ماه رمضان پورے دین کے لئے تربیتی مہینہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [البقرة: 183]
ماهِ رمضان پورے دین کے لیے تربیتی مہینہ ہے۔ عقائکہ ہوں یا اعمال عبادات ہوں یا اخلاقیات معاملات ہوں یا ایمانیات ہر چیز کا مکمل تربیتی طریقہ کار اس مہینے میں موجود ہے اور اس مقصد کے لیے ماہ رمضان کو کیوں چنا گیا ؟
دنیا میں ہر طرف کفر و شرک کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ظلم و بر بریت کا بازار گرم تھا۔ فحاشی و عریانی کا سیلاب آیا ہوا تھا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ ملت ابراہیمی کے دعویدار بت پرستی میں ڈوب چکے تھے۔ آسمانی ادیان کی طرف نسبتیں کرنے والے اہل کتاب بھی کفر و شرک کی دلدل میں پھنس چکے تھے۔ اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا تھا کہ قرآن نے نقشہ کھینچا ہے:
﴿ وَ كُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ﴾ [آل عمران: 103]
’’کہ لوگو! تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔‘‘
اللہ کی رحمت نے جوش مارا اور بھولی بھٹگی انسانیت کو راہ راست پہ لانے کا ارادہ فرمایا۔ لوگوں کے لیے ہدایت وراہنمائی کا اہتمام وانصرام فرمایا۔ اپنے آخری پیغمبر کو تاجِ نبوت پہنا کر مبعوث فرمایا اور آپ پر آخری کتاب نازل فرمائی اور یہ سب کچھ ماہ رمضان میں ہوا۔
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ﴾ [البقرة:158]
اس لیے ماہ رمضان کو شکریہ اور تربیت کا مہینہ بنا دیا گیا۔ سارے دین کی مکمل تربیت اس میں رکھ دی گئی وہ کسی طرح:
1۔ روزہ ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور اس تصور کو پختہ کرتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچے ارادے سے روزہ رکھنے والا خلوت تنہائی اور چار دیواری میں بھی کچھ نہیں کھاتا۔ کیونکہ روزے نے اس کا یہ تصور پختہ کر دیا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔ جس کے حکم پر میں نے روزہ رکھا ہے۔
2۔ روزہ نفس پر قابو پانے کی تربیت دیتا ہے اور یہی تقوی وورع کی اصل بنیاد ہے انسان میں دو خواہشیں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اور بہت سارے گناہوں کا دار مدار ان دو خواہشوں کی بے اعتدالی پر ہے:
ا۔ ایک کھانے پینے کی خواہش: جب یہ خواہش اعتدال اور قابو سے باہر ہو جاتی ہے تو انسان حرام کھاتا حرام کماتا سود لیتا رشوت لیتا، جوا کھیلتا اور لوٹ مار چوری ڈکیتی اور راہزنی کرتا ہے۔ امانت میں خیانت اور بددیانتی کرتا ہے۔ نماز اور جمعہ کے اوقات میں بھی کاروبار کرتا رہتا ہے۔
ب۔ دوسری جنسی خواہش عورت کی طلب جب یہ خواہش اعتدال اور قابو سے نکل جاتی ہے تو انسان بدکاری وزنا کرتا ہے۔ ناجائز محبت میں جکڑا جاتا ہے۔ گانے سنتا فلمیں دیکھتا غزلیں گاتا اور نگاہوں کو آوارہ کرتا ہے۔
روزہ ان دونوں خواہشوں پر قابو پانے کی تربیت دیتا ہے وہ اس طرح کہ سارا دن چودہ پندرہ گھنٹے انسان کھانے پینے کی جائز نعمتیں اور حلال طبیب ستھری چیزیں بھی چھوڑے رکھتا ہے حتی کہ دوران روزہ آب زمزم سے اور تمور (کھجور) مکہ ومدینہ کھانے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا۔ اور اس عورت کے قریب نہیں جاتا جسے حق مہر ادا کر کے اپنی بیوی بنا کر رکھا ہے۔ جس کے قریب جانا عام حالات میں صرف جائز ہی نہیں بلکہ صدقہ برابر اجرو ثواب ملتا ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
(وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ) [صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف. رقم:2329]
جب انسان اللہ کا حکم مانتے ہوئے سارا دن ان دونوں خواہشوں کی جائز شکلوں کو بھی چھوڑے رکھتا ہے تو اس میں اس بات کی تربیت اور مشق ہے کہ کھانے پینے کی حرام چیزیں ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ ماکولات و مشروبات اور بدکاری وزنا چھوڑ دے۔
روزے کے اس تربیتی پہلو کو قرآن نے دو لفظوں میں بیان کر دیا: ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ اور روزوں کے مسائل والے رکوع کے آخر میں فرمایا:
﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ [البقرة: 188]
مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کا حکم مان کر حلال اور پاکیز نعمتیں چھوڑ دیتے ہو تو اللہ کا حکم مان کر حرام اور گندی چیزیں ترک کردو۔ فسق و فجور چھوڑ دو۔ شیطانی کام ترک کر دو۔
رسول اللہﷺ نے روزے کے تربیتی پہلوؤں کو اس طرح نمایاں فرمایا: صحیح البخاری میں حدیث ہے۔ حضرت ابو ہریروہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ) [صحیح البخاري، كتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور والعمل به (1903)وابوداؤد (2362) والترمذي (1689)]
’’جو شخص جھوٹ بولنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ (روزے میں) کھانا پینا چھوڑ رکھے۔‘‘
اور دارمی کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(كُمْ مِنْ صَائِمٍ لَّيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَا، وَكَمْ مِّنْ قَائِمٍ لَّيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَهْرُ) [دارمی (27/6) و احمد (441/2)]
’’کتنے روزے دار ہیں جن کو ان کے روزوں سے صرف پیاس حاصل ہوتی ہے اور کتنے رات کو قیام کرنے والے ہیں کہ ان کو ان کے قیام سے صرف بیداری حاصل ہوتی ہے۔‘‘
لیکن آج ہم روزوں کے ان مقاصد پر غور نہیں کرتے محض رسمی طور پہ سحری کھاتے اور افطاری کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اوپر روزے کی حالت میں بھی روزے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ روزہ رکھا ہوا ہے سود لے رہا ہے۔ روزہ رکھا ہوا ہے جھوٹ بول کر سودا بیچ رہا ہے۔ روزہ رکھا ہوا ہے داڑھی منڈھوا رہا ہے۔ روزہ رکھا ہوا ہے گانے سن رہا ہے۔ فلم دیکھ رہا ہے۔ ناول پڑھ رہا ہے یہ کیسا روزہ ہے؟ کہ اللہ کا حکم مان کر نعمتیں چھوڑ دیں اور گندگیاں نہ چھوڑیں یہ روزہ نہیں بلکہ بھوک ہڑتال ہے۔
یہ مہینہ عبادات کی تربیت دیتا ہے:
عشاء کے بعد تراویح کے ذریعے قیام اللیل کی تربیت ملتی ہے اور سحری کی خاطر اذان فجر سے پہلے بیدار ہونے سے سحری کے وقت استغفار اور نماز فجر باجماعت پڑھنے کی تربیت ملتی ہے۔ جب پورا مہینہ عشاء کے بعد (تراویح کی وجہ سے) لیٹ سو کر صبح اذان فجر سے بھی پہلے بیدار ہو جاتا ہے تو باقی گیارہ مہینے اذان فجر کے وقت بیدار ہو کر فجر باجماعت کیوں نہیں پڑھ سکتا ؟ یہ تربیت ہے۔
اعتکاف کے ذریعے دین کی خاطر گھر بار چھوڑنے کی تربیت ملتی ہے:
اعتکاف کرنے والا پورے نو دس دن گھر بار، دکان، کاروبار، کارخانہ، فیکٹری، بیوی بچے، دوست احباب، رشتہ دار، محلے والے چھوڑ کر مسجد میں آجاتا ہے اس میں تربیت
ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو دین کی خاطر یہ سب کچھ چھوڑنا ممکن ہے۔
بھوکا پیاسا رہنے سے جذبہ سخاوت و ہمدردی پیدا ہوتی ہے:
کیونکہ جب خود بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ بھوکوں کا کیا حال ہے یہی وجہ ہے جتنی سخاوت ماہ رمضان میں ہوتی ہے۔ اتنی پورے سال میں نہیں ہوتی۔
روزہ صبر سکھلاتا ہے:
اور صبر میں ہی سارا دین آجاتا ہے۔
روزہ جذبہ جہاد پیدا کرتا ہے:
کیونکہ وہ سارے امور جن کی میدان جہاد میں ضرورت ہوتی ہے۔ (پختہ ایمان، صبر، جذبہ سخاوت، جذبہ ہمدردی، گھر بار چھوڑنے کا جذبہ وغیرہ) روزے سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے معر کے ماہ رمضان میں لڑے گئے (غزوہ بدر، فتح مکہ) اور بعض معر کے رمضان کے فورًا بعد ہوئے۔ غزوہ احد چھ شوال کو ہوا۔