تکملہ ارکان ایمان [ 2]

اہم عناصر خطبہ :

01. ایمان بالرسل

02. ایمان بالیوم الآخر

03. ایمان بالقدر

پہلا خطبہ

برادران اسلام! گذشتہ دو خطباتِ جمعہ میں ہم ایمان کی اہمیت وفضیلت کے علاوہ ارکانِ ایمان میں سے تین ارکان ( ایمان باللہ ، ایمان بالملائکۃ ، ایمان بالکتب ) کو تفصیلا بیان کر چکے ہیں ۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ اسی موضوع کو مکمل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا اور حقیقی ایمان نصیب فرمائے ۔

چوتھا رکن

رسولوں پر ایمان لانا

01. رسولوں پر ایمان لانے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغامات واحکامات پہنچانے کے لئے جن انبیاء ورسل  علیہم السلام  کو منتخب فرمایا ان کی تصدیق کی جائے ۔ اور ان کے متعلق پختہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جو کچھ نازل فرمایا انھوں نے اسے مخلوق تک واضح طور پر پہنچا دیا، اس میں نہ تو انھوں نے کچھ تبدیلی کی اور نہ ہی کچھ چھپایا۔ اور انھوں نے اس امانت کو ادا کر دیا جو اللہ تعالی نے انھیں سونپی تھی ۔ انھوں نے امت کی خیر خواہی کی اور لوگوں پر حجت قائم کر دی۔ اور  جس شخص نے ان کی فرمانبرداری کی وہ ہدایت یاب ہوا  اور جس نے ان کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام میں سے جن کے نام ہمارے لئے ذکر کیے ہیں ان پر اور جن کے نام ذکر نہیں کیے ان سب پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری ہے ۔

02. حقیقت ِ نبوت کیا ہے ؟

خالق اور مخلوق کے درمیان خالق کی شریعت کو پہنچانے کا جو واسطہ ہے اسے نبوت کہا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے

 بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے اس کیلئے منتخب فرمالیتا ہے۔ انتخاب کرنے کا یہ اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿ اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ﴾ [الحج: ۷۵]

 ’’فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ چن لیتا ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔‘‘

یہ بات ذہن میں رہے کہ  نبوت وہبی (عطائی)ہوتی ہے کسبی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اسے کثرتِ عبادت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی یہ نبی کے اختیار یا طلب کرنے سے ملتی ہے۔ بلکہ یہ تو درحقیقت ایک انتخاب ہے جو کہ صرف اللہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔

باری تعالیٰ  کا ارشادہے:﴿ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ﴾  [الشوریٰ: ۱۳]

’’اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے۔‘‘

03. رسولوں کی بعثت میں کیا حکمت ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مختلف حکمتوں کے پیش نظر مبعوث فرمایا :

پہلی حکمت : انسانوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت پر لگانا۔ مخلوق کی غلامی کا طوق اتار کر عبادتِ رب العباد کی آزادی عطا کرنا۔ اوراس عظیم مقصد کی یاددہانی کروانا جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ﴾  [النحل: ۳۶]

  ’’اور یقینا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو)صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام باطل معبودوں سے بچو۔‘‘

دوسری حکمت :  لوگوں پر حجت قائم کرنا۔

باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلیَ اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ﴾ [ النساء: ۱۶۵]

’’ہم نے انھیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہ رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء ورسل  علیہم السلام  امت کو برائی سے ڈرا کر، ان کی خیر وبھلائی کی طرف راہنمائی کرکے اور ان کو ثواب کی بشارت دے کر  اپنی ذمہ داری ادا کرتے تھے اور اللہ تعالی کی حجت لوگوں پر قائم کرتے تھے۔ اور اس سلسلے میں وہ کسی سے خوف نہیں کھاتے تھے بلکہ محض اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس کا حکم بجا لاتے تھے ۔ اللہ تعالی کا ارشادہے:﴿ اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالاَتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہُ وَلاَ یَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلاَّ اللّٰہَ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا ﴾2[الأحزاب: ۳۹]

’’یہ سب ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ حساب لینے کیلئے کافی ہے۔ ‘‘

تیسری حکمت :بعض غیبی امور کو بیان کرنا جن کا ادراک لوگ اپنی عقلوں سے نہیں کر سکتے ۔ مثلا اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات، فرشتے، قیامت کے دن سے پہلے واقع ہونے والے امور ، روزِ قیامت ، حساب وکتاب ، جنت ودوزخ وغیرہ  ۔

چوتھی حکمت : عملی نمونہ پیش کرنا

رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ وحیِ الٰہی پر عمل کرکے لوگوں کے سامنے دین کی وضاحت کریں اور  انھیں زندگی گذارنے کا ایک بہترین نمونہ پیش کریں ۔ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ﴾3[النحل: ۴۴]

  ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (کتاب)کو اتارا تاکہ لوگوں کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ ﴾4[الأنعام: ۹۰]

’’یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے، لہذا آپ بھی انہی کے راستے کی پیروی کیجئے ۔‘‘

اسی طرح  فرمایا:﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ﴾ 5الممتحنۃ: ۶]

’’یقینا تمہارے لئے ان لوگوں میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘

پانچویں حکمت : لوگوں کے نفوس کی اصلاح اور ان کا تزکیہ کرنا۔

باری تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ ﴾ [الجمعۃ: ۲]

’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے ۔ اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ   رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا:

(إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأخْلاَقِ)  [أخرجہ بہذا اللفظ البیہقی فی السنن الکبری : ۱۰/۳۱۸ ، واحمد بلفظ ’’ صَالِحَ الْأخْلَاقِ ‘‘ : ۱۴/۵۱۳ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۴۵ وصحیح الجامع : ۲۳۴۹]

 ’’میں یقینا اچھے اور پاکیزہ اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘

04.  تمام انبیاء کا دین اسلام ہے

تمام انبیاء ورسل  علیہم السلام کا دین ‘ دین ِ اسلام ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ ﴾ [آل عمران: ۱۹]

’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔ ‘‘

جب اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین ‘ دین اسلام ہے تو اس نے اپنے انبیاء ورسل  علیہم السلام  کو بھی اسی دین کی دعوت کیلئے مبعوث فرمایا ۔

تمام انبیاء  علیہم السلام ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے اور غیر اللہ کی عبادت کوچھوڑنے کی تلقین کرتے رہے، اگرچہ ان کی شریعتیں اور احکام مختلف تھے لیکن وہ سب کے سب ایک اساس وبنیاد پر متفق تھے اور وہ ہے توحید ۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہنبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

(  اَلأنْبِیَائُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ أُمَّہَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ )  [البخاری :۳۴۴۳ ، مسلم : ۲۳۶۵]

یعنی ’’تمام انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں(جن کا باپ ایک ہے اور ) مائیں الگ الگ ہیں۔ اور ان سب کا دین ایک ہے ۔‘‘

05. تمام رسول بشر ہیں اور انھیں علم غیب بھی نہیں ہے

علم غیب اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہے نہ کہ انبیاء  علیہم السلام کی صفات میں سے۔ اس لئے کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی تھے۔  وہ کھاتے پیتے بھی تھے ۔ شادی بھی کرتے تھے۔ سوتے بھی تھے ۔ بیمار بھی ہوتے تھے اور وہ تھکاوٹ بھی محسوس کرتے تھے ۔اور انھیں بھی انسانوں کی طرح خوشی وغمی، مشقت وآسانی اور ہشاش وبشاش ہونا جیسے عوارض لاحق ہوتے تھے۔

 اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ إِلاَّ إِنَّہُمْ لَیَأکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِیْ الأَسْوَاقِ﴾ [الفرقان: ۲۰]

’’اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے تھے۔ ‘‘

اور فرمایا:﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَّذِرِّیَّۃً ﴾ [الرعد: ۳۸]

  ’’ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔ ‘‘

 اور انبیاء علیہم السلام  علم غیب بھی نہیں رکھتے بجز اس کے کہ جس کی اللہ تعالیٰ ان کو خبر دے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿  عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ٭ إِلاَّ مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّسُوْلٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ﴾ [الجن: ۲۶، ۲۷]

’’وہی غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے۔ ‘‘

06.  انبیاء ورسل  علیہم السلام  تبلیغِ رسالت میں معصوم ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اس کی تبلیغ کیلئے کائنات میں سے افضل اورپیدائشی اور اخلاقی اعتبار سے اکمل انسانوں کا انتخاب کیا ۔ اور انھیں کبیرہ گناہوں سے معصوم اور عیوب ونقائص سے مبرا بنایا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کو اپنی امتوں تک پہنچائیں۔  لہذا وہ باتفاق امت تبلیغ ِ دین میں معصوم ہیں۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿ یَا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ﴾ [المائدۃ: ۶۷]

  ’’اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اسے آپ پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالیٰ ہی لوگوں سے بچاتا ہے ۔ ‘‘

اور جب کبھی کسی نبی سے کوئی معمولی غلطی سر زد ہوئی ، جس کا تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاتھا ، اللہ تعالیٰ نے اسے اس کیلئے بیان فرمادیا اور اس نے اس سے فوراً توبہ کرلی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیا ۔ چنانچہ وہ معمولی غلطیاں ایسے ہوگئیں کہ گویا ان کا وجود ہی نہ تھا۔

07.  انبیاء ورسل  علیہم السلام  کی تعداد

 انبیاء  علیہم السلام  کی تعداد ایک لا کھ اورچوبیس ہزار ہے ۔ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ہے جیسا کہ حضرت ابو ذر  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ؟ انبیاء کی تعداد کتنی ہے ؟

تونبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(  مِائَۃُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَۃٌ وَّعِشْرُوْنَ أَلْفًا ، اَلرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ ثَلاَثُمِائَۃٍ وَّخَمْسَۃَ عَشَر)  [رواہ أحمد ، وقال الحافظ ابن کثیر :وسیاق روایۃ الإمام أحمد أثبت وأولی بالصحۃ ، ورجال إسناد ہذا الإسناد لا بأس بہم ۔ تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۷۱۷ ، وصححہ الألبانی فی تخریج المشکاۃ : ۵۷۳۷]

  ’’ان کی تعداد ایک لاکھ اور چوبیس ہزار ہے۔ ان میں سے تین سو پندرہ رسول تھے ۔ ‘‘

اس حدیث مبارک میں انبیائے کرام  علیہم السلام  کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ذکر کی گئی ہے اور ان میں سے ۳۱۵ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ رسل تھے ۔ تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہے ؟

نبی اور رسول میں فرق :

اس سلسلے میں اہلِ علم کی متعدد آراء  پائی جاتی ہیں لیکن سب سے صحیح رائے وہ ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کی طرف اللہ کی وحی نازل ہو اور وہ صرف ان لوگوں کو وحی کی تبلیغ کا پابند ہو جو اس پر ایمان لائیں ۔ جبکہ رسول وہ ہوتا ہے جس کی طرف اللہ کی وحی نازل ہو اور وہ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو بھی تبلیغ ِ وحی کا پابند ہو اور اللہ کے مخالفین ( کفار ومشرکین ) کو بھی تبلیغ ِ رسالت پر مامور ہو۔  یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح حدیث میں حضرت نوح  علیہ السلام کو پہلا رسول قرار دیا گیا ہے ۔ کیونکہ ان سے پہلے سب انبیاء تھے مثلا حضرت آدم  علیہ السلام  ، حضرت شیث  علیہ السلام  اور حضرت ادریس  علیہ السلام   وغیرہم ۔

حضرت ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا آدم  علیہ السلام  نبی تھے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں ، ان سے اللہ نے کلام بھی کیا ۔ ‘‘ اس شخص نے کہا : آدم  علیہ السلام  اور نوح  علیہ السلام  کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ آپ نے فرمایا :  ( عَشْرَۃُ قُرُوْن )   یعنی  ’’ دس صدیاں ‘‘ [ ابن حبان : ۶۱۹ ۔ وصححہ الأرناؤط ]

 اللہ تعالی نے جتنے انبیاء ورسل علیہم السلام  بھیجے ان میں سے بعض کے واقعات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کئے۔ جن انبیاء  علیہم السلام کے نام اللہ تعالیٰ نے  میں ذکر فرمائے ہیں ان کی تعداد پچیس ہے۔

باری تعالیٰ کا ارشادہے : ﴿ وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ﴾ [النساء: ۱۶۴]

’’اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں کئے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا:﴿ وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاہَا إِبْرَاہِیْمَ عَلیٰ قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَائُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ ٭ وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلاًّ ہَدَیْنَا وَنُوْحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوُدَ وَسُلَیْمَانَ وَأَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسیٰ وَہٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْییٰ وَعِیْسیٰ وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ٭ وَإِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ٭ وَمِنْ آبَائِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَإِخْوَانِہِمْ وَاجْتَبَیْنَاہُمْ وَہَدَیْنَاہُمْ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾  [الأنعام: ۸۳ ـ ۸۷]

 ’’یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام )کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی۔ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے مرتبے بڑھادیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔ اور ہم نے انھیں اسحق اور یعقوب عطا کئے ۔ ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت دی اور ان کی اولاد میں سے داؤد  ، سلیمان ، ایوب ، یوسف ،  موسیٰ اور ہارون کو ۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا  دیا کرتے ہیں ۔ اور زکریا ، یحییٰ ، عیسیٰ اور الیاس کو ۔ یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔ اور اسمٰعیل ، یسع ، یونس اور لوط کو ۔ اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی ۔ نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو بھی ۔ اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے انبیاء  علیہم السلام میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری عطا کی ۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے:

﴿ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ عَلٰی بَعْضٍ ﴾  [الإسراء: ۵۵]

’’ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی جیساکہ اس کا ارشاد ہے:

﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾  [البقرۃ: ۲۵۳]

’’یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ‘‘

ان میں سے افضل رسول وہ ہیں جو اولو العزم (عزم والے، عالی ہمت)کہلاتے ہیں اور وہ ہیں: حضرت نوح علیہ السلام  ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام  اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔

فرمان الٰہی ہے:﴿ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُوْ الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾  [الأحقاف: ۳۵]

 ’’پس (اے پیغمبر!)آپ ایسا صبر کریں جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا۔ ‘‘

اور فرمایا: ﴿ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّإِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسیٰ وَعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ وَأَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾  [الأحزاب: ۷]

’’جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص)آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ ( علیہم السلام )سے ۔اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔ ‘‘

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب رسولوں میں سے افضل رسول ہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خاتم النبیین، امام المتقین اور بنی آدم کے سردارہیں ۔ جب تمام نبی اکٹھے ہوں توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے امام اور جب وہ تشریف لائیں توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خطیب ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  صاحبِ مقام محمود ہیں جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے سبھی رشک کریں گے۔ آپ ہی صاحبِ لواء الحمد (جن کے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا) اور صاحبِ حوض ہیں جہاں پر لوگ وارد ہونگے۔ اور آپ ہی صاحبِ وسیلہ وفضیلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دین کی سب سے افضل شریعت دے کر مبعوث فرمایا۔ اور آپ کی امت کو  بہترین امت بنایا۔ آپ کو اور آپ کی اُمت کو فضائل اور بہترین خوبیوں سے مزین فرمایا جو کہ آپ کو اور آپ کی امت کو سابقہ امتوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اور آپ کی امت پیدائش کے اعتبار سے سب سے آخری امت ہے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھائی جانے والی ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے:  (  أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِیَدِیْ لِوَائُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَّبِیٍّ یَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)  [الترمذی :۳۱۴۸۔ وصححہ الألبانی ]

 ’’میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور اس پر مجھے کوئی فخر نہیں۔ قیامت کے دن آدم  علیہ السلام  اور ان کے علاوہ جتنے بھی انبیاء علیہم السلام  ہیں سب میرے جھنڈے تلے ہونگے۔ ‘‘

پانچواں رکن

آخرت پر ایمان لانا

آخرت پر ایمان لانا ایمان کے ان ارکان میں سے ایک ہے جن کے بغیر انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے سے مقصود یہ ہے کہ انسان کو اس بات پر پختہ یقین ہو کہ تمام انسانوں پر موت آئے گی اور سب کے سب کو قیامت کے روز اٹھایا جائے گا ۔پھر حساب وکتاب کے بعد ہر ایک کو اس کے اعتقاد وعمل کے مطابق جزاء وسزا دی جائے گی ۔ گویا دنیاوی زندگی کی انتہاء اور اس کے بعد ایک دوسرے جہاں میں داخل ہونے پر پختہ اعتقاد رکھنے کا نام (ایمان بالیوم الآخر) ہے۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے:﴿ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا کَأَنَّہُمْ إِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ ﴾ [المعارج: ۴۳]

  ’’جس دن وہ اپنی قبروں سے نکل کراس طرح دوڑے جا رہے ہونگے جیسے وہ اپنے بتوں کی طرف تیز تیز جارہے ہیں۔ ‘‘

قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں ، سب کو جمع کرے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا۔ پھر ایک گروہ جنت میں داخل ہوگا اور دوسرا جہنم میں۔

باری تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ ٭ لَمَجْمُوْعُوْنَ إِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ  مَّعْلُوْمٍ﴾ [الواقعۃ: ۴۹، ۵۰]

  ’’آپ کہہ دیجئے کہ یقینا سب اگلے اور پچھلے ضرور ایک مقررہ دن کے وقت جمع کئے جائیں گے۔ ‘‘

قیامت کے دن کو قرآن کریم میں ایک سے زائد ناموں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مثلا یوم القیامہ، القارعہ، یوم الحساب، یوم الدین، الطامہ، الواقعہ، الحاقہ، الصاخہ، الغاشیہ وغیرہ۔

1.  یوم القیامۃ (قیامت کا دن)  ﴿ لاَ أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ ﴾ [القیامۃ: ۱]

 ’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ ‘‘

2. القارعۃ (کھڑکھڑا دینے والی)  ﴿ اَلْقَارِعَۃُ ٭ مَا الْقَارِعَۃُ ﴾ [القارعۃ: ۱،۲]

    ’’کھڑکھڑا دینے والی، کیا ہے کھڑ کھڑا دینے والی۔ ‘‘

3. یوم الحساب (حساب کا دن) ﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ﴾ [سورۃ ص: ۲۶]

’’یقینا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انھوں نے حساب کے دن کو بھلادیا ہے۔ ‘‘

4. یوم الدین (جزاء کا دن) ﴿ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ ٭ یَّصْلَوْنَہَا یَوْمَ الدِّیْنِ ﴾ [الانفطار: ۱۴، ۱۵]

  ’’اور یقینا بدکار لوگ دوزخ میں ہونگے، وہ اس میں جزاء کے دن داخل ہونگے۔ ‘‘

5. الطآمۃ (آفت) ﴿ فَإِذَا جَائَ تِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ ﴾  [النازعات: ۳۴]

 ’’پس جب وہ بڑی آفت (قیامت) آجائے گی۔ ‘‘

6. الواقعۃ (واقع ہونے والی) ﴿ إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ﴾  [الواقعۃ: ۱]

 ’’جب واقع ہونے والی (قیامت)واقع ہوجائے گی۔ ‘‘

7. الحاقۃ (ثابت ہونے والی) ﴿ اَلْحَاقَّۃُ ٭ مَا الْحَاقَّۃُ ﴾  [الحاقۃ: ۱، ۲]

 ’’ثابت ہونے والی، ثابت ہونے والی کیا ہے؟ ‘‘

8. الصاخۃ (کان بہرے کر دینے والی)  ﴿ فَإِذَا جَائَ تِ الصَّاخَّۃُ ﴾  [عبس: ۳۳]

’’پس جب کان بہرے کر دینے والی )قیامت( آجائے گی۔ ‘‘

9. الغاشیۃ (چھپالینے والی)  ﴿ ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ ﴾  [الغاشیۃ: ۱]

 ’’کیا تیرے پاس چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے۔ ‘‘

حضرات محترم !  ایمان بالیوم الآخر میں  موت کے بعد جتنی تفاصیل ہیں ان سب پر ایمان لانا شامل ہے مثلا قبر کا عذاب اور اس کی نعمتیں ، صور میں پھونکنا ، دوبارہ زندہ ہونا ، حشر ، حساب اور جزاء وسزا ، حوض ، میزان ، پل صراط اور جنت ودوزخ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! آئیے اب ایمان کے آخری رکن ( ایمان بالقد ر) کے بارے میں بھی ہماری چند گذارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں سماعت فرما لیجئے ۔

چھٹا رکن

تقدیر پر ایمان لانا

 تقدیر سے مراد وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم اور اپنی حکمت کی بناء پر کائنات کیلئے مقرر فرمائی ہے۔

 اوراس کا مرجع اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ کیونکہ  وہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے ، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان بالقدر در اصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان لانے کا ایک حصہ ہے ۔ اوریہ ایمان کے ان ارکان میں سے ایک ہے کہ جن کے بغیر ایمان مکمل اور درست نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ ﴾ [ القمر: ۴۹]

’’بے شک ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔ ‘‘

 تقدیر کے مراتب

تقدیر کے چار مراتب ہیں اور ان چاروں پر ایمان لائے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا :

پہلا مرتبہ : اللہ کے ازلی (ہمیشہ رہنے والے) علم پر ایمان لانا جو کہ ہر چیز کو محیط ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرٌ ﴾ [الحج: ۷۰]

  ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ! یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے۔‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾    [ الأنعام : ۵۹ ]

’’ اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں  اور انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ سمندر اور خوشکی میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے ۔ اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو ۔ نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ۔ اور تر اور خوشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین ( لوحِ محفوظ ) میں موجود ہے ۔ ‘‘

دوسرا مرتبہ : اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر جو تقدیریں لوحِ محفوظ میں لکھ دی ہیں ان پر ایمان لانا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ مَا فَرَّطْنَا فِیْ الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ ﴾ [الأنعام: ۳۸]

 ’’ہم نے کتاب (لوحِ محفوظ)میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَأْنٍ وَّمَا تَتْلُوْ مِنْہُ مِنْ قُرْآنٍ وَّلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا إِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَائِ وَلاَ أَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلاَ أَکْبَرَ إِلاَّ فِیْ ک

ِتَابٍ مُّبِیْنٍ ﴾  [ یونس : ۶۱ ]

’’ ( اے نبی ! ) تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو ۔ اور ( اے لوگو! ) جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو ، ہم ہر وقت تمہارے پاس موجود ہوتے ہیں جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو ۔ اور زمین وآسمان میں کوئی ذرہ برابر چیز بھی ایسی نہیں جو کہ آپ کے رب سے چھپی رہ سکے ۔ اور ذرہ سے بھی چھوٹی یا اس سے بڑی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو واضح کتاب ( لوحِ محفوظ ) میں نہ ہو ۔ ‘‘

اورحضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 (  کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلاَئِقِ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ )  [مسلم :۲۶۵۳]

 ’’اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تقدیروں کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تحریر فرمایا دیا تھا۔ ‘‘

اور حضرت عبادۃ بن صامت  رضی اللہ عنہ  نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ( یَا بُنَیَّ ! إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیْقَۃِ الْإِیْمَانِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ)

یعنی  ’’ اے میرے پیارے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا ذائقہ محسوس نہیں کر سکتے یہاں تک کہ اس بات پر یقین کر لو کہ جو چیز تمہارے مقدر میں لکھی گئی ہے وہ تم سے چوکنے والی نہیں ۔ اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں لکھی گئی وہ تمہیں ملنے والی نہیں ۔ ‘‘

اس کے بعد انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

( إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ ، فَقَالَ لَہُ اکْتُبْ ، قَالَ : رَبِّ ! وَمَا ذَا أَکْتُبُ ؟ قَالَ اکْتُبْ مَقَادِیْرَ کُلِّ شَیْئٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ )

  ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا ۔ پھر اس سے کہا : لکھو ۔ اس نے کہا : اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قیامت تک آنے والی ہر چیز کی تقدیروں کو لکھو ۔ ‘‘

بعد ازاں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ  نے اپنے بیٹے سے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ مَّاتَ عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا فَلَیْسَ مِنِّیْ )  ’’ جس شخص کی موت اس ( اعتقاد ) کے علاوہ کسی اور ( اعتقاد) پر آئے گی تواس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘ [ ابو داؤد : ۴۷۰۰ ۔ وصححہ الألبانی ]

تیسرا مرتبہ : اس بات پر ایمان لانا کہ ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہی واقع ہوتی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَمَا تَشَائُ وْنَ إِلاَّ أَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ [التکویر: ۲۹]

  ’’اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔ ‘‘

جبکہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا : (مَا شَائَ اللّٰہُ وَشِئْتَ)یعنی  ’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں وہی ہوتا ہے‘‘  تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( أَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ بَلْ مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہُ )  ’’کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ہے بلکہ تم یوں  کہو  : ( مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہُ) ’’ اکیلا اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے وہی ہوتا ہے ‘‘ [مسند أحمد ۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۱۳۹]

چوتھا مرتبہ : اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے ۔

 باری تعالیٰ کا ارشادہے:﴿  اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ﴾ [الزمر: ۶۲]

  ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ ‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  بھی ارشاد ہے کہ  ( خَلَقَ  اللّٰہُ کُلَّ صَانِعٍ وَّصَنْعَتَہُ)  [رواہ البزار ۔ ورجالہ رجال الصحیح غیر أحمد بن عبد اللہ وہو ثقۃ ۔ قالہ الہیثمی ]

  ’’ اللہ تعالیٰ نے ہی ہر کاریگر اور اسکی کاریگری کو پیدا فرمایا ہے۔ ‘‘

 تقدیر کے بارے میں عقیدۂ سلف

تقدیر کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ اوراس نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں مقرر فرمادی تھیں۔ ان کی موت کے اوقات، ان کا رزق کتنا ہو گا اور کہاں سے ملے گا ؟  وہ کونسے اعمال کریں گے ؟اور یہ بھی لکھ دیا تھا کہ وہ خوش نصیبی اور بد بختی میں سے کس کو اختیار گے۔ سو ہر چیز اس نے واضح طور پر اپنی کتاب ( لوح محفوظ ) میں ضبط کر رکھی ہے۔

لہذا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اور جو کچھ ہوچکا ہے، نیز جو کچھ ہونے والا ہے اور جو نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا ؟ سب کچھ اسے معلوم ہے۔  اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔

 نیز سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ بندوں کیلئے بھی مشیئت اور قدرت ہے جس کے ذریعے وہ ان اعمال کوسر انجام دیتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کو طاقت وہمت عطا کی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت وچاہت کے بغیر

بندوں کی کوئی مشیئت وچاہت نہیں۔

اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :﴿ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا﴾ [العنکبوت: ۶۹]

’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہوں کی راہنمائی ضرور کریں گے۔ ‘‘

اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ بندوں سے کوشش اور جد وجہد مطلوب ہے ۔

افعال العباد

سلف صالحین رحمہم اللہ کا  یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا اور ان کے افعال کا خالق ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾  [ الصافات: ۹۶]

  ’’اور اللہ ہی نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا فرمایا ہے۔ ‘‘

یعنی کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مشیئتِ عامہ کے بغیر نہیں ہوتا ۔ ہاں البتہ ان افعال کے کرنے والے حقیقت میں بندے ہی ہیں۔ لہٰذا اگر کسی نے کسی واجب کام کو چھوڑا یا حرام کا ارتکاب کیا تو وہ یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہیں قائم کر سکتا کہ یہ تو میری قسمت میں لکھا ہوا تھا ،کیونکہ جب اس نے گناہ کیا تھا تو اس وقت اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گناہ میری تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ تقدیر تو اللہ تعالیٰ کا راز ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اور چونکہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے کیا اس لئے وہ تقدیر کو اپنے گناہ پر حجت نہیں بنا سکتا ۔  نیز یہ بات یاد رہے کہ مصائب پرتقدیر کو حجت بنانا تو جائز ہے، گناہوں پر حجت بنانا جائز نہیں ہے۔  جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اور حضرت آدم  علیہ السلام کے باہمی جھگڑے کے بارے میں ارشاد ہے:

(  تَحَاجَّ آدمُ وَمُوْسیٰ  ، فَقَالَ مُوْسیٰ : أَنْتَ آدَمُ الَّذِیْ أَخْرَجَتْکَ خَطِیْئَتُکَ مِنَ الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ لَہُ آدَمُ: أَنْتَ مُوْسیٰ الَّذِیْ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالاَتِہٖ وَبِکَلاَمِہٖ ، ثُمَّ تَلُوْمُنِیْ عَلیٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ ؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوْسیٰ )  [بخاری : ۶۶۱۴، ۷۵۱۵، مسلم : ۲۶۵۲]

 ’’آدم اور موسیٰ ( علیہ السلام ) آپس میں جھگڑ پڑے ۔ چنانچہ موسیٰ ( علیہ السلام  ) نے ( آدم  علیہ السلام  سے )کہا : آپ وہی آدم ہیں جنہیں ان کی غلطی نے جنت سے نکال دیا تھا!

 آدم (  علیہ السلام ) نے کہا : آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کیلئے منتخب فرمایا ۔ اس کے باوجود بھی آپ مجھ کو ایک ایسے معاملے پر ملامت کر رہے ہیں جسے میری تخلیق سے قبل ہی میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا!

 چنانچہ آدم (  علیہ السلام  ) موسیٰ (  علیہ السلام  ) پر غالب آگئے۔ ‘‘

یہاں ایک بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ وہ یہ کہ بندوں کے افعال واعمال کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ بندوں کے افعال بندوں کی مخلوق ہیں ۔ بندے ان کے خالق ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ یہ نظریہ قدریہ کا ہے جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔  اس کے بالمقابل دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انسان مجبور محض ہے اور اس کی حیثیت ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے تنکے کی ہے کہ ہوا اسے جس طرف چاہے اڑا لے جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تقدیر پہلے سے لکھ کر اسے مجبور محض بنا دیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ دونوں نظریات باطل ہیں ۔

علماء سلف رحمہم اللہ نے ان دونوں کے درمیان ایک اورموقف اپنایا ہے جو کہ مبنی برحق ہے ۔  وہ یہ ہے کہ انسان نہ تو مکمل طور پر مختارِ کل ہے اور نہ ہی پورے طور پر مجبورِ محض ہے ۔ اس طرح کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں انسان مجبور محض ہے مثلا انسان کی موت وحیات ، اس کے رنگ کا گورا ہونا یا کالا ہونا ، اس کا خوبصورت ہونا یا معذور ہونا ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن میں اس کا کوئی بس نہیں چل سکتا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار اور ارادہ بھی عطا کیا ہے اور اسے متعدد صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کی بناء پر وہ اچھے اور برے کی تمیز کر سکتا ہے ۔ اور اسی اختیار اور اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اسے مکلف بنایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ ﴾ [ البلد : ۱۰ ]

’’ اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ۔ ‘‘

یعنی خیر وشر کے ، ایما ن و کفر کے اور سعادتمندی اور بدبختی کے دونوں راستے ہم نے اسے دکھا دئیے ہیں اور معاملہ اس پر چھوڑ دیا ہے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کو اس بات کا سابق علم حاصل ہے کہ وہ کونسی راہ اختیار کرے گا ، لیکن اس علم کو انسان کے اچھی یا بری راہ کے اپنانے میں کوئی دخل نہیں ۔ انسان اگر کوئی راہ اپناتا ہے تو اپنے اختیار سے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لِمَنْ شَائَ مِنْکُمْ أَنْ یَّسْتَقِیْمَ ﴾  [ التکویر : ۲۸ ]

  ’’ یہ ( نصیحت ہے ) اس شخص کیلئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ ﴾ [ الکہف : ۲۹ ]

  ’’ آپ کہہ دیجئے کہ حق تو وہ ہے جو آپ کے رب کی طرف سے ہے ۔ اب جو چاہے اسے مان لے اور جو چاہے انکار کردے ۔ ‘‘

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام  مبعوث فرمائے ، ان پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان کے ذریعے حق اور باطل کو واضح فرما دیا ۔ لہذا ان دلائل کی بناء پر انسان کو مجبور محض قرار دینا بالکل غلط ہے ۔

 بندے پر تقدیر کے متعلق واجبات

بندے پر تقدیر کے بارے میں دو واجب ہیں:

1.حسب مقدور واجبات وفرائض پر عمل کرے اور محرمات سے اجتناب کرے ۔ اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے اور اس سے دعا کرے کہ وہ اس کیلئے خیر وبھلائی کے اعمال میسر فرمادے ۔  صرف اسی پر توکل کرے ، اسی کی پناہ طلب کرے اور بھلائی کے حصول اور برائی کے ترک کرنے پر اسی کا محتاج رہے۔

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ ، وَفِیْ کُلٍّ خَیْرٌ ، اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَلاَ تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْئٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا لَکَانَ کَذَا ، وَلٰکِنْ قُلْ : قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ)   [مسلم : ۲۶۶۴ ]

 ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے اور دونوں میں خیر موجود ہے ۔ اور تم اس چیزکے حصول کیلئے کوشش کرو جو تمہارے لئے نفع بخش ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر و اور عاجز نہ بنو۔ اوراگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ کر دیا۔ کیونکہ لفظ (لَوْ ) یعنی(  اگر ) شیطانی عمل کو کھولتا ہے۔ ‘‘

2. انسان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر میں لکھی ہوئی چیز پر جزع وفزع کا اظہارنہ کرے بلکہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ اور وہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جس پر اسے راضی ہی رہنا چاہئے اور اسے تسلیم کرنا چاہئے ۔  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ : إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ )   [مسلم  :  ۲۹۹۹]

’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے ۔ اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے ۔ اس طرح  وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے ۔ اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعثِ خیر بن جاتی ہے ۔ ‘‘

اور اسے اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے وہ اس سے چوکنے والی نہیں ، بلکہ اسے مل کر رہے گی ۔ اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھی وہ اسے ملنے والی نہیں ، چاہے وہ جتنی محنت کر لے اور چاہے جتنے جتن کر لے ۔ جیسا کہ رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(  وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ ، وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ )   [ احمد ، ترمذی ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۷۹۵۷]

 ’’اور اس بات پر بھی اچھی طرح سے یقین کر لو کہ جو چیز اللہ تعالیٰ تجھ سے روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی۔ اور جو چیزاللہ تعالیٰ تجھے عطا کرنا چاہے اسے کوئی بھی تجھ سے روک نہیں سکتا ۔ ‘‘

اور ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا اور ان سے عرض کی : میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے ہیں ، لہذا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ میرے وہ شبہات ختم کردے ۔  تو انھوں نے فرمایا :  ’’ اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو یہ اس کی طرف سے ان پر ظلم نہ ہوگا ۔ اوراگر وہ ان پر رحم فرمائے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اور اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ ۔ اور اس بات پر یقین کر لو کہ جو چیز تمہاری مقدر میں لکھی ہوئی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی۔ اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں لکھی ہوئی ہے وہ تمہیں مل نہیں سکتی ۔ ( اور یاد رکھو ) اگر تمہاری موت اس کے علاوہ کسی اورعقیدہ پر آئی تو تم جہنم میں داخل ہو جاؤ گے ۔ ‘‘ [ ابو داؤد : ۴۶۹۹ ، ابن ماجہ : ۷۷ ۔ وصححہ الألبانی]

ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا تو انھوں نے بھی مجھے یہی بات کہی۔اور پھر میں حضرت حذیفۃ رضی اللہ عنہ   کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا ۔ بعد ازاں میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا تو انھوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اسی طرح کی حدیث سنائی لہذا تقدیر پر راضی ہونا لازمی امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ ہر قسم کی بھلائی، عدل اور حکمت سے پُر ہے۔ اورجو شخص اس پر مطمئن ہوجائے وہ حیرت، تردد اور پریشانی سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔اور اس کی زندگی میں بے قراری اور اضطراب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔اور پھر وہ کسی چیز کے چھن جانے سے غمزدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ رہتا ہے ۔ بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار اور آسودہ حال ہوتا ہے ۔اور جس شخص کو اس بات پر یقین کامل ہو کہ اس کی زندگی محدود ہے اور اس کا رزق متعین اور معدود ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ بزدلی اس کی عمر میں اور بخیلی اس کے رزق میں کبھی اضافے کا باعث نہ بنے گی۔ ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ

 اسے جو مصیبت پہنچے وہ اس پر صبر کرے اور  اپنے گناہوں پر استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجائے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شِیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾ [التغابن: ۱۱]

’’کوئی مصیبت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔ اورجو شخص اللہ پر ایمان لائے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘

نیز فرمایا :﴿ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ ﴾ [غافر: ۵۵]

’’پس اے نبی! آپ صبر کیجئے ۔بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے۔نیز آپ اپنے گناہ کی معافی مانگتے رہئے۔ ‘‘

 مسئلۂ قدر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے

تقدیر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے  جسے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا کسی کو گمراہ کرنا، کسی کو ہدایت دینا، کسی کو مارنا، کسی کو زندہ کرنا، کسی کو محروم کرنا اور کسی کو نواز نا وغیرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ان تمام امور سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے ۔

اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(  إِذََا ذُکِرَ الْقَدْرُ فَأَمْسِکُوْا)  [رواہ الطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی القضاء والقدر ، وحسنہ العراقی فی تخریج الإحیاء : ۱/۵۰، والحافظ ابن حجر فی الفتح : ۱۱/۴۷۶ ، والألبانی فی الصحیحۃ : ۳۴]

 یعنی ’’جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو (بحث کرنے سے ) رُک جاؤ۔‘‘

 تقدیر کو حجت بناتے ہوئے عمل کو چھوڑنا جائز نہیں

جو کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کو چھوڑ دینا جائز نہیں، کیونکہ کسی کے پاس کوئی علم یقینی تو نہیں ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی۔ اگراس کے پاس کچھ علم ہوتا تو ہم اسے نہ کسی کام کا حکم دیتے اور نہ کسی کام سے منع کرتے۔ اور اگر عمل کو چھوڑنا جائز ہوتا تو کبھی کسی قوم پر عذابِ الٰہی نازل نہ ہوتا۔ اور نہ کسی کافر اور فاسق و فاجر کا مؤاخذہ ہوتا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے۔ اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور ہم سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارد گرد بیٹھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ سر جھکائے ہوئے زمین پر کرید رہے تھے (جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں )   پھر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

 ( مَا مِنْکُمْ مِّنْ أَحَدٍ ، مَا مِنْ نَّفْسٍ مَنْفُوْسَۃٍ إِلاَّ وَقَدْ کَتَبَ اللّٰہُ مَکَانَہَا مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، وَإِلاَّ وَقَدْ کُتِبَتْ شَقِیَّۃً أَوْ سَعِیْدَۃً )

  ’’تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے ، جنت میں یا دوزخ میں ۔ اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یا بد بخت ۔‘‘

یہ سن کر ایک شخص کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنی قسمت کے لکھے پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کرنا چھوڑ نہ دیں ؟ کیونکہ جو نیک بختوں میں لکھا گیا ہے وہ بالآخر نیک بختوں میں ہی شامل ہو گا ۔ اور جو بد بخت لکھا گیا ہے وہ بالآخر بد بختوں میں ہی شامل ہو گا ۔  تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:

(  اِعْمَلُوْا فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَیُیَسَّرُلِعَمَلِ أَہْلِ السَّعَادَۃِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّقَاوَۃِ فَیُیَسَّرُلِعَمَلِ أَہْلِ الشَّقَــاوَۃِ)  ثُمَّ قَرَأَ :﴿ فَأَمَّا مَنْ أَعْطیٰ وَاتَّقیٰ ٭ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ ٭ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْریٰ٭ وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنیٰ ٭ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ ٭ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْریٰ ﴾ [ بخاری : ۴۹۴۸ ، ۴۹۴۹ ، مسلم : ۲۶۴۷ ]

 ’’تم عمل کرو ، کیونکہ ہر ایک کو جس کام کیلئے پیدا کیا گیا وہ اس کیلئے آسان کر دیا گیا ہے ۔ اورجو شخص سعادتمندوں میں لکھا گیا ہے اسے نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔ اور جو شخص بدبختوں میں لکھا گیا ہے اسے ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’پھر جس نے ( اللہ کی راہ میں مال) دیا ، پرہیز گاری اختیار کی اور اچھی باتوں کی تصدیق کی تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی توفیق دیں گے ۔ اورجس نے بخل کیا ، بے پرواہی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا تو ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے ۔ ‘‘

اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر میں لکھے ہوئے پر بھروسہ کرکے عمل ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ بلکہ حتی المقدور اللہ تعالی کے احکامات کو بجا لانا چاہئے اور اس کی محرمات سے اجتناب کرنا چاہئے ۔

 اسباب کا استعمال

اسباب کو اختیار کرنا تقدیر اور توکل کے منافی نہیں بلکہ یہ اسی کا ایک جزو ہے۔اگر کسی انسان پر کوئی مصیبت یا آزماش آجائے تو اسے کہنا چاہئے(قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ فَعَلَ ) ’’اللہ تعالیٰ ہی نے تقدیر بنائی ہے اور وہ جو چاہتا ہے

کر گزرتا ہے۔ ‘‘ اور اس کے واقع ہونے سے قبل انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ مشروع اسباب کو اختیار کرے، کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی ان اسباب ووسائل کو اختیار کیا جوکہ ان کو ان کے دشمنوں سے تحفظ دیتے تھے ۔ باوجود اس کے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور وحی کی تائید بھی حاصل تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جو سید المتوکلین تھے، جن کا اپنے رب پر قوی توکل تھا ، وہ بھی اسباب کو اختیار کرتے تھے۔

اوراللہ تعالی فرماتے ہیں :﴿ وَأَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ﴾ [الأنفال: ۶۰]

’’تم ان کے مقابلہ کیلئے حسبِ استطاعت قوت اور فوجی گھوڑوں کو تیارکرو ، تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو۔ ‘‘

نیز فرمایا: ﴿ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُوْلاً فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ﴾ [الملک: ۱۵]

’’اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مطیع وپست کر دیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ۔اور اسی کی طرف تمہیں زندہ ہو کر کر اٹھنا ہے۔ ‘‘

اور ہم پہلے بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک ارشاد گرامی  ذکر کر چکے ہیں اور یہاں خطبہ کے آخر میں دوبارہ اس کی یاددہانی کراتے ہیں 🙁 اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ ، وَفِیْ کُلٍّ خَیْرٌ ، اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَلاَ تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْئٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا لَکَانَ کَذَا ، وَلٰکِنْ قُلْ : قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ) [مسلم : ۲۶۶۴ ]

  ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے اور دونوں میں خیر موجود ہے ۔ اور تم اس چیزکے حصول کیلئے کوشش کرو جو تمہارے لئے نفع بخش ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر و اور عاجز نہ بنو۔ اوراگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ کر دیا، کیونکہ لفظ (لو) یعنی(  اگر ) شیطانی عمل کو کھولتا ہے۔ ‘‘

آخر میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا اور حقیقی ایمان نصیب فرمائے اور ایمان پر ہی ہمارا خاتمہ فرمائے ۔