ایمان کے فضائل اور ارکان

اہم عناصرِ خطبہ

01.   ایمان کی اہمیت

02. ایمان کا مفہوم

03. ایمان کے ارکان

04.  ایمان باللہ کے تقاضے

پہلا خطبہ

برادران اسلام ! آج کے خطبۂ جمعہ کا آغاز ہم قرآن مجید کی دو آیاتِ مبارکہ سے کرتے ہیں :

پہلی آیت : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾  [النحل : ۹۷ ]

  ’’ جو شخص نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ایمان والا ہو تو اسے ہم یقینا بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے ۔اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور دیں گے۔‘‘

دوسری آیت : ارشادباری تعالی ہے  :

﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ طُوْبیٰ لَہُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ﴾  [ الرعد : ۲۹]

  ’’ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے ، ان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی۔ ‘‘

پہلی آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کرنے والے ہر مرد وعورت کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کرنے اور آخرت میں ان کے اعمال کا بہتر بدلہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے ، لیکن اس شرط پر کہ عمل کرنے والا ‘ خواہ مرد ہو یا عورت ‘ ایمان والا ہو۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا وآخرت کی کامرانی وکامیابی کیلئے ایمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے  ۔

اسی طرح دوسری آیت ِ کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو دنیا میں خوشحالی اور

 آخرت میں عمدہ ٹھکانے کی خوشخبری سنائی ہے ۔۔۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان کی بنیاد پر ہی دونوں جہانوں کی فلاح نصیب ہو سکتی ہے ۔

اگر ایک انسان ایمان والا ہو، اس کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی کرتا ہو اور اسی حالت میں توبہ کرنے سے پہلے اس کی موت آ جائے تو روزِ قیامت اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دے گا اور پھر اس کے ایمان ہی کی بنیاد پر اسے جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کرے گا ۔جیسا کہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  حدیث الشفاعۃ کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

 (  فَأَقُوْلُ : أَنَا لَہَا ، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّیْ ، فَیُؤْذَنُ لِیْ ، فَأَقُوْمُ بَیْنَ یَدَیْہِ ، فَأَحَمَدُہُ بِمَحَامِدَ لاَ أَقْدِرُ عَلَیْہِ الْآنَ ،  یُلْہِمُنِیْہِ اللّٰہُ ، ثُمَّ أَخِرُّ لَہُ سَاجِدًا ، فَیُقَالُ لِیْ : یَا مُحَمَّدُ ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ ، وَسَلْ تُعْطَہْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ،  فَأَقُوْلُ : رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ ، فَیُقَالُ : اِنْطَلِقْ ، فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ بُرَّۃٍ أَوْ شَعِیْرَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنْہَا ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلٰی رَبِّیْ فَأَحْمَدُہُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ ،  ثُمَّ أَخِرُّ لَہُ سَاجِدًا ، فَیُقَالُ لِیْ : یَا مُحَمَّدُ ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ ، وَسَلْ تُعْطَہْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَقُوْلُ : رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ ، فَیُقَالُ : اِنْطَلِقْ ، فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنْہَا ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ، ثُمَّ أَعُوْدُ إِلٰی رَبِّیْ فَأَحْمَدُہُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ ، ثُمَّ أَخِرُّ لَہُ سَاجِدًا ، فَیُقَالُ لِیْ : یَا مُحَمَّدُ ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ ، وَسَلْ تُعْطَہْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَقُوْلُ : رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ ، فَیُقَالُ : اِنْطَلِقْ ، فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ أَدْنٰی أَدْنٰی أَدْنٰی مِنْ مِثْقَالِ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ  مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنَ النَّارِ ، فَأَنْطَلِقُ فَاَفْعَلُ ۔۔۔  )

  ’’ میں کہوں گا : میں اس کیلئے تیار ہوں ۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کرونگا ۔ جب مجھے اجازت دی جائے گی تو میں اس کی بارگاہ میں کھڑا ہو جاؤنگا اور اس کی وہ تعریفیں کرونگا جو اب نہیں کر سکتا ۔ وہ صرف اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے الہام کرے گا ، پھر میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر مجھے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے اور بات کیجئے ، آپ کی بات سنی جائے گی ۔ اور سوال کیجئے ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ اور شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔

میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت کی بخشش فرما اور میری امت کو جہنم سے بچا۔

کہا جائے گا : آپ جائیے اور جس شخص کے دل میں گندم  یا  جَوکے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیجئے !

 میں جاؤں گا اور اسی طرح کرونگا جیسا کہ مجھے حکم دیا جائے گا ۔

پھر میں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر آؤں گا اور وہی تعریفیں پھر عرض کرونگا ۔ اس کے بعد سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔

پھر مجھے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے اور بات کیجئے ، آپ کی بات سنی جائے گی ۔ اور سوال کیجئے ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ۔ اور شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔

میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت کی بخشش فرما اور میری امت کو جہنم سے بچا۔

کہا جائے گا : آپ جائیے اور جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیجئے !

 میں جاؤں گا اور اسی طرح کرونگا جیسا کہ مجھے حکم دیا جائے گا ۔

پھر میں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر آؤں گا اور وہی تعریفیں پھر عرض کرونگا ۔ اس کے بعد سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔

پھر مجھے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے اور بات کیجئے ، آپ کی بات سنی جائے گی ۔ اور سوال کیجئے ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ۔ اور شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔

میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت کی بخشش فرما اور میری امت کو جہنم سے بچا۔

کہا جائے گا : آپ جائیے اور جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے سے بھی کم ،  اس سے بھی کم اور اس سے بھی کم ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیجئے !

 میں جاؤں گا اور اسی طرح کرونگا جیسا کہ مجھے حکم دیا جائے گا ۔ ۔ ۔۔۔۔الخ   [ مسلم : ۱۹۳ ]

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ روزِ قیامت ایمان ہی کی بنیاد پر انسان کی نجات ممکن ہو سکے گی ۔ اور کسی انسان کی نجات کیلئے ایمان اس قدر اہم ہے کہ اگر یہ رائی کے دانے سے بھی کم ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا ۔

اور جب ایمان دنیا وآخرت میں انسان کی کامیابی اور نجات کیلئے اتنا اہم ہے تو اس کی تعریف کا جاننا اور اس کے ارکان کو معلوم کرنا نہایت ضروری ہے ۔

ایمان کی تعریف

ایمان تین چیزوں کا نام ہے :     قول باللسان ، واعتقاد بالجنان ، وعمل بالأرکان

 زبان کا اقرار ۔ دل کی تصدیق ۔ اور اعضاء کا عمل

یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرار کرنا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا مثلا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور اس کے اسماء وصفات میں اس کی وحدانیت کا زبان سے اقرار کرنا اور دل میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اکیلا ہی کائنات کا خالق ومالک اور عبادت کے لائق ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح وہ اپنے اسماء وصفات میں بھی یکتا اور منفرد ہے ۔

نیز ایمان کی تعریف میں دل کے اعمال بھی شامل ہیں مثلا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا، اسی سے ڈرنا، اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی پر توکل کرنا وغیرہ۔

اور چونکہ ایمان میں اعمال بھی شامل ہیں اس لئے عمل صالح کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا  تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمٰنًا وَّعَلَیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ٭  الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ  وَمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُونَ ٭ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ﴾   [ الأنفال : ۲۔ ۴ ]

’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ۔ ‘‘

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے سچے مومنوں کی پانچ صفات ذکر فرمائی ہیں ۔ان میں سے پہلی تین صفات کا تعلق دل سے اور دوسری دو صفات کا تعلق اعضاء سے ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی اور سچے ایمان کے حصول کیلئے اعضاء کا عمل ضروری ہے ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔

 ایمان  اور عمل

ایمان صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق ہی کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ میں ان لوگوں کو جنت کی خوشخبریاں دی ہیں جو ایمان والے اورعمل صالح کرنے والے ہوں ۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے :

﴿ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأنْہَارُ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ہٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُوتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا وَّلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ﴾  [ البقرۃ: ۲۵ ]

  ’’ ( اے پیغمبر ) جو لوگ ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں انھیں خوشخبری دے دیجئے کہ ان کیلئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔جب بھی انھیں کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے : یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں اس سے پہلے ( دنیا میں ) دئیے جا چکے ہیں ، کیونکہ جو پھل انھیں دیا جائے گا وہ شکل وصورت میں دنیا کے پھل سے ملتا جلتا ہو گا ۔ نیز ان ایمان والوں کیلئے وہاں پاک وصاف بیویاں ( بھی ) ہونگی ۔ اور وہ ان باغات میں ہمیشہ قیام پذیر رہیں گے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوْا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾  [ البقرۃ : ۲۷۷ ]

’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کئے ، نماز قائم کرتے رہے اور زکاۃ ادا کرتے رہے تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ۔ انھیں نہ کوئی خوف ہو گا  اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔ ‘‘

بلکہ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر تمام انسانوں کو خسارہ پانے والے قرار دیا ہے ، سوائے ان کے جو ایمان والے ہوں اور عمل صالح کرتے ہو ں۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَالْعَصْرِ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ٭إِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾  [ سورۃ العصر 1۔3]

’’ زمانے کی قسم ! بلا شبہ انسان گھاٹے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ ‘‘

اور  سورۃ التین میں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک نہیں ‘ کئی قسمیں اٹھا کرفرمایا کہ تمام انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ادنی ترین مخلوق کے درجے میں ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان والے ہوں اور عمل صالح کرتے ہوں ۔  فرمایا :

﴿ وَالتِّیْنِ ٭ وَالزَّیْتُوْنِ ٭ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ٭ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْأمِیْنِ ٭ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ٭ ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ ٭ إِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ﴾  [ سورۃ التین ]

  ’’ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ۔ اور طورِ سینا کی اور اس  امن والے شہر ( مکہ ) کی کہ ہم نے انسان کو بہترین

 ساخت پر پیدا کیا ہے ، پھر ہم نے اسے ادنی ترین مخلوق کے درجہ میں لوٹا دیا ، بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ۔ ان کیلئے غیر منقطع اجر ہے ۔‘‘

ان تمام آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ ساتھ اعضاء کے اعمال بھی ایمان میں شامل ہیں ۔

(1)  اوامر پر عمل

اعضاء کے اعمال میں ایک تو وہ اعمال ہیں جن کا تعلق امتثالِ اوامر سے ہے ، یعنی ان احکامات پر عملدر آمد کرنے  سے ہے جو اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  نے صادر فرمائے مثلا نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ ، جہاد ۔۔۔ وغیرہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿  قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ ٭ اَلَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ٭وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ٭وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰاۃِ  فَاعِلُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭ إِلاَّ عَلٰی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَامَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ٭ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَائَ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ  ٭ أُولٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ٭ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ﴾ [ المؤمنون : ۱۔ ۱۱ ]

  ’’ ایمان والے لوگ کامیاب ہو گئے ۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں ۔ اور جو بے ہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں ۔ اور جو زکاۃ ادا کرتے رہتے ہیں ۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں اور کنیزوں کے جو ان کے قبضہ میں ہوں ، کیونکہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ البتہ ان کے سوا جو کوئی اور ذریعہ تلاش کرے تو ایسے ہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ اور جو اپنی امانتوں اور عہدو پیمان کا پاس رکھتے ہیں ۔ اور اپنی نمازوں پر محافظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ایسے ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جو صفات ذکر فرمائی ہیں ان میں سے بعض کا تعلق دل سے اور بعض کا تعلق اعضاء سے ہے ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اعضاء کے اعمال ایمان میں شامل ہیں ۔

نیز فرمایا : ﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُولٰئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ﴾ [ الحجرات : ۱۵ ]

  ’’ ( حقیقی ) مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر شک میں نہیں پڑے اور اپنے

مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ۔ یہی سچے ( مومن ) ہیں ۔ ‘‘

اس آیت ِکریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سچا مومن قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اپنی جانوں اور اپنے اموال کے ساتھ جہاد بھی کرتے ہیں ۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جہاد بھی ایمان میں شامل ہے ۔

اورحضرت ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

(  مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِفَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ    )    [ بخاری : ۶۴۷۵ ، ۶۱۳۸ ، مسلم : ۴۷ ]

  ’’ جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ خیر ہی کی بات کرے ، ورنہ خاموش رہے ۔ اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تووہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔ اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تووہ اپنے مہمان کا اکرام کرے  ۔ ‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خیر کی بات کرنا ، پڑوسی کے حقوق ادا کرنا اور مہمان نوازی کرنا ۔۔۔ یہ سارے اعمال ایمان میں شامل ہیں۔

(2)  نواہی ( ممنوعات )سے اجتناب

اعضاء  کے اعمال میں امتثالِ اوامر کے ساتھ ساتھ اجتنابِ نواہی بھی شامل ہے۔ یعنی ان اعمال سے بچنا جن سے اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع کیا ہے۔ اور نواہی میں سب سے پہلے شرک سے منع کیا گیا ہے ۔

شرک سے اجتناب

فرمان الٰہی ہے :﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُولٰئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ﴾ [ الأنعام : ۸۲ ]

  ’’ جو لوگ ایمان لائے ، پھر اپنے ایمان کو ظلم ( شرک ) سے آلودہ نہیں کیا  ، انہی کیلئے امن وسلامتی ہے اور یہی لوگ راہِ راست پر ہیں۔ ‘‘

 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿  اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُولٰئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ﴾تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب رضی اللہ عنہم  پر بہت گراں گذری ۔ چنانچہ انھوں نے کہا : ہم میں سے کون ہے جس نے (گناہ اور معصیت کے ذریعے ) اپنی جان پر ظلم نہیں کیا ؟

 رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : (   لَیْسَ ہُوَ کَمَا تَظُنُّوْنَ ، إِنَّمَا ہُوَ کَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِا بْنِہٖ: ﴿ یَا بُنَیَّ لاَ تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ﴾  [ بخاری : ۳۲ ، مسلم : ۱۲۴ واللفظ لہ ]

  ’’ اس سے مراد وہ نہیں جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو ، بلکہ اس سے مراد ( شرک ہے ) جیسا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا : اے میرے پیارے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔ ‘‘

معاصی سے اجتناب

اسی طرح ایمان میں معاصی ( اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں )  سے اجتناب کرنا بھی  شامل ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( لاَ یَزْنِیْ الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلاَ یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ یَشْرَبُ الْخَمْرَحِیْنَ یَشْرَبُہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ )  [بخاری : ۲۴۷۵ ، مسلم : ۵۷ ]

  ’’ کوئی زانی ایمان کی حالت میں زنا نہیں کر سکتا ۔ اور کوئی چور بحالتِ ایمان چوری نہیں کر سکتا۔ اور کوئی شرابی ایمان کی حالت میں شراب نوشی نہیں کر سکتا ۔ ‘‘

 ایمان کے شعبے

ایمان کے بارے میں ہم نے جو وضاحت قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کی اس کے بعد یہ بھی جان لیجئے کہ ایمان کے متعدد شعبے ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ۔ أَوْ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ ۔  شُعْبَۃً : فَأَفْضَلُہَا قَوْلُ : لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَأَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذیٰ عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ  ) [ مسلم : ۳۵ ]

   ’’ ایمان کے ستر( یا ساٹھ )  سے زیادہ شعبے ہیں۔ سب سے افضل شعبہ  (  لا إلہ إلا اللہ )  کہنا ہے ۔ اور سب سے کم ترشعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے ۔ اور حیاء ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے ۔ ‘‘

ارکانِ ایمان

برادران اسلام ! اب آئیے ذرا یہ معلوم کریں کہ ایمان کے ارکان کتنے اور کونسے ہیں ؟

ایمان کے اَرکان چھ ہیں۔ اور وہ ہیں:

01. اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا

02. اس کے فرشتوں پرایمان لانا

03. اس کی کتابوں پرایمان لانا

04. اس کے رسولوں پر ایمان لانا

05.  قیامت کے دن پرایمان لانا

06. اچھی اوربری تقدیر پرایمان لانا

یہ ارکان قرآن وحدیث کے متعدد دلائل سے ثابت ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ  فرماتے ہیں :

﴿ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلٰئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیِّینَ ﴾  [البقرۃ: ۱۷۷]

  ’’در حقیقت نیکی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ، قیامت کے دن پر،  فرشتوں پر، کتابوں پر اور تمام نبیوں پر ایمان لائے۔‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے :

﴿ آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِن رَّبِّہٖ وَالْمُؤمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِہٖ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ ﴾ [البقرۃ: ۲۸۵]

  ’’رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اے رب! ہم نے تیرا ارشاد سن لیا اور مان لیا۔ اے ہمارے رب! ہمیں تیری بخشش چاہئے اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:﴿ إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰـہُ بِقَدَرٍ ﴾  [القمر: ۴۹]

  ’’بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا فرمایا ہے۔‘‘

اور نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:(اَلْإِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ)  [مسلم :۸]

  ’’ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اچھی وبری تقدیر پر ایمان لائیں۔ ‘‘

عزیزان گرامی ! ارکان ایمان اختصار کے ساتھ ذکرکرنے کے بعد اب ہم انھیں تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ۔

پہلا رکن

اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا

 ایمان باللہ تین چیزوں پر اعتقاد رکھنے کا نام ہے:

01. اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ اس کائنات کا رب ایک ہی ہے اوروہ اکیلا ہی اس کا خالق ومالک ہے۔ وہی اس کے تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور وہی اس کائنات کے معاملات میں تصرف کرنے والا ہے۔ روزی دینے والا وہی ہے ، زندہ کرنے والا وہی ہے، مارنے والا وہی ہے۔ اور وہی نفع ونقصان کا مالک ہے ،اس کے سوااور کوئی رب(پروردگار)نہیں۔ وہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ اور جس چیز کا ارادہ کر لے اسے کہتا ہے : ہو جا ، تو وہ ہو جاتی ہے۔جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ذلیل کر تا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہے ۔اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ وہ دوسروں سے بے پرواہ ہے۔ ہر قسم کا حکم اسی کیلئے ہے۔ ہر قسم کی بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے کاموں میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور نہ ہی اس پر کوئی غلبہ پانے والا ہے، بلکہ تمام مخلوقات فرشتے اور جن و انس سب اسی کے غلام اور بندے ہیں۔ یہ سب اس کی بادشاہت، طاقت اور اس کے ارادے سے باہر نہیں نکل سکتے ۔

یہ تمام خصوصیات صرف اسی کا حق ہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ان چیزوں کا اس کے سوا اور کوئی حق دار نہیں۔ان چیزوں کی نسبت کسی اور کی طرف کرنا یا ان میں سے کسی چیز کا اثبات اس کے سوا کسی اور کیلئے کرنا قطعاً جائز نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ٭ اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَائَ بِنَائً وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَأَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّکُمْ ﴾  [ البقرۃ: ۲۱، ۲۲]

 ’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا فرمایا، تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔ وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونااور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کئے جو تمہارے لئے روزی ہیں۔‘‘

اور فرمایا:﴿ قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾  [ آل عمران: ۲۶]

  ’’آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام بادشاہت کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے۔ اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

اور فرمایا:﴿ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِیْ الْأَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ﴾ [ ہود: ۶]

  ’’زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ وہی ان کے رہنے  سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی ۔ سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔‘‘

اور فرمایا :﴿ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾  [الأعراف:۵۴]

  ’’یاد رکھو! اللہ ہی کیلئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بابرکت ہے وہ اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے دلائل

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر بے شمار دلائل موجود ہیں۔ جو شخص بھی ان میں غور وفکر کرے گا اس کے علم میں پختگی حاصل ہوگی اور اس کا یقین بڑھ جائے گا کہ باری تعالیٰ اپنی ربوبیت والوہیت میں یکتا ولاثانی ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔

 ان دلائل میں سے چند ایک کو ہم  بطور مثال ذکر کرتے ہیں :

01. کائنات کی تخلیق اور اس کا عجیب وغریب نظم ونسق اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو آدمی بھی غور وفکر اور سوچ وبچار کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔

یہ زمین و آسمان ، یہ سورج اورچاند، حیوانات ، نباتات اورجمادات، لیل ونہار کا بڑا ہی دقیق نظام ۔۔۔۔ یہ سب چیزیں دلالت کرتی ہیں کہ وہ اکیلا ہی ان کا خالق ومالک اورعبادت کا مستحق ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَجَعَلْنَا فِیْ الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَاجًا سُبُلاً لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ ٭ وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّہُمْ عَنْ آیٰاتِہَا مُعْرِضُوْنَ ٭ وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ ﴾

  ’’اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنادئیے تاکہ وہ انھیں لے کر ہچکولے نہ کھائے۔ اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ وہ راستہ معلوم کرلیں۔اورآسمان کو محفوظ چھت بھی ہم نے ہی بنایا ہے لیکن لوگ اس کی قدرت کی

نشانیوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔‘‘ [الأنبیاء: ۳۱ ــ ۔۳۳]

02. اللہ تعالیٰ  اپنی قدرت اور ربوبیت کی متعدد نشانیاں ذکرکرتے ہوئے فرماتا ہے :

﴿ وَمِنْ آیَاتِہٖ أَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ ٭ وَمِنْ آیَاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ٭  وَمِنْ آیَاتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلٰفُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیٰاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ ٭  وَمِنْ آیَاتِہٖ مَنَامُکُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَابْتِغَاؤُکُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَسْمَعُوْنَ ٭  وَمِنْ آیَاتِہٖ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَیُحْیِیْ بِہٖ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا  إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ٭  وَمِنْ آیَاتِہٖ أَنْ تَقُوْمَ السَّمَائُ وَالأرْضُ بِأَمْرِہٖ ثُمَّ إِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً مِّنَ الأرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ﴾ [الروم: ۲۲]

  ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر اب تم ایک انسان ہو جو ہر جگہ پھیل رہے ہو ۔اور ایک یہ کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کر سکو۔اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی ، اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے کئی نشانیاں ہیں ۔ اور ایک یہ کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا  اور تمہاری زبانیں اور تمہارے رنگ مختلف بنا دئیے ، دانش مندوں کے لئے اس میں بھی یقینا کئی نشانیاں ہیں۔ نیز تمہارا رات اور دن کو سونا اور اس کا فضل تلاش کرنا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ، جو لوگ غور سے سنتے ہیں ان کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔  اور ایک یہ کہ وہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے جس سے تم ڈرتے بھی ہو اور امید بھی رکھتے ہو ۔ اور آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے ، سمجھنے والوں کیلئے اس میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ زمین وآسمان اسی کے حکم سے ( بلا ستون ) قائم ہیں ، پھر جب وہ تمہیں ایک ہی دفعہ زمین میں سے پکارے گا تو تم زمین سے نکل کھڑے ہو گے  ۔ ‘‘

03. اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی جانوروں کے پیٹ سے نکلنے والا صاف ، سفید ، خوش رنگ ، پاکیزہ ، مزیدار اور خالص دودھ بھی ہے جو محض ایک مشروب ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی نشو ونما کیلئے مکمل غذا کا کام دیتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان  ہے :

﴿ وَإِنَّ لَکُمْ فِیْ الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِیْنَ ﴾  [ النحل :۶۶ ]

’’ اور تمہارے لئے چوپائے جانوروں میں بھی نشانِ عبرت موجود ہے۔ ان کے پیٹوں میں غذا کا فضلہ اور خون موجود ہوتا ہے۔  ان دونوں چیزوں کے درمیان سے ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کیلئے خوشگوار ہوتا ہے ۔ ‘‘

04. اسی طرح قدرتِ الٰہی کی ایک بڑی نشانی شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلنے والا لذیذ مشروب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے شفا رکھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَأَوْحٰی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ ٭ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَّخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانَہُ فِیْہِ شِفَائٌ لِّلنَّاسِ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾  [النحل : ۶۸ ۔ ۶۹ ]

  ’’ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور ( انگور وغیرہ کی ) بیلوں میں اپنا گھر ( چھتا ) بنا ، پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کیلئے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو غور وفکر کرتے ہیں ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کی مکھی اور اس کے پیٹ سے نکلنے والے مشروب میں قدرتِ الٰہی کی کئی نشانیاں موجود ہیں :

01. شہد کی مکھی کی طرف اللہ تعالیٰ کی فطری وحی کے نتیجے میں وہ اپنے لئے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ کسی ماہر انجینئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔ اس چھتے میں خانے ہوتے ہیں اور انہی خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں ۔اور بیرونی خانوں پر پہر ہ دار مکھیاں پہرہ دیتی ہیں جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں ۔

02. ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ملکہ ہوتی ہے اور سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں ۔ اور جب وہ رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں تو ان میں ایسا نظم وضبط پایا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔

03. مکھیاں تلاشِ معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں ، پھولوں اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں ، پھر یہی رس اپنے چھتے کے خانوں میں لا کر ذخیرہ کر تی رہتی ہیں ، گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ، پیہم آمد ورفت ، ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا ، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے رہنا ۔۔۔

یہ سب راہیں اللہ تعالیٰ نے مکھی کیلئے اس طرح ہموار کردی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ۔

04. شہد مختلف رنگوں میں ہوتا ہے اور اس کے متعدد خواص ہیں ۔ سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ بہت سی بیماریوں کیلئے شفا کا حکم رکھتا ہے۔  دوسری خاصیت یہ ہے کہ جو اشیاء شہد میں رکھی جائیں وہ بڑی مدت تک اس میں برقرار وبحال رہتی ہیں ۔ اور اگر دوائیاں ڈالی جائیں تو ان کا اثر حتی کہ ان کی خوشبو بھی طویل عرصہ تک برقرار رہتی ہے ۔

05.  سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی بذات خود ایک زہریلا جانور ہے ۔ انسان کو ڈس جائے تو اس کی جلد متورم اور اس میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے۔ اور ایسے زہریلے جانور کے اندر سے نکلا ہوا شہد انسان کی اکثر بیماریوں کیلئے باعثِ شفا ہے۔ نیز اس کیلئے ایک شیریں اور لذیذ غذا کا کام بھی دیتا ہے ۔  [ تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی    رحمہ اللہ   ]

02. ایمان باللہ کا دوسرا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے، وہ اکیلا ہی تمام قسم کی ظاہری وباطنی عبادات کا مستحق ہے اور عبادات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔

 یہ وہ توحید ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء  علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ ﴾  [النحل: ۳۶]

  ’’اور یقیناہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘

(اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس عبادت سے راضی ہو وہ طاغوت ہے)

اور ہر رسول نے اپنی قوم کو یہی فرمایا:

﴿ اُعْبُدُوْا اﷲَ مَالَکُمْ مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرُہُ ﴾ [الأعراف: ۵۹]

  ’’تم ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘

اورحدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  سے فرمایا:

(أَتَدْرِیْ مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلیَ اللّٰہِ ؟ قُلْتُ: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَّعْبُدُوْہُ وَلاَ یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلیَ اللّٰہِ أَلا یُعَذِّبَ مَنْ لَّا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا)   [متفق علیہ]

  ’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر حق یہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو عذاب میں

 مبتلا نہ کرے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘

لہذا تمام عبادات ( مثلا دعا ، نذر ونیاز ، توکل ، ذبح وغیرہ ) صرف اللہ تعالیٰ کیلئے بجا لائی جائیں ، اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں ، اسی کو حاجت روا ، مشکل کشا ، بگڑی بنانے والا ، داتا اور نفع ونقصان کا مالک سمجھا جائے ، کیونکہ وہی معبودِ برحق ہے ، اس  کے سوا باقی تمام معبودان باطل ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ ذٰلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ ﴾ [الحج: ۶۲]

 ’’یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے ۔اور بے شک اللہ ہی بلندی والا اور کبریائی والا ہے۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ٭ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾   [ الأنعام : ۱۶۲ ۔۱۶۳ ]

  ’’ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میری نماز ، میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوں  ۔ ‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (  إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ ، لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ ، وَإِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ)    [احمد ، ترمذی ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۷۹۵۷]

  ’’  تم جب بھی مانگنا چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ اور تمہیں جب بھی مدد کی ضرورت ہو توصرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔ اور اس بات پر اچھی طرح سے یقین کر لو کہ اگر تمام لوگ مل کر تمھیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے ، سوائے اس نفع کے جواللہ تعالیٰ نے تمھارے حق میں لکھ رکھا ہے۔ اور اگر وہ سب کے سب مل کر تمھیں نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ ایسا بھی نہیں کر سکتے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے تمھارا  جونقصان لکھ رکھا ہے  وہ توہو کررہے گا  ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر عبادت میں اخلاص نصیب کرے اور اپنے اوپر سچا ایمان لانے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

حضرات محترم  ! پہلے خطبہ میں ہم نے  بیان کیا کہ ایمان باللہ تین چیزوں پر اعتقاد رکھنے کا نام ہے ۔ ان میں سے دو

کی وضاحت ہم کر چکے ہیں ۔  آئیے اب تیسری چیز کے متعلق بھی ہماری معروضات سماعت فرما لیجئے ۔

03. ایمان باللہ کا تیسرا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات پر پختہ اعتقاد ہوکہ اللہ تعالیٰ تمام اسمائے حسنی ( اچھے ناموں ) سے موسوم اور صفاتِ کاملہ سے متصف ہے ۔ اور وہ اپنے ان اسمائے حسنی اور صفاتِ کمال میں یکتا ہے جن کا ذکر اس نے اپنی کتاب ( قرآن مجید ) میں یا اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی احادیث مبارکہ میں کیا ہے۔ اور ان میں اس کا کوئی مثیل ہے اورنہ کوئی شریک ہے  ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَلِلّٰہِ الْأَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ أَسْمَائِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾   [ الأعراف: ۱۸۰]

 ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں۔ لہذا ان ناموں سے ہی تم اسے پکارا کرو۔ اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ان کے کئے کی سزا ضرورملے گی۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کج روی کرنے یا ٹیڑھی راہ اختیار کرنے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ اس کے تمام اسمائے حسنی کا یا ان میں سے بعض کا انکار کردیا جائے ۔  دوسرا یہ ہے کہ اس کے اسمائے حسنی ،اس کی جن صفاتِ عالیہ پر دلالت کرتے ہیں انھیں تسلیم نہ کیا جائے۔ اور تیسرا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی جن عظیم معانی پر دلالت کرتے ہیں ان کے خلاف عمل کیا جائے۔ مثلا اس کا ایک نام ( الرزاق ) ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رزق دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے ۔ اور اس کے خلاف عمل یہ ہے کہ اسے چھوڑ کر غیر اللہ کے سامنے جھولی پھیلائی جائے اور غیر اللہ کورزق دینے والا تصورکیا جائے ۔  اسی طرح اس کا ایک نام ( العظیم ) ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر قسم کی عظمت وبزرگی اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور کائنات کے تمام امور میں اسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لئے جبینِ نیاز کا جھکانا اور سجدہ ریز ہونا صرف اسی کیلئے روا ہے۔ اور اس کے خلاف عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی بزرگ یا ولی کے سامنے اپنے آپ کو جھکایا جائے ، یا اس کی قبر پر سجدہ کیا جائے ، یا غیر اللہ کو کائنات کے امور میں تصرف کرنے والا مانا جائے ۔

یاد رہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کی تعداد خود اللہ تعالی کو ہی معلوم ہے ۔ اور وہ جو نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ

(  إِنَّ ﷲِ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ اسْمًا، مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَہُوَ وِتْرٌ یُّحِبُّ الْوِتْرَ)  [بخاری ومسلم]

 ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جوشخص انھیں شمار ( یا حفظ ) کرے گا جنت میں داخل ہوگا۔ اور وہ

(اللہ تعالیٰ) طاق ہے،طاق ہی کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

تو اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ۹۹ اسماء ایسے ہیں کہ جن کو یاد کرنے ، ان کے معانی کو اپنے دل میں اتارنے اور ان کے خلاف عمل نہ کرنے والے شخص کو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے  ۔

اوراللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جو اعتقاد ہم نے ذکر کیا ہے یہ دو بنیادوں پر قائم ہے:

پہلی بنیاد :  اللہ تعالیٰ کیلئے ہی وہ اچھے نام اور بلند صفات ہیں جو کہ اس کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ نہ اس کا کوئی ہم مثل ہے اور نہ ہی کائنات میں سے اس کا کوئی شریک ہے۔

مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’’الحی‘‘ (زندہ رہنے والا) ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ’’حیات‘‘ ثابت ہوتی ہے۔ لہذا اس کے بارے میں ضروری ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کیلئے اسی کامل طریقے پر ثابت کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ اور یہ زندگی کامل اور ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے کہ جس میں کمال کے تمام لوازم مثلا  علم اور قدرت وغیرہ موجود ہیں۔ اور یہ ایسی زندگی ہے کہ جو شروع سے ہے اور کبھی ختم  ہونے والی نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ اَللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَأخُذُہُ سِنَۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ ﴾  [البقرۃ: ۲۵۵]

 ’’اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے ( اس کے سوا کوئی معبود نہیں)  جو زندہ جاوید اور قائم رہنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند ۔‘‘

دوسری بنیاد : اللہ تعالیٰ تمام عیوب ونقائص مثلا نیند، عاجز آجانا، جہالت اور ظلم وغیرہ سے پاک ہے اور مخلوق کی مشابہت سے مبرّا ہے۔ چنانچہ یہ  ضروری ہے کہ ہر اس چیز کی نفی کی جائے جس کی نفی اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب سے کی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾ [الشوریٰ: ۱۱]

 ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘

اور فرمایا:﴿ وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾  [فصلت: ۴۶]

 ’’اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘

اور فرمایا: ﴿ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہُ مِنْ شَیْئٍ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَلاَ فِیْ الأرْضِ ﴾  [فاطر: ۴۴]

 ’’اور آسمانوں اور زمین میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کو عاجز کر دے ۔‘‘

اور فرمایا:﴿ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ﴾ [مریم: ۶۴]

’’اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔ ‘‘

صفاتِ عالیہ کے اثبات کیلئے چند ضروری امور

اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ کو ثابت کرتے ہوئے پانچ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

01. قرآن مجید اور حدیث پاک میں وارد شدہ تمام صفات کو اللہ تعالیٰ کیلئے حقیقی طور پر ثابت کرنا۔

02. اس بات پر پختہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمام کامل صفات سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے مبرا  ہے۔

03. اللہ تعالیٰ کی صفات اور مخلوقات کی صفات میں کسی قسم کی مشابہت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ پاک ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں، نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔

04. اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے ان صفات کی کیفیت معلوم کرنے کا تکلف کرنا یا بیان کرنا مخلوق کیلئے قطعا درست نہیں ۔

05. ان صفات پر مرتب ہونے والے احکام اور آثار پر ایمان لانا۔

ان پانچ امور کی وضاحت کیلئے ہم اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الاستواء‘‘ سے مثال بیان کرسکتے ہیں۔ لہذا اس صفت میں ان چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

01. شرعی نصوص میں صفت ’’استواء‘‘  وارد ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ۔ لہذا  اس صفت کو اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت کرنا اور اس پر ایمان لاناضروری ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلیَ الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ ﴾ [طہ: ۵]

’’ رحمن عرش پر مستوی ہے‘‘

02. صفت ’’استواء‘‘ کو اللہ تعالیٰ کیلئے ایسے کامل طریق پر ثابت کرنا جس کا وہ مستحق ہے۔اور اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر حقیقی طور پر بلند ہے جیسا کہ اس کے شایان شان ہے۔

03. اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کو مخلوقات کے مستوی ہونے سے تشبیہ نہ دینا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عرش سے بے پرواہ ہے اور وہ اس کا محتاج نہیں ہے۔

04. اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت میں غور وفکر نہ کرنا، کیونکہ یہ ایک غیبی معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ جیسا کہ امام مالک  رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے : ( الإستواء معلوم ، والکیف مجہول،

والإیمان بہ واجب ، والسؤال عنہ بدعۃ  )  یعنی  ’’ استواء( کا معنی ) معلوم ہے ، اس کی کیفیت نا معلوم ہے ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ ‘‘

05. اس صفت پر مرتب ہونے والے احکام اور آثار پر ایمان لاناجیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، بزرگی اور بڑائی جو اس کے شایان شان ہے۔ اسی طرح اس صفت سے اللہ تعالیٰ کا مطلقاً اپنی مخلوقات پر بلند ہوناثابت ہوتا ہے اوراس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ذات کے اعتبار سے ہر جگہ پر موجود مانتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر ہی مستوی ہے ۔ ہاں وہ اپنی صفات ( مثلا علم ، سننا ، دیکھنا ، نگرانی کرنا اور احاطہ کرنا وغیرہ ) کے اعتبار سے ہر جگہ پرموجود ہے اور دنیا میں کوئی کام اس کے علم کے بغیر نہیں ہوتا ۔ وہ کائنات کی تمام حرکات وسکنات کا علم رکھتا ہے ، انھیں سنتا اور دیکھتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾ [ الأنعام : ۵۹ ]

  ’’ اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں ۔ انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ سمندر اور خوشکی میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے۔ اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو ۔ نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ۔ اور تر اور خوشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین میں موجود ہے ۔ ‘‘

اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے ، اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی (العلی ) بھی کرتا ہے جس سے اس کی صفت ( العلو ) ثابت ہوتی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۵ ]

’’ وہ بلند وبرتر اور عظمت والا ہے ‘‘

اس کے علاوہ اللہ کے بندوں کے دل بھی سجدہ کی حالت میں ، اسی طرح دعا کرتے ہوئے اسی بلندی کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں اور سجدہ کرنے والا پکارتا ہے:  (  سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأعْلٰی)    ’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند وبالا اور عظمت والا ہے ۔‘‘

ذاتی اور فعلی صفات کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ

اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جو عقیدہ ہم نے ذکر کیا ہے ، اہل السنۃ والجماعۃ یہی عقیدہ اللہ تعالیٰ کی

 ذاتی اور فعلی صفات کے بارے میں رکھتے ہیں۔

ذاتی صفات سے مراد وہ صفات عالیہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات سے متعلق ہیں مثلا چہرہ ، ہاتھ ، نفس اور انگلیاں وغیرہ ۔  یہ وہ صفات ہیں جن کا قرآن مجید کی آیاتِ کریمہ اور احادیث نبویہ میں ذکر آیا ہے ۔

اور فعلی صفات سے مقصود وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعض افعال سے متعلق ہیں مثلا آنا ، نازل ہونا ، محبت کرنا ، راضی ہونا ، پسند کرنا ، نا پسند کرنا ، ناراض ہونا ، غضبناک ہونا ، انتقام لینا ، ہنسنا، خوش ہونا وغیرہ ۔۔۔۔ یہ تمام صفات بھی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اہل السنۃ والجماعۃ ان تمام صفات کو اللہ تعالیٰ کیلئے اس طرح ثابت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی بڑائی اور عظمتِ شان کے لائق ہے۔ اور وہ ان صفات کی تاویل نہیں کرتے اور نہ ہی انھیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں ، بلکہ ان پر یوں ایمان لاتے ہیں جیسا کہ اس کے شایان شان ہے ۔

برادران اسلام ! آج کے خطبہ میں ہم نے ارکانِ ایمان میں سے صرف ایمان باللہ کی وضاحت کی ہے ۔ باقی ارکان کے متعلق ہم ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبۂ جمعہ میں وضاحت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا اور کامل ایمان نصیب فرمائے ۔ آمین ۔