اسلام بے حیائی کی روک تھام کیسے کرتا ہے

قسط (2)

16.نکاح کے ذریعے سے

شریعت میں اسلامی معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کے لیےنوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ فطری خواہش کو جائز طریقہ سے پورا کرنے کا موقعہ موجود ہو

اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے

فرمایا :

«وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ » [ النور : ۳۲ ]

’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے، جوان تھے اور کوئی چیز نہ پاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا :

[ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ] [ بخاري، النکاح، باب من لم یستطع البائۃ فلیصم : ۵۰۶۶، ۵۰۶۵ ]

’’اے جوانو کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کر سکتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو بہت نیچا کرنے والا اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نکاح کرنے والے کی مدد کرتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُهُمُ الْمُكَاتَبُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ] [ نسائي، النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذي یرید العفاف : ۳۲۲۰۔ ترمذي : ۱۶۵۵، قال الترمذي والألباني حسن ]

’’تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے، وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘

فرمایا

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ

عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے

اپنی بیوی سے کھیل کود اور دل لگی کرنے کی ترغیب

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ فَإِنَّهُنَّ مِنْ الْحَقِّ (ترمذی/١٦٣٧)

تیر اندازی کرنے، گھوڑے کو سدھانے اور اپنی بیوی سے کھیلنے کے علاوہ ہر کھیل باطل ہے

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

أَتَزَوَّجْتَ

کیا تو نے شادی کرلی ہے

میں نے کہا

نَعَمْ

جی

تو آپ نے فرمایا

بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا

کنواری سے بیوہ سے

میں نے کہا

ثَيِّبًا

بیوہ سے

تو آپ نے فرمایا

أَفَلَا بِكْرٌ تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ

کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی

ابو داؤد 2048

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی بیویوں سے محبت کرنا

باہر کسی عورت سے محبت کرنے کو دل کرے تو گھر آ کر اپنی بیوی سے محبت کرلے

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً فَدَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ لَهُمْ

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عورت کو دیکھا تو اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے اور اپنی حاجت پوری کی پھر صحابہ کرام کی طرف نکلے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ فَإِنَّهُ يُضْمِرُ مَا فِي نَفْسِهِ

بے شک عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے تو جو اس (کی خوبصورتی) میں سے کچھ پائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آجائے

ابو داؤد 2151

”بیٹے کو اگر عفت و پاکدامنی کا خطرہ ہو، اور باپ اس کی شادی کا خرچہ اٹھانے پر قادر ہو، تو باپ پر اس کی شادی کرنا فرض ہے۔“

|[ امام ابن قدامة الحنبلى رحمه الله || المغني : ٢١٧/٨ ]|

17.روزے رکھنے کا حکم دے کر

جو لوگ کسی وجہ سے نکاح نہ کر سکیں،

مثلاً رشتہ نہ ملے،

یا مہر میسر نہ ہو،

یا غلام کو اس کا مالک نکاح کی اجازت نہ دے،

یا کسی اور وجہ سے حالات سازگار نہ ہوں

تو وہ حرام سے بچنے کی بہت زیادہ کوشش کریں، یعنی زنا، قوم لوط کے عمل اور استمنا بالید وغیرہ سے باز رہیں۔ اس کوشش میں نگاہ نیچی رکھنا، بلااجازت دوسروں کے گھروں میں نہ جانا اور خیالات کو پاکیزہ رکھنا وغیرہ آداب شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی اس منہ زور قوت یعنی شہوت کی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے نکاح کا حکم دیا اور جسے نکاح میسر نہ ہو اسے زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھنے کا حکم دیا

فرمایا :ِ

وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ[ دیکھیے بخاري : ۱۹۰۵ ]

اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے

18.مردوں کو حکم دیا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں

اللہ تعالیٰ نے خصوصاً نظر کا ذکر فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے

فرمایا

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ.(النور : 30)

مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔

زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیےنظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔

احمد شوقی نے کہا ہے :

{’’نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَةٌ فَسَلَامٌ فَكَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ‘‘}

’’نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔‘‘

(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

غیر محرم کی طرف دیکھنا آنکھ کا زنا ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذٰلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَهِيْ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ ] [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳ ]

’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کر دیتی ہے۔‘‘

اچانک غیر ارادی نظر

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَةِ الْفَجْأَةِ فَقَالَ اصْرِفْ بَصَرَكَ[ مسلم، الآداب، باب نظر الفجائۃ : ۲۱۵۹ ]

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ سے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب موڑتے ہیں جب وہ ایک غیر محرم عورت کی طرف دیکھ رہے تھے

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ يَوْمَ النَّحْرِ خَلْفَهُ عَلَى عَجُزِ رَاحِلَتِهِ وَكَانَ الْفَضْلُ رَجُلًا وَضِيئًا فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ يُفْتِيهِمْ وَأَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ وَضِيئَةٌ تَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَأَعْجَبَهُ حُسْنُهَا فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا فَأَخْلَفَ بِيَدِهِ فَأَخَذَ بِذَقَنِ الْفَضْلِ فَعَدَلَ وَجْهَهُ عَنْ النَّظَرِ إِلَيْهَا (بخاری)

19.راستے پر کھڑے ہونے سے منع کر دیا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا وَمَا حَقُّهُ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذَى وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ(بخاری و مسلم)

راستوں پر بیٹھنے سے بچو

انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول اس کے بغیر ہمارا کوئی چارہ نہیں ہے تو آپ نے فرمایا اگر ضروری ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دو اور اس کا حق یہ ہے کہ کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھو اور تکلیف دہ چیز کو ہٹاؤ اور سلام کا جواب دو اور نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرو

20.حکم دیا کہ اجازت لے کر کسی کے گھر جائیں

دور جاہلیت میں عرب لوگ بلا تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے، کسی سے ملنے کے لیے اس کے دروازے پر کھڑے ہوکر اجازت لینے یا انتظار کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی، بلکہ ہر شخص گھر کے اندر جا کر عورتوں سے بات کر لیتا اور صاحب خانہ کے متعلق پوچھ لیتا اور عورتیں بھی پردہ نہیں کرتی تھیں۔ بعض اوقات اس سے بہت سی اخلاقی خرابیوں کا آغاز ہوتا تھا، اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی دوست ہو یا رشتہ دار اجازت کے بغیر آپ کے گھروں میں داخل نہ ہو

فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُم ْإِلَى طَعَامٍ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں مت داخل ہو مگر یہ کہ تمھیں کھانے کی طرف اجازت دی جائے

پھر سورۂ نور میں تمام گھروں میں داخلے کے لیے اس قاعدے کا اعلان کر دیا گیا

فرمایا

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ.(النور : 59)

اور جب تم میں سے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو اسی طرح اجازت طلب کریں جس طرح وہ لوگ اجازت طلب کرتے رہے جو ان سے پہلے تھے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا :

’’کیا میں اپنی بہن کے پاس جانے کے لیے بھی اجازت مانگوں؟‘‘

فرمایا : ’’ہاں!‘‘

میں نے پھر سوال دہرایا :

’’میری پرورش میں میری دو بہنیں ہیں، ان کا خرچہ میرے ذمے ہے، ان کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤں؟‘‘

فرمایا : ’’ہاں! کیا تم پسند کرتے ہو کہ انھیں برہنہ حالت میں دیکھو۔‘‘

پھر یہ آیت پڑھی :

«{ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ }» [ النور : ۵۸ ] {’’ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ‘‘} تک،

تو ان لوگوں کو صرف ان تین اوقات میں اجازت مانگنے کا حکم دیا گیا،

پھر فرمایا :

«{ وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا }» [ النور : ۵۹ ]

ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا :

’’اب اجازت لینا واجب ہے۔‘‘

[ الأدب المفرد للبخاري : ۱۰۶۳ ]

اجازت مانگنے کا طریقہ

بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی،

کہنے لگا : ’’کیا میں اندر آ جاؤں؟‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے کہا :

’’اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے :

[ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟ ]

’’السلام علیکم، کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘

اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا :

[اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟]

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہو گیا۔‘‘

[ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۷ ]

کَلَدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کے پاس سیدھا چلا آیا، میں نے نہ سلام کہا ( اور نہ اجازت مانگی)،

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اِرْجِعْ فَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ ] [ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان؟ : ۵۱۷۶، صححہ الألباني ]

’’واپس جاؤ اور کہو السلام علیکم۔‘‘

اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے

اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے

اگر اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔

[ دیکھیے بخاري، الاستئذان، باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا : ۶۲۴۵، عن أبي موسٰی رضی اللہ عنہ ]

ایک دفعہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ

تین مرتبہ اجازت مانگو اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کوئی گواہ پیش کرو ورنہ میں آپ کو سزا دوں گا

فَذَهَبَ أَبُو مُوسَى

پھر ابو موسیٰ چلے گئے تو عمر وہاں موجود لوگوں سے کہنے لگے

اگر تو انہیں کوئی گواہ مل گیا تو تم شام کو انہیں ممبر کے پاس پاؤ گے اور اگر نہ ملا تو پھر نہیں پاؤ گے

شام ہوئی تو وہ ابوالطفیل کو اور ایک روایت میں ہے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے کر آ گئے جنہوں نے گواہی دی کہ ہم نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے

مسلم 5633

اپنا تعارف بھی کروائیں

دروازہ کھٹکھٹانے یا سلام کہنے پر اگر گھر والے پوچھیں، کون ہے تو اپنا نام بتائے۔

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں حاضر ہوا، جو میرے والد کے ذمے تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :

[ مَنْ ذَا؟ فَقُلْتُ أَنَا، فَقَالَ أَنَا أَنَا ]

’’کون ہے؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں، میں۔‘‘

گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔

[ بخاري، الاستئذان، باب إذا قال من ذا؟ فقال أنا : ۶۲۵۰ ]

اجازت مانگتے وقت دروازے کے بالکل سامنے مت کھڑے ہوں

ہزیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا،

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ هٰكَذَا عَنْكَ أَوْ هٰكَذَا، فَإِنَّمَا الْاِسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ ]

[ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۴، صححہ الألباني ]

’’اس طرف ہو جاؤ یا اس طرف، کیونکہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت مانگی جاتی ہے۔‘‘

‏‎#فائدة_اليوم

❍ من آداب الزيارة

قال سفيان الثوري:

"إذا دخلت بيتا فاجلس حيث يأمرك صاحب الدار، فإن صاحب الدار أعرف بعورة داره ".(١)

ـــــــــــــ

(١)فتح الباري لابن رجب(168/3)

21.کسی کےگھربلا اجازت جھانکنے والے کی آنکھ رائیگاں قرار دی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لَوِ اطَّلَعَ فِيْ بَيْتِكَ أَحَدٌ وَ لَمْ تَأْذَنْ لَهُ خَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ مِنْ جُنَاحٍ ]

[ بخاري، الدیات، باب من أخذ حقہ… : ۶۸۸۸ ]

’’اگر کوئی آدمی تیرے گھر میں جھانکے، جبکہ تو نے اجازت نہ دی ہو اور تو کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہو گا۔‘‘

اندازہ کیجئے کہ دینِ اسلام عفت و عصمت کے دفاع کیلئے کس قدر اقدامات کرتا ہے وہ آنکھ کہ جس کی قیمت پچاس اونٹوں کے برابر تھی لیکن جب خائن بنتے ہوئے کسی کے گھر جھانکنے لگی تو خس وخاشاک سے بھی نیچے گرا دی گئی

22.اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام فرما دی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نےمردوں کو عورتوں سے عام میل جول سے بھی منع فرما دیا۔

مسلم کی ایک روایت میں ہے :

آپ نے فرمایا

[ لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ ] [ مسلم، الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ : ۱۳۴۱ ]

’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو۔‘‘

کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت منع ہے، حتیٰ کہ خاوند کے بھائی کے ساتھ بھی تنہائی میں بیٹھنا منع ہے، بلکہ دیور اور جیٹھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت قرار دیا۔

عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

[ إِيَّاكُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَاءِ، فقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ ]

[ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ… : ۵۲۳۲۔ مسلم : ۲۱۷۲ ]

’’عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔‘‘ ایک انصاری آدمی نے پوچھا : ’’آپ {’’حَمْوٌ‘‘} (خاوند کے قریبی مثلاً اس کے بھائی یا چچا زاد یعنی کزن وغیرہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟‘‘ فرمایا : ’’حمو‘‘ تو موت ہے۔‘‘

غیر محرم وڈیو میکر کو اکیلی دلہن کے پاس بھیج دینا

ٹیوشن سنٹرز یا اکیڈمیز وغیرہ میں غیر محرم استاد سے اپنی بچی کو بے پردہ ماحول میں تعلیم دلانا

عقیدت کے نام پر غیر محرم پیروں سے مرید عورتوں کا تنہائی میں ملنا

اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کو کالج یا یونیورسٹی آنے جانے کے لیے غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ روانہ کردیا جانا

یہ سب چیزیں حرام خلوت میں ہی آتی ہیں

23.زانی کو زنا کرتے دیکھنے والوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا تاکہ وہ گندگی جہاں ہے وہیں تک محدود رہے،معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے نہ ہوں، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں، ماحول میں زنا کا تذکرہ اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے

ایک، دو یا تین افراد کسی مرد و عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھ لیں تو جب تک چوتھا عینی شاہد نہیں ملتا انہیں یہی حکم ہے کہ خاموشی اختیار کریں تاکہ معاشرے میں گندی خبریں نہ پھیلیں

اور اگر وہ خاموش نہیں رہتے تو انہیں اسی کوڑے مارنے کا حکم دیا ہے

فرمایا

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.(النور : 4)

اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسی (۸۰) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان لوگ ہیں۔

ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین حکم دیے ہیں

پہلا یہ کہ اسے اسّی (۸۰) کوڑے مارو

دوسرا یہ کہ اس کی کوئی شہادت کبھی قبول نہ کرو

اور تیسرا یہ کہ یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں

ایک اور آیت میں انہیں لعنت کے مستحق ٹھہرا دیا

فرمایا

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.(النور : 23)

بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

دوسرے کسی جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اگر کسی شخص نے کسی کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے تو اگر اس کے پاس مزید تین گواہ نہیں تو اسے اجازت نہیں کہ اس کا ذکر کرے، بلکہ اسے خاموش رہنے کا حکم ہے، تاکہ وہ گندگی جہاں ہے وہیں تک محدود رہے، معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے نہ ہوں، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں، ماحول میں زنا کا تذکرہ اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

کوئی شخص اگر چھپ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا اتنا نقصان نہیں جتنا زنا کی اشاعت (بے حیائی کی بات پھیلانے) سے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہاں، اگر کوئی شخص اتنی دیدہ دلیری سے زنا کرتا ہے کہ چار مرد اسے عین حالت زنا میں دیکھتے ہیں تو انھیں اجازت ہے کہ اسے حاکم کے پاس لے جائیں، تاکہ وہ اس پر حد نافذ کرکے اس خبیث فعل کی روک تھام کرے۔ ایک طرف زنا کی سخت ترین حد مقرر فرمائی، دوسری طرف لوگوں کی عزتوں کی حفاظت اور ان کی کمزوریوں پر پردے کے لیے حکم دیا کہ جو شخص کسی پاک دامن پر زنا کا الزام لگائے، پھر چار گواہ پیش نہ کرے تو اسے بہتان کی حد لگاؤ

24.بدکاری کی سخت سزا مقرر کرنے کے ساتھ

اسلام نے بدکاری کی اتنی کڑی سزائیں مقرر کی ہیں کہ اگر وہ نافذ کردی جائیں تو کوئی بھی شخص بے حیائی کے ارتکاب کا سوچ بھی نہیں سکتا

فرمایا

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.(النور : 2)

جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔

اس آیت میں مسلم حکام کو حکم ہے کہ جو عورت یا جو مرد بھی زنا کا ارتکاب کرے، خواہ وہ کسی دین یا ملت سے تعلق رکھتا ہو، اگر ان کا مقدمہ تمھارے پاس لایا جائے، جب وہ شادی شدہ نہ ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو

شادی شدہ زانیہ اور زانی کے لیے رجم کا حکم ہے

عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلاً، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَ نَفْيُ سَنَةٍوَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ [ مسلم، الحدود، باب حد الزنٰی : ۱۶۹۰ ]

’’مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے۔ کنوارا، کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔‘‘

قوم لوط کی سزا

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ