ظلم کی حرمت

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿مَا لِلظَّالِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُ﴾ ( سورة غافر: آیت:18)

ترجمہ: ظالموں کا نہ کوئی دلی دوست ہوگا، نہ سفارشی، کہ جس کی بات مانی جائے گی۔

عَنْ أَبِي ذَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِيمَا رَوَى عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ: يَا عِبَادِى إِنِّى حَرَّمُتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلا تَظَالَمُوا، يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالَّ إِلَّا مَنْ هَدَيتُهُ فَاسْتَهْدُونِي اهْدِكُمْ، يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ فَاسْتَطْعِمُونِي أَطْعِمُكُمْ، يَا عِبادِي كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ، يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا اغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا فَاسْتَغْفِرُونِي اغْفِرْ لَكُمْ، يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِى فَتَضْرُونِي، وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي فَتَنْفَعُونِي، يَا عِبَادِي لو أن أولكم وآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجَنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنكُم مَا زَادَ ذلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِى لَوْ أَنْ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وجنكُمْ كَانُوا عَلَى أَفَجَرَ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُم مَا نَقُصُ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِى لَوْ أَنْ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فسَاَلونِي فَأَعْطَيْتُ كُل إنسان مسألَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ المِخْيَطُ إِذا أُدْخِلَ البَحْرَ، يَا عِبَادِى إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أَحْصِيْهَا لَكُمْ ثُمَّ أوفيكُمْ إِيَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَه. (رواه مسلم).

(صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم.)

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب بھو کے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں پس مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں پس مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب شب و روز خطائیں کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں پس مجھ سے بخشش مانگو میں تم کو بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کی مجھ تک رسائی نہیں ہو سکتی کہ تم مجھے ضرر پہنچادو اور نہ ی تمہاری رسائی مجھے نفع پہنچانے تک ہو سکتی ہے کہ تم مجھے نفع پہنچا دو۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے کے لوگ اور تمہارے آخر کے لوگ اور تمہارے انسان اور تمہارے جن ، تم میں سب سے زیادہ متقی شخص کے دل پر ہو جائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کرے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے کے لوگ اور تمہارے آخر کے لوگ اور تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل پر ہو جائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے کے لوگ اور تمہارے آخر کے لوگ اور تمہارے انسان اور تمہارے جن ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور سب مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ایک کو اس کا سوال دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی نہ ہوگی سوائے ایسے جیسے ایک سوئی سمندر میں ڈبونے کے بعد کم کر دیا کرتی ہے۔ اے میرے بندو یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کر کے رکھتا ہوں پھر تم کو اس کا پورا بدلہ دونگا پس جو بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد بیان کرے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے تو وہ اپنے آپ ہی ملامت کرے۔

وَعَن ابْنِ عَبَّاسَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِي مَا بَعَثَ مُعَاذَا إِلَى اليَمَنِ فَقَالَ: اِتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ. (أخرجه البخاري(

(صحيح البخاري: كتاب المظالم و الغضب، باب الأتقاء والحذر من دعوة المظلوم)

ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ ﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔

تشریح:

ظلم سب سے بری خصلت ہے اور اس کا صد دور اپنے ظالم و جابر و متکبر انسان سے ہی ہوتا ہے جو اللہ کی عظمت اور اس کے سخت جذاب کو بھول گیا ہے۔ اللہ تعالی کمال عدل کی لیے ہے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے اور اسے بندوں کے درمیان بھی حرام کہا ہے اور ظالم کے لیے سخت عذاب کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لئے دنیا میں ظلم کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ظلم و ستم سے باز آجائیں اور لوگوں کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ پیش آئیں تاکہ اللہ تعالی کی گرفت سے بچ سکیں۔ اللہ تعالی ہمیں ظلم وستم کرنے سے محفوظ رکھے۔

فوائد:

٭ اللہ تعالی نے ظلم کوفتی سے حرام کہا ہے اور اس سے ڈرایا ہے۔

٭ ظالم کے حق میں مظلوم کی بد دعا جلد مقبول ہوتی ہے۔

٭ اللہ تعالی بہت ہی معدل وانصاف والا ہے۔