درود اُن پر سلام اُن پر

اللہ تعالی عنہ فرماتا ہے:

﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝﴾
’’بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت و درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو اور خوب خوب سلام بھیجو۔‘‘ (الأحزاب 56:33)

اہل علم کے راجح قول کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صلاۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے اعلی مجلس میں اپنے رسول ﷺکی تعریف و توصیف فرماتا ہے، جیسا کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالی کی صلاۃ سے مراد فرشتوں کے سامنے اپنے رسول کی تعریف کرنا اور فرشتوں کی صلاۃ سے مراد ان کا اللہ کے رسولﷺ کے لیے دعا کرنا ہے۔

اور جب ہم دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: اللهُمَّ صَلِّ عَلٰى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! تو اعلی مجلس میں مقرب فرشتوں کے سامنے محمد ﷺ  کی تعریف اور ستائش فرما۔

اللہ تعالی نے نبی اکرم  ﷺ پر اپنی صلاۃ اور فرشتوں کے درود کے بعد اپنے مومن بندوں کو حکم دیا کہ وہ آپ پر درود و سلام بھیجیں۔ نبی اکرم ﷺکی عزت افزائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے خود اپنے نبی مصطفی اور رسول مجتبٰی پر صلاة (درود و رحمت ) نازل فرمائی، پھر فرشتوں سے تعریف کرائی اور تیسرے نمبر پر اہل ایمان جن و انس کو حکم دیا۔

ہمیں چاہیے کہ آپ ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں کیونکہ ہم نے آپ کی رسالت کی برکت ہی سے عزت پائی۔ آپ کے منہجِ نبوت سے سعادت مند ہوئے اور آپ کی رحمت کی کرنوں سے فیض یاب ہوئے۔

رہا نبی اکرم ﷺپر سلام تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے آپ کے لیے دنیا و آخرت کی سلامتی کی دعا کریں۔ آپ کی زندگی میں آپ پر سلام کے معنی یہ ہیں کہ آپ روحانی، جسمانی اور اہل وعیال کے اعتبار سے ہر آفت و نقصان اور تکلیف سے محفوظ و سلامت رہیں۔ اور وفات کے بعد سلام کا مفہوم یہ ہے کہ فوت ہونے کے بعد برزخ اور قیامت کی جو ہولناکیاں وغیرہ ہیں، ان سے  آپ ﷺ  سلامت اور محفوظ رہیں۔

سلام میں آپ کی سنت کی سلامتی کی دعا بھی ہے کہ اے اللہ ! آپ کی سنت کو تحریف کرنے والوں کی تحریف، غلو کرنے والوں کے فلو اور جھوٹ گھڑ نے والوں کے جھوٹ سے محفوظ فرما۔ آپ کے دین کو طعنہ زنوں کے طعنوں، بگاڑ پیدا کرنے والوں کے بگاڑ اور مذاق اڑانے والوں کے مذاق سے سلامتی عطا فرما۔

اور ہم ((السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِی)) کی صورت میں بھی آپ پر سلام بھیجتے ہیں۔ اس میں اَلسَّلَام اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور ہم سلامتی کرنے والے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے رسول اور تمام مخلوق کے سردار ﷺ  پر اپنی خصوصی عنایت و احسان سے سلامتی نازل فرمائے اور ان کی حفاظت و نگہبانی فرمائے۔ یہ آپﷺ کا ہم پر حق ہے کیونکہ اللہ تعالی کے حکم سے جو خیر اور بھلائی ہمیں ملی ہے، آپ ہی اس کا باعث ہیں۔

اللہ تعالی کا ہم پر فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمارا درود و سلام اپنے حبیب و مصطفی اور نبی مجتبی ﷺتک پہنچانے کی خود ذمہ داری لی ہے۔ ہم جب بھی آپ ﷺ پر درود پڑھتے ہیں تو آپ تک ہمارا وہ پاکیزہ اور معطر درود ضرور پہنچتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔ اللہ تعالی آپ کی روح لوٹاتا ہے اور آپ درود و سلام سن کر جواب دیتے ہیں۔

2۔ فرشتوں کے ذریعے سے اللہ تعالی پہنچاتا ہے۔

یہ برزخ کے معاملات ہیں جن کی حقیقت اور تفصیل اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔

محبوب الٰہی ، حامل حق اور رسول صادق پر کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کے لیے مبارک و خوشخبری ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، فرشتوں کی دعا اور نبی اکرم ﷺکے سلام و دعا کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حق دار قرار پاتا ہے۔ اس بات کے بے شمار دلائل ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَا مِنْ أَحَدٍ يُّسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِيْ حَتّٰى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ))

’’جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ (سنن ابی داود، المناسك، حديث (2041)

سیدنا اوس بن اوس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

’’دنوں میں افضل ترین جمعہ کا دن ہے۔ اس میں سید نا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی میں فوت کیا گیا۔ اور اس میں پہلی اور دوسری بار صور پھونکا جائے گا، لہٰذا  تم مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمھارا یہ درود مجھ پرپیش کیا جاتا ہے۔‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ تو مٹی میں فنا ہو چکے ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 16162)

 سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :

((إِنَّ لِلهِ مَلَائِكَةُ سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ))

’’اللہ تعالی نے کچھ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو زمین میں ہر وقت چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘ (سنن النسائي السهو، حدیث: 1283)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((لَا تَجْعَلُوْا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيْدًا، وَصَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنتُمْ))

’’تم نہ تو اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ اور نہ میری قبر کو میلہ گاہ بناؤ اور مجھ پر درود پڑھا کرو کیونکہ تم جہاں بھی ہو تمھارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حديث (2042)

نبی اکرم ﷺپر درود و سلام بھیجنے میں تین غلطیوں کی نشاندہی

1۔ جب نبی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہو تو بعض لوگ منہ بند کر کے بیٹھے رہتے ہیں اور نبی اکرم ﷺپر درود نہیں بھیجتے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((اَلْبَخِيلُ مَنْ ذُكِرَتُ عِنْدَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيِّ)) ’’اصلی اور حقیقی کنجوس آدمی وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حدیث: 3546)

2۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ کچھ لوگ درود و سلام بھیجتے وقت لفظوں کی صحیح ادائیگی نہیں کرتے بلکہ بعض لفظ کھا جاتے ہیں اور اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہیں جیسے کوئی منتر ہو۔ یہ جائز نہیں۔ صلاۃ وسلام کے الفاظ کو واضح انداز میں ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ برکت، اجر و ثواب اور نجات و کامیابی کے حروف ہیں۔

3۔ تیسری غلطی  یہ ہے کہ بعض لوگ درود و سلام کے الفاظ لکھتے وقت اختصار سے کام لیتے ہیں، مثلاً: ’’صلعم‘‘ یا ’’ ص ‘‘ وغیرہ کے الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ بھی جائز نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ((مَنْ صَلّٰى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا)) ’’جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حديث: 408)

ابن عبد الدائم کہتے ہیں کہ میں صرف لفظ الصلاة لکھتا تھا، التسلیم نہیں لکھتا تھا۔ میں نے خواب میں نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تم خود کو چالیس نیکیوں سے محروم کیوں کرتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”جب میرا نام آتا ہے تو تم صلَّی اللهُ عَلَيْهِ لکھتے ہو، وَسَلَّمَ نہیں لکھتے۔ اور یہ چار حروف ہیں اور ہر حرف کی دس نیکیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک پر حروف گن کر دکھائے۔ (رواہ أبو اليمن بن عساکر)

نبی اکرمﷺ پر درود و سلام کے الفاظ

نبی اکرمﷺ پر درود و سلام کے بارے میں مروی احادیث میں تین احادیث صحیح ترین ہیں اور وہ ہیں سیدنا ابو حمید ساعدی، ابو مسعود انصاری اور کعب بن عجرہ  رضی  اللہ تعالی عنہ کی احادیث۔

1۔ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی  اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس طرح کہا کرو: ((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ أَزْوَاجِهِ وَ ذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَ ذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)) ’’اے اللہ! محمد ﷺ اور اُن کی ازواج و اولاد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے سیدنا ابراہیم  علیہ السلام کی اولاد پر رحمت نازل فرمائی تھی۔ اور محمدﷺ اور اُن کی ازواج و اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح کونے سیدنا ابراہیم علیہ  السلام کی اولاد پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلاشبہ تو خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔“ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3369)

2۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی  اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ کہو: ((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)) ’’ اے الله! رحمت فرما محمدﷺ اور محمدﷺ کی آل پر، جیسے تونے رحمت فرمائی ابراہیم علیہ السلام  کی آل پر۔ اور برکت نازل فرما محمد ﷺ اور محمد ﷺ  کی آل پر، جیسے تو نے سب جہانوں میں برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام کی آل پر۔ بلاشبہ تو لائق حمد ہے، عظمتوں والا ہے۔‘‘ اور سلام اسی طرح ہے جیسے تم پہلے جان چکے ہو۔‘‘ (صحيح مسلم، الصلاة، حدیث 405)

3۔ سیدنا کعب بن عجرہ رضی  اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’تم کہو: ((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مجِيْدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِیْدٌ))

’’اے اللہ محمد ﷺ پر اور محمدﷺ کی آل پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ  السلام پر اور ابراہیم علیہ السلام  کی آل پر رحمت نازل فرمائی ہے۔ بلاشبہ تو خوبیوں والا، عظمت والا ہے۔ اے اللہ! محمد ﷺ پر اور محمدﷺ کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام  پر اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل فرمائی ہے۔ بلاشبہ تو خوبیوں والا عظمت والا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3370)

نبی اکرم ﷺپر درود و سلام کے خاص مواقع

اذان کے بعد : سید نا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی  اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر اللہ تعالی سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ تعالی کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا، چنانچہ جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 384)

 اذان سننے کی پانچ سنتیں اور فوائد ہیں:

٭مؤذن کے پیچھے پیچھے اس کے الفاظ دہرانا، البتہ حي على الصلاة اور حی علی الفلاح کے الفاظ سن کر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہنا سنت ہے۔

٭ أشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کا کلمہ دہرانا۔

٭اذان کے بعد اَللّٰهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَّهُ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ. پڑھنا۔

٭اذان سن کر رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا کہنا۔

٭ رسول اکرمﷺ پر درود پڑھنا۔ اور یہ ان پانچ سنتوں کا تاج ہے۔

2۔جمعے کی رات اور جمعے کے دن : سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دنوں میں افضل ترین جمعے کا دن ہے۔ اس میں سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی میں فوت کیا گیا۔ اور اس میں پہلا اور دوسرا نفحہ صور پھونکنا ہوگا، لہٰذا تم مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمھارا یہ درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ تو مٹی میں فنا ہو چکے ہوں گے؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے زمین پر حرام کر دیا کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 16162)

 اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((أكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ)) ’’جمعے والے دن اور جمعے کی رات مجھ پر کثرت سے درود پڑھو ۔‘‘ (السنن الكبرى للبيهقي : 249/2)

اللہ کی قسم ! جب آپ کو یقین ہو کہ آپ کا درود آپ کے نبی علیہ السلامم پر پیش کیا جائے گا تو کیا آپ مزید کثرت سے درود و سلام کا اہتمام نہیں کریں گے؟ یہ کیا ہی عظیم کامیابی و کامرانی اور خوشخبری ہے!

3۔غم و پریشانی کے وقت اور مغفرت طلب کرتے وقت : سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رات کا دوتہائی حصہ گزر جاتا تو رسول اللہﷺ اٹھ بیٹھتے اور فرماتے: ’’اے لوگو! اللہ کو یاد کرو۔ اللہ کو یاد کروا ہلانے، کھڑ کھڑانے والی آیا چاہتی ہے۔ اس کے پیچھے آنے والی اس کے تعاقب میں ہے۔ موت اپنی ہولناکیوں کے ساتھ آیا چاہتی ہے۔ موت اپنی وحشت کے ساتھ پہنچ رہی ہے۔‘‘ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں تو میں آپ کے لیے اپنی دعا میں کس قدر حصہ رکھوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جتنا چاہو۔‘‘  میں نے عرض کیا: چوتھائی حصہ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس قدر چاہو، اگر زیادہ کرو گے تو تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا: کیا نصف کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جتنا چاہو، اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: دو تہائی کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جتنا چاہو، اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اگر میں ساری دعا آپ ہی کے لیے وقف کر لوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایسی صورت میں تمھارے تمام غموں اور فکروں کا مداوا ہوگا اور تمھارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة، حديث:2457)

اے مسلمان حضرات و خواتین!  اپنے حبیب ، رسول مصطفی ﷺپر کثرت سے درود بھیج کر اپنے غم اور پریشانیاں دور کرو۔

4۔ رسول اکرمﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے یا آپ کا نام سن کر : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ((رَغمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَیَّ)) ’’ اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذ کر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3545)

5۔ مجالس میں : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَّجْلِسًا لَّمْ يَذْكُرُوا اللهَ فِيهِ، وَلَمْ يُصَلُّوْا عَلٰى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةٌ، فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ)) ’’جب کچھ لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں، اس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور اس کے نبی پر درود نہیں بھیجتے تو وہ ان کے لیے حسرت و ندامت کا باعث ہو گی۔ اب اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، چاہے انھیں عذاب دے، چاہے انھیں  معاف کردے‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3380)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس نے اللہ تعالی کا ذکر کیا نہ اس کے رسولﷺ پر درود پڑھا تو وہ بہت بڑے خطرے میں ہے، اس لیے انسان کو خبر دار رہنا چاہیے اور اپنے دل و دماغ کو حاضر رکھنا چاہیے۔ اپنی مجلس اور اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نبی اکرم ﷺپر درود و سلام سے معطر رکھنا چاہیے۔

6۔نبی ﷺ  کا نام لکھتے وقت : اس وقت بھی آپ ﷺ پر صلاۃ و سلام بھیجا جائے گا کیونکہ نبی اکرمﷺ کا ذکر بول کر ہوگا یا لکھ کر، ہر دو صورتوں میں درود و سلام پڑھنا یا لکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے پر نبی اکرم ﷺنے وعید سنائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذ کر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث (3845)

جو شخص نبیٔ اکرم ﷺکا نام لکھے، اسے چاہیے کہ واضح طور پر درود و سلام لکھے۔ اس کو نہ تو مختصر کرے اور نہ صرف اشارے پر اکتفا کرے جیسا کہ تفصیل اس سے پہلے گزر چکی ہے۔

7۔صفا و مروہ کے پاس: سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ سند صیح مروی ہے کہ جب تم آؤ تو بیت اللہ کے سات چکر لگاؤ اور مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرو، پھر تم صفا پہاڑی پر آکر وہاں کھڑے ہو جاؤ جہاں سے تمھیں بیت اللہ نظر آ رہا ہو۔ اس کے بعد سات دفعہ اللہ اکبر کہو اور تکبیر کے بعد اللہ کی حمد وثنا اور نبی اکرمﷺ پر درود کے بعد اپنے لیے دعا کرو اور مروہ پر بھی اسی طرح کرو۔‘‘ (المصنف لابن أبي شيبة، حديث: 29637)

8۔رسول اکرمﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے وقت: عبد اللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو دیکھا کہ وہ نبی اکرم ﷺکی قبر پر کھڑے ہوتے اور آپ ﷺپر درود پڑھتے اور سید نا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے بھی دعا کرتے۔ (رواہ مالك و اسماعيل القاضي في فضل الصلاة على النبيﷺ)

9۔نماز جنازہ میں دوسری تکبیر کے بعد : نماز جنازہ میں دوسری تکبیر کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنا ضروری ہے، جیسا کہ رسول اکرم ﷺکے ایک صحابی سے مروی ہے کہ نماز جنازہ میں سنت ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر پہلی تکبیر کے بعد آہستہ آواز میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پھر دوسری تکبیر کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے۔ اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے خلوص دل سے دعا کرے۔ (السنن الكبرى للبيهقي: 39/4)

10۔مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت : سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : بِسْمِ اللهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ’’اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہﷺ پر سلامتی ہو۔‘‘  اور پھر یہ پڑھتے : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ. ’’اے اللہ! میرے لیے میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اور جب آپ ﷺباہر نکلتے تو بِسْمِ اللهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ الله کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ ’’اے اللہ ! میرے لیے میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘ (سنن ابن ماجه المساجد والجماعات حديث : 771)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور کہے: اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اور جب باہر نکلے تو نبی ﷺ  پر سلام بھیجے اور کہے: اَللّٰهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ. ’’اے اللہ! مجھے مردود شیطان سے محفوظ رکھ۔‘‘ (سنن ابن ماجه، المساجد والجماعات، حدیث (773)

11۔ تشہد میں : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہم (ابتدائے اسلام میں ) نبی ﷺ  کے پیچھے نماز پڑھتے تو اس طرح کہتے : اللہ پر سلام۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی تو خود سلام ہے (اسے تمھاری دعائے سلامتی کی ضرورت نہیں)، البتہ اس طرح کہا کرو: ((اَلتَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ)) ’’تمام عبادتیں، نماز میں اور پاکیزہ کلمات اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت اور برکت نازل ہو۔ سلام ہو ہم پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر بھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد سلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث (7381)

اس ضمن میں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث پہلے گزر چکی ہے۔

12۔صبح و شام : دن کا کیا خوبصورت آغاز و اختتام ہو اگر آپ اپنے صبح و شام کے اذکار کی تکمیل درود و سلام سے کریں اور اپنے دن رات کی گھڑیاں سیدالابرار، امام الاخیار اور نبی مختارﷺ پر درود و سلام سے معطر کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حديث (384)

13۔قنوت کرتے وقت : سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں جب وہ لوگوں کو رمضان کا قیام کراتے تو قنوت کے آخر میں نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھتے۔ (صحیح ابن خزيمة)

عبد اللہ بن حارث سے مروی ہے کہ سیدنا ابو حلیمہ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ قنوت میں نبیٔ اکرم ﷺ پر درود پڑھتے تھے۔ (فضل الصلاة على النبي ﷺ لإسماعيل القاضي)

14۔نماز عید کی زائد تکبیروں کے درمیان: علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عید سے پہلے سیدنا ولید بن عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ سید نا ابن مسعود، سیدنا ابو موسی اشعری اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہم کے پاس آئے اور کہا: عید کا دن قریب ہے تو اس میں تکبیرات کیسے کہنی ہیں؟ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اللہ نے فرمایا: آغاز میں تکبیر کہہ کر نماز شروع کرو۔ اس کے بعد اپنے رب کی حمد بیان کرو اور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھو ۔ (اور ہر تکبیر کے بعد ایسا ہی کرو)۔ (السنن الکبری للبيهقي، حديث: 6186)

15۔ دعا کے وقت : سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا جبکہ اس نے اللہ تعالی کی حمد وثنا کی تھی نہ نبیﷺ پر درود پڑھا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس نے جلدی کی۔‘‘ پھر اس کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے سے فرمایا: ((إِذَا صَلّٰى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأُ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ عَزَّوَجَلَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، ثُمَّ يَدْعُو بِمَا شَاء)) ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد وثنا بیان کرے، پھر نبی ﷺ پر درود پڑھے، اس کے بعد جو چاہے، دعا کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث (1481)

نبی اکرمﷺ پر درود و سلام کے چند ثمرات

٭نبی ﷺ پر درود پڑھنے والے کے لیے آپ کی شفاعت اور اللہ تعالی کی دس رحمتوں کا نزول :

سیدنا عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:

’’جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا ہے، اللہ تعالی اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر اللہ تعالی سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا، چنانچہ جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 384)

یہاں چند منٹ میں انسان تین عبادتیں سر انجام دیتا ہے:

1۔ مؤذن کی اتباع اور آخر تک اس کے ساتھ اذان کے کلمات دہرانا۔

2۔ نبی اکرم ﷺپر درود بھیجنا۔

3۔ دعا کرنا اور اپنے  نبی ﷺکے لیے اللہ تعالی سے مقام وسیلہ مانگنا۔ اس کا انعام اللہ تعالی کی دس رحمتوں اور نبی مختار ﷺکی شفاعت کی صورت میں ملے گا۔

٭ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس رحمتوں کا ملنا، دس خطاؤں کی معافی ، دس درجات کی بلندی اور نامہ اعمال میں دس نیکیوں کا اضافہ۔ یہ اس شخص کا انعام ہے جو نبی اکرم ﷺ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَنْ صَلّٰى عَلَيَّ صَلَاةً وَّاحِدَةً ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ))

’’جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کے کی دس غلطیاں معاف کر دی جائیں گی۔ اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے۔‘‘ (سنن النسائي، السهو، حدیث: 1298)

یہ چار نہایت قیمتی انعامات ہیں جو نبیٔ اکرم ﷺ پر درود پڑھنے والے کو نصیب ہوں گے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ انعامات دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے بہتر ہیں۔ اور کیا خوش نصیبی ہے اس کی جس نے   نبی اکرم ﷺ نام پر اہتمام سے درود و سلام بھیجا۔

سید نا ابو طلحہ زید بن سہل انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم  ﷺ ایک دن تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’میرے پاس جبریل آئے اور انھوں نے کہا: اے محمد (ﷺ) کیا یہ بات آپ کو راضی نہیں کرتی کہ اللہ تعالی کہتا ہے کہ آپ کی امت کا جو آدمی آپ پر ایک بار درود پڑھے گا، میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا اور آپ کی امت کا جو آدمی آپ کے لیے ایک بار سلامتی کی دعا کرے گا، میں اس پر دس بار سلامتی نازل کروں گا۔‘‘ (مسند احمد، حدیث 16363)

٭نبی اکرم  ﷺ پر درود پڑھنے والوں پر اللہ تعالی کی رحمت و سلامتی کا نزول:

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے آپ پر سلامتی نازل کرے تو اس کے رسول ﷺ پر سلام بھیجیں اور اگر آپ اللہ تعالی کی رحمتوں کا مستحق بننا چاہتے ہیں تو بکثرت اللہ تعالیٰ کے حبیب و خلیل اور نبی مصطفی ﷺپر درود پڑھیں۔ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’جبریل علیہ السلام نے مجھ سے کہا:’’ کیا میں آپ کو خوشخبری نہ دوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جس نے آپ پر سلام بھیجا، میں اس پر سلامتی نازل کروں گا اور جس نے آپ پر درود پڑھا، میں اس پر رحمت نازل کروں گا۔‘‘ (مسند احمد، حدیث (1662)

٭ درود پڑھنے والوں کے لیے نبی اکرم ﷺکی شفاعت :

سید نا رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا:

جس نے کہا: ((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّأَنْزِلْهُ المَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’اے اللہ تو محمد (ﷺ) پر رحمت نازل فرما اور قیامت کے دن انھیں اپنے ہاں سب سے مقرب ٹھکانا عطا فرما‘‘  تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘ (ضعيف الترغيب والترهيب، حديث: 1038)

اسی طرح سید نا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

اس شخص کو میری شفاعت نصیب ہوگی جو اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھے:

((اَللّٰهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَّهُ))

’’اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے رب! سیدنا محمد (ﷺ) کو وسیلہ اور بزرگی عطا فرما اور انھیں اس مقام پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث: 614)

یہ وظیفہ دن میں پانچ مرتبہ ہر اذان کے ساتھ دہرایا جاتا ہے، لہٰذا  ان مبارک، طیب اور پاکیزہ کلمات کا اہتمام کریں تا کہ آپ کو سید الکونینﷺ کی شفاعت حاصل ہو۔

٭ نبی اکرمﷺ پر درود پڑھنے والے قیامت کے دن آپ کے زیادہ قریب ہوں گے:

نبی اکرم ﷺنے خوشخبری دی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص آپ ﷺ پر جتنا زیادہ درود و سلام بھیجے گا، وہ اسی قدر آپ کے زیادہ قریب ہوگا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ((أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً))

’’قیامت کے دن میرے قریب ترین (یا شفاعت کے سب سے زیادہ حقدار ) وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر بکثرت درود بھیجتے ہوں گے۔‘‘ (جامع الترمذي، الوتر، حديث: 484)

اس اجر عظیم کو غنیمت سمجھیں اور اس کمال نوازش کو حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔

٭نبی اکرم ﷺپر درود پڑھنے والوں کے لیے فرشتوں کی دعا:

اللہ تعالی کا مومنوں پر فضل ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ  پر درود پڑھنے والوں کے اس خوبصورت اور اچھے عمل کے انعام کے لیے پاک باز نیک فرشتے مقرر کر دیے ہیں کہ وہ ان کے لیے دعا کریں، جیسا کہ سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا:

((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُّصَلِّي عَلَيَّ إِلَّا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، مَا صَلّٰى عَلَيَّ، فَلْيُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذٰلِكَ أَوْ لِيَكْثِر))

’’جو مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے، اس پر فرشتے اس وقت تک درود بھیجتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے۔ اب بندے کی مرضی ہے کہ وہ زیادہ درود بھیجے یا کم۔‘‘ (سنن ابن ماجه، إقامة الصلاة والسنة

فيها ، حديث: 907)

٭نبی ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنے والاغم و پریشانی سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں:

 دنیا میں سب سے بڑی مشکل اور رکاوٹ غم و پریشانی ہے اور آخرت میں گناہ سب سے بڑا دور دسر ہوگا۔ یہ دونوں چیزیں نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام سے ختم ہو جاتی ہیں۔ جو شخص نبی ﷺ  پر درود و سلام میں مشغول رہے، اللہ تعالی اس کی ضرورتیں پوری فرما دیتا ہے اور اس کے کام آسان ہو جاتے ہیں، جیسا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت میں ہے جو اسی عنوان میں گزر چکی ہے۔

٭ نبی اکرمﷺ پر صلاۃ وسلام اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کے حکم کی تعمیل ہے:

نبیٔ اکرم ﷺپر درود پڑھنے والے اس بات پر خوش ہو جائیں کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ وہ جلیل القدر عبادات اور اطاعات میں فرشتوں اور مومنوں کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ اسی بات کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝﴾

’’بلا شبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی (ﷺ) پر رحمت و درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو اور خوب خوب سلام بھیجو۔‘‘ (الأحزاب 56:33)

٭نبی اکرم  ﷺ پر صلاۃ وسلام، اللہ تعالی کے حکم سے دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے:

اللہ تعالی خود اپنے نبی ﷺپر صلاۃ وسلام نازل فرماتا ہے اور اگر آپ اللہ تعالٰی سے یہی دعا کریں کہ وہ  نبی ﷺپر درود و سلام نازل کرے تو وہ  یقینًا اس دعا کو قبول کرے گا۔ اور اگر اس کے ساتھ آپ اپنی کسی حاجت و ضرورت کا ذکر بھی کریں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی ایک درود والی دعا تو قبول کرے اور دوسری رد کر دے، لہٰذا اپنی دعا کی قبولیت کے لیے نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ وسلام کا سہارا لیں اور اسے ترک کر کے اپنی دعا کو آسمان و زمین کے درمیان لٹکتا نہ چھوڑیں۔ اسے نبی اکرم ﷺ پر درود وسلام بھیج کر آسمانوں تک پہنچائیں کیونکہ آپ کا درود و سلام اللہ تعالیٰ کے قرب اور دعا کی قبولیت کا بہت بڑا اور افضل ذریعہ ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((كُلُّ دُعَاءٍ مَّحْجُوبٌ حَتّٰى يُصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ))

’’ہر دعا قبول ہونے سے روک دی جاتی ہے یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺپر درود پڑھا جائے۔‘‘ (صحیح الجامع حدیث: 4523)

اور سید نا فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا۔ اس نے اللہ تعالی کی حمد وثنا کی نہ نبی ﷺ  پر درود پڑھا تھا، تو رسول اللہ ﷺ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے جلدی کی۔‘‘ پھر اس کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبیﷺ پر درود پڑھے، اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث (1481)

٭نبیٔ اکرم ﷺ پر صلاۃ وسلام سے ضرورتیں پوری ہوتی ہیں:

اس کا سبب یہ ہے کہ جب آپ اپنے نبی ﷺپر درود و سلام پڑھتے ہیں تو اپنے رب کو راضی کرتے ہیں۔ جب آپ کا رب راضی ہو تو وہ آپ کی دعا اور پکار سنتا اور قبول کرتا ہے۔ آپ کے غم، پریشانیاں اور مصائب و آلام دور کر دیتا ہے، لہٰذا  حبیب کا ئنات اور رسول مصطفیﷺ پر بکثرت درود و سلام سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور نبی ﷺ  کے ساتھ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی موجود تھے۔ جب میں تشہد کے لیے بیٹھا تو میں نے ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر نبیﷺ پر درود بھیجا، پھر میں نے اپنے لیے دعا کی۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا: ((سَلْ تُعْطَهْ سَلْ تُعْطَهْ )) ’’مانگو تمھیں ملے گا۔ مانگو تمھیں ملے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، السفر، حديث 593)

٭ نبی اکرمﷺ پر درود و سلام قیامت کی ہولناکیوں سے نجات کا ذریعہ ہے:

بلا شبہ نبی اکرمﷺ پر درود و سلام بھیجنا نعمتوں والے باغات میں آپ کی رفاقت کا باعث ہے اور آپ کے جھنڈے کے نیچے آپ کی صحبت کا ذریعہ ہے۔ درود و سلام پڑھنے والے کو آپ کی شفاعت نصیب ہو گی اور وہ حوض کوثر کے جام ہے گا، لہٰذا  کثرت سے درود و سلام پڑھیں تا کہ یہ بلند مقام اور عالی شان مرتبہ آپ کا نصیب ہو۔ نبی اکرمﷺ کی صحبت میں قیامت کی ہولنا کیوں اور حشر کی سختیوں کا سامنا کرنا آسان ہو اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس خوفناک منظر کے عذاب سے دور کرے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ((أَوْلَى النَّاسِ بِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً))

’’قیامت کے دن میرے قریب ترین (یا شفاعت کے سب سے زیادہ حقدار ) وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر بکثرت درود بھیجتے ہوں گے۔‘‘ (جامع الترمذي، الوتر، حديث: 484)

٭نبیٔ اکرمﷺ پر صلاۃ وسلام فقر اور بخل سے بچاتا ہے:

حبیبِ مصطفی ﷺپر درود و سلام سے بخل اور کنجوسی کی بیماری دور ہوتی ہے۔ جب آپ نبیٔ اکرم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھیں گے تو اللہ تعالی آپ کے عیب اور اخلاقی کمزوریاں دور کر دے گا۔ سید نا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ((اَلبَجِيْلُ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَىَّ)) ’’اصلی اور حقیقی کنجوس آدمی وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔“ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3546)

٭نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام ایمان کی علامت ہے:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰی أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ))

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 15)

اور یہ محبت اللہ تعالی کی اطاعت اور نبی اکرم ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کے حکم الہی :

﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝﴾

’’ بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت و درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو اور خوب خوب سلام بھیجو۔‘‘ (الأحزاب 56:33)

اور نبیٔ اکرم ﷺکے حکم کی تعمیل ہی سے ممکن ہے۔ آپ ﷺنے ہمیں صلاۃ وسلام کی تاکید فرمائی ہے اور یہ جلیل القدر عبادت اور عظیم نیکی ہے۔ صلاۃ وسلام ہو آپ پر جب تک ہوائیں چلتی رہیں اور پھول کھلتے رہیں !

٭نبیٔ اکرمﷺ پر صلاۃ وسلام ذلیل دور ماندہ ہونے سے بچاتا ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺنے فرمایا:

((رَغمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ))

’’اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حدیث: 3545)

نبی ٔ اکرم ﷺ  کی اس بد دعا سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ پر درود پڑھا جائے۔ اور یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی اکرمﷺ کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ جو شخص آپ ﷺ کے ذکر کے وقت درود کو نظر انداز کرے یا ان مقامات پر درود نہ پڑھے جن مقامات پر درود پڑھنا فرض ہے تو اسے ہر صورت میں آپ کی بددعا لگے گی ، لہٰذا نبیٔ اکرم ﷺپر درود و سلام کے ذریعے سے خود کو اس وعید سے بچائیں۔ ہمیشہ درود و سلام ہوں آپ ﷺ ہے۔

٭نبی اکرم ﷺپر درود و سلام پل صراط سے بخیر و عافیت گزرنے کا باعث ہے:

تصور کریں کہ وہ کس قدر ہولناک منتظر ہوگا جب لوگ پل صراط سے دوزخ کی گہرائی میں گر رہے ہوں گے۔ اس دوران میں نبی ﷺ  پر بھیجا ہوا درود و سلام آپ کے پاس آئے گا اور اللہ تعالی کے فضل و رحمت سے آپ کو اس ہولنا کی اور تنگی والی کٹھن صورت حال سے نکالے گا۔ آپ خیر و سلامتی سے پل صراط سے گزر جائیں گے۔ اگر صلاۃ وسلام کا صرف یہ ایک ہی فائدہ آپ ذہن میں رکھیں تو یقین جانیں آپ ساری عمر صلاۃ وسلام بھیجتے ہی گزار دیں۔ سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’میں نے پل صراط پر اپنی امت کے ایک آدمی کو لڑ کھڑاتے دیکھا۔ کبھی وہ گھٹنوں کے بل گرتا اور کبھی اس سے لٹک جاتا۔ اس دوران میں اس کے پاس وہ درود آیا جو وہ مجھ پر بھیجتا تھا اور اسے پاؤں پر کھڑا کر دیا اور نجات دلائی‘‘ (الضعيفة للألباني، حديث: 7129، حسنه الحافظ أبو موسى المديني)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ نے بھی اس روایت سے استدلال کیا ہے۔

٭نبی ﷺ  پر درود و سلام سے مجلس پاکیزہ ہو جاتی ہے اور وہ قیامت کے دن باعث ندامت نہ ہوگی:

قیامت کے دن حسرت اور ندامت سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہر مجلس و محفل میں رسول اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجا جائے۔ سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَّجْلِسًا لَّمْ يَذْكُرُوا اللهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلٰى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فإن شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ))

’’جب کچھ لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں، اس میں اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتے اور اس کے نبی پر درود نہیں بھیجتے تو وہ ان کے لیے حسرت و ندامت کا باعث ہوگی۔ اب اللہ تعالی کی مرضی ہے، چاہے انھیں عذاب دے، چاہے انھیں معاف کر دے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3380)

بلاشبہ نبیٔ اکرم ﷺپر درود و سلام بھیجنا آنکھوں کی روشنی، نور بصیرت ، دلوں کی رواق ، روح کی تسکین ، آنکھوں کی ٹھنڈک، مجالس کی رونق، زندگی کی خوشبو، عمر کی زکاة، ایام کا جمال اور غموں کا تریاق ہے۔ درود و سلام سے خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔ شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ علم ونور بڑھتا ہے۔ گفتگو پاکیزہ ہوتی ہے۔ بات میں مٹھاس آتی ہے۔ مجالس پاکیزہ، پر رونق اور آباد و شاد ہوتی ہیں۔ برکت و سکینت کا نزول ہوتا ہے۔ یہ محبت کی علامت، اطاعت کی گواہی تعلق و دوستی کی برہان، نیکی و درستی کی دلیل اور کامیابی کی راہ ہے۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم ﷺ پر درود نہ پڑھا کیونکہ اس نے آپ کی نیکی کا انکار کیا اور آپ کے احسانات اور کرم نوازیوں کو چھپایا۔ اسے توحید باری تعالی کی طرف بلانے والے، رب کی پہچان کرانے والے، تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے اور آگ سے بچانے والے  آپ ﷺ ہی ہیں۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم ﷺپر ورود و سلام نہ بھیجا کیونکہ یہ نہایت نا انصافی، بخل کی انتہاء سخت ولی کی آخری حد، رسوائی کی دلیل اور نا کامی کی راہ ہے۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم ﷺپر درود نہ پڑھا کیونکہ وہ ہر بار درود کے بدلے دس درجات کی بلندی، دس نیکیوں کے حصول، دس گناہوں کی معافی اور اللہ کی دس رحمتوں سے محروم ہو گیا۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے آپ ﷺ پر درود و سلام نہ بھیجا کیونکہ نافرمانیوں کی تاریکی اس کے دل پر چھا گئی۔ خطاؤں کے غبار نے اس کی بصیرت ختم کر دی۔ گناہوں نے اس کی زبان پر تالے لگا دیے۔ فظلت نے اس کے سینے میں اس قدر گھٹن پیدا کر دی کہ وہ نبی اکرم ﷺ پردرود و سلام کے لیے نہ کھلا۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرمﷺ پر درود نہ بھیجا کیونکہ وہ آپ کے قرب و شفاعت سے محروم ہو گیا۔ گناہ بخشنے والی اور غم و پریشانی دور کرنے والی نیکی سے محروم رہا، جیسا کہ آپ ﷺسے صحیح سند سے مروی ہے۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرمﷺ پر درود نہ بھیجا کیونکہ اگر اللہ تعالی اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا تو اس کی زبان پر درود جاری کر دیتا۔ اس کا دل اور سینہ کھول دیتا اور اس کے لیے نبی اکرم سلام پر صلاۃ وسلام کی را ہیں آسان کر دیتا۔ لیکن اسے اس توفیق سے محروم کر دیا گیا اور ایک عظیم برکت اور بہت بڑی کامیابی اس کی قسمت میں نہ آئی۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام نہ بھیجا کیونکہ اس کے غم اور پریشانیاں بڑھیں گے۔ دکھوں اور مصیبتوں میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے کہ اس نے خوشیوں کی چابی کھودی اور مبارک نبی اور کریم رسول ﷺسے تعلق توڑ لیا۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم  ﷺ پر درود و سلام نہ بھیجا کیونکہ اس نے اپنی سانسوں کو معطر کیا نہ مجلس کو خوشبودار کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے حبیب و خلیل اور مصطفی  ﷺ پر درود کے ساتھ اپنے منہ کو پاک کیا۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام نہ بھیجا کیونکہ وہ ایسا بد نصیب ہے جس کا پیچھا غم اور پریشانیاں کبھی نہیں چھوڑتیں کیونکہ وہ نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام کی نعمت سے محروم ہے۔

ناکام و نامراد ہوا جس نے نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام نہ بھیجا کیونکہ وہ کمینے شیطان کی اطاعت کر کے ذلیل و خوار ہے۔ اس نے اسے اس طرح الجھا دیا ہے کہ اسے کچھ بھائی نہیں دیتا۔ اللہ تعالٰی ہمیں نبی مکرمﷺ کی نافرمانی اور آپ سے روگردانی کرنے سے بچائے اور مہاجرین و انصار جیسی اتباع رسول عطا فرمائے۔

نبی ﷺ پر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! یہ ایمان کی دلیل ، یقین کی برہان اور محبت کا عنوان ہے۔ یہ آپ کی شفاعت اور حوض کوثر سے فیض یابی کا باعث، آپ کے جھنڈے تلے سایہ پانے کا نشان اور جنت میں آپ کی رفاقت کا پیغام ہے۔ اس کے ساتھ بند تالے کھلتے ہیں۔ احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔ رب ذوالجلال راضی ہوتا ہے اور ہم اعلی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ہیں۔

نبی ﷺ  پر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! کیونکہ اس سے غم دور ہوتے ہیں۔ حوض کوثر سے سیراب ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ آپ کے جھنڈے تلے آپ کی رفاقت ملے گی اور مقام محمود میں آپ کی شفاعت نصیب ہوگی۔

نبی اکرم ﷺپر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! کیونکہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ انسان عیبوں سے پاک ہو جاتا ہے اور یہ نعمتوں والی جنتوں میں نبی اکرمﷺ کے قرب اور رب رحمن کے جوار رحمت میں جگہ پانے کا ذریعہ ہے۔

نبی اکرم مل پر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! کیونکہ اس میں رب تعالٰی کے حکم کی تعمیل کے علاوہ درود و سلام بھیجنے کی اس عظیم عبادت میں فرشتوں اور مومنوں کی ہمنوائی کا شرف بھی ہے۔

نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! اس سے سانسیں پاک صاف ہوتی ہیں۔ مجلسیں معطر ہوتی ہیں اور اعمال میں پاکیزگی آتی ہے۔ یہ محبت وانابت کی دلیل، اتباع کی علامت اور تصدیق کی نشانی ہے۔ نبی اکرم ﷺپر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! اس پر چار انعامات یقینی ہیں: اللہ تعالی کی دس رحمتوں کا نزول، دس درجات کی بلندی، دس نیکیوں کا حصول اور دس گناہوں کی معافی۔ درود و سلام سے وسو سے دور ہوتے ہیں۔ مشکلات ختم ہوتی ہیں اور کرب و شدت کی کیفیت دور ہو جاتی ہے۔ جو نفلی روزے نہ رکھ سکتا ہو اور صدقے کی قدرت نہ رکھتا ہو، وہ کثرت سے درود و سلام پڑھے تو ان کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ درود و سلام ہر ملاقات کی زینت اور ہر محفل کا جمال ہے۔

نبی ﷺ  پر درود و سلام پڑھنا کیا ہی خوبصورت عمل ہے یہ نبی اکرمﷺ کی سیرت یاد دلاتا ہے۔ آپ کی سنت کے قریب کرتا ہے اور بندہ خود کو آپ ﷺ کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یہ ہر خوشی کا باعث، ہر بھول چوک دور کرنے والا اور رحمن کی رحمت کا حق دار بنانے والا ہے۔

نبیٔ اکرمﷺ پر درود و سلام بھیجنا کیا ہی خوبصورت عمل ہے! بلاشبہ یہ خوشبودار کستوری ہے۔ یہ روح کی غذا اور دل و جان کا سرور ہے۔ اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ ہر دوست و رفیق کی کمی درود و سلام سے پوری ہو جاتی ہے کیونکہ آپ ﷺ پر درود و سلام سے آپ کے ذکر ،منہج و سنت، ملت اور حیات طیبہ کی رفاقت نصیب ہو جاتی ہے جو باقی سب سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ آپ ﷺ پر اللہ تعالی کی رحمت و سلامتی کی بارش اس وقت تک برستی رہے جب تک بجلی چمکتی رہے، خوشبو مہکتی رہے اور بلبلیں نغمہ گاتی رہیں۔

نبیٔ اکرمﷺ پر درود و سلام کیا ہی خوبصورت عمل ہے! یہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور چھپے ہوئے ہیرے جواہرات اور موتیوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ مومن اس سے خوش ہوتے ہیں۔ عبادت گزار لذت محسوس کرتے ہیں اور غم کے مارے سکون پاتے ہیں۔ ہر لمحہ، ہر آن درد و سلام ہو آپ ﷺ کی ذات پر حجر و شجر، انسانوں اور ذرات کی تعداد کے برابر۔

اے اللہ !منبع شرف و کرم پر رحمت و سلامتی کا نزول فرما جو اپنی امت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اور گرمی کے بعد انھیں سایہ عطا کیا۔ اے اللہ ! ذکر کرنے والوں، ذکر سے غافل رہنے والوں، کلام کرنے والوں اور لکھنے والوں کی تعداد کے برابر آپﷺ پر رحمت و سلامتی نازل فرما۔

اے اللہ! رحمت و سلامتی نازل فرما اس ہستی سر پر جس کی پیدائش اور بچپن مبارک اور باعث سعادت ہے۔ جس کی دلیل حتمی اور دو ٹوک ہے، جس کی شان بلند و بالا اور وہ روشن چراغ ہے۔ اس نبی مکرمﷺ پر درود و سلام نازل فرما جو جنگوں میں کامیاب ہوئے اور مشکلات اور بحرانوں نے ان کی ہمت اور بڑھا دی۔ وہ تیری مخلوق میں برگزیده، تیری زمین پر تیری حجت، تیرے حق کی راہ دکھانے والے، تیرے حکموں سے آگاہ کرنے والے، تیری ہدایت کی دعوت دینے والے اور تیرے فرائض کی پابندی کرنے والے ہیں۔

اے اللہ! رحمت و سلامتی نازل فرما آپ ﷺپر جنھیں تو نے قیادت میں بے مثال بنایا، نبوت و رسالت کا سلسلہ ان پر ختم کیا اور ان کے بعد کوئی نبی آیا نہ آئے گا، جنھیں تو نے بشیر و نذیر، سراج منیر اور دائی بنا کر بھیجا اور جن کے ساتھ انسانیت کو ہدایت دی اور ان کے دل و دماغ روشن کیے۔ بت پرستی کے ایوانوں میں آپ ﷺ کی آمد سے زلزلہ برپا ہو گیا اور وہ سب سے بہتر پیغمبر اور افضل وارث و موروث ہیں۔

اے اللہ ! رحمت و سلامتی نازل فرما آپ ﷺ پر جن کا اسم گرامی منبروں سے گونج رہا ہے، جن پر درود و سلام سے روشنائیوں کو حسن ملا، جن کی سیرت سے کاپیوں کو زینت ملی، جن کے ذکر سے منارے روشن ہوئے، جن کی شریعت سے شہر ودیہات نے شرف پایا اور جن کے ذکر سے مسجدیں آباد ہیں۔ وہ ہستی جس نے اپنی دلیل سے ہرمنکر کی ناک خاک میں ملا دی، جن کی عمر دنیا میں تمام جہان والوں سے زیادہ نفع بخش ہے، جن کا ذکر قیامت کے دن سب سے بلند و بالا اور وہ اللہ تعالی کے ترازو میں سب سے بھاری ہیں اور جن کی حجت و دلیل سب سے زیادہ واضح اور یقین و ایمان سب سے زیادہ تقسیم ہے۔

اے اللہ! تو رحمت و سلامتی نازل فرما اس نبی مکرمﷺ پر جن کے ساتھ تو نے امت کے غم اور تکلیفیں دور کر دیں اور انھیں بلندیوں کی انتہا تک پہنچا دیا۔ اس رسول ﷺپر جو بلند ہمت، حکمت کی بات کرنے والے، دلیل سے قائل کرنے والے اور سنت کی طرف بلانے والے ہیں۔ جنھیں تو نے زبان دی، ان میں   آپ ﷺ سب سے سچے، سچوں میں سب سے نیک و پارسا، سب سے بڑھ کر عزت والے، تمام دعوت دینے والوں سے بڑھ کر شرف والے، رہنمائی کرنے والوں میں افضل اور شہر و دبیات کی مجالس و محافل میں گفتگو کرنے والوں میں سب سے عظیم ہیں۔ اے اللہ اس وقت تک درود و سلام کا نزول فرما جب تک مسافر چلتے رہیں اور نعت خواں نعتیں پڑھتے رہیں۔

اے اللہ ا رحمت و سلامتی نازل فرما اس ہستی پر جس نے رحمت و ثواب کی خوشخبری دی۔ تیری پکڑ اور عذاب سے ڈرایا۔ کتاب وسنت کی طرف بلایا اور ہدایت و ثواب کی راہ دکھائی۔ اس وقت تک رحمت و سلامتی کا نزول فرما جب تک سراب چمکتا ر ہے، بادل گرجتے رہیں محفلیں جمتی رہیں، دوست احباب آپس میں ملتے رہیں اور روئے زمین پر نقل و حرکت جاری رہے۔

اے اللہ خیر اور بھلائی میں سب مخلوق سے کامل و اکمل، فرع واصل میں سب سے پاکیزہ، آنے جانے میں سب سے معزز اور منصب وفخر میں سب سے اعلیٰ ہستی پر اور ان کی آل پر رحمت و سلامتی نازل فرما اور انھیں پوری طرح خوب پاک فرمادے۔

اے اللہ ! خاتم الانبیاء، پرچم حمد کے حقدار، سید الاولیاء، علماء کے اسوہ و نمونہ، زمین و آسمان کے افضل رہنما، صاحب غار حرا، روشن سنت، آسان دین اور ملت بیضاء کے علمدار، واضح و روشن راستے والے اور صاحب شفاعت و اسراء پر رحمت و سلامتی کا نزول فرما۔

اے اللہ! رحمت و سلامتی کا نزول فرما ان پر جن کی فصاحت سے تو نے دنیا کے فصحاء کو چپ کرا دیا، جن کی حجت و بلاغت سے دنیا کے دانشور اور ماہرین بلاغت چکرا کر رہ گئے، جو اپنے الفاظ سے ادباء پر غالب آگئے اور جن کی احادیث نے شعراء کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس نبی پر ورود و سلام جن کے ساتھ گو نے عربوں کو عزت بخشی، اندھیروں کو دور کیا، جنھیں خاص طور پر اسراء و معراج کا شرف بخشا اور آسمان کے دروازے ان کے لیے کھول دیے۔ اے اللہ ا جب تک آنکھیں دیکھتی رہیں، کان سنتے رہیں ، نشان راہ ملتے رہیں، سفر جاری رہیں اور آوازیں گونجتی رہیں، تب تک سب انسانوں سے معزز و مکرم شہریوں اور دیہاتیوں کے سردار اور سب سے افضل ہستی پر رحمت و سلامتی کا نزول فرما۔

اے اللہ ! درود و سلام ہوں مقام محمود پانے والے، پر چم حمد اٹھانے والے نبیﷺ پر جنھوں نے مختلف گروہوں کو مخاطب کیا اور جو روز قیامت مختلف جتھوں کی شفاعت کریں گے۔ ان پر اس وقت تک درود و سلام ہوں جب تک خطیب خطاب کرتے رہیں، خوشبو مہکتی رہے، درختوں کی تر شاخیں جھکی رہیں، عندلیب نغمہ سرائی کرتی رہے اور دن رات باقی رہیں۔

اے اللہ! تو رحمت و سلامتی نازل فرما سب سے بہترین انسان پر جن کے ذکر سے دعا میں شروع ہوتی ہیں، جن پر درود و سلام سے حاجتیں پوری ہوتی ہیں، رحمتیں اترتی ہیں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور رب تعالٰی کی عنایات و احسانات کا فیضان ہوتا ہے۔ درود وسلام ہوں سید الکونین پر جو خوبصورت ترین صفات اور عالی شان عادات و خصائل والے ہیں۔

اے اللہ ! تو رحمت فرما اس قُدرہ (انسانیت کے لیے نمونہ) پر جو کیا ہی خوبصورت ہے اسلامتی نازل فرما اس چہرے پر جو کیا ہی پر رونق ہے اے اللہ برکتوں کا نزول فرما اس اسوہ پر جو کس قدر اکمل و اعلیٰ ہے؟ جس نے جھوٹ کے صحراء میں بہکی ہوئی امت کو سچائی کی تعلیم دی اور باطل میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو حق کی راہ دکھائی۔

اے اللہ ! نمازیوں، روز و داروں، حاجیوں اور مسلمانوں کی تعداد کے برابر رحمت و سلامتی نازل فرما اس  نبی ﷺپر جو کمال کے درجات طے کرتے کرتے مقام وسیلہ پر جا پہنچے۔ آپ فضیلت کی سیڑھیاں اس طرح چڑھے کہ ہر فضیلت کو اپنے نام کر لیا۔ دلوں اور برسوں کی تعداد کے برابر آپ کی آل اور اصحاب پر رحمت و سلامتی نازل فرما۔ اے اللہ! رحمت و سلامتی نازل فرما خاتم النبیین، امام المرسلین اور رسول رب العالمین پر۔ اے اللہ! اگلوں پچھلوں اور معزز فرشتوں میں قیامت تک محمدﷺ اور آپ کی آل پر رحمتیں نازل فرما۔

اے اللہ ا رحمت و سلامتی نازل فرما اس ہستی پر جس کے ذریعے سے تو نے عرب و عجم کو ہدایت بخشی، جس کے مرتبے بلند کیے، جس کے سبب بتوں اور مورتیوں کو پاش پاش کیا اور ابولہب و ابو جہل کو ذلیل و رسوا کیا اور جس کی پیروی سے سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ حسب و نسب کے بغیر سردار، بزرگی والے اور سونے چاندی کے بغیر مال دار بن گئے۔

اے اللہ تو اپنے نبی ﷺ  پر ایسی رحمت و سلامتی نازل فرما جس سے تو ہمارے افکار پاکیزہ کر دے۔ ہمارا باطن پاک کر دے۔ ہمارے نیکیوں کے ترازو بھاری کر دے۔ شیطان کو رسوا کر دے۔ ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔

ہماری گفتگو کو معطر کر دے۔ ہمارے لیے آسانیاں یقینی بنا اور تنگیاں ہم سے دور کر دے۔

اے اللہ ہمیں درود و سلام کے ذریعے سے آپ ﷺ کی رفاقت اور ہم نشینی عطا فرما۔ آپ کی زیارت اور دیدار نصیب فرما اور آپ کا پڑوس عطا کر دے۔ اے اللہ! آپ پر درود و سلام کی برکت سے ہمیں آپ کے مددگاروں میں شامل فرما۔ نامہ اعمال ہمارے دائیں ہاتھ میں تھا۔ حساب کتاب کا مرحلہ آسان فرما اور اجر عظیم عطا فرما۔

اے اللہ! تو رحمت و سلامتی نازل فرما اس نبی ﷺپر جس کا سینہ تونے کھول دیا اور بوجھ تو نے دور کر دیا، جس کا ذکر ٹو نے بلند کیا، جس کی قدر و منزلت کو اونچا کیا اور اس کا معاملہ آسان کر دیا۔ ہماری طرف سے آپ اس کو بہترین بدلہ عطا فرما جو تو کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیتا ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی، امت کی خیر خواہی کی اور تیری راہ میں کماختہ جہاد کیا۔ ہماری روح و جان اور ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔

اے اللہ ! رحمت و سلامتی نازل فرما اس ہستی پر جس نے بنولؤی (بن غالب بن فہر) میں عزت کا علم اٹھایا اور بنو عبد مناف بن قصی میں اعلی شرف و مقام پایا۔ ان پر جو سچے نبی ہیں، جھوٹے نہیں۔ عبد المطلب کے بیٹے اور عربوں کے تاج ہیں۔ ہر ماں اور باپ قربان اس روشن اور چہکتی پیشانی والی ہستی پر جن کا ذکر تورات و انجیل میں ہے۔ جن کے مددگار جبریل  علیہ السلام ہیں، اور جو ہر زمانے اور نسل کے رہنما و پیشوا اور امام ہیں۔

((اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ))

’’اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد ﷺپر اور آل محمدﷺ پر جیسے تونے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام  پر اور آل ابراہیم پر بے شک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! اپنی برکت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر جیسے تو نے اپنی برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام  پر اور آل ابراہیم پر۔ بے شک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔‘‘

اے اللہ کو اپنےرسول ﷺ کے اہل بیت سے راضی ہو جا اور اپنے خلیل میں کے قرابت داروں کو بخش دے جو مبارک و پاکیزہ درخت اور سرسبز و شاداب باغ کی طرح ہیں۔ نہایت پاک باز ، حسب و نسب میں سب سے اعلی اور مجالس کی رونق ہیں۔ جن کے حقوق کی پاسداری تو نے قرآن میں واجب کر دی اور علم و ایمان کے باعث ان کا احترام اور بڑھا دیا۔ ان پر درود و سلام ہوں جب تک بجلیاں چمکتی رہیں۔ پھول کھلتے رہیں اور سورج، چاند، ستارے چمکتے دیکھتے رہیں۔

اے اللہ!تُو اپنے نبی ﷺ  کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم سے راضی ہو جا جو آفتاب و ماہتاب اور چمکتے ستارے ہیں، جو سخاوت کے دریا اور جرات و بہادری کا نشان تھے اور جو بدر کے ہیرو، بیعت رضوان سے کامیابیاں سمیٹنے والے، حاملین قرآن وسنت اور ہر میدان میں رحمن کے انصار تھے۔ اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے بارے میں تو نے فرمایا ہے:

﴿ وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠۝﴾

’’اور جوان (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی۔ اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (الحشر10:59)

حرفِ آخر

میں ہمیشہ اپنے رب سے دعا کرتا رہا کہ وہ میری عمر میں برکت دے، یہاں تک کہ میں اپنی یہ کتاب ’’ملہم العالم‘‘ مکمل کر سکوں۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں، میں نے امام اعظم اور نبی کریم ﷺکے لیے اپنی جان، محبت، یادیں، شوق اور جذبات و احساسات سب کچھ نچھاور کر دیا ہے۔ میں نے دو دفعہ موت کو بڑے قریب سے دیکھا۔ ایک دفعہ جب فلپائن میں مجھ پر فائرنگ ہوئی اور میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بچ گیا اور دوسری دفعہ جب میں کرونا وائرس کا شکار ہوا اور اس وجہ سے انتہائی نگہداشت وارڈ میں چار دن تک بے ہوش موت وحیات کی کشمکش میں رہا۔

پھر جب مجھے ہوش آیا تو سب سے پہلے ’’ملہم العالم‘‘ کا خیال آیا۔ میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے یہ کتاب مکمل کرنے کی مہلت دی۔ میں اللہ تعالی سے اس کے اسم اعظم کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جس کے ساتھ مانگا جائے تو وہ ضرور دیتا ہے اور جب دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے کہ وہ میری اس کتاب کو خالص اپنی رضا و خوشنودی کے لیے قبول فرمائے۔ روزے محشر اس کے ساتھ مجھے فائدہ پہنچائے جب مال نفع دے گا نہ اولاد کام آئے گی۔ صرف وہی نجات پائے گا جو قلب ﷺ  لے کر آیا۔

﴿ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ۝۱۸۰ وَ سَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَۚ۝۱۸۱ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠۝۱﴾

’’آپ کا رب، عزت کا مالک، ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔ اور تمام رسولوں پر سلام ہے۔ اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہیں۔‘‘(الصفت 37: 180-182)

رَ بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۱۲۷،وَ تُبْ عَلَیْنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۱۲۸