ہمیشگی اور تسلسل سے اعمال کئے جائیں

===============

انسان ساری زندگی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ [الذاريات : 56]

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الأنعام : 162]

کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔

وَمَحْيَايَ کا مطلب پورا سال ہے ایک مہینہ نہیں اور وہ بھی ہرسال

استقامت کا مطلب،دوام اور تسلسل

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ  [فصلت 30]

بیشک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔

طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں :

’’قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا عَلٰی أَدَاءِ فَرَائِضِهِ ‘‘

یعنی ’’ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے فرائض کی ادائیگی پر خوب قائم رہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ [ترمذي 2402]

لوگ بھی اسی چیز کو پسند کرتے ہیں جو مسلسل چلے یا جس کی لائف ٹائم گارنٹی ہو

اگر کوئی شخص موبائل-فون خریدے اور وہ صرف اور صرف ایک مہینہ چلے پھر چلے ہی نہ یا چلے تو سہی لیکن کبھی کبھار تو خریدنے والے کو کتنا پسند آئے گا

اگر کوئی شخص سواری کے لیے گاڑی خریدے اور وہ صرف ایک مہینہ یا دوچار خاص مواقع پرچلے اور باقی سال چلے ہی نہ تو خریدنے والے کو کتنی پسند آئے گی

اگر کوئی شخص دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینس خریدے اور وہ صرف ایک مہینہ دودھ دے تو کتنی پسند آئے گی

ہمیں اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ھے اگر ہم صرف ایک مہینہ یا چند خاص مواقع پر ہی عبادت کریں تو ہم اللہ تعالی کو کتنے پسند آئیں گے

موت ،حالت اطاعت میں آنی چاہیے

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ  [آل عمران 102]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو

چونکہ موت کا علم ہی نہیں کب آجائے، اس لیے موت آنے تک ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اسی طرح ڈرتے رہو

موت تک عمل کرو

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ [الحجر : 99]

اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آجائے۔

اس آئت مبارکہ میں یقین سے مراد موت ھے

موت کو ’’یقین‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔

غور کریں یہ نہیں فرمایا کہ

واعبد ربک حتی یاتیک الشوال

عبادت "رحمن” کی یا "رمضان” کی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ [بخاری 4187]

یہی بات رمضان المبارک کے چلے جانے پر کہی جا سکتی ہے

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ رمضان فإن رمضان قد مضی وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ

تم میں سے جو رمضان کی عبادت کرتا تھا تو رمضان گزر چکا ہے اور جو کوئی رحمن کی عبادت کرتا ہے تو رحمن زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیکیوں کے لیے دنوں کو خاص نہیں کیا کرتے تھے

علقمہ سے روایت ہے کہا میں نے ام المومنین !عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا اور کہا ام المومنین !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی کیفیت کیا تھی؟

هَلْ كَانَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنْ الْأَيَّامِ

کیا آپ(کسی خاص عمل کے لیے )کچھ ایام مخصوص فر ما لیتے تھے؟

انھوں نے فرمایا :

لَا كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً وَأَيُّكُمْ يَسْتَطِيعُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَطِيعُ

(مسلم، كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَابُ فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،1829)

نہیں، آپ کا عمل دائمی ہو تا تھا اور تم میں سے کو ن اس قدر استطاعت رکھتا ہے جتنی استطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصر کے بعد دو رکعات پر ہمیشگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عصر کے بعد دو رکعات ادا کیں تو پھر ساری زندگی ادا کرتے ہی رہے

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دوام

(قاسم بن محمد نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب کوئی عمل کرتیں تو اس کو لازم کر لیتی۔

(بخاری كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَابُ فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،1830)

بلال رضی اللہ عنہ کا دوام

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا

(( يَا بِلاَلُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الإِسْلاَمِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الجَنَّةِ )).

قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي: أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا، فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ (بخاری ،كِتَابُ التَّهَجُّدِ،بَابُ فَضْلِ الطُّهُورِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَفَضْلِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الوُضُوءِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ،1149)

اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی

ساری زندگی کبھی کسی سے نہ مانگا

ایک صحابی کو کسی دوسرے سے مانگنے سے منع کردیا تو وہ ایسے منع ہوئے کہ اگر کبھی گھوڑے پر بیٹھے ہوتے اور ہاتھ سے چھڑی نیچے گر جاتی تو پاس کھڑے شخص کو نہ کہتے بلکہ خود نیچے اتر کر پکڑتے اور پھر سوار ہوجاتے

سنن أبي داود كتاب الزكاة | باب : كراهية المسألة

1643 حدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا أبي ، حدثنا شعبة ، عن عاصم ، عن أبي العالية ، عن ثوبان – قال : وكان ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم – قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” من تكفل لي ألا يسأل الناس شيئا وأتكفل له بالجنة ؟ ". فقال ثوبان : أنا. فكان لا يسأل أحدا شيئا. [سنن ابن ماجه 1837.المستدرك للحاکم 1500,شعب الإیمان 3244]

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، قَالَ سَلَمَةُ : حَدَّثَنَا، وَقَالَ الدَّارِمِيُّ : أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ – وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيُّ – حَدَّثَنَا سَعِيدٌ – وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ – عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ، أَمَّا هُوَ، فَحَبِيبٌ إِلَيَّ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي، فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةً، أَوْ ثَمَانِيَةً، أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ : ” أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ ؟ ". وَكُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ، فَقُلْنَا : قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ : ” أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ ؟ ". فَقُلْنَا : قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ : أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، وَقُلْنَا : قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ ؟ قَالَ : ” عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَتُطِيعُوا – وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً – وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ

(صحیح مسلم :1043)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ يَتَقَبَّلُ لِي بِوَاحِدَةٍ، وَأَتَقَبَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ ". قُلْتُ : أَنَا. قَالَ : ” لَا تَسْأَلِ النَّاسَ شَيْئًا ". قَالَ : فَكَانَ ثَوْبَانُ يَقَعُ سَوْطُهُ، وَهُوَ رَاكِبٌ فَلَا يَقُولُ لِأَحَدٍ : نَاوِلْنِيهِ. حَتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ. (سنن ابن ماجه :1837)

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور بڑھاپے میں نشانہ بازی

أَنَّ فُقَيْمًا اللَّخْمِيَّ قَالَ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ تَخْتَلِفُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْغَرَضَيْنِ وَأَنْتَ كَبِيرٌ يَشُقُّ عَلَيْكَ قَالَ عُقْبَةُ لَوْلَا كَلَامٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أُعَانِيهِ قَالَ الْحَارِثُ فَقُلْتُ لِابْنِ شَمَاسَةَ وَمَا ذَاكَ قَالَ إِنَّهُ قَالَ مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا أَوْ قَدْ عَصَى [مسلم 1919]

حدیث سننے کے بعد ساری زندگی کبھی کسی کو گالی نہ دی

سیدنا ابوجری جابر بن سلیم ؓ کہتے ہیں

قُلْتُ اعْهَدْ إِلَيَّ قَالَ لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا قَالَ فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً (أبو داؤد، كِتَابُ اللِّبَاسِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الْإِزَارِ،4084)

میں نے(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیں ۔

آپ نے فرمایا

” کسی کو گالی نہ دینا ۔ “

کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی کو گالی نہیں دی کسی نہ آزاد کو نہ غلام کو ، نہ اونٹ کو نہ بکری کو

صفین کی رات بھی وظیفہ نہیں چھوڑا

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا، فَقَالَ: «أَلاَ أُخْبِرُكِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْهُ؟ تُسَبِّحِينَ اللَّهَ عِنْدَ مَنَامِكِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتَحْمَدِينَ اللَّهَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتُكَبِّرِينَ اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ» ثُمَّ قَالَ سُفْيَانُ: إِحْدَاهُنَّ أَرْبَعٌ وَثَلاَثُونَ، فَمَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ، قِيلَ: وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ قَالَ: وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ (بخاری، كِتَابُ النَّفَقَاتِ،بَابُ خَادِمِ المَرْأَةِ5362)

فاطمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں اور آپ سے ایک خادم مانگا تھا ، پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہو ۔ سوتے وقت تینتیس ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس ( 33 ) مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس ( 34 ) مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ ان میں سے ایک کلمہ چونتیس بار کہہ لے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے ان کلموں کو کبھی نہیں چھوڑا ۔ ان سے پوچھا گیا جنگ صفین کی راتوں میں بھی نہیں؟ کہا کہ صفین کی راتوں میں بھی نہیں

میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی اس کےبعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔

حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ‌ ‌ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا :

اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

اللہ سب سے بڑا ہے بہت بڑا ، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے بہت زیادہ اور تسبیح اللہ ہی کے لیے ہے صبح و شام

رسول اللہ ﷺ نے پوچھا :

فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے ؟

لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اللہ کےرسول ! میں ہوں آپ ﷺ نے فرمایا:

«عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ»

مجھے ان پر بہت حیرت ہوئی ، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔

ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ‌ ‌ نے کہا :

«فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ» [الزھدلأحمدبن حنبل 2256, مصنف ابن ابی شیبة 3522, حلیة الأولیاء ؛جلد 2ص 162]

میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی، اس کےبعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔*

سعید بن مسیب اور تیس سال

سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسلسل تیس سال ایسے گزرے کہ کوئی ایک نماز ایسی نہیں آئی جس کی اذان ہورہی ہو اور میں مسجد میں نہ ہوں

سعیدبن المسیب یقول ما سمعت تأذینا فی أھلی منذ ثلاثین سنة ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺎ ﺃﺫﻥ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﻟﺼﻼﺓ اﻟﻈﻬﺮ ﻣﻨﺬ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ ﺇﻻ ﻭﺃﻧﺎ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺃﻛﻮﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﺃﻭ ﻣﺴﺎﻓﺮا-

[المعرفة والتاريخ للفسوى:2/ 374, وفي سنده سقط بين أبي مسهر وربيعة]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺎ ﺃﺫﻥ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﻣﻨﺬ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ، ﺇﻻ ﻭﺃﻧﺎ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ، ﺇﻻ ﺃﻥ ﺃﻛﻮﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﺃﻭ ﻣﺴﺎﻓﺮا [تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص:٣٤٤]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ ﻗﺎﻝ ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ ﻗﺎﻝ ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ ﻗﺎﻝ ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﺎ ﺃﺫﻥ ﻣﺆﺫﻥ ﺻﻼﺓ اﻟﻈﻬﺮ ﻣﻨﺬ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ ﺇﻻ ﻭﺃﻧﺎ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺃﻛﻮﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﺃﻭ ﻣﺴﺎﻓﺮا [كتاب الثقات لابن حبان:٢٦٦١]

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﻔﻀﻞ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ سفيان، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺎ ﺃﺫﻥ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﻟﺼﻼﺓ اﻟﻈﻬﺮ ﻣﻨﺬ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ ﺇﻻ ﻭﺃﻧﺎ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺃﻛﻮﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﺃﻭ ﻣﺴﺎﻓﺮا [شعب الإيمان:٢٦٦٩]

وأنظر تاريخ دمشق:٧٢/ ١٩٧

سنده صحيح

عبد الرحمن بن عامر اليحصبى ثقة روى عنه جماعة

ابو انس طیبی

اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ قَالَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا عَمِلَتْ الْعَمَلَ لَزِمَتْهُ

(بخاری كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَابُ فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،1830)

:”اللہ تعا لیٰ کے ہاں محبوب ترین کا م وہ ہے جس پر ہمیشہ عمل کیا جا ئے اگرچہ وہ قلیل ہو۔

نیکی کے جاری سلسلے کو چھوڑنے والے کی طرح نہ بنو

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ [بخاري]

اے عبداللہ فلاں آدمی کی طرح نہ ہو جانا جو پہلے قیام اللیل کیا کرتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا

اعمال کا دارومدار خاتمے پر ھے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ  (بخاری كِتَابُ القَدَرِ،بَابٌ العَمَلُ بِالخَوَاتِيمِ،6607)

کہ بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے ( اسی طرح دوسرا بندہ ) جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، بلاشبہ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔

ایک طالب علم کی مثال

دوران سال سخت محنت کے ساتھ پڑھائی کرنے والا طالب علم سال کے اختتام میں امتحانات کے اندر اچھے نمبر لے کر تعلیمی سال کا خاتمہ اچھا نہ کرے تو درمیان والی محنت کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی

ایک آدمی کا خاتمہ سوء

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص جو مسلمانوں کی طرف سے بڑی بہادری سے لڑرہا تھا اور اس غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور فرمایا کہ جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے چنانچہ وہ شخص جب اسی طرح لڑنے میں مصروف تھا اور مشرکین کو اپنی بہادری کی وجہ سے سخت تر تکالیف میں مبتلا کررہا تھا تو ایک مسلمان اس کے پیچھے پیچھے چلا، آخر وہ شخص زخمی ہوگیا اور جلدی سے مرجانا چاہا، اس لیے اس نے اپنی تلوار کی دھار اپنے سینے پر لگالی اور تلوار اس کے شانوں کو پار کرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد پیچھا کرنے والا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوڑتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات کیا ہے؟ ان صاحب نے کہا کہ آپ نے فلاں شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے حالانکہ وہ شخص مسلمانوں کی طرف سے بڑی بہادری سے لڑرہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ اس حالت میں نہیں مرے گا۔ لیکن جب وہ زخمی ہوگیا تو جلدی سے مرجانے کی خواہش میں اس نے خودکشی کرلی۔

(بخاری كِتَابُ القَدَرِ،بَابٌ العَمَلُ بِالخَوَاتِيمِ،6607)

سوت مضبوط کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا [النحل : 92]

اور اس عورت کی طرح نہ ہو جائو جس نے اپنا سوت مضبوط کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا

ثابت قدمی کی دعا کریں

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ ھدیتنا

ربنا أفرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا [ البقرہ 250]

یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، ت، ق

اللھم انی اسئلک الثبات فی الأمر، الصحیحہ

اتنے اعمال کرو جتنے مسلسل کرنے کی طاقت رکھ سکو اور اکتاہ نہ جاؤ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ مِنْ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دُووِمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ وَكَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَمِلُوا عَمَلًا أَثْبَتُوهُ

(مسلم ،بَابُ فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،1827)

"لوگو !اتنے اعمال کی پابندی کرو جتنے اعمال کی تم میں طاقت ہے کیونکہ (اس وقت تک) اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں اکتاتا حتیٰ کہ تم خود اکتا جاؤ اور یقیناًاللہ کے نزدیک زیادہ محبوب عمل وہی ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جا ئے چاہے وہ کمہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے جب کو ئی عمل کرتے تو اسے ہمیشہ بر قرار رکھتے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی کہ

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا امْرَأَةٌ قَالَ مَنْ هَذِهِ قَالَتْ فُلَانَةُ تَذْكُرُ مِنْ صَلَاتِهَا قَالَ مَهْ عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا وَكَانَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيْهِ مَادَامَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ (بخاری ،كِتَابُ الإِيمَانِ،بَابٌ: أَحَبُّ الدِّينِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَدْوَمُهُ،43)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ان کے پاس آئے، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا، فلاں عورت اور اس کی نماز ( کے اشتیاق اور پابندی ) کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ ( سن لو کہ ) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ خدا کی قسم ( ثواب دینے سے ) اللہ نہیں اکتاتا، مگر تم ( عمل کرتے کرتے ) اکتا جاؤ گے، اور اللہ کو دین ( کا ) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے۔ ( اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے

مسلسل سچ بولنے کا فائدہ

(عليكم بالصِّدق؛ فإن الصدق يَهدي إلى البر، وإن البرَّ يَهدي إلى الجنة، وما يزال الرجل يَصدُق ويتحرى الصدق حتى يُكتب عند الله صدِّيقًا، وإياكم والكذب؛ فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يُكتب عند الله كذَّابًا) [متفق عليه]

روزوں پر دوام اختیار کریں

علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرٰی ظُهُوْرُهَا مِنْ بُطُوْنِهَا وَ بُطُوْنُهَا مِنْ ظُهُوْرِهَا فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ هِيَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ!؟ قَالَ هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ أَدَامَ الصِّيَامَ وَ صَلّٰی لِلّٰهِ بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ ] [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ غرف الجنۃ : ۲۵۲۷، و قال الألباني حسن ]

’’جنت میں ایسے اونچے محل ہیں جن کے باہر کے حصے ان کے اندر کے حصوں سے اور اندر کے حصے باہر کے حصوں سے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ایک اعرابی نے اٹھ کر پوچھا : ’’اے اللہ کے نبی! وہ کن کے لیے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لیے جو پاکیزہ گفتگو کریں اور کھانا کھلائیں اور روزوں پر ہمیشگی کریں اور اللہ کے لیے نماز پڑھیں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘

لھذا

شوال کے چھے روزے

ذی الحج کے نو روزے

عاشور کا روزہ

بیض کے تین روزے

سوموار جمعرات کے دو روزے

اور ہوسکے تو صوم داوودی کا اھتمام کریں

نمازوں پر دوام اختیار کریں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ [المعارج : 23]

وہ جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں۔

جب تک زندہ تب تک نماز

عیسی علیہ السلام نے فرمایا

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا [مريم : 31]

اور مجھے بہت برکت والا بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی خاص تاکید کی، جب تک میں زندہ رہوں۔

مسلسل نوافل ادا کرنے کا فائدہ

وفي الحديث القدسي أن الله تعالى قال: "وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه” [ رواه البخاري]