اسلام دین ِ رحمت ہے (2)

اہم عناصرِ خطبہ :

01. رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  رحمۃ للعالمین ہیں

02. رحمت ِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحمت کے متعدد پہلو

03 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سب کیلئے رحمت بنے

04. رحمت ِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور جہاد بالسیف !

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! پچھلے خطبۂ جمعہ میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اسلام دین ِ رحمت ہے ۔ کیونکہ ایک تو اس دین کو بھیجنے والا وہ ہے جو ارحم الراحمین ہے اور اس سے بڑا رحم کرنے والا کوئی نہیں ۔ دوسرا اس لئے کہ اس نے یہ دین جس شخصیت کے ذریعے ہماری طرف بھیجا ہے وہ رحمۃ للعالمین ہیں ۔ ہم نے ’ارحم الراحمین ‘ کے حوالے سے چند گزارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں عرض کی تھیں ۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں اس موضوع کے دوسرے پہلو ، یعنی

رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم   کے بارے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  رحمۃ للعالمین ہیں

اللہ تعالی ’ ارحم الراحمین ‘ ہے تو اس نے جس شخصیت کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا اسے اس نے ’ رحمۃ للعالمین ‘ بنایا اور اس کے ذریعے دنیا بھر کو پیغامِ رحمت دیا ۔  لہذا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی سرا پا رحمت ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دین ِرحمت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں ، آپ

( رؤفٌ رَّحیم ) ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے پوری دنیا کیلئے رحمت بنا کربھیجے گئے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾  [ الأنبیاء : ۱۰۷ ]

’’ اور ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ ‘‘

عزیز بھائیو ! ذرا غور فرمائیے ، اِس آیت ِ مبارکہ میں لفظ (رَحْمَۃً ) نکرہ ہے اور یہ نفی (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ)  کے بعد آیا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  صرف انسانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی تمام مخلوقات کیلئے رحمت ہیں، کیونکہ جو  اسم نکرہ نفی کے بعد آتا ہے وہ عموم وشمول کیلئے ہوتا ہے ۔ آپ انسانوں کیلئے بھی رحمت ہیں اور جنوں کیلئے بھی۔مومنوں کیلئے بھی اور کافروں کیلئے بھی ۔ چھوٹوں کیلئے بھی اور بڑوں کیلئے بھی ۔ نیکوں کیلئے بھی اور بروں کیلئے بھی ۔ مردوں کیلئے بھی اور عورتوں کیلئے بھی ۔ حیوانات کیلئے بھی اور جمادات کیلئے بھی ۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایسی رحمت ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے دین ودنیا اور دارین کی سعادت کے حصول کا ذریعہ بنایا ۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانے کے بعد آپ کی اطاعت وفرمانبرداری کی جائے تو دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اِس آیت کریمہ میں ( وَ مَآ) کے بعد (اِلَّا ) آیا ہے ، یعنی حصر کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت ورسالت اول تا آخر رحمت ہی رحمت ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ’رحمۃ للعالمین‘ ہونا اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔ کسی انسان کی طرف سے نہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ’رحمۃ للعالمین‘ کا مقام ومرتبہ کسی جد وجہد یا ٹریننگ کے نتیجے میں نہیں ملا بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہبہ کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ﴾  [ آل عمران :۱۵۹]

’’ اللہ کی یہ کتنی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان کے حق میں نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ

( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّمَا أَنَا رَحْمَۃٌ مُّہْدَاۃٌ )  [ رواہ الحاکم وصححہ وأقرہ الذہبی ]

 ’’ اے لوگو ! میں تو رحمت ہی ہوں جسے ہدیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ ‘‘

اورحضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  خاص طور پر مومنوں کیلئے بڑے ہی مہربان تھے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ﴾  [ التوبۃ : ۱۲۸]

  ’’ تمھارے پاس ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمھاری ہی جنس سے ہیں ، جن کو تمھارے نقصان کی بات نہایت ہی گراں گذرتی ہے ، جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ ‘‘

اور حضرت مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم چند ہم عمر نوجوان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے  بیس راتیں آپ کے پاس قیام کیا ۔ پھر آپ کو یہ گمان ہوا کہ جیسے ہم اپنے گھر والوں سے ملنے کا شوق رکھتے ہیں ، چنانچہ آپ نے ہم سے ہمارے گھر والوں  کے بارے میں معلومات لیں ۔ ہم نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ۔اور چونکہ آپ بڑے نرم مزاج اور رحمدل تھے اس لئے آپ نے فرمایا :

( اِرْجِعُوا إِلٰی أَہْلِیْکُمْ فَعَلِّمُوْہُمْ وَمُرُوْہُمْ ، وَصَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِی أُصَلِّیْ ، وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ )   [ البخاری : ۶۰۰۸، مسلم : ۶۷۴]

’’ تم اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ ، پھر انھیں بھی تعلیم دو اور میرے احکامات ان تک پہنچاؤ ۔اور تم نماز اسی طرح پڑھنا جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہے ، پھر تم میں جو بڑا ہو وہ امامت کرائے ۔‘‘

اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  تو تھے ہی نبی ٔ رحمت ، جیسا کہ حضرت ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے متعدد نام ذکر فرمائے جن میں سے کچھ تو ہمیں یاد ہیں اور کچھ ہمیں بھول گئے ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَحْمَدُ ، وَالْمُقَفِّیْ ، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَۃِ ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَۃِ )       [ مسلم : ۱۸۲۹ ، مسلم : ۲۳۵۵ ]

’’ میں محمد ، احمد اور المقفی ( یعنی انبیاء  علیہم السلام  میں سب سے آخر میں آکر ان کی پیروی کرنے والا ہوں)  ، الحاشر ( اکٹھا کرنے والا ہوں )  ،  نبیّ التوبۃ ( توبہ کو لانے والا ہوں) اور نبیّ الرحمۃ  ( رحمت کے ساتھ بھیجا گیا) ہوں۔ ‘‘   [ مسلم : ۱۸۲۹ ، مسلم : ۲۳۵۵ ]

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحمت کے کئی پہلو  :

عزیز بھائیو ! نبی ٔ رحمت اور رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحمت کے کئی پہلو ہیں ۔ ہم ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

01. رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کیلئے بڑے ہی رحم دل تھے ۔

آپ اِس کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ پہلے انبیاء  علیہم السلام   جب اپنی امتوں سے مایوس ہو جاتے تو ان کے خلاف  بد دعا کرتے ، یا ان سے براء ت کا اعلان کردیتے ۔ مثلا حضرت نوح  علیہ السلام  نے بد دعا کرتے ہوئے کہا :

 ﴿ رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ٭  اِِنَّکَ اِِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْٓا اِِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴾ [ نوح : ۲۶۔ ۲۷]

’’ اے میرے رب ! کافروں میں سے کوئی بھی گھرانہ اس زمین پر نہ چھوڑ ۔اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی بد کردار اور سخت کافر ہوگی ۔ ‘‘

جبکہ رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  سے جب اہل ِ طائف نے بد سلوکی کی تھی اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے بعد طائف سے مکہ مکرمہ واپس لوٹ رہے تھے تو حضرت جبریل  علیہ السلام  نے انھیں پیش کش کی تھی کہ یہ پہاڑوں کا فرشتہ میرے ساتھ موجود ہے ، اسے آپ جو چاہیں حکم دیں ، پھر اُس فرشتے نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ان لوگوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں ۔ تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا :

 ( بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلَابِہِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا )  [ البخاری : ۳۲۳۱، ومسلم : ۱۷۹۵]

’’ نہیں ، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اُس اکیلئے کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ۔ ‘‘

یہ واقعہ اِس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کیلئے نہایت ہی رحم دل تھے ۔

اسی طرح جب حضرت موسی  علیہ السلام  بنو اسرائیل کو بیت المقدس میں موجود ظالم قوم کے خلاف جہاد کیلئے آمادہ نہ کرسکے اور انھوں نے سرزمین ِ فلسطین میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اے موسی ! آپ اور آپ کا رب جائیں اور ظالم قوم سے قتال کریں تو حضرت موسی  علیہ السلام  نے اپنی بے بسی کا اور اپنی قوم سے براء ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا :

﴿  قَالَ رَبِّ اِنِّّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ﴾   [ المائدۃ : ۲۵]

’’ انھوں نے کہا : اے میرے رب ! بلا شبہ میں تو بس اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر ہی اختیار رکھتاہوں ، لہذا تو ہمارے اور فاسق لوگوں کے درمیان فیصلہ کردے ۔ ‘‘

اِس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالی نے سرزمین ِ فلسطین کو بنو اسرائیل پر چالیس سال تک حرام کردیا۔

جبکہ رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اپنی قوم کے مظالم کے باوجود ان سے کبھی اپنی براء ت کا اعلان نہیں کیا بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بدستور ان کیلئے دعا کرتے رہے کہ ( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ )    [ متفق علیہ ]

 ’’ اے اللہ ! میری قوم کو معاف کردے کیونکہ وہ لا علم ہے ۔ ‘‘

اور حضرت عیسی  علیہ السلام  نے اپنی قوم پر لعنت بھیجی ، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ﴾ [ المائدۃ : ۷۸]

 ’’ بنو اسرائیل میں سے جو لوگ کا فر ہو گئے ان پر داؤد  علیہ السلام  اور عیسی بن مریم  علیہ السلام  کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے آگے نکل گئے تھے۔‘‘

جبکہ رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت پر لعنت نہیں بھیجی ۔ بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے :   ( إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً )  [ مسلم : ۲۵۹۹]

 ’’ میں لعنت بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ ‘‘

اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  رو رو کر اپنی امت کیلئے مغفرت کی دعا کیاکرتے تھے ۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی : ﴿ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾

   ’’ اے میرے رب ! انھوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے ، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘

اور حضرت عیسی  علیہ السلام کے متعلق یہ آیت بھی تلاوت کی :

﴿ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾

’’ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں  اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘

پھر نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور فرمانے لگے : ( اَللّٰہُمَّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ )  ’’ اے اللہ میری امت  ، میری امت ! ‘‘

  اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رونے لگے ۔

 چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ اے جبریل ! جاؤ محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے پاس ۔ اور تیرا رب اگرچہ خوب جانتا ہے لیکن جاکر ان سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟  لہذا حضرت جبریل  علیہ السلام  آئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو کہا تھا وہ انھیں بتایا۔ اور جب حضرت جبریل علیہ السلام  نے اللہ تعالیٰ کو بتایا (حالانکہ وہ تو پہلے ہی جانتا تھا ) تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل  علیہ السلام کو دوبارہ بھیجا اور فرمایا : ( إِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِیْ أُمَّتِکَ وَلاَ نَسُوْئُ کَ ) ’’ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور آپ کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے ۔ ‘‘ [ مسلم : ۳۴۶]

اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  دیگر انبیاء  علیہم السلام  کے مقابلے میں اپنی امت کے کتنے خیرخواہ اور اس کیلئے کتنے مہربان تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی کر سکتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :   ( لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہُ ، وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَہِیَ نَائِلَۃٌ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مَنْ مَّاتَ مِنْ أُمَّتِی لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا )  [  مسلم : ۱۹۹]

’’ ہر نبی کی ایک دعا ( اس کی امت کے حق میں ) قبول کی جاتی ہے ۔ چنانچہ ہر نبی نے وہ دعا دنیا میں ہی کرلی ۔ جبکہ میں نے اپنی دعا کو مؤخر کردیاہے اور وہ میں قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کی صورت میں کروں گا ۔ اور میری شفاعت ہر اس شخص کو نصیب ہوگی جو اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ہو۔ ‘‘

02.  رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کیلئے ہر چیز کو بیان کر دیا اور امت کی خیر خواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے 🙁 مَا بَقِیَ شَییْئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ)  [ الصحیحۃ للألبانی : ۱۸۰۳]

’’ ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اسے تمھارے لئے بیان کردیا گیا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے خطبۂ حجۃ الوداع میں جب صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کے جم غفیر سے یہ سوال کیا تھا کہ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ تب صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا تھا: (  نَشْہَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ )  [ مسلم : ۱۲۱۸]

’’  ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے یقینا دین پہنچا دیا ۔  ( ذمہ داری )  ادا کردی اور امت کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی  ۔‘‘

اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   جب فوت ہوئے تو اپنی امت کو ایک واضح شریعت دے کر گئے جس میں کوئی اخفاء یا ابہام نہیں تھا اور جو شبہات سے بالکل خالی تھی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا ، لَا یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْ إِلَّا ہَالِکٌ )   [ابن ماجہ:۴۳۔وصححہ الألبانی]

’’ میں نے تمھیں ایک واضح اور صاف ستھری ملت پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے۔ صرف ہلاک ہونے والا شخص ہی میرے بعد اس سے انحراف کر سکتا ہے ۔ ‘‘

03. رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی امت کیلئے وہ عمل پسند نہیں کرتے تھے جو  اس کی مشقت کا باعث بنتا ۔

اللہ تعالی  فرماتا ہے :﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ۔۔﴾ [ التوبۃ : ۱۲۸]

  ’’ تمھارے پاس ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تم میں سے ہی  ہیں ، جن کو تمھاری مشقت کی بات نہایت ہی گراں گذرتی ہے ۔ ‘‘

یہی وجہ ہے کہ جب رحمت ِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان المبارک میں تین راتیں صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو نماز تراویح باجماعت پڑھائی  اور چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے تو نماز فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبۂ مسنونہ پڑھا اور ارشاد فرمایا :  ( أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ مَکَانُکُمْ ، وَلٰکِنِّیْ خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْہَا )   [ البخاری : ۲۰۱۲ ، مسلم : ۷۶۱ ]

’’ لوگو ! آج رات مسجد میں تمہاری موجودگی مجھ سے مخفی نہیں تھی لیکن ( میں مسجد میں اس لئے نہ آیا کہ ) مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ ہو جائے اور پھرتم اس سے عاجز آ جاؤ ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا 🙁 لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ )  [مسلم :۲۵۲]

 ’’اگر مجھے امت پرمشقت کا اندیشہ نہ ہو تا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔‘‘

04. رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی امت کیلئے شرعی احکامات میں آسانی کو پسند کرتے تھے اور سختی کو پسند نہیں کرتے تھے ۔

چنانچہ  آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ  کو دعوتِ اسلام کیلئے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ  (یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا ، وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا )  [ البخاری : ۳۰۳۸]

’’ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنااور انھیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا ۔ اور ان کوخوشخبری دینا ، دین سے نفرت نہ دلانا ۔ اور دونوں مل جل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا ۔ ‘‘ اسی طرح آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا  :

 ( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ، وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ  )  [ البخاری ۔کتاب الإیمان : ۳۹]

’’بے شک  دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا ۔ لہذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ ، اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو ، عبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ اور صبح کے وقت ، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو ۔‘‘

اسی طرح آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا  : ( إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّتًا وَّلَا مُتَعَنِّتًا ، وَلٰکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُّیَسِّرًا ) [ مسلم : ۱۴۷۸]

’’ بے شک اللہ تعالی نے مجھے مشقت میں ڈالنے والا اور لوگوں کو مشکل اعمال پر مجبور کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا ، بلکہ تعلیم دینے والا اور آسانیاں پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ ‘‘

05. رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  مومنوں کی منفعت کے خواہشمند رہتے اور جن لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کو ماننے سے انکار کردیا تھا ، ان کے بارے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  شدید فکر مند اور غمگین رہتے تھے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے :  ﴿ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۸ ]

’’وہ تمھاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، مومنوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ ‘‘

رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  امت کی ہدایت کیلئے اور اسے جہنم سے بچانے کیلئے کس قدر حریص تھے ، اس کا اندازہ آپ اس بات کر سکتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا :

( إِنَّمَا مَثَلِیْ وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا ، فَلَمَّا أَضَائَ تْ مَا حَوْلَہُ جَعَلَ الْفِرَاشُ وَہٰذِہِ الدَّوَابُّ الَّتِیْ تَقَعُ فِیْ النَّارِ یَقَعْنَ فِیْہَا ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَزَعُہُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ ، فَیَقْتَحِمْنَ فِیْہَا ، فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِیْہَا )  [ البخاری ۔ الرقاق باب الانتہاء عن المعاصی : ۶۴۸۳، مسلم ۔ الفضائل باب شفقتہ   صلي الله عليه وسلم  علی أمتہ   : ۲۲۸۴]

’’ بے شک میری اور لوگوں کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو آگ جلائے ، پھر جب آگ اپنے ارد گرد کو روشن کردیتی ہے  تو پتنگے اور یہ جانور جو کہ آگ میں کود پڑتے ہیں وہ آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ آگ جلانے والا آدمی انھیں آگ سے پرے ہٹاتا ہے لیکن وہ اس پر غالب آکر آگ میں کود پڑتے ہیں ۔ اور میں بھی تمھیں تمھاری کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں تاکہ تم جہنم کی آگ میں نہ چلے جاؤ لیکن (تم مجھ سے دامن چھڑا کر ) زبردستی جہنم کی آگ میں داخل ہوتے ہو ۔ ‘‘

اور جب رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوششوں کے باوجود آپ کی امت کے کئی لوگ اسلام قبول نہ کرتے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کا کتنا افسوس اور صدمہ ہوتا اُس کی کیفیت اللہ تعالی یوں بیان فرماتا ہے :

﴿ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا﴾  [ الکہف : ۶ ]

’’ آپ تو شاید ان ( کافروں ) کے پیچھے اپنی جان کو کھو دینے والے ہونگے اس غم سے کہ یہ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿  فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾  [ فاطر : ۸ ]

’’ لہذا آپ ان پر افسوس کے مارے اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں ۔ جو کچھ وہ کر ر ہے ہیں اللہ یقینا اسے جانتا ہے ۔ ‘‘

اِن آیات میں اللہ تعالی نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے غم وافسوس کی جو کیفیت بیان کی ہے ، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  امت کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہشمند تھے ۔ اور اسلام قبول نہ کرنے والوں کے بارے میں آپ بے انتہا فکر مند رہتے تھے ۔ ورنہ اگر آپ امت کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہشمند نہ ہوتے تو آپ کو فکر مند ہونے اور اِس قدر غمگین ہونے کی کیا ضرورت تھی !

06. رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کیلئے امان تھے

جی ہاں ، رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ تعالی نے اپنی امت کیلئے امان بنایا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت سے پہلے کئی امتوں کو اللہ تعالی نے جڑ سے اکھاڑ دیا اور ان پر ایسے ایسے عذاب بھیجے کہ جو ان کی مکمل بربادی کا سبب بن گئے ۔ جبکہ رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کو اللہ تعالی نے اِس چیز سے محفوظ رکھا ۔ چنانچہ جب بد بخت ابو جہل نے رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  سے دردناک عذاب لانے کا مطالبہ کیا تھا تو اللہ تعالی نے اس کا جواب یوں دیا : ﴿ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾ [ الأنفال :۳۳]

’’ یہ مناسب نہیں ہے کہ اللہ تعالی انھیں عذاب دے اورآپ ان میں موجود ہوں ۔ اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ اللہ تعالی انھیں عذاب دے اور وہ استغفار کر رہے ہوں ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے دو چیزوں کو بطور امان ذکر کیا ہے ۔ ایک رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی ، کہ جب تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  امت میں موجود ہیں اللہ تعالی انھیں عذاب دینے والا نہیں ۔ دوسری امان  استغفار ہے ۔ یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد آپ کی امت جب تک استغفار کرتی رہے گی اللہ تعالی اسے ایسا عذاب نہیں دے گا جو اس کا بالکل ہی خاتمہ کردے ۔

معزز سامعین ! رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحمت کے مختلف پہلو ہم نے ذکر کئے ہیں ۔ اِس سے پہلے ہم نے گزشتہ خطبۂ جمعہ میں باری تعالی کی رحمت کے متعدد پہلو ذکر کئے ۔ یہ تمام چیزیں اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ ارحم الراحمین نے رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے اِس امت کو جو دین دیا ہے وہ پورے کا پورا دین ِ رحمت ہے ۔ اور اس میں کوئی سختی یا تشدد یا انتہا پسندی یا دہشت گردی نہیں ہے ۔ اِس سلسلے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے یا جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ سب جھوٹا پروپیگنڈا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اِس دین ِ رحمت پر قائم ودائم رہنے کی توفیق دے ۔ اور تمام لوگوں کو اِس دین میں داخل ہونے کی توفیق دے ۔

عزیز بھائیو اور دوستو ! رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم   کی رحمت کے کچھ مزید پہلووں کی طرف بھی ہم اشارہ کرتے چلیں :

ہم عرض کر چکے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی پوری امت کیلئے کس طرح رحمت تھے ۔ اب امت کے چند مخصوص لوگوں کے ساتھ آپ کی رحمت کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

٭ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے ساتھیوں ( صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم ) کیلئے رحمت تھے ۔ چنانچہ

01. آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا گھر عام لوگوں کے گھروں کی طرح تھا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا اور آنا جانا عام لوگوں جیسا تھا ۔ آپ کے دروازے پر کوئی سیکورٹی وغیرہ نہیں ہوتی تھی ۔ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  میں سے جو جب چاہتا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاقات کر لیتا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں یہی باور کراتے تھے کہ آپ انہی میں سے ایک فرد ہیں ۔ اور کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ آپ ان سے افضل ہیں ۔ اسی لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  انھیں  اپنے آنے پر کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے ۔ اور اپنی تعریف میں حد سے تجاوز کرنے سے بھی روکتے تھے ۔ آپ ان سے مزاح بھی کرتے تھے ، ان کے ساتھ کھاتے پیتے بھی تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو ان کے قریب رکھتے تھے ۔

02. رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتے تھے ۔ ان کیلئے دعا کرتے تھے ۔ ان میں سے بیماروں کی عیادت کرتے تھے ۔ ان کے فوت شدگان کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے اور ان کی تدفین میں شریک ہوتے تھے ۔

03.  رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جو کچھ آتاآپ اسے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیتے تھے ۔ آپ ان سے ہمدردی کرتے تھے ۔ اور خیر کے کاموں میں ان سے تعاون کرتے تھے ۔

04.  رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے ساتھیوں کو دین میں تکلف کرنے سے منع کرتے تھے اور آپ فرماتے تھے : (عَلَیْکُمْ مِّنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ )  [ متفق علیہ ]

’’ تم وہی عمل کیا کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو ۔ ‘‘

05. آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے تھے اور انھیں اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ نیز  ان کی فتح ونصرت کیلئے اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعائیں کرتے تھے ۔

06.  صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  میں سے اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اسے برا بھلا نہیں کہتے تھے اور نہ ہی اس پر لعنت بھیجتے تھے بلکہ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے اور اس کیلئے مختلف اعذار ڈھونڈتے تھے ۔ اور پیار ومحبت کے ساتھ اس کی راہنمائی کرتے تھے ۔ اور اگر کوئی بدو یا دیہاتی شخص آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بد اخلاقی کرتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اسے معاف کردیتے اور اس سے اچھا سلوک کرتے تھے ۔

٭ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   خواتین ِ اسلام کیلئے بھی رحمت تھے ۔ چنانچہ

01. آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خواتین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتے تھے ۔ اور مردوں کو ان کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنے کا حکم دیتے تھے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر خاتون کے ساتھ چاہے وہ ماں ہو ، یا بیٹی ہو ، یا بیوی ہو یا بہن ہو سب کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے ۔ خصوصا ’ماں ‘کو حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق قرار دیتے تھے ۔ بیوی کے حقوق ادا کرنے اور بیٹی کی اچھی تربیت کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دن خواتین کیلئے مختص کرتے تھے جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  انھیں وعظ ونصیحت کرتے تھے ۔

02.  خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی بیٹیوں پر بڑی شفقت کرتے تھے اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے بہت پیار و محبت کرتے تھے ۔ گھریلو کام کاج  میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ اور سفر میں انھیں اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔

03.  رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  عورتوں کو غلاموں یا لونڈیوں کی طرح مارنے سے منع کرتے تھے ۔ اور بیویوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ اور آپ فرماتے تھے کہ ( خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ )  [ ابن ماجہ : ۱۹۷۸۔ وصححہ الألبانی]

’’ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے بہتر ہو ۔ ‘‘

04.  رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  عورتوں کی فطری مجبوریوں اور کمزوریوں کا خیال رکھتے ہوئے ان سے ہمدردی کرتے تھے اور مخصوص ایام میں بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ میل جول رکھتے تھے ۔

٭ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   بچوں کیلئے بھی رحمت تھے ۔ چنانچہ

01. آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بچوں سے پیار کرتے تھے ۔ انھیں بوسہ دیتے تھے ۔ اپنی گود میں بٹھاتے تھے ۔ اور انھیں اٹھاتے تھے ، حتی کہ نماز کی حالت میں بھی انھیں اپنے کندھوں پر بٹھالیتے تھے ۔ اگر کوئی بچہ آپ کی گود میں پیشاپ کردیتا تو آپ اسے ڈانٹتے نہیں تھے بلکہ پانی منگوا کر اپنے کپڑوں کو پاک کر لیتے تھے ۔ اگر کسی بچے سے کوئی غلطی ہو جاتی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نہایت پیار کے ساتھ اس کی اصلاح کرتے اور اس کی تربیت کرتے تھے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بچوں کے والدین کو ان کے درمیان عدل کرنے کا حکم دیتے تھے اور ان میں کسی ایک پر ظلم کرنے سے منع کرتے تھے ۔

02. آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بچوں کیلئے دعا کرتے تھے ۔ انھیں گھٹی دیتے تھے ۔ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی شفا یابی کی دعا کرتے تھے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بچوں کے پاس سے گزر ہوتا تو آپ انھیں سلام کہتے تھے ۔

03.  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بچوں کے حق میں اتنے رحمدل تھے کہ اگر دورانِ نماز ان کے رونے کی آواز سنتے تو نماز میں تخفیف کردیتے تھے ۔

04  رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  بچوں کو عقائدِ صحیحہ ،  احکام ِ شرعیہ اور آدابِ اسلامیہ کی تعلیم دیتے تھے ۔

٭ اسی طرح رحمت ِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم   یتیموں ، بیوہ عورتوں ، غلاموں ، لونڈیوں اور فقراء ومساکین کیلئے بھی رحمت تھے ۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے حقوق ادا کرنے اور ان پر مال خرچ کرنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کرتے تھے ۔

٭ حتی کہ رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم   جانوروں کیلئے بھی رحمت تھے ۔

چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان پر نرمی کرنے کا حکم دیتے اور انھیں بہت زیادہ مارنے سے منع کرتے تھے ۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے مالکان کو ان کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرنے کا حکم دیتے تھے ۔ اور ان کی طاقت کے مطابق ان پر بوجھ ڈالنے اور انھیں کھلانے پلانے کا حکم دیتے تھے ۔  [ احمد وابو داؤد ]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت کے بارے میں آگاہ کیا کہ وہ ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی جس کو اس نے باندھ  رکھا تھا ۔ نہ وہ اسے کھلاتی پلاتی تھی اور نہ ہی اسے چھوڑتی تھی، یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔  [ متفق علیہ ]

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جانور کو ذبح کرتے وقت اسے تیز دھار آلے کے ساتھ اچھی طرح ذبح کرنے کا حکم دیا ۔  [مسلم ]

اور اس کے سامنے چھری تیز کرنے سے منع فرمایا ۔   [الطبرانی والحاکم بإسناد صحیح]

اس کے علاوہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے پرندوں کو ان کے گھونسلوں سے اڑانے سے بھی منع فرمایا ۔

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جانوروں کا مثلہ کرنے ، ان پر لعنت بھیجنے اور انھیں اپنے تیروں کیلئے نشانہ گاہ بنانے سے بھی منع فرمایا ۔

 ٭ حتی کہ رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم   کافروں کیلئے بھی رحمت تھے ۔ چنانچہ

01. آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب یہ پیش کش کی گئی کہ دو پہاڑوں کو ملا کر مکہ کے کافروں کو پیس کر رکھ دیا جائے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے انکار کردیا ۔ اور فرمایا کہ ’’ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ان کی نسلوں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو اُس اکیلے کی عبادت کریں  گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ۔ ‘‘

02.  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کفار کے خلاف بد دعا نہیں کرتے تھے ۔ اور جب آپ کو یہ کہا گیا کہ ’ دوس ‘ قبیلے کے لوگ کفر پر اڑے ہوئے ہیں ، لہذا آپ ان پر بد دعا کریں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ اہْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِہِمْ )  [ متفق علیہ ]

’’اے اللہ ! دوس قبیلے کو ہدایت دے اور اسے میرے پاس لے آ ۔ ‘‘

03.  جب کافروں نے رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کو میدان ِ احد میں زخمی کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے چہرۂ انور سے خون صاف کرتے ہوئے فرما رہے تھے :  ( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ )    ’’ اے اللہ ! میری قوم کو معاف کردے کیونکہ انھیں علم نہیں ہے ۔ ‘‘

04.  جب رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  فتح ِ مکہ کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دشمنوں کے قتل عام کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا : ( اِذْہَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَائُ )  ’’ جاؤ تم آزاد ہو۔ ‘‘یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے خون کے پیاسے نہ تھے ۔ بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی ہدایت کے خواہشمند تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جن چند لوگوں کے نام لے کر ان کی شدید اسلام دشمنی کی بناء پر انھیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا ان میں سے صرف چار افراد کو قتل کیا گیا تھا ۔ باقی لوگوں کے اسلام لانے کے اعلان کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبول کر لیا تھا ۔ مثلا عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ ۔

05. جن لوگوں نے رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ( نعوذ باللہ ) قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے انتقام نہیں لیا ، بلکہ انھیں معاف کردیا ۔ جس عورت نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو زہر کھلایا تھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بھی قتل کرنے سے منع کردیا تھا ۔ اسی طرح لبید بن اعصم ، جس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کیا تھا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بھی قتل نہیں کیا تھا ۔

06.  رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جنگوں میں کفار کی عورتوں اور ان کے بچوں کو قتل کرنے سے منع کردیا تھا ، جب تک کہ کوئی عورت خود مسلمانوں کے خلاف قتال شروع نہ کرے ۔

07.  رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  اہل الذمہ کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کرتے تھے ۔ اور ’معاہد ‘ کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتے تھے ۔تاکہ وہ ان کے قریب ہوں اور ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیں ۔

عزیزان گرامی !  یہ تمام باتیں اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   تمام لوگوں کیلئے باعث رحمت تھے ۔ حتی کہ کافروں کیلئے بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  رحمت ہی رحمت تھے ۔  لہذا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حوالے سے کفار کی طرف سے جو پروپیگنڈا کیا جا رہے وہ سرا سر غلط ہے ۔ اللہ تعالی سب کو سمجھنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

عزیز ان گرامی ! کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کافر وں کیلئے بھی رحمت تھے تو پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ان کے خلاف جنگیں کیوں ہوئیں ؟ جن میں ان میں سے کئی لوگ مارے بھی گئے ؟

تو اس سوال کے کئی جوابات  ہیں :

01.   رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  رحمۃ للعالمین ہی تھے ۔ لیکن جو لوگ اسلام قبول کر نے سے انکار کرتے رہے ، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے رہے ، کفر اور شرک پر ڈٹے رہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار رہے ،  صرف اُن کے خلاف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ پر ایمان لانے والوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ۔ اور اللہ تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا کہ

﴿ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ﴾   [ البقرۃ : ۱۹۰ ]

’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑائی کرو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں ۔ مگر زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘

اور اس کی حکمت بھی بتا دی گئی کہ  ﴿  وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ﴾   [ البقرۃ : ۱۹۳ ]

’’ اور ان سے جنگ کرو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کیلئے ہو جائے ۔  پھر اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی پر زیادتی روا نہیں ہے ۔ ‘‘

ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کی اجازت ایک تو مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کیلئے دی گئی ۔ دوسرا اس لئے کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ فتنہ سے مراد اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر طاقت ہے ، جس کی سرکوبی کی خاطر جہاد مشروع کیا گیا ۔

02. اسلام میں قتال کرنا اصل ہدف نہیں ہے ۔ بلکہ اصل ہدف یہ ہے کہ لوگ اسلام قبول کرلیں اور اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے مجاہدین کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی طرف دعوت دیں ۔ اگر وہ اسے قبول کرلیں تو انھیں کچھ بھی اذیت نہ پہنچائیں ۔ اوراگر وہ اسے قبول نہ کریں توان سے جزیہ دینے کا مطالبہ کریں ۔ اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے کوئی تعرّض نہ کریں ۔ اور اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو ان سے قتال کریں ۔ [ مسلم ۔ کتاب الجہاد باب تأمیر الإمام الأمراء علی البعوث ]رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جناب علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  کو جب خیبر کا قلعہ فتح کرنے کیلئے روانہ کیا تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں ارشاد فرمایا تھا : ( اُنْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ ، حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْہِم مِّنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ ، فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَّہْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ )    [ متفق علیہ ]     ’’ اطمینان سے جاؤ اور جلد بازی نہ کرو ، یہاں تک کہ تم ان کے علاقے میں پہنچ جاؤ ، پھر انھیں اسلام کی طرف دعوت دینا اور انھیں اللہ کے اُس حق کے بارے میں آگاہ کرنا جو ان پر اسلام میں واجب ہوتا ہے ۔  اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالی تمھارے ذریعے ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔ ‘‘

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قتال مقصود بالذات نہیں ہے ۔ بلکہ مقصود بالذات دعوتِ اسلام کو پیش کرنا ہے ۔

03. جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا وہ تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں ۔ کیونکہ  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے پورے مکی دور میں اسلحہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے مخالفین کے خلاف تلوار کو اٹھایا ۔ بلکہ خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو ہی بد ترین ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔  اِس دوران یہ سب حضرات صبر کرتے اور مصیبتیں برداشت کرتے رہے ۔ ان کی دعوت صرف اور صرف کلمۂ حق کہنے تک ہی محدود رہی اور اس میں تلوار اور اسلحے کا کوئی عمل دخل نہ تھا ۔ مکہ مکرمہ اور اس کے گردو نواح میں جو حضرات مشرف بہ اسلام ہوئے انھیں اس کیلئے تلوار کی نوک پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنی خوشی کے ساتھ اور دین ِ اسلام کی حقانیت کو دلوں سے تسلیم کرنے کے بعد خود بخود ہی اسلام میں داخل ہوئے ۔ پھر یہی دعوت ’یثرب ‘ تک جا پہنچی ، جہاں سے بہت سارے لوگوں نے خود ہی مکہ مکرمہ آکر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دست ِ مبارک پر بیعت کی تھی ۔ تو کیا انھیں بھی تلوار کے ذریعے لایا گیا تھا ؟ ہرگز نہیں ۔ اس لئے یہ دعوی ہی سرے سے غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی مملکت دنیا کی واحد اسلامی مملکت ہے جو بغیر اسلحہ اٹھائے اور بغیر کسی کا خون بہائے قائم ہوئی ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین اسلام دین رحمت ہے ۔ اور دنیا بھر کو امن وسلامتی کا پیغام دیتا ہے ۔

04. یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ مبارکہ میں ۲۷ جنگیں ہوئیں ، جن میں سے ۹ جنگوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم

خود شریک ہوئے  ، لیکن ان تمام جنگوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھوں سوائے ایک شخص کے کوئی دوسرا آدمی قتل نہیں ہوا ۔ اور جو قتل ہوا وہ بھی اس طرح کہ مکہ مکرمہ میں ’ابی بن خلف ‘نامی اللہ کے دشمن نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا تھا :  میں اپنا گھوڑا تیار کر رہا ہوں تاکہ اس پر سوار ہو کر آپ کو قتل کروں ۔ تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے کہا تھا :  ( أَنَا أَقْتُلُکَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ )   ’’ اگر اللہ نے چاہا تو میں تمھیں قتل کرونگا۔ ‘‘

پھر جنگ اُحد میں یہ بد بخت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تلاش کرتے کرتے آیا اور کہنے لگا : محمد کہاں ہے ؟ اگر وہ مجھ سے بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا ۔ تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حارث بن صمہ  رضی اللہ عنہ  سے برچھی لی اور اسے اس کی گردن پر دے مارا ۔ وہ اپنے گھوڑے سے نیچے کو لڑھکنے لگا ۔ پھر قریش کے پاس جا کر کہا : مجھے محمد نے قتل کیا ہے ۔ اس نے مجھے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمھیں قتل کرونگا ۔ اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھ پر تھوکتا بھی تو مجھے قتل کردیتا ۔ اس کے بعد وہ ’ سرف ‘ نامی جگہ پر مر گیا ۔

اِس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھوں اس بد بخت کا قتل اپنے دفاع میں ہوا ۔ اور یہ درحقیقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معجزہ بھی تھا ۔ کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے کہا تھا کہ میں تمھیں قتل کروں گا تو وہ آپ ہی کے ہاتھوں قتل ہوا ۔

اِس شخص کے علاوہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھوں کوئی دوسرا آدمی قتل نہیں ہوا ۔ جو اِس بات کی دلیل ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے مخالفوں کے خون کے پیاسے نہ تھے ۔ بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کیلئے بھی رحمت تھے ۔

05.  اگر ہم رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات مبارکہ میں ہونے والی تمام جنگوں میں کفار کے مقتولین کی تعداد کا جائزہ لیں تو وہ بہت کم نظر آتی ہے ۔ جبکہ وہ لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں لاکھوں لوگ مختلف جنگوں میں قتل ہو چکے ہیں ۔ اور ہم اہل عقل ودانش کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ذرا غور کریں کہ  :

٭ پہلی عالمی جنگ کس نے شروع کی تھی ؟ اور کس نے لوگوں کا قتل عام کیا تھا ؟

٭ دوسری عالمی جنگ کس نے شروع کی تھی ؟ اور کس نے  لوگوں کو بے دریغ قتل کیا تھا ؟

٭ وہ کون تھا جس نے ’ہیرو شیما ‘ اور ’ناگا ساکی ‘ پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسانوں کو قتل کیا ؟

٭ وہ کون  لوگ تھے جنھوں نے عراق اور افغانستان پر لاکھوں ٹن بارود گرا کر ہزاروں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور اب تک کر رہے ہیں ؟

ذرا سوچئے ! کیا وہ مسلمان تھے جن کے ہاتھوں ان تمام جنگوں میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے ؟ ہرگز نہیں۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جو آج پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر دین اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں اور اسے دہشت گردی کی تعلیم دینے والا دین قرار دے رہے ہیں ۔ حالانکہ حقیقی دہشت گردی وہ ہے جس کا ارتکاب ان جنگوں میں کیا گیا ۔ اور حقیقی دہشت گردی وہ ہے جو آج بھی مختلف ممالک میں بے گناہ لوگوں کے خلاف کی جا رہی ہے ۔ واللہ المستعان ، ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ !

 سب سے بڑے دہشت گرد تو وہ ہیں کہ جو گزشتہ کئی برسوں سے مختلف اسلامی ممالک میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں ۔ ان پر بغیر ثبوت کے ، جھوٹے الزامات لگا کر ان کا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں ، انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں اور عام شہریوں کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں ، انھیں ڈرون حملوں کے ذریعے یا میزائلوں کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے قتل کر رہے ہیں ۔

دہشت گرد تو وہ ہیں کہ جو فلسطین کی مبارک سر زمین پر ظالمانہ قبضہ جما کر خود اہل ِفلسطین کو ہی ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور  نہتے مسلمانوں کے خلاف خطرناک اور جدید اسلحے کے ساتھ بر سر پیکار ہیں ۔ اور بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں ۔ اور بے بس خواتین ِ اسلام اور کمزور بچوں پر گولیاں بر سا رہے ہیں ۔ اور ان کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں۔ اور اِس بد ترین دہشت گردی میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے عالمی دہشت گرد بھی شامل ہیں جو خطرناک اسلحے کے ساتھ اور خطیر مالی امداد کے ساتھ ان دہشت گردوں کو اور مضبوط کر رہے ہیں !

اللہ تعالی مسلمانوں کو خاص طور پر اور پوری دنیا کو عام طور پر ان لوگوں کے شر سے محفوظ فرمائے ۔ اور ان کی تدبیروں کو خود انہی کی تباہی کا ذریعہ بنائے ۔