﷽
پانچ قیمتی نصیحتیں
اہم عناصر :
❄حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے۔
❄ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہوگے۔
❄اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان (نیکی) کرو پکے سچے مومن بن جاؤ گے۔
❄ دوسروں کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے۔
❄ زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَّذَكِّرۡ فَاِنَّ الذِّكۡرٰى تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ] الذاریات: 55[
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالی نے اپنے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ
وَّذَكِّرۡ فَاِنَّ الذِّكۡرٰى تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ] الذاریات: 55[
”(اے نبی ﷺ) آپ نصیحت فرمائیں کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے”
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم آقا علیہ السلام کا ایک فرمان سمجھیں گے جس میں آقا علیہ السلام نے سیدنا ابوہریرہ کو پانچ نصیحتیں فرمائی ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا وَقَالَ اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا وَلَا تُكْثِرْ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ [ترمذی: 2305 حسنہ الالبانی، الصحیحة:۹۳۰]
ترجمہ :سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پرعمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پرعمل کرے، ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! میں ایسا کروں گا، تو رسول اکرمﷺنے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا:
تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہوجاؤ گے ۔
اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہوگے۔
اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔
دوسروں کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے
زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
1۔ حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو پہلی نصیحت یہ کی کہ اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہوجاؤ گے. یعنی بندہ سب سے زیادہ نیک اس وقت بنتا ہے جب حرام کاموں کو چھوڑ دے.
❄ حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات بھر یہی رہی تاآنکہ فجر ہوگئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل صرف تیری رضا جوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر اتنا ہٹادے کہ کم از کم آسمان تو ہمیں نظر آنے لگے چنانچہ پتھر کو ہٹا دیاگیا۔ دوسرے نے دعا کی: اے اللہ! تو جانتاہے کہ میں اپنی چچا زاد لڑکی سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی شدید محبت جو ایک مرد کو عورتوں سے ہوسکتی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تو وہ مقصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک مجھے سو دینار نہ دے دے۔ چنانچہ میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کرلیے، جب میں اس سے صحبت کے لیے بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو اس کے حق کے بغیر نہ توڑ۔ تب میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا طلبی کے لیے کیا ہے تو ہم سے چٹان کی رکاوٹ دورکردے، چنانچہ دوتہائی پتھر ہٹ گیا۔ تیسرے آدمی نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدورکو ایک "فرق” جوار کے عوض اجرت پر رکھا تھا۔ جب میں نے اسے غلہ دیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ کیاکہ اس غلے کو زمین میں کاشت کردیا۔ پھر اس کی پیداوار سے گائیں خریدیں اور ایک چرواہا بھی رکھ لیا۔ پھر ایک دن وہ مزدور آیا اور کہنے لگا: اےاللہ کے بندے!میرا حق مجھے دے دے۔ میں نے کہا وہ گائیں اور چرواہا تمہارے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرا مذاق اڑارہے ہو؟ میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا ہوں۔ وہ واقعی تمہارے ہیں۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا کوطلب کرتے ہوئے کیاتھا تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، چنانچہ اس چٹان کو ان سے ہٹا دیا گیا۔ [بخاری: 2215]
اس واقعہ سے ہمیں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے اللہ سے ڈر کر زنا کو چھوڑ دیا ، حرام سے بچ گیا تو اللہ تعالٰی نے اس کی دعا قبول کرلی۔
❄ حضرت عبداللہ بن مسعود ايک دن مضافاتِ کوفہ سے گزر رہے تھے ۔ان کا گزر فاسقين کے ايک گروہ پر ہوا، جو شراب پی رہے تھے ۔زاذان نامی ايک گوّیا ڈھول پر ہاتھ مار مار کر انتہائی خوبصورت آواز ميں گا رہا تھا ۔آپ نے سن کر کہا :
ما أَحْسَنَ هٰذا الصَّوتُ لَوْ كَانَ بِقِراءَةِ كتابِ اللهِ ”کتنی خوبصورت آواز ہے کاش!کہ يہ قرآن کريم کی تلاوت ميں استعمال ہوتی ۔” اورسر پر چادر ڈال کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔زاذان نے جب آپکو دیکھا تو لوگوں سے پوچھا : ”يہ کون ہيں؟”لوگوں نے بتايا :” حضورنبی رحمت ﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ”اس نے پوچھا : ”انہوں نے کيا کہا ۔”بتايا گيا کہ انہوں نے کہا ہے کہ :
ما أَحْسَنَ هٰذا الصَّوتُ لَوْ كَانَ بِقِراءَةِ كتابِ اللهِ
”کتنی ميٹھی آواز ہے، کاش کہ قرأت قرآن کے ليے ہوتی ۔”
يہ بات سنتے ہی اس کے دل پر رعب سا چھا گيا ۔اپنے بربط کو زمين پر پٹخ کر توڑ ديا ۔کھڑا ہوا اور جلدی سے انہيں جا ليا۔ اپنی گردن ميں رومال ڈالا اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے سامنے رونے لگ گيا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود نے اسے گلے سے لگايا اور دونوں رونا شروع ہو گئے اور آپ نے فرمايا :
كَيْفَ لَا أُحِبُّ مَنْ قَدْ أَحَبَّهُ اللهُ
”ميں ايسے شخص کو کيوں نہ محبوب سمجھوں جسے اللہ عزوجل نے محبوب بنا ليا ہو ۔”
سیدنا زاذان نے گناہوں سے توبہ کی اور
لَازَمَ عبدَ اللهِ بنَ مسعودٍ حتّٰى تَعَلَّمَ القُرْآنَ وأَخَذَ حَظّاً مِنَ العِلمِ حَتّٰى صَارَ إِمَاماً فِي العِلمِ (تنبيہ الغافلين : ۶۳، کتاب التوابین لابن قدامہ)
حضرت عبداللہ بن مسعود کی صحبت اختيار کر لی۔ قران کريم اور دیگرعلوم سيکھے۔حتی کہ علم ميں امام بن گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی کئی روايات حضرت زاذان سے مروی ہے۔”
❄ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔ چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔
پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،، چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں۔
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا۔ چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : پھر اللہ کہاں ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے۔ اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے۔ اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں۔ اور اُسے کہا کہ
"تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے”(السلسلة الصحيحة : 7/469)
جو شخص نیک اعمال بھی کرتا ہے لیکن اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے حرام کردہ کام بھی کرتا ہے ، اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتا ہے تو اسکے نیک اعمال تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
❄ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا قَالَ ثَوْبَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنْ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا [ابن ماجہ: 4245 صححہ الالبانی]
ترجمہ : حضرت ثو با ن سے روا یت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت کے ان افراد کو ضرور پہچا ن لو ں گا۔ جو قیا مت کے دن تہامہ کے پہا ڑوں جیسی سفید (روشن ) نیکیا ں لے کر حا ضر ہو ں گے تو اللہ عز وجل ان (نیکیوں کو ) بکھرے ہو ئے غبا ر میں تبد یل کر دے گا۔ حضرتے ثوبا ن نے عر ض کیا اللہ کے رسول ان کی صفا ت بیان فر دیجیے۔ ان(کی خرابیوں) کو ہمارے لئے واضح کر دیجیے۔ کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ان میں شا مل ہو جا ئیں۔ اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے آ پ نے فرمایا۔ وہ تمھا رے بھا ئی ہیں اور تمھا ری جنس سے ہیں اور را ت کی عبا دت کا حصہ حا صل کر تے ہیں جس طرح تم کر تے ہو۔ لیکن وہ ایسے لو گ ہیں کہ انھیں جب تنہا ئی میں اللہ کے حرا م کر دہ گناہوں کا مو قع ملتا ہے۔ تو ان کا ارتکا ب کر لیتے ہیں۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ [مسلم: 6579]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟” صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: "میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”
2۔ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہوگے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دوسری نصیحت یہ کی کہ وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہوگے. یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپکی قسمت اور آپکے مقدر میں لکھ دیا ہے اس پر دل و جان سے راضی ہوجاؤ. اسکا فائدہ یہ ہو گا کہ تم سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز ہو جاؤگے.
❄ حضرت انس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار کے ہاں گئے جو حضرت ابراہیم ؓ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کو لے کر بوسہ دیا اور اس کےاوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف کے ہاں گئے تو حضرت ابراہیم ؓ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ بھی روتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’اے ابن عوف ؓ !یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ [بخاری: 1303]
’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے، لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں۔‘‘
❄ قال رسول الله ﷺ أَنَّ اللهَ يَبْتَلِي عَبْدَهُ بِمَا أَعْطَاهُ، فَمَنْ رَضِيَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَهُ، بَارَكَ اللهُ لَهُ فِيهِ، وَوَسَّعَهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ لَمْ يُبَارِكْ لَهُ [مُسند احمد: 20279صحیح]
ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس کے ذریعے اپنے بندے کو آزماتا ہے ، پس جو اُس پر راضی ہو جاتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے حصہ مقرر فرمایا تو اللہ اُس حصے میں اپنے اُس بندے کے لیے برکت دیتا ہے ، اور اُس میں وسعت دیتا ہے ، اور جو کوئی راضی نہیں ہوتا اُس کے لیے برکت نہیں دی جاتی.
❄ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ ، يَقُولُ: «ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا»] مسلم: 151[
ترجمہ : حضرت عباس بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ، اسلام کو دین اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر (دل سے) راضی ہو گیا۔‘‘
❄ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ»]مسلم: 851[
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أشہد أن لا إله إلا الله وحدہ لا شریک له وأن محمدا عبدہ ورسوله ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ رضیت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دینا ’’ میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
یہ بہت عظیم وظیفہ ہے۔ اس کے بہت سارے فائدے ہیں۔ چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
❄ آپ ﷺ فرماتے ہیں جس نے صبح و شام (ایک روایت کے مطابق تین مرتبہ) کہا: رَضِيْتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِيًّا "میں اللہ کو رب مان کر ، اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو نبی مان کر راضی ہوں۔”
ایسے خوش نصیب کے متعلق آپ علیہ السلام نے انعام کا اعلان فرمایا ہے:
١۔ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ [صحیح الجامع الصغير: 2/1097]
ایسے خوش نصیب کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔
٣. فَأَنَا الرَّعِيمُ ، لَأَخُذَنَّ بِيَدِهِ حَتَّى أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ [سلسلة الاحاديث الصحيحة: 421 ]
میں ضامن ہوں البتہ ضرور ضرور اس کو ہاتھ سے پکڑوں گا حتی کہ اللہ کی جنت میں داخل کر دوں گا۔
❄ زمانہ قریب میں ایک بزرگ گزرے ہیں جن کا نام صوفی محمد باقر تھا۔ آپ حدرجہ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور درویش صفت آدمی تھے۔ آپ نے ساری زندگی تعلق باللہ کی دولت اکٹھی کی اور اسی کی سخاوت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کو اللہ نے بیٹا عطا فرمایا تو آپ نے اس کا نام زکریا رکھا۔ نو عمری میں حفظ کروا کر درس نظامی مکمل کروایا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپ کا شمار ممتاز علماء کرام میں ہونا شروع ہو گیا۔ حضرت صوفی صاحب صالحیت و صلاحیت کی بنا پر اپنے بیٹے حافظ محمد زکریا سے بہت محبت کرتے تھے ، حافظ محمد زکریا صاحب قرآن کے قاری ، حدیث رسول کے مدرس ، علوم وفنون کے ماہر اور فن تصنیف و تالیف سے آشنا ہی نہیں تھے بلکہ ہر شعبہ میں پوری دسترس رکھتے تھے ، اللہ کا کرنا عین عالم شباب میں جب آپ کی عمر 27 سال ہوئی تو آپ انتقال فرما گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون ) حضرت صوفی صاحب بڑے حزین خاطر ہوئے بلکہ آپ نے فرمایا: میرا سارا کنبہ چلا جاتا مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا دکھ مجھے زکریا کی وفات پر ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود آپ کمرے میں اکیلے بیٹھ گئے اور درمیانی آواز میں یہ کہنا شروع کر دیا : اے اللہ! میں راضی ، اے اللہ ! میں راضی ، اے اللہ! میں راضی اور تقریبا دو گھنٹے تک صرف یہی کہتے رہے : اے اللہ ! میں راضی اے اللہ ! میں راضی کبھی جھوم کر کبھی روکر بڑی موج میں یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے ایک طالب علم نے کہا حضرت دو گھنٹے ہونے کو ہیں آپ دو گھنٹے سے یہی جملہ بار بار دھرا رہے ہیں بس کریں۔ صوفی صاحب یہ فرمانے لگے :او کملیا مینوں تے دو گھنٹے ہوئے نے ناں اے کہندیاں "اے اللہ ! میں راضی اے اللہ ! میں راضی اے اللہ ! میں راضی”
جے او نہے اک واری وی کہہ دیتا ناں جا، باقر میں وی راضی تے بیڑے پار ہو جانے نیں۔“
3۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان (نیکی) کرو پکے سچے مومن بن جاؤ گے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان (نیکی) کرو پکے سچے مومن بن جاؤ گے. پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے۔
❄ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
” مَا زَالَ يُوصِينِي جِبْرِيلُ بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ ” [بخاری: 6014]
"جبریل (علیہ السلام)مجھے ہمسایوں کے حقوق کے متعلق اس قدر تاکید کرتے رہے حتی کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔”
❄ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ [ترمذی: 1944صححہ الالبانی]
"اللہ کے ہاں ہمسایوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے لیے اچھا ہے۔”
❄ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ [مسلم: 47]
"جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے،اسے اپنے ہمسائے سے بہتر سلوک کرنا چاہیے۔”
❄ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ [مسلم: 2625]
"جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال لو اور اس میں اپنے ہمسایوں کو (بھی) شریک کرلو۔”
اور جو شخص ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا نبی اکرم ﷺ نے اسکی مذمت بیان فرمائی ہے۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانَةً تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ، وَتَفْعَلُ، وَتَصَّدَّقُ، وَتُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا خَيْرَ فِيهَا، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ)) ، قَالُوا: وَفُلَانَةٌ تُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، وَتَصَّدَّقُ بِأَثْوَارٍ، وَلَا تُؤْذِي أَحَدًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ[ الادب المفرد: 119]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی اکرم ﷺ سے عرض کی گئی:’’اے اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور نیکی کے دیگر کام کرتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر)فرمایا:’’اس میں کوئی خیر نہیں، وہ دوزخی ہے۔‘‘ انہوں (صحابہ)نے کہا:اور فلاں عورت (صرف)فرض نماز ادا کرتی ہے اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے لیکن کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’یہ جنتی عورتوں میں سے ہے۔‘‘
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارًا يُؤْذِينِي، فَقَالَ: ((انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ)) ، فَانْطَلَقَ فَأَخْرِجَ مَتَاعَهُ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: لِي جَارٌ يُؤْذِينِي، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ)) ، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، اللَّهُمَّ أَخْزِهِ. فَبَلَغَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى مَنْزِلِكَ، فَوَاللَّهِ لَا أُؤْذِيكَ [الادب المفرد: 124 ، سلسلہ صحیحہ:515]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ ! میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے ایذا دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’جاؤ، اپنا سامان (گھر سے)نکال کر راستے پر رکھ دو۔‘‘ وہ گیا اور اپنا سامان نکال کر راستے پر رکھ دیا۔ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھا:تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا:میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی ﷺ سے ذکر کی تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ ’’جاؤ اور اپنا سامان (گھر سے)نکال کر راستے پر رکھ دو۔‘‘ (لوگوں نے یہ سنا)تو کہنے لگے:اللہ اس پر لعنت کرے، اللہ اسے رسوا کرے۔ یہ بات جب ہمسائے تک پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا:اپنے گھر میں لوٹ آؤ، اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دو گا۔
❄ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَا وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، لَا وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، لَا وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ "، قَالُوا : وَمَنْ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” جَارٌ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ” [مسنداحمد: 8432صحیح] "نہیں اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں،اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں،اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔”
❄ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ” [مسلم: 46]
"وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔”
4. دوسروں کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے:
رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابوہریرہ کو چوتھی نصیحت یہ فرمائی کہ وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا دوسروں کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے۔
❄ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ» [بخاری: 13]
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔
5. زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابوہریرہ کو پانچویں نصیحت یہ فرمائی کہ وَلَا تُكْثِرْ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
❄ سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ نے فرمایا :مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ جب کہ قرآن حکیم آپ پر اترا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اپنے علاوہ دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں ، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورہ نساء پڑھی ، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا: فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ كُلِّ اُمةبِشهیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی هؤُلَآءِ شَهیۡدًا
"پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے”۔ [النساء:41]
تو آپ ﷺ نے فرمایا: بس اب کافی ہے ۔ میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ]بخاری: 4582[
زیادہ ہنسنے سے انسانی دل مردہ ہو جاتا ہے ، اسی لیے کثرتِ ضحک کو بنظر کراہت دیکھا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ مار کر نہیں ہنستے تھے ، بلکہ مسکرایا کرتے تھے ، چنانچہ
❄ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِکًا حَتّٰی تُرَی مِنْهُ لَھَوَاته، اِنَّمَا كَانَ یَتَبَسَّمُ[بخاری: 4828]
” کہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں ، آپ صرف مسکرایا کرتے تھے ۔”
چونکہ زیادہ ہنسنا غفلت کی دلیل ہے اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا كَثِیۡرًا [ التوبہ: 82]
"پس چاہیئے کہ وہ (لوگ ) ہنسیں تھوڑا ، اور روئیں زیادہ ۔”
اور دوسری جگہ فرمایا :وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ [النجم: 60]
” اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔”
اور سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَ لَبَکَیْتُمْ كَثِیْرًا [بخاری: 1044]
” اگر تم وہ باتیں جان لو جن کا مجھے علم ہے تو تم ہنسو تھوڑا ، اور روؤ زیادہ ۔”
❄ حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تمہیں سنائی نہیں دیتا۔ آسمان چرچراتا ہے اور اس کا حق ہے کہ چرچرائے۔ اس میں چار انگلیوں کی جگہ بھی خالی نہیں مگر (بلکہ ہر جگہ) کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ کو سجدہ کر رہا ہے۔
وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ
قسم ہے اللہ کی! اگر تمہیں وہ کچھ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ اور بستروں پر عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو سکو اور تم بآواز بلند اللہ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاؤ’’۔ [ابن ماجہ: 4190حسنہ الالبانی]
❄❄❄❄❄