شروط لا إلہ إلا اللّٰہ

اہم عناصر خطبہ :

01. لا إلہ إلا اللّٰہ کے فضائل

02.لا إلہ إلا اللّٰہ کا معنی

03.لا إلہ إلا اللّٰہ کی شروط

معزز سامعین ! لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ وہ عظیم کلمہ ہے کہ

٭جس کی خاطر مخلوق کو پیدا کیا گیا ، انبیاء ورسل علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا اور کتابوں کو نازل کیا گیا ۔۔۔۔

٭اسی کلمہ کی بناء پر لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوئے ۔ اس کے ماننے والے خوش نصیب مومنین ،جن کیلئے اللہ تعالی نے جَنَّات تیار کر رکھی ہیں ۔ اور اس سے انکار کرنے والے بدنصیب کفار ، جن کیلئے اللہ تعالی نے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

٭اسی کلمہ کی وجہ سے روزِ قیامت ترازو نصب کئے جائیں گے اور لوگوں میں نامۂ اعمال تقسیم کئے جائیں گے

٭ یہی کلمہ ( العروۃ الوثقی ) یعنی ’’مضبوط کڑا ‘‘ اور ’’ پائیدار سہارا ‘‘ ہے ۔

٭ یہی کلمہ جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا راستہ ہے ۔

٭یہی کلمہ اُس گھر کی چابی ہے کہ جس میں سعادتمندی کے سوا کچھ نہیں ہو گا ۔

٭یہی کلمہ دین کی جڑ اور اس کی اصل ہے ۔ اور اس کا سب سے بڑا رکن ہے ۔

آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ان شاء اللہ تعالی اسی عظیم کلمہ کے فضائل اور اس پر ایمان لانے کی شرائط کو تفصیل سے بیان کریں گے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کلمہ کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

کتاب وسنت میں کلمۂ طیبہ کے فضائل

برادران اسلام ! کتاب وسنت میں اس کلمۂ طیبہ کے عظیم فضائل ذکر کئے گئے ہیں ۔ لیجئے سب سے پہلے وہ فضائل سماعت کیجئے ۔

01. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو کلمہ طیبہ کہا ہے ۔ ارشاد باری ہے : ﴿ أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِیْ السَّمَائِ ﴾ [إبراہیم : ۳۴]

’’ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال دی ہے ! وہ اس عمدہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوط ہو اور جس کی شاخ آسمان میں ہو۔‘‘

الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں :

’’ کلمہ طیبہ سے مراد ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ) اور اس کی فروع کی گواہی دینا ہے۔ اور عمدہ درخت سے مراد کھجور ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوط اور اس کی شاخیں بلندی میں پھیلی ہوتی ہیں ۔ اور یہ ایسا درخت ہے جس سے ہمیشہ بہت منافع کمائے جاتے ہیں ۔ اوریہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے۔ اسی طرح ایمان کے درخت کی مثال ہے جس کی جڑ علم اور عقیدے کے اعتبار سے مومن کے دل میں مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں پاکیزہ کلمات ، اعمال صالحہ ، پسندیدہ اخلاق اور اچھے آداب کی شکل میں ہمیشہ آسمان میں پھیلی رہتی ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ اعمال واقوال جاتے رہتے ہیں جو ایمان کے درخت سے نکلتے ہیں ۔ اور وہ مومن کیلئے نفع بخش ہوتے ہیں ۔‘‘

02. اللہ تعالیٰ نے اسی کلمہ کو تمام رسل علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد ہے :

﴿ وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِن رَّسُوْلٍ إِلَّا نُوْحِیْ ٓإِلَیْہِ أََنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۵]

’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے ، اس لئے تم سب میری ہی عبادت کرو ۔‘‘

03. یہ کلمہ ( العروۃ الوثقی ) یعنی ’’ مضبوط کڑا ‘‘ اور ’’ پائیدار سہارا ‘‘ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ [البقرۃ : ۲۵۶ ]

’’ پس جس شخص نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا ، اس نے در حقیقت ایک ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹے گا ۔ اور اللہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

یعنی جس شخص نے بتوں کو ، اللہ کے دیگر شریکوں کو اور ہر اس چیز کی عبادت کو چھوڑ دیا جس کی عبادت کی طرف

شیطان دعوت دیتا ہے اور اس نے اکیلے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی اور اس نے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جس پر وہ ثابت قدم اور صراط مستقیم پر گامزن رہے گا ۔۔۔ طاغوت سے مراد ہر وہ شر ہے جس پر جاہلیت کے دور میں لوگ قائم تھے مثلا بتوں کی پوجا کرنا ، ان کو حَکَم ( فیصلہ کرنے والا ) تسلیم کرنا اور ان سے مدد طلب کرنا ۔

(العروۃ الوثقی )کے بارے میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ اور الضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہے ۔ [ تفسیر ابن کثیر : ۱/۳۱۹ ]

04. یہی کلمہ ( کلمۃ التقوی )ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کیلئے لازم قرار دیا اور وہ اس کے زیادہ حقدار اور اس کے اہل تھے ۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿ إِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤمِنِیْنَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا ﴾ [ الفتح : ۲۶ ]

’’ جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کے تعصب کو جگایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنا سکون اتارا اور انھیں تقوی والے کلمہ پر قائم رکھا ۔ اور یہ لوگ اس کے سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار تھے ۔ اور اللہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے ۔‘‘

ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ نے کہا : ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ) سے بہتر کوئی بات نہیں ۔ تو سعد بن عیاض رحمہ اللہ نے کہا : اے ابو عبد اللہ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کلمہ کیا ہے ؟ یہی تقوی والا کلمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کیلئے لازم قرار دیا ، چنانچہ انھوں نے اس پر قائم رہ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعتا اس کے اہل تھے ۔

05. کلمہ طیبہ ہی دعوتِ حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لَہُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَییْئٍ إِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَائِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ وَمَا دُعَائُ الْکَافِرِیْنَ إِلَّا فِیْ ضَلاَلٍ ﴾ [ الرعد : ۱۴ ]

’’ صرف اسی کو پکارنا حق ہے۔ اور جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی کوئی حاجت پوری نہیں کرتے ۔ ان کی حالت اس آدمی کی سی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے ، حالانکہ وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ا ور کافروں کا اپنے معبودوں کو پکارنا رائیگاں ہی جاتا ہے ‘‘ ۔

الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں : ’’ دعوۃ الحق سے مقصود اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور پکار اور سوال کو اس کیلئے خالص کرنا ہے ، یعنی وہ اکیلا ہے جسے پکارا جا سکتا ہے ، صرف وہی ذات ہے جس کا خوف دل میں لایا جا سکتا ہے ، جس سے تمام امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ، اسی کی محبت کو دل میں بسایا جا سکتا ہے ، رغبت بھی اسی کی طرف کی جا سکتی ہے ، ڈر بھی صرف اسی کا ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کی الوہیت باطل ہے ۔‘‘

06. یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ، بلکہ یہ تمام پردوں سے تجاوز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَا قَالَ عَبْدٌ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ قَطُّ مُخْلِصاً إِلَّا فُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ السَّمَائِ حَتّٰی تُفْضِیَ إِلَی الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ ) [ ترمذی :۳۵۹۰۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ کوئی بندہ جب پورے اخلاص کے ساتھ اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوئے لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو اس کیلئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ کلمہ عرش تک پہنچ جاتا ہے ۔‘‘

یعنی جو شخص یہ کلمہ پڑھتا ہے ، اس کے معانی کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اتارتا ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے تو اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور اس کا تعلق براہ راست اللہ تعالی سے قائم ہو جاتا ہے ۔

07. یہ کلمہ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ اسی لئے حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اسی کلمہ کے ساتھ دعا کی : ﴿ فَنَادٰی فِیْ الظُّلُمَاتِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۸۷]

’’ پھر انھوں نے اندھیروں میں پکارا : تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ۔ اور میں ہی قصور وار تھا ۔‘‘

اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجِیْ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ [الأنبیاء : ۸۸]

’’ تب ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور انھیں اس غم سے نجات دی ۔ اور اسی طرح ہم ایمان والوں کوبھی نجات دیا کرتے ہیں ۔‘‘

اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( إِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا مُسْلِمٌ فِیْ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰہُ لَہُ بِہَا) [ صححہ الحاکم فی المستدرک ج ۱ ص ۵۰۵ ووافقہ الذہبی ]

’’ جو مسلمان اس دعا کے ساتھ کسی بھی چیز کے بارے میں دعا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے یقینا قبول کرتا ہے ‘‘

لہذا جو شخص اِس کلمہ کو پڑھتا ہو اور اس پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ مشکلات ومصائب میں ، پریشانیوں اور آزمائشوں میں صرف اللہ تعالی کو پکارے ۔ وہ یقینا اس کی پریشانیوں کو ختم کردے گا اور مشکلات ومصائب کو ٹال دے گا ۔

08. یہی کلمہ وہ عہد ہے کہ جس کے ذریعے شفاعت کی سعادت نصیب ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ لاَ یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ﴾ [ مریم : ۸۷ ]

’’ اس دن کوئی بھی کسی کی سفارش نہ کر سکے گا مگر جس نے رحمن سے عہد لیا ہو ۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا : ’’ اس عہد سے مقصود لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دینا ہے ، جس کے ذریعے انسان اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر قسم کی طاقت وقدرت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ اور یہی کلمہ ہر تقوی کی جڑ ہے ۔‘‘

محترم بھائیو ! شفاعت کسی کی ملکیت نہیں اور نہ ہی کوئی شخص اس کا اختیار رکھتا ہے ۔ شفاعت کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :

﴿قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا ﴾ [ الزمر : ۴۴ ]

’’ کہہ دیجئے کہ سفارش پوری کی پوری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘

لہذا کوئی شخص اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکے گا ۔ حتی کہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب اللہ تعالی اجازت دیں گے تو آپ شفاعت کریں گے ۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کریں گے تو ان سے کم تر کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنا بڑا ولی یا امام کیوں نہ ہو وہ کسی کے حق میں اللہ کی اجازت کے بغیر کیسے شفاعت کر سکے گا !

اور شفاعت صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوگی جنھوں نے ایمان باللہ اور اتباعِ رسل کے ساتھ اللہ تعالی سے اس کا عہد لے رکھا ہے ۔اور وہی لوگ شفاعت کے مستحق ہونگے جنھیں اللہ تعالیٰ شفاعت کیلئے پسند فرمائے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلاَ یَشْفَعُوْنَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی ﴾ [ الأنبیاء : ۲۸]

’’اور وہ صرف اسی کے حق میں سفارش کر سکیں گے جس کیلئے اللہ راضی ہو گا ۔‘‘

بلکہ روز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی اسی شخص کو نصیب ہو گی جس نے دنیا میں اس کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہو گا ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا خوش نصیب کون ہو گا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ( لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ! أَنْ لَّا یَسْأَلَنِیْ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوْلٰی مِنْکَ لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِکَ عَلَی الْحَدِیْثِ ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : مَنْ قَالَ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِّنْ قِبَلِ نَفْسِہٖ ) [ بخاری : ۹۹ و ۶۵۷۰]

’’ اے ابو ہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے کیونکہ تمھیں احادیث سننے کا زیادہ شوق رہتاہے ، ( تو سنو ) قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کو نصیب ہو گی جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہا۔ ‘‘

i کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ جہنم سے نجات پانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو یہ کہتے ہوئے سنا (أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ ) ’’ تم جہنم کی آگ سے نجات پا گئے ۔‘‘ اِس حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا تو وہ مؤذن ‘بکریوں کا چرواہا تھا ۔ [ مسلم :۳۸۲]

اور صحیحین میں حضرت عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(إِنَّ اللّٰہَ حَرَّم عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ : لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ) [ البخاری : ۱۱۸۶ ، مسلم : ۳۳ ]

’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو جہنم پر حرام کردیتا ہے جو محض اللہ کی رضا کی خاطر لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے ۔‘‘

10.کلمہ طیبہ پڑھنے والے شخص کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص مکمل وضو کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے 🙁 أَشْھَدُ أنْ لَّا اِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ) [مسلم: ۲۳۴]

تو اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، وہ جس سے چاہے اس میں داخل ہو جائے ۔

11. کلمہ طیبہ اتنا عظیم ہے کہ اگر اس کا ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں سے وزن کیا جائے تو اس کا وزن زیادہ ہو گا ۔ جیسا کہ مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ جب حضرت نوح علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور فرمایا :

( آمُرُکَ بِاثْنَتَیْنِ وَأَنْہَاکَ عَنِ اثْنَتَیْنِ ، آمُرُکَ بِلاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَإِنَّ السَّمَاوٰتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِیْنَ

السَّبْعَ لَوْ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّۃٍ ، وَوُضِعَتْ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فِیْ کَفَّۃٍ ، رَجَحَتْ بِہِنَّ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَلَوْ أَنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِیْنَ السَّبْعَ کُنَّ حَلَقَۃً مُبْہَمَۃً إِلَّا قَصَمَتْہُنَّ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، فَإِنَّہَا صَلاَۃُ کُلِّ شَیْئٍ وَبِہَا یُرْزَقُ الْخَلْقُ ، وَأَنْہَاکَ عَنِ الشِّرْکِ وَالْکِبْرِ ۔۔۔۔) [ الصحیحۃ للألبانی : ۱۳۴]

’’ میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں ۔ میں تمہیں ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ) کے پڑھنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ والا پلڑا زیادہ وزنی ہو گا ۔ اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کسی بند دائرے میں ہوتے تو لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ انھیں تباہ کردیتا ۔ اور میں تمہیں ( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ) کے پڑھنے کا حکم بھی دیتا ہوں کیونکہ یہ ہر چیز کی دعا ہے اور مخلوق کو اسی کے ذریعے رزق دیا جاتا ہے۔ او رمیں تمہیں شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں۔ ‘‘

12. یہ کلمہ سب سے افضل ذکر ہے اور اس کا اجر وثواب سب سے زیادہ بڑھایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ جو شخص دن میں ( لاَ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ) سو مرتبہ پڑھے تویہ اس کیلئے دس گردنوں (غلاموں ) کو آزاد کرنے کے برابر ہے ، اس کیلئے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے سو گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ اور یہ دعا شام ہونے تک اس کیلئے شیطان کے سامنے قلعہ بنی رہتی ہے۔ اور کوئی شخص اس سے افضل عمل نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ اس سے زیادہ عمل کرے۔ ‘‘ [ بخاری ومسلم ]

13. یہی کلمہ وہ حقیقی رابطہ ہے جس پر تمام مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔ اسی کلمہ کی بناء پر وہ دوستی اور دشمنی کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وہ محبت کرتے ہیں اور اسی کے انکار کی وجہ سے وہ انکار کرنے والوں سے بغض رکھتے ہیں ۔ اور اسی کی وجہ سے اسلامی معاشرہ ایک جسم کی طرح اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہوتا ہے کہ جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمّٰی ) [ مسلم : ۴۶۸۵]

’’ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ، ایک دوسرے پر ترس کھانے اور شفقت کرنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کیلئے باقی تمام اعضاء بھی بیمار اور بیدار رہتے ہیں ‘‘

تو مومنوں کے درمیان ایک دوسرے سے اتنا اچھا سلوک اور اتنی ہمدردی صرف کلمہ طیبہ ( لا إلہ إلا اللہ ) کی بناء پر ہی ہوتی ہے ۔

14. کلمہ طیبہ ایمان کے شعبوں میں سب سے اعلی شعبہ ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ۔ أَوْ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ ۔ شُعْبَۃً : فَأَفْضَلُہَا قَوْلُ : لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَأَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذیٰ عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ ) [ مسلم : ۳۵ ]

’’ ایمان کے ستر( یا ساٹھ ) سے زیادہ شعبے ہیں ۔سب سے افضل شعبہ ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ) کہنا ہے۔ اور سب سے کم ترشعبہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے۔اور حیاء ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے‘‘

15. یہی وہ عظیم کلمہ ہے کہ جس کے ساتھ اسلام کی طرف دعوت کا آغاز ہوتا ہے ۔ جیسا کہحضرت مسیّب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے ۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ابوجہل اور عبد اﷲ بن ابو امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( یَا عَمِّ ! قُلْ : لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، کَلِمَۃٌ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ )

’’ اے چچا جان ! آپ ’’ لا إلٰہ إلا اللہ ‘‘ کا اقرار کرلیں کیونکہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ جس کی بنا پر میں اﷲ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ ‘‘

اس پر ابوجہل اور عبد اﷲ بن ابو امیہ کہنے لگے : اے ابو طالب ! کیا تم عبد المطلب کے دین کو چھوڑ دوگے ؟ تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اسے ’’ لا إلٰہ إلا اللہ ‘‘ پیش کرتے رہے اور ہر مرتبہ اپنی پہلی بات دہراتے رہے ، لیکن ابو طالب نے کہا : وہ دین ِ عبد المطلب پر قائم ہے اور اس نے ’’لا إلٰہ إلا اللہ‘‘کا اقرار کرنے سے انکار کردیا ۔ [بخاری :۱۳۶۰،۳۸۸۴، مسلم :۲۴]

سامعین کرام ! یہ اس کلمہ طیبہ کے بعض فضائل تھے جو ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کئے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے عظیم کلمہ کا مفہوم کیا ہے ؟ آئیے اس کا معنی ومفہوم معلوم کرتے ہیں ۔

لا إلہ إلا اللہ کا معنی

(لا إلہ إلا اللہ) کا اقرار کرنے والے شخص پر لازم ہے کہ وہ اس کے مطلب کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہو جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ فَاعْلَمْ اَنَّہُ لاَ اِلٰہ اِلَّااللّٰہُ ﴾ [محمد :۲۰]

’’ خوب اچھی طرح جان لو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے ۔ ‘‘

لہذا اس کا معنی جاننا واجب ہے اور تمام ارکانِ اسلام پر مقدم ہے ۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ قَالَ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ رواہ أحمد وہو صحیح ]

’’ جوشخص پورے اخلاص کے ساتھ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ‘‘

اورمخلص وہ ہوتا ہے جو کلمہ طیبہ کو سمجھے ، اس پر عمل کرے اور سب سے پہلے اسی کی دعوت دے کیونکہ اس میں توحید کو بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے عالم کو پیدا کیا ہے ۔

’’ إلٰہ‘‘ کا مفہوم

’’ إلٰہ ‘‘ کا معنی معبود ہے یعنی جوعبادت کا استحقاق رکھتا ہو ۔ اور اللہ تعالی مستحقِ عبادت کیوں ہے ؟ اس لئے کہ وہ ایسے اوصاف سے متصف ہے جن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ آخری درجہ کی محبت کا حقدار ، وہی محبوب اور انتہائی اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار اسی کے لئے روا ہے ۔

لہذا اللہ تعالی ہی وہ محبوب اور معبود ہے کہ دل محبت سے جس کی عبادت کریں ، اس کی اطاعت بجا لائیں ، اس کے لئے عجز ونیازمندی کا اظہار کریں، اس سے خوفزدہ ہوں، اس سے امیدیں وابستہ رکھیں، دشواریوں میں اس کی طرف رجوع کریں، مشکلات میں اسی کو پکاریں، اپنے مفادات میں اسی پر بھروسہ کریں، اسی کے پاس جائے پناہ تلاش کریں، اسی کی محبت میں سکون پائیں۔

اور جہاں تک لفظ جلالہ ’’اﷲ ‘‘ کا تعلق ہے تو یہ خالقِ کائنات کا اسمِ اعظم ہے اوریہ لفظ اس کے تمام اسمائے حسنی کے معانی اور صفاتِ علیا کو شامل ہے۔ اور یہ صرف ذاتِ الٰہی کا اسم مبارک ہے ، اسے اس کے علاوہ کسی اور کے لئے بولنا حرام ہے۔

٭لفظ ’’ اللہ ‘‘ جب کبھی تنگی کی حالت میں ذکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے کو خیرِ کثیر سے نوازتا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿ تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ [ الملک : ۱]

’’ با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘

٭لفظ ’’ اللہ ‘‘ جب کبھی خوف کی حالت میں پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ پکارنے والے کا خوف اور اس کی پریشانی کا ازالہ کرتا ہے۔فرمان الٰہی ہے :

﴿أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ ﴾ [ النمل : ۶۲]

’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے ! اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے! ‘‘

٭لفظ ’’ اللہ ‘‘ جب کبھی تنگ حالی میں ذکر کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے کو خوشحال بنا دیتا ہے ۔ اور جب بھی کوئی کمزور اس سے تعلق جوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے طاقتور بنا دیتا ہے ۔ اور جب بھی کوئی ذلیل اس کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت والا بنا دیتا ہے ۔ اور جب بھی کوئی فقیر اسے نداء دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مالدار بنا دیتا ہے ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ﴾ [ الزمر : ۳۶]

’’ کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے ؟ ‘‘

لا إلہ إلا اللہ کے دو رکن

کلمہ طیبہ ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ) کے دو رکن ہیں : (لا إلہ ) جس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام معبودانِ باطلہ کی نفی ہے۔ اور دوسرا رکن ( إلا اللہ) ہے جس میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اثبات ہے ۔

پہلا رکن : نفی (لا إلہ )

کلمہ طیبہ کے پہلے رکن میں اللہ تعالیٰ کے سوا باقی تمام معبودان کی نفی کی گئی ہے ۔ اور ان میں (آلہۃ ، انداد، طواغیت اور أرباب )شامل ہیں :

01. آلہۃ سے مقصود وہ ہیں جن کا اللہ کے علاوہ قصد کیا جائے ، حصولِ منفعت کیلئے یا کسی نقصان سے بچنے کیلئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُہُمْ وَلاَ یَضُرُّہُمْ وَکَانَ الْکَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیْرًا ﴾ [ الفرقان : ۵۵]

’’ اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان۔ اور کافر اپنے رب کے مقابلہ پر ( باغی کا ) مددگار بنا ہوا ہے۔‘‘

اورحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا: ﴿ أَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُکُمْ شَیْئًا وَّلاَ یَضُرُّکُمْ ٭ أُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۶۶ ۔ ۶۷ ]

’’ پھر کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں ؟ افسوس ہے تم پر اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ۔ کیا تم ذرا بھی نہیں سوچتے؟‘‘

02. طواغیت : یہ طاغوت کی جمع ہے اور اس سے مراد ہر وہ چیز یا ہر وہ شخصیت ہے جس کی اللہ کے سوا پوجا کی جائے ۔ مثلا بت ،نجومی ، جادو گر ، علمائے سوء وغیرہ ۔ اسی طرح اس سے مراد وہ باطل حکمران بھی ہیں جن کی اطاعت پر لوگ مجبور ہوں اور جنہیں لوگ اس حیثیت سے تسلیم کرتے ہوںکہ اگر وہ اللہ کی طرف سے حلال کی ہوئی چیز کو حرام قرار دے دیں تو وہ بھی اسے حرام تصور کریں۔ اور اگر وہ اللہ کی طرف سے حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دیں تو وہ بھی اسے حلال تصور کر یں ۔ اس طرح کے حکمران بھی طاغوت اور ان کی پیروی کرنے والے ان کے تابع ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ یُؤمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ﴾ [ النساء : ۵۱ ]

’’ کیا آپ نے ان لوگوں پر غور کیا جنہیں کتاب کا کچھ علم دیا گیا ہے اور وہ بتوں اور معبودان باطلہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘

03. أنداد: انداد ( ند ) کی جمع ہے اور اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان کا اتنا قلبی تعلق ہو کہ وہ اس کی بناء پر دین سے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو جائے ، چاہے وہ چیز مال ہو یا منصب ہو یا اپنے گھر والے ہوں یا گھر ہو یا قبیلہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو ۔ فرمانِ الٰہی ہے : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲ ِاَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اﷲِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ﴾ [ البقرۃ : ۱۶۵]

’’ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اﷲ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اﷲ سے ہونی چاہئے ، جبکہ ایمان والے اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

نیز فرمایا : ﴿ قُلْ اِنْ کَانَ آبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ﴾ [ التوبۃ: ۲۴ ]

’’(اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! ) فرمادیجئے ! اگر تمہارے آباء واجداد ، اولاد واحفاد ، برادران ،بیویاں ، قبیلہ وخاندان ، کمایا ہوا مال ومنال اور تجارتی کاروبار جس میں تمہیں نقصان کا اندیشہ ہے ، تمہارے پسندیدہ قصور ومحلات ( یہ سب ) تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہیں تو پھر حکمِ الٰہی ( عذاب ) کا انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘

04. أرباب : ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ کو حق کے خلاف فتوی دیں اور آپ یہ جان کر کہ وہ حق پر نہیں ہیں پھر بھی ان کی اتباع کریں ۔ یا اگر آپ جاہل بھی ہوں تو طلب حق میں کوتاہی کرتے ہوئے آپ حق کے خلاف فتوی دینے والوں کی پیروی کریں !

فرمان الٰہی ہے : ﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ [التوبۃ : ۳۱ ]

’’ انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے ۔‘‘

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ’’ انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی بلکہ وہ جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہتے تھے تو یہ ان کی ابتاع کرتے تھے۔ اور یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی۔ ‘‘ [ مسند احمد ، ترمذی : ۳۰۹۵ ۔ وصححہ الألبانی ]

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہی تفسیر حضرت حذیفۃ بن یمان رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے پہلے رکن ( لا إلہ ) کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تمام معبودانِ باطلہ ، تمام شریکوں ، طاغوتوں اور جن کو لوگوں نے اللہ کے علاوہ رب کی حیثیت دے رکھی ہے ان کی نفی کی جائے ۔ اور اللہ تعالی کے علاوہ ان تمام کا انکار کیا جائے جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں ، جن سے مانگتے ہیں ، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے ہیں ، جن سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، جن کو نفع ونقصان کے اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں اور جن کو بگڑی بنانے والا ، داتا ، دستگیر اور غوث مانتے ہیں ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد مکہ مکرمہ میں تیرہ سال رہے ۔ اس دوران لوگوں کو اسی بات کی طرف دعوت دیتے رہے کہ ( قُوْلُوْا لاَ إلٰہ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا ) یعنی تم سب اللہ تعالیٰ کو ہی معبود مان لو ، کامیاب ہو جاؤ گے ۔ تو وہ کہنے لگے : ایک ہی معبود کی بات ہم نے پہلے کبھی نہیں سنی ! انھوں نے یہ اس لئے کہا کہ وہ’ ’لا إلٰہ إلا اللہ ‘‘ کا معنی سمجھتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ جو شخص یہ کلمہ پڑھ لے وہ غیر اللہ کو نہیں پکارتا ۔ اس لئے انھوں نے اسے پڑھنے سے انکار کردیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا :

﴿ إِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ﴾ [الصافات : ۳۵ ]

’’ انھیں جب یہ کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ۔‘‘

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ قَالَ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَرُمَ مَالُہُ وَدَمُہُ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ ) [ مسلم : ۲۳]

’’ جو آدمی لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہے اور اللہ کے علاوہ جس کی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کردے تو اس کا مال اور خون دونوں حرمت والے ہوجاتے ہیں ۔ اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔‘‘

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کی شہادت دینے سے غیر اللہ کی عبادت کا انکار لازم آتاہے ، جیسے فوت شدگان کو پکارنا وغیرہ ۔ بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ کئی مسلمان اس کلمہ کو اپنی زبانوں سے پڑھتے تو ہیں لیکن ان کے افعال اس کے معنی کے خلاف ہوتے ہیں ۔

دوسرا رکن : اثبات ( إلا اللّٰہ)

کلمہ طیبہ کا دوسرا رکن ان امور کو شامل ہے :

01. صرف اللہ تعالیٰ کا قصد کرنااور بس اسی سے مانگنا

یعنی بندہ اپنی عبادت میں اکیلئے اللہ تعالیٰ کا قصد کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے ۔ اور جب مانگے تو صرف اللہ تعالی سے مانگے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنُ ٭اَلاَ ِﷲِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أَوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی إِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ ﴾ [ الزمر : ۲۔۳ ]

’’ ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے ۔ لہذا آپ خالص اس کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اسی کی عبادت کریں ۔ یا رکھئے ! بندگی خالصتا اللہ ہی کیلئے ہے ۔ اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا رکھے ہیں ( وہ کہتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں ۔ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں یقینا اللہ ان کے درمیان فیصلہ کردے گا ، اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکرِ حق ہو ‘‘

نیز فرمایا : ﴿ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ﴾ [ الزمر : ۱۱ ]

’’ کہہ دیجئے : مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خالصتا اسی کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کروں ‘‘

اور حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ ) [ مسلم : ۲۹۸۵]

’’ جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ﴾ [ غافر :۶۰]

’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب رسوا ہوکر جہنم میں داخل ہونگے ۔‘‘

لہذا کلمہ طیبہ کے دوسرے رکن ( إلا اللہ ) کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی کو پکارا جائے ، بس اسی سے سوال کیا جائے اور اس کے سوا کسی کے سامنے جھولی نہ پھیلائی جائے ۔

اور وہ لوگ جو بتوں کی پوجا کرتے ہیں یا اولیائے کرام سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں کہ انہی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتے ہیں ، انہی کو رازق اور داتا تصور کرتے ہیں ۔ انھیں دل میں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ یہ بت اور اسی طرح یہ بزرگانِ دین کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی طرح کا تصرف کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت ہے ، لیکن ان کے دلوں میں ایک وہم پایا جاتا ہے ۔ اور قرآن مجید ان کے اسی وہم کو جڑ سے نکال پھینکنا چاہتا ہے تاکہ عقیدۂ توحید ہر قسم کے شبہات سے پاک ہو جائے ۔ ان کے دلوں میں وہم یہ ہوتا ہے کہ وہ ان اولیاء کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں! بالفاظ دیگر وہ گویا یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے حال سے واقف نہیں ہے ۔ لہذا وہ اپنے بزرگوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کا حال اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیں !

یا پھر وہ ( اپنے گناہوں کی بناء پر ) اللہ تعالیٰ سے اتنے خائف ہوتے ہیں کہ وہ خود براہِ راست اللہ تعالیٰ سے معافی نہیں مانگ سکتے اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پناہ طلب کرسکتے ہیں ۔ لہذا وہ اپنے اولیاء سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں !

یا پھر وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحیم نہیں ہے ۔ لہذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اور اللہ کے درمیان کوئی ایسا واسطہ ضرور ہو جو انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردے ۔۔۔!

یہ سب اعتقادات بالکل باطل ہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ایسے اعتقادات رکھنے سے ناراض ہوتا ہے اور وہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس کے اور اس کے بندوں کے درمیان بالکل کوئی واسطہ نہ ہو ۔ نہ دعا میں ، نہ خوف میں اور نہ امید میں ۔ اور وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے براہِ راست اسے پکاریں کیونکہ وہ ان کے انتہائی قریب ہے: ﴿ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۶۸ ]

’’ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں قریب ہوں ۔ جب دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں دعا قبول کرتا ہوں ۔ لہذا انھیں چاہئے کہ میرے احکام بجا لائیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پا جائیں ۔‘‘

جب کسی شخص کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ولی کا بھی ایک مقام ہے ( اور وہ بھی کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے) تو اسے یقین کر لینا چاہئے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا ( ند ) یعنی شریک بنا لیا ہے اور اسے اللہ کے برابر قرار دے دیا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿ تَاللّٰہِ إِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ ٭ إِذْ نُسَوِّیْکُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴾ [الشعراء : ۹۷ ۔ ۹۸ ]

’’ اللہ کی قسم ! ہم تو واضح گمراہی میں مبتلا تھے جب ہم نے تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ رکھا تھا ۔‘‘

02. صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اسی سے محبت کرنا

یہ اس طرح ممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدر ، اس کی عظمت ، اس کے جلال اور اس کے حق کو پہچانے ۔ اور اس کے اسماء وصفات اور کائنات میں اس کی قدرت کے آثار میں غور وفکر کرتے ہوئے ا س سے محبت کرے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ مَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴾ [الحج : ۷۴ ]

’’ ان لوگوں نے اللہ کی قدر پہچانی ہی نہیں جیسا کہ پہچاننے کا حق تھا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا طاقتور اور ہر چیز پر غالب ہے ۔‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَائَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَخَرَقُوْا لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ ٭ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأرْضِ أَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَّخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَّہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ٭ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لاَ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوْہُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ٭ لاَ تُدْرِکُہُ الْأبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ [الأنعام : ۱۰۰ ۔ ۱۰۳ ]

’’ ان لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک بنا دیا حالانکہ اللہ نے ہی انھیں پیدا کیا ہے ۔ پھر انھوں نے بغیر علم کے اللہ کیلئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ ڈالیں ۔ جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں اللہ اس سے پاک اور بلند وبالا ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین کو ایجاد کرنے والا ہے ۔ اس کے اولاد کیسے ہو سکتی ہے جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں ! اسی نے تو ہر چیز بنائی ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔ یہ ہے تمھارا رب ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، وہ ہر شے کا خالق ہے ۔ لہذا اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگران ہے ۔ نظریں اسے پا نہیں سکتیں جبکہ وہ نظروں کو پا لیتا ہے ۔ وہ بڑا باریک بین اور با خبر ہے۔‘‘

03. صرف اللہ تعالیٰ کا خوف اور بس اسی سے امید رکھنا

یعنی مسلمان صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور صرف اسی سے امید رکھے کیونکہ وہی تو ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہر قسم کا نفع ونقصان ہے ۔ اور وہی دیتا اور روکتا ہے ۔ اور وہی عزت وذلت کا مالک ہے ۔

فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ قُلْ أَفَرَأَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کَاشِفَاتُ ضُرِّہٖ أَوْ أَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکَاتُ رَحْمَتِہٖ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ﴾ [ الزمر : ۳۸ ]

’’ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقینا کہیں گے : اللہ نے ۔ آپ انھیں کہئے : بھلا دیکھو ، جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ، اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو تمہارے معبود اس کی پہنچائی ہوئی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں ؟ یا اگر وہ مجھ پر رحمت کرنا چاہے تو یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟ آپ ان سے کہئے : مجھے تو اللہ ہی کافی ہے ۔ اور توکل کرنے والے اسی پر ہی توکل کرتے ہیں ۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ أَلاَ تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْا أَیْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِإِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَہُمْ بَدَؤُکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ أَتَخْشَوْنَہُمْ فَاللّٰہُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْہُ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۱۳ ]

’’ کیا تم ایسے لوگوں سے نہ لڑوگے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور انھوں نے ہی رسول کو ( مکہ سے ) نکال دینے کا قصد کر رکھا تھا اور لڑائی کی ابتداء بھی انھوں نے ہی کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مومن ہو ۔‘‘

نیز فرمایا : ﴿ قُلِ ادْعُوْا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلاَ یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلاَ تَحْوِیْلاً ٭ أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہُ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا ﴾ [ الإسراء : ۵۶ ۔ ۵۷ ]

’’ آپ کہئے کہ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ تم سے نہ توتکلیف کو ہٹا سکتے ہیں اور نہ اسے بدل سکتے ہیں ۔ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے ۔ وہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بلاشبہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔‘‘

سنن ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے جب وہ موت وحیات کی کشمکش میں تھا ۔ آپ نے اس سے پوچھا : تم کیا محسوس کرتے ہو ؟ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اللہ کی رحمت کا امید وار بھی ہوں اور اپنے گناہوں پر اس کے عذاب سے خائف بھی ہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( لاَ یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللّٰہُ مَا یَرْجُوْ، وَآمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ ) [ ابن ماجہ : ۹۸۳۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ اس جیسے موقعہ پر یہ دونوں چیزیں جس بندے میں جمع ہو جائیں تو اسے اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہو اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس کا اسے خوف ہو ۔‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس عظیم کلمہ کے تقاضوں کو پورا کرنے اور زندگی کے آخری سانس تک اس پر قائم رہنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! پہلے خطبہ میں آپ نے کلمہ طیبہ کے فضائل اور اس کے مفہوم کے متعلق ہماری چند گذارشات سماعت کیں ، اور اب اس کی شروط بھی سماعت کر لیجئے ۔ اور شروط سے مراد وہ امور ہیں جن کے بغیر اس پر ایمان درست نہیں ہوتا ۔

لا إلہ إلا اللّٰہ کی شروط

پہلی شرط : علم

یعنی کلمۂ طیبہ کے معنی ومفہوم سے آگاہی اور واقفیت حاصل کرنا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ﴾ [ محمد : ۱۹ ]

’’ اچھی طرح جان لو ! کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘

ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علم میں دل کا اقرار ضروری ہے ، یعنی اس سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ اسے جانتا اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہو ۔ اور یہ علم جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یعنی علمِ توحید ‘ ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور کوئی شخص اس سے مستثنی نہیں ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ إِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ [ الزخرف : ۸۶ ]

’’ مگر وہ جو حق کے ساتھ گواہی دیں اور انھیں علم بھی ہو ۔‘‘

اس آیت میں ( الحق ) سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہے ۔ اور مفہوم یہ ہے کہ مستحقِ شفاعت صرف وہ لوگ ہونگے جنہوں نے اس کلمہ کی گواہی دی اور گواہی بھی علم وبصیرت کی بنیاد پر دی اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔ [تفسیر ابن کثیر : ۴/۱۴۷]

الشیخ عبد الرحمن بن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ یعنی جس شخص نے زبان سے گواہی دی ، دل سے اقرار کیا اور اس کے معنی ومفہوم کا علم حاصل کیا ، وہ شفاعت کا مستحق ہو گا ۔ اور ( الحق ) سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء ورسل علیہم السلام کی نبوت ورسالت اور ان کی شریعت ہے ۔‘‘ [ تفسیر ابن السعدی : ۴/۴۶۱ ]

اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 🙁 مَنْ مَّاتَ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ مسلم ۔کتاب الإیمان باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا ۔ ۲۶]

’’ جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ اسے یقین تھا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔‘‘

دوسری شرط: یقین

یقین شک کی ضد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ لا إلہ إلا اللہ کا پڑھنے والا یہ اعتقاد رکھے کہ صفاتِ الوہیت کا حق دار صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔اور اسے اس کی الوہیت پر ایسا یقین ِ جازم ہو کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِأَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ [ الحجرات : ۱۵]

’’مؤمن تو صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر شک وشبہ نہیں کرتے اور اپنے مال اور جان کے ذریعے اﷲ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ‘ یہی لوگ سچے ہیں ۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کے سچے ہونے کیلئے یہ شرط لگائی ہے کہ مومن کا ایمان ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہو ، کیونکہ شک کرنا منافق کی صفت ہے نہ کہ مومن کی ۔

لفظ ( إنما ) حصر کا فائدہ دیتا ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ سچے مومن بس وہی لوگ ہیں جن کا قول وفعل اور اعتقاد ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہوتا ہے۔ اسی لئے اس کے آخر میں فرمایا : ﴿أُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ ’’ یہی لوگ سچے ہیں ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لاَ یَلْقَی اللّٰہَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فِیْہِمَا إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃ) [ مسلم : ۲۷]

’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کا رسول ہوں ۔ یہ دو گواہیاں ایسی ہیں کہ جو بندہ ان گواہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملتا ہے کہ اسے ان کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔‘‘

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ( لاَ یَلْقَی اللّٰہَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فِیْہِمَا فَیُحْجَبُ عَنِ الْجَنَّۃِ )

’’ جو بندہ بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اسے ان میں کوئی شک نہیں تھا تو اسے جنت میں داخل ہو نے سے کوئی چیز روک نہیں سکے گی ۔‘‘

تیسری شرط : اخلاص

یعنی لا إلہ إلا اﷲ کا پڑھنے والا جس طرح اﷲتعالیٰ کی الوہیت کا اقرار کرتا ہے اسی طرح غیر اﷲ سے براء ت کا اظہار بھی کرے ۔ اسی لئے اس کلمۂ طیبہ کو کلمۂ اخلاص بھی کہا جاتا ہے۔

عربی زبان میں اخلاص کا معنی ہے : پاک صاف کرنا ۔ اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ہے عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور اسے شرک اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾ [ البیّنۃ : ۵]

’’انہیں محض اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ اور (شرک وغیرہ سے ) منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں ۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں ۔ اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔ ‘‘

چوتھی شرط : صدق

صدق کذب کی ضد ہے یعنی کلمہ گو صرف زبانی اقرار پر اکتفا نہ کرے بلکہ صدقِ دل سے اس کا اقرار کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَ ٭ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ﴾ [ العنکبوت : ۲۔۳]

’’ کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے ، انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ آزمائش میں نہیں ڈالے جائیں گے ؟ اور ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمائش میں ڈالا تھا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ انھیں بھی جان لے گا جو سچے ایمان والے ہیں اور انھیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں ۔‘‘

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے ، آپ نے فرمایا:اے معاذ بن جبل ! انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں ۔ پھر آپ نے فرمایا : اے معاذ ! انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں ۔( پھر تیسری بار بھی انھیں مخاطب کیا ) اور فرمایا :

( مَا مِنْ أَحَدٍ یَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ صِدْقًا مِّنْ قَلْبِہٖ إِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ) [صحیح البخاری : کتاب العلم۔ باب من خص بالعلم قوما دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا ]

’’جو شخص سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں تو اﷲ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ پر حرام کردے گا ۔‘‘

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں اس کی لوگوں کو خبر نہ دوں تاکہ وہ بھی خوش ہو جائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تب تو وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے ۔‘‘ اس کے بعد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی موت کے وقت یہ حدیث بیان کی تاکہ وہ گناہ سے بچ جائیں ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ اس حدیث میں ( صدقا من قلبہ ) ’’ سچے دل سے ‘‘ کی جو شرط لگائی گئی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ منافق کا شہادتین کی گواہی دینا قابلِ قبول نہیں ہے ‘‘ [ فتح الباری : ۱/ ۲۲۶]

اور اگر شہادتین کا اقرار صرف زبانی ہو اور پوری سچائی کے ساتھ دل کا اعتقاد شامل نہ ہو تو یہ کافی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو جھوٹا قرار دیا جب انھوں نے یہ کہا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿ إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُہُ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ ﴾ [ المنافقون : ۱]

’’ جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اور اللہ کو معلوم ہے کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بشک منافق جھوٹے ہیں ۔‘‘

پانچویں شرط : محبت

محبت سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو کلمۂ توحید اور اس کے تقاضوں سے محبت اور الفت ہو اور اس کے دل میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز سے حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ ہو ۔ اسی طرح اسے ان مؤمنوں سے بھی محبت ہو جو لا إلہ إلا اﷲ پر کار بند اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں ۔اور ان لوگوں سے دل میں نفرت ہو جو اسکے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ۔

اس کلمہ سے سچی محبت دو امور سے ثابت ہوتی ہے :

(1) تمام عبادات کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنے سے جو کہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔

(2) شرک سے اپنا دامن پاک رکھنے سے ۔ یہی دو امور دین کی بنیاد ہیں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ﴾ [ البقرۃ :۱۶۵]

’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک بنا کر ان سے بھی ویسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اﷲ تعالیٰ سے ہونی چاہئے۔ جبکہ ایمان والے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اپنی قدرت کی نشانیوں اور اپنی نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ذکر کی ہے ۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہے ، ان کے دلوں میں اسی اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے زیادہ ہونی چاہئے تھی، لیکن اس کے برعکس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لئے اور ان سے ایسی محبت کی جو کہ اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے تھی۔ جبکہ ایمان والوں کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں ۔

اس آیت ِ کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ شرکِ محبت حرام ہے اور وہ شرک اکبر کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ اور شرکِ محبت سے مراد ہے مشرکوں کی اپنے شریکوں سے اس طرح محبت کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے تھی ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 🙁 ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الْإِیْمَانِ : أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا ، وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لاَ یُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ ، وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ ) [بخاری : ۱۶ ، مسلم : ۴۳ ]

’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تووہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پا لیتا ہے ۔ ایک یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو ۔ دوسری یہ کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو ۔ اور تیسری یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ اسے جہنم میں ڈالا جانا ناپسند ہے ۔‘‘

چھٹی شرط : انقیاد

انقیاد ‘ خضوع ‘ تابعداری اور سر تسلیم خم کردینے کو کہتے ہیں ۔اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ لا إلہ إلا اﷲ اور اس کے تقاضوں کا ظاہری وباطنی طور پر تابع ہوجائے ۔اور یہ اس وقت ہوگا جب انسان اﷲ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض پر عمل پیرا ہو اور اسکی حرام کردہ چیزوں کو ترک کردے ۔ ارشادِ ربانی ہے :

﴿ وَأَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وََأَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ ﴾ [ الزمر: ۵۴]

’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے ۔‘‘

اور الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جلدی رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : (وَأَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ) یعنی تم اپنے دلوں کے ساتھ اور اسی طرح ( وََأَسْلِمُوْا لَہٗ ) یعنی اپنے اعضاء کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرو ۔ اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ جب صرف انابت کا حکم دیا جائے تو اس میں دل اور اعضاء کے تمام اعمال شامل ہوتے ہیں ۔ اور جب انابت کے ساتھ اسلام ( وََأَسْلِمُوْا لَہٗ ) کا حکم بھی ہو تو انابت سے مراد دل کے ساتھ ، اور اسلام سے مراد اعضاء کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے ۔

ساتویں شرط : قبول

قبول کا مطلب ہے : کسی چیز کو دل کی خوشی سے لے لینا ۔اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ کلمہ توحید اور اسکے تقاضوں کو بسرو چشم قبول کرلینا اوران میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرنا ۔ اور اس کے مقصود ومراد پر عمل پیرا ہونے کو خود پرجبر یا زبردستی نہ سمجھنا بلکہ بتسلیم ورضا قبول کرنا ۔ ارشاد ربانی ہے :﴿ وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَائَ نَا عَلٰی أُمَّۃٍ وَّإِنَّا عَلٰی آثَارِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ ٭ قَالَ أَوَ لَوْ جِئْتُکُمْ بِأَہْدٰی مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْہِ آبَائَ کُمْ قَالُوْا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرْوْنَ ٭ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ﴾ [الزخرف : ۲۳ ۔۲۵ ]

’’ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا ( نبی ) بھیجا تو اس میں عیش پرست لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کوایک طریقے پر چلتے دیکھا ہے اور ہم بھی یقینا انہی کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں گے ۔ پیغمبر نے کہا : اگر میں تمہارے پاس ایسا دین لے آؤں جو تمہارے باپ دادا کے طریقے سے زیادہ صحیح ہو ( تو تم تب بھی اسی طریقے سے چمٹے رہو گے ؟ ) انھوں نے کہا : ہم اس دین کا قطعی انکار کرتے ہیں جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ۔ پس ہم نے ان سے انتقام لے لیا ۔ تو آپ دیکھ لیجئے کہ ( اللہ اور رسول کو ) جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ! ‘‘

ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ قریش اور ان کے ہمنواؤں نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اس دین ِ حق سے اعراض کر لیا جو آپ لے کر آئے ہیں تو یہ در اصل سابقہ امتوں کے طرز عمل سے ملتا جلتا ہے جو انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اختیار کیا تھا ۔ اور اس طرز ِ عمل پر جس چیزنے ان تمام لوگوں کو آمادہ کیا وہ تھی اپنے آباء و اجداد کی تقلید ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ إِنَّھُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ وَیَقُوْلُوْنَ أَإِنَّنَا لَتَارِکُوْا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ٭ بَلْ جَائَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ ﴾ [ الصافّات : ۳۵۔ ۳۷]

’’بلاشبہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ تکبر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اس شاعر اور دیوانے کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ حالانکہ ( ہمارا نبی ) حق لیکر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی ۔‘‘

الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

’’ جب مشرکین کو دعوت دی جاتی کہ تم کلمہ طیبہ کا اقرار کرو اور اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب معبودان باطلہ کی الوہیت کا انکار کردو تو وہ کلمہ توحید پر اور اس کے لانے والے نبی پر اپنی بڑائی کا اظہار کرتے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے آباء و اجداد اور ہم پوجا کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں ؟ دیوانے شاعر سے ان کی مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ! اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے براسلوک کرے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے منہ موڑنے پر اور نہیں جھٹلانے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ظالمانہ طور پر انھیں دیوانہ شاعر بھی قرار دے دیا ، حالانکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعر اور شعراء کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں جانتے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے زیادہ درست بات کرنے والے انسان ہیں ‘‘ [ تفسیر ابن السعدی : ۴/ ۲۵۶]

اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال یوں ہے جیسے موسلا دھار بارش ہو ، جو زمین پر برستی ہے تو اس کا ایک ٹکڑا ایسا ہوتا ہے جو بارش کے پانی کو جذب کر لیتا ہے ، پھر اس سے پودے اور گھاس وغیرہ اگتے ہیں ۔ اور اس کا ایک ٹکڑا انتہائی سخت ہوتا ہے اور اس پر پانی رک جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ، چنانچہ وہ اس سے پیتے ، پلاتے اور کھیتی باڑی کرتے ہیں ۔ اور یہی بارش ایسی زمین پر بھی برستی ہے جو سپاٹ اور چکنی ہوتی ہے اورجس پر نہ پانی رکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز اگتی ہے ۔ تو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور اسے اللہ تعالیٰ نے اس چیز کے ذریعے نفع پہنچایا جس کے ساتھ مجھے اس نے مبعوث کیا ہے ، چنانچہ وہ خود بھی علم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی تعلیم دیتا ہے ۔ اور یہ مثال ہے اس آدمی کی جو اس علم کے ذریعے اونچا مقام حاصل نہیں کرتا اور اللہ کی اس ہدایت کو قبول نہیں کرتا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے ۔‘‘ [ صحیح البخاری : ۷۹ ، مسلم : ۲۲۸۲]

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

’’ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جو ہدایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اسے بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ زمین تین قسم کی ہوتی ہے ۔ اسی طرح لوگ بھی تین قسم کے ہوتے ہیں :

پہلی قسم : ایک تو وہ زمین ہوتی ہے جو بارش سے فائدہ اٹھاتی ہے ، چنانچہ وہ بارش کے آنے سے پہلے مردہ ہوتی ہے لیکن اس کے بعد وہ زندہ ہو جاتی ہے اور سبزہ وغیرہ اگاتی ہے جس سے لوگ اور جانور وغیرہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس علم پہنچتا ہے تو وہ اسے یاد کر لیتے ہیں جس سے ان کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور وہ اس پر عمل کرکے خود بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے لوگوں تک پہنچا کر دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں ۔

دوسری قسم : ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو خود تو بارش کے پانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی ، لیکن پانی اپنے اوپر روک کر دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے ، چنانچہ اس سے لوگ اور حیوانات وغیرہ مستفید ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس حفظ کرنے والے دل تو ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس ایسی سمجھ نہیں ہوتی کہ جس کی بناء پر وہ علم سے معانی اور احکام کا استنباط کر سکیں اور نہ ہی وہ علم پر عمل کرنے کی بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں ۔ اور وہ علم کو محفوظ کرتے ہیں تاکہ کوئی ضرورتمند طالب علم اور ان کے علم کا پیاسا جو اس سے نفع حاصل کرنے اور دوسروں کو نفع پہنچانے کا اہل ہو تو وہ ان سے اسے حاصل کرکے فائدہ اٹھائے ۔ سو یہ لوگ اگرچہ اپنے آپ کو اس علم سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچاتے لیکن دوسروں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں ۔

تیسری قسم : ایک زمین وہ ہوتی ہے جو نہ خود بارش کے پانی سے فائدہ اٹھاتی ہے اور نہ ہی دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے ۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس نہ تو حفظ کرنے والے دل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس سمجھ ہوتی ہے تو وہ نہ خود اس علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔‘‘ [شرح مسلم للنووی : ۱۵/۳۹]

آخر میں ایک بار پھر اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس عظیم کلمہ کو سمجھنے ، اس کی شروط کو پورا کرنے اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق دے ۔ اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔