روزِ قیامت کی ہولناکیاں (۱)
اہم عناصر خطبہ :
٭ بندوں کو کس طرح اٹھایا جائے گا ؟
٭ حشر کی کیفیت
٭ ہر ایک کو اپنی فکر دامن گیر ہوگی
٭روزِ قیامت کا پسینہ
٭ دعوت فکر وعمل
٭مقام محمود اور شفاعت ِ کبری
٭ یومِ قیامت پیشی کا دن
٭ یومِ قیامت حساب کا دن
٭یومِ قیامت فیصلہ کا دن
٭ یومِ قیامت باز پرس کا دن
٭ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ہم کلام ہو گا
٭ لوگوں کے درمیان قصاص
٭ حقوق العباد کے متعلق پوچھ گچھ
پہلا خطبہ
برادران اسلام !گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے قیامت کی علامات،قیامت سے پہلے واقع ہونے والے بعض امور اور وقوعِ قیامت کی کیفیت کا تذکرہ کیا تھا جبکہ آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ روزِ قیامت کی ہولناکیاں بیان کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کواس دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین
ہر بندہ اپنے آخری عمل پر اٹھایا جائے گا
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَیْہِ )) صحیح مسلم :2878
’’ ہر بندے کو اس عمل پر اٹھایا جائے گاجس پر اس کی موت آئی ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ عَذَابًا أَصَابَ الْعَذَابَ مَنْ کَانَ فِیْہِمْ ، ثُمَّ بُعِثُوْا عَلٰی نِیَّاتِہِمْ۔وفی لفظ البخاری : عَلٰی أَعْمَالِہِمْ )) صحیح البخاری:7108، صحیح مسلم:2879
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس قوم کے تمام افراد کو عذاب پہنچتا ہے ، پھر انھیں ان کی نیتوں پر( اور بخاری کی روایت میں ہے کہ ان کے اعمال پر ) اٹھایا جائے گا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اَلنِّیَاحَۃُ عَلیَ الْمَیِّتِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ،وَإِنَّ النَّائِحَۃَ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتَ فَإِنَّہَا تُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہَا سَرَابِیْلُ مِنْ قَطِرَانٍ،ثُمَّ یُعْلٰی عَلَیْہَا بِدِرْعٍ مِنْ لَہَبِ النَّارِ )) سنن ابن ماجہ:1582۔ وصححہ الألبانی
’’ میت پر ماتم کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے ۔ اور ماتم کرنے والی عورت اگر توبہ کئے بغیر مرجائے تو اسے قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس پر گندھک کا لباس ہو گا ، پھر اس کے اوپر اسے آگ کے شعلوں کی قمیص پہنائی جائے گی ۔‘‘
محترم بھائیو ! ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں کامیابی کادار ومدار انسان کے خاتمہ اور اس کے آخری عمل پر ہے جس پر اس کی موت واقع ہوئی۔ لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام گناہوں سے فورا سچی توبہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور عقیدۂ توحید اور نیک اعمال پر ثابت قدم رہیں تاکہ ہمارا خاتمہ اس حال میں ہو کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو ۔
اٹھنے کے بعد لوگ کہاں ہو ں گے ؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمٰوَاتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ﴾ إبراہیم14:48
’’ جس دن اس زمین کے علاوہ کوئی اور زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے اور تمام لوگ اللہ کے سامنے حاضر ہو ں گے جو ایک ہے اوروہ سب پر غالب ہے ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزِ قیامت جب لوگوں کو اٹھایا جائے گا تواُس دن زمین وآسمان یہ نہیں ہونگے جو اس وقت ہیں بلکہ انہیں ختم کرکے اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کوئی اور زمین پیدا فرمائے گا جس پر لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور کوئی دوسرا آسمان لائے گا جس کے نیچے ان کا حساب وکتاب ہو گا ۔
اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا تھا ۔ اِس دوران یہود کے علماء میں سے ایک عالم آیا اور اس نے کہا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدُ ! (حدیث طویل ہے اور اس میں ہے کہ) یہودی نے سوال کیا : جب ( قیامت کے دن ) اِس زمین کے علاوہ کوئی اور زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے تولوگ کہاں ہو ں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’ وہ پل صراط کے اُدھر اندھیرے میں ہو ں گے ۔ ‘‘ صحیح مسلم ۔ الحیض باب صفۃ منی الرجل والمرأۃ :315
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا کہ اُس دن لوگ کہاں ہو نگے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پل صراط پر ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2791
جبکہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی أَرْضٍ بَیْضَائَ عَفْرَائَ کَقُرْصَۃِ النَقِیِّ لَیْسَ فِیْہَا عَلَمٌ لِأَحَدٍ )) صحیح البخاری:6521، صحیح مسلم :2790
’’ لوگوں کو روزِ قیامت ایک ایسی زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی مانند سفید سرخی مائل ہو گی اور اس پر کسی (عمارت ، مکان اور مینار وغیرہ ) کا نام ونشان نہیں ہو گا ۔ ‘‘ ( یعنی زمین چٹیل میدان ہو گی۔ )
حشر کی کیفیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی ثَلَاثِ طَرَائِقَ:رَاغِبِیْنَ وَرَاہِبِیْنَ،وَاثْنَانِ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَثَلَاثَۃٌ عَلٰی بَعِیْرٍ،وَأَرْبَعَۃٌ عَلٰی بَعِیْرٍ،وَعَشَرَۃٌ عَلٰی بَعِیْرٍ،وَیَحْشُرُ بَقِیَّتَہُمُ النَّارُ تَبِیْتُ مَعَہُمْ حَیْثُ بَاتُوْا،وَتَقِیْلُ مَعَہُمْ حَیْثُ قَالُوْا،وَتُصْبِحُ مَعَہُمْ حَیْثُ أَصْبَحُوْا،وَتُمْسِیْ مَعَہُمْ حَیْثُ أَمْسَوْا)) صحیح البخاری:6522،صحیح مسلم :2861
’’ لوگوں کو تین گروہوں میں اکٹھا کیا جائے گا : ایک گروہ امید رکھنے والے اور ڈرنے والوں کا ہو گا۔ دوسرے گروہ میں دو افراد کے پاس ایک اونٹ ہو گا ، تین کے پاس ایک اونٹ ہو گا ، چار کے پاس ایک اونٹ ہو گا اور دس کے پاس ایک اونٹ ہو گا ۔ اور باقیوں (تیسرے گروہ کے لوگوں )کو آگ اکٹھا کرے گی ، وہ ان کے ساتھ رات گذارے گی جہاں وہ رات گذاریں گے ۔ اور ان کے ساتھ دوپہر کا قیلولہ کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے ۔اور ان کے ساتھ صبح کرے گی جہاں وہ صبح کریں گے۔اور ان کے ساتھ شام کرے گی جہاں وہ شام کریں گے ۔ ‘‘ (یعنی ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ رہے گی ) ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں پہلے گروہ سے مراد نیکو کار لوگوں کا گروہ ، دوسرے گروہ سے مرادوہ لوگ ہوں جنھوں نے نیکیاں بھی کی ہو نگی اور برائیاں بھی اور تیسرے گروہ سے مراد کفار کا گروہ ہو ۔ واللہ اعلم
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کافروں کو ان کے چہروں کے بل کیسے جمع کیا جائے گا ؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلَیْسَ الَّذِیْ أَمْشَاہُ عَلٰی رِجْلَیْہِ فِیْ الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ یُّمْشِیَہُ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟)) صحیح البخاری:4760و6523، صحیح مسلم:2806
’’ کیا وہ ذات جس نے اسے دنیا میں پاؤں کے بل چلایا وہ اسے قیامت کے روز چہرے کے بل چلانے پر قادر نہیں ؟ ‘‘
اٹھنے کے بعد لوگ کس حال میں ہونگے ؟
جب کافروں کو ان کی قبروں سے حشر کیلئے اٹھایا جائے گا تو ان کی پانچ حالتیں ہو نگی :
01.قبروں سے اٹھتے ہوئے : مکمل حواس اور اعضاء کے ساتھ اٹھیں گے ۔
02.حساب وکتاب کیلئے جاتے ہوئے : مکمل حواس اور اعضاء کے ساتھ جائیں گے ۔
03.حساب وکتاب کے دوران : مکمل حواس اور اعضاء کے ساتھ ہوں گے ۔
تاہم ان تینوں حالات میں سے کسی ایک یا دو یا ( ہو سکتا ہے کہ ) تینوں میں وہ بصارت سے محروم ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا. وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ . قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا. قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ﴾ طہ20 : 126-124
’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گا اور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے ؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا ۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دئے جاؤ گے۔ ‘‘
04.جہنم کی طرف جاتے ہوئے : ان کی سماعت ، بصارت اور قوتِ گویائی کو سلب کرلیا جائے گا ۔ یعنی وہ
اندھے ، گونگے اور بہرے ہو نگے ۔ اِس سے مقصود انھیں ذلیل کرنا اور دوسروں کی نسبت ان سے امتیازی سلوک کرنا ہو گا ۔
05.جہنم میں دورانِ اقامت : جب انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا تو ان کے حواس انھیں لوٹا دئیے جائیں گے تاکہ وہ جہنم کی آگ اور اس کے عذاب کا مشاہدہ کرسکیں ۔ لہذا وہ جہنم میں اس حالت میں رہیں گے کہ وہ بولتے ، سنتے اور دیکھتے ہونگے ۔پھر ایک منادی اعلان کرے گا : تم نے ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا ہے اور کبھی تم پر موت نہیں آئے گی ۔ تب ان کی قوتِ سماعت ان سے سلب کرلی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ بصارت اور قوتِ گویائی بھی سلب کر لی جائے لیکن قوتِ سماعت کا سلب کر لیا جانا یقینی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿ لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّہُمْ فِیْہَا لَا یَسْمَعُوْنَ﴾ الأنبیاء21 :100
’’ وہ وہاں ( جہنم میں ) چلا رہے ہو نگے اور وہاں کچھ بھی نہ سن سکیں گے ۔ ‘‘
جبکہ حضرت معاویہ بن حیدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
(( ہٰہُنَا تُحْشَرُوْنَ،ہٰہُنَا تُحْشَرُوْنَ،ہٰہُنَا تُحْشَرُوْنَ رُکْبَانًا وَمُشَاۃً، وَعَلٰی وُجُوْہِکُمْ …تَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی أَفْوَاہِکُمُ الْفِدَامُ،أَوَّلُ مَا یُعْرِبُ عَنْ أَحَدِکُمْ فَخِذُہُ )) أحمد:214/33: 20011۔ وإسنادہ حسن
’’ تمھیں ادھر جمع کیا جائے گا ( تین بار فرمایا ) ( اور تمھارے تین گروہ ہو نگے ) : سواروں کا گروہ ، پیدل چلنے والوں کا گروہ اور ان کا گروہ جنھیں اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا۔۔۔ ۔۔ اور جب تم اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے تو تمھارے منہ بند کئے گئے ہونگے ( یعنی انھیں بولنے سے منع کردیا جائے گا)… اور سب سے پہلے تم میں سے کسی ایک بارے میں اس کی ران بیان دے گی ۔‘‘
لوگوں کو ننگے بدن ، ننگے پاؤں اور غیر مختون حالت میں اٹھایا جائے گا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اور ہمیں وعظ کرتے ہوئے فرمایا :
’’ اے لوگو ! تمھیں اللہ کی طرف ننگے بدن ، ننگے پاؤں اور غیر مختون حالت میں جمع کیا جائے گا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
﴿ کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ ﴾
’’ جیسا کہ ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم اسے دورباہ لوٹائیں کے ۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! قیامت کے روز لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا ۔ اور خبردار ! میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا ، پھر انھیں بائیں طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد ( دین میں ) کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کی تھیں ۔
چنانچہ میں بالکل اسی طرح کہوں گا جیسا کہ نیک بندے (حضرت عیسی علیہ السلام ) نے کہا تھا:﴿وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَأَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ. إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ المائدۃ5:118-117
’’ میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا ، پھر جب تو نے مجھے فوت کردیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے ۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب ہے اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘
تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے انھوں نے دین سے منہ موڑ لیا تھا اور وہ مرتد ہو گئے تھے۔‘‘ صحیح البخاری 3349و3447و4625،صحیح مسلم :2860
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
(( یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا ، قُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلرِّجَالُ وَالنِّسَائُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ؟ قَالَ : یَا عَائِشَۃُ ! اَلْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یَنْظُرَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ)) صحیح البخاری :6527، صحیح مسلم :2859
’’ قیامت کے دن لوگوں کوننگے پاؤں ، ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کیا جائے گا ۔‘‘
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مرداور عورتیں سب اکٹھے ہونگے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہو نگے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’ اے عائشہ ! اس روز کا معاملہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے کہیں زیادہ سخت ہو گا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تُحْشَرُوْنَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا،فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ :أَیَبْصُرُ بَعْضُنَا أَوْ یَرٰی بَعْضُنَا عَوْرَۃَ بَعْضٍ؟ قَالَ : یَا فُلَانَۃُ !﴿لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیْہِ ﴾ )) سنن الترمذی:3332۔ وصححہ الألبانی
’’ تمھیں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کیا جائے گا ۔ ‘‘
ایک عورت نے کہا : کیا ہم ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھ رہے ہو نگے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے فلانہ!ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر دامن گیر ہو گی جو اس کیلئے کافی ہو گی۔‘‘
ہر ایک کو اپنی فکر دامن گیر ہو گی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَلاَ یَسْأَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا. یُبَصَّرُوْنَہُمْ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ. وَصَاحِبَتِہٖ وَأَخِیْہِ. وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْوِیْہِ. وَمَنْ فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ. کَلاَّ إِنَّہَا لَظیٰ. نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی. تَدْعُوْ مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلّٰی . وَجَمَعَ فَأَوْعیٰ﴾ المعارج70 :18-10
’’ اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا ( حالانکہ ) وہ ایک دوسرے کو دکھا دئے جائیں گے ۔ مجرم چاہے گا کہ وہ اپنے بیٹوں کو ، اپنی بیوی اوراپنے بھائی کو ، اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا اور روئے زمین کے سب لوگوں کو اس دن کے عذاب کے بدلے میں دے دے ، پھر وہ (اپنے آپ کو ) نجات دلا دے ۔ مگر ہرگز ایسا نہ ہوگا ، یقینا وہ شعلہ والی آگ ہے جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لانے والی ہے ۔ وہ ہر اس شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے اور جمع کرکے سنبھال رکھتا ہے۔ ‘‘
اور فرمایا : ﴿ فَإِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ . یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ أَخِیْہِ . وَأُمِّہٖ وَأَبِیْہِ. وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ . لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُّغْنِیْہِ﴾ عبس80:37-33
’’ پس جب کان بہرے کردینے والی ( قیامت ) آجائے گی تو اس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اپنی ماں اور اپنے باپ سے ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے دوربھاگے گا ۔ ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر ( دامن گیر ) ہوگی جو اس کو دوسری طرف متوجہ نہ ہونے دے گی ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ
الْأَقْرَبِیْنَ﴾ ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ ۔‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اے قریش کی جماعت ! تم اپنی جانوں کا سودا خود کر لو ( اپنے انجام کی فکر کرلو ) میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے بنو عبد مناف ! میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے عباس بن عبد المطلب !میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے صفیہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی) ! میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اور اے فاطمۃ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہو مانگ لو (لیکن اس بات پر یقین کر لو کہ ) میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔‘‘ صحیح البخاری:4771
اس حدیث کی روشنی میں غور فرمائیں کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز اپنے عزیزوں حتی کہ اپنی پھوپھی اور اپنی لخت جگر کے کام نہیں آئیں گے تو اس دن اور کو ن کسی کے کام آ سکے گا ! کیا یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں کہ اس دن انسان کا نجات دہندہ محض اس کا عملِ صالح ہی ہو گا ؟ لہذا ہمیں عملِ صالح ہی کرنا چاہئے اور عملِ بد سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور ہاں ! اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار بھی ہونا چاہئے اور اسکے ساتھ ہمیں حسن ِ ظن ہونا چاہئے کہ وہ معاف کرنے والا ہے اور رحیم وکریم ہے ۔
روزِ قیامت کا پسینہ
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے:(( تُدْنَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْہُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ ۔ قَالَ سلیم بن عامر:مَا أَدْرِیْ مَا یَعْنِیْ بِالْمِیْلِ، أَمَسَافَۃَ الْأَرْضِ أَوِ الْمِیْلَ الَّذِیْ تُکْحَلُ بِہِ الْعَیْنُ ۔ قَالَ: فَیَکُوْنُ النَّاسُ عَلَی قَدْرِ أَعْمَالِہِمْ فِیْ الْعَرَقِ ، فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی کَعْبَیْہِ،وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی حِقْوَیْہِ،وَمِنْہُمْ مَّنْ یُلْجِمُہُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا،قَالَ: وَأَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم بِیَدِہٖ إِلٰی فِیْہِ)) صحیح مسلم:2864
’’ قیامت کے روز سورج کو مخلوق سے قریب کردیا جائے گا حتی کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر رہ جائے گا (سلیم بن عامر کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ میل سے مراد زمین کی مسافت ہے یا اس سے مراد وہ میل (سلائی) ہے جس کے ذریعہ آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کے مطابق پسینے میں ہو گا ۔ ان میں سے کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک ہو گا ، کسی کا پسینہ اس کے گھٹنوں تک ہو گا ، کسی کا پسینہ اس کی کوکھ تک ہو گا ، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ)کسی کو اس کا پسینہ لگام دے رہا ہوگا ( یعنی اس کے منہ تک ہو گا ۔) ‘‘
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ الْعَرَقَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیَذْہَبُ فِیْ الْأَرْضِ سَبْعِیْنَ بَاعًا،وَإِنَّہُ لَیَبْلُغُ إِلٰی أَفْوَاہِ النَّاسِ أَوْآذَانِہِمْ )) صحیح البخاری:6532،صحیح مسلم:2863
’’ قیامت کے دن پسینہ زمین میں ستر باع ( یعنی دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ ) تک جائے گا اور وہ لوگوں کے منہ یا ان کے کانوں تک پہنچ رہا ہو گا ۔ ‘‘
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَ : یَوْمٌ یَقُوْمُ أَحَدُہُمْ فِیْ رَشْحِہٖ إِلٰی أَنْصَافِ أُذُنَیْہِ )) صحیح البخاری:4938و6531
’’ جب لوگ رب العالمین کیلئے کھڑے ہو نگے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس دن ان میں سے کسی کا پسینہ اس کے کانوں کے درمیان تک پہنچ رہا ہو گا۔ ‘‘
دعوتِ فکر وعمل
برادرانِ اسلام ! ذرا سوچئے جب قیامت قائم ہوگی اس دن ہماری حالت کیا ہو گی ! وہ دن یقینا عظیم ہے جب ایک ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھلا دے گی ۔ جب ایک حاملہ عورت کا حمل ضائع ہو جائے گا ۔جب لوگ بے ہوشی کے عالم میں ہو نگے اور ان پر شدید خوف طاری ہو گا ۔ اس شدید خوف ودہشت سے نجات دینے والی چیز محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری اور اس کی نافرمانی کوچھوڑ دینا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز اس سے نجات نہیں دلا سکے گی۔
اور جب ایک دوست اپنے دوست کا حال تک نہیں پوچھے گا ۔ ایک رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو دیکھتے ہوئے بھی اس سے دور بھاگے گا ۔ جب کانوں کو بہرا کردینے والی قیامت قائم ہو گی اور جب ہر شخص کو صرف اپنی فکر دامن گیر ہو گی حتی کہ دنیا میں جو شخصیات اس سے پیار کیا کرتی تھیں اور اگر کوئی پریشانی آتی تھی تو وہ اسے اپنی آغوش میں لے لیا کرتی تھیں آج وہ بھی اس سے منہ موڑ لیں گی اور ایک مجرم یہ چاہے گا کہ یومِ قیامت کے عذاب سے بچنے کیلئے وہ اپنی اولاد کو ، اپنی بیوی کو ، بہن بھائیوں کو اور اپنے پورے قبیلے کو حتی کہ روئے زمین کےتمام انسانوں کو فدیہ کے طور پر پیش کردے ، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہو سکے گا ۔ اس دن کی آگ ایسی شدید ہو گی کہ گوشت کو ہڈیوں سے علیحدہ کرڈالے گی ۔ اُس عذاب سے نجات دلانے والی چیز کونسی ہے ؟ یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری اور اس کی نافرمانی چھوڑ دینا ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ إِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ﴾ البقرۃ2 :281
’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘
عزیزان گرامی ! اب ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس دن کی سختیوں اور ہولناکیوں سے کس طرح بچا جا سکتا ہے ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) صحیح مسلم:2699
’’ جوشخص کسی کی دنیاوی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی کو ختم کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی کو ختم کردے گا ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی مسلمان کی پریشانیوں کو ختم کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر پریشانی کے بدلے میں قیامت کی پریشانی سے محفوظ رکھے گا ۔
جبکہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کا حساب لیا گیا تو اس کے پاس کوئی خیر کا عمل نہ ملا سوائے اس کے کہ وہ لوگوں سے میل جول رکھتا تھا اور اپنے نوکروں کو حکم دیا کرتا تھا کہ وہ تنگدست پر آسانی کریں ۔ تواللہ تعالیٰ نے کہا : میں اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہوں ۔ لہذا تم ( اے فرشتو ! ) میرے بندے کو معاف کردو ۔‘‘ صحیح مسلم :1561
اسی طرح حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ایک مقروض کو طلب کیا تو وہ کہیں چھپ گیا ۔ پھر وہ اچانک ملا تو کہنے لگا : میں تنگدست ہوں اور قرضہ واپس کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ میں نے کہا : کیا تم اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے ہو کہ تم واقعتاتنگدست ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ تومیں نے کہا : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ
(( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یُّنْجِیَہُ اللّٰہُ مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلْیُنَفِّسْ عَنْ مُّعْسِرٍأَوْ یَضَعْ عَنْہ)) صحیح مسلم ۔ المساقاۃ باب فضل إنظار المعسر:1563
’’جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی پریشانیوں سے نجات دے دے تو وہ تنگدست پر آسانی کرے یا اسے معاف کردے ۔‘‘
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے بارے میں بتایا کہ اسے موت آئی اور وہ سیدھا جنت میں چلا گیا ۔ اس سے پوچھا گیا کہ تو کیا عمل کرتا تھا ؟ تو اس نے خود یاد کرکے جواب دیا یا اسے یاد کرایا گیا کہ : ’’میں لوگوں سے لین دین کرتا تھا تو تنگدست کو مہلت دے دیتا تھا اور وصولی میں در گذر کردیا کرتا تھا ۔ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چنانچہ اسے بھی معاف کردیا گیا ۔‘‘ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا : یہ حدیث تو میں نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ صحیح البخاری :2391و3451، صحیح مسلم :1560
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ سات افراد ایسے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے ( عرش کے ) سائے میں سایہ نصیب کرے گا جبکہ اس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا : عادل حکمران ۔ اور وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت میں ہوئی ۔ اور وہ شخص جس کا دل ہمیشہ مساجد سے لٹکارہا ۔ اور وہ دو آدمی جنھوں نے اللہ کی رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے ۔اور ایک وہ شخص جسے کسی عہدے دار اور خوبصورت عورت نے برائی کیلئے بلایا تو اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔ اور وہ شخص جس نے خفیہ طور پر صدقہ کیا حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔ اور وہ شخص جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :660و1423، صحیح مسلم :1031
اسی طرح حضرت کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْہُ أَظَلَّہُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ )) صحیح مسلم:3006
’’ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اسے معاف کردیا اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں سایہ نصیب کرے گا ۔ ‘‘
مقامِ محمود …تمام اہل ِ محشر کیلئے شفاعت
ہم یہ بات مختلف احادیث کے حوالے سے پہلے عرض کر چکے ہیں کہ قیامت کا دن بہت سخت اور انتہائی لمبا (پچاس ہزار سال کے برابر ) ہو گا ۔ اس دن سورج بہت ہی قریب ہو گا اور اس کی گرمی سے لوگ اپنے پسینوں میں ڈوب رہے ہونگے ۔ وہ اس دن کی سختیوں سے تنگ آ جائیں گے اور اس بات کی خواہش کا اظہار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب وکتاب شروع کرے اور جلد از جلد ان کا فیصلہ فرمائے ۔ چنانچہ وہ مختلف انبیاء کے پاس اس سلسلے میں جائیں گے … لیجئے تفصیلی واقعہ سماعت فرمائیے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ گوشت لایا گیا (چنانچہ اسے پکانے کے بعد ) اس کے بازو کا گوشت آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا جو آپ کو بہت پسند تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں کے ساتھ گوشت کو توڑ توڑ کر کھایا اور پھر فرمایا :
’’ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہو ں گا اور کیا تمھیں پتہ ہے کہ ایسا کس طرح ہو گا؟ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کرے گا جہاں ایک منادی ( پکارنے والے ) کی آواز کو سب سن سکیں گے اور سب کو بیک نظر دیکھا جا سکے گا ۔ سورج قریب آجائے گا اور لوگوں کے غم اور صدمے کا یہ عالم ہو گا کہ وہ بے بس ہو جائیں گے اور اپنی پریشانیوں کو برداشت نہیں کر سکیں گے ۔ چنانچہ وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم سب کی حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟ تو کیا تم کسی ایسے شخص کو نہیں ڈھونڈتے جو تمہارے رب کے ہاں تمھارے حق میں شفاعت کر ے ؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے : چلو آدم ( علیہ السلام ) کے پاس چلتے ہیں ۔ پھر ان کے پاس جاکر ان سے کہیں گے :
اے آدم ! آپ ہمارے اور تمام انسانوں کے باپ ہیں ، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح سے روح پھونکی ۔ اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا تووہ آپ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا ۔ اور اس نے مجھے درخت کے قریب جانے سے منع کیا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی (نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ ۔ اور میری رائے یہ ہے کہ تم نوح( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے :
اے نوح ! آپ زمین پر اللہ کے پہلے رسول تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے شکر گذار بندہ قرار دیا ۔ آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا ۔اور میں نے اپنی قوم پر بددعا کی تھی ، اس لئے (نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ۔ تم ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے :
اے ابراہیم ! آپ اللہ کے نبی اور تمام اہلِ زمیں میں سے آپ ہی اس کے خلیل تھے ۔ آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی تھا اور نہ پھر کبھی ہو گا ۔ وہ (ابراہیم علیہ السلام ) اپنی تین غلطیاں یاد کریں گے اور کہیں گے : (نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ۔ تم موسی ( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ موسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے :
اے موسی ! آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے ساتھ اور آپ کے ساتھ کلام کرکے دوسرے لوگوں پر فضیلت دی ۔ آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
حضرت موسی علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا ۔ اور میں نے ایک ایسی جان کو قتل کردیا تھا جسے قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا (نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ۔ تم عیسی( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ عیسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے :
اے عیسی ! آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے ماں کی گود میں لوگوں سے بات چیت کی ، آپ اللہ کے کلمۂ (کن ) سے پیدا شدہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے مریم ( علیہا السلام ) کی طرف ڈال دیا تھااور آپ اللہ تعالیٰ کی روح سے ہیں ۔ لہذاآپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے؟
حضرت عیسی علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا۔انھیں اپنی کوئی غلطی یاد نہیں آئے گی مگر پھر بھی وہ کہیں گے : ( نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے بس اپنی ہی فکر لاحق ہے ۔ تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ ۔تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس چلے جاؤ ۔چنانچہ وہ آئیں گے اور کہیں گے :
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الأنبیاء ہیں اور آپ کی اگلی پچھلی خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کردی ہیں۔ آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھے شرحِ صدر عطا کرے گا اور مجھے اپنی حمد وثنا ء کے ایسے ایسے الفاظ الہام کرے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر اس نے الہام نہیں کئے تھے ۔ پھر کہے گا :
( یَا مُحَمَّدُ ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ ، سَلْ تُعْطَہْ ، اِشْفَعْ تُشَفَّعْ )
اے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو آپ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا ۔ اور آپ شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا 🙁 یَا رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ ) اے میرے رب ! میری امت ( کو معاف کردے ) ، میری امت ( کو جہنم سے بچا لے )
کہا جائے گا:( أَدْخِلِ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَیْہِ مِنَ الْبَابِ الْأیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ وَہُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیْمَا سِوَی ذٰلِکَ مِنَ الْأبْوَابِ )
اے محمد ! اپنی امت کے ہر اس شخص کو جو حساب وکتاب سے مستثنی ہے جنت کے دائیں دروازے سے جنت میں داخل کردیں ۔ یہ لوگ جنت کے باقی دروازوں سے جانے کے بھی مجاز ہو نگے ۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! بے شک جنت کے ہر دو کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا مکہ مکرمہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ مکرمہ اور بُصری کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری کی روایت میں مکہ مکرمہ اور حمیر کا ذکر ہے ۔) صحیح البخاری :3340 و3361و4712، مسلم :194
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہونگے ، ہر امت اپنے نبی کے پیچھے جائے گی اور کہے گی : اے فلاں ! شفاعت کریں ، اے فلاں ! سفارش کریں یہاں تک کہ شفاعت کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا ۔ اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا ۔‘‘ صحیح البخاری:4718
یومِ قیامت ۔۔۔۔ پیشی کا دن ہے
یعنی اُس دن لوگوں پر ان کے اعمال پیش کئے جائیں گے جیسا کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قیامت کے دن جس شخص کا حساب ہو گا اسے عذاب دیا جائے گا ۔ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اے اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا:﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا﴾ یعنی اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس سے مراد حساب نہیں بلکہ اس سے مراد (عرض ) یعنی پیش کیا جانا ہے اور جس سے حساب وکتاب کے دوران پوچھ گچھ کی جائے گی اسے عذاب دیا جائے گا ۔ ‘‘ صحیح البخاری:103و4939، صحیح مسلم : 2876
اور حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلَاثَ عُرْضَاتٍ:فَأَمَّا عُرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِیْرُ،وَأَمَّا الثَّالِثَۃُ فَعِنْدَ ذٰلِکَ تَطِیْرُ الصُّحُفُ فِیْ الْأیْدِیْ فَآخِذٌ بِیَمِیْنِہٖ وَآخِذٌ بِشِمَالِہٖ )) سنن الترمذی:2425،سنن ابن ماجہ:4277،مسند أحمد:414/4۔وقال الترمذی:ولا یصح ہذاا لحدیث من قبل أن الحسن لم یسمع من أبی ہریرۃ۔وقال الحافظ فی الفتح: 403/11:وأخرجہ البیہقی فی البعث بسند حسن عن عبد اللہ بن مسعود موقوفا
’’ لوگوں کو قیامت کے دن تین طرح سے پیش کیا جائے گا ۔ پہلی دو پیشیوں میں مباحثہ ہو گا اور حجت قائم کی جائے گی جبکہ تیسری پیشی کے بعدہاتھوں میں اعمال نامے پکڑائے جائیں گے ۔ کوئی اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور کوئی بائیں ہاتھ سے ۔ ‘‘
الحکیم الترمذی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ خواہش پرستی کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کریں گے کیونکہ وہ اپنے رب کو نہیں پہچانتے ہو نگے اور وہ یہ گمان کر بیٹھیں گے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کریں گے تو اس طرح ان کی جان چھوٹ جائے گی اور ان کی حجت کوقبول کر لیا جائے گا ۔ اور جہاں تک مومنوں کی پیشی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں خلوت میں بلائے گا اور خلوت ہی میں جسے ڈانٹنا ہو گا ڈانٹے گا ۔ اور اس وقت مومنوں کی حالت یہ ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے شرم کے مارے پسینے میں ڈوب رہے ہونگے پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما کر انھیں جنت میں بھیج دے گا ۔
لہذا ذرا تصور کیجئے کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو نگے ، آپ کے ہاتھ میں آپ کا نامہ اعمال ہو گا جس میں آپ کا ہر عمل لکھا ہوا ہو گا اورہر ایسا عمل جسے آپ دنیا میں لوگوں سے چھپاتے تھے آج وہ ظاہر ہو رہا ہو گا ۔ اور نامۂ اعمال کوئی ایسا عمل نہیں چھوڑے گا جسے آپ نے دنیا میں کمایا ہو گا ۔ آپ انتہائی خوف کی حالت میں اپنا نامۂ اعمال خود پڑھ رہے ہو نگے اورآپ کے سامنے اور آپ کے پیچھے قیامت کی ہولناکیاں ہی ہولناکیاں ہو نگی ۔ اورکتنی ایسی برائیاں ہو نگی جنھیں آپ دنیا میں بھول چکے تھے لیکن آج آپ انھیں اپنے سامنے دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے ۔ اور کتنے عمل ایسے ہونگے جن کے بارے میں آپ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ یہ قیامت کے دن میرے سامنے آجائیں گے ۔ ہائے اس دن کی حسرت وپشیمانی اور ہائے اس دن کی ندامت وشرمندگی !!
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب کرے گا، پھر اسے دوسرے لوگوں کی نظروں سے اوجھل کرکے اس کے گناہوں کا اس سے اعتراف کروائے گا او رکہے گا : کیا تم ( فلاں گناہ ) کو جانتے ہو ؟ وہ کہے گا : ہاں اے میرے رب میں جانتا ہوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : میں نے تمھارے گناہوں پر دنیا میں بھی پردہ ڈال دیا تھا اور آج بھی انھیں معاف کر رہا ہوں ۔ پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دے دیا جائے گا ۔ رہے کفاراور منافق تو انھیں تمام لوگوں کے سامنے پکارا جائے گا اور کہا جائے گا : یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا تھا۔‘‘ صحیح البخاری :2441 و4685 و6070، صحیح مسلم :2786
اسی طرح حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’۔۔۔۔۔ روزِ قیامت ایک شخص کو لایا جائے گا اور( اس کے بارے میں فرشتوں سے ) کہا جائے گا : اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کر و اور اس کے بڑے بڑے گناہوں کو (ابھی) ظاہر نہ کرو ۔ پھر اس پر اس کے چھوٹے گناہوں کو پیش کیا جائے گا اور اسے کہا جائے گا : تم نے فلاں دن فلاں عمل کیا تھا اور فلاں دن فلاں عمل کیا تھا۔ وہ اپنے ان گناہوں کا اقرار کرے گا اور انکار نہیں کر سکے گا اور اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہو گا کہ ابھی وہ بھی پیش کئے جائیں گے لیکن اسے کہا جائے گا : تمھارے لئے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے ۔ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے کئی اور گناہ بھی کئے تھے جو یہاں مجھے نظر نہیں آر ہے ؟
راوئحدیث کا بیان ہے کہ یہ بات کرکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے یہاں تک کہ آپ کی (مبارک ) داڑھیں نظر آنے لگیں ۔ صحیح مسلم :190
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کئی بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور انہیں اپنے خاص فضل وکرم سے جنت میں داخل کردے گا۔ اِس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :
(( لَا یَسْتُرُ اللّٰہُ عَلٰی عَبْدٍ فِیْ الدُّنْیَا إِلَّا سَتَرَ ہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) صحیح مسلم :2590
’’ اللہ تعالیٰ اگر اپنے کسی بندے پر دنیا میں پردہ ڈالتا ہے تو اس پر قیامت کے دن بھی پردہ ڈال دے گا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
(( مَنْ سَتَرَ عَلٰی مُسْلِمٍ عَوْرَتَہُ،سَتَرَ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) صحیح مسلم :2699
’’ جو شخص کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ یومِ قیامت کو اسکے عیبوں پر پردہ ڈال دے گا ۔‘‘
یومِ قیامت ۔۔۔۔ حساب کا دن ہے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
﴿ اِقْرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا﴾ الإسراء17 :14
’’ لے خود اپنی کتاب آپ ہی پڑھ لے ۔ آج تو تُو آپ ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ ‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ پوری مخلوق کا محاسبہ کس طرح کرے گا ؟ تو انھوں نے کہا : جیسے ان سب کو ایک صبح میں رزق عطا کرتا ہے اسی طرح ان کا محاسبہ بھی ایک ہی گھڑی میں کر لے گا۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھ سکیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس دوپہر کو آسمان پر کوئی بادل نہ ہو کیا اس میں تمھیں سورج کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ ہو تا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : نہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اور جس چودھویں رات کو آسمان پر بادل نہ ہوں کیا اس میں تمھیں چاند کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ ہوتا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : نہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اسی طرح تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں بھی کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہو گا ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بندہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو وہ کہے گا : اے میرے بندے ! بتاؤ کیا میں نے تمھیں عزت نہیں دی تھی؟ کیاتمھیں سیادت ( اپنی قوم کی سرداری ) عطا نہیں کی تھی ؟ کیا تمھیں بیوی عنایت نہیں کی تھی اور گھوڑے اور اونٹ تمھارے تابع نہیں کئے تھے ؟ اور میں نے تمھیں ڈھیل نہیں دیئے رکھی کہ تم اپنی قوم کی سرداری کر لو اور خوب کھا پی لو اور عیش کرلو ؟ بندہ کہے گا : کیوں نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تو کیا تم نے کبھی یقین کیا تھا کہ تم مجھ سے ملنے والے ہو ؟ وہ کہے گا : نہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج میں بھی تمھیں بھلا رہا ہوں جیسا کہ تم نے مجھے بھلا دیا تھا۔
پھر دوسرا بندہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ویسے ہی کہے گا جیسے پہلے شخص کو کہا تھا ۔
پھر تیسرا شخص آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ویسے ہی کہے گا جیسے پہلے دونوں کو کہا تھا ۔ یہ تیسرا شخص جواب دے گا : اے میرے رب ! میں تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا ، نماز پڑھتا تھا ، صدقہ دیتا تھا ، روزے رکھتا تھا اوروہ اپنی تعریف جہاں تک کرسکے گا کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تب تم یہیں ٹھہر جاؤ (آج تم سے پورا پورا حساب لیا جائے گا ) پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : اب ہم تجھ پر گواہی قائم کریں گے ۔ تو وہ بندہ اپنے دل میں کہے گا کہ آخر وہ کون ہو گا جو میرے خلاف گواہی دے گا ؟
اللہ تعالیٰ اس کے منہ پر مہر لگا دے گا اور اس کی ران سے کہا جائے گا : بولو ۔ تو اس کی ران ، اس کا گوشت اوراس کی ہڈیاں اس کے اعمال کے بارے میں بولیں گی تاکہ اس کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے ۔ یہ شخص منافق ہو گا جسے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا ہو گا۔ ‘‘ صحیح مسلم :2968
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے روز انسان کے اعضاء میں سے سب سے پہلے اس کی ران اس کے خلاف گواہی دے گی ۔ یہ اسے ذلیل و رسوا کرنے کیلئے ہو گا کیونکہ وہ دنیا میں کھلم کھلا برائیاں کرتا تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اسے رسوا کرکے چھوڑے گا ۔
یومِ قیامت ۔۔۔۔ باز پرس کا دن ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ، فَالْأَمِیْرُ الَّذِیْ عَلیَ النَّاسِ رَاعٍ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَہُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْہُمْ ، وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَہِیَ مَسْؤُوْلَۃٌ عَنْہُ ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہٖ وَہُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْہُ ، أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہ )) صحیح البخاری :2554 و5188و5200 و893، صحیح مسلم :1829
’’ خبردار ! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ پس جس شخص کو لوگوں کا امیر (حکمران ) بنایا گیا اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ اور مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہوتا ہے تو اس سے بھی ان کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہوتی ہے سو اس سے بھی اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی ۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لئے اس سے بھی اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ خبرا دار ! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا۔ ‘‘
سوال کس چیز کے متعلق ہوگا ؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾ التکاثر102:8
’’ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے متعلق سوال ہو گا ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں اور ان کے متعلق سوال سے مراد یہ ہے کہ انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں کھپایا تھا یا انہیں اس کی نافرمانی میں ضائع کردیا تھا ؟ اور جس نے تمہیں یہ نعمتیں عطا کی تھیں تم نے اسی کے حکم کے مطابق زندگی بسر کی تھی یا من مانی کی تھی ؟ اور کیا تم نے ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی تھی یا اس کی معصیت ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( إِنَّ أَوَّلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ النَّعِیْمِ أَنْ یُّقَالَ لَہُ : أَلَمْ نُصِحَّ لَکَ جِسْمَکَ؟ وَنُرْوِیْکَ مِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ )) سنن الترمذی :3358 ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر:2022
’’ بے شک بندے سے قیامت کے دن نعمتوں میں سے سب سے پہلے اس نعمت کا سوال کیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں تندرستی نہیں دی تھی ؟ اور کیا ہم نے تمہیں ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟ ‘‘
اورحضرت ابو برزہ الأسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا تَزُوْلُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ،وَعَنْ عِلْمِہٖ فِیْمَ فَعَلَ،وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ،وَعَنْ جِسْمِِہٖ فِیْمَ أَبْلَاہُ )) سنن الترمذی :2417 ۔ وصححہ الألبانی
’’ قیامت کے دن بندے کے قدم نہیں ہل سکیں گے یہاں تک کہ اس سے سوال کیا جائے گا کہ اس نے زندگی کیسے گزاری ؟ علم پر کتنا عمل کیا ؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟اور جسم کس چیز میں کھپایا ؟‘‘
اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ،وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلَاہُ،وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ، وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ )) سنن الترمذی :2416 ۔ وصححہ الألبانی
’’ قیامت کے دن پانچ چیزوں کے بارے میں سوالات سے پہلے کسی بندے کے قدم اپنے رب کے پاس سے ہل نہیں سکیں گے : عمر کے بارے میں کہ اس نے کیسے گزاری ؟ جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں کھپایا ؟ مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟ اور علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کتنا عمل کیا ؟ ‘‘
یومِ قیامت ۔۔۔۔۔ فیصلہ کا دن ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا مِنْ صَاحِبِ ذَہَبٍ وَلَا فِضَّۃٍ لَا یُؤَدِّیْ مِنْہَا حَقَّہَا إِلَّا إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ صُفِّحَتْ لَہُ صَفَائِحُ مِنْ نَّارٍ ، فَأُحْمِیَ عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَیُکْوٰی بِہَا جَنْبُہُ وَجَبِیْنُہُ وَظَہْرُہُ ، کُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِیْدَتْ لَہُ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ الْعِبَادِ )) صحیح مسلم ۔ الزکاۃ باب إثم مانع الزکاۃ:987
’’ جس شخص کے پاس سونا چاندی ہو اور وہ اس کا حق ( زکاۃ ) ادا نہ کرتا ہو ، قیامت کے دن اس کیلئے آگ کی تختیاں بنائی جائیں گی جنھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا ، پھر ان کے ساتھ اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا ۔ جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو انھیں دوبارہ گرم کیا جائے گا اور پھر اسے داغا جائے گا ۔ اور جب تک بندوں کے درمیان فیصلہ نہیں کر دیا جائے گا اس کے ساتھ یہ سلوک بدستور جاری رہے گا جبکہ وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا ۔ ‘‘
لہذا میرے بھائیو ! اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کیا کرو تاکہ آپ روزِ قیامت کی پشیمانیوں اور ندامتوں سے بچ سکیں ۔ اور تاکہ آپ کو آپ کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے اورآپ کامیابی پانے والوں میں سے ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کیا کرو تاکہ آپ کو آپ کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں نہ پکڑایا جائے اور پھر آپ نعوذ باللہ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا وآخرت میں اپنی رضا نصیب فرمائے ۔
دوسرا خطبہ
اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے گفتگو کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ تُرْجُمَانٌ فَیَنْظُرُ أَیْمَنَ مِنْہُ فَلاَیَریٰ إِلَّا مَا قَدَّمَ،وَیَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْہُ فَلَایَریٰ إِلَّا مَا قَدَّمَ،وََیَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَلَایَریٰ إِلَّا النَّارَ تِلْقَائَ وَجْہِہٖ،فَاتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ ۔ وفی روایۃ : وَلَوْ بِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ )) صحیح البخاری:6539و1413
’’ اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر شخص سے عنقریب ہم کلام ہو گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا۔جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھے گا تو اسے اپنے عمل ہی نظر آئیں گے اور اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو ادھر بھی اسے اپنے عمل ہی نظر آئیں گے ۔اور اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ۔ لہذا تم جہنم سے بچو اگرچہ کھجورکے آدھے حصے کا صدقہ کرکے ہی ۔ دوسری روایت میں ہے : اگرچہ ایک اچھی بات کہہ کر ہی۔‘‘
لہذا عقلمند انسان وہ ہے جو اس دن کی تیاری کرتا ہے اور اس کیلئے نیکیوں کا زادِ راہ دنیا ہی سے لے لیتا ہے کیونکہ وہاں دینار ودرہم کام نہ آئیں گے ۔ اور جس شخص کی نیکیوں کا وزن ترازو میں زیادہ ہو گا وہ ایک پسندیدہ زندگی گذارے گا۔ اور جس کی برائیوں کا وزن زیادہ ہو گا اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا ۔ والعیاذ باللہ
قیامت کے روز لوگوں کے درمیان قصاص
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَہْلِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَادَ لِلشَّاۃِ الْجَلْحَائِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَائِ )) صحیح مسلم:2582
’’ تم قیامت کے روز حق والوں کے حقوق ضرور بالضرور ادا کرو گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ بھی لیا جائے گا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ مَظْلَمَۃٌ لِأَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ أَوْ شَیْئٍ فلْیٍَتَحَلَّلْہُ مِنْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَّا یَکُوْنَ دِیْنَارٌ وَّلَا دِرْہَمٌ ، وَإِنْ کَانَ لَہُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْہُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِہٖ،وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ )) صحیح البخاری:2449و6534
’’ جس کسی کے پاس اس کے بھائی کا حق ہو اس کی عزت سے یا کسی اور چیز سے ‘ تو وہ آج ہی اس سے آزاد ہو جائے ( یعنی یا تو وہ حق اسے ادا کردے یا اسے اس سے معاف کروا لے ۔) اس دن کے آنے سے پہلے جب نہ دینار ہو گا نہ درہم ۔ اور اگر اس کے پاس نیک اعمال ہو نگے تو اس کے حق کے بقدر اس سے نیک اعمال لے لئے جائیں گے ۔ اور اگر نیکیاں نہیں ہو نگی تو صاحبِ حق کی بعض برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی ۔ ‘‘
حقوق العباد کے بارے میں پوچھ گچھ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ ؟ )) ’’ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے ؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا : (( اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ َّلا دِرْہَمَ لَہُ وَلَا مَتَاعَ ))
’’ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی اور ساز وسامان ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِیْ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَاۃٍ وَصِیَامٍ وَزَکَاۃٍ،وَیَأْتِیْ قَدْ شَتَمَ ہٰذَا،وَقَذَفَ ہٰذَا،وَأَکَلَ مَالَ ہٰذَا،وَسَفَکَ دَمَ ہٰذَا ، وَضَرَبَ ہٰذَا، فَیُعْطیٰ ہٰذَا مِن حَسَنَاتِہٖ، وَہٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ، فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْضیٰ مَا عَلَیْہِ،أُخِذَ مِنْ خَطَایَاہُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ، ثُمَّ طُرِحَ فِیْ النَّارِ )) صحیح مسلم :2581
’’ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزے اور زکاۃ لیکر آئے گا اور اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر بہتان باندھا ہو گا ، کسی کا مال کھالیا ہو گا ، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ لہذا ان میں سے ہر ایک کو اس کے حق کے بقدر اس کی نیکیاں دی جائیں گی ۔ اور اگر ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ لے کراس کی گردن میں ڈال دئیے جائیں گے اورپھر اسے جہنم رسید کردیا جائے گا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دِیْنَارٌ أَوْ دِرْہَمٌ قُضِیَ مِنْ حَسَنَاتِہٖ ، لَیْسَ ثَمَّ دِیْنَارٌ وَلَا دِرْہَمٌ )) سنن ابن ماجہ :2414۔ وصححہ الألبانی
’’ جو شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس پر کسی کے دینار اوردرہم تھے تو ( قیامت کے روز ) اس کی نیکیوں سے اس کا حق ادا کیا جائے گا کیونکہ وہاں دینار اور درہم نہیں ہو نگے ۔ ‘‘
ذرا غور فرمائیے کہ اس دور میں کئی لوگ ‘لوگوں کی عزتوں کو کھلونا بنا کر اور ان کے مال لوٹ کر کتنے خوش وخرم رہ رہے ہیں جبکہ قیامت کے روز ان کی حسرت وندامت کی انتہا ہوگی جب ظالم ومظلوم سب اللہ تعالیٰ کی عدالت ِ انصاف میں کھڑے ہو نگے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی نیکیاں لے کر مظلوموں میں بانٹ دے گا ۔اگر ان کے ہاں نیکیاں نہیں ہو نگی یا ہو نگی مگر پوری نہیں ہو نگی تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کے گناہ لے کر ان کی گردنوں میں ڈال دے گا ! اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :
( حَاسِبُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا،وَزِنُوْہَا قَبْلَ أَنْ تُوْزَنُوْا) إغاثۃ اللہفان لابن القیم :ص94
’’ تم اپنا محاسبہ خود ہی کرلو اس سے پہلے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے ۔ اور اپنے آپ کو خود ہی تول لو اس سے پہلے کہ تمھیں تولا جائے ۔ ‘‘
یہاں محاسبہ سے مراد یہ ہے کہ آج ہی توبہ کرلو اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی پورے کر لو ۔
حضرات!روزِ قیامت کے حساب وکتاب کے متعلق بقیہ گذارشات ہم آئندہ خطبۂ جمعہ میں بیان کریں گے۔ اِن شاء اللہ