یقین رکھیں کہ اسلام پوری دنیا پر غالب ہوگا 

 

         ===============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ [آل عمران : 139]

اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔

 جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

[ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : لا تزال طائفۃ من أمتی… : ۱۹۲۲ ]

 ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، اس پر مسلمانوں کی ایک قوی جماعت لڑتی رہے گی، حتیٰ کہ قیامت قائم ہو۔‘‘

پچھلے بیس سال امت مسلمہ کے لیے انتہائی غمناک، مایوس کن اور پریشانی کی حالت میں گزرے ہیں

اسی مایوسی میں کتنے لوگ ہیں جو جو لذت ایمانی کھو بیٹھے،مایوسی کا شکار ہو کر رہ گئے، یقین علی اللہ سے محروم ہوئے اسلام، پیغمبر اسلام حتی کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق عجیب و غریب گمانات ان کے دلوں میں گردش کرنے لگے

ہمارے استاذ گرامی جناب نصر جاوید صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں جن دنوں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا پھر تھوڑے وقت کے بعد عراق پر حملہ کردیا دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی دو عظیم حکومتیں تاراج ہوگئیں تیزی سے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا ہر طرف مایوسی کا سماں بندھا ہوا تھا

 ابتلاء و آزمائش کے ان حالات میں بعض کمزور مسلمانوں کیفیت یہ بن گئی تھی کہ  ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا مسلمانوں کا کوئی خدا موجود بھی ہے (جو ان کی مدد کرسکے) یا نہیں❓ (العیاذ باللہ)

اور دوسری طرف کچھ وہ بھی تھے جو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ایمان ویقین کے ساتھ امریکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے

دیکھیں آزمائشوں، مصیبتوں اور پریشانیوں میں ایمان کیسے لڑکھڑاتے، ڈولتے، ڈگمگاتے اور کیسے بنتے، سنورتے اور مضبوط ہوتے ہیں

یہ آزمائشیں تو ہوتی ہی پرکھنے کے لیے ہیں

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ [الملك : 2]

وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہی سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔

آزمائش کا سامنا کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ایک وہ جو صبر شکر کرتے ہوئے اپنے ایمان و یقین کو مضبوط کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رب العزت کو ناراض کرنے والی باتیں کرتے ہیں

غزوہ احزاب کی آزمائش اور لوگوں کی دو مختلف آراء

احزاب کے حالات ہمارے سامنے ہیں اتنی سخت آزمائش تھی کہ خود اللہ رب العزت نے اس کو یوں بیان کیا

إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [الأحزاب : 10]

جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آگئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔

هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا [الأحزاب : 11]

اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔

اس آزمائش کا سامنا کرنے والے بے صبرے، بے شکرے اور منافق لوگ کہنے لگے

 مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا [الأحزاب : 12]

 اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔

جبکہ اسی آزمائش کا سامنا کرنے والے صابر وشاکر مومن لوگ کہنے لگے

 هَذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا [الأحزاب : 22]

 یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اوراس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔

آج کے بعد ہم چڑھائی کریں گے یہ نہیں

یہی وہ پر کٹھن موقع تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے یقین سے فرمایا تھا

  الْآنَ نَغْزُوهُمْ وَلَا يَغْزُونَنَا نَحْنُ نَسِيرُ إِلَيْهِمْ  (بخاری ،كِتَابُ المَغَازِي،بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِيَ الأَحْزَابُ،4110)

 اب ہم ان سے جنگ کریں گے ‘ وہ ہم پر چڑھ کر نہ آسکیں گے بلکہ ہم ہی ان پر فوج کشی کیا کریں گے

اللہ تعالیٰ کا وعدہ کیا ہے

فرمایا

 نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ [الصف : 13]

 اللہ کی طرف سے مدد اور قریب فتح ہے اور ایمان والوں کو خوش خبری سنا دے۔

اور فرمایا

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ [القمر : 45]

عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ [الصف : 8]

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کے ساتھ بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے،اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [الصف : 9]

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے ، اگرچہ مشرک لوگ ناپسند کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو ماریں کھاتے ہوئے دیکھ کر بھی غلبہ اسلام کی بشارتیں ہی دیتے رہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمیہ، یاسر اور ان کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہم اجمعین ماریں کھاتے ہوئے  دیکھ کر بھی مایوسی اختیار نہیں کی

بلال رضی اللہ عنہ کو تکلیفوں میں مبتلا دیکھ کر بھی مایوس نہیں ہوئے

خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

 أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً وَهُوَ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَقَدْ لَقِينَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ شِدَّةً فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ فَقَعَدَ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ فَقَالَ لَقَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ لَيُمْشَطُ بِمِشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عِظَامِهِ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَيُوضَعُ الْمِنْشَارُ عَلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَيْنِ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ مَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ

(بخاری ،كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ،3612)

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے تلے چادر مبارک پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ ہم لوگ مشرکین سے انتہائی تکالیف اٹھا رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ سے آپصلی اللہ علیہ وسلم دعاکیوں نہیں فرماتے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے ۔ چہرہ مبارک غصہسے سرخ ہوگیا اور فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گذر چکے ہیں کہ لوہے کے کنگھوں کو ان کے گوشت اورپٹھوں سے گذار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا گیا اور یہ معاملہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا ، کسی کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئےے گئے اور یہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا ، اس دین اسلام کو تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دن تمام وکمال تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاءسے حضرت موت تک ( تنہا ) جائے گا اور ( راستے ) میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف تک نہ ہوگا ۔ بیا ن نے اپنی روایت میںیہ زیادہ کیا کہ ” سوائے بھیڑےے کے کہ اس سے اپنی بکریوں کے معاملہ میں اسے ڈرہوگا

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزم و یقین کا اندازہ کیجئے، کوئی پرسان حال نہیں ہے، ساتھی ماریں کھا رہے ہیں، شعب ابی طالب کی سخت گھاٹی میں پس رہے ہیں لیکن کیا کہہ رہے ہیں

وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ مَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ

بقول اقبال

 یقیں محکم، عمل پیہم، محبّت فاتحِ عالم

 جہادِ زِندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

دنیا کے خزانے مسلمانوں کے قدموں میں ہونگے

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا

 يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ قُلْتُ لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ قُلْتُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى قُلْتُ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ قَالَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ

 عدی ! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے ؟ ( جوکوفہ کے پاس ایک بستی ہے ) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں ، البتہ اس کانام میں نے سنا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور ( مکہ پہنچ کر ) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا ۔ میں نے ( حیرت سے ) اپنے دل میں کہا ، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوو ¿ں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کردیا ہے اور فساد کی آگ سلگارکھی ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے ( تم پر ) کھولے جائیں گے ۔ میں ( حیرت میں ) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز ( ایران کا بادشاہ ) کسریٰ آپ نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز ! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تویہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا ، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوگی ( جو اس کی زکوٰۃ ) قبول کرلے لیکن اسے کوئی ایساآدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کرلے

حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ

فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنْ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ

(بخاری ،كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ،3595)

 میں نے ہودج میںبیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور ( مکہ پہنچ کر ) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے ( ڈاکو وغیرہ ) کا ( راستے میں ) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے ۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لوگے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ( زکوٰۃ کا سونا چاندی ) بھر کر نکلے گا ( لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا )

امت مسلمہ کی حکومت مشرق و مغرب تک پھیلے گی

 ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ

[ مسلم، الفتن، باب ھلاک ھٰذہ الأمۃ بعضھم ببعض: ۲۸۸۹]

 ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین لپیٹ دی یہاں تک کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب دیکھے اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جو میرے لیے اس میں سے لپیٹا گیا ہے۔‘‘

 مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 : لاَ يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ بَيْتِ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ كَلِمَةَ الإِسْلاَمِ بِعِزِّ عَزِيزٍ ، أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ ، يُعِزَّهُمُ اللَّهُ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا ، أَوْ يُذِلُّهُمْ فَلاَ يَدِينُوا لَهَا.

المستدرك للحاكم (4/ 430)،8324- و صححہ ھو والذھبی هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ.

کہ زمین کی پشت پر نہ کوئی اینٹ کا مکان اور نہ پشم کا (خیمہ) باقی رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت بخشے گا تو وہ اس میں داخل ہو جائیں گے، یا انھیں ذلیل کرے گا تو اس کے تحت ہو جائیں گے۔

لوگ پتھر ماررہے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پورے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ انہی پتھر مارنے والوں کی نسلیں اسلام کی محافظ ہونگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم ( قریش ) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ (طائف) کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے ( طائف کے سردار ) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا ۔ لیکن اس نے ( اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا ۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچاتب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا ۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں ۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا

يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ، ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟

کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہں نے بھی وہی بات کہی آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ( جن سے وہ چکنا چور ہوجائیں )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،

بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

(بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِينَ وَالمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، آمِينَ،3231)

 مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔

پھر لوگوں نے دیکھا کہ ھند و سند کو اسلام کے تابع کرنے والے محمد بن قاسم اور حجاج بن یوسف رحمهما اللہ انہیں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے

میں ایک ایسا ملک حاصل کرنے والا ہوں جو دنیا کے تمام ممالک کو کھا جائے گا

عزم مصمم، یقین محکم، اور جزبہءِ تسخیرِ عالم کا پرزور منظر تب بنا جب حالت یہ تھی کہ دشمن چاروں طرف آپ کی تلاش میں سرگرداں تھا سواونٹ انعام رکھ دیا گیا تھا قتل کے سب منصوبے تیار تھے اور خود کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں عابرسبیل کی طرح محو سفر تھے کہ ساتھی نے پوچھا اس ہجرت کا مقصد کیا ہے تو فرمانے لگے

 أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ

(بخاری ،كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ،بَابُ فَضْلِ المَدِينَةِ وَأَنَّهَا تَنْفِي النَّاسَ،1871)

 مجھے ایک ایسے شہر (میں ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھالے گا

دنیا کے بادشاہوں کو لکھے جانے والے خطوط کے متون اور یقین و شجاعت کا حسین منظر نامہ

رسائل نبویہ کے متون دیکھنے سے پہلے یہ بات زہن نشین کر لیں کہ جب آپ نے یہ خطوط لکھے تھے اس وقت تک مسلمان کوئی بڑی قوت کے طور پر سامنے نہیں آئے تھے بلکہ اسی سال کی بات ہے کہ مکہ مکرمہ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے لیکن عمرہ ادا کیئے بغیر واپس آنا پڑا اور حالت یہ تھی صلح حدیبیہ میں دشمن نے اپنی مرضی کی انتہائی عجیب شرائط رکھیں کہ جنہیں ناچاہتے ہوئے بھی مسلمانوں کو ماننا پڑا

مگر یقین و ایمان کی مضبوطی ان خطوط سے ملاحظہ فرمائیں

سب سے پہلی بات یہ کہ ان خطوط میں کوئی چکنی چپڑی باتیں یا مکھن لگانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی

تمام خطوط کا آغاز بادشاہوں کے ناموں کی بجائے

” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” سے کیا گیا

پہلے اپنا نام لکھتے بعد میں مرسل الیہ کا نام لکھتے

دیکھیں

اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم قبط کی جانب

اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہرقل عظیم روم کی طرف

محمد رسول اللہ کی طرف سے کسرٰی عظیم فارس کی جانب

محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب

محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام

لکھتے ہیں

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے

غور کریں اس جملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر خودداری ظاہر ہورہی ہے

پھر لکھتے ہیں

میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہو گے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا

غور کریں کتنا واضح پیغام ہے اور کس قدر محکم یقین ہے

جرأت و بہادری ملاحظہ فرمائیں

لکھتے ہیں

 اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بار گناہ ہو گا

اور اگر تم نے رو گردانی کی تو تم پر اریسیوں (رعایا) کا بھی (گناہ) ہو گا

یعنی کوئی لگی لپٹی نہیں دو ٹوک الفاظ میں پیغام

پھر لکھتے ہیں

 تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آ کر رہے گا لہذا اسلام لاؤ سالم رہو گے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا

مزید لکھتے ہیں

اور اگر تم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہو گی اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آ جائے گی

سچ تو یہ ہے کہ یہ باتیں یقینِ محکم کے بغیر نہیں کہی جا سکتیں اور نہ ہی کوئی مایوس شخص ایسی جرأت کرسکتا ہے

سمندر اور فرعون کے درمیان پھنسے ہوئے موسی علیہ السلام کا یقین

موسیٰ علیہ السلام نے سمندر اور فرعون کے درمیان پھنسے ہوئے فرمایا تھا میرا رب ضرور کوئی راستہ نکالے گا

اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے

فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ [الشعراء : 61]

پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بے شک ہم یقینا پکڑے جانے والے ہیں۔

قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ [الشعراء : 62]

کہا ہرگز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔

فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [الشعراء : 63]

تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار، پس وہ پھٹ گیا تو ہر ٹکڑا بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔

وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ [الشعراء : 64]

اور وہیں ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔

وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ [الشعراء : 65]

اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے، سب کو بچالیا۔

ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ [الشعراء : 66]

پھر دوسروں کو ڈبو دیا۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ [الشعراء : 67]

بے شک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔

سمندر کی بے رحم موجوں کے تھپیڑوں سے نومولود کے زندہ بچ کر واپس آنے کا یقین

اب کوئی تسلیم کر سکتا ہے کہ دو چار دن کے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا جائے تو وہ بچہ صحیح سلامت زندہ واپس لوٹ آئے گا یہ بات عقل کے کسی کونے کھدرے میں قرار نہیں پکڑتی مگر جب یہی بات اللہ رب العزت کہیں کہ ہم ضرور اسے واپس لے کر آئیں گے تو پھر یقین کامل ہونا چاہئے کہ بچہ ہرصورت واپس آئے گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ [القصص : 7]

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تو اس پر ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔

کچھ ہی وقت کے بعد لوگوں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی بچے کو اس کی ماں کی طرف پورے شاہی پروٹوکول کے ساتھ واپس لوٹایا

یوسف علیہ السلام بظاہر موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں ایک وقت آئے گا تو ان ظلم کرنے والوں کو ان کارستانی یاد دلائے گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ [يوسف : 15]

پھر جب وہ اسے لے گئے اور انھوں نے طے کرلیا کہ اسے ایک اندھے کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں اور ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا، اس حال میں کہ وہ سوچتے نہ ہوں گے۔

اس مشکل وقت میں یوسف علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے تسلی دی گئی کہ ایک ایسا وقت ہر صورت آئے گا جب تم ان بھائیوں کو ان کا یہ کام بتاؤ گے، جب کہ طویل مدت اور آج اور اس وقت کے حالات کے فرق کی وجہ سے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ہم اسی بھائی سے پورا غلہ دینے اور صدقہ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں جسے ہم کنویں میں پھینک کر اس سے فارغ ہو چکے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ہم تمہیں ضرور مکہ واپس لائیں گے

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چھوڑ کر جا رہے تھے تو اس وقت کیسے حالات تھے مومنین کی کیا صورت حال تھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہی کمزور لوگ صرف آٹھ سال بعد فاتح بن کر واپس لوٹیں گے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بِالْهُدَى وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ [القصص : 85]

بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تجھے ایک عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے۔ کہہ میرا رب اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے۔

اسلام غالب آنے کے لیے ہے

شرح معانی الآثار للطحاوی میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا اثر حسن سند سے موجود ہے

آپ پورے یقین سے فرمایا کرتے تھے

الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ

اسلام غالب آئے گا اس کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا

یہی بات کئی اور صحابہ سے بھی مروی ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع الصغیر 2778 میں ذکر کی ہے

ٹھنڈی ہوا کا تازہ جھونکا

حالیہ فتح افغانستان مستقبل میں کئی فتوحات کی نوید سنائی دیتی محسوس ہورہی ہے

2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ "ہم مچھر پیدا کرنے والے جوہڑ بند کر دیں گے”

مچھروں سے مراد علماء و ملا لوگ تھے اور جوہڑوں سے مراد مساجد و مدارس تھے

لیکن بیس سال بعد دنیا جہاں کی ذلتیں سمیٹے جب واپس گئے ہیں تو پیچھے جو منظر بنا ہے ہر طرف ملا ہی ملا، ملا ہی ملا

وزیراعظم: ملا محمد حسن اخند

نائب وزیراعظم اول: ملا عبدالغنی برادر

نائب وزیراعظم دوم: ملا عبدالسلام حنفی

وزیردفاع: مولوی محمد یعقوب

وزیرداخلہ: سراج الدین حقانی

وزیرخارجہ: مولوی امیرخان متقی

وزیرخزانہ: ملا ہدایت اللہ بدری

‏وزیرتجارت: قاری دین حنیف

وزیرقانون: مولوی عبدالحکیم

وزیرتعلیم: مولوی نوراللہ منیر

وزیراطلاعات: ملا خیراللہ خیرخواہ

وزیرحج و اوقاف: مولوی نورمحمد ثاقب

وزیرسرحدات و قبائل: ملا نوراللہ نوری

یہ سب میرے رب کی تدبیر سے ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ [آل عمران : 54]

اور انھوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا

وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ [النمل : 50]

اور انھوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال چلی اور وہ سوچتے تک نہ تھے۔

اور فرمایا

وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ [یوسف 21]

اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اور فرمایا

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ [یوسف 40]

حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں

ہماری ذمہ داری

اسلام دنیا پر غالب آ کر ہی رہنا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارتیں ہیں

لیکن

ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم مایوس و ناامید اور منفی سوچ کی بجائے یقین محکم پیدا کرتے ہوئے اس کی جدوجہد کریں

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ [الروم : 60]

پس صبر کر، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ لوگ تجھے ہرگز ہلکا نہ کر دیں جو یقین نہیں رکھتے۔

یعنی خوب مستحکم اور مضبوط ہو کر اپنے موقف پر ڈٹے رہیں۔

دنیا کی امامت یقینِ محکم سے جڑی ہوئی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ [السجدة : 24]

اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔

ان ائمہ کو پیشوائی کا یہ مقام دو وجہ سے حاصل ہوا، ایک صبر کی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری، دعوت، جہاد کے راستے میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کیا۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کی وجہ سے کہ وہ دنیاوی فائدوں اور لذتوں میں پھسل جانے والے نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنے والے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت کا مقام وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو صبر اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کے وصف سے آراستہ ہوں۔

پس لازم ہے کہ

یقین اللہ کے جود و کرم کا ہو۔

 اس کی نصرت و مدد کا ہو۔

 اس کے بارہ میں اچھا گمان ہو۔

 اس کی تدبیر پر اطمینان ہو۔

 وہاں دیر ہو سکتی ہے لیکن اندھیر نہیں۔

پھر علم وعمل کی مضبوطی ہو۔

تو ان شاءاللہ تسخیرِ عالم، غلبہ اسلام، اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی بہار تازہ بالکل قریب ہے

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں