گناہوں کو مٹانے والے اعمال

اہم عناصرِ خطبہ :

01. گناہوں کو مٹانے والے اعمال کا تذکرہ اور ان کے فضائل

02. ایمان وعمل ِ صالح ، ایمان وتقوی ، توبہ واستغفار ، نماز ، روزہ ، صدقہ وخیرات

03. وضوء ، مساجد کی طرف جانا ، اذکار وادعیہ ، صبر کرنا ، درود شریف پڑھنا ۔۔۔۔ وغیرہ

پہلا خطبہ

محترم حضرات !

ہم میں سے ہر شخص گناہگار ہے ۔ اور گناہوں کو مٹانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اور ان اعمال ِ صالحہ کو سر انجام دے کہ جن کے ذریعے اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس کے گناہوں کو بخش دے ۔ اور انھیں نیکیوں میں تبدیل کردے ۔ تو آئیے آج کے خطبۂ جمعہ میں ان اعمال کا تذکرہ کرتے ہیں جو گناہوں کی بخشش کا موجب بنتے ہیں ۔

01. ایمان وعمل صالح

گناہوں کی بخشش کا سب سے بڑا موجب ہے : سچا ایمان اور اس کے ساتھ عمل صالح ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ العنکبوت29 :7

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے تو ہم ضرور بالضرور ان کے گناہوں کو معاف کردیں گے اور انھیں ان کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ ﴾ محمد47 :2

’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے اور اس چیز پر ایمان لائے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل کی گئی اور وہی ان کے رب کی جانب سے بر حق ہے ، تو اللہ تعالی نے ان کے گناہ مٹا دئیے اور ان کی حالت کو

سنوار دیا۔‘‘

یہ دونوں آیاتِ کریمہ اس بات کی دلیل ہیں کہ مومن سچا ایمان رکھتا ہو اوراس کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی کرتارہتا ہو تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔

02. ایمان وتقوی

گناہوں کو مٹانے کا ایک اور سبب ہے : ایمان کے ساتھ تقوی اختیار کرنا ۔ یعنی اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے پرہیز کرنا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَلَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ﴾ المائدۃ5 :65

’’اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ بھی مٹا دیتے اور انھیں نعمتوں والی جنت میں داخل کردیتے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ الأنفال8 :29

’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تو وہ تمھیں حق وباطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے نوازے گا اور تمھارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمھیں معاف کردے گا ۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ٭ لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَ ٭ لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ الزمر39 :33۔35

’’اور جو سچی بات لے کر آیا اور اس کی تصدیق کی ، ایسے ہی لوگ متقی ہیں ۔ ان کے لئے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی وہ خواہش کریں گے ۔ نیکی کرنے والوں کا یہی بدلہ ہے ۔ تاکہ اللہ تعالی ان کے سب سے بُرے کاموں کو معاف کردے اور انھوں نے جو سب سے اچھے کام کئے تھے ان کا انھیں اجر عطا کرے ۔ ‘‘یہ تینوں آیات ِکریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بندہ اگر تقوی اختیار کرے ، اللہ تعالی سے ڈرتا رہے اور اپنے دامن کو گناہوں کی غلاظت سے پاک رکھنے کی کوشش کرتا رہے ، خاص طور پر کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہے تو اللہ تعالی اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کردیتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا ﴾ النساء4 :31

’’ اگر تم لوگ ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمھیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمھارے گناہ مٹا دیں گے اور تمھیں عزت وتکریم والا مقام عطا کریں گے۔ ‘‘

03. توبۂ صادقہ اور استغفار

گناہوں کی بخشش کا ایک بہت بڑا سبب سچی توبہ کرنا اور اللہ تعالی سے صدق دل سے معافی مانگنا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ﴾ التحریم66 :8

’’ اے ایمان والو ! تم اللہ کے سامنے سچی اور خالص توبہ کرو ، قریب ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ مٹا دے اور تمھیں ان جنتوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔‘‘

اور توبہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرے ، معافی مانگے ، آئندہ زندگی میں گناہوں کے قریب نہ جانے کا عزم کرے اور مختلف نیک اعمال کے ساتھ اپنی اصلاح کرے ۔ خصوصا دین کے فرائض پر پابندی کرے اور فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل بھی کثرت سے ادا کر ے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ الفرقان25 :70

’’مگر جو شخص توبہ کرے ، ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا ، بے حد مہربان ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اِِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ النمل27 :11

’’ سوائے اس شخص کے جس نے ( گناہ کرکے اپنی جان پر ) ظلم کیا ، پھر برائی کے بعد اس نے ( اسے ) نیکی سے بدل دیا تو میں یقینا بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں ۔ ‘‘

اور ایک حدیث قدسی میں ارشاد ہے :(( یَا ابْنَ آدَمَ ! إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِی وَرَجَوْتَنِی غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ فِیْکَ وَلَا أُبَالِی))

’’ اے ابن آدم ! اگر تو صرف مجھے پکارتا رہے اور تمام امیدیں مجھ سے وابستہ رکھے تو خواہ تم سے جو بھی گناہ

سرزد ہوا ہو میں تمھیں معاف کرتا رہوں گا اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا ۔‘‘

(( یَا ابْنَ آدَمَ ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَائِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِی غَفَرْتُ لَکَ وَلاَ أُبَالِی))

’’ اور اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ، پھر تم مجھ سے معافی طلب کر لو تو میں تمھیں معاف کردونگا اورمیں کوئی پرواہ نہیں کرونگا ۔‘‘

(( یَا ابْنَ آدَمَ ! إِنَّکَ لَوْ أَتَیْتَنِی بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِی لَا تُشْرِکُ بِی شَیْئًا لَأَتَیْتُکَ بِقُرَابِہَا مَغْفِرَۃً)) جامع الترمذی :3540 ۔ وصححہ الألبانی

’’ اور اگر تو میرے پاس زمین کے برابر گناہ لیکر آئے ، پھر تمھاری مجھ سے ملاقات اس حال میں ہو کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے تھے تو میں زمین کے برابر تجھے مغفرت سے نوازوں گا ۔ ‘‘

04. مکمل وضو کرنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوئَ ، خَرَجَتْ خَطَابَاہُ مِنْ جَسَدِہٖ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِہ)) صحیح مسلم :245

’’ جو شخص اچھی طرح وضو کرے ، تو اس کے گناہ اس کے جسم سے نکل جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ۔ ‘‘

05. مساجد کی طرف چل کر آنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

((مَنْ تَطَہَّرَ فِی بَیْتِہٖ ثُمَّ مَشٰی إِلٰی بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ ، لِیَقْضِیَ فَرِیْضَۃً مِّنْ فَرَائِضِ اللّٰہِ، کَانَتْ خُطْوَتَاہُ إِحْدَاہُمَا تَحُطُّ خَطِیْئَۃً وَالْأُخْرٰی تَرْفَعُ دَرَجَۃً)) صحیح مسلم : 666

’’ جوشخص اپنے گھر میں وضو کرے ، پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کی طرف روانہ ہو جائے اور اس کا مقصد صرف اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ کو ادا کرنا ہو تو اس کے دو قدموں میں سے ایک قدم ایک گناہ کومٹاتا ہے اور دوسرا ایک درجہ بلند کرتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : (( أَ لَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی مَا یَمْحُو اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا ، وَیَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ ؟))

’’ کیا میں تمھیں وہ عمل نہ بتاؤں جس کے ساتھ اللہ تعالی گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے ؟ ‘‘

انھوں نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول !

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِسْبَاغُ الْوُضُوئِ عَلَی الْمَکَارِہِ )) ’’ مشقتوں کے وقت مکمل وضو کرنا۔‘‘

((وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلَی الْمَسَاجِدِ )) ’’ مساجد کی طرف زیادہ سے زیادہ قدم اٹھانا۔ ‘‘

(( وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ )) ’’ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ ، فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ ))

’’ یہی جہاد ہے ۔ یہی جہاد ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 251

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :((وَمَا مِنْ رَجُلٍ یَّتَطَہَّرُ فَیُحْسِنُ الطَّہُوْرَ ثُمَّ یَعْمِدُ إِلَی مَسْجِدٍ مِّنْ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدِ إِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَّخْطُوہَا حَسَنَۃً وَیَرْفَعُہُ بِہَا دَرَجَۃً ،وَیَحُطُّ عَنْہُ بِہَا سَیِّئَۃً ))

’’ اور کوئی بھی شخص جو اچھی طرح سے وضو کرنے کے بعد ان مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے ہر ہر قدم پر اللہ تعالی اس کیلئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ، اس کے بدلے میں ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کی ایک برائی کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :654

06. پانچ نمازیں

گناہوں کو مٹانے کا ایک اور بڑا سبب دن اوررات میں پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرنا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ ، وَالْجُمُعَۃُ إِلیَ الْجُمُعَۃِ ، وَرَمَضَانُ إِلٰی رَمَضَانَ ، مُکَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَہُنَّ ، إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ)) صحیح مسلم : 233

’’ پانچ نمازیں ، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک ماہِ رمضان دوسرے ماہِ رمضان تک درمیان والے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں ، بشرطیکہ وہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے ۔ ‘‘

اورحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَا مِنِ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُہُ صَلَاۃٌ مَّکْتُوْبَۃٌ ، فَیُحْسِنُ وُضُوْئَ ہَا وَخُشُوْعَہَا وَرُکُوْعَہَا ، إِلَّا کَانَتْ کَفَّارَۃً لِمَا قَبْلَہَا مِنَ الذُّنُوْبِ ، مَا لَمْ یَأْتِ کَبِیْرَۃً ، وَذَلِکَ الدَّہْرَ کُلَّہُ))

’’ جب کسی فرض نماز کا وقت شروع ہوجائے اور مسلمان آدمی اس کیلئے اچھی طرح سے وضو کرے ، پھراس میں انتہائی خشوع وخضوع اختیار کرے اور اس میں رکوع مکمل اطمینان سے کرے تو وہ نماز اس کیلئے پہلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے ، بشرطیکہ وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ اور یہ فضیلت قیامت تک کیلئے ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 228

اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کر لیا ہے جس پر حد واجب ہوتی ہے ، لہٰذا آپ مجھ پر وہ حد نافذ کریں ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی کہ کونسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور کیسے کیا ہے ۔ اس کے بعد جب نماز کا وقت ہو ا تو اس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے دوبارہ وہی بات کی ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَلَیْسَ قَدْ صَلَّیْتَ مَعَنَا ؟ )) ’’ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی پڑھی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ ذَنْبَکَ)) ’’ جاؤ اللہ تعالی نے تمھارا گناہ معاف کردیا ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :6823 ، صحیح مسلم :2765

07. اذان کے بعد دعا پڑھنا

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’جو شخص جب مؤذن کو سنے اوریہ دعا پڑھے : ((أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَأَنَّ مُحُمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِیْنًا ))

تو اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔ ‘‘ صحیح مسلم :386

08. فرشتوں کی آمین کے ساتھ آمین کہنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا ، فَإِنَّہٗ مَن وَّافَقَ تَأْمِیْنُہٗ تَأْمِیْنَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ))

’’ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہا کرو۔ کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافقت کر جائے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔ ‘‘ صحیح البخاری :780،صحیح مسلم :410

09. امام کے پیچھے قومہ میں ( اللہم ربنا لک الحمد ) کہنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فَقُولُوا : اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ، فَإِنَّہٗ مَن وَّافَقَ قَولُہٗ قَولَ الْمَلَائِکَۃِ ، غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ)) صحیح مسلم :409

’’ جب امام کہے : سمع اللہ لمن حمدہ تو تم کہو : اللہم ربنا لک الحمد ، کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے سے موافقت کر جاتا ہے تو اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ۔ ‘‘

10. دن میں سو مرتبہ ( سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ) پڑھنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَنْ قَالَ سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، فِیْ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ ،حُطَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ)) صحیح البخاری :6405 ،صحیح مسلم :2691

’’ جو شخص دن میں ایک سو مرتبہ ( سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ) پڑھے تواس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ ‘‘

11. دن میں سو مرتبہ(( لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ )) پڑھنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ جو شخص دن میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھے : (( لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ))

تو یہ اس کیلئے دس گردنوں کو آزاد کرنے کے برابر ہے ، اس کیلئے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے سو گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔ اور یہ دعا شام ہونے تک اس کیلئے شیطان کے سامنے قلعہ بنی رہتی ہے ۔‘‘ صحیح البخاری :3293 ،صحیح مسلم :2691

12. تسبیحات پڑھنا

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

((مَا عَلَی الْأَرْضِ رَجُلٌ یَقُوْلُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ ، إِلَّا کُفِّرَتْ عَنْہُ ذُنُوبُہُ وَلَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ))

’’ خطۂ زمین پر جو شخص بھی یہ کلمات کہے : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ تواس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ ‘‘ جامع الترمذی :3460۔ وحسنہ الألبانی

13. رمضان المبارک کے روزے رکھنا

گناہوں کی بخشش کا موجب بننے والے اعمال میں ایک بڑا عمل رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے جو کہ دین اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ)) صحیح البخاری :38،صحیح مسلم :760

’’جس نے حالت ایمان میں اللہ سے حصول ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔ ‘‘

14. لیلۃ القدر کا قیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ )

’’ جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ِ اجر وثواب کی خاطر لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ‘‘ صحیح البخاری :2014 ،صحیح مسلم :760

15. یوم عرفہ کا روزہ رکھنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

((صَوْمُ یَوْمِ عَرَفَۃَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الّتِیْ قَبْلَہُ وَالَّتِیْ بَعْدَہُ))

’’ یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے اﷲسے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال اور آنے والے ایک سال کے گناہوں کے لئے کفارہ بن جائے گا۔ ‘‘ صحیح مسلم: 1162

16.یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا

حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ ) صحیح مسلم :1162

یعنی ’’پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔‘‘

17. حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنا

اسی طرح گناہوں کی بخشش کا موجب بننے والے امور میں سے ایک حج بیت اللہ کا فریضہ سر انجام دینا

ہے۔ اور یہ بھی دین اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ))

’’جس نے حج کیا اور اس دوران بے ہودگی اور اللہ کی نافرمانی سے بچا رہا تو وہ اس طرح واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1819، صحیح مسلم :1350

18. عمرہ کرنا

اسی طرح گناہوں کو مٹانے والے اعمال میں سے ایک عمل ہے : عمرہ کرنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَہُمَا)) صحیح البخاری :1773، صحیح مسلم :1349

’’ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ، دونوں کے مابین ہونے والے گناہوں کیلئے کفارہ ہے ۔ ‘‘

19. خفیہ طور پر صدقہ وخیرات کرنا

اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِن تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَائَ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنکُمْ مِّن سَیِّئَاتِکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ﴾ البقرۃ2 271

’’ اگر تم خیرات ظاہراً دو تووہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل ِ حاجت کو تو وہ خوب تر ہے۔ اور (اس طرح کا دینا) تمھارے گناہوں کو بھی دور کر دے گا۔ اور اللہ کو تمھارے سب کاموں کی خبر ہے ۔ ‘‘

20. آزمائشوں ، تکلیفوں اور مصیبتوں میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا

پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ ، وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ ، وَلَا أَذیً وَلَا غَمٍّ ، حَتَّی الشَّوْکَۃُ الَّتِیْ یُشَاکُہَا ، إِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ)) صحیح البخاری:5641۔5642، صحیح مسلم :2573

’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتا ہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘

21. برائی کے بعد نیکی کرنا

اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰت﴾ ہود11 :114

’’بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں ۔ ‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ابو ذر رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا :

((إِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ،وَأَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُہَا،وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ)) جامع الترمذی :1987 ۔ وحسنہ الألبانی

’’ تم جہاں کہیں رہو اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا ۔ اور برائی کے بعد نیکی کرنا جو اسے مٹا دے گی ۔ اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ گھول میل رکھنا ۔ ‘‘

22.گناہ کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَا مِنْ رَجُلٍ یُذْنِبُ ذَنْبًا ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَتَطَہَّرُ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ، ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، إِلَّا غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ)) جامع الترمذی : 406 ۔ وحسنہ الألبانی

’’ جب کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرے ، پھر کھڑا ہوجائے اور وضو کرکے نماز پڑھے ، پھر اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالی اسے یقینا معاف کردیتا ہے ۔ ‘‘

23. بوقت ملاقات مصافحہ کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یَلْتَقِیَانِ فَیَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَہُمَا قَبْلَ أَن یَّتَفَرَّقَا))

’’ جو دو مسلمان بوقت ِ ملاقات مصافحہ کریں تو ان کے جدا جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔‘‘ جامع الترمذی :2727۔ وصححہ الألبانی

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ الْتَقَیَا فَأَخَذَ أَحَدُہُمَا بِیَدِ صَاحِبِہٖ ، إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَن یَّحْضُرَ دُعَائَ ہُمَا ، وَلَا یُفَرِّقَ بَیْنَ أَیْدِیْہِمَا حَتّٰی یَغْفِرَ لَہُمَا)) أخرجہ الإمام أحمد فی المسند:12474 وقال شعیب الأرناؤط : صحیح لغیرہ ،وحسنہ الألبانی فی الصحیحۃ :525

’’جو دو مسلمان بوقت ِ ملاقات ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ( مصافحہ کرتے ) ہیں اللہ تعالی پر ان کا حق ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے اور ان کے ہاتھ الگ الگ ہونے سے قبل ان کی مغفرت کردے۔ ‘‘

24. کفارۂ مجلس

مجلس سے اٹھ کر جاتے ہوئے یہ دعا پڑھنی چاہیے : (( سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ))

’’ اے اللہ ! تو پاک ہے او راپنی تعریف کے ساتھ ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں،میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘

اس دعا کو پڑھنے کا فائدہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : ( کَفَّارَۃٌ لِمَا یَکُونُ فِی الْمَجْلِسِ ) سنن أبی داؤد :4859۔ الألبانی : حسن صحیح

’’ دوران مجلس جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ، انہیں معاف کردیا جاتا ہے۔‘‘

25. سلام کو پھیلانا اور اچھی گفتگو کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :((إِنَّ مِنْ مُوْجِبَاتِ الْمَغْفِرَۃِ : بَذْلُ السَّلَامِ وَحُسْنُ الْکَلَام))

’’ مغفرت کا موجب بننے والے امور میں سے سلام پھیلانا اور اچھی گفتگو کرنا بھی ہے ۔ ‘‘ رواہ الطبرانی وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :2699

26. نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ، وَرَفَعَ لَہُ عَشْرَ دَرَجَاتٍ)) صحیح الجامع :6359

’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ،اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کرتا ہے ۔ ‘‘

سامعین محترم ! ہم نے گناہوں کو مٹانے والے اعمال کا تذکرہ کیا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان اعمال کی توفیق دے اورہمارے گناہوں کو مٹا دے اور ہمیں اپنی رضامندی اور خوشنودی سے نوازے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! آج کے موضوع کو مکمل کرتے ہوئے آخر میں یہ بھی جان لیجئے کہ جو لوگ ان مجالس میں بیٹھتے ہیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ، جن میں اللہ کے دین کی گفتگو ہوتی ہے ، اللہ تعالی ان کے گناہوں کو بھی معاف کردیتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً یَطُوْفُوْنَ فِی الطُّرُقِ،یَلْتَمِسُوْنَ أَہْلَ الذِّکْرِ ، فَإِذَا وَجَدُوْا قَوْمًا یَذْکُرُونَ اللّٰہَ تَنَادَوْا : ہَلُمُّوْا إِلٰی حَاجَتِکُمْ ) قَالَ : ( فَیَحُفُّوْنَہُمْ بِأَجْنِحَتِہِمْ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا ))

’’ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ کے ایسے فرشتے ہیں جو راستوں میں چلتے پھرتے رہتے ہیں ، ان کا اور کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ اہل ِ ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ لہذا جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں : آ جاؤ تم جس چیز کے متلاشی تھے وہ یہاں ہے ۔ پھر وہ بھی اہل الذکر کے ساتھ بیٹھ کر انھیں اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ۔( اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ) اس مجلس سے آسمانِ دنیا تک سارے فرشتے ہی فرشتے ہوتے ہیں ۔ ‘‘

’’ پھر (جب وہ آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں تو ) اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان کے حال کو زیادہ جانتا ہے : میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں ؟

وہ جواب دیتے ہیں : وہ تیری تسبیح ، تیری بڑائی ، تیری تعریف اور تیری بزرگی بیان کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے ؟

فرشتے کہتے ہیں : نہیں ، انھوں نے تجھے نہیں دیکھا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر انھوں نے مجھے دیکھا ہوتا تو پھر ان کی حالت کیا ہوتی ؟

فرشتے کہتے ہیں : اگر انھوں نے تجھے دیکھا ہوتا تو وہ یقینا تیری عبادت اور زیادہ کرتے ۔اور تیری بزرگی ، تیری تعریف اور تیری تسبیح اور زیادہ بیان کرتے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ مجھ سے کس چیز کا سوال کرتے ہیں ؟

فرشتے کہتے ہیں : وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے ؟

وہ کہتے ہیں : نہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیفیت کیا ہوتی ؟

فرشتے کہتے ہیں : اگر انھوں نے اسے دیکھا ہوتا تو وہ اور زیادہ اس کیلئے شوقین ہوتے اور مزید اس کی طلب اور رغبت رکھتے ۔

اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ؟

فرشتے جواب دیتے ہیں : جہنم کی آگ سے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے اسے دیکھا ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں : نہیں دیکھا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو پھر ان کی حالت کیا ہوتی ؟

فرشتے جواب دیتے ہیں : اگر وہ اسے دیکھ چکے ہوتے تو اس سے اور زیادہ دور بھاگتے اور اس سے مزید ڈرتے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (( فَأُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَہُمْ ))

’’میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے انھیں معاف کردیا ہے ۔ ‘‘

فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے : اس مجلس میں فلاں بندہ بھی تھا جو ان میں سے نہیں ، بلکہ وہ کسی کام کیلئے آیا تھا ، پھر ان کے ساتھ بیٹھ گیا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :((وَلَہٗ غَفَرْتُ ، ہُمُ الْقَومُ لَا یَشْقٰی بِہِمْ جَلِیْسُہُمْ ))

’’میں نے اسے بھی معاف کردیا ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا شخص بھی محروم نہیں ہوتا ۔‘‘ صحیح البخاری :6408 ، صحیح مسلم :2689

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے تمام گناہوں کو معاف فرمائے اور ان گناہوں کو اپنے فضل وکرم سے نیکیوں میں تبدیل کردے ۔ اور عذاب قبر اور قیامت کے دن کی رسوائی سے محفوظ رکھے ۔ آمین