بارش کے احکام و مسائل

 

أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ * أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ * لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ ،،، (واقعہ 68_70)

اگر بارشیں نہ ہو رہی ہوں تو کیا کیا جائے

بارش طلب کرنے کی دعائیں،،،،،،،، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بارش کیلئے دعا کی درخواست کی تو آپ نے ان الفاظ سے دعا کی تھی انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ثم قال اللهم أغثنا اللهم أغثنااللهم أغثنا.،،،، بخاری

نماز استسقاء……. اگر بارشیں نہ ہو رہی ہوں تو بارش طلب کرنے کے لیے نماز استسقاء بہترین طریقہ ہے

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو بارش طلب کرنے کے لیے کھلے میدان میں لے جانا

آسمان پر بجلی کی کڑک یا بادل دیکھ کر کیا کیا جائے

عائشہ رضی اللہ عنھا ہی بیان کرتی ہیں : [ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الرِّيْحِ وَالْغَيْمِ عُرِفَ ذٰلِكَ فِيْ وَجْهِهِ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ سُرَّ بِهِ وَذَهَبَ عَنْهُ ذٰلِكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يَكُوْنَ عَذَابًا سُلِّطَ عَلٰی أُمَّتِيْ، وَيَقُوْلُ إِذَا رَأَی الْمَطَرَ، رَحْمَةً ] [ مسلم، صلاۃ الاستسقاء، باب التعوذ عند رؤیۃ الریح… : ۸۹۹ ] ’’جب ہوا اور بادل والا دن ہوتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں پہچانا جاتا اور آپ (بے چینی کے عالم میں) کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے، جب بارش برسنے لگتی تو خوش ہو جاتے اور آپ کی وہ کیفیت ختم ہو جاتی۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا، میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ڈرتا ہوں کہیں وہ عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔‘‘ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کو دیکھتے تو کہتے : ’’(یا اللہ! اسے) رحمت( بنا)۔‘‘

عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الرِّيحِ وَالْغَيْمِ عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ فَإِذَا مَطَرَتْ سُرَّ بِهِ وَذَهَبَ عَنْهُ ذَلِكَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عَذَابًا سُلِّطَ عَلَى أُمَّتِي وَيَقُولُ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ رَحْمَةٌ ،،،،، مسلم

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آندھی یا بادل کا دن ہوتا تو آپ کے چہرہ مبارک پر اس کا اثر پہچانا جاسکتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اضطراب کے عالم میں)کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے ہٹتے،پھر جب بارش برسناشروع ہوجاتی تو آپ اس سے خوش ہوجاتے اور وہ(پہلی کیفیت) آ پ سے دور ہوجاتی،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:میں نے(ایک بار) آپ سے(اس کا سبب) پوچھا تو آپ نے فرمایا:”میں ڈر گیا کہ یہ عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کردیا گیا ہو”اور بارش کو دیکھ لیتے تو فرماتے”رحمت ہے۔مسلم

عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : [ مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ضَاحِكًا حَتّٰی أَرٰی مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، قَالَتْ وَكَانَ إِذَا رَأٰی غَيْمًا أَوْ رِيْحًا عُرِفَ فِيْ وَجْهِهِ، قَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوْا، رَجَاءَ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ الْمَطَرُ، وَ أَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِيْ وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ! مَا يُؤْمِنِّيْ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ عَذَابٌ، عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيْحِ، وَقَدْ رَأٰی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا : «هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا » ] [بخاري، التفسیر، تفسیر سورۃ الأحقاف : ۴۸۲۸، ۴۸۲۹ ] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ مجھے آپ کا تالو میں لٹکا ہوا گوشت کا ٹکڑا نظر آ جائے، آپ صرف مسکراتے تھے۔‘‘ فرماتی ہیں : ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل یا ہوا دیکھتے تو وہ آپ کے چہرے میں پہچانی جاتی۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہو گی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے میں ناگواری پہچانی جاتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عائشہ ! مجھے اس سے کیا چیز بے خوف کرتی ہے کہ اس میں کوئی عذاب ہو؟ ایک قوم کو آندھی کے ساتھ عذاب دیا گیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے : ’’یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔‘‘

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اورکڑک سنتے تو فرماتے: ‘اللَّهُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلاَ تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ’ ترمذی، نسائی، حسن

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب بادلوں کی کڑک سنتے تو سب باتیں چھوڑ کر یہ کلمات کہا کرتے تھے سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ،،،، مؤطا امام مالک

ہوا یا تیز آندھی چلتے وقت کیا کیا جائے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہوا یا تیز آندھی چلتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے

اللھم انی اسئلک خیرھا وأعوذ بک من شرها (ابو داؤد 5097،،،ابن ماجہ 3727)

بارش کا پانی برکت والا ہے

(وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيد ،،،، (ق، 9)

جس پانی کو اللہ تعالٰی مبارک فرمائے اس کی خیر کی کثرت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے( بھٹوی ح)

بارش کا پانی( بیماریوں اور نجاستوں سے )پاک کرنے والا ہے

(وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا) (فرقان)

دوران بارش کیے جانے والے مسنون اعمال

بارش ہو تو شکر کے یہ کلمات کہے : "مُطِرْنَا بِفَضْلِ الله وَرَحْمَتِهِ”، یعنی اللہ تعالی کی رحمت وفضل سے ہم پر بارش ہوئی۔”ابن ماجہ، بیہقی، حاکم

: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کر تے”اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا” ” اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔۔”بخاری

جمع بین الصلوتین……. الا صلوا فی الرحال

بارش میں نہانا سنت سے ثابت ہے

قَالَ أَنَسٌ أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطَرٌ قَالَ فَحَسَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنْ الْمَطَرِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا قَالَ لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى ،،،،، مسلم

انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نےاپنا(سر اور کندھے کا کپڑا) کھول دیا حتیٰ کہ بارش آپ پر آنے لگی۔ہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ!آپ نے ایسا کیوں کیا؟آپ نے فرمایا:”کیونکہ وہ نئی نئی (سیدھی) اپنے رب عزوجل کی طرف سے آرہی ہے۔”مسلم

بارش میں نہانے کے طبی اور میڈیکلی فوائد

صاف ہوا سے لطف اندوز ہوں

بارشوں میں چلنے والی نم اور ٹھنڈی ہوائیں انسان کی جلد کے لیے نہایت مفید ہیں؟ ماہرین کے مطابق یہ ہوا جلد کے اندر موجود مضر مادوں میں کمی کر کے اسے تازگی بخشتی ہے اور جلد نکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے

بارش کی خوشبو دماغ کو پرسکون کرنے کا سبب

موٹاپے میں کمی

انٹرنیشنل جرنل آف اسپورٹس میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سرد اور نم موسم میں چہل قدمی کرنا عام موسم میں چہل قدمی کرنے کے مقابلے میں زیادہ وزن میں کمی کرتا ہے

ڈپریشن سے نجات

بارش میں بھیگنے سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ بارش کی خوشبو اور اس کی آواز نہایت ہی پرسکون ہوتی ہے اور آپ کی توجہ منفی چیزوں سے ہٹا کر مثبت چیزوں کی طرف مبذول کردیتی ہے

زور دار بارش ہو اور خطرے کا خوف ہوتو کیا کیا جائے

ایسے وقت میں یہ دعا پڑھی جائے

اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ، وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ، وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ- بخاری و مسلم

(اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا ( جہاں ضرورت ہے ) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر)

بارشیں روکنے کے لیے مساجد کے سپیکرز میں اذانیں دینا سنت سے ثابت نہیں ہے

بارش اللہ تعالٰی کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لیے رحمت ہوتی ہے

جیسا کہ بادلوں سے آواز کا سنائی دینا کہ فلاں کی کھیتی سیراب کرو…

بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے بارش

بارش اللہ تعالٰی کی طرف سے باغی اور عاصی لوگوں کے لیے عذاب ہوتی ہے جیسا کہ قوم نوح علیہ السلام پر آنے والا عذاب

(كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ * فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ * فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ * وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ * وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُر[القمر 9_12

بارش کے متعلق قرآنی نقشہ

(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ *( روم 46)

اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ * وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ * فَانْظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)[روم )-

24(أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ)[السجدہ ]

بارش کے متعلق سائنسی نقشہ

بارش کے متعلق جو نقشہ قرآن نے کھینچا ہے آج کی سائنس بھی وحی بات بیان کرتی ہے

موسمی ریڈار کی ایجاد کے بعد ہی یہ دریافت کر نا ممکن ہو اہے کہ وہ کون کون سے مراحل ہیں جن سے گزرکر بارش یہ شکل اختیار کرتی ہے۔ اس دریافت کے مطابق بارش تین مراحل سے گزر کر اس شکل میں آتی ہے:پہلامرحلہ ہو اکی تشکیل کاہے ،دوسرا بادلو ں کے بننے کا اور تیسرا بارش کے قطروں کے گرنے کا،،،،، اور یہی بات قرآن میں موجود ہے

بارش کے پانی میں سمندر، کیچڑ، گندے نالے اور جوہڑ کا ذائقہ کیوں نہیں ہوتا

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بارش کے پانی کا منبع بخارات ہیں اور 97%بخارات ’’نمکین ‘‘ سمندروں گندے جوہڑوں، نالوں اور کیچڑ سے اٹھتے ہیں ۔ مگر بارش کا پانی میٹھا ہو تا ہے۔ یہ میٹھا کیوں ہوتاہے اس کی وجہ اللہ کا بنایا ہو ا ایک اورطبعی قانون ہے۔ اس قانون کے مطابق پانی خواہ بخارات کی شکل میں نمکین سمندروں سے اٹھے یا معدنی جھیلوں سے یا کیچڑ میں، سے اس میں کوئی باہر کا مواد شامل نہیں ہوتا۔ یہ اللہ کے فرمان کے مطابق زمین پر خالص اور پاک صاف شکل میں گرتاہے

اللہ تعالٰی ہر سال اتنی ہی بارش زمین پر اتارتے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالٰی کو بارش کی مقدار حتی کہ ایک ایک قطرے کا علم ہوتا ہے

(وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ)[Surat Al-Mu’minun 18]

(وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ)[Surat Az-Zukhruf 11]

اللہ تعالٰی بارش کے گرتے ہوئے قطروں کی رفتار کنٹرول کرتے ہیں تاکہ تیز رفتاری کے ساتھ زمین پر ٹکرانے سے نقصان نہ ہو

بارش جب برستی ہے تو اس کا پانی ایک خاص مقدار اور رفتار سے زمین پر گرتاہے۔ بارش کا پانی تقریباً 1200میٹر کی بلندی سے گرایا جاتاہے۔چنانچہ کسی اور چیز کو کہ جس کا پانی کے قطرے جتنا وزن اور سائز ہو مسلسل تیزی کے ساتھ اسی بلندی سے زمین پر گرائیں تو وہ چیز زمین پر 558کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرے گی مگر رب کائنات کی مہربانی ہے کہ بارش کے قطروں کی اوسط رفتار 8-10کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بارش کے قطرے کی ایک خاص شکل ہوتی ہے جو کرہ ٔ ہوائی کی رگڑ کے اثر کو بڑھا دیتی ہے اور اسے زمین پر مزید سست رفتاری سے گرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر بارش کے قطروں کی شکل اورہوتی یا کرہ ٔہوائی میں رگڑ کی خا صیت نہ ہوتی تو بارش کے دوران زمین پر کس قدر تباہی پھیلتی

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اولوں کی شکل میں بارش برساتا ہے تودوں کی شکل میں نہیں

زمین سے جیسے جیسے بلندی کی طرف جائیں ٹھنڈک بڑھتی چلی جاتی ہے اور بعض اوقات اللہ کے حکم سے بادل برف کے پہاڑوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ برف کے ان پہاڑوں میں سے تودوں کی شکل میں برف گرانے کے بجائے وہ اسے اولوں کی شکل میں گراتا ہے، جس سے کم از کم نقصان ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی قدرت کا ثبوت ہے کہ وہی سمندر ہے، وہی سورج ہے جس کی تپش سے پانی بخارات بن کر اٹھتا ہے، وہی زمین ہے جس پر برستا ہے، زمین کے ہر قطعے کا سمندر سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا پہلے تھا، پہاڑ جن سے ٹکرا کر سائنسدان بارش برسنے کا ذکر کرتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ ہیں، سارے اسباب یکساں ہونے کے باوجود ہمیشہ ہر جگہ ایک جیسی نہ بارش ہوتی ہے، نہ اولے پڑتے ہیں۔ کسی جگہ اگر کبھی خوش حالی لانے والی بارش ہے تو کبھی وہاں قحط مسلط کرنے والی خشکی ہے، کبھی غرق کر دینے والا سیلاب ہے اور کبھی اولوں کی صورت میں تباہی و بربادی ہے، یہ سب کچھ اللہ مالک الملک کی توحید، اس کی قدرت اور اس کے اختیار کی دلیل ہے۔

اللہ تعالٰی بارش کے ذریعے زمین پر اگنے والی نباتات کے کھاد کا سامان پیدا کرتے ہیں

بارش میں 71 فیصد نائٹروجن( کھاد )ہوتی ہے

آسمانی بجلی میں بھی نائٹروجن ہوتی ہے

۔اس طرح ہر سال 150ملین ٹن کھادپوری زمین پر گرتی ہے

ان فی ذالک لآيات لقوم یوقنون….. یؤمنون

ولعلکم تشكرون

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (الأحقاف : 24)

تو جب انھوں نے اسے ایک بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کا رخ کیے ہوئے دیکھا تو انھوں نے کہا یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسانے والا ہے۔ بلکہ یہ وہ(عذاب) ہے جو تم نے جلدی مانگا تھا، آندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل اٹھتے یا ہوا تیز چلتی تو پریشان ہو جاتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : [ مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ضَاحِكًا حَتّٰی أَرٰی مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، قَالَتْ وَكَانَ إِذَا رَأٰی غَيْمًا أَوْ رِيْحًا عُرِفَ فِيْ وَجْهِهِ، قَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوْا، رَجَاءَ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ الْمَطَرُ، وَ أَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِيْ وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ! مَا يُؤْمِنِّيْ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ عَذَابٌ، عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيْحِ، وَقَدْ رَأٰی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا : «هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا » ] [بخاري، التفسیر، تفسیر سورۃ الأحقاف : ۴۸۲۸، ۴۸۲۹ ] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ مجھے آپ کا تالو میں لٹکا ہوا گوشت کا ٹکڑا نظر آ جائے، آپ صرف مسکراتے تھے۔‘‘ فرماتی ہیں : ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل یا ہوا دیکھتے تو وہ آپ کے چہرے میں پہچانی جاتی۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہو گی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے میں ناگواری پہچانی جاتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عائشہ ! مجھے اس سے کیا چیز بے خوف کرتی ہے کہ اس میں کوئی عذاب ہو؟ ایک قوم کو آندھی کے ساتھ عذاب دیا گیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے : ’’یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا ہی بیان کرتی ہیں : [ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الرِّيْحِ وَالْغَيْمِ عُرِفَ ذٰلِكَ فِيْ وَجْهِهِ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ سُرَّ بِهِ وَذَهَبَ عَنْهُ ذٰلِكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يَكُوْنَ عَذَابًا سُلِّطَ عَلٰی أُمَّتِيْ، وَيَقُوْلُ إِذَا رَأَی الْمَطَرَ، رَحْمَةً ] [ مسلم، صلاۃ الاستسقاء، باب التعوذ عند رؤیۃ الریح… : ۸۹۹ ] ’’جب ہوا اور بادل والا دن ہوتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں پہچانا جاتا اور آپ (بے چینی کے عالم میں) کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے، جب بارش برسنے لگتی تو خوش ہو جاتے اور آپ کی وہ کیفیت ختم ہو جاتی۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا، میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ڈرتا ہوں کہیں وہ عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔‘‘ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کو دیکھتے تو کہتے : ’’(یا اللہ! اسے) رحمت( بنا)۔‘‘