ہے مگر لازم بات ہے کہ اس جنگ کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے اس کے بہت سے اثرات مسلم ممالک پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں تو ایسے حالات میں کہ جب دو بڑی کافر طاقتیں آپس میں الجھ رہی ہوں

 اسلام کی تعلیمات کیا ہیں

 امت کی مصلحت و منفعت کا کیا تقاضا ہے

 بوقت ضرورت کسی ایک قوت کی طرف داری کی اسلام میں کیا حیثیت ہے

ان حالات میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے

ان سب مسائل کے حل کے لیے درج ذیل دلائل کا مطالعہ از حد ضروری ہے

رومی کفار بمقابلہ ایرانی کفار اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی تو اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں۔اور دونوں آپس میں برسرِ پیکار تھیں ایک روم کی عیسائی حکومت، مسلمانوں کی ہمدردیاں انھی کے ساتھ تھیں۔

 دوسری بڑی طاقت ایران کی تھی، جو مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ مشرکینِ مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔

رومی بھی کافر تھے اور ایرانی بھی کافر تھے

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع کو کیش کرتے ہوئے اور دونوں طاقتوں کی باہمی جنگ سے فائدہ اٹھانے کے لیے رومیوں کی طرف داری کی، ان کے حق میں بیانات دیے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ

اس زمانہ میں جب مسلمانوں نے حبشہ(رومیوں کے ہم مذہب عیسائیوں) کی طرف ہجرت کی تو قریشیوں کی مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت بری طرح ناکام ہوئی اور انھیں خالی ہاتھ وہاں سے آنا پڑا۔

اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے

الم۔ [الروم : 1]

غُلِبَتِ الرُّومُ [الروم : 2]

رومی مغلو ب ہوگئے۔

فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [الروم : 3]

سب سے قریب زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔

فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ [الروم : 4]

چند سالوں میں، سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔

بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ [الروم : 5]

اللہ کی مدد سے، وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔

مطعم بن عدی اور ابو جہل میں ترجیح

ایک کافر ہے مطعم بن عدی اور ایک کافر ہے ابو جہل

دونوں کافر تھے

دونوں بت پرست تھے

دونوں اسلام قبول کیے بغیر مرے ہیں

مسلمانوں کو دونوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے

مگر

جب مطعم اور ابوجہل کا موازنہ و مقابلہ ہوگا تو ہماری ہمدردی ابو جہل کی بجائے مطعم کے ساتھ ہوگی کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ واپس آ رہے تھے تو ابو جہل وہ تھا جو آپ کو مکہ داخلے سے روک رہا تھا اور مطعم بن عدی وہ تھا جو اپنی حفاظت اور پناہ میں آپ کو مکہ مکرمہ میں لا رہا تھا

یہی وجہ ہے کہ جب بدر کے میدان میں ستر کفار جنگ جو گرفتار کر لئے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ

جبکہ یہی جملہ ابوجہل کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا

ابو لہب اور ابوطالب میں ترجیح

ابو لہب اور ابوطالب میں بھی یہی فرق ہے

ابو لہب کافر تھا

بت پرست تھا

حالت کفر میں فوت ہوا

اور ابوطالب کا بھی یہی معاملہ ہے

مگر

دونوں میں بہت فرق ہے

مسلمانوں کی ہمدردیاں ابولہب کی بجائے ابوطالب سے ہیں

(کفار)بنوبکر اور(کفار)بنوخزاعہ میں ترجیح

یہ دو قبائل تھے جو مکہ مکرمہ کے اطراف میں رہتے تھے اور دونوں اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے

صلح حدیبیہ کے بعد بنو خُزاعہ رسول اللہﷺ کے عہد وپیمان میں داخل ہوگئے اور بنو بکر قریش کے عہد وپیمان میں۔

بنو بکر کی ایک جماعت نے شعبان ۸ ھ میں بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔ان کے متعدد افراد مارے گئے۔

قریش نے اس حملے میں ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی

بنو خزاعہ نے مدینہ منورہ میں پیغام بھیجا جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کی درخواست کی

رسول اللہﷺ نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا : اے عَمرو بن سالم ! تیری مدد کی گئی

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کافر کے خلاف دوسرے کافر کی حمایت میں نکلے اور بعد میں یہی سفر فتح مکہ کا سبب بنا

کفار مکہ کے خلاف کفار مدینہ سے معاہدہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔

میثاق مدینہ میں بہت سی دفعات شامل تھیں

جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں

مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی

مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔

بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے

یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔

بیان کردہ واقعات کی روشنی میں

 سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب کبھی کفار آپس میں الجھ رہے ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی حمایت کرنے میں امت مسلمہ کے وسیع تر مفادات کا امکان ہوتو ایسا کرنا جائز اور مشروع عمل ہے

اگرچہ روس بھی مسلمانوں کا دشمن ہے صرف دشمن ہی نہیں بلکہ بدترین دشمن ہے اور اس نے بہت سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں

مگر اہل یورپ اور اسرائیل و امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو روسی مظالم ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہیں

گزشتہ تین سو سال سے یورپ و امریکہ انتہائی بری طرح سے امت مسلمہ پر حملہ آور ہے عسکری، سیاسی، مذہبی، تعلیمی، تہذیبی، اقتصادی الغرض ہر میدان میں انہوں نے مسلمانوں کا بھیانک استحصال کررکھا ہے

اب جب روس، یورپ پر حملہ آور ہے اور یورپی عوام و حکام لرز رہے ہیں تو مسلمانوں کے سینے ٹھنڈے ہورہے ہیں اور ہر ذی شعور مسلمان روس کو اپنا دشمن سمجھنے کے باوجود اہل یورپ کے مقابلے میں وقتی طور پر روس کی طرفداری اور حمایت کا خواہاں ہے

کیونکہ ایک عرصے بعد ظالموں کے گھر بار، کھیت کھلیان جلتے نظر آرہے ہیں

ایک عرصے بعد ظالموں کو احساس ہو رہا ہے کہ جب گھروں میں بم گرتا ہے تو کیا گزرتی ہے

ایک عرصے بعد ظالموں کو پتہ چل رہا ہے کہ جب دشمن کے خوف سے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو ساتھ لے کر ہجرت کی جاتی ہے تو راستے کی تکلیفیں کتنی اذیت ناک ہوتی ہیں

ایک عرصے بعد ظالموں کو پتہ چل رہا ہے کہ جب دشمن گھر میں داخل ہو کر ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو قتل کرتا ہے تو کیا گزرتی ہے

ایک عرصے بعد ظالموں کو پتہ چل رہا ہے کہ جب دشمن کی بے رحم فوجیں شہروں میں داخل ہو کر فساد مچاتی ہیں تو کیسی قیامت برپا ہوتی ہے

پورا عالم کفر(مغرب) جنگ میں گھرا ہوا اور خوفزدہ ہے

جبکہ اسلام کے قلعے پاکستان میں رونقیں، خوشیاں اور سکون بحال ہے الحمدللہ ثم الحمدللہ

یااللہ تیرا بے شمار شکر ہے

ہمارے سینے کیوں نہ ٹھنڈے ہوں

ان ظالموں نے ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا

ابھی تو آٹھ سو سالہ حکومت کا سقوط، کالا پانی کی صعوبتیں، قیام پاکستان کے وقت کی شہادتیں اور بے شمار اذیتیں نہیں بھولے تھے کہ فلسطین، بوسنیا، عراق، شام، افغان، اور بے شمار جگہوں میں مسلمانوں پر ظلم کی نئی داستانیں رقم کی گئیں

ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں

ہمیں یاد ہے

جب اسی یورپ و امریکہ نے ہمارے بھائیوں کو کنٹینروں میں بند کر کے کنٹینر دھوپ میں کھڑے کیے اور وہ بے چارے وہاں ہی گرمی، حبس اور پیاس سے مرگئے

جب اسی یورپ و امریکہ نے زندہ مسلمانوں کو آدھا زمین میں گاڑ کر بھوکے کتے چھوڑے تھے

جب اسی یورپ و امریکہ نے زندہ مسلمانوں کے جسموں سے پلاس کے ساتھ ناخن کھینچے تھے

جب اسی یورپ و امریکہ نے مسلمانوں کے ننگے جسموں پر گرم استریاں پھیری تھیں

جب اسی یورپ و امریکہ نے زندہ مسلمانوں کی زبانوں کو بلیڈ پھیر پھیر کر کاٹا تھا

جب اسی یورپ و امریکہ نے حفظ قرآن کے طلبہ کی تقریب پر اس وقت  بم برسائے جب سروں پر دستار اور گلوں میں ہار لٹکنے ہی والے تھے

جب اسی یورپ و امریکہ نے قال اللہ وقال الرسول پڑھتے طلبہ پر بمباری کرکے ڈیڑھ ڈیڑھ سو طلبہ کو موت کی نیند سلا دیا تھا

روس بھی ہمارا دشمن ہے مگر

مانتا ہوں ایک بار نہیں سو بار مانتا ہوں کہ روس ہمارا دشمن ہے

مگر یہ وقت ہے کہ ہم اسوہ نبوی کی روشنی میں موقعہ کیش کریں اور ایک دشمن کے مقابلے میں دوسرے دشمن کو سپورٹ کرتے ہوئے پرانے بدلے لیے جائیں

سلام پیش کرتا ہوں جناب عمران خان صاحب کو کہ جنہوں نے انتہائی پریشر کے باوجود روس کا دورہ کیا روسی اقدامات کی حمایت کی اور روس کے خلاف یو این او کی قرارداد میں حصہ نہیں لیا

یوکرائن کی اسلام دشمنی اور مکافات عمل

یو کرائن کا موجودہ صدر یہودی ہے اور یہودیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے قرآن نے اہل یہود کو مسلمانوں کا اول درجے کا دشمن قرار دیا ہے

پوری دنیا کے یہودی یوکرائن کو دوسرا اسرائیل بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں

یوکرین نے عرب مسلم ممالک کو تباہ وبرباد کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا  یوکرائن نے ہمیشہ مسلمانوں پر کیے جانے والے امریکی مظالم پر امریکہ کی مدد کی ہے

2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تب عراق کی تباہی میں یوکرائنی فوج اور ٹینک سب سے آگے تھے اب مکافات عمل کی چکی چل رہی ہے آج اسی لئے مسلم ممالک خاموش ہیں

عراق اور یوکرائن کے جرم میں مماثلت

جب یوکرائن نے امریکہ سے مل کر عراق پر حملہ کیا تھا تو دلیل یہ دی تھی کہ ہمیں عراق میں موجود بعض جنگی ہتھیاروں سے خطرہ ہے جبکہ یوکرائن عراق سے کم از کم 2000 کلو میٹر دور ہے

‏اگر یوکرین 2000 کلومیٹر دور عراق پر نیٹو کے ساتھ حملہ کر کے 10 لاکھ مسلمان مار سکتا ہے کہ "عراق کے پاس ممکنہ ہتھیاروں سے ہمیں خطرہ ہے۔”

تو پھر روس بھی حملہ کر کے چند سو یوکرینی مار سکتا ہے کہ "یوکرین میں ممکنہ نیٹو اڈے سے ہمیں خطرہ ہے”۔

ستائیس ملکوں کے سربراہان سے ٹیلی فونک رابطہ

یو کرائن کا صدر کہتا ہے میں نے ستائیس ملکوں کے سربراہان سے بات کی مگر کوئی بھی ہماری مدد کے لیے تیار نہیں ہے سب ڈرے ہوئے ہیں

ہم کہتے ہیں جناب جب آپ نے عراق پر حملہ کیا تھا تب ہوسکتا ہے صدام نے ایک سو ستائیس ملکوں کے سربراہان سے رابطہ کیا ہو مگر تب آپ اور آپ کے اتحادیوں کے رعب سے کوئی بھی نہیں بولتا تھا

لھذا اب دن تبدیل ہو گیے ہیں تاریخ دھرائی جا رہی ہے

وتلک الایام نداولها بین الناس

 یوکرائن اور کشمیر پر بیرونی حملے اور مغرب کی دوغلی پالیسی

جب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا ہے تو یورپی یونین سمیت 22 ممالک کے سفیروں نے پاکستانی حکومت کو خط لکھ کر یوکرین میں روسی اقدامات کی مذمت کرنے پر زور دیا ہے. سفیروں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے بانی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے آواز اٹھائے.

مگر

مسلم علاقوں پر حملہ کے وقت دنیا خاموش تھی عراق، لیبیا، افغانستان، کشمیر، فلسطین پر حملوں پر دنیا خاموش تھی۔

سوال یہ ہے کہ دنیا نے مسلمانوں کی مشکل میں مدد کیوں نہیں کی؟

اس وقت دنیا حملہ آور کے خلاف کیوں نہیں بولی؟

اگر روس نے یورپ پر حملہ کیا ہے تو کیا ہندوستان اور اسرائیل نے کشمیر و فلسطین پر حملہ نہیں کیا

تب قرار داد مذمت کے خطوط کیوں نہیں لکھے گئے اور میٹنگز کیوں نہیں بلائی گئیں

پیوٹن اور مودی کے متعلق متضاد خیالات

اب یوکرائن کی پاکستان سے درخواست ہے، یورپی و امریکی حکام و عوام کا مطالبہ ہے کہ پیوٹن کو جنگ روکنے پر مجبور کیا جائے

اور ایک امریکی پارلیمنٹ رکن کا بیان آیا ہے کہ کوئی انسانیت پر احسان کرے اور پیوٹن کو قتل کردے

تو ہم کہتے ہیں جناب

ایک وقت وہ بھی تھا جب پاکستان تم سے کہتا تھا کہ مودی کو جارحیت سے روکا جائے تب تمہارے پاس ہماری بات سننے کے لیے وقت نہیں تھا

وہ کون سا ظلم ہے جو مودی نے ہندوستانی مسلمانوں پر نہیں ڈھایا تو کیا کبھی تم نے یہ بھی کہا کہ کوئی اٹھے اور مودی کو قتل کردے

جب ہندوستان نے کاشمیر میں آرٹیکل 370 کو تبدیل کیا تو پاکستان نے اس وقت یورپ کو اپروچ کیا اور اپروچ کرکے جنرل اسمبلی میں کاشمیر کے لیے اجلاس بلانے کے لیے تعاون مانگا لیکن یورپ نے سرد مہری دکھائی۔۔آج اس کا بدلہ چکانے کا وقت آگیا

یوکرائن کا بوتل بم اور کشمیر کے سنگباز*

روسی جارحیت کو روکنے کے لیے یوکرائنی حکومت اپنی عوام کو بوتل بم بنانے کی ترکیب سکھا رہی ہے اور اسے روسی فوج کے خلاف استعمال کی ترغیب دے رہی ہے

اب جب یہ بوتل بم روسی ٹینکوں پر پھینکے جائیں گے تو دنیا پھینکنے والوں کو شاباش بھی دے گی انہیں، انہیں فریڈم فائٹر کہا جائے اور آزادی کے ہیرو قرار پائیں گے

مگر دوسری طرف جب کشمیری اور فلسطینی جوان ہندی اور اسرائیلی فوج پر صرف پتھر، روڑہ یا غلیلہ ہی پھینکتے ہیں تو یہی یورپ انہیں دہشت گرد کہتا ہے

یوکرائنی والنٹیئرز اور کشمیری مجاہدین

یوکرائن کے دفاع کے پورے یورپ سے یہودی و عیسائی رضا کار یوکرائن آرہے ہیں یوکرین کے صدر نے ان والنٹیئرز کے لیئے ویزے کی شرط ختم کر دی ہے جو کہ یوکرین کی طرف سے روس کے خلاف جنگ  کرنا چاہتے ہیں۔ اب اس میں دو باتیں ہیں

کیا جو لوگ اس طرح دوسرے ممالک سے جا کر یوکرین میں حملہ آور کے خلاف لڑیں گے وہ ان عربوں اور پاکستانیوں کی طرح جو افغانستان، کشمیر اور فلسطین میں لڑ رہے تھے بین الاقوامی دہشت گرد کہلائیں گے یا یہ فی الحال مجاہدین حریت سمجھے جائیں گے؟

کیا ایسے والنٹیئر لڑاکوں کی سہولت کاری کرنے والے یوروپین ممالک پر ایف اے ٹی ایف کے قوانین لاگو ہوں گے یا نہیں؟

اور ان سہولت کاروں کو ان کے گھروں اور مراکز میں نظر بند کیا جائے گا یا نہیں

اور ان والنٹیئرز کے ممالک کو گرے اور بلیک لسٹ کی دھمکیاں دی جائیں گی یا نہیں ❓

”روس ہمارے تاریخی مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے“

2 مارچ 2022 کو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس ہمیں مٹانا چاہتا ہے، ہمارے تاریخی مقامات پر میزائل گرائے جا رہے ہیں۔

یوکرائنی صدر کو یاد کرنا چاہیے کہ جب تم نے عراق پر حملہ کیا تھا تب بغداد، کوفہ اور بصرہ بھی کسی قوم کے تاریخی مقامات تھے

کیا بابری مسجد، مسجد اقصی اور قرطبہ کی جامع مسجد بھی کسی کا تاریخی مقام ہے یا نہیں جنہیں تمہارے آباؤ و اجداد نے تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے ❓

ترس کا درس دینے والے دانشور

اب سوشل میڈیا پر بہت سے دانش ور رحمدلی کا سبق پڑھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ جی بچے بچے ہی ہوتے ہیں اپنے ہوں یا بیگانے ہوں

گھر گھر ہی ہوتے ہیں اپنے ہوں یا بیگانے ہوں

نقصان نقصان ہی ہوتا ہے اپنا ہو یا بیگانہ ہو

اور اس طرح کے دیگر مہذب اور دلچسپ جملے بول بول کر انسانیت کا درس دے رہے ہیں اور روس کو جارح و ظالم ثابت کررہے ہیں

فی نفسہ یہ جملے اپنی جگہ درست ہیں مگر یہ

کلمۃ حق ارید بھا الباطل کے قبیل سے ہیں

کیونکہ ہر بات کا کوئی مناسب وقت ہوتا ہے ورنہ غیر مناسب وقت میں کہی ہوئی اچھی بات بھی بری بن جاتی ہے

چور کے ساتھ ہمدردی ہو تو اسے چوری کرنے سے پہلے ہی سمجھانا چاہیے ورنہ ہاتھ کٹتے وقت اس کے حق میں بیان بازی اور رحمدلی کی اپیل انسانیت پر ترس نہیں ظلم ہوتا ہے

قاتل کے ساتھ ہمدردی ہو تو اسے قتل و غارت گری کرنے سے پہلے ہی سمجھانا چاہیے ورنہ  گردن اترتے وقت اس کے حق میں بیان بازی اور رحمدلی کی اپیل انسانیت پر ترس نہیں ظلم ہوتا ہے

بدکار کے ساتھ ہمدردی ہو تو اسے بدکاری کرنے سے پہلے ہی سمجھانا چاہیے ورنہ کوڑے لگتے یا رجم ہوتے وقت اس کے حق میں بیان بازی اور رحمدلی کی اپیل انسانیت پر ترس نہیں ظلم ہوتا ہے

وہ تمام چینلز، لکھاری، تبصرہ نگار اور ضرورت سے زیادہ دانشور جو اب یورپ کی ہمدردی میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں ان سب سے گزارش ہے کہ کاش آپ یہ ترس ورس کا درس اس وقت دیتے جب یہ بپھرے ہوئے درندے مسلمانوں پر چڑھے ہوئے تھے

اب ان سے ہمدردی جتانا اور انسانیت کا درس دینا رحم دلی نہیں بلکہ سفاکیت ہے اب ان کی منجی ٹھکنے دیں اور تسلی سے بیٹھیں

حیرت ہے کہ

ساری دنیا یوکرائن پر جارحیت کا ڈھونڈرا پیٹ رہی ہے

کشمیر، فلسطین، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، مشرقی تیمور، انڈونیشیا، بوسنیا، کوسوو اور افغانستان میں جب خون مسلم کو بے دردی سے بہایا جارہا تھا

تب ان سب رحمدلوں کی آنکھیں بند تھیں۔

ہمیں بھی اتنی تکالیف پہنچ رہی تھی جتنی تم اب محسوس کررہے ہو۔

رب العالمین کی ذاتِ مبارکہ بہترین انصاف کرنے والی ذاتِ مبارکہ ھے۔