امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک کرنے کا انجام
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ۔ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾ (سوره مائده آیت 78،79)۔ ترجمہ: بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد علیہ السلام اور عیسی بن مریم علیہا السلام کی زبانی لعنت کی گئی، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے، جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینًا وہ بہت برا تھا۔
عَنِ النُّعْمَانِ بنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَثَلُ القائم على حُدُودِ اللهِ وَالوَاقِعِ فِيْهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فَأَصَابَ بَعْضُهُم أَعْلاهَا وَبَعْضُهُم أسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَن فَوقَهُم ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبَنَا خَرُقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرَكُوهُم وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِم نَجَوا وَنَجَوا جَمِيعًا. (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری کتاب الشركة، باب هل يقرع في القسمة والاستهام فيه.)
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے ( یعنی خلاف کرنے والے ) کی مثال ایسے ہے جیسے کہ لوگوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ ملا اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے ، انہیں جب پیاس لگتی تو دریا کا پانی لینے کے لئے اوپر والوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا ۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں۔ تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والوں نے ان کے ارادے سے ان کو نہ روکا تو تمام کشتی والے ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور کشتی میں سوار سارے لوگ بھی بچ جائیں گے۔
وَعَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَر أو لِيُوشِكُنَّ اللَّهُ أَن يَبْعَثُ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَكُم. (أخرجه الترمذي)
(سنن ترمذی، ابواب الفتن عن رسول الله، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وصححه الألباني في الصحيحة (2868)
حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم بھلائی کا ضرور حکم دو اور برائی سے ضرور رو کو ، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تمہارے اوپر عذاب بھیج دے پھر تم لوگ دعا کرو گے مگر قبول نہ کی جائے گی۔
تشریح:
بہترین معاشرہ کی تشکیل کے لئے اساسی شرط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بروئے کار لاتا ہے یعنی ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں پر بھی کوئی برائی دیکھے اسے مٹانے کی کوشش کرے یہ نہ سوچے کہ یہ کام تو علماء کا ہے وہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر یہ احساس ہر شخص کے اندر پیدا ہو جائے تو یقیناً معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو جائے گا اور اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تعالی ہم تمامی حضرات کو ایک صالح معاشرہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ بنی اسرائیل پر لعنت برائیوں پر خاموش رہنے کی وجہ سے ہے۔
٭ سوسائٹی اور معاشرہ کو ہلاک و بر باد کرنے کا سبب برائیوں پر خاموشی ہے۔
٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کر نا دعا کی عدم قبولیت کا سبب ہے۔
٭ عذاب الہی میں گرفتاری کا سبب برائیوں پر خاموش رہتا ہے۔