حدیث ( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) کی تشریح

اہم عناصرِ خطبہ :

01. حدیث ( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)  کا معنی

02.  کچھ بنیادی باتیں

03.  ضرر پہنچانا حرام ہے

04. ضرر رسانی کی مختلف صورتیں

05. سگریٹ نوشی کرنا حرام ہے

پہلا خطبہ

محترم حضرات !  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ تعالی نے جامع کلمات کہنے کی صلاحیت سے نوازا ۔ یعنی ایسے کلمات کہ جو بظاہر مختصراور چھوٹے نظر آتے ہیں لیکن اپنے معانی ومطالب کے لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں ۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا  ارشاد گرامی ہے کہ  ( فُضِّلْتُ عَلَی الْأنْبِیَائِ بِسِتٍّ :أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْأرْضُ طَہُوْرًا وَّمَسْجِدًا ، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً ، وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ )  [ مسلم : ۵۲۳]

  ’’ مجھے چھ چیزوں کے ساتھ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے : ایک یہ کہ مجھے جامع کلمات دئے گئے ہیں ، دوسری یہ کہ رعب ودبدبہ کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے  ، تیسری یہ کہ میرے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے ، چوتھی یہ کہ زمین کو میرے لئے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ اور مسجد بنایا گیا ہے ، پانچویں یہ کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور چھٹی یہ کہ میرے ذریعے سلسلۂ نبوت کو ختم کیا گیا ہے ۔‘‘

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے انہی جامع کلمات میں سے ایک حدیث آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے ۔ اور وہ حدیث یہ ہے :

حضرت عبادۃ بن صامت  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ فرمایا کہ ( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)  [ ابن ماجہ : ۲۳۴۰۔ وصححہ الألبانی ]

اِس حدیث کا معنی تین طرح سے کیا گیا ہے :

01.  ( لا ضرر )  : بغیر قصد کے کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے ۔ اور ( لا ضرار ) : قصدا کسی کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے ۔

اِس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے اُن درختوں کو پانی پلائے جو اس کے گھر میں موجود ہوں ۔ بظاہر اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اِس سے اس کے پڑوسی کا کوئی نقصان نہ ہو ۔ اگر وہ درختوں کو پانی پلا کر پڑوسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے تو بھی نا جائز ۔ اور اگر وہ قصد نہ کرے لیکن پڑوسی کا نقصان از خود ہو جائے تو بھی نا جائز ۔

02. ( لا ضرر )  : کوئی شخص اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچائے ۔ اور ( لا ضرار ) : کسی اور کو بھی نقصان نہ پہنچائے ۔  اسی سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے :

﴿ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ  ﴾ [ البقرۃ : ۲۳۳]

’’ نہ تو والدہ کو اس کے بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے ۔ ‘‘

ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچانے کی کئی صورتیں ہیں ۔ پہلی یہ ہے کہ اس سے بچے کو دودھ تو پلوایا جائے لیکن اس کے اخراجات نہ اٹھائے جائیں ۔ دوسری یہ ہے کہ ممتا کی ماری ماں سے اس کا بچہ چھین کر کسی اور کو دودھ پلانے کو دے دیا جائے ۔ اور تیسری یہ ہے کہ ماں کو زبردستی دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے ۔

اور باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچانے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس سے اس کی استطاعت وقدرت سے زیادہ اخراجات کا مطالبہ کیا جائے ۔ یا ماں صرف تنگ کرنے کیلئے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کردے ۔

03. ( لا ضرر )  : کوئی شخص پہل کرتے ہوئے کسی کو نقصان نہ پہنچائے ۔ اور ( لا ضرار ) : اگر کوئی اسے نقصان پہنچائے تو وہ نقصان پہنچانے والے کو بدلے میں اپنے نقصان سے زیادہ نقصان نہ پہنچائے ۔ یعنی اگر وہ بدلہ لینا چاہتا ہو تو اتنا ہی نقصان پہنچائے جتنا اس کا ہوا ہو ۔ اس سے زیادہ نہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ  ﴾ [ النحل : ۱۲۶ ]

’’ اور اگر تمھیں بدلہ لینا ہو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی تم پر زیادتی ہوئی ہو ۔ اور اگر برداشت کرجاؤ تو صبر کرنے والوں کیلئے یہی بات بہتر ہے ۔ ‘‘

محترم حضرات ! اِس حدیث کے جو تین مفہوم ہم نے ابھی بیان کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اِس حدیث کی رو سے نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ کسی اورکو نقصان پہنچانا درست ہے ۔ نہ قصدا اور نہ ہی بغیر قصد کے ۔ نہ پہل کرتے ہوئے اور نہ ہی بدلہ لیتے ہوئے ۔ ہر حال میں نقصان پہنچانا حرام ہے ۔

اِس حدیث کی بنیاد تین چار باتوں پر ہے ۔

01.  پہلی بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو ۔ اور اس چیز کو  ناپسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہو ۔کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ )  [ البخاری : ۱۳ ومسلم : ۴۵]

’’ تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ ‘‘

یہ حدیث مسند احمد میں ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے :

( لَا یَبْلُغُ عَبْدٌ حَقِیْقَۃَ الْإِیْمَانِ حَتّٰی یُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا یُحِبُّہُ لِنَفْسِہِ مِنَ الْخَیْرِ)  [ مسند احمد ج ۳ ص ۲۰۶ بلفظ مقارب ، وابن حبان فی صحیحہ ج ۱ ص ۴۷۱ حدیث : ۲۳۵]

’’ بندہ ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ لوگوں کیلئے بھی اُسی خیر کو پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو ۔ ‘‘

اور یہ ایمان کی واجب خصلتوں میں سے ایک بہت بڑی خصلت  ہے  ۔ اگر اس میں یہ خصلت نہ ہو تو اس کی وجہ سے اس کے ایمان میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ اسی لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے کہا تھا :

( أَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکْن مُّؤْمِنًا )    [ابن ماجہ  : ۴۲۱۷۔ وحسنہ الألبانی]

’’ تم لوگوں کیلئے بھی وہی چیز پسند کیا کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ، اِس طرح تم سچے مومن بن جاؤ گے ۔ ‘‘

جبکہ ایک روایت میں ( تَکُن مُّسْلِمًا )  کے الفاظ ہیں ۔ یعنی اگر تمھارے اندر یہ صفت ہوگی تو ’’تم سچے مسلمان بن جاؤ گے ۔ ‘‘ [ رواہ الترمذی : ۲۳۰۵ ۔ وحسنہ الألبانی]

مسلمان بھائیو اور بہنو ! یہ خصلت اتنی عظیم ہے کہ اس کے دو بہت ہی اہم ثمرات ہیں :

01. جنت کا داخلہ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک صحابی کو اسی خصلت کے نتیجے میں جنت کی خوشخبری دی ۔ جیسا کہ مسند احمد میں یزید بن اسد القسری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھا : ’’ کیا تم جنت کو پسند کرتے ہو ؟ ‘‘ انھوں نے کہا : جی ہاں ، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( فَأَحِبَّ لِأَخِیْکَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ )   [ مسند أحمد ج ۴ ص ۷۰ ]

’’ تب تم اپنے بھائی کیلئے اسی چیز کو پسند کیا کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ۔ ‘‘

02. جہنم سے دوری

عبد اللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

( مَنْ أَحَبَّ أَن یُّزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَیَدْخُلَ الْجَنَّۃَ فَلْتُدْرِکْہُ مَنِیَّتُہُ وَہُوَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ، وَیَأْتِی إِلَی النَّاسِ الَّذِیْ یُحِبُّ أَن یُّؤْتٰی إِلَیْہِ )   [ مسلم : ۱۸۴۴]

’’ جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اسے جہنم کی آگ سے دور رکھا جائے اور اسے جنت میں داخل کردیا جائے تو اس کی موت اِس حالت میں آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور وہ لوگوں سے ایسا سلوک کرتا ہو جو ان کی طرف سے اپنے لئے پسند کرتا ہو ۔ ‘‘

یعنی وہ لوگوں کی طرف سے یہ پسند کرتا ہے کہ اس سے اچھا سلوک کیا جائے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ اسی طرح اسے خود بھی لوگوں کیلئے بھی یہ بات پسند کرنی چاہئے کہ وہ ان سے اچھا سلوک کرے اور انھیں کسی طرح سے نقصان نہ پہنچائے ۔

02. دوسری بات یہ ہے کہ ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہونا چاہئے ۔ اور جب وہ ہر مسلمان کا خیر خواہ ہوگا تو وہ یقینا کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا ۔

حضرت جریر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ

( بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  عَلٰی إِقَامِ الصَّلاَۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ )  [ البخاری : ۱۴۰۱، مسلم : ۵۶]

’’ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیعت کی کہ نماز ہمیشہ پڑھتا رہونگا ، زکاۃ دیتا رہونگا اور ہر مسلمان کیلئے خیر خواہی کرونگا ۔‘‘

03. تیسری بات یہ ہے کہ سچا مسلمان توہوتا ہی وہ ہے جس کے ہاتھوں اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ

رہیں ۔ یعنی وہ نہ اپنی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچائے اور نہ اپنے ہاتھوں سے کسی کو نقصان پہنچائے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ ) [ البخاری : ۱۰ ، مسلم : ۴۱ ]

’’ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں ۔ ‘‘

بلکہ ایک مرتبہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا گیا کہ مسلمانوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : (  مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ )  [ مسلم : ۴۰ ]

’’ جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔ ‘‘

04. چوتھی بات یہ ہے کہ نقصان پہنچانا حرام ہے ، چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی ہو ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ [ الحدید :۲۵]

’’ بلا شبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔ ‘‘

’ میزان ‘ سے مراد ماپ تول کے پیمانے ہیں ، جنھیں اللہ تعالی نے اس لئے نازل کیا کہ لین دین کے معاملات میں لوگوں کے باہمی حقوق کا تحفظ ہو اور کوئی کسی پر نہ زیادتی کرسکے اور نہ نقصان پہنچا سکے ۔

اسی طرح ’ میزان ‘ سے مراد اللہ رب العزت کا وہ نظامِ عدل وانصاف بھی ہے جو تمام لوگوں کے تمام حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور معاشرے میں ظلم وزیادتی اور نقصان سے بچنے کی ضمانت دیتا ہے ۔ اور یہ نظام ایسا عادلانہ نظام ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے بلکہ انھیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ وہ معاشرے میں مقیم کافروں کو بھی ظلم وزیادتی سے بچائیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿  وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ [ المائدۃ : ۲ ]

’’ اور اگر کسی قوم نے تمھیں مسجد حرام سے روک دیا ہو تو اس کی دشمنی تمھیں ناروا زیادتی پر مشتعل نہ کرے ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ [ المائدۃ : ۸ ]

’’ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر مشتعل نہ کرے کہ تم عدل کو چھوڑ دو ۔ عدل کیا کرو ، یہی بات تقوی کے قریب تر ہے ۔ ‘‘

اور جہاں تک اہل ِ ایمان کو ایذاء یا ضرر پہنچانے کا تعلق ہے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کا انجام بھی بہت ہی خطرناک ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ وَ الَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا ﴾ [ الأحزاب : ۵۸ ]

’’ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ان کے کسی قصور کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں تو انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھا لیا ۔ ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللّٰہُ بِہِ ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللّٰہُ بِہِ ) [ ابن ماجہ : ۲۳۴۲۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ جو آدمی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو اللہ اس کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اور جو کسی کیلئے مشقت پیدا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلئے مشقت پیدا کرتا ہے ۔ ‘‘

ضرر تو شرعی احکام میں بھی ممنوع ہے

معزز سامعین ! یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کیلئے شرعی احکام میں ضرر کو پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ جس مسئلہ میں کسی کیلئے کوئی ضرر ہو تو اس میں اللہ تعالی آسانیاں پیدا کر دیتا ہے ۔ اور اِس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔

01. اللہ تعالی نے نماز کیلئے وضوکرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ

( لاَ یَقْبَلُ اللّٰہُ صَلَاۃَ أَحَدِکُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ )   [ البخاری : ۶۹۵۴، ومسلم :۲۲۵]

’’ جب تم میں سے کسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے تواللہ تعالی اس کی نماز قبول نہیں کرتا ، یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔‘‘

لیکن اگر کوئی شخص مریض ہو اور پانی کا استعمال اس کیلئے مضر ہو ، یا وہ صحتمند ہو لیکن پانی تک پہنچنے میں کوئی نقصان دہ چیز حائل ہو تو اسے تیمم کرنے کی اجازت ہے ۔

02. اللہ تعالی نے نماز کھڑے ہوکر پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کا فرمان ہے : ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲۳۸]

’’اپنی سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو ، خاص طور پر درمیانی نماز کی ۔ اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو ۔ ‘‘

لیکن اگر کوئی شخص کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو اسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے ۔ اور اگر وہ بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو اسے لیٹ کر پڑھنے کی اجازت ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( صَلِّ قَائِمًا ، فَإِن لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا ، فَإِن لَّمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ )  [ البخاری : ۱۱۱۷]

’’ تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو ، اگر استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو ۔ اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے پہلو پر لیٹ کر پڑھ لو ۔ ‘‘

03.  امام کیلئے جائز ہے کہ وہ نماز میں لمبی قراء ت کرے ۔ لیکن اگر اس کی طوالت سے مقتدیوں میں سے کسی کا نقصان ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کا لحاظ کرتے ہوئے نماز مختصر پڑھائے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّ مِنْکُمْ مُّنَفِّرِیْنَ ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْیَتَجَوَّزْ ، فَإِنَّ خَلْفَہُ الضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَذَا الْحَاجَۃِ ) [ البخاری : ۷۰۴ ، مسلم : ۴۶۶]

’’ ا ے لوگو ! بے شک تم میں سے کچھ لوگ نفرت پیدا کرنے والے ہیں ۔ لہٰذا جو شخص لوگوں کا امام بنے تو وہ مختصر نماز پڑھائے ۔ کیونکہ اس کے پیچھے کمزور ، عمر رسیدہ اور حاجتمند ہوتا ہے ۔ ‘‘

ان تینوں مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو شرعی احکام میں اپنے بندوں کا ضرر پسند نہیں ہے ۔ اور جہاں ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالی سہولت دے دیتا ہے ۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دوسروں کو ضرر پہنچانے سے پرہیز کرے ۔

 ضرر رسانی کی مختلف صورتیں اور ان کی مثالیں

عزیزان محترم ! ضرر کا شرعی حکم بیان کرنے کے بعد اب ہم ضرر رسانی کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہیں جو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں بری طرح سے منتشر ہیں ۔

لین دین کے معاملات میں ضرر پہنچانا

01. لین دین کے معاملات میں دھوکہ دہی کے ذریعے ضرر پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ، اشیائے خورد ونوش وغیرہ میں ملاوٹ کرکے خریداروں کو دھوکہ دیا جاتا ہے ، جبکہ ایسا کرنا حرام ہے  ۔

ایک مرتبہ رسو ل اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا گزر غلہ کے ایک ڈھیر سے ہوا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا توآپ کی

 انگلیوں کو نمی سی محسوس ہوئی ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا ! غلہ بیچنے والے ! یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! اسے بارش نے تر کردیا ہے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی ) [ مسلم : ۱۰۲]

’’ اسے تم نے  اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے !  جو شخص دھوکہ کرے اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘

02. بائع جس چیز کو بیچنا چاہتا ہو اگر اس میں کوئی عیب ہو تو وہ اسے چھپا کر خریدار کو ضرر پہنچاتا ہے ۔ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ  ( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌُ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ )  [ابن ماجہ : ۲۲۴۶۔ وصححہ الألبانی]

’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ اور کسی مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو عیب والی چیز فروخت کرے ، سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کیلئے بیان کردے ۔ ‘‘

03.  ماپ تول میں کمی بیشی کرکے خریداروں کو ضرر پہنچایا جاتا ہے ، جبکہ ایساکرنے والوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾  ]سورة المطففين:1تا3[

’’ ہلاکت وبربادی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ۔ جو جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ ‘‘

04. ضروری ساز وسامان کی قیمت بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر مقرر کر کے صارفین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حالانکہ بیچنے والے لوگ خود اپنے لئے یہ پسند نہیں کرتے کہ انھیں ان کی ضرورت کا ساز وسامان مہنگے داموں ملے ۔ لہٰذا وہ اپنے بھائیوں کیلئے اِس چیز کو کیسے پسند کرتے ہیں ؟ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی جو ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ، یہاں آپ کو دوبارہ اس کی یاد دہانی کراتے چلیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ) [ البخاری : ۱۳ ومسلم : ۴۵]

’’ تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ ‘‘

05.  بعض اوقات بائع کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساز وسامان کی قیمت کم سے کم لگا کر اسے نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ اخوت وبھائی چارہ کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اس کے تقاضوں میں سے

ایک تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خیرخواہ ہو ۔ جبکہ مجبور آدمی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اس کی خیر خواہی نہیں بلکہ بد خواہی ہے ۔ اور یہ کسی بھی مسلمان کیلئے ہرگز جائز نہیں ہے ۔

06. خوردنی اشیاء کو ضرورت کے وقت سٹور کرکے صارفین کو شدید نقصان سے دوچار کیا جاتا ہے ۔ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیٌٔ )  [ مسلم : ۱۶۰۵ ]

  ’’ ایک گناہ گار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ۔ ‘‘

07. بولی کی بیع میں خریدار کو دھوکہ دینے کیلئے بائع کے کچھ ایجنٹ وغیرہ اس کے ساز وسامان کی قیمت خواہ مخواہ بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔ جس سے ان کا مقصد خریدار کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر پھانسنا ہوتا ہے ۔ اِس بیع کے ذریعے یقینی طور پر خریداروں کو نقصان ہوتا ہے ۔ جس سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع کیا ہے ۔

08.  بعض لوگ اپنے کسی کام کیلئے کچھ مزدور لاتے ہیں اور انھیں ایک مقررہ مقدار میں مزدوری دینے کا وعدہ کرکے ان سے کام لے لیتے ہیں ، پھر جب مزدوری دینے کا وقت آتا ہے تو وہ انھیں مزدوری نہیں دیتے اور کل پرسوں آنے کا کہہ کر ٹال دیتے ہیں ۔ اس کے بعد انھیں خوب ذلیل وخوار کرتے ہیں ۔ اِس سے یقینی طور پر مزدوروں کا نقصان ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنا حرام ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( أَعْطُوا الْأجِیْرَ أَجْرَہُ قَبْلَ أَن یَّجِفَّ عَرَقُہُ )  [ ابن ماجہ : ۲۴۴۳ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خوشک ہونے سے پہلے دے دیا کرو ۔ ‘‘

09.  بعض لوگ قرض لے کر اسے اس کے مقرر شدہ وقت پر ادا نہیں کرتے ۔ بلکہ خواہ مخواہ ٹال مٹول کرتے اور اپنے ان محسنوں کو ذلیل کرتے ہیں جو انھیں قرضہ دے کر ان پر احسان کرتے ہیں ۔ اور اِس سے یقینی طور پر قرضہ دینے والوں کو ضرر پہنچایا جاتا ہے جو کہ حرام ہے ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ ۔۔۔)  [ البخاری : ۲۴۰۰ ، ومسلم : ۱۵۶۴ ]

 ’’ مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۔ ‘‘

10. بعض لوگ لین دین کے معاملات میں کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کاتب کو جھوٹ لکھنے اور گواہ کو جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ پھر کاتب کو اس کا معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا یا پورا نہیں دیا جاتا۔ اِس سے یقینا ان دونوں کو ضرر پہنچتا ہے جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے : اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیْدٌ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہُ فُسُوْقٌ بِکُمْ﴾  [ البقرۃ : ۲۸۲]

’’ اور نہ کاتب کو ضرر پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو ۔ اور اگر تم ایسا کروگے تو گناہ کروگے ۔ ‘‘

خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا

شریعت میں خاوند بیوی کے حقوق وفرائض متعین کردئیے گئے ہیں ۔ اگر دونوں فریق اپنے اپنے فرائض پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے رہیں تو ازدواجی زندگی بہت خوب گزرتی ہے ۔ لیکن اگر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو ازدواجی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔ اور جس فریق کی طرف سے کوتاہی ہوتی ہے وہ اپنی کوتاہی کے ساتھ دوسرے فریق کو ضرر پہنچاتا ہے ۔ اور چونکہ ایسی کوتاہی عموما خاوند کی جانب سے ہوتی ہے ، اس لئے ہم  پہلے بیوی کو ضرر پہچانے کی چند صورتیں عرض کرتے ہیں ۔

01. خاوند پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے اور بھلے طریقے سے بودوباش اور رہنا سہنا رکھے تاکہ دونوں کی زندگی خوشگوار انداز سے گزرتی رہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُوْا شَیْْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْْرًا کَثِیْرًا﴾ [النساء : ۱۹ ]

’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔  اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو ناگوار ہو مگر اللہ تعالی نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘

اسی طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :  ( اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا )   [ مسلم : ۱۴۶۸ ]

’’ تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلو ک کیا کرو ۔ ‘‘

اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اِس واضح حکم کے باوجود کئی لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ، بلکہ بد سلوکی کرتے ہیں اور بغیر کسی سبب کے انھیں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ایسا طرز عمل اختیار کرنا یقینا اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے واضح احکامات کے خلاف ہے ۔

02. ایک آدمی اپنی بیوی کو نہ گھر میں بسانے پر آمادہ ہو اور نہ اسے طلاق دینے پر تیار ہو ۔ اِس سے اس کی بیوی کو یقینا ضرر پہنچتا ہے کیونکہ وہ درمیان میں لٹکی رہتی ہے ، نہ اپنے خاوند کے پیار ومحبت کو حاصل کر پاتی ہے اور نہ ہی وہ اِس سے آزاد ہو کر دوسرے خاوند سے شادی کر سکتی ہے ۔ اور اس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے :

﴿وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ﴾ [ البقرۃ : ۲۳۱]

’’ اور تم انھیں نقصان پہنچانے کیلئے مت روکو تاکہ تم زیادتی کر سکو ۔ اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا ۔ ‘‘

03. ایک شخص اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتا ہے ۔ ایسے شخص کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک اُس سے دور رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ اس سے زیادہ عرصے تک اس کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے یا وہ قسم تو چار ماہ کی ہی کھائے لیکن چاہ ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس کے پاس نہ جائے تو یقینا اس سے اس کی بیوی کو ضرر پہنچتا ہے ۔

04. ایک آدمی اپنے گھر سے دور کسی دوسر ے شہر یا کسی دوسرے ملک میں کام کرتا ہو ۔ اور استطاعت کے باوجود لمبے عرصے تک اپنی بیوی کے پاس نہ جاتا ہو تو اِس میں بھی بیوی کو یقینا ضرر پہنچتا ہے ۔

05. بیوی کا نان ونفقہ خاوند کے ذمہ ہے ۔ اگر خاوند اس کا جائز نان ونفقہ اسے نہ دے تو اس میں یقینا اس کیلئے ضرر ہے ۔

 بیوی کو نقصان پہنچانے کی اِن تمام صورتوں سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ کیونکہ نقصان پہنچانا حرام ہے ۔

اسی طرح بعض بیویاں بھی اپنے خاوندوں کو ضرر پہنچاتی ہیں ۔ مثلا ان کی خدمت نہیں کرتیں ، یا ان سے بدکلامی کرتی ہیں اور ان کا ادب واحترام نہیں کرتیں ، یا انھیں استمتاع کا موقع نہیں دیتیں ، یا نا جائز خرچوں کا مطالبہ کرکے انھیں پریشان کرتی ہیں ، یا ان کا مال  ان کی اجازت کے بغیر برباد کردیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ اور اِس طرح کی دیگر تمام صورتیں جن میں خاوند کو ضرر پہنچایا جاتا ہے ، ممنوع ہیں ۔ لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے ۔

وصیت میں ضرر پہنچانا

بعض لوگ مرنے سے پہلے وصیت میں ظلم کرجاتے ہیں ۔

مثلا کسی وارث کے حق میں وصیت کرجاتے ہیں۔ جس سے دیگر ورثاء کو ضرر پہنچتا ہے ۔

جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ  ( إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ )  [ ابو داؤد : ۲۸۷۲ ، النسائی : ۳۶۴۱ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ بے شک اللہ تعالی نے ہر حق والے کا حق مقرر کردیا ہے ۔ لہٰذا وارث کیلئے وصیت نہیں ہے ۔ ‘‘

یا وصیت ایک تہائی سے زیادہ کی کر جاتے ہیں ۔ اس سے بھی ورثاء کو ضرر پہنچتا ہے ۔

جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سعد بن ابی وقاص   رضی اللہ عنہ  کو زیادہ سے زیادہ ایک تہائی حصے کی وصیت کرنے کی اجازت دی تھی بلکہ اسے بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ’ کثیر ‘ قرار دیا ۔  [ البخاری : ۲۷۴۲، مسلم : ۱۶۲۸ ]

وصیت میں بعض ورثاء پر ظلم کرنا اور انھیں ضرر پہنچانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اِس طرح کی ظالمانہ وصیت کی وجہ سے وصیت کرنے والا زندگی بھر کے اعمال برباد کر بیٹھتا ہے ۔

اور اللہ رب العزت نے وصیت میں ضرر پہنچانے سے منع کیا ہے ۔ اس کافرمان ہے :

﴿مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْدَیْنٍ غَیْرَ مُضَآرٍّ  ﴾ [ النساء : ۱۲ ]

’’ یہ تقسیم وصیت کی تعمیل اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد ہوگی ۔ اس میں کسی کو نقصان نہ پہنچے ۔ ‘‘

پڑوسیوں کو ضرر پہنچانا

بعض لوگ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے اور انھیں کسی نہ کسی طرح سے نقصان اور اذیت پہنچاتے رہتے ہیں ۔ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ

( مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ ۔۔۔ )  [ البخاری  : ۶۰۱۸ ، ۶۰۱۹، ومسلم : ۴۷ ]

’’ جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ خیر ہی کی بات کرے ، ورنہ خاموش رہے ۔ اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تووہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔۔۔۔۔‘‘

اِس حدیث کو بخاری ومسلم نے ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مختلف طرق کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں :  ( فَلَا یُؤْذِ جَارَہُ )  ’’ تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے ۔ ‘‘ [ البخاری : ۶۴۷۵]

پڑوسی کو اذیت پہنچاناحرام ہے کیونکہ کسی عام آدمی کو نا جائز طور پرتکلیف پہنچانا توحرام ہے ہی لیکن پڑوسی کے حق میں اس کی حرمت  اور زیادہ سخت ہے ۔

اور صحیح بخاری میں ابو شریح  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ( وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ  )

’’ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا ،  اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا ،  اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا ۔‘‘

پوچھا گیا :  یا رسول اللہ ! کون ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا 🙁 اَلَّذِیْ لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ )  [ رواہ البخاری : ۶۰۱۶]

 ’’ جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا گیا کہ فلاں عورت رات کو قیام کرتی اور دن کو روزہ رکھتی ہے ۔ اِس کے علاوہ اور کئی نیک کام اور صدقہ وغیرہ بھی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کے ساتھ اپنے پڑوسیوں کو ایذاء بھی پہنچاتی ہے ۔ تو آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ’’ اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔ وہ جہنم والوں میں سے ہے ۔ ‘‘پھر صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا کہ فلاں عورت صرف فرض نمازیں پڑھتی ہے ، رمضان کے

 روزے رکھتی ہے ، پنیر کے ٹکڑوں ساتھ صدقہ کرتی ہے ، اس کے علاوہ کوئی اور عبادت نہیں کرتی ۔ لیکن وہ کسی پڑوسی وغیرہ کو ایذاء نہیں پہنچاتی ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ’’ وہ جنت والوں میں سے ہے ۔ ‘‘ [رواہ أحمد فی المسند ج ۲ ص ۴۴۰ والحاکم فی المستدرک ۴ / ۱۶۶]

اور صحیحین میں ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( لَا یَمْنَعَنَّ أَحَدُکُمْ جَارَہُ أَن یَّغْرِزَ خَشَبَۃً عَلٰی جِدَارِہِ )  [ البخاری : ۲۴۶۳ ، ومسلم  : ۱۶۰۹۔ واللفظ لہ ]

’’ تم میں سے کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اِس سے منع نہ کرے کہ وہ اس کی دیوار میں لکڑی گاڑے ۔ ‘‘

خلاصہ یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو ضرر پہنچانے سے پچنا انتہائی ضروری ہے ۔

عام مسلمانوں کو ضرر پہنچانا

بعض لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کو ضرر پہنچاتے ہیں ۔اور اس کی متعدد صورتیں ہیں ۔ مثلا

01. مسلمانوں کی عام گزرگاہوں اور ان کے عام راستوں پر گندی اور تکلیف دہ چیزیں پھینک دیتے ہیں جس سے گزرنے والے ہر انسان کو ضرر پہنچتا ہے ۔ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوسَ فِی الطُّرُقَاتِ )  ’’ تم راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔ ‘‘

صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمارے لئے مجلسیں ضروری ہیں جن میں بیٹھ کر ہم ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( إِذَا أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہُ )

’’ اگر تم ضرور بیٹھنا چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو ۔ ‘‘

انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! راستے کا حق کیا ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( غَضُّ الْبَصَرِ ، وَکَفُّ الْأذَی ، وَرَدُّ السَّلَامِ ، وَالْأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ )  [ البخاری : ۶۲۲۹ ، مسلم : ۲۱۲۱ ]

’’ نظروں کو جھکانا ، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا ، سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ۔ ‘‘

لہٰذا راستے کے اِن حقوق کا خیال رکھنا چاہئے ۔

02.  بعض لوگ عمومی گزرگاہوں اور راستوں پر قضائے حاجت کرتے ہیں جس سے گزرنے والوں کو یقینا ضرر پہنچتا ہے ۔ جبکہ رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( اِتَّقُوا اللَّعَّانَیْنِ )  ’’ تم لعنت کا سبب بننے والے دو امور سے بچتے رہنا ۔ ‘‘

 صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : یا رسول اللہ ! وہ دو کام کیا ہیں ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( اَلَّذِیْ یَتَخَلّٰی فِی طَرِیْقِ النَّاسِ أَوْ فِی ظِلِّہِمْ ) [ مسلم : ۲۶۹ ]

’’  لوگوں کے راستوں پر پیشاپ  پاخانہ کرنا یا ان کی وہ سایہ دار جگہ جہاں وہ آرام کرتے ہیں اس پر قضائے حاجت کرنا۔ ‘‘

03. سرکاری محکموں میں کام کرنے والے حضرات عام لوگوں کے مختلف کاموں کو آسان سے آسان تر کرنے کی بجائے ان میں رکاوٹ بنتے ہیں یا انھیں خواہ مخواہ لیٹ کرتے ہیں اور انھیں اِدھر اُدھر رسوا کرتے ہیں ۔ جو کام چند منٹوں میں ہو سکتا ہے اس پر کئی کئی گھنٹے لگا دیتے ہیں ۔ اور جو کام چند گھنٹوں میں ہو سکتا ہے اسے وہ کئی کئی دن تک گھسیٹتے ہیں ۔ اور جو کام دو چار دنوں  میں مکمل ہو سکتاہے اسے وہ مہینوں میں مکمل کرتے ہیں ۔ اِس سے یقینا عام لوگوں کو بے جا طور پر ضرر پہنچتا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ضرر پہنچانے سے مکمل طور پر بچنا چاہئے ۔ کیونکہ سچا مسلمان تو ہوتا ہی وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! آخر میں ہم ایک ایسے کام کا ذکر کرتے ہیں کہ جس سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بیک وقت ضرر پہنچتا ہے  ۔ اور وہ ہے سگریٹ نوشی ۔

سگریٹ نوشی ایسا مرض ہے کہ ہمارے معاشرے میں بری طرح سے پھیلا ہوا ہے ۔ اور باوجود اِس کے کہ خود سگریٹ نوشی کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ اس سے انھیں اور جن کو ان کی سگریٹ کا دھواں جاتا ہے ، سب کو  ضرر پہنچتا ہے ، پھر بھی وہ سگریٹ نوشی کو پوری ڈھٹائی سے جاری رکھنے پر بضد ہیں ۔ جبکہ سگریٹ نوشی قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح طور پر حرام ہے ۔

سب سے پہلے یہی حدیث جو آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے یعنی ( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ) ، اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو ضرر پہنچانا حرام ہے ۔

اِس کے علاوہ قرآن وحدیث کے دیگر دلائل بھی ہم اختصار کے ساتھ پیش خدمت کرتے ہیں ۔

(1) اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ ﴾ [ الأعراف :۱۵۷]

 ’’ اور وہ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں ۔‘‘

جبکہ سگریٹ گندی ‘ بد بودار اور نقصان دہ چیزوں میں سے ایک ہے ۔

(2) اللہ تعالی کا فرمان  ہے : ﴿وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ إلَی التَّہْلُکَۃِ﴾  [البقرۃ: ۱۹۵]

’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو ۔‘‘

   جبکہ سگریٹ کینسر وغیرہ جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بنتی ہے ۔

(3) اللہ تعالی کا فرمان   ہے:﴿وَلَاتَقْتُلُوْا أنْفُسَکُمْ﴾ [النساء : ۲۹]

’’ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ۔ ‘‘

جبکہ سگریٹ نوشی جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔

(4) اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا إنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ﴾  [ الإسراء :۲۶۔ ۲۷]

’’ اور فضول اور بے جا خرچ نہ کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں۔ ‘‘

جبکہ سگریٹ نوشی کرنے میں مال برباد ہوتا ہے ۔

(5) رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( إنَّ اللّٰہَ کَرِہَ لَکُمْ ثَلاَثاً : قِیْلَ وَقَالَ ‘ وَإضَاعَۃَ الْمَالِ ‘ وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ)  [بخاری ومسلم ]

’’بے شک اللہ تعالی کو تمھاری تین چیزیں نا پسند ہیں : فضول گفتگو  ،  مال ضائع کرنا اور زیادہ سوالات کرنا ۔‘‘

   جبکہ سگریٹ نوشی سے مال ضائع ہوتا ہے ۔

(6)رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( کُلُّ أمَّتِیْ مُعَافٰی إلَّا الْمُجَاھِرِیْنَ )  [ بخاری ومسلم ]

  ’’ میری امت کے سارے لوگوں کو معاف کر دیا جائے گا سوائے ان کے جو کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں۔ ‘‘

  یعنی تمام مسلمانوں کو  جب اللہ چاہے گا معاف کردے گا  ،لیکن کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو  جیسا کہ  سگریٹ نوشی کرنے والے ہیں انھیں معاف نہیں کیا جائے گا ۔کیونکہ وہ سب کے سامنے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، اللہ تعالی سے نہیں ڈرتے اور دوسروں کو بھی اس برے کام پر حوصلہ دلاتے ہیں ۔

(7) رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( مَنْ أکَلَ ثَوْمًا أوْ بَصَلاً فَلْیَعْتَزِلْنَا وَلْیَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْیَقْعُدْ فِیْ بَیْتِہٖ )     [ بخاری ومسلم ]

’’ جو شخص (کچا) لہسن یا پیاز کھا لے تو وہ ہمارے قریب نہ آئے اور ہماری مسجد سے دور رہے۔ اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔ ‘‘

جبکہ سگریٹ کی بد بو لہسن اور پیاز سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے !!

(8) رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : (ماَ أسْکَرَ کَثِیْرُہُ فَقَلِیْلُہُ حَرَامٌ ) [رواہ أحمد بإسناد صحیح]

’’جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ۔‘‘

 جبکہ سگریٹ کی زیادہ مقدار نشہ آور ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایسے شخص کیلئے جو اس کا عادی نہ ہو ۔

قرآن وحدیث کے دلائل کے بعد دو عقلی دلائل :

(9) اگر آپ کے منہ پر کوئی شخص پھونک مار دے تو آپ اس سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔ یا اسے پاگل سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔ تو اس شخص کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو آپ کے منہ میں بد بو دار اور زہر آلود دھواں چھوڑتا رہتا ہے ؟فیصلہ آپ خود کر لیں ۔

(10)کوئی شخص اگر ایک روپے کو آگ لگا کر جلا ڈالے تو آپ اسے پاگل کہنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔  تو اس شخص کے متعلق آپ کیا کہیں گے جو ہزاروں روپے سے سگریٹ خریدتا ہے ۔پھر انھیں سلگا کر پھونک دیتا ہے۔ اور گویا اپنے ہاتھوں انھیں آگ لگا دیتا ہے ؟ اِس کا بھی فیصلہ آپ خود کر لیں ۔

محترم حضرات ! جو دس دلائل ہم نے ذکر کئے ہیں ان سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی حرام ہے اور یہ نہ صرف سگریٹ نوشی کرنے والوں کیلئے مضر ہے بلکہ ان کیلئے بھی شدید ضرر کا باعث بنتی ہے جن کو اس کا زیر آلود دھواں پہنچتا ہے ۔ اِس کے علاوہ سگریٹ نوشی کرنے والے لوگ ان فرشتوں کیلئے بھی اذیت کا سبب بنتے ہیں جوان کے اعمال کو نوٹ کرنے پر مامور ہیں ۔ کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ فرشتوں کو بھی ہر اس چیز سے اذیت پہنچتی ہے جس سے بنو آدم کو اذیت پہنچتی ہے ۔ لہٰذا جو لوگ اِس خطرناک مرض میں مبتلا ہیں انھیں فوری طور پر توبہ کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالی سب کو توفیق دے ۔

محترم حضرات ! آج جس حدیث کو ہم نے موضوعِ خطبہ بنایا اس کی رو سے ضرر پہنچانے کی تمام صورتیں حرام ہیں ۔ اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی ۔ قصدا بھی اور بغیر قصد کے بھی ۔ لہٰذا ایسی تمام صورتوں سے پرہیز کرنا چاہئے جن میں اپنا ضرر ہو یا دوسروں کا ہو ۔ اللہ تعالی سب کو اس کی توفیق دے ۔