گستاخانہ خاکوں کی روک تھام کیسے ممکن ہے

اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا (الأحزاب – آیت 57)

بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن ہے اور آپ سے محبت رکھنا ایمان کا جزو لازم ہے آپ کی ذات مبارکہ پر ہونے والے ہر حملہ کو روکنا امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی اہم ترین ذمہ داری ہے خواہ اس کے لیے تن من دھن کی بازی لگانا پڑے

نہ جب تک کٹ مروں رسول اللہ کی حرمت پر

خدا شاہد ہے ،کامل مرا ایماں ہو نہیں سکتا

حرمت رسول کی پہرے داری کے لیے چند اھم امور مد نظر رکھنا ضروری ہیں

01.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا کی ہر چیز سے عزیز سمجھا جائے حتی کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر آپ سے محبت کی جائے

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں

آپ نے فرمایا

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (بخاري ،كِتَابُ الإِيمَانِ،بَابٌ: حُبُّ الرَّسُولِ ﷺ مِنَ الإِيمَانِ15)

کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں…

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

جو ہو اس میں خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

02.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ کا ہر فورم پر دفاع کیا جائے

جب کبھی اور جہاں کہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حرمت و ناموس پر کیچڑ اچھالنے یا حملہ کرنے کی کوشش ہو فی الفور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اسی جگہ آپ کا دفاع کیا جائے

ایک مثال

صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ رضی اللہ عنہ نے (اس وقت تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کے نمائندے بن کر آئے تھے) کہا ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !

اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے تو میں خدا کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے ۔

تو اسی لمحے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا

امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ (بخاري ،كِتَابُ الشُّرُوطِ،بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،2732)

جاؤ جا کر لات کی شرمگاہ چوسو کیا ہم اپنے نبی کو یونہی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے

عروہ نے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمھارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتاجس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا ۔

دوسری مثال

وہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے ۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے‘ تلوارلٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے ۔

فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ لَهُ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… (بخاری كِتَابُ الشُّرُوطِ، بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،2732)

عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی نوک کو ان کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ ۔

03.کفار کے سامنے محبت رسول کا خوب اظہار کیجئے

کفار کے سامنے محبت رسول اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں ذرہ برابر بھی لچک اور کمپرومائز کا رویہ مت اپنایا جائے تاکہ انہیں یہ میسج پہنچے کہ مسلمان قوم کسی بھی چیز پر سمجھوتہ کر سکتی ہے مگر حرمت رسول پر بلکل کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا

اس کی ایک مثال

صلح حدیبیہ کے اسی واقعہ میں موجود ہے جب قریش کے نمائندے عروہ رضی اللہ عنہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔

اس نے دیکھا کہ اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا ۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہوجائے گی ( یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ) جب آپ گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھاجاتی ۔ آپ کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔

عروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ کی یوں والہانہ محبت دیکھی تو بہت مرعوب ہو کر واپس پلٹا اور اپنی قوم کے حوصلے پست کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایسی محبت کہیں نہیں دیکھی

أَيْ قَوْمِ وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَىوَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا (بخاری كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوط،2732)

اے میری قوم کے لوگو ! قسم اللہ کی ‘ میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیاہوں‘ قیصروکسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھ اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں ۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہوجائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔

دوسری مثال

خبیب رضی اللہ عنہ کو جب سولی چڑھاتے وقت ابو سفیان نے کہا کہ اگر آج آپ کی جگہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سولی دی جائے اور آپ بچ جائیں تو آپ کو کیسا لگے گا تو انہوں نے فوراً اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میری جان کے بدلے ان کے پاؤں میں کانٹا چھبے اور انہیں تکلیف ہو

الرحیق المختوم 397

04.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عادات وسنن سے محبت کی جائے

جس سے کفار کو یہ میسج جائے گا کہ جانثاران محمد حرمت رسول کی پامالی کبھی برداشت نہیں کر سکتے

اگر ہم خود آپ کی سنتوں کو تضحیک کا نشانہ بنائیں گے تو غیروں سے شکوہ کس بات کا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جن سنتوں سے کفار کو چڑ یا خوف ہو وہ بڑھ چڑھ کر اپنائی جائیں

مثال کے طور پر

داڑھی سے کفار چڑتے ہیں

برقعہ اور پردہ سے سیخ پا ہوتے ہیں

زنا سے خوش اور شادیوں سے غصہ میں آتے ہیں

لہذا

داڑھی رکھی جائے، اپنی عورتوں کو پردہ کروایا جائے، ایک سے زائد شادیوں کا کلچر اپنایا جائے

جیسا کہ مدینہ کے یہود آمین بالجہر اور سلام سے چڑتے تھے تو آپ نے ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی

جب امت سنت رسول ﷺ کو اپنائے گی تب ہی امت رسول اللہ ﷺ کی محبت کا حق ادا کرے گی ۔ یہی امت کی قوت ہے اور اسی سے دشمن کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے

لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت کو خود ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا (داڑھی والا) چہرہ پسند نہیں ہے تو پھر کفار سے نالاں ہونے کی کیا ضرورت ہے

05.سیرت النبی کا پیغام دنیا میں ہر طرح کے وسائل سے پھیلایا جائے

اہانت کرنے والوں کا مقصد ذاتِ نبوی سے لوگوں کو بیزار کرنا ہے تاکہ اسلام کی بڑھتی مقبولیت کے آگے بند باندھا جاسکے، لیکن آپ کی سیرت اورپیغام کی اشاعت ان کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملادے گی۔

قلم وقرطاس کے ذریعے سرور کونین کی سیرت کے سنہرے نقوش دور دور تک پہنچائے جائیں مثلاً بینرز ، سٹیکرز، پوسٹر، مضامین، خطوط، ای میل، میڈیا کو فون وغیرہ، غرض ہر ذریعہ کو استعمال میں لایا جائے۔ اس ابلاغی مہم کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم کفر کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور وہ جارحانہ انداز کی بجائے دفاعی پوزیشن میں چلے جائیں گے

حافظ قمر حسن حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں

"اس سلسلے میں اہم ترین اقدام یہ ہے کہ تراجم کے ذریعے سے فرانسیسی زبان میں زیادہ سے زیادہ اسلامی لٹریچر فراہم کیا جائے۔ حکومتوں اور اداروں کی سطح پر مترجمین کی ٹیمیں تیار کی جائیں جو بالخصوص ان مغربی زبانوں میں حدیث و سیرت کی کتابوں کا ترجمہ کریں جن میں اسلامی لٹریچر نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان میں فرانسیسی،جرمن،اطالوی،روسی اور ہسپانوی زبانیں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان زبانوں میں کم سے کم قرآن مجید، صحاح ستہ،تفسیر ابن کثیر اور سیرت ابن ہشام وغیرہ کا ترجمہ کیا جانا ضروری ہے۔

تراجم کا یہ سلسلہ اہل مغرب کے لیے پیغمبر اسلام کے مقام و مرتبہ سے آگاہی کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو گا”۔

06.گستاخانہ خاکوں کے مد مقابل، سیرت النبی کے موضوع پر انٹرنیشنل سطح پر تحریری و تقریری مقابلہ جات رکھے جائیں

ان مقابلہ جات میں غیر مسلم سکالرز کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے اول نمبروں پر آنے والے پوزیشن ہولڈرز کو قیمتی ورلڈ کپ سے نوازا جائے اور اس کے لیے نوبل پرائز کی بجائے محمدی یا اسلامک پرائز کی اصطلاح متعارف کروائی جائے اور یہ مقابلے اتنے زور و شور اور دھوم دھام سے ہوں کہ گستاخانہ خاکوں کی آواز ان کے نیچے ہی دب کر رہ جائے

اور پھر پہلے نمبروں پر آنے والی کتب کا خوب چرچا کیا جائے

جیسا کہ( الرحیق المختوم )اشاعتِ سیرت النبی کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے

07.علماء کرام اپنے خطبات، مواعظ اور دروس وغیرہ میں حرمت رسول سے متعلق آگاہی مہم جاری کریں

علماء ورثۃ الأنبياء ہیں اور وارث کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنےمورث کا دفاع کرے علماء کرام ہی اس وراثت کے داعی، امین اور محافظ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین میں فقاہت کی بصیرت سے نوازکر اُمت کے منتخب شدہ افراد ہونے کی سند ِتصدیق عطا کی ہے، انہیں پر بطورِ خاص اُمت ِمسلمہ کے نمائندے اور وراثت ِ رسول کے امین ہونے کے ناطے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایسے المناک مراحل پر ملت ِاسلامیہ میں احساس وشعور بیدار کرنے میں کوئی کمی نہ روا رکھیں تاکہ اُمت من حیث المجموع اپنے فرائض کو بجا لانے پر کمربستہ ہوجائے

جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنے دور کے عوام الناس کو اپنی مایہ ناز کتاب( الصارم المسلول علی شاتم الرسول )کے ذریعے اس مہم سے آگاہ کیا تھا

ایسے مواقع پر خطابات و مواعظ سے کچھ نہ بھی بن پڑا تو دین سے دور ہوتی نسل تک اپ کا پیغام ہی پہنچ جائے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ اللہ پاک ان مواعظ ہی کو خیر کا دروازہ بنا دیں

08.سوشل میڈیا پر مہم

سوشل میڈیا پر حرمت رسول اور دفاع ناموس رسالت کی زبردست مہم جاری کی جائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر تحاریر، تقاریر، پوسٹس اور اپنے جذبات کا اظہار اس قدر شدت سے کیا جائے کہ گستاخانہ خاکے نیچے ہی دب جائیں

سوشل میڈیا ہم میں سے اکثریت کی رسائی میں ہے تو کیا ہم ایک طاقت بن کر ان گستاخانہ خاکوں کے چھپنے سے پہلے کچھ ایسا نہیں کر سکتے کہ جس سے یہ شیطانی حرکت روکی جا سکے؟ ۔

اگر قیامت کے روز سوال ہوا کہ ’’جب سوشل میڈیا پر اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کھُلے عام انتہائی غلیظ باتیں ہو رہی تھیں تو تم نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا‘‘؟۔ تب جواب کیا یہ ہوگا کہ ’’اُس وقت فیس بک پر سو لفظی کہانیاں لکھی جا رہی تھیں ، اشعار پوسٹ کیے جا رہے تھے سیاست پر بات ہو رہی تھی ، الیکشن زیرِ بحث تھے یا یہ کہ اس معاملے میں صرف حکومت ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہیں کیا‘‘۔

جہاد بالقلم کا حصہ بنیں، اس شیطانی مہم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ یہ ہی وقت ہے کہ جب سوشل میڈیا کو صرف تفریح اور وقت گزاری کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اپنی آخرت سنواری کے لیے استعمال کیا جائے کیونکہ ہم تو آج ہیں کل شاید نہ بھی رہیں لیکن کسے معلوم کہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کو رکوانے کی ہماری یہ چھوٹی سی کوشش ، ہمارے یہ چند الفاظ ہی ہمارے لیے توشہ آخرت بن جائیں

09.اپنے جماعتی امراء، قائدین اور محبوب لیڈرز سے بڑھ کر رسول اللہ کا درد محسوس کیا جائے

حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا درد ایسے محسوس کیا جائے جیسے اپنی جماعت کے امیر کا درد محسوس کیا جاتا ہے

اگر ہمارے جماعتی اکابرین پر کوئی حرف گیری کرے تو ہم مناظرے مباہلے اور دست و پا ہونے تک کے تمام مراحل اتفاقی مشاورت کے ساتھ خوش اسلوبی سے طے کر لیتے ہیں۔عزیزان گرامی یہ تو ایمان کا حصہ ہے۔ اگر یہ امر اس سے اہم نہ ہوا تو ہم کل رب کو کیا جواب دیں گے جو حجرے سے باہر پکارنے کی بھی ممانعت نازل کرنے والا ہے

جس طرح ن لیگ والے نواز شریف کے خلاف

پی ٹی آئی والے عمران خان کے خلاف

جے یو آئی والے مولانا فضل الرحمن کے خلاف

اور ہر جماعت کے کارکنان اپنے اپنے امراء کے خلاف

کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور کبھی سن لیں تو فوراً سیخ پا ہو جاتے ہیں

لیکن

آخر کیا وجہ ہے کہ اسی طرح کے جذبات ساری کائنات سے زیادہ عزیز ذات گرامی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق نہیں ہوتے؟

10.امت مسلمہ متحد و یک جان ہو

گستاخانہ خاکے روکنے اور ان کے خلاف مؤثر آواز پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ باہمی اتفاق و اتحاد پیدا کرے جب تک ہم اندرونی اختلافات و انتشارات کا شکار رہیں گے تب تک ہم کفار کو ان حرکتوں سے باز نہیں رکھ سکتے

جب عبداللہ بن ابی رئیس المنافقين نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں

( ليخرجن الأعز منها الأذل )کہہ کر گستاخی کی اور انصار و مہاجرین کو باہم دست و گریباں کرنے کی کوشش کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو متحد رکھنے کے لیے کہا اس( باہم لڑائی )کو چھوڑ دو یہ بدبودار ہے

پھر آپ نے خلاف معمول وقت میں کوچ کا حکم دیا، صبح سے شام، شام سے صبح اور صبح سے دوپہر تک مسلسل چلتے رہے، جب لوگوں کو خوب تکلیف ہونے لگی تو آپ نے پڑاؤ ڈالا، لوگ زمین پر جسم رکھتے ہی سو گئے، آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر انہیں سکون سے بیٹھ کر گپ لڑانے کا موقع مل گیا تو باہمی جھگڑے کی آگ پھر سے بھڑک اٹھے گی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گستاخ رسول عبداللہ بن ابی اپنے ناپاک منصوبے میں خوب ناکام رہا

اتحاد کے بغیر اسلام کا رعب غیرمسلموں پر طاری نہیں ہوسکتا۔ جس طرح غیر مسلم، پورا یورپ اور مغربی میڈیا یک جہتی سے گستاخوں کی حمایت پر کمربستہ ہیں اس مسئلہ کا مداوا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں میں باہمی مؤاخات کو پروان نہ چڑھایا جائے۔

اسی سلسلے میں او آئی سی، اسلامی سربراہی کانفرنس کے فوری ہنگامی اجلاس منعقد کیے جائیں اور متحد ہو کر گستاخوں پر پریشر ڈالا جائے

11.گستاخوں کی سرکوبی کے لیے حکومت وقت سے مطالبہ کیا جائے

ملک بھر میں پرزور مگر پرامن تحریک چلا کر اپنی حکومت کو اپنے درد اور جذبات سے آگاہ کریں، علماء و مشائخ اور سرکردہ لوگوں کے وفود بنا کر وزیراعظم سے ملاقات کی جائے اور انہیں اس معاملے میں ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے

جیسا کہ صحابی رسول سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جب عبداللہ بن ابی کی زبان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی گستاخی کے جملے سنے تو فوراً اپنے چچا کو پوری بات کہہ سنائی اور ان کے چچا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ عباد بن بشر سے کہیے کہ عبداللہ بن ابی کو قتل کردیں پھر اللہ تعالٰی نے زید کی تصدیق میں قرآن کی آیات نازل کیں… (بخاری)

تاریخ اسلام میں ایسے دسیوں واقعات موجود ہیں کہ جب لوگوں نے آ آ کر حاکم وقت کو مختلف گستاخوں سے متعلق آگاہ کیا اور پھر ان گستاخوں کو لگام ڈالی گئی

12.مسلم حکمران دفاع حرمت رسول کو اپنے بنیادی فرائض اور اولین ترجیحات میں شامل کریں

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں جب آپ کی اہانت کی جاتی تو آپ اپنے صحابہؓ سے بذات خود یہ مطالبہ کیا کرتے کہ ’’کون ہے جو میرے اس دشمن کا جواب دے…؟

یہ مطالبہ ایک بار آپﷺنے کعب بن اشرف کے بارے میں کیا کہ کون ہے جو کعب کو قتل کرے کیونکہ وہ اللہ اور اسکے رسول کو تکلیف پہنچاتا ہے

مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّہُ قَدْ آذٰی اﷲَ وَرَسُولَہُ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بن مسلمة فقال: یا رسولﷲ أتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہٗ۔ قَالَ: نَعَمْ (صحیح مسلم:۴۶۴۰)

آپ نے فرمایا کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا گا کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے اللہ کے رسول کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کروں

تو آپ نے فرمایا(ہاں)

ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جنگ خیبر میں ایک دشمن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی

تو آپ نے فرمایا کہ میرے دشمن سے کون نمٹے گا؟

اس پر زبیر آگے بڑھے، اسے للکارا اور پھر اسے قتل کر دیا۔

(مصنف عبد الرزاق، ۹۷۰۴)

الغرض دورِ نبویؐ میں نبی اکرمﷺ خود صحابہ کرام کو متوجہ کیا کرتے اور صحابہؓ نے آپ کی پکار کے نتیجے میں ان گستاخانِ رسالت کو کیفر کردار تک پہنچایا

آج بھی عمران خان، شاہ سلمان اور طیب اردگان کی طرف اعلان ہونا چاہئے کہ( کون ہے جو ان گستاخانہ کارٹونز کے ذمہ داران) کو قتل کرے کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے

13.مسلم نوجوان گستاخوں کی سرکوبی کے لیے اپنے آپ کو مسلم حکمران کے سامنے پیش کریں

جیسا کہ عبداللہ بن ابی کے بیٹے سیدنا عبداللہ نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اپنے باپ کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ اس نے آپ کی گستاخی کی ہے

رحیق 451

اسی طرح زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا

فَقَالَ: مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے دشمن کے مقابلے میں کون کافی ہوگا

فَقَالَ الزُّبَیرُ: أَنَا (مصنف عبد الرزاق : رقم۹۴۷۷)

زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا (میں)

اسی طرح خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ یَّکْفِینِي عَدُوِّي؟

فَخَرَجَ إِلَیْہَا خالد بن الولید فَقَتَلَہا (ایضاً: رقم۹۷۰۵)

14.جب بھی کفار کی طرف سے توہین رسالت اور گستاخانہ خاکوں کا اعلان ہو تو مصلحت اور بزدلی کی چادر اوڑھنے کی بجائے اعلان کا جواب بھرپور اعلان سے دیا جائے

ایک موقع پر آپ نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے آپ کی ہجو کرنے والوں کو جواب دو

یا حَسَّان أجِبْ عن رَّسُوْل اﷲ،اللّٰہم أیِّدْہ بروح القدس (صحیح مسلم:۴۵۳)

حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دے (اور پھر دعا کی) اے اللہ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرما

اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جب( یہ گمان کرتے ہوئے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم قتل کر دیے گئے ہیں)کہا تھا کہ محمد سے جان چھوٹ گئی تو فوراً عمر رضی اللہ عنہ نے کرارا جواب دے کر انہیں خاموش کروایا تھا

رحیق 378

آج بھی مسلم حکمرانوں اور عہدیداروں کی طرف سے بھرپور جوابی بیانات ریکارڈ ہونے چاہئیں

15.جہاد فی سبیل اللہ، گستاخوں کو نکیل ڈالنے کے لئے بہترین اور بہت زیادہ کارگر نسخہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جس سے آئمۃ الکفر کی گردنوں سے سریا نکلتا اور ان کا پتہ پانی ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَاِنۡ نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَهۡدِهِمۡ وَطَعَنُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَٮِٕمَّةَ الۡـكُفۡرِ‌ۙ اِنَّهُمۡ لَاۤ اَيۡمَانَ لَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَنۡتَهُوۡنَ (التوبة – آیت 12)

اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ بیشک یہ لوگ، ان کی کوئی قسمیں نہیں ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔

اور فرمایا

اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ وَهَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَهُمۡ بَدَءُوۡكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ‌ ؕ اَتَخۡشَوۡنَهُمۡ‌ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡهُ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ (التوبة – آیت)

کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔

معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہ نے جہاد کے میدان میں گستاخ رسول ابوجہل کو قتل کیا تھا

گستاخوں کی سرکوبی کے لیے مجاہدین کے دستے تشکیل دیے جائیں

16.گستاخوں کی نازک رگ اور کمزورپوائنٹس کو استعمال کیا جائے

پاکستان حکومت اعلان کرے کہ پاکستان سے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی بند کر دی جائے گی

افغانستان میں حرمت رسول آپریشن کے نام پر امریکیوں اور یورپین فوجیوں کے خلاف کاروائیاں تیز تر کردی جائیں

پھر دیکھنا ان شاء اللہ أن لوگوں کو جلد نانی یاد آجائے گی اور کبھی بھی ایسی حرکتیں کرنے کا نہیں سوچیں گے

17.مصنوعات اور معاشی بائیکاٹ کیا جائے

یورپی ممالک بالخصوص فرانس کی مصنوعات کاکلی بائیکاٹ کرنا۔ ایسی چیزوں کی فہرستیں تلاشِ بسیار کے بعد شائع کی جائیں اور اقتصادی میدان میں بھی اپنا شدید احتجاج سامنے لایا جائے

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو نضیر کے درخت کاٹ کر انہیں معاشی طور پر ذلیل و خوار کیا تھا

مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّيۡنَةٍ اَوۡ تَرَكۡتُمُوۡهَا قَآٮِٕمَةً عَلٰٓى اُصُوۡلِهَا فَبِاِذۡنِ اللّٰهِ وَلِيُخۡزِىَ الۡفٰسِقِيۡنَ (الحشر – آیت 5)

جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا، یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔

رسول اکرمؐ نے ہجرت کے بعد قریش کے تجارتی قافلہ کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا

اسی طرح آپ نے خیبر اور طائف کے قلعوں کا محاصرہ کیا تھا

انصار کے سردار حضرت سعد بن معاذ نے مکہ والوں سے کہا تھا کہ اگر تم نے مجھ سے تعرض کیا تو میرا قبیلہ تمہارے تجارتی قافلوں کا شام کی طرف آنا جانا بند کر دے گا۔

بنو حنیفہ قبیلے کے سردار ثمامہ بن اثالؓ نے اپنے علاقہ کے لوگوں کو مکہ مکرمہ پر گندم فروخت کرنے سے روک دیا تو قریش کے بعض سرداروں نے آنحضرتؐ کو ’’صلہ رحمی‘‘ کا واسطہ دے کر یہ پابندیاں ختم کرانے کے لیے کہا چنانچہ حضورؐ کی ہدایت پر یہ پابندیاں ختم کر دی گئیں۔

حضرت ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں نے قریش کا تجارتی راستہ غیر محفوظ کر دیا، جس سے مجبور ہو کر قریش نے معاہدہ حدیبیہ واپس لے کر یہ ’’ناکہ‘‘ ختم کروایا۔

’’معاشی جنگ‘‘ کے یہ مختلف پہلو بھی جہاد کا حصہ ہیں اور سنت نبویؐ ہیں، اس لیے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اسی جذبہ کے ساتھ فرانس بلکہ پورے یورپ کا معاشی بائیکاٹ کریں

18.پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں موجود عیسائی کمیونٹی کو استعمال کیا جائے

اس کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کے ذریعے یورپی و امریکی حکمرانوں تک پیغام ارسال کیے جائیں کہ ہم لوگ جب مسلم ممالک میں بلا خوف و خطر رہ رہے ہیں تو تمہیں بھی مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایسی حرکات سے باز رہنا چاہئے

دوسری صورت یہ کہ مسلم حکمران ان لوگوں کو بطور ہتھیار استعمال کریں

جیسا کہ قسطنطنیہ کی دیوار کے قریب مدفون صحابی رسول سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر اور نعش کی بے حرمتی کے متعلق جب عیسائیوں نے پروگرام بنایا تو مسلمانوں کے امیر یزید رحمہ اللہ نے عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ( اگر کوئی گستاخی تمہاری طرف سے روا رکھی گئی تویادرکھو اسلام کی وسیع الحدود حکومت میں کہیں ناقوس نہ بچ سکے گا)

19.عیسائی ملکوں میں موجود أحبار و رھبان، قسیسین و عوام کو استعمال کیا جائے

سب عیسائی متشدد اور اسلام سے سخت متنفر نہیں ہیں، عیسائیوں میں اچھی اور سلجھی طبیعت کے بہت سے احبار و رھبان اور عوام پائے جاتے ہیں

جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے

وَلَـتَجِدَنَّ اَقۡرَبَهُمۡ مَّوَدَّةً لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰى‌ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّ مِنۡهُمۡ قِسِّيۡسِيۡنَ وَرُهۡبَانًا وَّاَنَّهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ‏ (المائدة – آیت 82)

اور یقینا تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، ان میں سے دوستی میں سب سے قریب ان کو پائے گا جنھوں نے کہا بیشک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ بیشک ان میں علماء اور راہب ہیں اور اس لیے کہ بیشک وہ تکبر نہیں کرتے۔

لہذا اس طرح کے عیسائی عوام و علماء کی خدمات لیتے ہوئے ان کے ذریعے ایسے عناصر کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ والوں کے خلاف مکہ کے اندر سے ہی مطعم بن عدی سے تعاون لیا تھا

اسی طرح آپ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی سے تعاون لیا تھا