یاجوج ماجوج اور عیسی علیہ السلام

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الأنبياء : 96)

یہاں تک کہ جب یاجوج اورماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔

عیسی علیہ السلام دجال سے فارغ ہو کر مسلمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے

(جب عیسی علیہ السلام دجال اور یہود کے قتل سے فارغ ہو جائیں گے تو) عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اس (دجال کےدام میں آنے)سے محفوظ رکھا ہوگا تووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے۔اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے۔ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو یاجوج ماجوج کے نکلنے کی خبر دیں گے

وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے )بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

یاجوج ماجوج کے نکلنے اور انسانوں کی طرف آنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الأنبياء : 96)

یہاں تک کہ جب یاجوج اورماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔

یاجوج و ماجوج کہاں سے نکلیں گے

اسے سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں ذوالقرنین کا واقعہ سمجھنا بہت ضروری ہے جس نے یاجوج و ماجوج کو روکنے کے لیے ایک مضبوط دیوار بنائی اور جس دیوار کے پیچھے آج تک وہ قوم بند پڑی ہے

ذوالقرنین کا تعارف

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا (الكهف : 83)

اور وہ تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ میں تمھیں اس کا کچھ ذکر ضرور پڑھ کر سناؤں گا۔

قرآن و حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ ذوالقرنین کا اصل نام کیا تھا ؟

وہ کس علاقہ کا بادشاہ تھا ؟

کس قوم سے تعلق رکھتا تھا ؟

اور کس دور میں یہ بادشاہ گزرا ہے؟

قرآن کے مطابق ذوالقرنین اللہ کا نیک بندہ تھا جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے مشرق سے مغرب تک اللہ کے دین کو غالب کیا اور اپنے محروسہ (ماتحت) ممالک میں امن قائم کیا اور انھیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کی نہایت عمدہ تدبیر کی۔

اکثر سلف اس کے نبی ہونے کے قائل نہیں۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اللہ کا نیک، مخلص اور مجاہد بندہ تھا، جس نے اپنے آرام کو چھوڑ کر ساری زندگی غلبۂ اسلام کے لیے جہاد میں صرف کر دی۔

ذوالقرنین ایک بہت بڑا فاتح اور شان و شوکت والا بادشاہ ہونے کے باوجود توحید اور آخرت کا قائل تھا۔ عدل و انصاف کے علاوہ فیاضی سے کام لیتا تھا۔ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا

ذوالقرنین مضبوط اقتدار کا مالک بادشاہ تھا

اس کے پاس وہ تمام وسائل موجود تھے جن کی اقتدار کے لیے ضرورت ہوتی ہے، مثلاً شجاعت، قوت، تدبیر و رائے، فوج، دولت، اسلحہ، سامان سفر، تعمیر و ترقی کے ذرائع وغیرہ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (الكهف : 84)

بے شک ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا اور اسے ہر چیز میں سے کچھ سامان عطا کیا۔

مغرب کی جانب ذوالقرنین کا سفر

اس نے اپنے اقتدار کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے اور پوری زمین پر اللہ کا کلمہ غالب کرنے کے لیے ایک لمبے سفر کی تیاری کی اور اس کے لیے درکار افواج، اسلحہ اور سامان سفر ساتھ لے کر مغرب کی طرف جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکل پڑا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَأَتْبَعَ سَبَبًا (الكهف : 85)

تو وہ کچھ سامان ساتھ لے کر چلا۔

راستے میں ہر مقابل کو زیر کرتا ہوا اور ہر رکاوٹ کو روندتا ہوا زمین کے اس حصے تک جا پہنچا جہاں تک اس وقت آبادی موجود تھی اور سفر ممکن تھا

ساحل سمندر پر کھڑے ہو کر کیچڑ اور دلدل میں سورج کے غروب ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں

اس سے آگے سمندر سے پہلے وسیع و عریض دلدلی علاقہ تھا، جس میں نہ خشکی کے ذرائع سے سفر ہو سکتا تھا، نہ بحری ذرائع سے۔ وہاں اس نے سورج غروب ہونے کا مشاہدہ کیا تو وہ اسے ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا، کیونکہ آگے سمندر کے اثر سے اور چشموں کی کثرت سے زمین دلدل اور کیچڑ بنی ہوئی تھی۔ جس طرح سمندر، صحرا یا میدان میں سے جو چیز بھی سامنے ہو سورج اسی میں غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ (الکہف :86)

یہاں تک کہ جب وہ سورج غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو اسے پایا کہ وہ دلدل والے چشمے میں غروب ہو رہا ہے

کیا سورج کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے

بعض لوگوں نے جو اعتراض کیا ہے کہ قرآن کے بیان کے مطابق سورج کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے، انھوں نے غور ہی نہیں کیا کہ قرآن نے ذوالقرنین کا مشاہدہ بیان فرمایا ہے اور اب بھی دیکھنے والے کو ایسے ہی نظر آئے گا۔ اصل حقیقت دوسری جگہ بیان فرمائی ہے، فرمایا :

« وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا » [ یٰس : ۳۸ ]

’’اور سورج اپنے ایک ٹھکانے کے لیے چل رہا ہے۔‘‘

اور اس ٹھکانے کی وضاحت دوسری روایات میں بیان کی گئی ہے

ابوذر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس قول

{’’ وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ‘‘}

کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ ] [بخاري، التفسیر، سورۃ یٰسٓ، باب قولہ : « و الشمس تجري… » : ۴۸۰۳ ]

’’اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔‘‘

انتہائے مغرب میں ایک قوم سے واسطہ

وہاں جس قوم سے ذوالقرنین کو سابقہ پڑا وہ جاہل اور کافر قسم کے لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو انھیں قتل کردے یا کوئی سخت رویہ اختیار کرے یا اللہ کے فرماں بردار بن جانے کی دعوت دے اور ان سے نرم برتاؤ کرے۔

قرآن میں ہے

وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا (الکہف :86)

اور اس کے پاس ایک قوم کو پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین! یا تو یہ ہے کہ تو (انھیں) سزا دے اور یا یہ کہ تو ان کے بارے میں کوئی نیک سلوک اختیار کرے۔

ذوالقرنین کا اس قوم سے سلوک

ذوالقرنین نے اپنی فتح و قوت کے نشے میں آکر سب کو تہ تیغ کرنے یا غلام بنانے کے بجائے ہر ایک سے وہ سلوک کرنے کا اظہار کیا جس کے وہ لائق تھا۔

چنانچہ ذوالقرنین نے یہ راہ اختیار کی کہ اس قوم کو پوری طرح سمجھایا جائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی جائے

ظالم، کفار اور مشرکین سے سلوک

پھر جو لوگ کفر و شرک پر اڑے رہے اور جنگ پر آمادہ ہو گئے تو ذوالقرنین نے عزم کیا کہ جنگ پر آمادہ لوگوں کو قتل اور قید کروں گا اور غلام بناؤں گا۔ دوسروں سے جزیہ لے کر غلام بنا کر رکھوں گا

قرآن مجید میں ہے

قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُكْرًا (الكهف : 87)

اس نے کہا جو شخص تو ظلم کرے گا سو ہم اسے جلدی سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے عذاب دے گا، بہت برا عذاب۔

اہل اسلام، مومنین سے سلوک

رہے ایمان اور عمل صالح والے تو ان کے لیے بدلے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور ہم ان کے ساتھ اپنے تمام معاملات میں آسانی کا سلوک کریں گے۔

قرآن مجید میں ہے

وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا (الكهف : 88)

اور رہا وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو اس کے لیے بدلے میں بھلائی ہے اورعنقریب ہم اسے اپنے کام میں سے سراسر آسانی کا حکم دیں گے۔

دوسرا سفر مشرق کی جانب

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا (الكهف : 89)

پھر وہ کچھ اور سامان ساتھ لے کر چلا۔

مغرب کی طرف انسانی آبادی کے آخری حصے تک تمام علاقے فتح کرکے اسلام کے زیر نگیں لانے کے بعد اب اس نے مشرق کی طرف آبادی کے آخری حصے تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک نہایت طویل اور دشوار سفر کے لیے ہر قسم کا سازوسامان مہیا کیا اور اپنی زبردست افواج اور جنگی سازو سامان ساتھ لے کر بے شمار دریاؤں، پہاڑوں، جنگلوں اور صحراؤں کو عبور کرتا ہوا اور تمام بادشاہوں کو شکست دیتا ہوا مشرق کی طرف آبادی کی ابتدا تک جا پہنچا۔

مشرق میں ایک عجیب قوم سے واسطہ

وہاں اسے ایسی جانگلی غیرمہذب قوم سے واسطہ پڑا جو اپنا گھر بنانا بھی نہ جانتے تھے۔ سورج کی گرمی یا بارش سے بچنے کے لیے ان کے پاس نہ خیمے کے ہلکے پھلکے گھر تھے اور نہ مکان تھے اور وہ پہاڑوں کی غاروں اور کھوہوں میں اپنا گزر اوقات کیا کرتے تھے یا پھر وہ آفتاب کی تپش اور بارش وغیرہ کو برداشت کرنے کے عادی بن چکے تھے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا (الكهف : 90)

یہاں تک کہ جب وہ سورج نکلنے کے مقام پر پہنچا تو اسے ایسے لوگوں پر طلوع ہوتے ہوئے پایا جن کے لیے ہم نے اس کے آگے کوئی پردہ نہیں بنایا تھا۔

ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو مغرب والے لوگوں کے ساتھ کیا تھا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

كَذَلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا (الكهف : 91)

ایسے ہی تھا اور یقینا ہم نے جو کچھ اس کے پاس تھا اس کا علم کی رو سے احاطہ کر رکھا تھا۔

لفظ کذٰلک کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دوسرے لوگ یا مؤرخ خواہ ذوالقرنین کے کیسے حالات بتائیں اصل واقعہ یہی ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ذوالقرنین کو کیا کیا حالات پیش آئے اور اس کے پاس کیا کچھ موجود تھا

اور کذٰلک کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین نے اس قوم سے بھی اسی طرح کا سلوک کیا جیسا مغربی قوم سے کیا تھا یعنی انھیں اسلام کی تعلیم اور دعوت دی جن لوگوں نے سرکشی کی ان کے ساتھ سختی کی گئی اور جنہوں نے فرماں برداری کی راہ اختیار کی ان سے نرمی کا سلوک کیا گیا۔

(تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ)

نامعلوم علاقے کی طرف تیسرا سفر

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا (الكهف : 92)

پھر وہ کچھ اور سامان ساتھ لے کر چلا۔

مغرب و مشرق کے سفر کے بعد ذوالقرنین کا یہ تیسرا سفر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی جہت بیان نہیں فرمائی کہ وہ شمال ہے یا جنوب یا چاروں جہتوں کا کوئی کونا۔ معلوم ہوتا ہے اسے پوشیدہ رکھنے ہی میں اللہ کی حکمت ہے۔

وہاں ایک ایسی قوم سے ملاقات ہوئی کہ جو ذوالقرنین کی زبان سمجھتے نہیں تھے

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا (الكهف : 93)

یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو ان کے اس طرف کچھ لوگوں کو پایا جو قریب نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں۔

لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا :کا مطلب ہے کہ وہ ذوالقرنین کی اور ذوالقرنین ان کی بولی سمجھنے سے قاصر تھے

ان لوگوں نے ذوالقرنین سے، اپنے اور یاجوج ماجوج کے درمیان ایک دیوار بنانے کی درخواست کی

اس قوم سے آگے دو پہاڑ تھے جن کے پیچھے یاجوج ماجوج کی قوم رہتی تھی ان پہاڑوں کے درمیان ایک درہ تھا، جہاں سے آکر وہ لوگ لوٹ مار کر کے چلےجاتےتھے۔

اس لیے انھوں نے اخراجات ادا کرنے کی پیش کش کرکے اپنے اور یاجوج ماجوج کے درمیان رکاوٹ بننے والی دیوار بنانے کی درخواست کی جو پہاڑوں کی طرح ان کا راستہ روک سکے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا (الكهف : 94)

انھوں نے کہا اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد کرنے والے ہیں، تو کیا ہم تیرے لیے کچھ آمدنی طے کر دیں، اس (شرط) پر کہ تو ہمارے درمیان اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادے۔

ایک سوال

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ لوگ قریب نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں تو پھر ذوالقرنین سے ان کی گفتگو کیسے ہوئی؟

جواب

جواب یہ ہے کہ اشاروں کی زبان میں، جو بین الاقوامی زبان ہے

یا ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان کی زبان سمجھا دی ہو گی، جیسا کہ داؤد و سلیمان علیھما السلام کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔

ایک تیسری صورت مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے لکھی ہے

"ایسی صورتوں میں کسی ترجمان کی وساطت سے ہی بات چیت ہوئی ہوگی”

ذوالقرنین، لوگوں کی طرف سے ملنے والی پیش کش کا جواب دیتے ہیں

قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا (الكهف : 95)

اس نے کہا جن چیزوں میں میرے رب نے مجھے اقتدار بخشا ہے وہ بہتر ہیں، اس لیے تم قوت کے ساتھ میری مدد کرو کہ میں تمھارے درمیان اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنا دوں۔

یعنی کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ میری دسترس میں دیا ہے وہ تمھارے دیے ہوئے اخراجات سے کہیں بہتر ہے، سو تم خرچ کی فکر مت کرو۔البتہ لیبر یا مزدور تم مہیا کر دو تو میں ایسی دیوار بنوادوں گا

دیوار کا مٹیریل اور تعمیری پراسس

01.پتھر

ذوالقرنین کا یہ کہنا

أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا (_الكهف : 95)

کہ میں تمھارے درمیان اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنا دوں۔

جہاں دیوار کی مضبوطی اور موٹائی کی طرف اشارہ کررہا ہے وہاں اس کے میٹیریل کی نشاندہی بھی کررہا ہے کیونکہ ’’رَدْمًا‘‘ کا معنی خالی جگہ کو پتھروں سے پر کرنا اور پتھروں کی بنی ہوئی موٹی دیوار ہے

02. لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے

ذوالقرنین نے ان سے کہا

آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ (الكهف : 96)

تم میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لائو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ (الكهف : 96)

یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کا درمیانی حصہ برابر کر دیا

معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ذوالقرنین نے دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصہ(درہ) کے دونوں طرف لوہے کے اونچے اونچے اور بڑے ٹکڑے نصب کیے جو اتنے اونچے تھے کہ ان پہاڑوں کے برابر لمبے تھے اور پھر ان کا درمیانی حصہ پتھروں سے پر کر دیا

لوہے کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ویلڈنگ کا مرحلہ

ذوالقرنین نے پہاڑوں کے دونوں کناروں کے برابر لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے جوڑنے کے بعد انہیں یک جان کرنے کے لیے انھیں آگ سے سرخ کرنے کا حکم دیا

قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا (الكهف : 96)

تو کہا ’’دھونکو‘‘ یہاں تک کہ جب اس نے اسے آگ بنا دیا

دیوار کو مضبوط، چکنا کرنے اور پھلانگے جانے سے بچانے کے لیے اوپر تانبے کی تہہ بٹھا دی

دوسری طرف تانبے کو پگھلانے کا بندوبست کیا گیا تھا

جب لوہے کے ٹکڑے اور تختے پگھل پگھل کر سراسر آگ بن گئے تو اس نے کہا

قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا (الكهف : 96)

تو کہا لائو میرے پاس کہ میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں۔

پگھلا ہوا تانبہ اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہو گیا

اس طرح وہ لوہے اور تانبے کی بہت موٹی، مضبوط اور پہاڑوں کے برابر بلند اور چکنی دیوار بن گئی، جس پر نہ یاجوج ماجوج چڑھ سکتے تھے، نہ اس میں سوراخ کر سکتے تھے۔

پراسرار دیوار کے عجائبات

ہزاروں فٹ اونچی اس دیوار کو بنانے میں سائنس کے کیا کیا علوم استعمال ہوئے

لوہے اور تانبے کی کتنی مقدار صرف ہوئی

پہاڑوں کے درمیان ان کی بلندی کے برابر لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے مہیا کرنا، انھیں اوپر پہنچانا اور جوڑنا

اتنی بلندی پر لوہے کو کیسے سرخ کیا گیا

اور تانبے کی اتنی مقدار اس قدر بلندی پر پہنچانے تک کیسے پگھلی ہوئی حالت میں رکھی گئی

اور اتنی موٹی دیوار جب سرخ ہوئی ہوگی تو اس کے پاس کھڑا ہو کر پگھلا ہوا تانبا کیسے ڈالا گیا ہوگا

پھر یہ کام کتنی مدت میں مکمل ہوا

یہ سب کچھ اب صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

ہمارے اس ترقی یافتہ دور میں بھی امر محال نظر آتا ہے، مگر اہرام مصر کو دیکھیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ہم سے ہزاروں سال پہلے جر ثقیل (وزنی اشیاء کو کھینچنے اور اوپر لے جانے) کا علم آج سے بہت آگے تھا۔

ایسی مضبوط دیوار کے پھر یاجوج ماجوج اس پر چڑھ سکے اور نہ ہی سوراخ کر سکے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا (الكهف : 97)

پھر نہ ان میں یہ طاقت رہی کہ اس پر چڑھ جائیں اور نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے۔

ذوالقرنین نے اس دیوار پر کس نام کی تختی لگائی

ذوالقرنین نے دیوار بنا کر اسے اپنا کارنامہ قرار دینے کی بجائے اپنے رب کی رحمت قرار دیا، جس کی بدولت وہ لوگ یاجوج ماجوج کے حملوں سے محفوظ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی مضبوطی کے باوجود اسے لازوال قرار دینے کے بجائے فرمایا کہ جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سے سچا ہے۔

قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا (الكهف : 98)

کہا یہ میرے رب کی طرف سے ایک رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آگیا تو وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سے سچا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے تب یاجوج ماجوج کو چھوڑ دیں گے

فرمایا

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (الكهف : 99)

اور اس دن ہم ان کے بعض کو چھوڑیں گے کہ بعض میں ریلا مارتے ہوں گے اور صور میں پھونکا جائے گا تو ہم ان کو جمع کریں گے، پوری طرح جمع کرنا۔

اس دن سے مراد یہ ہے کہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار کے مسمار ہونے کے وقت یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بے حساب تعداد میں یلغار کرتے ہوئے نکلیں گے۔

یاجوج ماجوج اولاد آدم میں سے ہی ہیں

حکم دیا جا ئےگا۔آگ میں بھیجے جانے والوں کو( اپنی صفوں سے)باہرنکالو پوچھا جائے گا ۔کتنوں میں سے (کتنے؟)کہاجائے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7374)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک وہ دیوار ہاتھ کی انگلی سے بنائے جانے والے سوراخ کے برابر کھل چکی تھی

زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ سرخ تھا اور آپ فرما رہے تھے

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدْ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ (بخاری ، كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ»7135)

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ عربوں کی تباہی اس بلا سے ہوگی جو قریب ہی آلگی ہے ۔ آج یا جوج ماجوج کی دیوار میں سے اتنا سوراخ ہو گیا

اور آپ نے اپنے انگوٹھے اور اس کی قریب والی انگلی کو ملاکر ایک حلقہ بنایا۔

یاجوج ماجوج کے سامنے بنی ہوئی دیوار کیسے ٹوٹے گی

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

"یاجوج ماجوج روزانہ (دیوار) کھودتے ہیں حتی کہ جب (اتنی کم موٹی رہ جاتی ہے کہ) انہیں سورج کی روشنی (اس کے آرپار) نظر آنے کے قریب ہوتی ہے تو ان کا افسر کہتا ہے: واپس چلو، اس (باقی دیوار) کو ہم کل کھود ڈالیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے پھر پہلے سے بھی انتہائی سخت کر دیتا ہے۔ جب ان کا مقرر وقت آئے گا اور اللہ تعالی کی منشاء ہو گی کہ انہیں لوگوں تک پہنچنے دے تو وہ کھودیں گے، جب وہ سورج کی روشنی دیکھنے کے قریب ہوں گے تو ان کا افسر کہے گا:چلو، اس کو ہم کل کھود لیں گے ان شاء اللہ۔ وہ اللہ کی مرضی کا ذکر کریں گے تو (اس کی یہ برکت ہو گی کہ) جب (صبح کو) واپس آئیں گے تو اسے اسی حالت میں پائیں گے جیسی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اسے کھود کر لوگوں کے سامنے نکل آئیں گے

(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4080)

یاجوج و ماجوج ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے

دیوار ٹوٹتے ہی وہ بڑی تیزی سے دوڑتے ہوئے انسانی آبادیوں کی طرف رخ کریں گے

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الأنبياء : 96)

یہاں تک کہ جب یاجوج اورماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔

مسلمان ،طور پہاڑ پر چڑھ جائیں گے

اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے )بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

مسلمان اپنے مویشی چراگاہوں میں چھوڑنے کی بجائے اپنے ساتھ لے جائیں گے

مسلمان ان سے ایک طرف ہو جائیں گے (ان کی کثرت دیکھ کر مقابلہ نہیں کریں گے) حتی کہ بچے کھچے مسلمان اپنےشہروں اور قلعوں میں چلے جائیں گے اور مویشی بھی اپنے پاس رکھیں گے (چراگوں میں نہیں چھوڑیں گے) (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

عیسی علیہ السلام اور دیگر مسلمانوں کی حالت زار

اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر (قیمتی)ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں۔ (اشیاء خورد و نوش کی بے حد کمی کی وجہ سے) اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

ایک دینار 4.374 گرام سونے کے برابر ہے

اور ایک تولہ یعنی دس گرام سونے کی قیمت 104100 روپے ہے

ایک گرام سونے کی قیمت 10410 روپے ہے

ایک دینار یعنی 4.374 گرام سونے کی قیمت 45533 روپے ہے

اور سو دینار 4553334 روپے ہے

یاجوج ماجوج راستے میں آنے والے پانی کے دریا اور نہریں پی کر خشک کر دیں گے

یاجوج ماجوج کا یہ حال ہو گا کہ کسی نہر کے پاس سے گزریں گے تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے، کچھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی فوج کا پچھلا حصہ وہاں سے گزرے گا تو ان میں سے کوئی کہنے والا کہے گا: (شاید) اس جگہ کبھی پانی ہوتا تھا۔ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

مسلم کی روایت میں ہے

ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل )بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو(پانی)ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے۔”کبھی اس (بحیرہ )میں (بھی)پانی ہوگا۔ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

راستے میں آنے والے سب لوگوں کو قتل کر دیں گے اور پھر آسمان والوں کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے

پھر وہ (آگے) چلیں گے یہاں تک کہ وہ جبل خمرتک پہنچیں گےاور وہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے تو کہیں گے جو کوئی بھی زمین میں تھا ہم نے اسے قتل کردیا آؤ! اب اسے قتل کریں جو آسمان میں ہے پھر وہ اپنے تیروں (جیسے ہتھیاروں)کو آسمان کی طرف چاہیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے ہتھیاروں کو خون آلود کرکے انھی کی طرف واپس بھیج دے گا (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7374)

تب وہ کہیں گے: ہم نے آسمان والوں کو قتل کر دیا ہے۔ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

یاجوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پڑ جائیں گے

اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ ان پر ایسے حشرات ان کی گردنوں پر حملہ آور ہوں گے۔ تو وہ اس طرح مر مر کر ایک دوسرے پر گریں گے جیسے ٹڈی دل یک بارگی مرجاتا ہے۔ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

صحیح مسلم میں ہے

تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج )پر ان کی گردنوں میں کیڑوں کا عذاب نازل کر دے گا

تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (یکبارگی)اس کا شکار ہوجائیں گے۔ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

مسلمان اپنے میں سے ایک آدمی کو یاجوج ماجوج کی خبر معلوم کرنے کے لیے نیچے بھیجیں گے

صبح کو مسلمانوں کو ان کی حس و حرکت سنائی نہ دے گی تو وہ کہیں گے:

کون بہادر آدمی اپنی جان خطرے میں ڈال کر معلوم کرے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟

ان میں سے ایک آدمی (قلعے سے )اترے گا او وہ (اپنے دل میں) ان کے ہاتھوں قتل ہونے پر تیار ہوگا ، وہ دیکھے گا کہ سب (یاجوج ماجوج) ہلاک ہوچکے ہیں ۔ وہ آواز دے گا:خوش ہوجاؤ ! اللہ نے تمہارے دشمنوں کو تباہ کردیا ہے ۔ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر مسلمان نیچے اتریں گے*

پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اترکر (میدانی)زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی۔جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔اس پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

سنن ابن ماجہ میں ہے

تب (مسلمان)لوگ (اپنے حصار سے )نکلیں گے اور اپنے جانوروں کوچھوڑیں گے ۔ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

مسلمانوں کے جانور یاجوج ماجوج کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے

(مسلمان)لوگ (اپنے حصار سے )نکلیں گے اور اپنے جانوروں کوچھوڑیں گے ۔ جانوروں کوچرنے کے لئے ان (یاجوج ماجوج) کے گوشت کے سوا کوئی خوراک میسر نہ ہوگی ۔ وہ ان کوکھاکھا کر اس طرح موٹے اور بہت دودھ والے ہوجائیں گے جیسے بہترین چارہ کھاکر خوب موٹے تازے او ر دودھ والے ہوجاتےہیں ’’۔ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4079)

مویشی گوشت نہیں کھاتے لیکن جس طرح اس زمانے کے دوسرے بہت سے واقعات معمول کے خلاف ہیں اسی طرح یہ بھی ہوگا کہ مویشیوں کو ان مرے ہوئے افراد کا گوشت کھانے کی عادت ہوجائے گی۔چنانچہ ان مرے ہوئے لوگوں کا گوشت کھائیں گے۔اور وہ گوشت ہضم بھی کرسکیں گے

یاجوج ماجوج کی مردہ لاشوں سے زمین کی صفائی کا عمل

تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے )پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کوئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ )اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔

وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کر چھوڑےگی۔ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

زمین کی رونقیں اور فراوانی بحال کر دی جائے گی

پھر زمین سے کہاجائے گا۔اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹالاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی )برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

مسلمان یاجوج و ماجوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ بطور ایندھن استعمال کریں گے

حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

سَيُوقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَنُشَّابِهِمْ وَأَتْرِسَتِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4076)

یاجوج ماجوج کی کمانوں ، تیروں اور ڈھالوں کو مسلمان سات سال تک ایندھن کے طور پر استعمال کریں گے

یاجوج و ماجوج کے بعد بھی بیت اللہ کا حج ہوگا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ (بخاری ،كِتَابُ الحَجِّ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {جَعَلَ اللَّهُ الكَعْبَةَ البَيْتَ الحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ1593)

بیت اللہ کا حج اور عمرہ یا جوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔

ایک خوشگوار ہوا اور مومنین کی موت

وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے۔کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی۔

اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

زمین پر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہوگی

اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح (برسرعام)آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔” (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)