فضائل ِ قرآن مجید
اہم عناصرِ خطبہ:
1۔ ماہِ رمضان اور قرآن مجید
2۔ قرآن مجید کی قدرو منزلت
3۔ قرآن مجید کے بعض فضائل
4۔ قرآن مجیدکو کیوں نازل کیا گیا؟
5۔ قرآن مجید کی تاثیر
6۔ قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام!
اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں میں سے سب سے افضل کتاب(قرآن مجید)کو مہینوں میں سے سب سے افضل مہینہ(رمضان المبارک)میں اتارا، بلکہ اس مبارک مہینے کی سب سے افضل رات(لیلۃ القدر)میں اسے لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر یکبارگی نازل فرمایا اور اسے بیت العزۃ میں رکھ دیا۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿‏ شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٍ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِ (سورة البقرة:185)
’’ وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے باعث ِ ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور(حق و باطل کے درمیان)فرق کرنے کی نشانیاں ہیں۔‘‘
اور فرمایا:﴿ إِنَّآ أَنزَلْنَٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِ ‎﴾‏ (سورة القدر:1)
’’ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔‘‘ اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا رمضان المبارک سے گہرا تعلق ہے، اس ليے اس مبارک مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کرنی چاہيے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ماہ میں اس کا خاص اہتمام فرماتے اور رمضان المبارک کی ہر رات حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن مجید سناتے تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ

(كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ) (صحيح البخاري:1902)
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کے کام کرتے تھے آپ سب سے زیادہ خیر کے کام رمضان المبارک میں کرتے جبکہ حضرت جبریل آپ سے ملتے۔ اور حضرت جبریل آپ سے رمضان المبارک کی ہر رات کو ملتے اور دورانِ ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن مجید سناتے۔ لہٰذا جب حضرت جبریل ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ جلدی کرتے ہوئے خیر کے کاموں کی طرف سبقت لے جاتے۔‘‘
تو آئیے اللہ تعالیٰ کی اِس عظیم الشان کتاب کے فضائل سماعت کر کے اپنے ایمان کو ترو تازہ کیجيے۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے
عزیزان گرامی! قرآن مجید انتہائی عظیم کتاب ہے اور اس کی عظمت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلامِ مبین ہے اور اس کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ خود اللہ تعالیٰ اس کی عظمت مختلف انداز سے بیان فرماتے ہیں: کہیں یوں فرماتے ہیں:
﴿وَإِنَّهُۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ‎﴿١٩٢﴾‏ نَزَلَ بِهِ ٱلرُّوحُ ٱلْأَمِينُ ‎﴿١٩٣﴾‏ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ ‎﴿١٩٤﴾‏ بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّ مُّبِينٍ ‎﴿١٩٥﴾‏ وَإِنَّهُۥ لَفِى زُبُرِ ٱلْأَوَّلِينَ ‎﴿١٩٦﴾(سورة الشعراء:192تا196)
’’ یقینا یہ(قرآن)رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ جس کو روح الامین نے آپ کے دل پر اتارا تاکہ آپ ڈرانے والوں میں شامل ہو جائیں۔ یہ فصیح عربی زبان میں ہے اور اس کا ذکر پہلے صحیفوں میں بھی ہے۔‘‘
اور کہیں یوں فرماتے ہیں:﴿تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَٰلَمِينَ نَذِيرًا ‎﴾ (سورة الفرقان:1)
’’ بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر حق و باطل میں فرق کرنے والا(قرآن)اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے ڈرانے والا بن جائے۔‘‘ اور کہیں اللہ تعالیٰ ستاروں کے محل وقوع کی قسم اٹھا کر اِس کتاب کو معزز کتاب قرار دیتے ہیں:
﴿فَلَآ أُقْسِمُ بِمَوَٰقِعِ ٱلنُّجُومِ ‎﴿٧٥﴾‏ وَإِنَّهُۥ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ‎﴿٧٦﴾إِنَّهُۥ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ ‎﴿٧٧﴾‏ فِى كِتَٰبٍ مَّكْنُونٍ ‎﴿٧٨﴾‏ لَّا يَمَسُّهُۥٓ إِلَّا ٱلْمُطَهَّرُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ‎﴿٨٠﴾
’’ میں ستاروں کے محل وقوع کی قسم کھاتا ہوں اور اگر تم جانو تو یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے! یہ قرآن ایک بلند پایہ(کتاب)ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے۔ جسے پاکیزہ لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔ یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو کہیں ﴿ٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ ‎﴾، کہیں ﴿ٱلْكِتَٰبِ ٱلْحَكِيمِ ‎﴾، کہیں ﴿تَنزِيلُ ٱلْكِتَٰبِ مِنَ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ ‎﴾اور کہیں اس کی قسم کھا کر فرماتے ہیں :﴿حمٓ ‎﴿١﴾‏ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ ‎﴿٢﴾حمٓ ‎﴿١﴾‏ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّا جَعَلْنَٰهُ قُرْءَٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٣﴾اور کہیں﴿ يسٓ ‎﴿١﴾‏ وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْحَكِيمِ ‎﴿٢﴾اور کہیں ﴿صٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ذِى ٱلذِّكْرِ ‎﴿١﴾الغرض یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے مختلف اوصاف ذکر کر کے اور اس کی قسم کھا کر اس کی عظمت کو واضح فرماتے ہیں تاکہ اس کے ماننے والے بھی اپنے دل کی گہرائی سے اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کریں اور اس کو اپنا دستور حیات بنائیں۔ قرآن مجید بے مثال کتاب ہے قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی سب سے افضل کتاب ہے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ اسی ليے اللہ تعالیٰ نے اس میں بار بار یہ چیلنج فرمایا کہ تمام فصحاء و بلغاء اکٹھے مل کر اس جیسی ایک سورت بھی لا کے دکھائیں۔ پھر اس نے یہ کھلا اعلان کیا کہ تمام جن و انس مل کر بھی اس جیسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے۔ ﴿قُل لَّئِنِ ٱجْتَمَعَتِ ٱلْإِنسُ وَٱلْجِنُّ عَلَىٰٓ أَن يَأْتُوا۟ بِمِثْلِ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِۦ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ‎﴿٨٨﴾ (سورة الإسراء:88)
’’ آپ کہہ دیجيے کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس قرآن جیسا لانا چاہیں تو اس جیسا نہیں لا سکیں گے، چاہے وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔‘‘
قرآن مجید سیدھا راستہ دکھلاتا ہے
قرآن مجید دنیوی اور اخروی بھلائیوں کی طرف انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور ایسا مضبوط اور سیدھا راستہ دکھلاتا ہے جو انسان کو جنت تک پہنچا دیتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿إِنَّ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ يَهْدِى لِلَّتِى هِىَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا ‎﴿٩﴾‏ (سورة الإسراء:9)
’’ یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَٰبٌ مُّبِينٌ ‎﴿١٥﴾‏ يَهْدِى بِهِ ٱللَّهُ مَنِ ٱتَّبَعَ رِضْوَٰنَهُۥ سُبُلَ ٱلسَّلَٰمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِهِۦ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ ‎﴿١٦﴾ (سورة المائدة:15تا16)
’’ تمھارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور(ایسی)واضح کتاب آچکی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھلاتا ہے جو اس کی رضا کی اتباع کرتے ہیں اور اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے۔‘‘
قرآن مجید باطل کی آمیزش سے بالکل پاک اور شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِٱلذِّكْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُۥ لَكِتَٰبٌ عَزِيزٌ ‎﴿٤١﴾‏ لَّا يَأْتِيهِ ٱلْبَٰطِلُ مِنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِۦ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ‎﴿٤٢﴾ (سورة فصلت:41تا42)
’’ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے پاس ذکر(قرآن)آیا تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا حالانکہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ جس میں باطل نہ آگے سے راہ پا سکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ یہ حکمت والے اور لائقِ ستائش اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔‘‘
اسی طرح فرمایا: ﴿‏ ذَٰلِكَ ٱلْكِتَٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (سورة البقرة:2)
’’ یہ وہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ ‎﴾ (سورة الحجر:9)
’’ بے شک ہم نے ہی ذکر(قرآن)کواتارا اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے قرآن مجید کو اتارتے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو آیات ِ قرآنیہ پڑھ کر سناتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں قرآن مجید کی نازل کی گئی آیات کو آپ بھول نہ جائیں، آپ جبریل امین علیہ السلام کی قراءت کے ساتھ قراءت کرنا شروع کردیتے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِۦٓ ‎﴿١٦﴾‏ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُۥ وَقُرْءَانَهُۥ ‎﴿١٧﴾‏ فَإِذَا قَرَأْنَٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْءَانَهُۥ ‎﴿١٨﴾‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ ‎﴿١٩﴾ (سورةالقيامة:16تا19)
’’ اور(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم)وحی کے پڑھنے کے ليے اپنی زبان کو تیز نہ کرو کہ اس کو جلد یاد کر لو۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو آپ(اس کو سنا کرو اور)پھر اسی طرح پڑھا کرو۔ پھر اس(کے معانی)کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘
اِس طرح قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر میں محفوظ ہو جا تا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے رہتے یعنی مسلسل اسے دہراتے رہتے جیسا کہ ہم نے اِس خطبہ کے آغاز میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی آیات اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سناتے جو سننے کے بعد انہیں اپنے سینوں میں محفوظ کر لیتے تھے۔اس کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبانِ وحی مقرر کیا تھا ان میں سے کسی کے ذریعے اتری ہوئی آیات یا سورتیں لکھوانے کا اہتمام کر دیتے۔ یوں قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی لکھا ہوا بھی تھا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں بھی محفوظ تھا۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے متفرق چیزوں پر لکھا ہوا قرآن مجید یکجا جمع کر دیا جو غیر مرتب صحیفوں کی شکل میں تھا۔ اِس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے ان مختلف صحیفوں کو ایک ہی نسخہ میں مرتب کردیا، پھر اس سے مختلف نسخے نقل کیے گئے اور انھیں پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلا دیا گیا اور آج بھی دنیا کے ہر ہر کونے میں وہ مصحف موجود ہے، اور اگر اس کا ایک نسخہ مشرق سے اوردوسرا مغرب سے لے کر دونوں میں مقارنہ کیا جائے تو الفاظ کا فرق تو کجا ان میں زبر زیر کا فرق بھی نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں قرآن مجید کے حفاظ موجود ہیں اور مسلمانوں میں حفظ ِ قرآن کا ایک ایسا جذبہ پایا جاتا ہے کہ اُس جیسا جذبہ دنیا کی کسی کتاب کو حفظ کرنے کے متعلق نہیں پایا جاتا۔ والدین اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرانا اپنے اور اپنی اولاد کے لیے سعادت مندی تصور کرتے ہیں۔ مساجد میں حفظ قرآن کا ایک نظام پایا جاتا ہے۔ اور دن رات اللہ کے گھروں میں اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی اور اسے حفظ کیا جاتا ہے۔ بچے تو بچے حتی کہ بڑی عمر کے لوگ بھی جو حافظ قرآن نہیں ہوتے ان میں یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی قرآن حفظ کر لیتے! سو مسلمانوں کا قرآن مجید سے یہ لگاؤ اور اہتمام اِس بات کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اور وہ اپنے بندوں کے ذریعے اس کی حفاظت کرتا رہے گا۔
قرآن مجید میں شفا ہے
جی ہاں! قرآن مجید دل کی اعتقادی بیماریوں مثلا کفر، شرک، نفاق اور اخلاقی بیماریوں مثلا حسد، بغض، کینہ اور حرص و لالچ کے لیے شفا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِى ٱلصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ‎﴾ (سورة يونس:57)
’’ اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آچکی، یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ هُدًى وَشِفَآءٌ (سورة فصلت:44)
’’ کہہ دیجيے کہ یہ(قرآن)ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔‘‘ نیز فرمایا:﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ‎﴿٨٢﴾ (سورة الإسراء:82)
’’ اور ہم قرآن سے جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے خسارہ میں تو اضافہ ہی کرتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ قرآن مجید دل کی اعتقادی اور اخلاقی بیماریوں کے لیے بھی شفا ہے اور جسمانی بیماریوں کے لیے بھی شفا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ

(أنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ إذا اشْتَكَى يَقْرَأُ علَى نَفْسِهِ بالمُعَوِّذاتِ ويَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وجَعُهُ كُنْتُ أقْرَأُ عليه وأَمْسَحُ بيَدِهِ رَجاءَ بَرَكَتِها.) (صحيح البخاري:5016)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو اپنے اوپر معوذات پڑھ کر دم کرتے۔ پھر جب آپ کی بیماری میں شدت پیدا ہوئی تو میں آپ پر دم کرتی تھی لیکن آپ ہی کا ہاتھ پکڑ کر آپ پر پھیرتی تھی آپ کے ہاتھ کی برکت کی امید رکھتے ہوئے۔‘‘
یہ حدیث دلیل ہے معوذات پڑھ کر دم کرنے کی۔ اسی طرح سورۃ الفاتحہ پڑھ کر بھی کسی بیمار پر دم کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دیتا ہے۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلہ کے ہاں آئے تو اس نے ان کی کوئی مہمان نوازی نہ کی۔ پھر ہوا یہ کہ ان کے سردار کو ایک بچھو نے ڈس لیا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا ہر طرح سے علاج کیا لیکن اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر کار وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں آئے اور کہا: ہمارے سردار کو بچھونے کاٹ لیا ہے تو کیا آپ میں سے کسی کے پاس اس کا کوئی علاج ہے ؟ ان میں سے ایک نے کہا: ہاں میں اسے دم کرسکتا ہوں لیکن بات یہ ہے کہ تم لوگ تو وہ ہو کہ تم نے ہماری مہمان نوازی ہی نہیں کی۔ اس لیے میں اُس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم ہمیں اس کا معاوضہ نہ دو۔ ان لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے ہم آپ کو کچھ بکریاں بطور معاوضہ دیں گے۔ چنانچہ وہ صحابی گئے اور اس پر سورۃ الفاتحہ کو پڑھا اور جس جگہ پر اس کو بچھو نے ڈسا تھا وہاں اس نے ہلکا سا تھوک دیا۔ اِس سے وہ بالکل ٹھیک ہو گیا انہوں نے جو بکریاں انھیں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ انھیں دے دیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں کہا: یہ بکریاں تقسیم کر لیں تو جس صحابی نے دم کیا تھا اس نے کہا:نہیں، جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتے اس وقت تک کچھ بھی نہ کریں۔ چنانچہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پورا واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمھیں کیسے پتہ تھا کہ سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کرتے ہیں؟ ‘‘ پھر آپ نے فرمایا:

(قدْ أَصَبْتُمْ، اقْسِمُوا، وَاضْرِبُوا لي معكُمْ سَهْمًا.) (صحيح البخاري:2276)
’’ تم نے ٹھیک کیا۔ لہٰذا تم یہ بکریاں آپس میں تقسیم کر لو اور میرا حصہ بھی نکالو۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مریض پر سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کیا جائے تو اسے اللہ کے حکم سے شفا ہوگی۔ لہٰذا طب نبوی کے اس علاج سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہيے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اگر بندہ فاتحہ کے ساتھ اپنا علاج کرے تو اسے اس کی عجیب تاثیر نظر آئے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں کچھ عرصہ مقیم رہا، اِس دوران مجھ پر ایسی مختلف بیماریاں آئیں کہ مجھے ان کے لیے نہ کوئی طبیب ملا اور نہ علاج میسر آیا۔ چنانچہ میں اپنا علاج سورۃ الفاتحہ کے ساتھ کرتا تھا جس کی مجھے عجیب تاثیر نظر آئی۔ پھر میں نے یہ علاج کئی لوگوں کو بتایا جنہیں درد وغیرہ کی کوئی تکلیف ہوتی تو ان میں سے بیشتر لوگ شفا یاب ہو گئے۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ سورۃ الفاتحہ ہی قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت ہے۔
حضرت ابو سعید المعلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے نماز مکمل کر لی۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
(ما مَنَعَكَ أنْ تَأْتِيَ؟)’’ تمہیں کس بات نے میرے پاس آنے سے روکا؟‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ألَمْ يَقُلِ اللَّهُ: {يَا أيُّها الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ ولِلرَّسُولِ إذَا دَعَاكُمْ)’’ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: اے ایمان والو! اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کا حکم مانو جبکہ رسول تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمہارے ليے زندگی بخش ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ)’’ کیا میں تمھیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت کے بارے میں نہ بتلاؤں؟‘‘ اس کے بعد جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمھیں قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت کے بارے میں بتلاؤں گا! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ) (صحيح البخاري:5006)
’’وہ سورۃ الفاتحہ ہے اور یہ وہی سورت ہے جس کی سات آیات بار بار دھرائی جاتی ہیں اور یہی سورت وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔‘‘
تلاوتِ قرآن مجید کی فضیلت
قرآن مجید دنیا میں اللہ تعالیٰ کی واحد کتاب ہے جس کی تلاوت کی جائے تو اس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(منْ قرأَ حرفًا من كتابِ اللهِ فله به حسنةٌ، والحسنةُ بعشرِ أمثالِها لا أقولُ آلم حرفٌ، ولَكِن ألِفٌ حرفٌ، ولامٌ حرفٌ، وميمٌ حرفٌ)(سنن الترمذي: 2910:حسن صحيح غريب: وصححه الألباني)
’’ جو آدمی کتاب اللہ(قرآن مجید)کا ایک حرف پڑھتا ہے اسے ایک نیکی ملتی ہے اور ایک نیکی اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ(ألم)ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا اور میم تیسرا حرف ہے۔‘‘
قرآن مجید اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(اقْرَؤُوا القُرْآنَ فإنَّه يَأْتي يَومَ القِيامَةِ شَفِيعًا لأَصْحابِهِ،) (صحيح مسلم:804)
’’ تم قرآن پڑھتے رہا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں(اور اس پرعمل کرنے والوں)کے لیے شفاعت کرے گا۔‘‘
تلاوتِ قرآن سے شیطان گھر سے بھاگ جاتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقابِرَ، إنَّ الشَّيْطانَ يَنْفِرُ مِنَ البَيْتِ الذي تُقْرَأُ فيه سُورَةُ البَقَرَةِ.) (صحيح مسلم:780)
’’ تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی رہے۔‘‘
قرآن سیکھنے اور سکھلانے والے سب سے بہتر ہیں
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(خَيْرُكُمْ مَن تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ.) (صحيح البخاري:5027)
’’ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھلایا۔‘‘ دوسری روایت میں ارشاد فرمایا:
(إنَّ أفْضَلَكُمْ مَن تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ.) (صحيح البخاري:5028)
’’ یقینا تم میں سب سے افضل وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھلایا۔‘‘
اور نافع بن عبد الحارث بیان کرتے ہیں کہ’عسفان‘میں ان کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو انہیں مکہ مکرمہ کا ذمہ دار مقرر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اب آپ نے اہلِ وادی پر کس کو ذمہ دار مقرر کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ابن ابزی کو۔ انہوں نے کہا: وہ کون ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا: تو کیا آپ نے آزاد کردہ غلام کو ذمہ دار بنا دیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (إنَّه قَارِئٌ لِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وإنَّه عَالِمٌ بالفَرَائِضِ،)’’ بے شک وہ قاریٔ قرآن ہے اور وراثت کے احکام کا عالم بھی ہے۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خبردار! تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (إنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بهذا الكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ به آخَرِينَ.)’’ بے شک اللہ تعالیٰ اِس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلندیاں نصیب کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو نیچے گرا دیتا ہے۔‘‘ (صحيح مسلم:817)
قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے اللہ کے خاص بندے ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إنَّ للهِ أهلين من النَّاسِ)’’ بے شک لوگوں میں سے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (هم أهلُ القرآنِ , أهلُ اللهِ وخاصَّتُه)’’ قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ کے دوست اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘ (صحيح ابن ماجه:179)
حافظ ِ قرآن کی فضیلت
قرآن مجید ایسی عظیم کتاب ہے کہ اِس کو حفظ کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے شخص کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(يقالُ لصاحِبِ القرآنِ: اقرأ، وارتَقِ، ورتِّل كَما كُنتَ ترتِّلُ في الدُّنيا، فإنَّ منزلتَكَ عندَ آخرِ آيةٍ تقرأُ بِها) (صحيح الترمذي:2914)
’’ صاحبِ قرآن(حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والے)کو کہا جائے گا: قراءت کرتے جاؤ اور(جنت کی سیڑھیوں پر)چڑھتے جاؤ، اور ترتیل کے ساتھ پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے، پس تمھاری منزل وہاں ہو گی جہاں تم آخری آیت ختم کرو گے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(الْماهِرُ بالقُرْآنِ مع السَّفَرَةِ الكِرامِ البَرَرَةِ، والذي يَقْرَأُ القُرْآنَ ويَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وهو عليه شاقٌّ، له أجْرانِ.) (صحيح مسلم:798)
’’ جو شخص قرآن مجید کا ماہر ہو(یعنی جس کا حفظ بہت اچھا ہو اور نہایت خوبصورت تلاوت کرتا ہو)وہ معزز اور مطیع فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔(یعنی قیامت کے روز وہ ان منازل پر فائز ہو گا جہاں معزز فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے۔)اور جو شخص قرآن پڑھتا ہو اور اس میں اسے تردد ہوتا ہو اور وہ مشقت محسوس کرتا ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ یعنی ایک اجر تلاوت کا اور دوسرا بار بار اسے دہرانے کا۔ تاہم اِس حدیث کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ جس کا حفظ کمزور ہو اس کو اچھے حفظ والے شخص سے زیادہ اجر ملے گا۔ بلکہ اس میں تو اچھے قاری اور حافظ کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قیامت کے روز فرشتوں کے ساتھ ہو گا، رہا اس کا اجر و ثواب تو وہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس کو کتنے اجر و ثواب سے نوازے گا۔
نماز میں قراءتِ قرآن کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أَيُحِبُّ أحَدُكُمْ إذا رَجَعَ إلى أهْلِهِ أنْ يَجِدَ فيه ثَلاثَ خَلِفاتٍ عِظامٍ سِمانٍ؟) کیا تم میں سے کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹے تو وہاں تین موٹی تازی حاملہ اونٹنیاں پائے؟ ہم نے کہا: جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فَثَلاثُ آياتٍ يَقْرَأُ بهِنَّ أحَدُكُمْ في صَلاتِهِ، خَيْرٌ له مِن ثَلاثِ خَلِفاتٍ عِظامٍ سِمانٍ.) (صحيح مسلم:802)
’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں تین آیات کی تلاوت کرے، یہ اس کے لیے تین موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔‘‘
اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم’صفہ‘میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تم میں سے کون ہے جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ ہر روز صبح سویرے’بطحان‘یا’عقیق‘میں جائے، پھر وہاں سے دو موٹی تازی اونٹنیاں بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے لے آئے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سب یہ پسند کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَفلا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إلى المَسْجِدِ فَيَعْلَمُ، أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِن كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ له مِن نَاقَتَيْنِ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ له مِن ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ له مِن أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الإبِلِ.) (صحيح مسلم:803)
’’ تو کیا تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے مسجد میں نہیں جاتا جہاں وہ کتاب اللہ کی دو آیات کا علم حاصل کرے یا ان کی تلاوت کرے، یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ اور تین آیات تین اونٹنیوں سے اور چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ پھر اسی طرح ہر آیت ایک ایک اونٹ سے بہتر ہو گی۔‘‘
نماز میں بکثرت قرآن مجید پڑھنے والا آدمی قابل رشک ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لا حَسَدَ إلَّا في اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتاهُ اللَّهُ القُرْآنَ فَهو يَقُومُ به آناءَ اللَّيْلِ، وآناءَ النَّهارِ، ورَجُلٌ آتاهُ اللَّهُ مالًا، فَهو يُنْفِقُهُ آناءَ اللَّيْلِ، وآناءَ النَّهارِ.) (صحيح مسلم:815)
’’ صرف دو آدمی ہی قابلِ رشک ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا(اسے حفظ کرنے کی توفیق دی)اور وہ اس کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں قیام کرتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔‘‘
قراءتِ قرآن کے دوران رحمت ِ باری تعالیٰ کا نزول ہوتا ہے
حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا، اس کے پاس اس کا گھوڑا دو رسیوں کے ساتھ بندھا ہوا تھا، اچانک ایک بادل آیا اور اس شخص کے اوپر چھا گیا۔ پھر وہ گھومنے اور اس کے قریب ہونے لگا جس سے اس کا گھوڑا ڈر کے مارے اچھلنے لگا۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا یہ واقعہ ذکر کیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تِلكَ السَّكِينَةُ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ.) (صحيح مسلم:795)
’’ یہ باری تعالیٰ کی رحمت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے(السکینة)کے معنی کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کئی اقوال ہیں، سب سے بہتر یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ چیز ہے جس میں اطمینان، رحمت اور فرشتے ہوتے ہیں۔ یعنی قرآن مجید کی تلاوت کے وقت فرشتے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جس سے تلاوت کرنے والے کو ایک عجیب سی راحت محسوس ہوتی ہے۔
اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو(نماز میں)سورۃ البقرۃ پڑھ رہا تھا اور میرا گھوڑا قریب ہی بندھا ہوا تھا، اچانک گھوڑا بدکا تو میں خاموش ہو گیا۔ جب میں خاموش ہوا تو وہ بھی پر سکون ہو گیا۔ میں نے پھر قراءت شروع کی تو وہ پھر بدکنے لگا۔ میں خاموش ہوا تو وہ بھی ٹھہر گیا۔ میں نے پھر قراءت شروع کی تو وہ ایک بار پھر بدکا۔ اُدھر میرا بیٹا’یحییٰ‘بھی تھا، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ اسے کچل نہ دے۔ چنانچہ میں سلام پھیر کر اس کے پاس آیا اور اسے اس سے دور کر دیا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھتری سی ہے اور اس میں چراغ سے چمک رہے ہیں۔ پھر یہ چھتری نما چیز آسمان کی طرف چلی گئی حتی کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا پورا واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابن حضیر! تمھیں اپنی قراءت جاری رکھنی چاہیے تھی!‘‘
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنے بیٹے پر ترس آ رہا تھا اس لیے میں نے سلام پھیر دیا، اس کے بعد میں نے ایک چھتری نما چیز دیکھی جس میں چراغ چمک رہے تھے، وہ اوپر کو چلی گئی اور میری نظروں سے غائب ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تِلكَ المَلائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ، ولو قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إلَيْها، لا تَتَوارَى منهمْ.) (صحيح البخاري:5018)
’’ یہ فرشتے تھے جو تمھاری آواز کے قریب آ گئے تھے اور اگر تم قراءت جاری رکھتے تو صبح کے وقت لوگ بھی اسے دیکھ لیتے اور وہ ان سے نہ چھپ سکتے۔‘‘ یہ تھے قرآن مجید کے بعض فضائل۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس عظیم کتاب کو کیوں نازل کیا؟
قرآن مجید کو کیوں نازل کیا گیا؟
1۔ اِس ليے کہ اس پر ایمان لانے والے اِس کی اُس طرح تلاوت کریں جیسا کہ اسکی تلاوت کا حق ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَٰهُمُ ٱلْكِتَٰبَ يَتْلُونَهُۥ حَقَّ تِلَاوَتِهِۦٓ أُو۟لَٰٓئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِۦ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ ‎﴿١٢١﴾ (سورة البقرة:121)
’’ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یہی لوگ اِس پر ایمان رکھنے والے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے گا تو یقینا ایسے ہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘
حقِ تلاوت یہ ہے کہ قرآن مجید کو اُس طرح پڑھا جائے جس طرح یہ آسمان سے نازل ہوا، جس طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، پھر جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَقُرْءَانًا فَرَقْنَٰهُ لِتَقْرَأَهُۥ عَلَى ٱلنَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَٰهُ تَنزِيلًا ‎﴿١٠٦﴾ (سورة الإسراء106)
’’ اور قرآن کو ہم نے اجزاء میں نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو آہستہ آہستہ پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج اتارا ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ﴿وَرَتِّلِ ٱلْقُرْءَانَ تَرْتِيلًا ‎﴾ (سورة المزمل:4)
’’ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کے پڑھئے۔‘‘ لہٰذا قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کے اور اس کے حروف کو ان کے مخارج سے ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہيے اور اس کے کلمات کا تلفظ بالکل درست ہونا چاہيے۔ کیونکہ مخارج کی تبدیلی سے یا تلفظ میں بگاڑ سے معانی میں تبدیلی آتی ہے اور یوں قرآن مجید کی معنوی تحریف ہوتی ہے۔ خصوصا نماز میں‘ خواہ فرض نماز ہو یا نفل‘ قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنا چاہيے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ(كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يقطِّعُ قراءتَهُ يقرأُ(الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)ثمَّ يقف(الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)ثمَّ يقفُ وَكانَ يقرأُها: (مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ) (صحيح الترمذي:2927)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قراءت میں ایک ایک آیت الگ کر کے پڑھتے تھے۔ آپ{الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}پڑھتے، پھر وقفہ کرتے۔ اس کے بعد{الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}پڑھتے اور پھر وقفہ کرتے اور آپ{مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ}پڑھتے تھے۔‘‘
اور قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کیسی تھی؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔ پھر انہوں نے{بسم اﷲ الرحمن الرحیم}کو پڑھا تو(بسم اﷲ)کو کھینچا،(الرحمن)کو بھی کھینچا اور(الرحیم)کو بھی کھینچا۔ یعنی ان کلمات میں حروف مدہ کو خوب لمبا کیا۔ اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت پُر ترنم آواز کے ساتھ کرنی چاہیے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(ما أذِنَ اللَّهُ لِشيءٍ ما أذِنَ للنبيِّ أنْ يَتَغَنَّى بالقُرْآنِ) (صحيح البخاري:5024:صحيح مسلم:792)
’’ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اُس طرح توجہ سے نہیں سنتا جیسا کہ اُس نبی کی آواز کو توجہ سے سنتا ہے جو قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھتا ہے۔‘‘اِس کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خوش الحان تھے اور پر ترنم آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اور اس حدیث میں اُس شخص کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو قرآن کو خوش الحانی سے پڑھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے قریب کرتا ہے اور اس کو بڑا اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(زَيِّنوا القُرآنَ بأصواتِكم.) (سنن أبي داود:1468،وابن ماجه:1342،وأحمد:18517)
’’ تم قرآن کو اپنی خوبصورت آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔‘‘ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
(ليس مِنَّا من لم يتغنَّ بالقرآنِ) (صحيح البخاري:7527)
یعنی’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن مجید کو ترنم کے ساتھ نہ پڑھے۔‘‘ لہٰذا اس سلسلہ میں انسان کو سستی نہیں کرنی چاہيے اور تلاوتِ قرآن مجید اچھی اور خوبصورت آواز میں کرنی چاہيے۔
2۔ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس میں تدبر اور غور و فکر بھی کرنا چاہيے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اسی ليے اتاری ہے کہ اسے پڑھا جائے، اس میں غور و فکر کیا جائے اور اسے اپنا دستورِ حیات بنایا جائے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ إِلَيْكَ مُبَٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوٓا۟ ءَايَٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ ‎﴿٢٩﴾ (سورة ص:29)
’’ یہ کتاب بابرکت ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس ليے نازل فرمایا ہے کہ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘ اسی طرح فرمایا:

 ‎﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ ‎﴿٢٤﴾ (سورة محمد:24)
’’ کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟‘‘ اس ليے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے خود بھی سیکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھلائیں۔ خود بھی اس میں غور و فکر کریں اور اولاد کو بھی حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ و تفسیر بھی پڑھائیں تاکہ اس سے نصیحت حاصل ہو سکے، کیونکہ قرآن مجید کا معنی و مفہوم معلوم کيے بغیر اس سے نصیحت حاصل کرنا نا ممکن ہے۔
قرآن مجید کی تاثیر
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت تدبر اور غور و فکر کے ساتھ کی جائے تو اُس سے تلاوت کرنے والے پر اور اسی طرح سننے والوں پر بھی بڑا اثر ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تاثیر کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ٱللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ ٱلْحَدِيثِ كِتَٰبًا مُّتَشَٰبِهًا مَّثَانِىَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى ٱللَّهِ يَهْدِى بِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِنْ هَادٍ ‎﴿٢٣﴾ (سورة الزمر:23)
’’ اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے کہ اس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کی جلد اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے، اِس کے ذریعے اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘
اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ واقعتا اللہ سے ڈرنے والے ہوں، خشوع کے ساتھ کلام اللہ کی تلاوت کرنے والے ہوں اور اس میں غور و فکر کرنے والے ہوں تلاوتِ قرآن سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے۔ پھر اُس سے ان کے دلوں میں اللہ کے ذکر کی طرف اور زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ:
(اقْرَأْ عَلَيَّ القُرْآنَ)’’ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔‘‘ تو میں نے کہا: میں آپ کو پڑھ کر سناؤں جبکہ آپ پر ہی قرآن نازل ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کسی اور سے سنوں۔ چنانچہ میں نے سورۃ النساء سے پڑھنا شروع کیا ۔جب میں اِس آیت پر پہنچا ﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةِۭ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰٓؤُلَآءِ شَهِيدًا ‎﴿٤١﴾ تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہہ رہے ہیں۔ (صحيح البخاري:4582، صحيح مسلم:800)
قرآن مجید اِس قدر مؤثر ہے کہ اگر اسے پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ الله تعالیٰ فرما تے ہیں:﴿ لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُۥ خَٰشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِ ۚ وَتِلْكَ ٱلْأَمْثَٰلُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٢١﴾ (سورة الحشر:21)
’’ اگر ہم اِس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ دبا جا رہا ہے اور اللہ کے خوف کی وجہ سے پھٹ رہا ہے اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘ لیکن لگتا ہے کہ ہمارے دل پتھر سے بھی سخت ہو گئے ہیں کہ ان پر رقت طاری نہیں ہوتی، تلاوت کرنے یا سننے کے بعد ان میں اللہ کے ذکر کی طرف اور زیادہ رغبت پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم پر قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی اثر ہوتا ہے کہ کئی کئی ختم ہو جاتے ہیں مگر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر اس کی مقرر کردہ حدود پر ہم نہیں رکتے بلکہ ان سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر اُس میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ قرآن کے الفاظ کو پڑھتے ہیں مگر ان میں اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کو حرام قرار دیا ہے ہم ان سے اجتناب نہیں کرتے۔ قرآن مجید میں مختلف قوموں کے قصے پڑھتے ہیں مگر ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے!جبکہ قرآن مجید کی تاثیر اِس قدر شدید ہے کہ جو لوگ اِس کے دشمن تھے وہ بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جیسا کہ کئی صحابۂ کرام کے واقعات ہیں جو قبولِ اسلام سے پہلے اسلام کے سخت دشمن تھے لیکن جب قرآن مجید کی تلاوت سنی تو ان کے دل نرم ہو گئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ مثلا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا وقعہ ہے کہ جو اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے حتی کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے تھے کہ راستے میں نعیم بن عبد اللہ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کہا: عمر! آج کہاں جا رہے ہو؟ جواب دیا کہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے بنو ہاشم اور بنو زہرۃ سے بچ جاؤ گے؟ جواب دیا کہ شاید تم بھی بے دین ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا: میں تمھیں اِس سے بھی زیادہ تعجب والی بات نہ بتلاؤں؟ تمہاری بہن اور تمھارے بہنوئی بھی بے دین ہو چکے ہیں اور تمہارے دین کو چھوڑ چکے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ سیدھے ان کے گھر گئے جہاں حضرت خباب رضی اللہ عنہ ان دونوں کو سورۃ طہ پڑھا رہے تھے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ پہلے اپنے بہنوئی کو مارا، پھر اپنی بہن کو بھی زخمی کیا۔ اِس کے بعد شرمندہ ہوئے اور کہا: یہ جو تم پڑھ رہے تھے مجھے دو تاکہ میں بھی پڑھوں۔ بہن نے کہا: تم نا پاک ہو پہلے غسل کرو۔ انہوں نے غسل کیا تو صحیفہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ طہ کو پڑھنا شروع کیا تو ابھی اس کی ابتدائی آیات ہی پڑھی تھیں کہ کہنے لگے: (ما أحسن هذا الكلام وأكرمه!)’’ یہ کتنا اچھا اور کتنا معزز کلام ہے!‘‘ پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ یہ ہے قرآن مجید کی تاثیر۔ اسی طرح جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں دعوت کا آغاز کیا تو حضرت اسعد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر کے پاس گئے جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اِن دونوں نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ اور حضرت اسعد رضی اللہ عنہ کو دھمکی دی کہ وہ چلے جائیں ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری بات سن لیں، اگر آپ کو پسند آئے تو قبول کر لینا ورنہ ہم چلے جائیں گے۔ وہ دونوں جب ان کی بات سننے پر راضی ہو گئے تو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ چنانچہ وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔ نہ صرف وہ دونوں بلکہ ان کے قبیلوں کے تمام لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔ یہ اور اِس طرح کے دیگر کئی واقعات اِس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن کے دشمن بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اِس قرآن کی طرف راغب ہوں اور اسکی تلاوت کے ساتھ اِس میں غور و فکر بھی کریں تاکہ ان پر بھی اس کا اثر ہو۔ یاد رہے کہ قرآن کا اثر اسی شخص پر ہوتا ہے جو اسے حاضر دماغی سے پڑھے یا سنے اور پوری توجہ اس کی طرف رکھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُۥ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى ٱلسَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ‎﴿٣٧﴾ (سورة ق:37)
’’ بے شک اس میں اُس شخص کے لیے نصیحت ہے جو(زندہ)دل رکھتا ہو، اور حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر سنتا ہو۔‘‘
3۔ تلاوت اور تدبر کے ساتھ ساتھ قرآن مجید پر عمل بھی کرنا چاہیے بلکہ اسے دستورِ حیات بناتے ہوئے اسی کی روشنی میں زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے جو احکامات مذکور ہیں ان پرعمل کرنا چاہیے اور جو اللہ تعالیٰ کی محرمات ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ قرآن مجید میں جو پہلی قوموں کے عبرتناک واقعات مذکور ہیں ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچنا چاہیے۔ قرآن مجید میں اخلاق و کردار کے متعلق جو تعلیمات ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَهَٰذَا كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ مُبَارَكٌ فَٱتَّبِعُوهُ وَٱتَّقُوا۟ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿١٥٥﴾ (سورة الأنعام:155)
’’ یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے یہ بڑی بابرکت ہے۔ لہٰذا تم اس کی اتباع کرو اور(اللہ تعالیٰ سے)ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق دے اور قرآن مجید کو ہمارے ليے حجت بنائے۔
دوسرا خطبہ
کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم
اللہ رب العزت نے ہمیں قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنے کی ترغیب دی ہے اور اسے مضبوطی سے تھامنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ وہ انھیں اپنی آغوشِ رحمت میں لیتے ہوئے ان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائے گا۔ فرمان ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُم بُرْهَٰنٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ‎﴿١٧٤﴾‏ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱللَّهِ وَٱعْتَصَمُوا۟ بِهِۦ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِى رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَٰطًا مُّسْتَقِيمًا ‎﴿١٧٥﴾ (سورة النساء174تا175)
’’ اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمھاری طرف صاف راہ دکھلانے والا نور(قرآن مجید)نازل کیا۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس(قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رہے انھیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں شامل کر لے گا اور اپنی طرف آنے کی سیدھی راہ انھیں دکھا دے گا۔‘‘
جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں جو خطبۂ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا تھا اس کی ایک اہم بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ(قرآن مجید)کو مضبوطی سے تھام لے، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ ارشاد فرمایا: (وقد ترَكْتُ فيكم ما لَنْ تضِلُّوا بعدَه إنِ اعتصَمْتُم به: كتابَ اللهِ،) (صحيح ابن حبان:3944)
’’ (جان لو)میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں جسے تم نے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے کتاب اللہ۔‘‘ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: (فاعقلوا أيها الناس قولي فإني قد بلغت وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن تمسكتم به: كتاب الله وسنة رسوله صلى عليه الله وسلم) (السنة للمروزي:68)
’’ اے لوگو! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے وہ ہے: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہدایت کے چشمے ہیں اور انہی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھام لیا جائے تو گمراہی سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(فإنَّ هذا القرآنَ سببُ طرفِه بيدِ اللهِ ، و طرَفُه بأيدِيكم ، فتمَسَّكوا به ، فإنكم لن تَضِلُّوا و لن تَهلِكوا بعده أبدًا) (السلسلة الصحيحة:713)
’’ یہ قرآن مجید ایک مضبوط رسی ہے جس کا ایک سرا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں۔ پس تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو، تم کبھی اس کے بعد ہلاک ہو گے اور نہ گمراہ ہو گے۔‘‘ اور طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو میں نے کہا: لوگوں پر تو وصیت فرض کی گئی اور انھیں حکم دیا گیا کہ وہ وصیت کریں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت نہیں کی؟ انھوں نے کہا:(أَوْصٰى بِكتَابِ اللّٰه)’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بس کتاب اللہ ہی کی وصیت کی تھی۔‘‘
لیکن افسوس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکیدِ شدید کے باوجود آپ کی امت آج قرآن مجید سے دور ہو چکی ہے اور قرآن مجید محض الماریوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ بہت سارے مسلمان اسے پڑھنا تک نہیں جانتے اور جو پڑھنا جانتے ہیں ان میں سے اکثر کو پورا قرآن مجید تو کجا سورت فاتحہ تک کا معنی و مفہوم بھی معلوم نہیں، حفاظِ قرآن مجید تو ما شاء اللہ بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے اور اسے اپنی زندگی کا دستور بنانے والے بہت کم ہیں!
مسلمانو! آج اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم قرآن مجید کے متعلق اپنے اِس طرز عمل کو بدلیں، اور قرآن مجید کو سیکھیں، پڑھیں، اس میں غور و فکر کریں اور اس پر عمل کریں۔ ورنہ اگر ہم یہ رویہ تبدیل نہیں کرتے تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے روز اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سامنے ہمارے بارے میں یوں شکایت کریں گے:
﴿وَقَالَ ٱلرَّسُولُ يَٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى ٱتَّخَذُوا۟ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ مَهْجُورًا ‎﴿٣٠﴾ (سورة الفرقان:30)
’’ اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے: اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اِس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ{مہجورا} کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ هجر(قرآن کو چھوڑنے)کی کئی اقسام ہیں: پہلی یہ ہے کہ قرآن کو توجہ سے سننے اور اس پر ایمان لانے کو چھوڑ دیا جائے۔ دوسری یہ کہ اس کو پڑھا تو جائے اور اس پر ایمان بھی لایا جائے لیکن اس پر عمل کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے حلال و حرام کی پابندی نہ کی جائے۔ تیسری یہ کہ اسے فیصل تسلیم نہ کیا جائے اور دین کے اصول و فروع میں اس سے فیصلہ نہ کرایا جائے اور یہ نظریہ اپنا لیا جائے کہ اس کے دلائل محض لفظی ہیں جو قطعی یقین کا فائدہ نہیں دیتے۔ چوتھی یہ کہ اس میں غور و فکر کرنا چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پانچویں یہ کہ دل کی تمام بیماریوں کا علاج اِس کے ساتھ نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ علاج کرنے کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ پانچوں اقسام اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان﴿إِنَّ قَوْمِى ٱتَّخَذُوا۟ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ مَهْجُورًا ‎﴿٣٠﴾میں شامل ہیں۔‘‘
آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو تلاوتِ قرآن اور حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ اس میں تدبر اور غور و فکر کی بھی توفیق دے اور اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے۔