توحیدِ باری تعالیٰ

اہم عناصرِ خطبہ:

01.  توحید کا مفہوم

02. کلمۂ توحید’’لا إلہ إلا اﷲ‘‘کا معنی

03. توحید کی اہمیت اور قدر و منزلت

04.  توحید کے فضائل

05. اقسامِ توحید: توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات

پہلا خطبہ

برادرانِ اسلام! آج کے خطبہ میں ہم ان شاء اﷲ توحید باری تعالیٰ بیان کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے حق بیان کرنے اور ہم سب کو اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ

٭ ’توحید‘دین ِ اسلام کی بنیاد ہے۔

٭ ’توحید‘سب سے پہلا فرض ہے جس کا اقرار کرنا اور اسے دل و جان سے قبول کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

٭ ’توحید‘وہ چیز ہے جس کے بغیر کوئی انسان دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا۔

٭ ’توحید‘ہی وہ چیز ہے کہ جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں(انبیاء و رسل علیہم السلام)کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو غیر اﷲ کی بندگی سے نکال کر ایک اﷲ کی عبادت میں لگائیں۔

٭ ’توحید‘ہی وہ چیز ہے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں اور ان گنت مسلمانوں نے اس کے لیے اپنی جانوں تک کو قربان کر کے جامِ شہادت نوش کیا۔

٭ ’توحید‘ہی وہ اساسی فریضۂ دین ہے جو ایک مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرتا ہے

٭ اور’توحید‘ہی وہ چیز ہے کہ اگر اسے کما حقہ قبول کرلیا جائے، اس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی پر موت آئے تو اس پر اﷲ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ اور اگر اسے کما حقہ قبول نہ کیا جائے تو اس پر اﷲ تعالیٰ نے جہنم کی وعید سنائی ہے اور اسے قبول نہ کرنے والے انسان پر جنت کو حرام کردیا ہے۔

توحید کی تعریف

محترم بھائیو! جب انسان کی نجات اور کامیابی و کامرانی کے لیے’توحید‘اس قدر اہم ہے تو آئیے پہلے یہ معلوم کرلیں کہ’توحید‘کسے کہتے ہیں؟ علامہ الجرجان’توحید‘کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

(التَّوحيدُ ثلاثةُ أشياءَ: مَعرِفةُ الله تعالى بالرُّبوبيَّةِ، والإقرارُ بالوحدانيَّةِ، ونفيُ الأندادِ عنه جملةً) (التعريفات:ص:69)

یعنی ’’توحید‘‘تین چیزوں کا نام ہے: اﷲ کی ربوبیت کی پہچان، اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس سے تمام شریکوں کی نفی کرنا۔

اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اﷲ کہتے ہیں: (التَّوحيدُ هُوً إفرادُ اللهِ سُبحانَه بالعِبادةِ) (مجموعة التوحيد۔ الرسالة الثالثة:ص:70)

یعنی توحید اکیلے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرنے کا نام ہے۔

اور شیخ ناصر العمر کا کہنا ہے کہ: (التوحيد شرعا: إفراد الله بحقوقه، وهو لله ثلاثة حقوق: حقوق ملك، وحقوق عبادة،,حقوق أسماء وصفات) (التوحيد أولا:ص:15)

یعنی شریعت میں توحید اس کو کہتے ہیں کہ’’ اﷲ کے حقوق اکیلے اﷲ کو دئے جائیں اور وہ تین ہیں: ملکیت کا حق، عبادت کا حق اور اسماء و صفات کا حق۔‘‘

اِن تینوں تعریفات سے’’توحید‘‘کا مفہوم واضح ہوگیا ہے۔ اور اس کا خلاصہ ہے اکیلے اﷲ تعالیٰ کو کائنات کا خالق و مالک ماننا، تمام عبادات صرف اسی کے ليے بجا لانا اور اس کے اسماء و صفات میں اسے یکتا تسلیم کرنا۔

کلمۂ توحید’’ لا إله إلا الله‘‘کا مفہوم

کلمہ ٔ توحید‘وہ کلمہ ہے جس کی طرف تمام انبیاء و رسل علیہم السلام دعوت دیتے رہے۔ اوراس کے دو جزو ہیں: (لا إله)اور(إلا الله) پہلے جزو میں تمام معبودانِ باطلہ کی نفی ہے اور دوسرے جزو میں صرف اﷲ تعالیٰ کے معبودِ برحق ہونے کا اثبات ہے۔ گویا اس کلمے کا مفہوم یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا تمام معبودانِ باطلہ کا انکار کیا جائے اور صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کو تمام عبادات کا مستحق گردانا جائے۔ یہ مفہوم اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے: ﴿وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ﴾ (سورة البقرة:163)

’’ اور تم سب کا معبود ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ بیحد رحم والا اور بڑا مہربان ہے۔‘‘

اِس آیت کریمہ کے پہلے جملے میں صرف ایک معبود کا اثبات ہے اور دوسرے جملے میں اﷲ تعالیٰ کے سوا باقی تمام معبودانِ باطلہ کی نفی کردی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کائنات میں معبود تو کئی ہوسکتے ہیں لیکن پوری کائنات کا معبودِ برحق صرف اﷲ تعالیٰ ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ هُوَ ٱلْبَٰطِلُ وَأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ﴾ (سورة الحج:62)

’’ یہ سب اس ليے کہ اﷲ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جس کو بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ بہت بلندیوں والا اور بڑی شان والا ہے۔‘‘

اور کلمۂ توحید کا یہی مفہوم جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے سامنے پیش کیا تو وہ کہنے لگے:

﴿أَجَعَلَ ٱلْـَٔالِهَةَ إِلَٰهًا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌ﴾ (سورة ص:5)

’’ کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنادیا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘

یعنی ان کے ليے کلمۂ توحید کا یہ معنی ناقابلِ فہم تھا کیونکہ وہ تو تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اسی ليے ایک ہی معبود کا تصور ان کے ليے باعثِ تعجب تھا اور وہ اسے ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے، بلکہ کہنے لگے:

﴿أَئِنَّا لَتَارِكُوٓا۟ ءَالِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونِۭ﴾ (سورة الصافات:36)

’’ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں؟

خلاصہ یہ ہے کہ کلمۂ توحید کا محض اتنا مفہوم مان لینا کہ اﷲ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ کے سوا باقی تمام معبودان کا انکار کرنا اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا از حد ضروری امر ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ﴾ (سورة الممتحنة:4)

’’(مسلمانو!)تمہارے ليے حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے لاتعلق ہیں۔ ہم تمہارے(عقائد)کے منکر ہیں ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض کی ابتداء ہوچکی ہے یہاں تک کہ تم اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ۔‘‘

توحید کی اہمیت

01. توحید تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی دعوت ہے

اﷲ رب العزت نے انسانیت کی خیر و بھلائی کے لیے جتنے انبیاء و رسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ان سب نے اپنی اپنی قوموں کو توحید کی طرف دعوت دی۔ چنانچہ:

01. حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ﴾ (سورة الأعراف:59)

’’ ہم نے نوح(علیہ السلام)کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے فرمایا: اے میری قوم! تم اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں۔‘‘

02. حضرت ھود علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۚ﴾ (سورة الأعراف:65)

’’ اے میری قوم! تم اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں۔‘‘

03. یہی بات حضرت صالح علیہ السلام نے فرمائی:

﴿يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ﴾ (سورة الأعراف:73)

’’ اے میری قوم! تم اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں۔‘‘

04. حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی انہی الفاظ میں اپنی قوم کو مخاطب فرمایا:

﴿يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ﴾ (سورة الأعراف:85)

’’ اے میری قوم! تم اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں۔‘‘

05. حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں اپنے ساتھیوں کو یوں دعوتِ توحید پیش کی:

﴿يَٰصَٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ ءَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ. مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ أَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (سورة يوسف:39تا40)

’’ اے میرے قید کے ساتھیو! کیا کئی مختلف معبود بہتر ہیں یا اکیلا اﷲ جو سب پر غالب ہے؟ اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ ليے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ فرمانروائی صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

چند انبیاء کی دعوت کا ذکر ہم نے بطور مثال پیش کیا ہے ورنہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام اسی دعوت پر متفق تھے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ﴾ (سورة الأنبياء:25)

’’ اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اس ليے تم سب میری ہی عبادت کرو۔‘‘

اسی حقیقت کو اﷲ رب العزت نے سورۃ النحل میں یوں ذکر فرمایا:

﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ﴾ (سورة النحل:36)

’’ اور ہم نے ہر امت کی طرف ایک رسول اس پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ لوگو! اﷲ ہی کی عبادت کرو اور غیر اﷲ کی عبادت سے بچتے رہو۔‘‘

02. توحیدِ الٰہی کی گواہی خود اﷲ تعالیٰ نے اور اس کے فرشتوں نے دی ہے

فرمانِ الٰہی ہے: ﴿شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَأُو۟لُوا۟ ٱلْعِلْمِ قَآئِمَۢا بِٱلْقِسْطِ ۚ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ﴾ (سورة آل عمران:18)

’’ اﷲ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود(برحق)نہیں اور(اسی طرح)فرشتے اور اہلِ علم بھی گواہی دیتے ہیں۔ وہ عدل پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود(برحق)نہیں۔ وہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ’’توحید‘‘اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی اہم فریضہ ہے جس پر عمل کيے بغیر کسی انسان کی نجات ممکن نہیں۔

03. توحید دین ِ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے

دین ِ اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں: ایک یہ کہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، تمام عبادات اسی کے ليے بجا لائی جائیں اور کسی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہ بنایا جائے۔ دوسرا یہ کہ عبادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق اور ان کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں کی جائے۔ یہ دونوں اصول کلمۂ شہادت(أشْهَدُ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ)سے ماخوذ ہیں۔ معلوم ہوا کہ توحید دین ِ اسلام کے دو بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔

04. توحید ہر داعی کی دعوت کا نقطۂ آغاز ہے

ہم یہ یات ذکر کر چکے ہیں کہ ہر نبی نے اپنی دعوت کا آغاز توحید سے کیا۔ اور سید الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قوم کو سب سے پہلے دعوت دی وہ غیر اﷲ کی پوجا کرنے میں مشہور تھی۔ وہ بتوں کو حاجت روا، مشکل کشا اور نفع نقصان کا مالک سمجھتی تھی، وہ قوم بتوں سے محبت کرتی تھی اور انہی کے ليے نذر و نیاز پیش کرتی تھی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس قوم کو دعوت دی تو اس کا آغاز یوں فرمایا: (قُولوا: لا إلهَ إلا اللهُ، تُفلِحوا)یعنی’’ تم یہ کہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، اگر یہ کہو گے تو کامیاب ہوجاؤ گے۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے جاں نثاروں نے اسی دعوتِ توحید کی خاطر تکلیفیں جھیلیں، اذیتیں برداشت کیں حتی کہ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ہجرت کرلی، پھر اسی کو منوانے کے ليے کفار و مشرکین سے جنگیں لڑیں۔ اور توحید ہی کا علم بلند کرنے کے ليے لمبے لمبے سفر کيے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فاتحانہ انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے آپ نے خانۂ کعبہ میں نصب کيے تین سو ساٹھ بتوں کو پاش پاش کیا اور فرمایا: ﴿جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَٰطِلُ ۚ﴾ یعنی’’ آج حق آگیا ہے اور باطل کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔‘‘ ’’حق‘‘ سے مراد توحید ہے اور’’باطل‘‘سے مراد بت اور ان کی پوجا کرنا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو انہیں چند ہدایات دیں۔ ارشاد فرمایا: (إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ) (صحيح مسلم:19)

’’تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو، اس ليے تم انہیں(سب سے پہلے)اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ بات مان لیں تو انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ بات بھی تسلیم کرلیں تو انہیں خبردار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان میں سے مالداروں سے وصول کر کے انہی میں سے جو فقراء ہیں ان میں لوٹا دی جائے گی۔ اور اگر وہ اس میں بھی تمھاری فرمانبرداری کریں تو ان کے نفیس مالوں سے بچنا اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔‘‘

دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

(إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ فَأَخْبِرْهُمْ۔۔۔۔۔)‌ (صحيح البخاري:1458)

’’ بے شک تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو تو سب سے پہلے تم نے انہیں جس بات کی طرف دعوت دینی ہے وہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں تو انہیں خبر دینا کہ ۔۔۔۔‘‘ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ ہر داعی کی دعوت کا نقطۂ آغاز توحیدِ الٰہی ہے اور یہ اہمیت ِ توحید کی ایک واضح دلیل ہے۔

05. توحید دین ِ اسلام کا پہلا رکن ہے

دین ِ اسلام جن پانچ ارکان پر قائم ہے ان میں سے پہلا رکن توحید ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (بُنِيَ الإسْلَامُ علَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔) (صحيح البخاري:8)

’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: سب سے پہلی چیز اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اﷲ کے رسول ہیں … الخ۔‘‘

06. توحید اﷲ تعالیٰ کا اس کے بندوں پر پہلا حق ہے

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا تھا میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان محض کجاوے کی لکڑی کا فاصلہ تھا۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے معاذ بن جبل! ‘‘ میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ پھر کچھ دیر آپ چلتے رہے۔ پھر فرمایا:’’ اے معاذ بن جبل!‘‘ میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ پھر کچھ دیر آپ چلتے رہے۔ پھر فرمایا: ’’ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ پھر کچھ دیر آپ چلتے رہے۔ پھر فرمایا: (هل تدري ما حَقُّ اللهِ على العِبادِ؟) یعنی کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اﷲ کا حق کیا ہے؟ میں نے کہا: اﷲ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(حَقَّ اللهِ على العِبادِ أن يعبُدوه ولا يُشْرِكوا به شيئًا)’’ بندوں پر اﷲ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ ‘‘ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے۔ آگے جا کر آپ نے فرمایا: ’’ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں حاضر ہوں۔

آپ نے فرمایا: (هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟)’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اگر وہ ایسا کرلیں تو اﷲ تعالیٰ پر بندوں کا حق کیا ہے؟ میں نے کہا: اﷲ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَقَّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ يُعَذِّبَ

’’ اﷲ پربندوں کا حق یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔‘‘ (‌صحيح البخاري:2856 وصحيح مسلم:30)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندوں پر اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کو معبود مانیں، سب کی سب عبادات اسی کے ليے خاص کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بندے اﷲ کا حق ادا کر دیں تو اﷲ تعالیٰ کمال مہربانی سے اپنے ذمہ لے لیتا ہے کہ وہ انہیں عذاب نہیں دے گا اور جنت میں داخل کرے گا۔

07. ایمان کا آغاز توحیدِ الٰہی سے ہوتا ہے

حضرت مسیّب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ابو جہل اور عبد اﷲ بن ابو امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (يَا عَمِّ! قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللهِ)’’ اے چچا جان! آپ لا إلٰہ إلا اللہ کا اقرار کرلیں۔ یہ ایسا کلمہ ہے کہ جس کی بنا پر میں اﷲ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘اس پر ابو جہل اور عبد اﷲ بن ابو امیہ کہنے لگے: اے ابو طالب! کیا تم عبد المطلب کے دین کو چھوڑ دو گے؟ تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اسے’’ لا إلٰہ إلا اللہ‘‘ پیش کرتے رہے اور ہر مرتبہ اپنی پہلی بات دہراتے رہے لیکن ابو طالب نے کہا: وہ دین ِ عبد المطلب پر قائم ہے اور اس نے’’ لا إلٰہ إلا اللہ‘‘کا اقرار کرنے سے انکار کردیا۔ ‌(صحيح البخاري:3884 وصحيح مسلم:24)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایمان کی ابتداء توحید سے ہوتی ہے اور کلمۂ توحید ہی کے اقرار سے کوئی غیر مسلم اسلام کے دائرے میں داخل ہوسکتا ہے۔ اور اسی توحید کی بنا پر ہی اس کی اﷲ کے عذاب سے نجات ممکن ہے۔

توحید کے فضائل

01.  توحید کا دل سے اقرار کرنے والے شخص کے ليے جنت ہے

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ) (صحيح مسلم:26)

’’ جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ اسے یقین تھا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: دو واجب کرنے والی چیزیں کونسی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ) (صحيح مسلم:93)

’’ جس شخص کی موت بایں حالت آئی کہ وہ کسی کو اﷲ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ اﷲ کے ساتھ شرک کرتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

ایک قصہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم چند لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلے گئے اور کافی دیر تک واپس نہ آئے۔ اس پر ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کسی دشمن نے آپ کو کوئی نقصان ہی نہ پہنچایا ہو جس سے آپ واپس نہ آسکے ہوں۔چنانچہ ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور میں سب سے پہلا شخص تھا جو گھبرا کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ میں آپ کو تلاش کرتے کرتے بنو النجار کے باغ تک آپہنچا۔ میں نے اس کے چاروں اطراف چکر لگایا کہ کہیں سے کوئی دروازہ ملے اور میں اندر چلا جاؤں لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ البتہ اس کے اندر جانے والا پانی کا ایک تنگ راستہ میں نے دیکھا تو اسی سے میں اندر گھس گیا۔ اندر جا کرمجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تو فرمایا: ابوہریرہ! تم یہاں کیسے آئے؟ میں نے عرض کی: اے اﷲ کے رسول! آپ ہمارے درمیان سے اٹھ کر آگئے اور آپ نے واپس لوٹنے میں کافی تاخیر کر دی۔ اس پر ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کسی دشمن نے آپ کو نہ روک لیا ہو، اس ليے ہم گھبرا کر آپ کی تلاش کے ليے نکل کھڑے ہوئے اور میں سب سے پہلے آپ کی تلاش میں نکلا تھا، دوسرے لوگ بھی میرے پیچھے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جوتا مجھے عنایت کیا اور فرمایا :(اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ)’’ میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اور تمھیں باغ کے اُس پار جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘چنانچہ مجھے سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے۔ میں نے کہا: ’’ یہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتا ہے، آپ نے یہ مجھے(بطور نشانی)عنایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو میں اسے جنت کی بشارت دوں۔‘‘اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے میں چت گر گیا اور انھوں نے کہا: ابوہریرہ! جاؤ واپس پلٹ جاؤ۔ چنانچہ میں واپس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس حالت میں لوٹا کہ میں شدید رو رہا تھا۔ میرے پیچھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوہریرہ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے سارا واقعہ آپ کو سنا دیا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ کیا واقعتًا آپ نے اپنا جوتا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دے کر یہ بشارت سنانے کا حکم دیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے عمل کرنا چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا آپ انہیں عمل کرنے دیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے انہیں عمل کرنے دو۔‘‘ (صحيح مسلم:31)

اس حدیث میں دل سے’’لا إلٰہ إلا اللہ‘‘کی گواہی دینے والے اور توحیدِ الٰہی کا اقرار کرنے والے شخص کے لیے جنت کی بشارت ہے۔

02. توحید پرست پر جہنم حرام ہے

ابو عبد اﷲ عبد الرحمن بن عسیلۃ الصنابحی کا بیان ہے کہ جب حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب تھا تو میں ان کے پاس گیا اور ان کی حالت دیکھ کر مجھے بے ساختہ رونا آگیا۔ اس پر انھوں نے کہا: ٹھہر جاؤ، کیوں روتے ہو؟ اﷲ کی قسم:اگر مجھ سے گواہی طلب کی گئی تو میں ضرور تمہارے حق میں گواہی دوں گا۔ اور اگر مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی تو میں ضرور تمہارے حق میں شفاعت کروں گا۔ اور جتنا ہو سکے گا میں تمہیں نفع پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ پھر انھوں نے کہا: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی حدیثیں سنی تھیں وہ سب کی سب میں نے تمھیں بیان کردی تھیں سوائے ایک حدیث کے جو میں تمھیں آج سنانے لگا ہوں۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا:

(مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ النَّارَ) (صحيح مسلم:29)

’’ جس آدمی نے گواہی دی کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اﷲ کے رسول ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم حرام کر دی ہے۔‘‘

03.  روزِ قیامت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اہلِ توحید کے لیے ہوگی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے بڑا خوش نصیب کون ہو گا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:

(لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ)‌ (صحيح البخاري:99)

’’ اے ابو ہریرہ! مجھے یقین تھا کہ اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے کیونکہ تمھیں احادیث سننے کا زیادہ شوق رہتا ہے۔(تو سنو) قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کو نصیب ہو گی جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ لا إلہ إلا اللہ کہا۔‘‘

اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا) (جامع الترمذي:2441)

’’ میرے پاس میرے رب تعالیٰ کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھے اختیار دیا کہ میں یا تو اپنی آدھی امت کے جنت میں جانے پر راضی ہو جاؤں یا روزِ قیامت شفاعت کروں۔ تو میں نے شفاعت کو چن لیا ہے اور میری شفاعت ہر اُس شخص کے لیے ہوگی جس کی موت اس حالت میں آئے گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔‘‘

04. اہلِ توحید کی شفاعت اﷲ کے ہاں قابلِ قبول ہے

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمْ اللَّهُ فِيهِ) (صحيح مسلم:948)

’’ جو مسلمان فوت ہوجائے، پھر اس کی نمازِ جنازہ میں چالیس افراد شرکت کریں جنہوں نے کبھی اﷲ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا تو اﷲ تعالیٰ اس کے حق میں ان کی شفاعت قبول کرلیتا ہے۔‘‘

05. توحید کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ بڑے بڑے گناہ گاروں کو معاف کر دیتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ تم سے پہلی امتوں میں ایک ایسا شخص تھا جس نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، البتہ وہ توحید پرست تھا۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا: دیکھو! جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا یہاں تک کہ میں کوئلوں کی طرح ہوجاؤں۔ پھر ان کوئلوں کو پیس کر میری راکھ کو تیز ہواؤں میں اڑا دینا۔‘‘

چنانچہ جب وہ مرگیا تو اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ اﷲ تعالیٰ کی مٹھی میں آیا تو اﷲ نے اس سے پوچھا: اے آدم کے بیٹے! تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! تیرے ڈر کی وجہ سے۔ تو اس بنا پر اس کی مغفرت کر دی گئی حالانکہ اس نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا سوائے توحید کے۔‘‘ مسند أحمد:2\304۔ واصله في الصحيحين

06. کبیرہ گناہوں کے مرتکب اہلِ توحید کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(يعذَّبُ ناسٌ مِن أَهْلِ التَّوحيدِ في النَّارِ حتَّى يَكونوا فيها حَممًا ، ثمَّ تُدرِكُهُمُ الرَّحمةُ ، فيَخرُجونَ ويطرَحونَ على أبوابِ الجنَّة قالَ فيَرُشُّ عليهِم أَهْلُ الجنَّةِ الماءَ فينبُتونَ كما ينبُتُ الغُثاءُ في حمالةِ السَّيلِ ثمَّ يُدخَلونَ الجنَّةَ) (سنن الترمذي:2597)

’’ کچھ اہلِ توحید کو جہنم میں(ان کے گناہوں کی)سزا دی جائے گی یہاں تک کہ وہ کوئلے بن چکے ہوں گے، پھر رحمت ِ الٰہی ان کو پالے گی، چنانچہ انہیں جہنم سے نکال کر جنت کے دروازوں پر پھینک دیا جائے گا۔ پھر اہلِ جنت ان پر پانی چھڑکیں گے جس سے وہ یوں اگیں گے جیسے سیلاب کے لائے ہوئے کوڑا کرکٹ میں نباتات اگتے ہیں(یعنی ان کے بدن بہت جلد اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئیں گے)پھر وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘

کلمۂ توحید کی فضیلت میں دو عظیم احادیث

01. حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ قیامت کے دن تمام مخلوقات کے سامنے میری امت کے ایک شخص کو پکارا جائے گا، پھر اس کے سامنے 99 رجسٹر پھیلا ديے جائیں گے جن میں سے ہر رجسٹر حدِ نگاہ تک لمبا ہوگا۔ پھر اس سے پوچھا جائے گا: کیا تم اپنے ان اعمال میں سے کسی عمل کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! پھر اسے کہا جائے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر یا کوئی نیکی ہے؟ تو وہ شخص ڈر جائے گا اور کہے گا: نہیں۔ تو اسے کہا جائے گا: کیوں نہیں، تیری ایک نیکی ہمارے پاس محفوظ ہے اور آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پھر اس کے ليے ایک کارڈ نکالا جائے گا جس میں لکھا ہوگا:(أشْهَدُ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورَسولُهُ)’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ وہ کہے گا: اے میرے رب! یہ کارڈ اتنے رجسٹروں کے سامنے تو کچھ بھی نہیں! اسے کہا جائے گا: آج تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ پھر تمام رجسٹروں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور اس کارڈ کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا ۔چنانچہ رجسٹروں والا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور کارڈ والا پلڑا جھک جائے گا۔‘‘ (سنن الترمذي:2641ابن ماجه:4300،مسند احمد:2\213،أحمد شاكر: إسناده صحيح)

عام شرعی نصوص کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص زندگی بھر کفر اور معصیت میں غرق رہا، پھر آخر میں کلمۂ توحید پڑھ کر وفات پا گیا تھا۔ اور چونکہ خاتمہ کلمۂ توحید پر ہوا اس لیے وہ نجات پا جائے گا۔ واللہ اعلم

02. حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جس کے ساتھ میں آپ کا ذکر کروں اور اسکے ساتھ آپ سے دعا مانگوں؟ تو اﷲ تعالیٰ نے کہا: اے موسیٰ تم’’ لا إلٰہ إلا اللہ‘‘ پڑھا کرو۔

(عمل اليوم والليلة للنسائي:834،ابن حبان:2324،قال الحافظ في الفتح:175/11: أخرجه النسائي بسند صحيح)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! یہ تو تیرے تمام بندے پڑھتے ہیں؟ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اگر ساتوں آسمان اور میرے علاوہ ان میں رہنے والے تمام کے تمام اور اسی طرح ساتوں زمینوں کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور’’ لا إلٰہ إلا اللہ‘‘کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو’’ لا إلٰہ إلا اللہ‘‘کا وزن زیادہ ہو گا۔‘‘

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عقیدۂ توحید پر قائم رکھے۔ آمین۔

اقسامِ توحید

اب ہم توحید کی اقسام بیان کرتے ہیں۔ ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہيے کہ توحید کی تین قسمیں ہیں:

01. توحیدِ ربوبیت

توحیدِ ربوبیت سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اس کے تمام افعال میں یکتا و تنہا مانا جائے۔ یعنی وہی اکیلا پوری کائنات کا خالق و مالک ہے، وہی اکیلا تمام مخلوقات کا رازق ہے اور وہی پوری دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے اور مدبر الأمور ہے۔ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾ (سورة يونس:31)

’’ آپ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور وہ کون ہے جو زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہ کہیں گے کہ وہ اﷲ ہی ہے۔ تو ان سے کہيے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے؟

اور فرمایا: ﴿قُل لِّمَنِ ٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ.قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ.سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ.قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ‏﴾ (سورة المؤمنون:84تا89)

’’ کہہ دیجيے! زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر تم جانتے ہو! فورا جواب دیں گے کہ اﷲ کی۔ کہہ دیجيے کہ پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ ان سے پوچھيے کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ اﷲ ہی ہے۔ تو کہہ دیجيے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے؟ پوچھيے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے پاس ہے؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دی جاتی، بتلاؤ اگر تم جانتے ہو؟ تو وہ یہی جواب دیں گے کہ اﷲ ہی ہے۔ تو کہہ دیجيے کہ پھر تم کدھر سے جادو کرديے جاتے ہو؟

اکیلا اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے

ارشاد باری ہے: ﴿وَكَأَيِّن مِّن دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ٱللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ﴾ (سورة العنكبوت:60)

’’ اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے۔ ان سب کو اور تمہیں بھی اﷲ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے۔‘‘

اور فرمایا: ﴿مَآ أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَآ أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ.إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ﴾ (سورة الذاريات:57تا58)

’’ نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں۔ اﷲ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں، توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘

ان آیاتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت کا اثبات ہے لیکن یہ بات معلوم ہونی چاہيے کہ صرف ربوبیت کا اقرار ہی کافی نہیں ہے کیونکہ اتنا تو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ (سورة العنكبوت:61)

’’ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں؟‘‘

لیکن اس کے باوجود بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگیں لڑیں۔ تو آخر ایسا کیوں تھا؟ اس ليے کہ وہ اﷲ کی الوہیت کے قائل نہیں تھے، وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بجائے غیر اﷲ کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ لہٰذا ربوبیت ِ الٰہی کے اقرار کے ساتھ ساتھ اس کی الوہیت کا اقرار بھی ضروری ہے کہ جس کے بغیر کسی انسان کی نجات ممکن نہیں ہے۔

02. توحید الوہیت

اِس سے مراد یہ ہے کہ عبادت میں اﷲ تعالیٰ کو یکتا مانا جائے، تمام عبادات صرف اسی کے ليے بجا لائی جائیں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ اﷲ تعالیٰ کی توحیدِ الوہیت کا اقرار کرنے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ

٭ اقرار کرنے والا صرف اﷲ تعالیٰ کو داتا یعنی دینے والا تصور کرے۔

٭ صرف اﷲ تعالیٰ کو نفع و نقصان کا مالک سمجھے۔

٭ صرف اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگے۔

٭ صرف اﷲ تعالیٰ کو حاجت روا اور مشکل کُشا تسلیم کرے۔

٭ صرف اﷲ تعالیٰ کو مدد کے ليے پکارے۔

٭ صرف اﷲ تعالیٰ سے تمام امیدیں وابستہ رکھے۔

٭ اس کے دل میں صرف اﷲ تعالیٰ کا خوف ہو۔

٭ وہ صرف اﷲ تعالیٰ پر توکل کرے۔

٭ صرف اﷲ تعالیٰ کے ليے نذر مانے۔

٭ اور صرف اﷲ تعالیٰ کے ليے جانور ذبح کرے۔

الغرض یہ کہ ہر قسم کی عبادت صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے ليے بجا لائے اور غیر اﷲ کی محبت کو دل سے نکال کر صرف اﷲ تعالیٰ کی محبت کو اپنے دل میں بسائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ.لَا شَرِيكَ لَهُۥ ۖ﴾ (سورة الأنعام:162تا163)

’’ آپ کہہ دیجيے کہ یقینا میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا یہ سب اﷲ ہی کے ليے ہے جو کہ رب العالمین ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘

اور فرمایا: ﴿وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ﴾ (سورة البينة:5)

’’ انہیں محض اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے ليے دین کو خالص رکھیں۔‘‘

جو اللہ تعالیٰ خالق و مالک اور رازقِ کائنات ہے وہی اکیلا معبود برحق ہے

جس اللہ تعالیٰ کو ہم خالق و مالک اور رازقِ کائنات مانتے ہیں اسی اللہ تعالیٰ کو معبود برحق ماننا اور تمام عبادات اسی کے لیے بجا لانا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس غیر اللہ کو لوگ پکارتے ہیں وہ قطعا خالق نہیں، رازق نہیں، نہ ہی ان کے پاس کسی چیز کا اختیار ہے اور نہ وہ کسی کے نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَىْءٍ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (سورة الروم:40)

’’ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، پھر تمھیں رزق دیا، پھر تمھیں مارے گا اور پھر تمھیں زندہ کرے گا۔ تو کیا تمھارے شرکاء میں سے کوئی ایک شریک ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کرتا ہو؟ وہ پاک ہے اور ان کے شرک سے بلند و بالا ہے۔‘‘

لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہی خالق و رازق ہے، مارتا اور زندہ کرتا ہے اور اُس کے علاوہ کوئی دوسرا ان چیزوں کا اختیار نہیں رکھتا تو پھر عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہيے۔

ارشاد باری ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.‏ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (سورة البقرة:21تا22)

’’ اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم(اس کے عذاب سے)بچو۔ وہی ہے جس نے تمہارے ليے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش برسا کر تمہارے کھانے کے ليے انواع و اقسام کے میوے پیدا کيے۔ لہٰذا تم کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے ہو(کہ ان چیزوں کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں)‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اُس رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے جو اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کا خالق ہے، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور ہمیں رزق دینے والا ہے۔

توحید ربوبیت کے اثبات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا شریک بنانے سے منع فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ توحید ربوبیت کا اقرار کرنے سے توحید الوہیت کا اقرار لازم آتا ہے۔ اور ہم جب قرآن مجید کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر غیر اللہ کے خالق ہونے کی نفی کی ہے۔ اپنے خالق ہونے کا اثبات کیا ہے اور اسی بناء پر اپنی الوہیت ِ حقہ کو منوایا ہے اور اپنے معبود برحق ہونے کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ اس کا فرمان ہے:

﴿وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْـًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ.أَمْوَٰتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ.إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ ۚ﴾ (سورة النحل:20تا22)

’’ اور جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ تو خود پیدا کيے جاتے ہیں۔ وہ مردے بے جان ہیں اور کچھ بھی شعور نہیں رکھتے کہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے۔ تم سب کا معبود ایک ہی ہے۔‘‘

نیز فرمایا: ﴿‏قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ قُلِ ٱللَّهُ ۚ قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِى ٱلظُّلُمَٰتُ وَٱلنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا۟ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوا۟ كَخَلْقِهِۦ فَتَشَٰبَهَ ٱلْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ ٱللَّهُ خَٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ وَهُوَ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّٰرُ﴾ (سورة الرعد:16)

’’ آپ پوچھيے کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ آپ خود ہی بتا دیجيے کہ اللہ ہے، آپ کہيے کہ کیا تم لوگوں نے اُس کے سوا دوسروں کو یار و مدد گار بنا لیا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں؟ آپ کہیے کہ کیا نا بینا اور بینا دونوں برابر ہیں؟ یا کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہے؟ یا کیا انھوں نے اللہ کے کچھ ایسے ساجھی بنا لیے ہیں جنھوں نے اللہ کی مخلوق کی طرح کسی کو پیدا کیا ہے اور وہ مخلوقات ان کی نظر میں گڈ مڈ ہو گئی ہیں؟ آپ اعلان کردیجیے کہ اکیلا اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ تنہا ہے، زبردست ہے۔‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے: ﴿وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْـًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَوٰةً وَلَا نُشُورًا﴾ (سورة الفرقان:3)

’’ اور انھوں نے اللہ کے سوا بہت سے معبود بنا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ اور وہ اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت اور نہ زندگی اور نہ دوبارہ زندہ کرنا ان کے اختیار میں ہے۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کرنے والوں کو چیلنج کیا ہے کہ جن کی تم پوجا کرتے ہو، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے ہو، جن کو مدد کے لیے پکارتے ہو اور جن کی قبروں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہو ذرا بتلاؤ تو کیا انھوں نے کسی چیز کو پیدا کیا ہے؟ کیا کسی چیز کے خالق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٰسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ.هَٰذَا خَلْقُ ٱللَّهِ فَأَرُونِى مَاذَا خَلَقَ ٱلَّذِينَ مِن دُونِهِۦ ۚ بَلِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ﴾ (سورة لقمان:10تا11)

’’ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جنھیں تم دیکھ سکو اور زمین پر پہاڑ رکھ دیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں ہچکولے کھلائے۔ اور اس پر ہر قسم کے جانور پھیلا دئیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے زمین میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائیں۔ یہ اللہ کی تخلیق ہے۔ تو اب تم لوگ مجھے دکھاؤ کہ اس کے سوا دوسرے معبودوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ بلکہ(حقیقت یہ ہے کہ)ظالم(مشرک)کھلی گمراہی میں ہیں۔‘‘

اسی طرح فرمایا: ﴿قُلْ أَرَءَيْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَرُونِى مَاذَا خَلَقُوا۟ مِنَ ٱلْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ أَمْ ءَاتَيْنَٰهُمْ كِتَٰبًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ ٱلظَّٰلِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا﴾ (سورة فاطر:40)

’’ آپ پوچھيے کہ کیا تم نے کبھی اپنے ان دیوتاؤں کے بارے میں غور کیا ہے جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ذرا مجھے دکھلاؤ تو سہی کہ انھوں نے زمین کا کونسا حصہ پیدا کیا ہے یا آسمانوں کو پیدا کرنے میں اللہ کے ساتھ ان کی کوئی شرکت ہے؟ یا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے جس میں ان کے شرک کے لیے کوئی دلیل موجود ہے؟ بلکہ(حقیقت یہ ہے کہ)یہ ظالم لوگ ایک دوسرے سے صرف دھوکہ اور فریب کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر تو اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ کی بے بسی کو اس انداز سے بیان فرمایا ہے کہ یہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جو اس قدر عاجز ہیں کہ ایک چھوٹا سا حشرہ بھی پیدا نہیں کر سکتے تو وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور حاجت روا اور مشکل کشا کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور ان کے پاس نفع و نقصان کا اختیار کیسے ہو سکتا ہے؟

ارشاد باری ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥٓ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَن يَخْلُقُوا۟ ذُبَابًا وَلَوِ ٱجْتَمَعُوا۟ لَهُۥ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ ٱلذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ ٱلطَّالِبُ وَٱلْمَطْلُوبُ﴾ (سورة الحج:73)

’’ لوگو! ایک مثال بیان کی جارہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو، اﷲ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے چاہے اس کے ليے سبھی اکٹھے ہوجائیں۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اسے اس سے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ بڑا کمزور ہے طلب کرنے والا اور وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‘‘

ان تمام آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ جو اللہ تعالیٰ خالق و مالک اور رازقِ کائنات ہے وہی اکیلا معبود برحق ہے اور اس کی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔

غوث اعظم اللہ تعالیٰ ہی ہے

’’ غوث اعظم‘‘ یعنی سب سے بڑا مدد گار اور مشکلات کو ٹالنے والا اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کے سوا کوئی نہیں۔

فرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ تَدْعُونَهُۥ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَىٰنَا مِنْ هَٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّٰكِرِينَ.قُلِ ٱللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ﴾ (سورة الأنعام:63تا64)

’’ کہہ دیجيے کہ بحر و بر کی تاریکیوں میں تمھیں کون نجات دیتا ہے؟ اس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں ان سے نجات دے دی تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوں گے، کہہ دیجيے کہ اللہ ہی تمھیں اس مصیبت سے اور ہر شدت سے نجات دیتا ہے، پھر بھی تم اس کا شریک بناتے ہو۔‘‘

اسی طرح اس کا ارشاد ہے: ﴿أَمَّن يُجِيبُ ٱلْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ ٱلسُّوٓءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ ٱلْأَرْضِ ۗ أَءِلَٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ﴾

(سورة النمل:62)

’’ بھلا کون ہے جو لا چار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور(کون)تمھیں زمین کا جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے تھے۔ مثلا حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ﴿وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُۥٓ أَنِّى مَسَّنِىَ ٱلضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ ٱلرَّٰحِمِينَ.فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ فَكَشَفْنَا مَا بِهِۦ مِن ضُرٍّ ۖ وَءَاتَيْنَٰهُ أَهْلَهُۥ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَٰبِدِينَ﴾ (سورة الأنبياء:83تا84)

’’ اور ایوب(علیہ السلام)کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ چنانچہ ہم نے انھیں ان کے اہل و عیال ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ اور بھی دے دئیے، یہ ہماری مہربانی تھی اور عبادت گذاروں کے لیے نصیحت۔‘‘

اور حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَٰتِ أَن لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ.فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ وَنَجَّيْنَٰهُ مِنَ ٱلْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُـۨجِى ٱلْمُؤْمِنِينَ﴾ (سورة الأنبياء:87تا88)

’’ پس انھوں نے تاریکیوں میں اپنے رب کو پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو(تمام عیوب سے)پاک ہے، میں بے شک ظالموں میں سے تھا۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کو غم سے نجات دی۔ اور ہم اسی طرح مومنوں کو بھی نجات دیتے ہیں۔ ‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب جنگ بدر کے موقع پر وہ تعداد کے اعتبارسے کفار سے کم تھے اور فوجی طاقت کے لحاظ سے ان کے مقابلے میں کمزور تھے تو انھوں نے فتح و نصرت کے لیے بس اپنے رب کو ہی پکارا، پھر اس نے ان کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کردئیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾ (سورة الأنفال:9)

’’ جب تم لوگ اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمھاری سن لی اور اس نے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے تمھاری مدد کروں گا جو یکے بعد دیگرے اترتے رہیں گے۔‘‘

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مشرکین کی تعداد ایک ہزار ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صرف تین سو انیس ہیں تو قبلہ رخ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا شروع کردی۔ آپ نے کہا:

(اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لي ما وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ ما وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إنْ تُهْلِكْ هذِه العِصَابَةَ مِن أَهْلِ الإسْلَامِ لا تُعْبَدْ في الأرْضِ،) (صحيح مسلم:1763)

’’ اے اللہ! مجھ سے تو نے جو وعدہ کیا وہ پورا فرما اور وہ چیز مجھے عطا فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا۔ اے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ پھیلائے ہوئے قبلہ رخ ہو کر مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کے کندھوں سے آپ کی چادر گر گئی۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے، آپ کی چادر کو اٹھایا اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈال دیا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! آپ اپنے رب سے بار بار اپیل کر رہے ہیں۔ بس کیجئے، وہ یقینا اپنا وعدہ پورا کرے گا‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔ لہذا ہمیں بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پکارنا چاہئے اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے چاہئیں۔

نفع و نقصان کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے

نفع و نقصان کا مالک سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں حتی کہ سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ جو تمام بنو آدم کے سردار اور سارے انبیاء و رسل علیہم السلام کے امام ہیں‘ اپنے نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں، چہ جائیکہ وہ اپنی وفات کے بعد کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ ۚ إِنْ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (سورة الأعراف:188)

’’ آپ کہيے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اُس کے جو اللہ چاہے۔ اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں غور کیجیے کہ جب امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں تو ان سے کم تر کوئی ولی یا کوئی بزرگ یا کوئی پیر‘ جن کی قبروں کی طرف لوگ قصدا جاتے ہیں‘ وہ کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار کیسے رکھتے ہیں؟ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کر کے یہ اعلان فرمایا کہ تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ، میں تمھارے کسی کام نہ آؤں گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ‎﴾ نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا۔ وہ اکٹھے ہو گئے تو آپ نے عام اور خاص سب لوگوں کو خطاب فرمایا: (یا بنی کعب بن لؤی! أَنْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ)

’’ اے کعب بن لؤی کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ ‘‘

( یا بنی مرۃ بن کعب ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ) یہاں سے کل کام ہوگا

’’ اے مرۃ بن کعب کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ ‘‘

( یا بنی عبد شمس ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ )

’’ اے عبد شمس کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ ‘‘

( یا بنی عبد مناف ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ )

’’ اے عبد مناف کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ ‘‘

( یا بنی ہاشم ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ )

’’ اے ہاشم کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ‘‘

( یا بنی عبد المطلب ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ )

’’ اے عبد المطلب کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ ‘‘

( یا فاطمۃ ! أَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ )

’’ اے فاطمہ ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم سے خود ہی بچاؤ ۔‘‘

( فَإِنِّی لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، غَیْرَ أَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّہَا بِبَلَا لِہَا )

’’ کیونکہ میں تمھارے لئے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مالک نہیں ، ہاں تمھارے لئے رشتہ داری کا حق ہے جسے میں ادا کرونگا ۔ ‘‘

اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا کہ وہ اپنے خاندان کیلئے تو کجا اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے بھی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے ۔

اور جن سے لوگ حصولِ نفع کی امید رکھتے اور ان کی طرف سے نقصان پہنچنے کا خوف کھاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قُلْ أَفَرَأَیْْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کَاشِفَاتُ ضُرِّہٖ أَوْ أَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکَاتُ رَحْمَتِہِ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُونَ﴾

’’ آپ کہہ دیجئے کہ تمھارا کیا خیال ہے جن معبودوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا وہ اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نقصان کو دور کردیں گے ؟ یا وہ مجھے اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک لیں گے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ‘‘

خلاصہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ خالق ومالک اور رازق کائنات ہے وہی اکیلا تمام عبادات کا مستحق اور معبود برحق ہے ، وہی غوث اعظم ہے ، وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے اور ہر قسم کے نفع ونقصان کا اختیار اسی کے پاس ہے ۔لہٰذا اسی کو پکارنا ، اسی سے دعا کرنا ، اسی سے امیدیں وابستہ کرنا اور اسی سے خوف کھانا چاہئے ۔

اسی لئے ہم میں سے ہر شخص نماز کی ہر رکعت میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ

﴿ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾

یعنی ’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔‘‘

اور اسی لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

( إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِْن بِاللّٰہِ)

’’ تم جب بھی سوال کرنا چاہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے کیا کرو ۔اورجب بھی مدد طلب کرنا چاہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے طلب کیا کرو ۔ ‘‘اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توحید کو سمجھنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق دے۔ آمین

دوسرا خطبہ

توحیدکی تین قسموں میں سے دو کی وضاحت تو ہم کر چکے ۔ آئیے اب اس کی تیسری قسم کے بارے میں بھی جان لیجئے کہ وہ کیا ہے ؟

03. توحید الاسماء والصفات

توحید کی تیسری قسم ’’ توحید الاسماء والصفات ‘‘ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کو اس کے اسماء وصفات میں بھی یکتا مانیں ۔ یعنی جو اسماء وصفات اﷲ تعالیٰ نے اپنے لئے ذکر کئے ہیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ذکر کئے ہیں ، ہم ان سب کومخلوقات سے تشبیہ دئے بغیر تسلیم کریں اور انہیں اس طرح مانیں جیسا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے شایانِ شان ہیں ۔

فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَ لِلّٰہِ الْأَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ أَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾

’’اور اچھے اچھے نام اﷲ کے لئے ہی ہیں ۔لہٰذا تم ان ناموں سے ہی اﷲ کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے اسمائے گرامی میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَّہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں ، وہ خوب سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘

اس آیت میں غور فرمائیں کہ اس میں تشبیہ کی نفی کردی گئی ہے ،لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفات سے تشبیہ دینا قطعًا درست نہیں ہے۔ اور اس میں تشبیہ کی نفی کے ساتھ ساتھ صفات کا اثبات بھی ہے ۔اس میں دو صفات ( سمیع ، بصیر ) کا ذکر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ دیکھتا اور سنتا ہے ، لیکن اس کا دیکھنا اور سننا اسی طرح ہے جیسا کہ اس کی بڑائی اور کبریائی کے لائق ہے … اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی باقی صفات پر بھی ہم ایمان لاتے ہیں ۔ لیکن نہ تو تشبیہ اور تمثیل کو جائز تصور کرتے ہیں اور نہ ہی ان صفات کی کیفیت کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کرنے کو جائز تصور کرتے ہیں کیونکہ کیفیت کا علم تو صرف اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے ۔ امام مالک رحمہ اﷲ سے جب ﴿اََلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا : ’’ الاستواء معلوم،والکیف مجھول،والسؤال عنہ بدعۃ،والإیمان بہ واجب‘‘

یعنی ’’ استواء کا معنی معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں ہے ، اس لئے اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔‘‘

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توحید کو سمجھنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق دے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔ آمین