محمدﷺ بحیثیت مہاجر

نبی اکرم ﷺکی پہلی ہجرت زمان و مکان کی قید سے آزاد تھی۔ وہ ایسی ہجرت ہے جو قیامت تک باقی ہے۔ یہ آپ نے اس وقت کی جب آپ ﷺکے رب نے آپ کو حکم دیا:

﴿ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ۪ۙ۝﴾  ’’اور ناپا کی چھوڑ دیجیے۔‘‘ (المدثر 5:74)

چنانچہ آپ ﷺ نے ہر گناہ ، معصیت اور برے قول وفعل کو چھوڑ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا :

((وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللهُ عَنْهُ))

’’اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري الإيمان، حديث (10)

جہاں تک دوسری ہجرت کا تعلق ہے تو وہ اس وقت عمل میں آئی جب کفار قریش کی اذیتیں حد سے بڑھ گئیں اور انھوں نے آپ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ آپ کا معاشی بائیکاٹ کیا۔ حبس بے جا میں رکھا اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ ان کے ساتھ دیگر عرب قبائل بھی شامل ہو گئے اور سب نے مل کر آپ کے صحابہ اور ساتھیوں کو اذ یتیں دینا شروع کر دیں۔ آپ کے صحابہ نے جسمانی اور روحانی تکلیفوں اور ذلت و تحقیر پر مبنی رویوں کی شکایت رسول اکرم ﷺ  سے کی تو آپ ﷺ کچھ عرصہ انھیں صبر و رضا کی تلقین کرتے اور تسلی دیتے رہے۔ بالآخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مزید تکلیفیں برداشت کرنا ان کی طاقت سے باہر ہو گیا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اللہ تعالی کی راہ میں ہجرت کر کے مکہ چھوڑا جائے۔ صرف یہی ایک حل باقی تھا۔

ان حالات میں اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو گھر بار اور وطن چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں ہجرت کرنے کی اجازت دی۔آپ ﷺ اپنی دعوت کے آغاز ہی سے جانتے تھے کہ ایک روز آپ کو مکہ سے نکال دیا جائے گا۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ پہلی وحی کے بعد سیدہ خدیجہ رسول اللہﷺ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ جب ورقہ نے رسول اکرم ﷺسے غار میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات سنیں تو کہا: (کاش! میں آپ کے زمانہ نبوت میں توانا ہوتا۔)  کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: اچھا، تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں، جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حديث:3)

چنانچہ نبی ﷺ کو اس وقت سے علم تھا کہ عنقریب آپ کو مکہ سے نکال دیا جائے گا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ کس علاقے کی طرف ہجرت کریں گے۔ آپ ﷺذہنی طور پر اس عظیم قربانی، یعنی گھر بار، وطن اور دوست احباب چھوڑ کر ہجرت کرنے کے لیے تیار تھے۔

پھر سات آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی حکیم و خبیر رب العالمین کی طرف سے اجازت آگئی، اس ذات کی طرف سے جو تمام امور کو ایک اندازے کے مطابق چلاتا ہے، جس کا ہر اقدام حکمت والا ہے، ہر لفظ راز ہے اور وہ ہر خطرے سے آگاہ ہے۔ اس نے اپنے رسول اور حبیب و خلیلﷺ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی جہاں بیعت عقبہ کرنے والے انصار و احباب رہتے تھے۔ انھوں نے آپﷺ سے خلوص اور جاں نثاری کا وعدہ کر رکھا تھا، چنانچہ آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے دشمنوں کی سرزمین سے پیار کرنے والوں کی طرف اور مشرکوں کے علاقے سے توحید والوں کے علاقے میں منتقل ہو گئے۔ اکثر صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم اپنے اہل وعیال، بہن بھائی، اولاد، خاندان اور شہر و وطن چھوڑ کر مدینہ جا چکے تھے۔ انھیں اس راہ میں بھوک پیاس، تھکاوٹ اور کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے انھوں نے سب کچھ راضی خوشی برداشت کیا۔

نبی ﷺنے ہجرت کے لیے سفر کا سامان تیار کیا اور اہل مکہ کی جو امانتیں آپ کے پاس تھیں، انھیں لوٹانے کی ذمہ داری سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ  کو دی۔ ہجرت کے روز وہ اسی وجہ سے آپ کے ساتھ نہ جا سکے۔ وہ کمال دلیری اور بہادری سے نبی اکرمﷺ کے بستر پر لیٹ گئے۔ انھوں نے چمکتی تلواروں اور لہراتے نیزوں سے ڈرے بغیر نبی اکرم ﷺکی خاطر اپنی جان کی قربانی تک دینے کا عزم کر لیا اور نبی معصوم ﷺکی جان کے سامنے مضبوط ڈھال بن گئے۔ نبی اکرم ﷺکے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وہی قدر و منزلت تھی جو ہارون علیہ السلام  کی موسی علیہ السلام کے نزدیک تھی۔ وہ کئی بار رسول اللہ ﷺ  کی پریشانی دور کرنے کا باعث بنے تو اللہ تعالی نے ابوالحسن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا چہرہ روشن کر دیا اور ان سے راضی ہوا۔

اس کے بعد نبی اکرم ﷺ اپنے انتہائی وفادار اور امین دوست سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ وہ سب سے پہلے اسلام لانے والے اور تنگی و آسانی میں آپ کے سفر و حضر کے ساتھی تھے۔ اب وقت ختم ہو چکا تھا اور جدائی کے لمحات قریب تھے۔ گھر بار اور وطن چھوڑ نا بڑا مشکل ہوتا ہے!

وطن سے جدائی کی گھڑیاں، بالخصوص جب آپ کو زبردستی نکالا جا رہا ہو، کتنی شدید ہوتی ہیں! یہ بیان سے باہر ہے۔ ان لمحات کو نثر میں بیان کیا جا سکتا ہے نہ اشعار میں سمویا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے جلا دوطنی اور قتل کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ ؕ﴾

’’اور اگر واقعی ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا تم اپنے گھروں سے نکلو تو ان میں سے چند ایک کے سوا کوئی بھی یہ کام نہ کرتا۔‘‘ (النساء 66:4)

نبی ﷺ ایک جدا ہونے والے شخص کی طرح رکتے ہیں جسے ماضی کے سارے مناظر نے گھیر لیا ہو اور وہ وطن سے وابستہ یادوں کو ذہن میں لاکر رو پڑا ہو، چنانچہ آپ مکہ کو ایک نظر دیکھتے ہیں تو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔ آپ کی زبان مبارک حرکت میں آتی ہے:

((وَاللهِ! إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ، وَ أَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ))

’’اللہ کی قسم ! بلاشبہ تو اللہ تعالی کی بہترین زمین اور اللہ تعالی کی محبوب ترین زمین ہے اور اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ  نکلتا۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب المناقب عن رسول الله ﷺ ، حديث: 3925)

 نبی اکرم ﷺنے بچپن کی یادگار یں چھوڑیں۔ جن گلی کوچوں میں آپ کا بچپن گزرا، پروان چڑھے اور جوان ہوئے ، ان کو خیر باد کہا۔ دوست احباب، اہل وعیال اور ہمسایوں سے جدا ہوئے۔ یہ احساس ہی دل و جان پر کتنا گراں گزرتا ہے!

پھر آپ ﷺ سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر چلے اور غار ثور کی طرف گئے۔ وہاں تین راتیں گزاریں۔ یہ لمحات نہایت کٹھن اور مشکل تھے جنھیں تاریخ کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحات تھے جن میں مشرکین مکہ نے آپ کو ڈھونڈنے کے لیے سرزمین مکہ کا چپہ چپہ چھان مارا۔ پہاڑوں، ٹیلوں اور وادیوں میں آپ کو تلاش کیا اور بالآخر حسد و کینہ اور بغض و دشمنی سے بھرے پچاس نوجوان تلوار میں لٹکائے اس غار تک آپہنچے اور اس کو گھیر لیا۔ وہ سب آپ کے خون کے پیاسے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنی خوبصورت تدبیر سے انھیں اندھا کر دیا اور نہایت لطافت سے ان کی چال نا کام کر دی۔ وہ غار کے دہانے پر کھڑے رہے مگر اس میں داخل نہ ہوئے۔ اس موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم ﷺکے لیے فکرمند ہوئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لے تو ہم اسے ضرور نظر آجائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «مَاظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ، اللهُ ثَالِثُهُمَا؟)) ’’اے ابوبکر! ان دو کے متعلق تیرا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے؟‘‘  (صحيح البخاري، فضائل أصحاب النبي ﷺ ، حديث: 3653)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺکو اللہ تعالی کی معیت پر کسی قدر اعتماد تھا۔ اپنے معاملات اللہ تعالی کے سپرو کرنے اور اس کی مدد و نصرت کے بارے میں آپ کو کتنا کامل یقین تھا۔ آپ نے سچے دل سے اللہ جل شانہ کی قوت کا سہارا لیا۔ آزمائشوں اور بحرانوں میں انبیاء  علیہم السلام کی یہی شان رہی ہے اور مشکلات میں اولیاء کا یہی طرز عمل ہے۔ پھر غور کریں کہ کسی طرح اللہ تعالی نے آپ کا دل مضبوط کیا۔ قوی یقین بخشا اور دل پر سکون و اطمینان نازل کیا ؟! آپ وہاں سے ہلے نہ آنکھ جھپکی بلکہ مضبوط چٹان کی طرح بے خوف و خطر اپنے ساتھی سے کہتے رہے: ((لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا)) ’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

آپﷺ نے ایک عظیم الشان اور جلیل القدر درس دیا کہ جو کسی بحران، کرب، تکلیف اور پریشانی سے گزر رہا ہو، وہ یہ یاد کرے کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہے اور کثرت سے اللہ تعالی کے حضور التجا اور گریہ و زاری کرے۔ اللہ تعالی اسے کبھی رسوا کرے گا اور نہ تنہا چھوڑے گا بلکہ ہر صورت میں اس کی مدد کرے گا اور ہر غم و پریشانی اور تنگی سے اسے نکالے گا۔

قرآن مجید نے بڑے خوبصورت اور دلکش انداز میں اس منظر کا نقشہ کھینچا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰی ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۰﴾

’’اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو تحقیق اللہ نے اس کی (اس وقت) مدد کی (تھی) جب کافروں نے اس کو  (مکہ سے) نکال دیا تھا۔ (وہ) دو میں دوسرا تھا، جبکہ وہ دونوں غار (ثور) میں تھے، جب وہ (نبی) اپنے ساتھی (ابوبکر) سے کہہ رہا تھا غم نہ کر،  یقینًا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر اللہ نے اس پر اپنی سکیت نازل کی اور ایسے لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے نہیں دیکھا۔ اور اس نے کافروں کی بات نیچی کر دی اور بات تو اللہ ہی کی سب سے بلند ہے۔ اور اللہ سب پر غالب ، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبة 40:9)

اب میں آتا ہوں اس غار کی طرف جس میں رسول اکرم ﷺاور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ روپوش ہوئے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ خوفناک، تنگ اور تاریک غار پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ وہاں نہ کوئی بچھونا تھا نہ روشنی، نہ کرسی نہ چار پائی اور نہ کھانے پینے کا کوئی بندوبست۔ اس کے باوجود نبی اکرمﷺ اپنے اللہ کے ساتھ نہایت مانوس، مطمئن اور راضی تھے۔ آپ کو دلی کشادگی حاصل تھی اور اپنے رب کے وعدے پر پختہ یقین تھا کہ اللہ تعالی کا پیغام پہنچانے کے لیے ہجرت کا یہ سفر ضرور مکمل ہوگا اور اللہ جل شانہ اپنے دین کی بہر صورت مدد و نصرت فرمائے گا۔

ادھر سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ ہے بکریاں چراتے چراتے شام کے بعد اس طرف آتے اور دودھ دوہ کر پیش کرتے۔ یوں  آپ ﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ دودھ پر گزارا کرتے۔ وہ تین روز تک اسی طرح کرتے رہے۔

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا ہجرت کے سفر کے لیے کھانا تیار کرنے لگیں تو کھانے کے تھیلے اور مشکیزے کا منہ باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی۔ انھوں نے اپنے کمر بند کے دو حصے کیے اور ایک کے ساتھ توشہ دان باندھ دیا اور دوسرے کے ساتھ مشکیزہ۔ یوں انھیں ذات النطاقین کہا جاتا ہے۔ یہ نام ان کے لیے باعث عزت و شرف ہے۔

رسول اکرمﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بنودیل کے ایک آدمی کو راستہ بتانے کے لیے اجرت پر لیا جس کا نام عبد اللہ بن اریقط تھا۔ اس وقت وہ مشرک تھا۔ دونوں حضرات نے اس پر اعتماد کیا اور اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالے کر دیں اور اس سے تین دن کے بعد غار ثور میں آنے کا وعدہ لیا، چنانچہ وہ تیسری رات کی صبح دونوں سواریاں لے کر ان کے پاس آیا تو آپ دونوں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ عامر بن فہیر ہ بھی چلے اور وہ رہنما بھی جو قبیلۂ دیل سے تھا۔ وہ انھیں مکہ کے زیریں علاقے، یعنی ساحل سمندر کے راستے پر لے گیا۔ (صحیح البخاري، الإجارة، حديث: 2263)

تمام اسباب اختیار کرنے اور ہر طرح کی احتیاط و تدبیر کے باوجودآپ ﷺ نے ان چیزوں پر کلی اعتماد نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کی تائید اور نصرت پر مکمل یقین اور توکل کیا۔ آپ ﷺ نے یہ سفر پوری امید اور اطمینان وسکون سے کیا۔ آپ کو اللہ تعالی کی حفاظت اور اچھے انجام پر کامل یقین تھا۔ آپ ﷺ نہایت پر اعتماد قدموں ، ہمت و حوصلہ اور قوت و عزیمت کے ساتھ چلے۔ یہ مہاجر مجاہد تاریخ میں ایک عظیم الشان نقش قائم کرنے اور بے مثال کارنامہ سر انجام دینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

آپ ﷺ مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے قریش مکہ کے ان جاسوسوں سے بچ بچا کر چھپتے چھپاتے نکلے جو سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں ہر طرف مارے مارے پھر رہے تھے۔ قریش مکہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص محمدﷺ کا سر مبارک اتار کر لائے گا، وہ اسے نہایت قیمتی سو اونٹ بطور انعام دیں گے۔ لوگ انعام کے چکر میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرم کرنے کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے اور وہ جرم تھا نبی رحمت محمد بن عبداللہ ﷺ کا قتل۔  اگر محمد ﷺ کو قتل کر دیا جاتا تو یہ پوری نسانیت اور رحمت کا قتل تھا۔ اور اگر محمدﷺ پر شب خون مارا جاتا تو یہ کرامت و مروت پر شب خون تھا۔ اور اگر آپ کو راہ سے ہٹایا جاتا تو یہ عزت و شرف اور طہارت و پاکیزگی کا صفایا کرنا تھا۔

ایک گھڑ سوار سراقہ بن مالک انعام کے لالچ میں نیزہ لہراتا ہوا نبی اکرم ﷺکے قریب آنا پہنچا۔ نبیٔ اکرمﷺ نہایت مطمئن اور پرسکون ہیں۔ آپ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ قرآن کی تلاوت جاری رکھتے ہیں۔ اور قرآن مجید دن رات آپ کا زاد راہ، نہ ختم ہونے والی قوت، نا قابل تسخیر معاون اور لافانی خزانہ تھا۔

سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کو خبر دیتے ہیں کہ گھڑ سوار قریب آگیا ہے۔ آپ اس کے لیے بددعا کرتے ہیں تو سراقہ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ گر جاتا ہے۔ وہ بار بار اٹھنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہر بار اس کا گھوڑا ٹھوکر کھاتا ہے اور وہ گر جاتا ہے۔ سراقہ کو یقین ہو گیا کہ یہ معاملہ انسانی طاقت سے باہر ہے۔ اس نے نبی اکرم  ﷺ سے امان طلب کی۔ آپ نے اسے امان دے دی۔ سراقہ نے عرض کیا: مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے۔ اب میرے حق میں دعا کریں۔ میری طرف سے تمھارے لیے اللہ تعالی ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمھاری طرف سے لوٹا دوں گا۔   آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا، پھر لوٹ گیا۔ وہ جس پیچھا کرنے والے کو ملتا، اس سے یہی کہتا: میں تمھاری طرف سے تلاش کر چکا ہوں ، وہ اس طرف نہیں ہیں۔ وہ جس کسی سے بھی ملتا  اسے لوٹا دیتا۔ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حدیث: 2009)

اس موقع پر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: سراقہ دن کے آغاز میں آپ سر کو پکڑنے والا تھا اور دن کے آخری حصے میں آپ کے لیے ہتھیار کا کام دینے لگا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث: 3911)

اس سے بھی بڑھ کر تعجب و حیرانی والی یہ بات ہے کہ آپ نے اسے وہ خوشخبری دی جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے اور آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ آپﷺ گھر سے نکال دیے گئے اور صحرا میں مہاجر بن کر جان بچاتے ہوئے جا رہے ہیں مگر سراقہ سے فرماتے ہیں: ’’سراقہ! وہ کیا منظر ہو گا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے؟‘‘ یہ سن کے سراقہ دم بخود رہ گیا اور کہا: کسرٰی نوشیروان کے کنگن؟! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ پھر حالات بدلتے ہیں اور آپﷺ کے پیروکار فتح یاب ہوتے ہوتے بلاد فارس فتح کر لیتے ہیں۔ کسرٰی کا تخت و تاج اور کنگن امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کیے جاتے ہیں اور آپ سراقہ کو بلا کر وہ نکن اسے پہنا دیتے ہیں۔ (السنن الكبرى والإصابة وغيرهما)

غور کریں، آپ کس طرح پر امید ہیں! آپ نے سراقہ کی ناکامی سے اچھی فال لی اور اسے اپنے روشن مستقبل، عظیم غلبے اور کامیابی کی خوشخبری سنائی ! حالانکہ آپ خود اس وقت سخت آزمائش اور مشکل ترین حالات سے دوچار تھے۔

آپ ﷺ کا مشکلات سے بھر پور سفر جاری ہے۔ سخت گرمی میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، عامر بن فہیرہ اور رہبر عبدالله لیثی کی معیت میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس دوران میں آپ ام معبد کے خیمے کے پاس سے گزرتے ہیں۔ اس کا نام عاتکہ بنت کعب خزاعیہ تھا۔ یہ لوگ ام معبد سے گوشت اور کھجور خریدنا چاہتے ہیں مگر اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اکرم ﷺ  کی نظر جیسے میں ایک طرف موجود بکری پر پڑتی ہے تو آپ پوچھتے ہیں:

’’ام معبد! یہ بکری کیسی ہے؟‘‘ ام معبد نے کہا: کمزوری کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ جنگل میں نہیں جاسکی۔ فرمایا: ’’کیا دودھ دیتی ہے؟‘‘  ام معبد نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! وہ تو بہت کمزور ہے۔

فرمایا: ’’کیا تمھاری اجازت ہے کہ میں اسے دوہ لوں؟‘‘  ام معبد نے عرض کیا: اگر آپ کو اس کے پاس دودھ معلوم ہوتا ہے تو آپ کو اختیار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو پاس منگوا کر اس کے تھنوں اور پشت کو سہلایا اور بسم اللہ کہی۔ ام معبد کے لیے بکری کے سلسلے میں کچھ دعا کی۔ بکری نے فوراً ٹانگیں پھیلا دیں اور دودھ جاری ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک برتن منگوایا۔ برتن اتنا بڑا تھا کہ وہ سب لوگ اس میں دودھ پی کر سیر ہو جایا کرتے تھے۔ آپ نے اس برتن میں دودھ دوہا۔ دودھ کا جھاگ برتن کے منہ تک آگیا اور دودھ اوپر تک بھر گیا۔ رسول اللہﷺ نے پہلے ام معبد کو دودھ پلایا۔ وہ سیر ہو گئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا۔ وہ بھی سیر ہو گئے تو سب سے آخر میں خود پیا۔ پھر دوبارہ دوہا، پھر بھی برتن بھر گیا۔ وہ بھرا برتن  آپ ﷺ نے اس کے پاس چھوڑا اور اس سے بیعت لی اور وہاں سے سب روانہ ہو گئے۔ (المستدرك للحاكم : 543/3)

یہ ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی کا سب سے افضل اور خوبصورت دن تھا۔ آپ ﷺ کی ان کے گھر آمد سے ان کا گھر خیر و برکت اور فضل و احسان سے ایسا بھرا کہ اسے کبھی نہیں بھلا یا جا سکے گا۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت کے اس سفر میں رسول اکرمﷺ کی خدمت کرتے۔ آپ کے کھانے پینے اور راحت و آرام کا بندو بست کرتے۔ ایک روز دوپہر کے وقت آپ کو ٹھنڈے سائے میں بٹھایا اور آرام کرنے کی درخواست کی۔ خود ایک چرواہے کے پاس دودھ لینے کے لیے گئے۔ ایک بکری کا دودھ دوہ کر لائے۔ پھر پانی کا ایک برتن لیا اور وہ پانی دودھ میں ملایا تا کہ دودھ ٹھنڈا ہو جائے۔ اس کے بعد   نبی ﷺ کو پیش کیا تو آپ ﷺ نے نوش فرمایا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اس کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ((فَشَرِبَ ﷺ حَتّٰی رَضِيتُ))

پھر آپ ﷺنے نوش فرمایا حتی کہ میرے سینے میں ٹھنڈ پڑگئی۔ (صحيح البخاري، اللقطة، حديث: 2439)

کیا خوبصورت لطف و کرم اور کیا شاندار ایثار ہے کہ پیتے حبیبﷺ ہیں اور خوشی ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہوتی ہے !  سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیل و صدیقﷺ نوش فرماتے ہیں اور پلانے والے سیراب ہو جاتے ہیں۔ اس منظر کی تصویر کشی کرنے سے خطبات و قصائد اور الفاظ اور جملے قاصر ہیں۔ یہ وفا و صداقت اور ایثار و محبت کا وہ انداز ہے جو بیان سے باہر ہے۔ یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی نبی اکرمﷺ سے محبت اور وفا کے اظہار کا حیرت انگیز طریقہ ہے۔

وہ سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں فلک بوس پہاڑوں اور بنجر صحراؤں کو عبور کرتے ہوئے بھوک، پیاس، تھکاوٹ، شدید خوف، سفر کی مشکلات اور رستوں کے خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ انھیں نہ تو کوئی آرام دہ سواری میسر تھی نہ لذیذ اور عمدہ کھانا۔

وہ ہر طرف سے چوکنا تھے کہ کسی طرف سے کوئی پکڑنے والا نہ آجائے۔ کہیں سے کوئی دشمن نکل کر حملہ آور نہ ہو جائے ؟! سورج کی آگ برساتی شعاعیں ان کے سروں پر براہ راست پڑ رہی تھیں۔ ریت اور گرد و غبار کی آندھیاں ہر طرف سے چل رہی تھیں لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود آپﷺ نے صبر و استقامت، امید اور اللہ تعالی کے وعدوں پر یقین و اعتماد کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔

اب ہم مدينۃ الرسول،یثرب اور طیبہ کی طرف آتے ہیں جہاں آپ ﷺ کے جاں نثار محبت و شوق اور فرحت وسرور سے دل و نگاہ راہ میں بچھائے آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ جب انھیں علم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر چکے ہیں اور مدینہ طیبہ تشریف لا رہے ہیں تو وہ نہایت محبت اور شوق سے آپ کی ملاقات کا انتظار کرنے کے لگے۔ وہ ان تاریخی لمحات اور مبارک گھڑیوں کو پانے کے لیے، جو دوبارہ کبھی ان کی زندگیوں میں نہیں آئی تھیں، روزانہ مدینہ سے باہر نکل کر آپ کا انتظار کرتے۔ وہ اس عظیم امام اور کریم رسول ﷺ کے دیدار کے لیے بے تاب تھے۔ وہ صبح صبح دن کے آغاز میں باہر نکلتے اور کڑکتی دوپہر تک انتظار کرتے، پھر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: مسلمانوں نے مدینہ میں سنا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے نکل پڑے ہیں تو وہ ہر صبح حرہ کی طرف نکلتے اور آپ کا انتظار کرتے۔ دو پہر کی گرمی زور پکڑتی تو واپس جاتے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث: 2006)

 اسی طرح وہ ہر روز مکہ والی جانب شہر سے باہر نکلتے۔ اس طرف سے آنے والے مسافروں اور چرواہوں سے پوچھتے کہ تم نے کوئی سوار یا آنے والا دیکھا ہے؟! وقت ان کے لیے گویا رک گیا تھا اور انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ آقا سے کب ملاقات ہو گی ؟! ان کے دل سب سے محبوب اور اکرم و اشرف شخصیتﷺ کو دیکھ کر کب ٹھنڈے ہوں گے ؟! ان کی روحوں کو اس یادگار ملاقات سے کب سکون پانے کا موقع میسر آئے گا ؟! تاریخ انسانی کے سب سے معزز مہمان اولاد آدم کے سردار ﷺکب پہنچیں گے؟!

آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ وہ عظیم لمحہ اور مبارک وقت آن پہنچا جب چاشت کے وقت ایک اعلان کرنے والے نے آواز لگائی: رسول اکرم ﷺپہنچ چکے۔ ہادی نبی ﷺ آگئے۔ یہ کیا خوبصورت منظر تھا اور کیا عظیم آمد تھی ! انصار رضی اللہ تعالی عنہم یہ سن کر تلوار میں لٹکائے جلدی جلدی استقبال کے لیے نکلے۔ عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئیں اور بچے گلی بازار میں آگئے۔ پورا مدینہ خوشی سے معمور تھا۔ ہر شخص رحٰمن کے محبوب اور کائنات کے عظیم ترین انسان ﷺکی زیارت کا شوق دل میں بسائے بے تاب تھا۔

آپ ﷺ کی آمد کا دن فرحت و سرور اور رونق و خوشی کا دن تھا۔ ایسا دن مدینہ میں اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ آپ ﷺ اپنے روشن اور چمکتے چہرے کے ساتھ وحی، سنت اور رحمت کے نور سے جلوہ افروز ہوئے۔ آنسوؤں میں ڈوبی مسکراہٹیں اور فرحت و سرور سے اشکبار آنکھوں کا وہ منظر بیان سے باہر ہے۔ اس منظر کونہ تو کسی شعر میں بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی نثر میں سمویا جا سکتا ہے۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کی مدینہ آمد کی منظر کشی یوں کرتے ہیں: میں نے کبھی اہل مدینہ کو اتنا خوش نہیں دیکھا جس قدر وہ آپ ﷺ کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے خوشی سے کہنے لگے تھے: یہ اللہ کے رسول ﷺہیں جو ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں۔ (صحیح البخاري، التفسير، حديث: 4941)

انصار آپ ﷺکا استقبال کرنے اور خوش آمدید کہنے کے لیے ہر طرف سے آ رہے تھے۔ وہ آپ کے قدموں تلے پلکیں بچھانے اور آپ ﷺ کی آمد پر دل و جان لٹانے کی تڑپ رکھتے تھے۔ اس دن کے بارے میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : جس دن رسول اللہﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے، آپ کی آمد سے ہر چیز روشن ہو گئی۔ (جامع الترمذي، أبواب المناقب، حديث: 3618)

نبی ﷺ کا چہرہ ٔمبارک چڑھتے سورج سے زیادہ خوبصورت اور چودھویں کے چاند سے زیادہ روشن تھا۔ اہل مدینہ کی آنکھیں خوشی سے نم تھیں۔ دل فرحت و سرور سے اڑے جا رہے تھے اور روحیں آپ کی محبت میں گم تھیں۔ یا الله محمد بن عبداللهﷺ آج مہمان بنے ہیں۔ یا اللہ رسول  ہدیٰ تشریف لائے ہیں۔ یا اللہ ! اللہ کے نبی اور خاتم المرسلینﷺ کی آمد مبارک ہوئی ہے۔

آپ ﷺقباء پہنچے تو بنو عمرو بن عوف کے کلثوم ہدم رضی اللہ تعالی عنہ میزبانی کا شرف پانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ آپ کو اپنے گھر لے آئے اور سید نا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خبیب بن اساف رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں ٹھہرے۔ رسول اکرم ﷺنے بنو عمرو سالم بن عوف کے ہاں دس پندرہ روز قیام فرمایا اور مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ وہی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اور آپ ﷺ نے اس میں نماز پڑھی۔ پھر آپ ﷺمدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو بنو سالم بن عوف کے محلے میں جمعے کا وقت ہو گیا۔ آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور بطن الوادی میں واقع مسجد کی جگہ نماز ِجمعہ ادا کی۔ اس جمعے میں تقریباً سو آدمی تھے۔ یہ مدینہ طیبہ میں پہلا جمعہ تھا۔ پھر آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور لوگوں کی صفوں سے ایسے گزرے جیسے چودھویں کا چاند بادلوں سے گزرتا ہے۔ ہر کوئی خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ آپ کو مرحبا اور خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ لوگوں کا شوق اور ولولہ دیدنی تھا۔ ہجوم اس منظر کے تعاقب میں تھا جو آپ ﷺ کی شکل و صورت دلوں میں پیدا کر رہی تھی اور رو میں اس سے متاثر ہو رہی تھیں۔ تمام نظریں اس عظیم امام اور کریم   نبی ﷺ پر جمی ہوئی تھیں کہ دیکھیں آپ کی اونٹنی کہاں بیٹھتی ہے؟! چنانچہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے نہایت بہترین جگہ کا انتخاب کرتی ہے اور وہ جگہ رسول اکرم ﷺکے ننھیال بنو نجار کی ہے۔ یہ ان کے ساتھ صلہ رحمی اور ان کی عزت و تکریم تھی۔ جہاں آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھی ، آپ وہاں اتر گئے۔ یہ اونٹنی وہاں بیٹھی جہاں مسجد نبوی ہے۔ ان دنوں مسلمان مرد وہاں نماز ادا کرتے تھے اور یہ جگہ انصار کے دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی جو کھجوروں کا کھلیان تھا۔ یہ دونوں بچے سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زیر پرورش تھے۔ جب نبی ﷺ  کی اونٹنی وہاں بیٹھی تو آپﷺ نے فرمایا:  ’’ان شاء اللہ یہی ہمارے قیام کی جگہ ہو گی۔ ‘‘ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تا کہ وہاں مسجد تعمیر کی جاسکے۔ دونوں نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے لیکن نبی کریمﷺ نے مفت قبول کرنے سے انکار کیا۔ زمین کی قیمت ادا کر کے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث: 3906)

اس دوران میں سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے بڑھ کر آپ کی سواری کی لگام تھام لی اور آپ کا جو تھوڑا بہت سامان تھا، وہ اٹھا لیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے انھیں سب سے پہلے آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف بخشا۔ آپ کے پاس جو سامان تھا، وہ شاید ایک آدھ کپڑا، روٹی کے چند خشک ٹکڑے، عمامہ یا پیالہ ہو گا لیکن حقیقت میں آپﷺ سب سے عظیم سامان ، سب سے بڑا زاد راہ اور وسیع تر عطیات لے کر آئے تھے۔ آپﷺ رب العزت کے احسانات، اللہ تعالی کی برکات اور آسمانی رسالت کے ساتھ جنت الفردوس کی چابیاں لے کر آئے تھے تا کہ ان کے ایمان، وفا اور نصرت کے بدلے وہ چابیاں ان کے سپرد کریں۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی مدد و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿إِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ﴾ ’’اگر تم نے رسول ﷺ کی مدد نہ کی تو  یقینًا اللہ تو ان کی مدد کر چکا ہے۔‘‘ (التوبة 40:9)

 سب کو معلوم ہے کہ آپ نے ہجرت کی اور اس سفر میں آپ سے ہم نے کوئی غزوہ نہیں لڑا نہ کوئی معرکہ ہوا کہ مدد وغیرہ کا پتہ چلتا۔ پھر اللہ تعالی نے گون کی مدد کی ؟!

بلا شبہ کسی مصر کے یا غزوے میں مدد اور غلبہ نصرت الہی کی ایک صورت ہے لیکن زندگی کے اس سفر میں مدد و

نصرت اور غلبے کی اس سے بھی کئی بڑی، عظیم اور افضل صورتیں موجود ہیں، مثلاً: زندگی کے بڑے بڑے اہداف پانے میں کامیاب کرنا اور اچھا و مبارک انجام جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا۔ ایمان و دعوت کی سلامتی کے ساتھ آپ کا مدینہ طیبہ پہنچنا بذات خود سب سے بڑی نصرت اور غلبہ تھا۔

مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی اکرمﷺ نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور دعوتی مرکز کے طور پر ایک مسجد تعمیر کی جو رسالت و نورانیت کا گہوارہ اور علماء، اولیاء، شہداء اور معززین کی آماجگاہ تھی۔ یہ مسجد ربانی منصوبے کا وہ منارہ ہے جس کے ساتھ دل و نگاہ روشن ہوئے اور اس کے بعد آپ کے لیے ساری دنیا کھول دی گئی۔ ہجرت آپ کی کے مقاصد کی تکمیل اور انتہا نہیں تھی بلکہ یہ ان عظیم مقاصد کی ابتدا اور آغاز تھا۔ یہ مشکلات و مصائب اور چیلنجوں کا وہ سفر تھا جس میں آپ کا غالب آئے، مشکلات پر قابو پا لیا اور امت کے مطلوبہ مستقبل کا حصول یقینی بنایا۔ آپ ﷺ نے ایک روشن انسانی تہذیب کی بنیاد رکھی جس کا دار و مدار عدل و احسان اور تقوی و ایمان پر تھا۔

اللہ تعالی درود و سلام نازل فرمائے اس ہستی پر جس کے ساتھ اس نے انصاف قائم کیا۔ اس پر قرآن اتارا۔ کفر و بہتان کے پردے چاک کیے۔ اور بتوں اور صلیب کو اس کے ذریعے سے توڑا۔ اتنا درود و سلام جتنی پھولوں کی مہک اور خوشبو، باغات کے رنگ و بو، دلوں کی دھڑکنیں اور دن رات کی گردشیں ہیں۔ اور اس وقت تک درود و سلام کی بارش برستی رہے جب تک جن و انس آپﷺ پر درود و سلام پڑھتے رہیں۔

……………………