لوگ کیا کہیں گے
فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (ق : 39)
سو اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر۔
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
تو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
جب شیطان کو جنت سے نکالا گیا تو اس نے حضرت انسان کی دشمنی میں یہ ٹھان لی کہ وہ ہرصورت انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا
اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے وہ کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے انہیں میں سے ایک انتہائی مذموم اور بھیانک طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ذھن میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ (لوگ کیا کہیں گے)
آج کئی افراد بہت سے اسلامی احکامات پر محض اس لیے عمل نہیں کرتے کہ
( لوگ کیا کہیں گے)
چہرے پر داڑھی نہیں سجاتے
شلوار ٹخنوں سے اوپر نہیں اٹھاتے
اسلامی وضع قطع نہیں اپناتے
خواتین پردہ نہیں کرتیں
صرف اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (توبہ 13)
کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
ایک اور مقام پر فرمایا
يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (التوبة : 62)
تمھارے لیے اللہ کی قسم کھاتے ہیں، تاکہ تمھیں خوش کریں، حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق دار ہے کہ وہ اسے خوش کریں، اگر وہ مومن ہیں ۔
قیصر کا اقرارِ حق اور پھر لوگوں کے پریشر کی وجہ سے انکارِ اسلام
صحیح بخاری میں روم کے بادشاہ ہرقل کا واقعہ اس حقیقت کی خوب عکاسی کرتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس ایک خط بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر ہرقل نے اس کو پڑھا تو اس میں ہرقل کو قبولِ اسلام کی دعوت دی گئی تھی
( لکھا تھا ) :
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ ،
اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو ( دین و دنیا میں ) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا
ان دنوں ابو سفیان اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے ہرقل نے انہیں طلب کر لیا جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے تو ہرقل نے ابو سفیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ سوالات پوچھے یہ مختلف قسم کے دس سوال تھے جن کے ابو سفیان نے جواب دیے
01.كيف نسبه فيكم
02.فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله
03.فهل كان من آبائه من ملك
04.فأشراف الناس يتبعونه أم ضعفاؤهم
05.أيزيدون أم ينقصون قلت بل يزيدون
06.فهل يرتد أحد منهم سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه
07.فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال
08.فهل يغدر
09.فهل قاتلتموه قلت نعم قال فكيف كان قتالكم إياه
10.ماذا يأمركم
ہرقل کا اقرار حق
اپنے سوالات کے جوابات سننے کے بعد ہرقل کہنے لگا
اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔
مجھے معلوم تھا کہ وہ ( پیغمبر ) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔
پھر ہرقل نے کہا کہ یہ ہی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔
پھر کہنے لگا
يَا مَعْشَرَ الرُّومِ ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ ، وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ ؟
”اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ“
لوگوں کا پریشر اور ہرقل کا یو ٹرن
( یہ سننا تھا کہ ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے ( مگر ) انہیں بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے ( اس بات سے ) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ ( جب وہ دوبارہ آئے ) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی۔ تب ( یہ بات سن کر ) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابو طالب اسلام کی حقانیت کا اقرار کرنے کے باوجود محض دوستوں کے پریشر کی وجہ کلمہ نہ پڑھ سکے
ابو طالب کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں انہوں نے کہا تھا میں جانتا ہوں کہ یقینا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین تمام ادیان میں سے بہتر ہے:
وَاللَهِ لَن يَصِلوا إِلَيكَ بِجَمعِهِم
حَتّى أُوَسَّدَ في التُرابِ دَفينا
(اے بھتیجے) اللہ کی قسم وہ ہر گز تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جب تک کہ میں مٹی میں دفن نہ کردیا جاؤں
فَاصدَع بِأَمرِكَ ما عَلَيكَ غَضاضَةٌ
وَاِبشِر بِذاكَ وَقَرَّ مِنهُ عُيونا
اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم کو جو خدا کا حکم ہے اس کا بے خوف اعلان کرو۔
اور اسی پر خوش رہو اور اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو
وَدَعَوتَني وَزَعَمتَ أَنَّكَ ناصِحٌ
وَلَقَد صَدَقتَ وَكُنتَ ثَمَّ أَمينا
اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم نے مجھ کو اللہ کی طرف دعوت دی ہے۔اور آپ خیر خواہ ہیں
یقیناً آپ نے سچ کہا ہے اور آپ امانت دار ہیں
وَعَرَضتَ ديناً قَد عَلِمتُ بِأَنَّهُ
مِن خَيرِ أَديانِ البَرِيَّةِ دينا
اور آپ نے ایک دین پیش کیا ہے یقیناً میں جانتا ہوں کہ تمہارا دین تمام مذاہبِ عالم سے بہتر اور ان کے مقابلے میں کامل تر ہے
لَولا المَلامَةُ أَو حِذاري سُبَّةً
لَوَجَدتَني سَمحاً بِذاكَ مُبينا
اگر( لوگوں کی طرف سے) ملامت نہ ہوتی
یا میرا گالی سے بچنا نہ ہوتا تو آپ مجھے واضح طور پر اس کا پیروکار پاتے
البدایۃ والنہایۃ
سیرت ابن ہشام
ابو طالب کا اپنے لوگوں کی وجہ سے انکارِ اسلام
دوسری جانب صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا
[ بخاري، التفسیر، باب قولہ : «إنک لا تھدی من أحببت… » ۴۷۷۲ ]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے کہا :
’’تو ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہہ دے، میں قیامت کے دن تیرے لیے اس کی شہادت دوں گا۔‘‘
اس نے کہا :
’’اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش کے لوگ مجھے عار دلائیں گے کہ اسے اس پر (موت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا تو میں اس کے ساتھ تیری آنکھ ٹھنڈی کر دیتا۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
« اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ » [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی صحۃ إسلام … : 25/42 ]
یہودِ مدینہ
ان کی کیفیت یہ تھی کہ دین اسلام کی صداقت کو ایسے پہچانتے اور سمجھتے تھے جیسے باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرة : 146)
وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی، اسے پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کوپہچانتے ہیں اور بے شک ان میں سے کچھ لوگ یقینا حق کو چھپاتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔
لیکن محض حسد، کینہ، بغض اور اس وجہ سے ایمان نہیں لاتے تھے کہ ہمیں اپنے لوگ ملامت کریں گے کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے
اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے
لَوْ آمَنَ بِي عَشَرَةٌ مِنْ الْيَهُودِ لآمَنَ بِي الْيَهُودُ
اگر مجھ پر یہود کے دس (بڑے، مالدار اور علماء قسم کے) لوگ ایمان لے آتے تو سب یہودی مسلمان ہوجاتے
ابنِ اسحاق نے اُمّ المومنین حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ سے روایت نقل کی کہ انہوں نے فرمایا : میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی۔ میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھا تے۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے اور قباء میں بنو عمر و بن عوف کے یہاں نزول فرماہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپﷺ کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے۔ بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے۔ میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی ، لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے:
کیا یہ وہی ہے ؟
انہوں نے کہا : ہاں ! اللہ کی قسم۔
چچا نے کہا: آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں ؟
والد نے کہا: ہاں!
چچانے کہا : تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں؟
والد نے کہا : عداوت – اللہ کی قسم -جب تک زندہ رہوں گا۔
( ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹)
بحوالہ الرحیق المختوم
استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں
"اللہ کی کتاب تورات کی صاف پیش گوئی کے مطابق بنی اسرائیل کا اتفاق تھا کہ خاتم النّبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے ہیں، کسی کا بھی اختلاف نہ تھا اور کوئی اس سے لا علم نہ تھا، بلکہ سب آپ کے آنے کے منتظر تھے اور آپ کے آنے کی دعا کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا : «{ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا }» [ البقرۃ : ۸۹ ] ’’حالانکہ وہ اس سے پہلے ان لوگوں پر فتح طلب کیا کرتے تھے جنھوں نے کفر کیا۔‘‘ مگر جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کو پہچان لینے کے بعد محض ضد اور حسد کی وجہ سے ان کا اتفاق اختلاف میں بدل گیا۔ کسی نے کہا، وہ ہیں ہی نہیں جن کے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا یہ ہمارے نہیں بلکہ صرف امیوں کے رسول ہیں۔”
زمانہء جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کے پیچھے بھی یہی جملہ محرک تھا کہ اگر میرے گھر میں بیٹی ہوگی تو لوگ کیا کہیں گے
اس جملے کی زہر افشانیاں
کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے رفع الیدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الإمام اور سینے پر ہاتھ باندھنے جیسے مسائل میں حق بات پہچانی مگر اپنے اندر تبدیلی کی سکت نہ پا سکے کہ (لوگ کیا کہیں گے)
کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے اکابر سے ان کے بیان کردہ کسی مسئلے کی دلیل محض اس لیے نہیں پوچھتے کہ (لوگ کیا کہیں گے)
کتنے لوگ ایسے ہیں جو زندگی کا لمبا عرصہ گزار چکے ہیں انہیں مسنون غسل کا طریقہ معلوم نہیں مگر کسی سے پوچھنے، سیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ (لوگ کیا کہیں گے)
کتنے لوگ ایسے ہیں جو بڑی عمر کے ہوچکے ہیں جنہیں زبانی نماز یاد نہیں، ناظرہ قرآن نہیں پڑھ سکتے بلکہ بعض کا تو کلمہ درست نہیں مگر یہ سب سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اب اس عمر میں (لوگ کیا کہیں گے)
کتنے لوگ ایسے ہیں جو داڑھی کٹوانے کے گناہ اور سنگینی کو سمجھتے ہیں اور اندر ہی اندر یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہم غلط کام کا ارتکاب کر رہے ہیں مگر اسے چہرے پر سجانے سے قاصر ہیں کہ (لوگ کیا کہیں گے)
اور کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے چہروں پر سجی داڑھیاں محض لوگوں کی خوشنودی کے لیے کٹوا دیں
کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کے نکاح اپنی ہی برادری کے بے نمازیوں اور بد عقیدہ لڑکوں سے کردیتے ہیں حالانکہ دوسری برادری میں نمازی اور دیندار لڑکے مل سکتے تھےمگر صرف اس لیے کہ غیر برادری میں رشتہ طے کریں گے تو (لوگ کیا کہیں گے)
کتنے لوگ ایسے ہیں جو لڑائی، جھگڑے میں صرف اپنی قوم کا ساتھ دیتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ ہماری قوم باطل پر ہے مگر صرف اس لیے کہ (لوگ کیا کہیں گے)
صحابہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کیا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے متعلق اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ لوگ کیا کہیں گے
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَأَنْ نَقُومَ أَوْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ (بخاری)
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس بات پر بیعت کی کہ ہم خوشی اور ناپسندی ہر دوصورت میں آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے
اور یہ کہ ہم حکمران سے حکومت کے لیے جھگڑا نہیں کریں گے
اور یہ کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، حق ہی کہیں گے اور اللہ کے متعلق کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے
برادری، خاندان اور لوگوں کی اوقات
انسان جس برادری، خاندان اور لوگوں کی وجہ سے نیکیوں کو چھوڑ کر گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے*
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ِوَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا (المعارج : 10)
اور کوئی دلی دوست کسی دلی دوست کو نہیں پوچھے گا۔
يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (المعارج : 11)
حالانکہ وہ انھیں دکھائے جا رہے ہوں گے۔ مجرم چاہے گا کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو۔
وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (المعارج : 12)
اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو۔
وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ (المعارج : 13)
اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔
وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ (المعارج : 14)
اور ان تمام لوگوں کو جو زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔
ایک اور مقام پر فرمایا
يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (عبس : 34)
جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔
وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (عبس : 35)
اور اپنی ماں اور اپنے باپ (سے).
وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (عبس : 36)
اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔
لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (عبس : 37)
اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے ( دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (الممتحنة : 3)
قیامت کے دن ہرگز نہ تمھاری رشتہ داریاں تمھیں فائدہ دیں گی اور نہ تمھاری اولاد، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
حسن بصری سے پوچھا گیا :
آپ یہ پروا نہیں کرتے کہ ،لوگ کیا کہیں گے، کیوں؟
فرمایا :
دنیا میں اکیلا آیا ہوں، دنیا سے اکیلا جاؤں گا، قبر میں پڑوں گا تو ،اکیلا حساب کے لیے پیش ہوں گا تو اکیلا، جنت میں جاؤں گا تو اکیلا خدانخواستہ دوزخ میں گیا تو اکیلا
بیچ میں لوگ کہاں سے آگئے۔؟