گناہوں کے خطرناک نتائج 

اہم عناصرِ خطبہ :

01. اطاعت وفرمانبرداری یا عصیان ونافرمانی  ؟

02.  افراد کیلئے گناہوں کے خطرناک نتائج

03.  ملک وقوم کیلئے گناہوں کے خطرناک نتائج

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! ہم سب کی خیر وبھلائی اس میں ہے کہ ہم  اللہ تعالی کی فرمانبرداری کریں، اس کے احکامات پر عمل کریں اور اس نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ان سے پرہیز کریں ۔ اسی طرح ہم اللہ کے رسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بھی اطاعت کریں اور ان کی نافرمانی سے بھی اپنے آپ کوبچائیں۔

اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہی حقیقی کامرانی وکامیابی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾  [الأحزاب:33 71 ]

’’ اورجو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرتا رہے تو وہ یقینا بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو گیا ۔ ‘‘

جبکہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی واضح گمراہی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا﴾ [الأحزاب: 33 36]

’’ اور جو  اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتارہے تو وہ یقینی طور پر واضح گمراہی میں چلا گیا ۔ ‘‘

ان دونوں آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت وفرمانبرداری دنیا میں انسان کو کامیابیوں سے ہمکنا رکرتی ہے جبکہ عصیان ونافرمانی سے وہ گمراہ ہوتا ہے اور گمراہی کے بعد خسارہ ہی خسارہ اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان دونوں چیزوں کا نتیجہ ہے دنیا میں ۔۔۔۔۔ اورآخرت میں اطاعت وفرمانبرداری اور عصیان ونافرمانی کا نتیجہ کیا نکلے گا ، یہ بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان کردیا ہے ۔

ارشاد باری ہے : ﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ٭ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ﴾ [النساء:13،14]

’’ اور جو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالی ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی در اصل بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی مقرر کردہ حدوں سے آگے نکلے گا تو اسے وہ جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کیلئے رسوا کن عذاب ہو گا ۔ ‘‘

لہذا ہمیں اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت وفرمانبرداری ہی کرنی چاہئے تاکہ ہم دنیا میں بھی کامیاب ہو سکیں اور آخرت میں بھی اللہ کے فضل وکرم سے جنت میں داخل ہو سکیں۔جہاں تک اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کا تعلق ہے تو اس سے ہمیں بچنا چاہئے تاکہ ہم دنیا میں گمراہی سے محفوظ رہیں اور قیامت کے دن  اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔

آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانیوں کے برے اثرات اور گناہوں اور برائیوں کے خطرناک نتائج کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ ( ان شاء اللہ )  جس سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ جب ہمیں ان خطرناک نتائج اور برے اثرات کا علم ہو گا تو ہم عصیان ونافرمانی سے بچنے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔

عصیان ونافرمانی اور گناہوں کے اثرات ونتائج دو قسم کے ہیں ۔ ایک تو وہ ہیں جو انفرادی طور پرخود نافرمانی کرنے والے انسان پر ہی مر تب ہوتے ہیں ۔ اور دوسرے وہ ہیں جو اجتماعی طور پر کسی قوم یا کسی ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔

 افراد کیلئے گناہوں کے خطرناک نتائج :

01. دل کا زنگ آلود ہونا اور تاریکی کا چھا جانا

گناہوں اور  نافرمانیوں کی وجہ سے نافرمانی کرنے والے انسان کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے ، حتی کہ گناہ کرتے کرتے اس کا دل مکمل طور پر کالا سیاہ پڑ جاتا ہے ۔

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہٖ ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہُ ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہُ ، فَذَلِکَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ الْقُرْآنِ : ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ [ الترمذی :۳۳۳۴: حسن صحیح ، ابن ماجۃ :۴۲۴۴ وحسنہ الألبانی]

  ’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کرمعافی مانگ لیتا ہے تو اس کا دل دھودیا جاتا ہے۔اور اگر وہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو سیاہی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھاجاتی ہے ۔ یہی وہ ( رَین ) ’’ زنگ ‘‘ ہے جس کا اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے :  ﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾

اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے ۔ اور جب کوئی شخص بکثرت گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور اللہ سے معافی بھی نہ مانگتا ہو تو اس کے دل پرچھائی ہوئی تاریکی اور سیاہی نہایت گہری ہو جاتی ہے اور بڑھتے بڑھتے اس کے چہرے پربھی نمایاں ہونے لگتی ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ

( إِنَّ لِلْحَسَنَۃِ ضِیَائً فِی الْوَجْہِ وَنُورًا فِی الْقَلْبِ ، وَسِعَۃً فِی الرِّزْقِ ، وَقُوَّۃً فِی الْبَدَنِ، وَمَحَبَّۃً فِی قُلُوبِ الْخَلْقِ ، وَإِنَّ لِلسَّیِّئَۃِ سَوَادًا فِی الْوَجْہِ ، وَظُلْمَۃً فِی الْقَلْبِ ، وَوَہْنًا فِی الْبَدَنِ ، وَنَقْصًا فِی الرِّزْقِ ، وَبُغْضًا فِی قُلُوبِ الْخَلْقِ )

’’ نیکی کی وجہ سے چہرے پر روشنی آ جاتی ہے ،  دل منور ہو جاتا ہے ، رزق فراوانی سے ملتا ہے ، جسمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور برائی کی وجہ سے چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے ، دل پر تاریکی چھا جاتی ہے ، جسم کمزور پڑ جاتا ہے ، رزق میں کمی آ جاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ‘‘

02.  گناہوں کی وجہ سے بندہ اللہ تعالی کے ہاں اپنی قدر گنوا بیٹھتا ہے

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( إِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَإِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ)     [ مسند احمد ]

’’ تم نافرمانی سے بچو ، کیونکہ نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضگی آجاتی ہے ۔ ‘‘

جب کسی بندے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تو اس کا اللہ کے ہاں کوئی مقام ومرتبہ نہیں رہتا بلکہ وہ اس کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔اور جس کی  اللہ تعالی کے ہاں کوئی عزت نہیں ہوتی اسے کسی اور کی طرف سے عزت نہیں مل سکتی ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ﴾  [ الحج22 : ۱۸]

’’ اور جس شخص کو  اللہ تعالی ذلیل کردے تو اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ ‘‘

03.  گناہوں کی وجہ سے بندہ شیطان کا قیدی بن جاتا ہے

بندہ جب مسلسل گناہ کرتا چلا جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتا تو وہ شیطان کا قیدی بن جاتا ہے ، پھر شیطان ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور اسے اللہ کے دین سے غافل رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ﴾ [الزخرف:36 ]

’’ اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جائے ہم اس پر ایک شیطان کو مسلط کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔ ‘‘

’ رحمن کی یاد سے غافل ‘ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے دین سے اعراض کر لے ، اس کے احکامات کی کوئی پروا نہ کرے اور من مانی زندگی بسر کرے ۔ ایسے انسان پر شیطان مسلط کر دیا جاتاہے جو اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے ۔

04. گناہ بندے کو اپنے آپ سے غافل کردیتے ہیں

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾  [الحشر59 : 19]

’’ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنھوں نے اللہ تعالی کوبھلا دیا ، پھر اللہ نے بھی انھیں اپنے آپ سے غافل کردیا ، ایسے ہی لوگ فاسق ( نافرمان ) ہوتے ہیں ۔ ‘‘

یعنی جو شخص اللہ تعالی کے دین سے لا پروا ہو جاتا اور اس کے احکامات کو بھلا دیتاہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خوداپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد نہ اس کی آنکھیں کسی صحیح چیز کو دیکھ سکتی ہیں ، نہ اس کے کان کسی برحق بات کو سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی عقل راہِ راست کا ادراک کر سکتی ہے ۔پھر وہ چوپائے جانور کی طرح بلکہ اس سے بھی بد تر ہو جاتا ہے ۔

05. گناہوں کی وجہ سے انسان پریشان حال اور حقیقی چین وسکون سے محروم ہوجاتاہے ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا٭ قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی﴾  [ طٰہ: ۱۲۴۔۱۲۶ ]

  ’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ وہ پوچھے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے نابینا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں توبینا تھا ؟

اﷲ تعالیٰ جواب دے گا : اسی طرح ہونا چاہئے تھا کیونکہ تمہارے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا۔  اسی طرح آج تمہیں بھی بھلا دیا جائے گا ۔‘‘

06. گناہوں کی وجہ سے موجودہ نعمتیں چھن جاتی ہیں اور آنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں

ابو البشر حضرت آدم  علیہ السلام اور ان کی زوجہ حضرت حوا  علیہا السلام کی ایک خطا کی وجہ سے ہی ان دونوں کوجنت کی نعمتوں سے محروم کردیا گیا تھا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَقُلْنَا یَآ آدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ٭  فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ ﴾ [البقرۃ : ۳۵۔۳۶ ]

 ’’ اور ہم نے کہا : اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ۔ تاہم اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤگے ۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو لغزش میں مبتلا کردیا اور انہیں اس نعمت اور راحت سے نکلوادیا جس میں وہ تھے۔ ‘‘

07.  برکت کا خاتمہ

گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ نہ عمر میں برکت اور نہ ہی رزق میں برکت ، نہ علم میں برکت اور نہ ہی عمل میں برکت ، نہ گھر میں برکت اور نہ ہی گھر والوں میں برکت باقی رہتی ہے ۔ ہر چیز میں نحوست ہی نحوست اور بے برکتی ہی بے برکتی ہوتی ہے ۔  جبکہ اس کے بر عکس نیکی انسان کو مبارک یعنی با برکت بنا دیتی ہے ۔ زندگی ، رزق ، عمل ، اہل وعیال ۔۔۔۔۔ وغیرہ  ہر چیز با برکت ہو جاتی ہے ۔

08. شرم وحیا کا خاتمہ

نافرمانیوں کی ایک نحوست یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا نافرمان شرم وحیا سے محروم ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ وہ کھلم کھلا گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ، نہ اللہ تعالی سے اور نہ ہی لوگوں سے ۔ پھر بات یہیں تک نہیں رہتی بلکہ برائیوں کے نتیجے میں وہ اس قدر شرم وحیا سے عاری ہو جاتا ہے کہ اگر اس کی بیوی یا بیٹی بے پردہ ہو کر بازاروں اور گلی کوچوں میں اپنے حسن کی نمائش کرتی رہے یا غیر محرم مردوں سے گپ شپ کرتی رہے تو وہ اسے عام سی بات سمجھتا ہے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔ اسی طرح اس کے گھر میں فحش گانے ، فلمیں اور حیا باختہ پروگرام چلتے رہیں ، اس کی بیوی ، بیٹے بیٹیاں اور دیگر افرادِ خانہ انھیں دیکھتے اور سنتے رہیں تو اسے اس پر بھی کوئی شرم وحیا محسوس نہیں ہوتی ۔ بالکل سچ فرمایا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہ

( إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ )   [ متفق علیہ ]

’’ جب تم بے حیا ہو جاؤ تو جو چاہو کرو ۔ ‘‘

09. رزق سے محرومی

گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے ۔بعض اوقات انسان کو ایسے لگتا ہے کہ اب اسے رزق ملنے ہی والاہے ، فلاں جگہ یا فلاں ڈیل سے اب اتنے پیسے ملنے والے ہیں ، لیکن اچانک وہ کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ متوقع طور پر نصیب ہونے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِیْئَۃٍ یَّعْمَلُہَا )  [ ابن ماجہ :۹۰ ]

’’ اور آدمی کو اس کے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ ‘‘

عموما یہ دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ ایک آدمی اچھا خاصا مالدار اور بڑا ہی خوشحال ہوتا ہے ۔ مگر حرص اور لالچ کی وجہ سے وہ موجودہ مال ودولت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسے بڑھانے کیلئے نا جائز وسائل اختیار کر لیتا ہے ۔ مثلا سودی لین دین ، شیئرز کا نا جائز کاروبار اور انشورنس ، پرائز بانڈز اور سرٹیفکیٹس وغیرہ کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش ۔ اور جب وہ اِس طرح کے حرام وسائل اختیار کرتا ہے تو اسی وقت سے اس کی خوشحالی بد حالی میں بدلنے لگتی ہے۔ پھر آخر کار اس کا کاروبار مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو جاتا ہے ! یوں گناہ اس کیلئے رزق سے محرومی کا سبب بن جاتے ہیں ۔

اورایک شخص صدقے کا مال لے کر ایک فقیر خاندان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے اندر سے موسیقی کی آواز سنی !  اس نے دل میں کہا : میں ایسے خاندان کو صدقے کا مال کیوں دوں جو اس مال کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرے گا! چنانچہ وہ چلا گیا اور صدقے کا مال کسی اور کو دے دیا۔ گویا کہ رزق دروازے پر پہنچ کر بھی  واپس چلا گیا ، کیوں ؟ گناہ کی وجہ سے ۔

10.  علم سے محرومی

گناہوں کی وجہ سے ایک صاحبِ علم حاصل کردہ علم سے محروم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ علم اللہ تعالی کی طرف سے نور ہوتا ہے اور گناہ اس نور کو بجھا دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام شافعی  رحمہ اللہ اپنے استاذ امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے تو استاذ صاحب اپنے اِس لائق اور با صلاحیت شاگرد کی ذہانت وفطانت پر بڑے حیران ہوئے اور کہا : اللہ کی قسم ! میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالی نے آپ کے دل میں نور پیدا کردیا ہے ، لہذا آپ اِس نور کو عصیان ونافرمانی کی تاریکی کے ذریعے نہ بجھانا ۔ اور امام شافعی  رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ

شَکَوْتُ إِلٰی وَکِیْعٍ سُوْئَ حِفْظِیْ                  فَأَرْشَدَنِی إِلٰی تَرْکِ الْمَعَاصِی

وَقَالَ : اعْلَمْ بِأَنَّ الْعِلْمَ فَضْلٌ                      وَفَضْلُ اللّٰہِ لَا یُؤْتَاہُ عَاصِی

’’ میں نے وکیع  رحمہ اللہ سے شکایت کی کہ میری قوت حافظہ کمزور ہو گئی ہے تو انھوں نے فرمایا : گناہ چھوڑ دو ، کیونکہ علم اللہ کا فضل ہے اور یہ کسی نافرمان کو نہیں دیا جاتا ۔ ‘‘

11.مشکلات اور مصائب کے انبار !

گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے انسان پر مشکلات اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ نسأل اللہ العفو والعافیۃ ۔ گھریلو مشکلات ، کاروباری مشکلات ، ذاتی پریشانیاں ایک ایک کرکے ایساانسان کو گھیرتی ہیں کہ پھر ان سے جان چھڑانا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ؟  یقینا ایسا گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ  ﴾   [الشوری:30]

’’ اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے تو وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہی آتی ہے اور وہ ( اللہ تعالی) بہت سارے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیتا ہے ۔ ‘‘

12.عصیان ونافرمانی کی وجہ سے عاصی کا ہر کام مشکل ہو جاتا ہے  !

یہ بہت بڑی نحوست ہے گناہوں کی کہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا نافرمان جس کام کا بھی ارادہ کرتا ہے وہ آسان ہونے کے باوجود اس کیلئے مشکل ہو جاتا ہے ۔  جبکہ اس کے برعکس اگر وہ گناہوں سے اجتناب کرنے اور ہر وقت اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے والا ہو تو اس کا ہر کام اس کیلئے آسان ہو جاتا ہے چاہے کوئی کام بظاہر کتنا مشکل کیوں نہ ہو ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا﴾  [الطلاق: 4 ]

’’ اور جو اللہ تعالی سے ڈرتا رہے ( یعنی اس سے ڈر کر گناہوں سے بچتا رہے ) تو اللہ اس کے ہر کام کو آسان کردیتاہے ۔ ‘‘

13. نیکیوں کا برباد ہونا

گناہوں کی ایک نحوست یہ ہے کہ ان کی وجہ سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں،خاص طور پر خلوت میں محرمات کا ارتکاب تونیکیوں کیلئے نہایت ہی تباہ کن ہوتاہے ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِی یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالَ جِبَالِ تِہَامَۃَ بَیْضًا ، فَیَجْعَلُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہَبَائً مَّنْثُوْرًا ، قَالَ ثَوْبَانُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! صِفْہُمْ لَنَا ، جَلِّہِمْ لَنَا ،

أَنْ لَّا نَکُوْنَ مِنْہُمْ وَنَحْنُ لاَ نَعْلَمُ ؟ قَالَ : أَمَا إِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَمِنْ جِلْدَتِکُم ، وَیَأخُذُوْنَ مِنَ اللَّیْلِ کَمَا تَأخُذُوْنَ ، وَلٰکِنَّہُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰہِ انْتَہَکُوْہَا )    [ ابن ماجہ : ۴۲۴۵ وصححہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ والصحیحۃ  : ۵۰۵ ]

’’ میں یقینا اپنی امت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے روز ایسی نیکیاں لے کر آئیں گے جو تہامہ کے پہاڑوں کی مانند روشن ہو نگی لیکن اللہ تعالی ان کی ان نیکیوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کی مانند اڑا دے گا۔ حضرت ثوبان  رضی اللہ عنہ  نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کر دیجئے اور ان کے بارے میں کھل کر بیان کر دیجئے تاکہ ہم لا علمی میں ایسے لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبر دار ! وہ تمہارے بھائی اور تمہاری قوم سے ہی ہونگے ۔  اور وہ رات کو اسی طرح قیام کریں گے جیسا کہ تم کرتے ہو لیکن وہ ایسے لوگ ہونگے کہ جب خلوت میں انھیں اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزیں ملیں گی تو وہ ان سے اپنا دامن نہیں بچائیں گے ۔ ‘‘

یہ تھے گناہوں کے وہ اثرات ونتائج جو افراد پر مرتب ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو گناہوں اور ان کے برے نتائج سے محفوظ رکھے ۔ اور ہمیں اپنے دین پر استقامت نصیب کرے ۔

دوسرا خطبہ

افراد کیلئے گناہوں کے برے اثرات  ونتائج بیان کرنے کے بعد اب ہم ان کے ملک وقوم پر مرتب ہونے والے اجتماعی اثرات ونتائج کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

ملک وقوم کیلئے اجتماعی طور پر گناہوں کے خطرناک  اثرات ونتائج

اجتماعی طور پر کسی قوم یا کسی ملک کو گناہوں اور برائیوں کے جن خطرناک اور بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، وہ کچھ یوں ہیں :

01.  بر وبحر میں فساد اور ہلاکت وبربادی

ہمارے یہاں فساد اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ الامان والحفیظ !  نہ مال ودولت محفوظ ہے اور نہ ہی عزت وآبرو کو تحفظ حاصل ہے ، قتل وغارت عام ہے  اور خونِ مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے ۔کہیں ’ دہشت گردی کے خلاف  جنگ ‘ کے نام  پر بے گناہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے تو کہیں اس کے رد عمل میں خود کش دھماکے کرکے ہمارے بھائیوں کو ناکردہ گناہوں کی سزادی جار ہی ہے ۔  لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے واقعات بھی ہر روز رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کو اغوا کرکے منہ مانگے پیسے وصول کئے جاتے ہیں ۔ کبھی کبھار اغوا شدہ بچے اور افراد رہا ہو جاتے ہیں اور اکثر وبیشتر انھیں جان سے مار دیا جاتا ہے ۔چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے ، بنت ِ حواء کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ زیادتی کے بعد اسے نہایت بے دردی کے ساتھ قتل بھی کردیا جاتا ہے ۔اور چونکہ ہمارے یہاں چوروں ، ڈاکوؤں اورظالموں کو ان کے کرتوتوں کا  مزا چکھانے کیلئے ان پر شرعی سزائیں نافذ نہیں کی جاتیں اور نہ ہی ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو کٹہرے میں لانے کا کوئی مؤثر نظام موجود ہے اس لئے اکثر لوگ جو ان جرائم کا شکار ہوتے ہیں وہ صبر کرکے اس ظلم وزیادتی کو برداشت کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔اور اگر کوئی مظلوم غلطی سے کسی ظالم کے خلاف کیس کر ہی دے تو اسے عدالتوں اور تھانوں میں سالہا سال تک چکر لگا لگا کر سوائے ذلت ورسوائی کے اور کچھ نہیں ملتا۔ ملک میں فساد اس حد تک زیادہ ہو گیا ہے کہ اکثر قومی اداروں اور مختلف محکموں میں رشوت کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوتا ۔ مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ دوسری طرف بیورو کریسی اور حکمران طبقہ کے لوگ غریب عوام کا خون چوس کرعیاشیوں اوربیرون ملک اپنے اثاثوں کو بڑھانے میں مصروف کار نظر آتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ کسی کو  ذرا برابر بھی احساس نہیں کہ وہ غریب عوام کی فلاح وبہبود کیلئے عملی طور پر کچھ کرے ۔ بے چاری عوام پس رہی ہے اور ارباب اقتدار مست ہیں۔ اور اب تو ملکی سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں ۔ اللہ جانے یہ فساد ہمیں اور کیا کیا رنگ دکھلائے گا !  سوال یہ ہے کہ آخر  یہ سارا فساد اور ملکی وقومی تباہی کیوں ہو رہی ہے ؟ یقینا یہ سب ہمارے گناہوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ہی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ [الروم: 41 ]

’’بر وبحر میں لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا ہے ۔ اس لئے کہ انھیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالی چکھا دے ، شاید کہ وہ باز آ جائیں ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ أَلَمْ یَرَوْا کَمْ أَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْہِمْ مِدْرَارًا وَّجَعَلْنَا الْأَنْھَارَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمْ فَأَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ قَرْنًا آخَرِیْنَ ﴾ [ الأنعام : ۶ ]

’’ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں ، وہ جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی ۔ اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کرڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کردیا۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے سابقہ اقوام کی ہلاکت وبربادی کا تذکرہ کیا ہے جنھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہی ہلاک وبرباد کیا گیا ۔ اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿  فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾ [العنکبوت: 40]

’’ ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے جرم میں دھر لیا ۔ پھر ان میں سے کچھ پر ہم نے پتھراؤ کیا اور کچھ ایسے جنھیں زبردست چیخ نے آلیا اور کچھ ایسے جنھیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے ہیں جنھیں ہم نے غرق کردیا ۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے ۔ ‘‘

02.   زلزلے  وغیرہ

گناہوں اور برائیوں کی ایک بڑی نحوست یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے انتہائی خطرناک زلزلے آتے ہیں ۔ بڑی بڑی عمارتیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں ، بلکہ بعض اوقات پورے پورے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اور بستیوں کی بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ ہزاروں اور بسا اوقات لاکھوں لوگ چند لمحات میں ہی لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اللہ تعالی سمندر کی گہرائی کو حکم دیتا ہے ، زمین حرکت میں آتی ہے اور اس کے نتیجے میں سمندری موجیں خوفناک طوفان ( سونامی )کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ پھر ہر چیز خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے اور تباہی وبربادی کے ایسے ایسے خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔۔۔۔ نسأل اللہ العفو والعافیۃ

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰہُ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ٭ اَوْ یَاْخُذَھُمْ فِیْ تَقَلُّبِھِمْ فَمَا ھُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ٭ اَوْ یَاْخُذَھُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ فَاِنَّ رَبَّکُمْ لَرَؤفٌ رَّحِیْمٌ ﴾  [ النحل:۴۵۔ ۴۷]

’’برائیوں کا داؤ پیچ کرنے والے کیا اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالی انھیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب آ جائے جہاں کا انھیں وہم وگمان بھی نہ ہو ؟ یا انھیں چلتے پھرتے پکڑ لے ؟ یہ کسی

صورت میں اللہ تعالی کو عاجز نہیں کر سکتے ۔ یا انھیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے ؟ یقینا تمھارا رب نہایت مشفق اور بڑا ہی رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( سَیَکُوْنُ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ ، قِیْلَ : وَمَتٰی ذَلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : إِذَا ظَہَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ ) [صحیح الجامع للألبانی : ۳۶۶۵ ]

’’  آخری زمانے میں لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا ، ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی اور ان کی شکلیں مسخ کی جائیں گی ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ ایسا کب ہو گا ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے ، گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب کو حلال سمجھ لیا جائے گا ۔ ‘‘

اسی طرح دوسری میں حدیث میں ارشاد فرمایا :

( لَیَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِی الْخَمْرَ یُسَمُّونَہَا بِغَیْرِ اسْمِہَا ، یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِہِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ ، یَخْسِفُ اللّٰہُ بِہِمُ الْأرْضَ ، وَیَجْعَلُ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ )  [ ابن ماجہ : ۴۰۲۰ ۔ صححہ الألبانی ]

’’ میری امت کے کئی لوگ یقینا شراب نوشی کریں گے ، مگر اس کا نام تبدیل کرکے ، ان کے سروں کے پاس آلاتِ موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والی عورتیں گائیں گی ، ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالی زمین میں دھنسا دے گا اور انہی میں سے بندر اور سور بنائے گا ۔ ‘‘

03.  بد امنی

گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے اللہ تعالی قوموں اور ملکوں کے امن کو بد امنی میں تبدیل کردیتا ہے جس کے نتیجے میں نہ ان کی جانیں محفوظ ہوتی ہیں ، نہ مال ودولت محفوظ ہوتا ہے اور نہ ہی عزت وآبرو محفوظ ہوتی ہے ۔ اور ہر وقت ان  پر خوف وہراس اور رعب ودبدبہ مسلط رہتا ہے اور وہ چین وسکون سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَُوْنَ﴾ [ النحل : ۱۱۲]

’’ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جس میں امن اور چین تھا اور ہر طرف سے اس کا رزق فراوانی کے ساتھ اس کے پاس پہنچ رہا تھا ۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، تو اللہ تعالیٰ نے اس ( بستی والوں کے ) کرتوتوں کے نتیجے میں ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب ) مسلط کردیا ۔ ‘‘

04. مہلک بیماریاں، تنگ حالی اور مہنگائی ، بیرونی دشمن کا تسلط ، حکمرانوں کا رعایا پر ظلم اور خانہ جنگی وغیرہ

یہ خطرناک نتائج رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ایک ارشاد گرامی میں بیان فرمائے ہیں۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ حَتّٰی یُعْلِنُوا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الطَّاعُونُ وَالْأوْجَاعُ الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا )

’’ کسی قوم میں بے حیائی اس قدر پھیل جائے کہ وہ کھلم کھلا اس کا ارتکاب شروع کردیں تو ان میں طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے اور دیگر وہ امراض بھی جو ان سے پہلے لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں ۔ ‘‘

(وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ)

’’ اور جب لوگ ماپ تول میں کمی کرنے لگتے ہیں تو انھیں قحط سالی ، مہنگائی اور حکمران کے ظلم کی صورت میں سزا دی جاتی ہے ۔ ‘‘

(وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاۃَ أَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَائِ ، وَلَوْ لَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا )

’’اورجب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ روک لیں تو آسمان سے بارش کا برسنا بند ہو جاتا ہے ۔ اور اگر جانور نہ ہوتے تو ان پر بالکل بارش نہ برستی ۔ ‘‘

( وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللّٰہِ وَعَہْدَ رَسُولِہِ إِلَّا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِّنْ غَیْرِہِمْ ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیْہِمْ )

’’ اور جب وہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد کا پاس نہ کریں تو اللہ تعالی ان پر بیرونی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے جو ان کی ثروت کا ایک حصہ ان سے چھین لیتا ہے ۔ ‘‘

( وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ )      [ ابن ماجہ : ۴۰۱۹ ۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ اور جب ان کے حکمران کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلے کرنا چھوڑ دیں اور اس کے دین پر عملدرآمد نہ کریں تو اللہ تعالی ان کو آپس میں لڑا دیتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ  کا ارشاد ہے :

( مَا ظَہَرَ الْغَلُولُ فِی قَوْمٍ إِلَّا أَلْقَی اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمُ الرُّعْبَ ، وَلَا فَشَا الزِّنَا فِی قَوْمٍ إِلَّا کَثُرَ فِیْہِمُ الْمَوْتُ ،وَلَا نَقَصَ قَوْمٌ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا قَطَعَ عَنْہُمُ الرِّزْقَ ، وَلَا حَکَمَ قَوْمٌ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الدَّمُ ، وَلَا خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَہْدِ إِلَّا سَلَّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوَّہُمْ )  [ مؤطا مالک : ۹۸۷]

’’ کسی قوم میں خیانت عام ہو جائے تو اللہ تعالی ان کے دلوں میں رعب ودبدبہ ڈال دیتا ہے ۔ اور جب کسی قوم میں بدکاری پھیل جائے تو اس میں موت بکثرت واقع ہوتی ہے ۔ اور جب وہ ماپ تول میں کمی کرنے لگیں تو ان سے رزق کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اور جب کسی قوم میں فیصلے حق پر مبنی نہ کئے جائیں تو اس میں خون (قتل )عام ہو جاتا ہے ۔ اور جب ایک قوم عہد کو پامال کرتی ہے تو اس پر ان کا دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

05.  ذلت ورسوائی

اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نافرمانیوں کا ایک سنگین نتیجہ آج ہمیں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ہم اقوامِ عالم میں ذلیل ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ہماری کوئی اوقات نہیں اور اغیار جیسے چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ہمیں اپنے نا پاک مقاصد کیلئے استعمال کرلیتے ہیں  ۔ ہم ان کے آلۂ کار بن کر ان کیلئے کام کرتے ہیں اور اس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں  ۔ ہم مادی ودنیاوی مفادات کی خاطر اپنی قومی وملی غیرت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ ذلت ورسوائی کا عالم یہ ہے کہ کوئی ہماری قومی سلامتی کے خلاف جو کچھ کرتا رہے ، ہماری عزت کو تار تار کرتا رہے ، ہمارے وقار کو خاک میں ملاتا رہے اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو ہر روز قتل کرتا رہے تو اس سے بدلہ لینا تو کجا  ہم اس  پر صدائے احتجاج بھی بلند کرنے کے قابل نہیں رہے ۔۔۔ یہ بد ترین ذلت ورسوائی کیوں چھائی ہوئی ہے  ؟ یقینا یہ ہمارے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( إِذَا تَبَایَعْتُمْ بِالْعِیْنَۃِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِیْتُمْ بِالزَّرْعِ ، وَتَرَکْتُمُ الْجِہَادَ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ذُلًّا لَا یَرْفَعُہُ عَنْکُمْ حَتّٰی تَرْجِعُوْا إِلٰی دِیْنِکُمْ )   [ ابو داؤد : ۳۴۶۲۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جب تم سودی لین دین کروگے ، گائیوں کی دموں کو پکڑ لوگے اور کھیتی باڑی پر ہی راضی ہو جاؤ گے اور جہاد کو ترک کردو گے تو اللہ تعالی تم پر ایسی ذلت ورسوائی کو مسلط کردے گا جسے تم سے اس وقت تک نہیں اٹھائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہیں لوٹ آؤ گے ۔ ‘‘

06.  فتح شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے

گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح اور ان کا کافروں پر غلبہ شکست میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اس کی واضح دلیل جنگ احد کا وقعہ ہے جس میں پہلے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کافروں پر  فتح نصیب کی ، لیکن اس کے بعد جب ان میں سے بعض اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکامات کی خلاف ورزی کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ فتح شکست میں تبدیل ہو گئی ۔ ستر صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  شہید ہو گئے اور خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس میں شدید زخمی ہوئے ۔ اللہ تعالی اس شکست کا سبب یوں بیان کرتے ہیں :

﴿وَ لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرَاکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ  ﴾ [ آل عمران : ۱۵۲ ]

’’ بلا شبہ اللہ تعالی نے جو تم سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کر دیا جبکہ تم کافروں کو اللہ کے حکم سے خوب قتل کر رہے تھے ۔ تاآنکہ تم نے بز دلی دکھائی ، ( نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ) حکم میں جھگڑنے لگے اور اپنی پسندیدہ چیز ( مال غنیمت ) نظر آنے کے بعد تم نے (ان کی ) نافرمانی کی ۔ تم میں سے کچھ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پہلے اللہ تعالی نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ عطا کیا ۔ پھر یہ غلبہ ظاہری طور پر ہزیمت میں کیسے تبدیل ہو گیا ؟ اس کا سبب بھی بیان کردیا کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ جو مال غنیمت کو دیکھ کر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی نافرمانی کر بیٹھے ان کی وجہ سے انھیں شدید نقصان اٹھانا پڑا ۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالی اس کا سبب یوں بیان کرتے ہیں :

﴿اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ﴾  [ آل عمران : ۱۶۵ ]

’’ بھلا جب تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ ’’ یہ کہاں سے آگئی ؟ ‘‘ حالانکہ اس سے دوگنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے تھے ۔ کہہ دیجئے کہ یہ مصیبت تمھاری اپنی ہی لائی ہوئی ہے ۔ ‘‘

آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی گناہوں سے بچنے کی توفیق دے اور ان کے خطرناک وبھیانک نتائج سے محفوظ رکھے ۔ آمین