نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے چند اعتراضات کا جواب

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (الأحزاب : 6)

یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں۔ مائیں ہونے سے مراد ان کی تعظیم و تکریم ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے نکاح جائز نہیں۔ دوسرے احکام مثلاً، خلوت، پردہ، ان کی اولاد سے شادی وغیرہ میں وہ ان کی ماں کی طرح نہیں

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

سبب تحریر

ہندوستان کی ایک پارلیمنٹ ممبر خاتون کی طرف سے مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔ جس میں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہونے والے نکاح کو ہدف تنقید بنایا ہے

اس سے پہلے بھی ایک ملعون ہندو ناشر راج پال نے لکھا: 50 سال سے لے کر 62 سال بارہ سال کے عرصے میں دس عورتوں سے نکاح کرنے والے نبی کو بیویوں والا کہوں تو کیا موذوں نہ ہو گا؟ نعوذ باللہ من ذلک

کفار کی یہ حرکتیں کوئی تازہ نہیں ہیں بلکہ شروع دن سے ہی وہ پیغمبر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے چلے آرہے ہیں۔ عہد نبوی میں بھی آپ کو مذمم، مجنون، مسحور اور اس جیسے گستاخانہ جملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر جس مستشرق یا غیر مسلم نے بھی کیچڑ اچھالا یا اعتراضات کیے وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندھی عداوت، تعصب اور عناد پرستی پرمبنی ہیں۔

جو عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد یا آپ کی ازدواجی زندگی میں آئیں ان کی درج ذیل اقسام ہیں

01. جن عورتوں سے آپ نے نکاح فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی، جن میں سے نو بیویاں آپ کی وفات کے وقت زندہ تھیں۔ اور دو بیویاں آپ سے پہلے وفات پا چکی تھیں :

01. خدیجہ رضی اللہ عنھا

02. سودہ رضی اللہ عنہا

03. سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

04. حفصہ رضی اللہ عنہا

05. حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا

06. سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا

07. زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

08. سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا

09. ام حبیبہ رضی اللہ عنہا

10. سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا

11.سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ (الأحزاب : 50)

اے نبی! بے شک ہم نے تیرے لیے تیری بیویاں حلال کر دیں جن کا تو نے مہر دیا ہے

02. دوسری قسم لونڈیاں ہیں، جو بطور فے آپ کو حاصل ہوئیں اور آپ نے لونڈی کی حیثیت سے ان سے فائدہ اٹھایا۔ جن میں سے ایک ماریہ قبطیہ تھیں، جنھیں مقوقس مصر نے آپ کے لیے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ اس لیے وہ فے کے حکم میں تھیں، ان سے آپ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ (الأحزاب : 50)

اور وہ عورتیں جن کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنا ہے، اس (غنیمت) میں سے جو اللہ تجھ پر لوٹا کر لایا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعدد الزوجات کی غیر محدود اجازت

فرمایا

وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ (الأحزاب :50)

اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں، جنھوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مومن عورت اگر وہ اپنا آپ نبی کو ہبہ کر دے، اگر نبی چاہے کہ اسے نکاح میں لے لے۔ یہ خاص تیرے لیے ہے، مومنوں کے لیے نہیں۔

اس آیت کریمہ میں خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت صرف آپ کے لیے ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔

اس سے اگلی آیت میں فرمایا :

تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ (الأحزاب : 51)

ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے

مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں اپنے نفس آپ کے لیے ہبہ کریں، ان میں سے آپ جسے چاہیں مؤخر رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، آپ پر ان کی پیش کش قبول کرنا لازم نہیں

ایک وقت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا (الأحزاب : 52)

تیرے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ تو ان کے بدلے کوئی اور بیویاں کر لے، اگرچہ ان کا حسن تجھے اچھا لگے مگر جس کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح نگران ہے۔

اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں امہات المومنین کے بلند مرتبے کا اظہار ہو رہا ہے۔

یعنی ایک وقت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے سوا کسی اور عورت سے نکاح جائز نہیں۔ نہ موجود بیویوں کو طلاق دے کر ان کی جگہ اور بیوی لانا جائز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت و عصمت ،پاکدامنی اور حیاء

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تعدد ازواج کی وجوہات پر بحث کرنے سے پہلے آپ کی پاکدامنی کا بیان بہت لازم اور ضروری ہے

01. ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ العَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا» (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ 6119)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاءوالے تھے

02. جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نبوت سے پہلے ) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھ پر رکھ لیتے ( تا کہ تم پر آسانی ہو جائے ) حضرت جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم) (بخاری ،كِتَابُ الصَّلاَةِ،364)

03. عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے بیعت لیتے تو صرف کلام کے ساتھ کہتے :

[ قَدْ بَايَعْتُكِ عَلٰی ذٰلِكَ ] [ بخاري، التفسیر، سورۃ الممتحنۃ، باب : «إذا جاء کم المؤمنات مھاجرات» : ۴۸۹۱ ]

’’میں نے تم سے بیعت لے لی۔‘‘

اور اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت لیتے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، آپ ان سے صرف ان الفاظ کے ساتھ بیعت لیتے تھے

امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں چند عورتوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ سے بیعت کرنے کے لیے آئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے زبانی کلامی بیعت لی

ہم نے کہا :

’’یا رسول اللہ! کیا آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنِّيْ لاَ أُصَافِحُ النِّسَاءَ إِنَّمَا قَوْلِيْ لاِمْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ كَقَوْلِيْ لِمِائَةِ امْرَأَةٍ ] [ مسند أحمد : 357/6، ح : ۲۷۰۰۹۔ ترمذي، السیر، باب ما جاء في بیعۃ النساء : ۱۵۹۷، وصححہ الترمذي والألباني ]

’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میری بات ایک عورت سے اسی طرح ہے جیسے ایک سو عورتوں سے ہو۔‘‘

04. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاکدامنی کی کس قدر حفاظت کیا کرتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے

صفیہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آئیں۔ آپ اس وقت اعتکاف میں تھے۔ پھر جب وہ واپس ہونے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ ( تھوڑی دور تک انہیں چھوڑنے ) آئے۔ ( آتے ہوئے ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑی، توفوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا، کہ سنو ! یہ ( میری بیوی ) صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ (بخاری ،كِتَابُ الِاعْتِكَافِ 2039)

05. عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس ( حجۃ الوداع میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت آئی۔ فضل اس کو دیکھنے لگے وہ بھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ بار بار دوسری طرف موڑ دیناچاہتے تھے (بخاری، كِتَابُ الحَجِّ 1513)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد نکاحوں کی حقیقی تصویر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت و عصمت ،پاکدامنی اور شرم و حیاء کے متعلق جاننے کے بعد آپ کے نکاحوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں

01. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی پر نظر ڈالیے 63 سال عمر میں سے ابتدائی 25 سال یعنی عنفوان شباب کا زمانہ انتہائی پاکیزہ اور بے داغ گزرا جس بزرگ نے 25 سال تک جوش جوانی کا زمانہ کمال تقویٰ اور نہایت ورع کے ساتھ گزارا ہو اور جس کے حسن مردانہ کے کمال نے اعلیٰ سے اعلیٰ خواتین کو اس سے نکاح کا آرزو مند کر دیا ہو پھر بھی ربع صدی تک اس کے تجرد و تفرد پر کوئی چیز غالب نہ آئی ہو کیا ایسے شخص کے متعلق اعلیٰ رائے قائم نہیں ہوتی؟

02. جس مقدس ہستی نے 25 سے 50 سال تک کی عمر کا زمانہ ایک ایسی خاتون کے ساتھ بسر کیا ہو جو عمر میں ان سے 15 سال بڑی ہو اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ اس سے پہلے دو شوہروں کی بیوی رہ کر کئی بچوں کی ماں بن کر معمر ہو چکی ہو تو ان کی نسبت کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس تزویج کی وجہ وہی تھی جو عام پرستاران حسن کی شادیوں میں پائی جاتی ہے؟

03. پہلی بیوی کی وفات کے بعد آپ نے 50 سال کی عمر میں 50 سالہ بیوہ سودہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیا حالانکہ ان دنوں میں قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی حسین و جمیل عورت سے شادی کی پیشکش کر رہے تھے۔

04. جس شخص نے اپنی زندگی کے پچاس سال اس حیاداری اور عفت مآبی سے گزارے ہوں کہ دوست اور دشمن کوئی بھی ان کی طرف انگلی نہ اٹھا سکتا ہو، کیا اس شخص کے بارے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچتے ہی اس کے اندر شہوت پرستی کی ایسی قوت لوٹ آئی کہ اس نے یکے بعد دیگرے نکاح کرنا شروع کر دئیے؟

05. مکی اور مدنی زندگی میں آپ نے جتنے بھی نکاح کیے وہ سب بیوہ یا مطلقہ خواتین سے کیے تھے سوائے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے۔

06. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی آپ پر جانثاری کی صورت حال یہ تھی کہ آپ وضوء کرتے تو وہ بچا ہوا پانی لینے کے لیے بھی جھپٹ پڑتے۔ آپ بولتے تو سب اپنی آوازیں پست کر لیتے۔ ذرا غور کیجئے! کہ جس قائد کے ساتھی اپنی جانیں بھی ان کے اشارۂ ابرو پر قربان کرنے کو تیار ہوں تو کیا اس کے لیے کنواری اور حسین و جمیل دوشیزاؤں کا حصول ناممکن ہے؟

07. اگر آپ نے جذبہ شہوت سے مغلوب ہو کر یہ شادیاں کیں تو پھر بیوہ اور مطلقہ خواتین سے کیوں کیں؟

08. مکی اور مدنی دونوں ادوار میں مشرکین اور منافقین نے آپ کی دعوت کو روکنے کے لیے کئی قسم کے پروپیگنڈے کیے کاہن، مجنون، ساحر اور شاعر ہونے کے الزامات لگائے لیکن کیا وجہ ہے کہ کبھی بھی کسی کو شہوت پرستی کا الزام لگانے کی جرأت نہ ہو سکی؟

09. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (55 سے لے کر 59 تک کی درمیانی مدت) کا پانچ سالہ زمانہ ایسا ہے کہ جب ازواج مطہرات سے حجرات آباد ہوئے اس لیے ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ زندگی مبارک کے سابقہ 55 سالوں سے بڑھ کر جو عمل ہوا ہے اس کے ضرور کوئی خاص اسباب ہوں گے۔

رحمۃ للعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ

مختلف ازواج سے نکاح کے مقاصد:

01. خدیجہ رضی اللہ عنھا سے ہونے والی شادی پر تو کوئی احمق ہی اعتراض کرسکتا ہے

02. سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد معمر خاتون سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے تزویج کا مقصد خدیجہ رضی اللہ عنھا کی متروکہ اولاد (4 بیٹیوں اور 2 بیٹوں) کی پرورش اور نگہداشت مقصود تھی۔

نیز سودہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی خاطر بے شمار مصائب جھیلنے پر اچھا سہارا مہیا کرنا مقصود تھا

وہ اس طرح کہ سودہ نے اسلام قبول کیا پھر ان کے خاوند سکران بن عمرو نے بھی اسلام قبول کیا پھر انہوں نے اپنے خاوند اور والدہ سمیت حبشہ کی طرف ہجرت کی ہجرت کی تکالیف بھری داستان الگ تھی کہ دیار غیر(حبشہ) میں ان کے خاوند کا انتقال ہو گیا تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مصائب کو جلد ختم کرنے کے لیے 10 نبوت میں خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد ان سے نکاح کر لیا

03.04.سیدہ عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما، یہ دونوں بہت زہین و فطین خواتین تھیں ان کے کے نکاح نے اتقانِ قرآن، حفاظت کتاب اللہ، نشر احادیث و تعلیم نساء کے بارے فوق العادۃ کام کیے اور پھر اس میں صدیق و فاروق کی خلافت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔

آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ میرے ہر قول و فعل کو نوٹ کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔

صحابہ کے درمیان علمی اختلاف کا فیصلہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کیا کرتی تھیں۔ (صحیح البخاری : 1332)

صحابہ کرام مسائل میں ان کی طرف رجو ع کیا کرتے تھے۔

سیدنا ابوموسی اشعری۔ ( سنن الترمذی : 3883)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام

عَنْ أَبِي مُوسَى رضي الله عنه ، قَالَ: مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ، فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا. (جامع الترمذي:3883، وقال:هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.)

ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی حدیث مشتبہ ہو جاتی تو ہم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرتے تو ہم ان کے ہاں اس متعلق ضرور علم پاتے تھے۔

سیدہ عائشہ تمام لوگوں سے بڑی عالمہ تھیں۔ اکابر صحابہ بھی ان سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔

قبیصہ بن ذویب، الطبقات الکبری :

05. حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح طفیل سے دوسرا عبید سے ہوا یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے تھے پھر ان کا تیسرا نکاح عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے ہوا عبداللہ جنگ احد میں شہید ہو گئے تھے چونکہ جنگ احد میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شہید ہوئے تھے جن کی بیوگان کو سہارا دینا بہت لازمی تھا

تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے ایک شہید کی بیوہ سے نکاح کرلیا تو آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے –

06. سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بنت ابو امیہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں جو ابوجہل اور خالد بن ولید کا قبیلہ تھا۔ اس نکاح کے بعد خالد بن ولید میں مخالفت کا وہ دم خم نہ رہا جو پہلے تھا۔ بالآخر وہ مسلمان ہی ہو گئے گویا خالد رضی اللہ عنہ کے اسلام کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔

اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔

معلوم ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور ساری دنیا کے لیے تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔

07. زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کی حکمت

اس وقت متبنّٰی کی رسم معاشرے میں اس قدر پختہ اور مستحکم ہو چکی تھی کہ بہت بڑے اقدام کے بغیر اس کی اصلاح ممکن نہ تھی اور ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے علاوہ آپ کے عمل کے ساتھ اس پر کاری ضرب لگائی جائے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ، جنھیں زید بن محمد کہا جاتا تھا (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں متبنّٰی بنایا تھا، جب آیت ’’اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَائِهِمْ ‘‘ اتری تو انھیں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کہا جانے لگا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا کے ساتھ کیا تھا۔ مزاج کے اختلاف کی وجہ سے ان دونوں میاں بیوی میں موافقت نہ رہ سکی، اس لیے زید رضی اللہ عنہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے رویے کی شکایت کرتے اور طلاق دینے کی اجازت مانگتے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (الأحزاب : 37)

اور جب تو اس شخص سے جس پر اللہ نے انعام کیا اور جس پر تو نے انعام کیا کہہ رہا تھا کہ اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھاجسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا، تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو، جب وہ ان سے حاجت پوری کر چکیں اور اللہ کا حکم پورا کیا جانے والا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہو چکا تھا کہ زید اسے طلاق دیں گے اور وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ مگر اس ڈر سے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا اور منافقین، یہودی اور مشرکین اسے آپ کی عصمت پر طعن کا ذریعہ بنائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کو طلاق سے منع کرتے اور یہی فرماتے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو۔

ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’زینب کا آپ سے نکاح کرنے والا ولی خود اللہ تعالیٰ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ آپ انسانوں میں سے کسی ولی یا عقد یا مہر یا گواہوں کے بغیر (اس کے خاوند ہیں) اس کے پاس چلے جائیں۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

[ جَاءَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ يَشْكُوْ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُوْلُ اتَّقِ اللّٰهَ، وَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ، قَالَ أَنَسٌ لَوْ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا لَكَتَمَ هٰذِهِ، قَالَ فَكَانَتْ زَيْنَبُ تَفْخَرُ عَلٰي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ تَقُوْلُ زَوَّجَكُنَّ أَهَالِيْكُنَّ، وَ زَوَّجَنِيَ اللّٰهُ تَعَالٰی مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوَاتٍ] [بخاري، التوحید، باب : « و کان عرشہ علی الماء …» : ۷۴۲۰ ]

’’زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آ کر شکایت کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں یہی کہتے رہے : ’’اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھ۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز چھپانے والے ہوتے تو اس بات کو ضرور چھپا لیتے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر زینب رضی اللہ عنھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر فخر کرتے ہوئے کہتی تھیں : ’’تمھارا نکاح تمھارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کیا۔‘‘

لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ … : یعنی ہم نے زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح آپ سے اس لیے کر دیا کہ جاہلی رسم کے مطابق اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کو جو حرام سمجھا جاتا تھا، آپ کے عملی اقدام سے یہ رسم ختم کی جائے اور ایمان والوں کو اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں کے ساتھ نکاح میں کوئی تنگی نہ رہے اور وہ کسی گناہ یا عار کے احساس کے بغیر ان سے نکاح کر سکیں

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

08. سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا مشہور یہودی قبیلے بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔ اس نکاح سے قبل جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کے ساتھ کفار نے کیں ان میں سے ہر ایک میں یہود کا تعلق علی الاعلان یا پوشیدہ طور پر ضرور رہا مگر تزویج صفیہ رضی اللہ عنھا کے بعد بنو نضیر پہلی سی محاذ آرائی نہ کر سکے۔

09. ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح پر غور کرو! مکے کے مشہور سردار ابوسفیان کی صاحبزادی ہیں۔ احد، حمراء الاسد، بدر الاخری اور احزاب وغیرہ میں ابوسفیان ہی کافروں کا سپہ سالار تھا۔ اس تزویج مبارکہ کے بعد دیکھو وہ کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتا ہوا نظر نہیں آیا تو کیا اب بھی کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ نکاح نہایت ضروری نہ تھا۔

10. سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کا باپ حارث یہودی قبیلہ بنو مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ رہزن اور ڈکیتی پیشہ تھا۔ مسلمانوں کے خلاف ہر ایک جنگ میں اس قبیلہ کی شرکت ضرور ہوا کرتی تھی اس نکاح کے بعد یہ مخاصمتیں نابود ہو گئیں۔

11. سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن سردار نجد کے گھر میں تھی اس نکاح نے ملک نجد میں صلح اور اسلام پھیلانے میں بہترین نتائج پیدا کیے حالانکہ اس سے قبل یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ستر (70) واعظین کو غداری کرتے ہوئے شہید کیا تھا ۔

بحوالہ رحمۃ للعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی پر معترضین سے چند سوالات

ہندو مذہب کے لوگوں سے سوال ہے کہ

سری رام چندر جی کے والد مہا راجہ دسرت کی تین بیویاں تھیں

سری کرشن جی کی، جو اوتاروں میں سولہ کلاں سپورن تھے سینکڑوں بیویاں تھیں

رحمۃ للعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ص 125 ج 2

رامائن کی گیتا سے شادی ہوئی تھی تب گیتا 6 برس کی تھی

تو کیا آپ لوگ اپنے مذہب کے ان بزرگوں اور بانیوں کے متعلق بھی وہی رائے ظاہر کریں گے جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق رکھتے ہو

عیسائی اور یہودی مذہب کے لوگوں سے سوال ہے کہ

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں

01.ھاجر 02. سارہ

ہاجر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ اور سارہ اسحاق علیہ السلام کی والدہ محترمہ تھیں۔

سیدنا یعقوب علیہ السلام کی دو بیویوں کا تذکرہ ملتا ہے

سیدنا سلیمان علیہ السلام کی 100 بیویاں تھیں۔

اب اگر کوئی عیسائی یا یہودی یہ کہے کہ ایک سے زائد بیویاں کرنا پرستاران حسن کا کام ہے تو پھر وہ سوچ لیں کہ ان مقدس ہستیوں کے بارے ان کا کیا خیال ہو گا؟